• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقيدے سے متعلقاہم فتاوے

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عقيدے سے متعلق اہم فتاوے

بسم الله الرحمن الرحيم

عقيدے سے متعلقاہم فتاوے


(ما خوذاز: فتاوى ارکان اسلا م )

فتاوی مہمۃ تتعلق بالعقائد
(مقتبسة من فتاوی أرکان الإسلام)
(باللغۃ الأردیة)

تالیف
سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ
سابق مفتی اعظم سعودی عرب
جمع وترتیب
محمدبن شایع بن عبد العزیزالشایع حفظہ اللہ

ترجمة
ابوالمکرم بن عبد الجلیل ؒ - عتیق الرحمن اثری حفظہ اللہ
مراجعة (نظرثانى)
شفیق الرحمن ضیا ءاللہ مدنی

نشرواشاعت
دفترتعاون برائے دعوت وارشاد (شعبہ بیرونی شہربان)
سلطانہ - ریاض - سعودی عرب

الناشر
المکتب التعاونی للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بسلطانة
الرياض –المملكة العربية السعودية
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سوال

  1. بعض اسلامی معاشرے میں بہت سی خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں ,جن میں سے بعض کا تعلق توقبروں سے ہے اوربعض کا تعلق حلف ,قسم اورنذرونیاز وغیرہ سے ہے, اورچونکہ ان میں سے بعض شرک اکبرکے قبیل سے ہوتی ہیں, اوربعض اس سے ہلکی ہوتی ہیں, اسلئے ان کے احکام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں,اسلئے بہترہوگا کہ آپ مذکورہ مسائل کے احکام تفصیل سے بیان فرمادیں؟

  1. بعض لوگ نبی پرایمان اورآپ کی محبت واطاعت کے وسیلہ کےدرمیان اورآپ کی ذات اورجاہ ومرتبہ کے وسیلہ کے درمیان فرق نہیں کرتے ,جبکہ بعض لوگ آپ کی زندگی میں آپ کی دعا کا وسیلہ لینے کے درمیان اورآپ کی وفات کے بعد آپ سے دعا طلب کرنے کے درمیان خلط ملط کردیتے ہیں, جس کے نتیجے میں مشروع وسیلہ اورممنوع وسیلہ کے درمیان تمیزمشکل ہوجاتی ہے ,کیا اس سلسلہ میں کوئی تفصیل ہے جس سے یہ اشکال دورہوجائے ؟

  1. دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کلمہ لا الہ الا اللہ کے معنى ومفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں, جس کے نتیجے میں ان سے ایسے ایسے اقوال وافعال سرزد ہوتے ہیں جوکلمہ کے سراسرمنافی یا اس میں نقص کا سبب ہوتے ہیں ,سوال یہ ہےکہ لا الہ الا اللہ کا صحیح مفہوم نیزاسکے تقاضے اوراسکی شرطیں کیا ہیں؟

4-موجودہ دورمیں اللہ کے وجود اوراسکی ربوبیت کو ثابت کرنے کے لئے مقالات, تالیفات اورمحاضرات کا کثرت سے اہتمام کیا جاتا ہے ,مگرتوحید الوہیت کے اثبات کے لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاتا , جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان توحید الوہیت سے ناواقفیت اوراس سلسلہ میں سستی وکاہلی پائی جاتی ہے ,اسلئے بہترہوگا کہ آپ توحید الوہیت کی اہمیت پرروشنی ڈال دیں؟

5-بعض لوگ علماء اورصالحین اورانکے آثارسے تبرک چاہنے کو جائزسمجھتے ہیں, اسکا کیا حکم ہے ؟اورکیا نبی r سے آپکی وفات کے بعد تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے؟ نیزنبی r کی برکت کا وسیلہ لینا کیسا ہے؟

6-بہت سے عوام عقیدۂ توحید سے متعلق بڑی بڑی غلطیاں کرتے ہیں ,ایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟ اورکیا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے معذورسمجھے جائیں گے؟ نیزان سے شادی بیاہ کرنے اورانکا ذبیحہ کھانے کا کیا حکم ہے ؟ اورکیا مکہ مکرمہ میں انکا داخل ہونا درست ہے؟

7-بہت سے اسلامی معاشرے میں دین کے ظاہری شعارمثلا داڑھی بڑھانے اورلباس کو ٹخنوں سے اوپررکھنے وغیرہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے,کیا دین کے ساتہ اس طرح کا مذاق کرنے سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتاہے؟

8-عقیدہ کے موضوع پرآپ کن کتابوں کے مطالعہ کی نصیحت کرتے ہیں؟

9-بعض مسلم معاشرے میں لوگ مذاق کے طورپرایسے الفاظ بول جاتے ہیں جن میں کفریا فسق پایا جاتا ہے, اسلئے بہترہوگا کہ آپ اس مسئلہ پرروشنی ڈالدیں ,نیزیہ بیان کردیں کہ اہل علم اوردعاۃ کا اس سلسلہ میں کیا رویہ ہونا چاہئے؟

10-بسا اوقات انسان کے دل میں خصوصاً توحید اورایمان سے متعلق برے خیا لات اوروسوسے کھٹکتے ہیں ,توکیا اس پراسکی گرفت ہوگی؟

11-بعض طالب علم اپنے اجتہاد سے ایسی چیزکی مخالفت کربیٹھتے ہیں جودین میں بدیہی طورپرمعلوم ہے,توکیا جوچیزدین میں بدیہی طورپرمعلوم ہو اس میں اجتہاد ممکن ہے؟

12-جوشخص اللہ کو یا اسکے رسول کو برابھلاکہے یا ان کی توہین وتنقیص کرے اسکا کیا حکم ہے؟ اورجوشخص اللہ کی واجب کی ہوئی کسی چیز کا انکارکرےیا اللہ کی حرام کی ہوئی کسی چیز کو حلال سمجھے اسکا کیا حکم ہے؟

