• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقيده ۔۔ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے

Talha Salafi

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2018
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
28
السلام وعلیکم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک سوال "إستوى علي العرش" کے متعلق ہے
کیا استویٰ کے معنیٰ بذات ہے ؟

اسلاف سے کچھ حوالے درکار ہیں @اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام وعلیکم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک سوال "إستوى علي العرش" کے متعلق ہے
کیا استویٰ کے معنیٰ بذات ہے ؟
اسلاف سے کچھ حوالے درکار ہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس موضوع پر ہمارے محقق عالم غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کا بہت مفید مضمون شائع ہے ، آپ کیلئے یہاں پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ؛
ماہنامہ السنہ جہلم ،شمارہ 37
اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے۔گمراہ جہمیہ اور معطلہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے جبکہ قرآن و حدیث ، اجماعِ امت اور فطرت سے ان کے باطل عقیدے کا ردّ ہوتا ہے۔ اہل سنت میں سے ایک بھی انسان نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
والملتزقۃ جعلوا الباری سبحانہ فی کلّ مکان ۔ ”فرقہ ملتزقہ نے اللہ سبحانہ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ بنایا ہے۔”(تلبیس إبلیس لابن الجوزی : ٢٧، وفی نسخۃ : ١/١٨٠)

مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں : [وہو معہم] أی بالعلم والرؤیۃ والسمع ، ہذا قول أہل السنّۃ ، وقالت الجہمیّۃ والقدریّۃ والمعتزلۃ : ہو بکلّ مکان ۔ ”فرمانِ باری تعالیٰ : (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے) کا مطلب ہے کہ وہ علم ، رؤیت اور سمع کے اعتبار سے ان کے ساتھ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی موقف ہے جبکہ جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔”
(تفسیر القرطبی : ٥/٣٧٩)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں : الجہم بن صفوان الذی تنسب إلیہ الطائفۃ الجہمیّۃ الذین یقولون : إنّ اللّٰہ فی کلّ مکان بذاتہ ، تعالی اللّٰہ عمّا یقولون علوّا کبیرا ۔ ”جہم بن صفوان وہ شخص ہے جس کی طرف جہمیہ فرقہ منسوب ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند ہے۔”(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ١٠/١٩)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُونَ) (الأنعام : ٣) (وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین میں تمہاری پوشیدہ و ظاہر باتوں اور اعمال کو جانتا ہے)۔
اس فرمانِ باری تعالیٰ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اختلف مفسّروا ہذہ الآیۃ علی أقوال ، بعد الاتّفاق علی تخطئۃ قول الجہمیّۃ الأول القائلین بأنّہ ، تعالی عن قولہم علوّا کبیرا ، فی کلّ مکان ، وہذا اختیار ابن جریر ۔ ”اس آیت میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہےں کہ جہمیہ کی یہ بات غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح کی باتوں سے پاک و منزہ ہے۔امام طبری رحمہ اللہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔”
(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر : ٣/٧)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکلّ من قال : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان فہو مخالف للکتاب والسنّۃ وإجماع ہذہ الأمّۃ وأئمّتہا ، مع مخالفتہ لما فطر اللّٰہ علیہ عبادہ ، ولصریح المعقول ، وللأدلّۃ الکثیرۃ ، وہؤلاء یقولون أقوالا متناقضۃ ۔
”جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے ، وہ قرآن و سنت اور امت ِ مسلمہ کے علماء اور ائمہ دین کے اجماع کا مخالف ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اس فطرت کی بھی مخالفت کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایسا شخص صریح عقلی دلائل اور دیگر بہت سی دلیلوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ایسے لوگ متناقض باتیں کرتے ہیں۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣٠)

نیز فرماتے ہیں : الحلول العام ، وہو القول الذی ذکرہ أئمّۃ أہل السنّۃ والحدیث عن طائفۃ من الجہمیّۃ المتقدّمین ، وہو قول غالب متعبّدۃ الجہمیّۃ الذین یقولون : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان ۔
”عام حلول (اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ) وہ نظریہ ہے جسے ائمہ اہل سنت والحدیث نے متقدمین جہمیہ کے ایک گروہ سے نقل کیا ہے۔یہی عقیدہ ان جہمی صوفیوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے۔”(مجموع الفتاوی : ٢/١٧٢)

