• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاظر میں انکار حدیث اور فتنہ ناصبیت،

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
میری معلومات کے مطابق عصر حاظر میں دو حضرات، مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی مصنف "مذہبی داستانیں" اور محمود احمد عباسی مولف " خلافت معاویہ و یزید" نے مسلک انکار حدیث کے ساتھ ساتھ شیعہ سے بے حد تعصب کا شکار ہو کر راہ اعتدال سے ہٹتے ہوئے ناصبیت کو بھی اپنا لیا ہے (تھا)۔
مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی صاحب حسنین رضی اللہ عنہما کو صحابی نہیں مانتے تو محمود احمد عباسی صاحب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ کی حد سے زیادہ طرف داری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ و مقام گھٹا کر انکی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔ دونوں موصوف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کی عمر پر بھی امت کے اجماع سے اختلاف رکھتے ہیں۔
مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی کے رد میں فضیلۃالشیخ مولانا ارشادالحق اثری حفظ اللہ نے "احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ" تصنیف کی جسکا جواب آج تک اس حلقہ کی طرف سے نا آ سکا۔
مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا محمود احمد عباسی کی کتاب " خلافت معاویہ و یزید" کے رد میں کوئی مدلل کتاب موجود ہے؟ کیونکہ شیعہ ہو یا ناصبی، انکے اعتراضات آخر کار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیث رسول کے مقام کو بھی مشکوک بناتے ہیں۔ واضح ثبوت ہوں نہ ہوں، میرا اس بات پر یقین ہے کہ جتنے بھی بدعتی گروہ آج تک ہوئے ہیں، کسی نہ کسی انداز میں انکار حدیث کی راہ پر ضرور چلے ہیں۔

کلیم حیدر ، حافظ عمران الٰہی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میری معلومات کے مطابق عصر حاظر میں دو حضرات، مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی مصنف "مذہبی داستانیں" اور محمود احمد عباسی مولف " خلافت معاویہ و یزید" نے مسلک انکار حدیث کے ساتھ ساتھ شیعہ سے بے حد تعصب کا شکار ہو کر راہ اعتدال سے ہٹتے ہوئے ناصبیت کو بھی اپنا لیا ہے (تھا)۔
مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی صاحب حسنین رضی اللہ عنہما کو صحابی نہیں مانتے تو محمود احمد عباسی صاحب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ کی حد سے زیادہ طرف داری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ و مقام گھٹا کر انکی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔ دونوں موصوف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کی عمر پر بھی امت کے اجماع سے اختلاف رکھتے ہیں۔
مولاناحبیب الرحمن کاندھلوی کے رد میں فضیلۃالشیخ مولانا ارشادالحق اثری حفظ اللہ نے "احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ" تصنیف کی جسکا جواب آج تک اس حلقہ کی طرف سے نا آ سکا۔
مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا محمود احمد عباسی کی کتاب " خلافت معاویہ و یزید" کے رد میں کوئی مدلل کتاب موجود ہے؟ کیونکہ شیعہ ہو یا ناصبی، انکے اعتراضات آخر کار اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیث رسول کے مقام کو بھی مشکوک بناتے ہیں۔ واضح ثبوت ہوں نہ ہوں، میرا اس بات پر یقین ہے کہ جتنے بھی بدعتی گروہ آج تک ہوئے ہیں، کسی نہ کسی انداز میں انکار حدیث کی راہ پر ضرور چلے ہیں۔

