• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عظیم مقاصدِ حیات( از عبید الرحمن شفیق)

شمولیت
اپریل 26، 2013
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
48
اسلام و ہ عالم گیر مذہب ہے جو تمام مذاہبِ عالم میں ہر دو اعتبار سے ممتاز ہے،حیاتِ انسانیت کی ارتقاءاور اس کی روحانی نشوونما کے جو اصول اسلام نےوضع کئے ہیں اگر یکسر غیرجانبداری کے ساتھ کوئی غیر مسلم بھی ان کا مطالعہ کرے تو وہ بھی اسلام کی حقانیت کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے گا۔
شارع ﷺکی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک حرف اپنے اندر وہ جاذبیت رکھتا ہے کہ نفسِ بشر اس کی طرف مائل ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ،جبکہ جامعیت کے لحاظ سے اس قدر معنی خیز ہے کہ ہر حرف اپنے اندر امتوں کی قسمتوں کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے،لیکن کب۔۔۔؟؟؟
جب کوئی امت یا ملت کسی بلند بالا اور عظیم مقصدِ حیات کے تحت خود کو بدلنا چاہے؛کیونکہ اصول ہے:
ان اللہ لا یغیر ما
مقصد(وژن) ہی وہ رفعت ہے جو ایک انسان کی زندگی کو دوسرےانسان سےجدا کرکے اسے درجہ کمال تک پہنچاتی ہے،
بے مقصد زندگی تو صرف انسان کوذلت کی گہرائیوںمیں دھکیلتی ہے لیکن اگر آپ زندگی میں صحیح مقصد کے تعین سے چوک گئے تو پھر نامرادی وناکامی ہی آپ کی منزل ہوگی ۔
جس قدر آپ کا مقصدبلند ہوگا آپ کی شان اور آپ کا مقام بھی اسی قدر ہی اونچا ہوگا اور اس کاپتہ چلتا ہے مثبت اورحقیقی سوچ وفکرسے!
جیساکہ رسالت مآب ﷺ کی اس دعا سے معلوم ہوتا ہے:
اللهم إني أسئلك الهدي والتقي والعفاف والغني صحيح مسلم
اے اللہ میں تجھ سے ہدایت ،تقوی،پاکدامنی اور استغناء کا سوال کرتا ہوں۔
ہدایت ،تقوی،پاکدامنی اور استغناءیہ چارچیزیں ایسی ہیں اگر کسی انسان کے مقصدِحیات میں شامل ہو جائیں تووہ انسان افضلیت کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے اور اگر کسی قوم کے مقاصد میں شامل ہو جائیں تو امت دین ودنیا میں روحانیت پا سکتی ہے۔
ہدایت ، تقوی ، پاکدامنی اوراستغناءیہ مختصر سے الفاظ اپنے اندر تمام معاشرتی مسائل کاحل رکھتے ہیں آج معاشرے میں ہر طرف بدامنی ہے،لوٹ ما ر کا بازار گرم ہے،جا بجامختلف حیا باختہ امور ہیں جو بڑھتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ''حیاء'' نا م کی چیزکا فقدان ایسا کہ تلاشے سے بھی ملنا محال ہوچکا ہے ،ایک اللہ رب العزت کے علاوہ ہر چیز کا خوف ہم میں سمایا ہوا ہے ؛
اور ہماری غفلت کی انتہا ء۔۔۔۔الامان والحفیظ
اس قدر کہ یہ تما م امور ہمیں معمولی سے لگتےہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک امر "عذابِ الہٰی" کا موجب ہے۔
کون سی ایسی برائی ہے جو ہم میں نہیں ؟؟؟
دور نہ جائیے صرف سود کی ہی بات لیجئے۔۔۔ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں،دعوائے ایمانی میں خود کو مومن ثابت کرتے ہیں دراں حالیکہ معیشت مکمل "سود" پر ہی مبنی ہےاور ہم ہیں کہ حالتِ جنگ میں ہیں :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ.فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ
اے ایمان والو اللہ سے ڈر جاؤ اور جو بھی باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو اور تم باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔
کون ہے وہ جو مالکِ کا ئنا ت سے مقابلے کی ہمت رکھتا ہولیکن ہم۔۔۔۔!!!
کس قدر غافل اور کیسے بے باک سود لے دے رہے ہیں،اگر اللہ رب العزت کا ڈر، اسکا تقویٰ ہما رےمقاصدِ حیات میں شامل ہوتا تو ہم ہر قدم اٹھانےسے پہلے سوچتے۔۔۔۔۔ مگر یہاں تو یہ حال ہے کسی چیز کے بارے میں سوچنا تو کجا جو ہم جانتے بھی ہیں یہ حرام ہے ،عذاب الہی کا موجب ہے ، نعوذ باللہ اللہ تعالی کے سے اعلان جنگ ہے اسے کرگزرنےمیں ذرا سا بھی نہیں کتراتے ؛ نہ کبھی اس پر سنجیدگی سے سوچااور نہ ہی کارِ مؤثرکی راہ ہموار کی جوکہ عالی ہمت لوگوں کیلئے آبِ حیات ہے:
؎ رازِ حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر چیز ہے کوششِ ناتمام سے
لیکن اس سب کے باوجود ذاتِ باری تعالیٰ کے سمجھانے کااسلوب ملاحظہ کیجئے:
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا َوَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى
تم دنیا کی (معمولی سی عارضی )زندگی کوترجیح دیتے ہوحالانکہ آخرت بہتر اور دائمی ہے!
یہ دنیا کیا ہے؟ اس کی حقیقت۔۔۔۔۔؟؟؟ بس صرف دھوکا اور جبکہ آخرت جو دنیا کے مقابلےسراسر نفع مند اور ہمیشگی والی زندگی ہے اس کی کوئی فکر ہی نہیں۔
معزز قارئین یہاں پر ذرا رکیے اور تھوڑ ا سا سوچئے ؛
اللہ تعالی نے مجھے بہت کچھ دیا ہے لیکن کیا کبھی میں نے اس کی دی ہوئی زندگی میں اسے کچھ دیا ہے۔۔۔۔۔؟