شیخ الاسلام امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (١٦١۔٢٣٨ھ)فرماتے ہیں :
جمعنی وھذا المبتدع ، یعنی ابراھیم بن أبی صالح ، مجلس الأمیر عبداللّٰہ بن طاہر ، فسألنی الأمیر عن أخبار النّزول ، فسردتّھا ، فقال ابراھیم : کفرت بربّ ینزل من سماء الی سماء ، فقلت آمنت بربّ یفعل ما یشاء ۔
”میں اور یہ بدعتی یعنی ابراہیم بن ابی صالح ،امیر عبداللہ بن طاہر کی مجلس میں جمع ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے نزولِ باری تعالیٰ کی احادیث پوچھیں ، میں نے بیان کر دیں۔ ابراہیم کہنے لگا : میں ایسے رب کو نہیں مانتا جو (ساتویں)آسمان سے (پہلے)آسمان کی طرف نزول کرتا ہے۔ میں نے کہا : میں اس رب پر ایمان لاتا ہوںجو وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔”
(الاسماء والصفات للبیہقی : ٢/١٩٧، وفی نسخۃ : ٢/٣٧٥۔٣٧٦، ح : ٩٥١، وسندہ، صحیح)

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث (صحیح مسلم : ٧٥٨) کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے تو پھر ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان کی طرف نزول کا کیا مطلب ہوا؟شیخ الاسلام امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جو نزولِ باری تعالیٰ کا اثبات کر رہے ہیں، ان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ نہیں ہے۔
ابو عبد اللہ عمرو بن عثمان مکی رحمہ اللہ (م ٢٩٧ھ) فرماتے ہیں :
المستوی علی عرشہ بعظمۃ جلالہ ، دون کلّ مکان ۔
”اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ وہ ہر جگہ نہیں۔”
(کتاب العرش للذہبی : ٢/٣٤٨)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (٢٠٦۔٢٨٧ھ) اپنی کتاب السنّۃ (١/٢١٥، باب : ١٠٤) میں یوں تبویب کرتے ہیں : ما ذکر أنّ اللّٰہ تعالیٰ فی سمائہ دون أرضہ ۔
”ان دلائل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ اپنے آسمانوں کے اوپر ہے ، اپنی زمین میں نہیں ہے۔”
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں : من لم یقرّ بأنّ اللّٰہ تعالی علی عرشہ ، قد استوی فوق سبع سماواتہ ، فہو کافر بربّہ ۔۔۔
”جو شخص اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اپنے ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی ہے، وہ اپنے ربّ سے کفر کرنے والا ہے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : ٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
سنی مفسر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وحسب امریئ أن یعلم أنّ ربّہ ہو الذی علی العرش استوی ، فمن تجاوز إلی غیر ذلک فقد خاب وخسر ۔ ”ایک شخص کو (اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حوالے سے) یہی کافی ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ اس کا ربّ وہ ہے جو عرش پر مستوی ہے۔ جو شخص اس سے تجاوز کرے گا وہ یقینا تباہ و برباد ہو گیا۔”(صریح السنۃ للطبری : ٢٧)
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ (م ٣٢٤ھ) فرماتے ہیں : وأنّ اللّٰہ سبحانہ علی عرشہ ، کما قال : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) ۔ ”اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے عرش پر ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (رحمن عرش پر مستوی ہوا)۔”(مقالات الاسلامیین للاشعری، ص : ٢٩٠)

امام ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی رحمہ اللہ (م ٣٢٩ھ) نے اپنی کتاب العظمۃ (٢/٥٤٣) میں ایک باب یوں قائم کیا ہے : ذکر عرش الربّ تبارک وتعالی وکرسیّہ وعظم خلقہما ، وعلوّ الربّ فوق عرشہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے عرش ، اس کی کرسی اور ان دونوں چیزوں کی عظمت کا بیان ، نیز یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر بلند ہے۔”
امام طبرانی رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب السنّۃ میں ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے : باب ما جاء فی استواء اللّٰہ تعالی علی عرشہ ، وأنّہ بائن من خلقہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کا بیان اور اس چیز کی وضاحت کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جُدا ہے۔”(کتاب العرش للذہبی : ٢/٤٠٤)