کلیم حیدر ، حافظ عمران الٰہی
السلام و علیکم -

محترم - میں دونوں احباب کی کتابیں پڑھ چکا ہوں -دونوں نے نے اصول احادیث سامنے رکھ کر کر ان کے صحیح ہونے کا انکار کیا ہے - اور یہ کام دنیا کے اور دوسرے محدثین بھی کرتے رہے ہیں - کاندھلوی صاحب اور محمود احمد عباسی نے ہمارے ان علماء کے رد میں ہی اپنی کتب لکھی ہیں جنہوں نے بنو امیہ خاندان سے تعصب کی پر بہتان بازی کرتے ہوے جھوٹی اور من گھڑت روایات کا ایک جال مسلم معاشرے میں بن دیا تھا - اور ان دونوں اشخاص نے احادیث نبوی سے زیادہ من گھڑت تاریخی حقائق کو رد کیا ہےکہ جن روایات کی بنا پر رافضیوں اور ہمارے اہل سنّت کے بھی اکثر علماء نے اہل بیت اور ان کے رشتہ داروں کو ایک دیو مالائی شخصیت کے طور عوام کے سامنے پیش کیا - اور اس کام میں یہ دونوں اکیلے نہیں بلکہ اور بہت سے دوسرے علما ء جن کو الله نے حق کا راستہ دکھایا ہے انہوں نے بھی ان دیو ما لائی داستانوں کو بخوبی رد کیا ہے -

ملاحضہ ہو محترم محمّد ارسلان بھائی (الله ان کی جزاء خیر دے آمین) کا تھریڈ جس میں وہ کتابیں موجود ہیں جن میں اہل بیت سے متعلق ان کی نام نہاد محبت میں ملوث لوگوں کا بخوبی رد کیا گیا ہے-اب چاہے وہ رافضی ہوں یا اہل سنّت کے گمراہ علما ء (جسے مولانا مودودی وغیرہ)

http://forum.mohaddis.com/threads/شیعت-کے-رد-پر-مبنی-علمی-کتب.20669/
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ جواد بھائی،
آپ نے جو فرمایا
دونوں نے اصول احادیث سامنے رکھ کر کر ان کے صحیح ہونے کا انکار کیا ہے
تو اس دعوے میں کتنا وزن ہے یہ آپکو مولانا ارشادالحق اثری حفظ اللہ نے "احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ" پڑہ کر معلوم ہو جائگی۔ اکثر مقام پر کاندہلوی صاحب نے حوالاجات میں حد درجہ خرد برد سے کام لیا ہے۔ اس کتاب کو انصاف سے پڑھئیے گا، حقیقت واضح ہو جائے گی۔

آپ نے مزید فرمایا:
کاندھلوی صاحب اور محمود احمد عباسی نے ہمارے ان علماء کے رد میں ہی اپنی کتب لکھی ہیں جنہوں نے بنو امیہ خاندان سے تعصب کی پر بہتان بازی کرتے ہوے جھوٹی اور من گھڑت روایات کا ایک جال مسلم معاشرے میں بن دیا تھا
نقد و ردود ایک نہایت علمی کام ہے، اور جن غلط روایات پر ان حضرات نے تنقید کی ہے وہ ان کی کتب کا ایک قابل تعریف پہلو ہے، مگر کسی گروہ یا کتاب پر رد کرتے وقت اس جماعت سے عداوت اتنی نہیں بڑھنی چاہئے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ راہ اعتدال اور انصاف کے تقاضوں کو ہمیشہ سامنے رکھ کر کسی بھی تصنیف یا شخصیت پر رد کرنا چاہئے، جو کہ ان کی کتب میں مفقود ہے۔

ان دونوں اشخاص نے احادیث نبوی سے زیادہ من گھڑت تاریخی حقائق کو رد کیا ہے
یہی بات میں بھی کہ رہا ہوں کہ ان حضرات نے من گھڑت تاریخی حقائق کو رد کرتے کرتے صحیح و متواتر احادیث نبوی کو بھی رد کر دیا۔ اللہ انکی مغفرت کرے۔

اس کام میں یہ دونوں اکیلے نہیں بلکہ اور بہت سے دوسرے علما ء جن کو الله نے حق کا راستہ دکھایا ہے
پیارے بھائی وہ کونسے بہت سارے علماء ہیں جنہوں نے صحیح بخاری و مسلم کی احادیث کا رد کیا اور حسنین رضی اللہ عنہما کو صحابی رسول ماننے سے انکار کیا ہے، ذرا ہمیں بھی آگاہ کر دیجئے گا، شکریہ۔