ہدایت

ہدایت بندہ مومن کے لئے وہ نور اور قیمتی سرمایہ ہے جس کے مقابلے میں پوری دنیا کی دولت ہیچ ہے ،جس کی طلب اورجستجو ہر آن
اُس کے پیش نظر رہتی ہے
"ہدایت"۔۔۔ وہ نور ہےجو انسا ن کی زندگی کوروحانیت سے منور اور مزین کردیتی ہے ۔۔
" ہدایت "۔۔وہ منزل ہے جو ہر سرکرداں مگر بامقصدانسا ن کو منزل تک پہنچنے کی راہ فراہم کرتی ہے؛
"ہدایت"۔۔۔ کلّ دینِ اسلام اور اس پر استقامت ہے ،
قلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
الأنعام 161
کہہ دیجئے میرے رب نے مجھے سیدھی راہ دکھلائی اور یہی مستحکم(دین) ہے جو ابراہیم حنیف کا دستور العمل تھا اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے۔

تقوی

تقوی ایک بہت خوبصورت احساس ۔۔جو بندہء مومن کے دل کو پاک،صاف اور معطر کر دیتا ہے اس کی زندگی ایمان اور اطمینان سے منور کر دیتا ہے بے مقصد انسان کو جینے کا مقصد مہیا کرتا ہے،
در اصل تقوی ہی انسان کو اس کی ذات سےروشناس کراتا ہے ،مالک کے سامنے اس کا مقام واضح کرتا ہے ، جب انسان اپنےآپ سے واقف ہو جاتا ہے اور اس کو اپنی حیثیت کا پتہ چل جائےتو پھر اللہ تعالی کی بندگی اس کے دل میں گھر کر جاتی ہے نتیجتاً انسا ن اوامرِ الہٰی کی بجا آوری کرتا ہے اورمنہیات سے باز رہتا ہے
سیدنا ابو ھریرۃ سے ایک شخص نے پوچھا تقوی کیا ہے تو آپ ؓنے اس سے جوابا سوال کیا کبھی خاک دار راستے سے گزرے ہو تو وہ شخص کہنے لگا جی گزرا ہوں آپ ؓ نے پوچھا پھر کیا کیا؟ تو اس شخص نے جواب دیا جب کانٹے سامنے آئے تو ان سے ادھر ادھر ہو کر گزر گیا۔ تو فرمانے لگے : ذاک التقوی
فتح القدیر الامام شوکانی
تقوی یہ ہے کہ انسان صرف اللہ تعالی کے ڈر سے اس کے خوف سے اپنے ہر چاہت کے باوجود اپنی من پسند چیز سے رکا رہے ۔ یہ وہ "کیفیت "ہے جو اللہ تعالی کو بہت ہی محبوب ہے اسی لئے" متقین"۔۔ ان کےدلوں میں جو اللہ کا ڈرہوتا ہے وہ محبت کاڈرہوتا ہے اس مالک سے محبت میں وہ اپنی ذات تک کو فنا کرڈالتے ہیں۔
جسکا انعام کیا ہے؟؟؟ فرمایا:
ولمن خاف مقام ربہ جنتان
اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کے لئے دو باغات (دہرااجر) ہے