امام ابو زکریا یحییٰ بن عمار سجستانی رحمہ اللہ (م ٤٤٢ھ) اپنے رسالے میں فرماتے ہیں :
لا نقول کما قال الجہمیّۃ : إنّہ داخل للأمکنۃ ، وممازج لکلّ شیء ، ولا نعلم أین ہو ، بل ہو بذاتہ علی العرش ، وعلمہ محیط بکلّ شیء ، وعلمہ وسمعہ وبصرہ وقدرتہ مدرکۃ لکلّ شیء ، وہو معنی قولہ : (وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ) ، وہو بذاتہ علی عرشہ کما قال سبحانہ ، وکما قال رسولہ ۔ ”ہم جہمیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ تمام جگہوں میں دخول کیے ہوئے ہے اور ہر چیز کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے ؟ بلکہ (ہمارا عقیدہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اس کا علم ، اس کی سمع ، اس کی بصر اور اس کی قدرت ہر چیز کو پاتی ہے۔ اس فرمانِ باری تعالیٰ کا یہی معنیٰ ہے : (وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ) (اور جہاں بھی تم ہوتے ہو ، وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے عملوں کو دیکھنے والا ہے)۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔”
(کتاب العرش للذہبی : ٢/٤٤٦، مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/١٩١)

علامہ معمر بن احمد بن زیاد اصبہانی رحمہ اللہ (م ٤١٨ھ) فرماتے ہیں :
وأنّ اللّٰہ عزّ وجلّ علی عرشہ بلا کیف ولا تشبّۃ ولا تأویل ، فالاستواء معقول ، والکیف فیہ مجہول ، والإیمان بہ واجب ، والإنکار لہ کفر ۔۔۔۔۔ وأنّہ جلّ جلالہ بائن من خلقہ والخلق بائنون منہ ، فلا حلول ولا ممازجۃ ولا اختلاط ولا ملاصقۃ ، لأنّہ الفرد البائن من خلقہ ، والواحد الغنی عن الخلق ، علمہ بکلّ مکان ، ولا یخلو من علمہ مکان۔
”اللہ عزوجل اپنے عرش پر ہے۔ اس بارے میں ہم کوئی کیفیت بیان نہیں کرتے نہ کوئی تشبیہ دیتے ہیں اور نہ کوئی تاویل کرتے ہیں۔ عرش پر مستوی ہونا عقل میں آنے والی بات ہے، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ اپنے مخلوق سے جُدا ہے اور مخلوق اس سے جُدا ہے۔ خالق اور مخلوق کا آپس میں کوئی حلول، ملاپ ، اختلاط نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اکیلا اور اپنی مخلوق سے جدا ہے ، نیز وہ اکیلا اور اپنی مخلوق سے بے پروا ہے۔ اس کا علم ہر جگہ ہے ، اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں۔”(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ اہل السنّۃ لابی القاسم الاصبہانی : ١/٢٤٨، ٢٤٩، وسندہ، صحیحٌ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭ مکمل پی ڈی ایف مضمون کیلئے یہاں کلک کیجئے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس مسئلہ میں سلف کے اقوال و مذہب جاننے کیلئے امام ذہبیؒ (المتوفى: 748هـ)
کی کتاب " مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي " جو علامہ البانیؒ کی تحقیق سے شائع ہے وہ پڑھیں
آن لائن پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اللہ سبحانہ و تعالٰی کہاں ہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

الرحمن علی العرش استوی
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اپنے عرش پر مستوی ہے
اور اسکا عرش اسکے تمام آسمانوں سے اوپر ہے اور وہ اپنی تمام مخلوقات سے الگ ہے
بلند و بالا بزرگ و برتر اپنی مخلوقات کی حالت میں نہیں ہے۔
وہی ہے جو سب سے اعلی و ارفع اپنی تمام تر مخلوقات سے اوپر پاک و مقدس ذات ہے۔
یہی عقیدہ کتاب و سنت کے دلائیل سے، اجماع صحابہ سے، تابعین و تبع تابعین سے،
اور ان کے بعد آنے والے تمام علماء ومحققین سے ثابت ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن کے مختلف مقامات پر اس بات کو واضح کیا۔