مولانا مودودی مرحوم کے بقول انہوں نے بھی اصول حدیث (نہ کہ احادیث) کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب لکھی، اور ان حضرات نے بھی، تو اتنا فرق کیوں۔۔۔ فرق اس لئے کہ دونوں اطراف نے حق کی جستجو میں نہیں بلکہ پہلے ایک ذہن بنایا، ہمایت اہل بیت اور مخالفت اہل بیت کا، اور پھر تاریخ کو پڑھنے بیٹھ گئے۔۔۔

خیر یہ پوسٹ اس گفتگو کے لئے نھیں بلکہ ایک کتاب کہ بارہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تھی۔ جزاک اللہ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ جواد بھائی،
آپ نے جو فرمایا


تو اس دعوے میں کتنا وزن ہے یہ آپکو مولانا ارشادالحق اثری حفظ اللہ نے "احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ" پڑہ کر معلوم ہو جائگی۔ اکثر مقام پر کاندہلوی صاحب نے حوالاجات میں حد درجہ خرد برد سے کام لیا ہے۔ اس کتاب کو انصاف سے پڑھئیے گا، حقیقت واضح ہو جائے گی۔

آپ نے مزید فرمایا:


نقد و ردود ایک نہایت علمی کام ہے، اور جن غلط روایات پر ان حضرات نے تنقید کی ہے وہ ان کی کتب کا ایک قابل تعریف پہلو ہے، مگر کسی گروہ یا کتاب پر رد کرتے وقت اس جماعت سے عداوت اتنی نہیں بڑھنی چاہئے کہ انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ راہ اعتدال اور انصاف کے تقاضوں کو ہمیشہ سامنے رکھ کر کسی بھی تصنیف یا شخصیت پر رد کرنا چاہئے، جو کہ ان کی کتب میں مفقود ہے۔



یہی بات میں بھی کہ رہا ہوں کہ ان حضرات نے من گھڑت تاریخی حقائق کو رد کرتے کرتے صحیح و متواتر احادیث نبوی کو بھی رد کر دیا۔ اللہ انکی مغفرت کرے۔



پیارے بھائی وہ کونسے بہت سارے علماء ہیں جنہوں نے صحیح بخاری و مسلم کی احادیث کا رد کیا اور حسنین رضی اللہ عنہما کو صحابی رسول ماننے سے انکار کیا ہے، ذرا ہمیں بھی آگاہ کر دیجئے گا، شکریہ۔

مولانا مودودی مرحوم کے بقول انہوں نے بھی اصول حدیث (نہ کہ احادیث) کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب لکھی، اور ان حضرات نے بھی، تو اتنا فرق کیوں۔۔۔ فرق اس لئے کہ دونوں اطراف نے حق کی جستجو میں نہیں بلکہ پہلے ایک ذہن بنایا، ہمایت اہل بیت اور مخالفت اہل بیت کا، اور پھر تاریخ کو پڑھنے بیٹھ گئے۔۔۔

خیر یہ پوسٹ اس گفتگو کے لئے نھیں بلکہ ایک کتاب کہ بارہ میں معلومات حاصل کرنے کے لئے تھی۔ جزاک اللہ۔
السلام و علیکم -

مولانا ارشادالحق اثری حفظ اللہ کے رد کو میں پڑھ ہوں -بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں انہوں نے صرف اپنے فہم سے کاندھلوی صاحب کا محاسبہ کیا ہے جسےعلمی محاسبہ نہیں کہا جا سکتا - اثری صاحب شاید یہ نہیں جانتے کہ کاندھلوی صاحب نے (اگر آپ نے بغور ان کی کتب کا متعلقہ کیا ہو) - صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو باقی احادیث کی کتب پر اس حد تک فوقیت دی ہے کہ امام مہدی رح سے متعلق روایات کو صرف اس بنا پر رد کر دیا کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق روایات مفقود (نہ ہونے کے برابر) ہیں -بعد کے اکثر علماء نے بخاری اور مسلم کی روایات کو زبردستی مہدی سے منسوب کردیا گیا ہے-