عفت وپاکدامنی

" عفاف" حرام یا غیر مستحسن سے رکنا ،پاکدامن رہنا کو کہتے ہیں ،پارسائی ،پاکدامنی ،طہارت بدن یہ عزیمت وہمت کی بلند راہ ہے جس کی بہترین مثال قرآن حکیم میں سیدنا یوسف کی عفت و پارسائی سے معبر کرکے دے گئی ہے۔
حیاء ایک مسلمان کا اوڑنا بچھونا ہوتاہے جس کے بغیر انسان کا ایمان ہی کامل نہیں ہوتا،اُن سات خوش نصیبو ں میں جن کو اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے اُن میں شامل ہوجاتا ہے؛ جنھوں نے بے حیائی کو لات مار کر عفت وپارسائی کی زندگی گزاردی تاریخ شاہد ہے کہ خالقِ کائنات نے کبھی ان کو حالات کے بھنور میں تنہا نہیں چھوڑا!


استغناء

استغناء، تونگری ،قناعت اوربے نیازی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے قلبی سکون کاذریعہ ہےاور اسے اپنے مالک سے مانگنے کا سلیقہ و ڈھنگ سکھاتی ہے۔
بے نیازی انسا ن کااللہ پر توکل مضبوط کرتی ہے اور جس قدر آپ کااپنے مالک پرتوکل کامل اور پختہ ہوگا اس قدر اللہ رب العزت آپ کو نوازے گا ،بے نیاز انسان اپنی پریشانی وغم کی فریاد سوائے اللہ تعالی کے کسی کے آ گے نہیں کرتا !
جنابِ یعقوب کی دعا اس کی نظیر ہے:
انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ
معزز قارئین ۔۔۔۔۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارہ معاشرہ امن سکون کا گہواربن جائےاللہ رب العزت کی نعمتو ں کی فراوانی ہوجائےہم انفرادی اور ملی تمام قسم کے مسائل چھٹکا را پا لیں تو ہمیں اپنی زندگی کے مقاصد بلند کرنا ہونگےاور جب ہمارے اندر حیا، تقوی اور استغناء پیدا ہوجائے گا تو ہدایت ہمارا مقدر ہو گی ،اور یہ وہ ہی سعی جمیلہ ہے جس کی طرف قرآن میں بیش ہا مقامات اشارہ کیا گیا ہے ۔
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى
انسان کے لئے اس کی کوشش سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ
بے شک اللہ تعالی اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتےجب تک وہ خد اپنے آپ کو نہ بدلیں ۔
خدا آج تک کسی قوم کی حالت کونہیں بدلا
نہ خد ہو جس کو اپنی حالت بدلنے کا خیال ۔
از
عبید الر حمن شفیق
متعلم مرکز التربیۃ الاسلامیۃ،فیصل آباد
ریسرچ سکالر الاحیاء ادارہ علم و ادب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت زبردست۔۔۔ماشاء اللہ
موضوع بھی اچھا ہے اور تحریر بھی۔۔۔جزاک اللہ خیرا
تحریر میں جو آیات بھی دیں تو ساتھ ان کا حوالہ بھی ضرور شامل کیجیئے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاء اللہ ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
 
Top