۔1
۔ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ سورۃ الاعلی آیت 1
" اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر "

۔2 ( يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾ سورۃ النحل آیت 50
"اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں "

اور پھر 6 مختلف مواقع پہ فرمایا:
۔3
۔ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ
سورۃ الاعراف آیت 54
سورۃ یونس آیت 3
سورۃ الرعد آیت 2
سورۃ الفرقان آیت 59
سورۃ السجدہ آیت 4
سورۃ الحدید آیت 4
"پھر عرش پر مستوی ہوا"

۔4
۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ۔۔ سورۃ فاطر آیت 10
" تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے، "

۔5
۔ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿158﴾ سورۃ النساء آیت 158
"بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں واﻻ ہے "

۔6
۔ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ سورۃ الملک آیت 16
"کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے "

یہاں آسمان کا مطلب بلندی یا وہ معروف آسمان جو اوپر ہیں۔
اسی طرح یہاں "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے
یعنی "فی السماء" کا مطلب" آسمان میں" نہیں بلکہ" آسمان کے او پر "ہے۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نہ تو کسی چیز سے محصور ہے اور نہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کسی چیز کے اندر داخل ہے۔

اسکی مثال سورۃ الانعام کی آیت نمبر 11 میں اللہ نے فرمایا
"قل سیروا فی الارض" یعنی زمین پر چلو نہ کہ زمین میں چلو۔
اور یہ واضح ہے کے انسان زمین کے اوپر ہی چلتا ہے نہ کی زمین کے اندر۔
جس طرح یہاں فی کامطلب علی استعمال ہوا ہے اسی طرح اوپر کی آیت میں بھی فی کا معنی علی استعمال ہوا ہے۔

اس کی دوسری مثال سورۃ طہ میں جو اللہ تعالی نے فرعون کی بات نقل کرتے ہوے فرمایا کہ
" وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ" "میں تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا"
میں بھی "فی" "علی" کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

استوی : استواء : مستوی

استواء کی یہ تفسیر کہ اللہ ﷻ اپنے عرش پر اس طرح مستوی ہے
جیسے اس کے جلال کے شایان شان ہے، دراصل سلف صالحین کی تفسیر ہے۔
امام المفسرین ابن جریرؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ استواء کے معنی علو وارتفاع کے بھی ہیں
جیسے کوئی کہتا ہے کہ (اِسْتَویٰ فُـلَانٌ عَلٰی سَرِیْرَہِ) ’’فلاں اپنے تخت پر مستوی ہے‘‘ تو اس سے مراد علو ہوتا ہے
اور انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘
کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رحمن اپنے عرش پر مرتفع اور بلند ہے،
سلف سے اس کے مخالف تفسیر منقول نہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت میں استواء کا لفظ کئی طرح سے استعمال ہوتا ہے، مثلاً:
٭ اگر یہ مطلق اور غیر مقید استعمال ہو تو اس کے معنی کمال کے ہوتے ہیں،
جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰٓی﴾ ’’اور جب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور (عقل وشعور میں) کامل ہوگئے۔‘‘
٭ واو کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ برابری کے معنی میں ہوتا ہے۔
جیسے کہا جاتا ہے: (اِسْتَوَی الْمَائُ وَالْعَتَبَة) ’’پانی اور دہلیز برابر ہوگئے۔‘‘
٭ اِلیٰ کے صلہ کے ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ قصد و ارادہ کے معنی میں ہوتا ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآئِ﴾ ’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا۔‘‘
٭ علیٰ کے صلہ ساتھ مل کر استعمال ہو تو یہ علو وارتفاع کے معنی میں ہوتا ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ ’’رحمن نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘
بعض سلف کا یہ مذہب بھی ہے کہ استواء کا لفظ اِلیٰ اور عَلیٰ دونوں کے ساتھ استعمال
ہونے کی صورت میں ارتفاع وعلو کے معنی میں ہوتا ہے، جیسا کہ بعض کا مذہب یہ ہے کہ
عَلیٰ کے ساتھ استعمال کی صورت میں یہ صعود اور استقرار کے معنی میں ہوتا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ کی تفسیر
خارجہ بن مصعب سے اپنی کتاب (الصواعق ) میں یہ نقل کی ہے کہ یہاں استواء کا لفظ بیٹھنے کے معنی میں ہے۔
الصواعق المرسلہ: ۴/۱۳۰۳۔
انہوں نے کہا ہے کہ استواء دراصل بیٹھنے ہی کو کہتے ہیں۔ بیٹھنے کا ذکر اس حدیث
میں بھی وارد ہوا ہے، جسے امام احمد نے بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کیا ہے۔