میرے خیال میں دونوں موصوف نقد و ردود میں راہ انصف سے تو اتنا نہیں ہٹے لیکن یہ ضرور ہے کہ دونوں حضرات کی زبان میں درشتگی (سختی) پائی گئی ہے جس سے دونوں حضرات کی نہ صرف علمی کاوشوں پر منفی اثرات پڑے ہیں بلکہ ان کی شخصیت کے بھی منفی پہلو زیادہ اجاگر ہو گئے- ایک عالم کو ان چیزوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے-

یہ تو ہے کہ کچھ صحیح احادیث پر ان حضرات کا نقد ایسا ہے جو کہ وضاحت طالب ہے کیوں کہ وہ احادیث متواتر کے درجیے پر ہیں - پھر بھی دونوں حضرات کے مطابق اہل بیت سے متعلق وہ روایات جن میں راوی کا تعلق اہل عجم سے ہو- وہ روایات قابل قبول نہیں - اور یہ اصول پہلے ادوار کے محدثین کا بھی رہا ہے - (واللہ اعلم )-
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام محمد علی جواد بھائی!
آپ نے جو فرمایا کہ:

اثری صاحب شاید یہ نہیں جانتے کہ کاندھلوی صاحب نے (اگر آپ نے بغور ان کی کتب کا متعلقہ کیا ہو) - صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو باقی احادیث کی کتب پر اس حد تک فوقیت دی ہے کہ امام مہدی رح سے متعلق روایات کو صرف اس بنا پر رد کر دیا کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق روایات مفقود (نہ ہونے کے برابر) ہیں -
جواد بھائی اس ہی قسم کی بات میں نے غامدی صاحب کے ایک انٹرویو میں سنی تھی، ان کا کہنا تھا کہ :
" عیسی علیہ السلام کے بارہ میں جو افواہیں عوام میں موجود ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ تو اس قسم کی بات کسی بھی قدیم حدیث کی کتاب میں نھی ہے، مثلا موطا امام مالک میں دجال کے بارہ میں روایت موجود ہے، مگر امام مہدی و نزول عیسی علیہ السلام کے بارہ میں حدیث کی پہلی معتبر کتاب خاموش ہے، معد میں آنے والی کتب (بخاری و مسلم) میں ان کا ذکر ملتا ہے، اس بنا پر آپ یقین کرنا چاہیں تو کر لیں"

یہ الفاظ حرف با حرف غامدی صاحب کے تو نہیں ہیں، مگر انکا لب لباب یہی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ویڈیو لنک پوسٹ کر دونگا۔
اس گفتگو میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ موطا میں روایت نہیں، اس لئے بعد کی کتابوں میں لوگوں نے خود سے نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کی روایات دال دیں۔ اور انداز گفتگو سے بخاری و مسلم کا مقام گھٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

جواد بھائی در اصل مسئلہ یہ ہے کہ غامدی صاحب جہاد کہ اس موقف کو نہی مانتے جو امت میں متواتر چلتا آ رہا ہے، اور وہ یہ کہ صحابہ کرام کی طرح ہر دور میں مسلمان اقدامی جہاد کر سکتے ہیں اور صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کہ لئے ممالک فتح کر سکتے ہیں۔
اب نزول عیسی ابن مریم والی تمام روایات قیامت سے پہلے اقدامی جہاد کا جواز پیدا کرتی ہیں، اور واضح الفاظ میں غامدی صاحب کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ اس لئے موصوف نے ان روایات کا انکار کر دیا اور حدیث کے حوالے سے موقف یہ اپنایا کہ "موطا میں ایسی کوئی روایات نہیں، بعد میں مرتب کی جانے والی کتابوں میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں"۔
اس رویے کو تشکیک کا عمل کہتے ہیں جو اس وقت اپنایا جاتا ہے جب انکار کرنا آسان نا ہو۔ ایک حقیقت میں شک ڈال کر بات مبہم چھوڑ دو۔

ایسے ہی وہ اشخاص جو اہل تشیع سے بے حد نفرت رکھتے ہیں، جس کےکسی حد تک وہ مستحق بھی ہیں، اس وجہ سے امام مہدی کی احادیث کا انکار کرتے ہیں کہ مہدی منتظر کا عقیدہ شیعہ کا بنیادی عقیدہ ہے، اور ان ہی رافضیوں نے یہ عقیدہ اہل سنت میں رائج کر دیا۔ کچھ یہی روش کاندھلوی صاحب نے بھی اپنائی ہے۔
اہل سنت کے ایک نہایت معتبر مفسر اور موئرخ امام ابن جریر طبری کو بھی موصوف "کٹر رافظی" گردانتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب تاریخ طبری میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے شیعہ کہ عقائد و موقف کی تایئد ہوتی ہے۔ مگر کاش ایک بار ابن جریر طبری کی تاریخ کا مقدمہ پڑھ لیا ھوتا تو یہ غلط فہمی نا ہوتی۔ ابن جریر طبری نے رافضی شیعہ جو صحابہ پر تعن کرتے ہیں، ان پر کفر کا فتوہ دیا ہے، مگر کاندھلوی صاحب کو وہ بھی نا نظر آیا۔
یہاں تک کہ امام زہری، جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں، اور احادیث کا ایک بڑا زخیرہ انہوں نے روایت کیا ہے، انکو بھی موصوف شیعہ قرار دیتے ہیں،
دور نہ جائیں، امام ترمذی، صاحب سنن ترمذی کا بھی موصوف کٹر شیعہ قرار دیتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے فضائل علی رضی اللہ عنہ پر ایک کتاب لکھی تھی۔
اہل علم اس بات کا خوب جانتے ہیں کہ آج تک جتنی شدت سے امام ابن تیمیہ نے رافضیوں کا رد کیا ہے، کسی اور نے نہیں کیا۔ مگر انکی کتب کا مطالعہ کیجئے، آپ کو حد درجہ اعتدال نظر آیئگا۔ منھاج آلسنۃ کا مطالعہ مفید ہوگا۔

پیارے بھائی در اصل آج کل اس قسم کے اکثر افراد، جنہوں نے امت کے اجماعی موقف سے اختلاف کیا ہے، اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالعموم اور بخاری و مسلم سے بالخصوص ایک عجیب سا رویہ اپنایا ہے، ایسے تمام افراد نے پہلے ایک عقیدہ بنایا، جیسا کہ مودودی رحمہ اللہ نے ہمایت اہل بیت میں مخالفت معاویہ و عثمان رضی اللہ عنہما، غامدی صاحب نے مخالفت جہاد و قتال، کاندھلوی صاحب نے ہمایت صحابہ بر خلاف ہمایت اہل بیت، اور پھر احادیث و تاریخ سے اپنے حق میں دلائل جمع کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے ان کی تصانیف پر جب رد کیا تو ان کا جواب ان اشخاص سے نہ بن پایا، اور اگر جواب دیا بھی تو اتنا کمزور کہ قاری ایک بار دونوں اطراف کے دلائل پڑھ لے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔

باقی رہی آپ کی یہ بات کہ
اہل بیت سے متعلق وہ روایات جن میں راوی کا تعلق اہل عجم سے ہو- وہ روایات قابل قبول نہیں - اور یہ اصول پہلے ادوار کے محدثین کا بھی رہا ہے - (واللہ اعلم )-
پہلے ادوار کہ کن محدثین نے یہ اصول اپنایا یہ، ان کا نام و حوالہ مطلوب ہے
جزاک اللہ۔ والسلام۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام محمد علی جواد بھائی!
آپ نے جو فرمایا کہ:



جواد بھائی اس ہی قسم کی بات میں نے غامدی صاحب کے ایک انٹرویو میں سنی تھی، ان کا کہنا تھا کہ :
" عیسی علیہ السلام کے بارہ میں جو افواہیں عوام میں موجود ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ تو اس قسم کی بات کسی بھی قدیم حدیث کی کتاب میں نھی ہے، مثلا موطا امام مالک میں دجال کے بارہ میں روایت موجود ہے، مگر امام مہدی و نزول عیسی علیہ السلام کے بارہ میں حدیث کی پہلی معتبر کتاب خاموش ہے، معد میں آنے والی کتب (بخاری و مسلم) میں ان کا ذکر ملتا ہے، اس بنا پر آپ یقین کرنا چاہیں تو کر لیں"