مستوی ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مرتفع ہونا ہے،
بخاری میں استوی کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ 'ای علا وارتفع' یعنی چڑھا اور بلند ھوا۔
(بحاری کتاب التوحید باب وکان عرشہ علی الماء فی ترجمۃ الباب)
مشہور مفسر قرآن امام مجاہرؒ (تابعی) نے استوی کی تعریف میں فرمایا۔ "علا علی العرش"عرش پر بلند ہوا
(صحیح البخاری مع فتح الباری ١٣-٣٤٠ قبل ح ٧٤١٨،
تفسیر الفریابی بحوالہ تغلیق التعلیق ٥-٣٤٥)

سورہ الحدید آیت ٤ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں، امام محمد بن جریربن یزید الطبریؒ
(المتوفی ٣١٠ ھجری ) فرماتے ہیں کہ:
وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع “
اور ائے لوگو ! وہ (اللہ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ، وہ تمہارے اعمال ،
پھرنا اور ٹھکانا جانتا ہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “(تفسیرطبری ج ٢٧ ص ١٢٥)

اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کے بارے میں مفسر ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ
(متوفی ١٠٦ ھجری ) فرماتے ہیں‌ کہ
ھو فوق العرش وعلمہ معھم اینما کانوا“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے
چاہے وہ جہاں کہیں‌ بھی ہوں “ (تفسیرطبری ج ٢٨ ص ١٠ و سندہ حسن )

امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ
(متوفی ٤٢٩ ھجری ) فرماتے ہیں‌کہ
“اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ
ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السمٰوات بذاتہ ، مستوعلی عرشہ کیف شاء “
بے شک اس سے اللہ ﷻ کا علم مراد ہے ، اللہ ﷻ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے
جیسے وہ چاہتا ہے “ (شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص ١٤٤، ١٤٥)

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‌کہ :“ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ) ہر مکان میں ‌ہے
بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میں ‌عرش پر ہے “(غنیتہ الطالبین ج ا ص ١٠٠ )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے الامام العارف معمر بن احمد الاصبہانی رحنہ اللہ سے نقل کیا کہ
"اور بے شک اللہ ﷻ اپنے عرش پر مستوی ہوا، بغیر کیفیت، تشبیہ اور تاویل کے
استواء معقول ھے اور کیفیت مجہول ھے اور بے شک وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا
۔ ۔ ۔ عزوجل اپنی مخلوقات سے جدا ھے اور مخلوق اس سے جدا ھے، بغیر حلول کے۔
(الاستقامہ لابن تیمیہ۔۔۔جلد ١ ص ١٦٧)

وھو علی عرشہ کما وصف فی کتابہ.
اور وہ خود اپنے عرش پر مستوی ہے ، جیساکہ اس نے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے ۔ ”
(سنن الترمذی ، تحت حدیث: ۲۳۹۸)

امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی مجلس میں ایک شخص نے ﴿الرحمن عَلَی الْعَرْش اسْتَوَی﴾
کی تلاوت کرکے یہی سوال اٹھایا کہ الله تعالیٰ کا استوا کیسا ہے ؟
امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے ایک لمحہ سوچ کر ارشاد فرمایا یہ استوا ایسا ہی ہے
جیسا الله تعالیٰ نے آیت کریمہ میں اپنے بارے میں بیان فرما دیا ہے ۔
الرحمن ( یعنی صرف صفت استوی کی نسبت باری تعالیٰ کے لیے ثابت ہے) اس کی کوئی کیفیت نہیں
( کیوں کہ یہ جسم کی خصوصیت ہے) اس لیے یہاں کیفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
”فقال: (الرحمن علی العرش استوی، کما وصف بہ نفسہ․ ولا یقال کیف، وکیف عنہ مرفوع․
(الدرالمنثور، لابن الجوزی، الاعراف، تحت آیة رقم: ٥٤)
(ھکذا فی کتاب الاسماء والصفات للإمام البیہقی، ص: ٤٠٨)