یہ الفاظ حرف با حرف غامدی صاحب کے تو نہیں ہیں، مگر انکا لب لباب یہی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ویڈیو لنک پوسٹ کر دونگا۔
اس گفتگو میں غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ موطا میں روایت نہیں، اس لئے بعد کی کتابوں میں لوگوں نے خود سے نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کی روایات دال دیں۔ اور انداز گفتگو سے بخاری و مسلم کا مقام گھٹانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

جواد بھائی در اصل مسئلہ یہ ہے کہ غامدی صاحب جہاد کہ اس موقف کو نہی مانتے جو امت میں متواتر چلتا آ رہا ہے، اور وہ یہ کہ صحابہ کرام کی طرح ہر دور میں مسلمان اقدامی جہاد کر سکتے ہیں اور صحابہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کہ لئے ممالک فتح کر سکتے ہیں۔
اب نزول عیسی ابن مریم والی تمام روایات قیامت سے پہلے اقدامی جہاد کا جواز پیدا کرتی ہیں، اور واضح الفاظ میں غامدی صاحب کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ اس لئے موصوف نے ان روایات کا انکار کر دیا اور حدیث کے حوالے سے موقف یہ اپنایا کہ "موطا میں ایسی کوئی روایات نہیں، بعد میں مرتب کی جانے والی کتابوں میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں"۔
اس رویے کو تشکیک کا عمل کہتے ہیں جو اس وقت اپنایا جاتا ہے جب انکار کرنا آسان نا ہو۔ ایک حقیقت میں شک ڈال کر بات مبہم چھوڑ دو۔

ایسے ہی وہ اشخاص جو اہل تشیع سے بے حد نفرت رکھتے ہیں، جس کےکسی حد تک وہ مستحق بھی ہیں، اس وجہ سے امام مہدی کی احادیث کا انکار کرتے ہیں کہ مہدی منتظر کا عقیدہ شیعہ کا بنیادی عقیدہ ہے، اور ان ہی رافضیوں نے یہ عقیدہ اہل سنت میں رائج کر دیا۔ کچھ یہی روش کاندھلوی صاحب نے بھی اپنائی ہے۔
اہل سنت کے ایک نہایت معتبر مفسر اور موئرخ امام ابن جریر طبری کو بھی موصوف "کٹر رافظی" گردانتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی کتاب تاریخ طبری میں ایسی روایات بھی ہیں جن سے شیعہ کہ عقائد و موقف کی تایئد ہوتی ہے۔ مگر کاش ایک بار ابن جریر طبری کی تاریخ کا مقدمہ پڑھ لیا ھوتا تو یہ غلط فہمی نا ہوتی۔ ابن جریر طبری نے رافضی شیعہ جو صحابہ پر تعن کرتے ہیں، ان پر کفر کا فتوہ دیا ہے، مگر کاندھلوی صاحب کو وہ بھی نا نظر آیا۔
یہاں تک کہ امام زہری، جو ایک جلیل القدر تابعی ہیں، اور احادیث کا ایک بڑا زخیرہ انہوں نے روایت کیا ہے، انکو بھی موصوف شیعہ قرار دیتے ہیں،
دور نہ جائیں، امام ترمذی، صاحب سنن ترمذی کا بھی موصوف کٹر شیعہ قرار دیتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے فضائل علی رضی اللہ عنہ پر ایک کتاب لکھی تھی۔
اہل علم اس بات کا خوب جانتے ہیں کہ آج تک جتنی شدت سے امام ابن تیمیہ نے رافضیوں کا رد کیا ہے، کسی اور نے نہیں کیا۔ مگر انکی کتب کا مطالعہ کیجئے، آپ کو حد درجہ اعتدال نظر آیئگا۔ منھاج آلسنۃ کا مطالعہ مفید ہوگا۔

پیارے بھائی در اصل آج کل اس قسم کے اکثر افراد، جنہوں نے امت کے اجماعی موقف سے اختلاف کیا ہے، اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالعموم اور بخاری و مسلم سے بالخصوص ایک عجیب سا رویہ اپنایا ہے، ایسے تمام افراد نے پہلے ایک عقیدہ بنایا، جیسا کہ مودودی رحمہ اللہ نے ہمایت اہل بیت میں مخالفت معاویہ و عثمان رضی اللہ عنہما، غامدی صاحب نے مخالفت جہاد و قتال، کاندھلوی صاحب نے ہمایت صحابہ بر خلاف ہمایت اہل بیت، اور پھر احادیث و تاریخ سے اپنے حق میں دلائل جمع کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے ان کی تصانیف پر جب رد کیا تو ان کا جواب ان اشخاص سے نہ بن پایا، اور اگر جواب دیا بھی تو اتنا کمزور کہ قاری ایک بار دونوں اطراف کے دلائل پڑھ لے تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔

باقی رہی آپ کی یہ بات کہ


پہلے ادوار کہ کن محدثین نے یہ اصول اپنایا یہ، ان کا نام و حوالہ مطلوب ہے
جزاک اللہ۔ والسلام۔
محترم عثمان صاحب -

میں آپ کے فہم سے ٨٠ فیصد متفق ہوں-

جہاں تک غامدی کا تعلق ہے تو دین کا صحیح فہم رکھنے والا کوئی بھی آدمی ہو وہ ان کے اس قسم کے باطل نظریات سے نہ متاثر ہے اور نہ متفق ہے (بشمول میرے)- لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ غامدی کی بات اگر کسی اور مصنف کی بات سے میل کھاتی ہے تو آپ اس کو بھی غامدی کے نظریات کا حامل سمجھیں -مثال کے طور پر بریلوی صریح شرک کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن اور بہت سے گناہ جسے غیبت ، سود خوری ، نماز میں سستی ، وغیرہ کی بیخ کنی کرتے نظر آتے ہیں - اس سے ہم یہ اخذ نہیں کرسکتے کہ ایک سچا مسلمان جو سود خوری یا غیبت کو حرام سمجھتا ہے وہ بریلویوں کا ہمنوا بن گیا ہے-

جہاں تک کاندھلوی کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر ہے اس سے بھی کسی حد تک میں آپ سے متفق ہوں -اکثر مقامات پر وہ حداعتدال سے گزرے ہوے ہیں- بلکہ کاندھلوی اور محمود احمد عباسی دونوں مصنفین کے انداز بیان میں کسی حد تک جذباتیت اور پھکڑ پن بھی پایا جاتا ہے -لیکن میرے بھائی یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تاریخی حوالہ جات تو باہر حال اپنی جگہ ہیں - اب یا تو ان تاریخی حوالہ جات کا کھلم کھلا انکار کیا جائے یا ان کا اثبات کیا جائے - جہاں تک علامہ ابن جریر طبری کے حوالہ جات کا تعلق ہے تواس میں بھی بے پناہ تضاد ہے-اب چاہے وہ خود اہل سنّت ہوں یا رافضی لیکن دور خلافت سے لے کر واقعہ کربلا تک ان کی ٨٠ فیصد تحقیق ابو مخنف لوط بن یحییٰ کے حوالہ جات کا منبع رہی ہے - اور امام ذہبی سمیت اور بہت سے دوسرے محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ابو مخنف غالی شیعہ تھا - اور بنو امیہ سے ذاتی دشمنی رکھتا تھا - کیوں کہ اس کا دادا جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی طرف سے لڑتا ہوے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا - اور اس ابو مخنف کی پیدائش سن ١٠٠ ہجری کے لگ بھگ کی ہے (یعنی کربلا کی ٤٠ سال بعد پیدا ہوا) -جب کہ مشہور مورخین علامہ ان جریر طبری ، ابن ہشام ، ابن سعد وغیرہ کا دور ١٥٠ سے ٣٠٠ ہجری کے درمیان رہا ہے - اس لحاظ سے چاہے وہ طبری ہوں، زہری یا پھر واقدی یہ تمام مورخین ابو مخنف لوط بن یحییٰ الازدی اور سعد کلبی (جو کہ دجال و کذاب مورخوں میں سر فہرست تھے) ان کے حوالہ جات کے زیر اثر رہے- اور وہ اس میں کسی حد تک مجبور بھی تھے -