علامہ بیہقیؒ نے امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ اور سفیان بن عینیہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
” کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ صفاتِ متشابہات کی تفسیر عربی یا عجمی زبان میں کرتا پھرے۔
ان (استوی) الفاظ کو پڑھ کر ان سے گزر جانا ہی بس ان کی تفسیر ہے۔“
( ”ما وصف الله تبارک وتعالیٰ بنفسہ فی کتابہ فقرأتہ تفسیرہ، لیس لأحد أن یفسرہ بالعربیة ولابالفارسیة․“
(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی مع الھامش، ص: ٣١٤)

علامہ بیہقی رحمہ الله فرماتے ہیں:
متقدمین سلف صالحین استواء اوراسی جیسی تمام صفاتِ متشابہات کی کوئی تفسیر نہیں کرتے تھے۔“
”فأما الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا کانوا لایفسرونہ، ویتکلمون فیہ کنحو مذھبہم فی أمثال ذلک․“
(کتاب الأسماء والصفات للبیہقی، ص:٤٠٧)

ابن تیمیہ (المتوفی ٧٢٨ ھجری) لکھتے ہیں
ولو قد شاء لاستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات والأرض وكيف تنكر أيها النفاخ أن عرشه يُقِلُّه والعرش أكبر من السموات السبع والأرضين السبع ولو كان العرش في السموات والأرضين ما وسعته ولكنه فوق السماء السابعة
(بیان تلبیس الجھمیۃ فی تاسیس بدعھم الکلامیۃ ٣-٢٤٣)
اور اگر اللہ چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرار کر سکتا ہے اور اس پر اپنی قدرت
اور لطف ربویت سے بلند و رفیع ہو سکتا ہے تو عرش عظیم جو ساتوں زمین اور آسمان سے بھی زیادہ بڑا ہے ،تو اس پر اللہ استقرار کیوں نہیں کر سکتا۔
تو بڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو کہ اللہ کا عرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔

شیخ صالح العثیمینؒ لکھتے ہیں۔
ما معنی الاستواء عندھم فمعنا العلو والااستقرار
ہمارے نزدیک استوایٰ کا معنی بلند اور استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
(شرح عقیدہ الوسطیہ ص ٣٧)

شیخ ابن عبد الرحمن جبرینؒ لکھتے ہیں
هذه ھه تفاسير اهل السنة الاربعة اكثر هم يقول : استوي علي العرش اي استقرر علیه
اکثر اہلسنت کہتے ہیں استویٰ علی العرش کی تفسیر ٹھرنا ہے۔
(التعلیقات الزکیۃ ص ٢١١ )

شیخ الفوزان لکھتے ہیں۔
اما الاستواء فمعنا كما فسرہ السلف العلو، والاستقرار
کہ سلف کے ہاں استویٰ کا معنی استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
(شرح لمعۃ الاعتقاد ص ٩١)
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اب ہم احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں اس عقیدے کو واضح کرتے ہیں۔

۔1 صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم السلمی کی وہ روایت جس میں انہوں نے
رسول اللہ ﷺ سے اپنی لونڈی کو آزاد کرنے کا پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
اسے میرے پاس لاؤ, آپ ﷺ نے اس لونڈی سے پوچھا کہ "اللہ کہاں ہے؟" تو اس نے کہا کہ آسمان پر۔
پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ "مین کون ہوں" تو اس نے کہا کہ اللہ کے رسول۔
تب آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو بے شک یہ مومنہ ہے۔

یہی حدیث 15 مختلف روایات میں موجود ہے جن میں سے چند یہ ہیں۔

صحیح مسلم، بَاب تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ وَنَسْخِ مَا كَانَ مِنْ إِبَاحَتِه حدیث نمبر 836
سنن ابی دائود، حدیث نمبر795 بَاب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلَاةِ
سنن نسائ، حدیث نمبر 1203، باب الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ

۔2 حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کے دن اپنے خطبہ میں فرمایا کہ
لوگو، کیا میں نے اللہ کا پیغام پنہچا دیا؟ تو سب نے کہا جی ہاں،
پھر آپ ﷺ اپنی انگلی مبارک کو آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر لوگوں کی طرف کرتے ہوے فرماتے
"اے اللہ تو گواہ ہو جا"
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2137 باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

۔3 حضرت ابو ھریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے ہیں۔
ان میں کچھ رات کے فرشتے ہیں اور کچھ دن کے یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔
پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے پاس رات گذاری ہو اسکی طرف "یعنی اللہ ﷻ کی طرف" اوپر چڑھتے ہیں۔
پھر اللہ ﷻ ان سے پوچھتاہے حالانکہ وہ خود جانتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟
فرشتے کہتے ہیں جب ہم ان کے پاس گئے تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔
اور جب ہم نے انہیں چھوڑا تو بھی نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 2983، باب ذکر الملائیکۃ، کتاب بدء الوحی۔

۔4 عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
زمین والوں پر تم رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔
سنن ابی دائود، حدیث نمبر ۴۲۹۰، باب فی الرحمۃ، کتاب الادب۔

۔5۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت زینب بنت جحشؓ اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ
میری شادی ساتوں آسمانوں کے اوپر سے اللہ رب العزت نے کروائ ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر6870، باب وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، کتاب التوحید۔

۔6۔ حضرت ابی سعید الخدری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
کیا تم مجھے امین تسلیم نہیں کرتے؟ حالانکہ مجھے اس نے امین تسلیم کیا جو آسمان پر ہے۔
میرے پاس آسمان سے خبر صبح و شام آتی ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر 4004، باب حجۃ الوداع سے پہلے علی بن ابی طالب
اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھما کو یمن بھیجنا۔ کتاب المغازی۔

۔7۔ حضرت ابو ھریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قسم ہے اس ذات کی جسکے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کسی عورت کا خاوند
اسے اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے تو آسمان کے اوپر والا اس عورت پر
اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اسکا خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر 2595، باب تَحْرِيمِ امْتِنَاعِهَا مِنْ فِرَاشِ زَوْجِهَا، کتاب النکاح۔

۔8۔ رسول اللہ ﷺ کا معراج کا واقعہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ
پھر مجھے ساتوں آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا سدرۃ المنتھی کے پاس۔
وہاں میں نے اللہ ﷻ کو سجدہ کیا پھر اللہ تعالی نے پچاس نمازوں کا حکم دیا۔ الی آخرہ۔
سنن نسائی۔ حدیث نمبر 446۔ کتاب الصلاۃ، باب فَرْضُ الصَّلَاةِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ
فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلَافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيه۔

۔9۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہنا کہ
اللہ ﷻ نے آپکی براءت ساتوں آسمانوں کے اوپر سے نازل کی ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر 2366۔

۔10۔ رسول اللہ ﷺ کا سعد بن معاذ ؓ کو بنی قریظہ کے درمیان فیصلہ کرنے پر یہ فرمانا کہ
یہی فیصلہ اللہ تعالی کا ساتوں آسمانوں کے اوپر سے ہے۔
السنن الکبری للبیہقی، باب أخذ السلاح وغيره بغير اذن الامام، جلد ۹ ص ۶۳۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم ذرا اس کی وضاحت کر دیں ۔ شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ کی ویبسائٹ میں پڑھا میں نے

اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ تعدد مکان تعدد مکین کو مخلوق میں تو مستلزم ہے لیکن خالق میں نہیں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم ذرا اس کی وضاحت کر دیں ۔ شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ کی ویبسائٹ میں پڑھا میں نے

اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ تعدد مکان تعدد مکین کو مخلوق میں تو مستلزم ہے لیکن خالق میں نہیں!
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
شیخ صاحب حفظہ اللہ نے جہاں یہ جملے لکھے تھے وہیں ان کا سیاق و سباق ان کا معنی و مطلب سمجھا نے کیلئے کافی رہے گا ، یا خود شیخ صاحب ان جملوں کا مفہوم واضح فرمائیں تو بہتر رہے گا ۔
 
Top