اور یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن جریر طبری رح وغیرہ کی ابو مخنف اور سعد کلبی جسے مورخوں کی پیروی کے سبب ہماری اسلامی تاریخ کا بیڑا غرق ہو کر رہ گیا - یہا نتک کے دور حاضرکے علماء جیسے مولانا مودودی وغیرہ بھی اس ان کی ضعیف اور من گھڑت روایات کے طوفان کا مقابلہ نہ کرسکے اور اس میں سر سے پیر تک ڈوب گئے -

البتہ میں آپ سے اس معاملے میں بلکل متفق ہوں کہ امام ابن تیمیہ رح کی تاریخی روایات کے متعلق میں ان کی کاوشیں کافی حد تک اعتدال میں رہی ہیں- اور ان کی کتاب منہاج آلسنۃ اس کا مونہ بولتا ثبوت ہے -
(واللہ اعلم) -

جہاں تک اہل بیت سے متعلق روایات میں اہل عجم راویان کا تعلق ہے تو جلد ہی حوالہ جات کے ساتھ حاضر ہونگا -ابھی وقت کی کمی کی وجہ سے مزید نہیں لکھ پا رہا -(معذرت)

خوش رہیں- (والسلام )
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جہاں تک اہل بیت سے متعلق روایات میں اہل عجم راویان کا تعلق ہے تو جلد ہی حوالہ جات کے ساتھ حاضر ہونگا -ابھی وقت کی کمی کی وجہ سے مزید نہیں لکھ پا رہا -(معذرت)

خوش رہیں- (والسلام )
جی میں بھی منتظر ہوں آپ کے ارشاد عالیہ کا کہ ایک مسلمان اہل عجم کی روایات پر کا کن محدیثین نے کلام کیا اور اسلام کے کس اصول کی بناء پر اس طرح تو حضرت سلمان فارسی اور حضرت بلال کی روایات بھی مشکوک قرار پائیں گی کیونکہ یہ حضرات بھی اہل عجم سے تعلق رکھتے ہیں
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جی میں بھی منتظر ہوں آپ کے ارشاد عالیہ کا کہ ایک مسلمان اہل عجم کی روایات پر کا کن محدیثین نے کلام کیا اور اسلام کے کس اصول کی بناء پر اس طرح تو حضرت سلمان فارسی اور حضرت بلال کی روایات بھی مشکوک قرار پائیں گی کیونکہ یہ حضرات بھی اہل عجم سے تعلق رکھتے ہیں
والسلام
میں صرف ان روایات کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق اہل بیت کے فضائل سے ہے -اور راوی عراقی ہیں- یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ گھر والوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی -

جلد حاضر ہونگا -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں صرف ان روایات کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق اہل بیت کے فضائل سے ہے -اور راوی عراقی ہیں- یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ گھر والوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی -

جلد حاضر ہونگا -
اب آپ کے ایسی قول کو معکوس کردیں کہ
"حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول مانے والوں کی گواہی خلفہ ثلاثہ کے فضائل والی روایات میں کیوں قبول کی جاتی ہیں جبکہ آپ بھی مانتے ہیں گھر والوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی "
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں صرف ان روایات کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق اہل بیت کے فضائل سے ہے -اور راوی عراقی ہیں- یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ گھر والوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی -

جلد حاضر ہونگا -
اس سے ایک بات اور ذہین میں آئی کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ عراقی حضرت علی کے گھر والے ہیں !!!
اور حضرت علی قبیلہ بنی ہاشم سے ہیں یعنی آپ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے صاحبزادے ہیں تو آپ کے قاعدے سے عراقی رسول اللہﷺ کے گھر والے ہیں اب رسول اللہﷺ کے گھر والوں کی گواہی ایک مسلمان نہ مانے گا تو کون مانے گا ؟؟؟؟
 
Top