13-موجودہ دور میں جادو کا استعمال اورجادوگروں کے پاس آنا جانا کثرت سے ہورہا ہے ,اسکا کیا حکم ہے ؟اورسحرزدہ شخص کے علاج کا جائز طریقہ کیا ہے؟

14-اس دورمیں نفاق اورمنافقین کا کافی زوروشورہے, نیز اسلام اورمسلمانوں کی مخالفت میں ان کے متعدد وسائل ہیں,اسلئے بہترہوگاکہ آپ منافقین کے اوصاف , نفاق کے اقسام اوراسکے خطرات پرروشنی ڈال دیں ؟


الحمد لله اللذي خلق الثقلين لعبادته ,وأرسل الرسل بذالك , عليهم الصلاة والسلام , وبيَّن في كتابه العزيز وسنتة رسوله الأمين تفاصيل هذه العبادة التي خُلِقوا لها, وأوجب علي العباد أداء مافرض عليهم منها وترك ما حرَّم عليهم عَن إخلاص له سبحانه ورغبةٍ ورهبةٍ,ووعدهم علي ذلك الأجر العظيم والنَّعيم المقيم في دار الكرامة ,وأشهد أن لاإله إلا الله وحده لاشريك له ,وأشهد أن محمدا عبده ورسوله وخليله ,صلي الله عليه وآله وأصحابه, ومن تبعهم بإحسان إلي يوم الدين ,أماَّ بعد :
هر قسم كي تعريف الله کے لئے ہے جس نے اپنی عبادت کے لئے جن وانس کی تخلیق فرمائی ,انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا اوراپنی کتاب قرآن مجید میں اوراپنے رسول امين r کی سنت میں اس عبادت کی تفصیلات بیان فرمائیں ,ساتہ ہی بندوں پریہ واجب قراردیا کہ اخلاص کے ساتہ اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکہ کراور اسکے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے فرائض کی ادائیگی کریں اور محرمات سے بچیں ,پھر بندوں کے اس عمل کے بدلے میں اللہ نے ان سے اجر عظیم کا اوردارکرامت (جنت) میں دائمی نعمتوں کا وعدہ فرمایا- میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , وہ یکتا ہے , کوئی اسکا شریک نہیں , اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ –محمد r–اللہ کے بندے اوررسول وخلیل ہیں , آپ پر اورآپ کے آل واصحاب پر اورتاقیامت ان کی سچی پیروی کرنے والوں پر اللہ کی طرف سے رحمت وسلامتی نازل ہوتی رہے –امابعد:

ارکان اسلام :عقیدہ,نماز,زکواۃ ,روزہ اور حج سے متعلق سوالات کے یہ اہم جوابات ہیں , جن کو میں نے ایک کتاب کی شکل میں اکھٹا کردیا ہے , تاکہ ہر مسلمان کے لئے انکا پڑھنا اوران سے استفادہ کرنا آسان ہوجائے ,اس کتاب کا نام میں نے "تحفۃ الإخوان بأجوبۃ مھمۃتتعلق بأرکان الإسلام" (یعنی ارکان اسلام سے متعلق اہم فتاوے ) رکھا ہے-
میں اللہ تعالی سے دعا گوہوں کہ وہ اس کتاب کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے , اور جن لوگوں نے اس کی نشرواشاعت میں حصہ لیا ہے ان کو اجر عظیم سے نوازے , بیشک اللہ تعالی بڑا کرم نواز اورسخی ہے -
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز
مفتی اعظم سعودی عرب
رئیس مجلس کبار علماء
رئیس ادارہ علمی تحقیقات وافتاء
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 1:
بعض اسلامی معاشرے میں بہت سی خلاف ورزیاں پائی جاتی ہیں , جن میں سے بعض کا تعلق تو قبروں سے ہے , اور بعض کا تعلق حلف و قسم اورنذروغیرہ سے ہے , اورچونکہ ان میں سے بعض شرک اکبر کے قبیل سے ہوتی ہیں جن کے کرنے سے انسان دین سے خارج ہوجاتا ہے , اوربعض اس سے ہلکی ہوتی ہیں , اس لئے ان کے احکام بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں , اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ ان لوگوں کے لئے مذکورہ مسائل کے احکام تفصیل سے بیان کردیں , اور عام مسلمانوں کو بھی ان امور میں سستی وکاہلی برتنے سے منع کرتے ہوئے نصیحت فرمادیں ؟
جواب :
الحمد لله ,وصلى الله على رسول الله, وعلى آله وأصحابه ومن اهتدي بهداه ,أما بعد:
بہت سے لوگوں کو اس بات کی تمیزہی نہیں ہوپاتی کہ قبروں کے پاس کیا کیا چیزیں مشروع ہیں , اور کو ن کون سے کام شرک اوربدعت ہیں , جبکہ بہت سے لوگ جہالت اوراندھی تقلید کے سبب بعض اوقات شرک اکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں , ایسی صورت میں ہرجگہ کے علماء پرواجب ہے کہ وہ لوگوں کے لئے دین کو واضح کریں , توحید اور شرک کی حقیقت ان سے بیان کریں , اورساتہ ہی ساتہ وہ انہیں شرک کے اسباب ووسائل نیز ان کے اندر پھیلی ہوئی نوع بنوع بدعتوں سے آگاہ کریں ,تاکہ وہ ان سے اجتناب کرسکیں ,اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَ‌اءَ ظُهُورِ‌هِمْ وَاشْتَرَ‌وْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُ‌ونَ آل عمران:187
اور(اے پیغمبر وہ وقت یاد کرو)جب اللہ تعالی نے کتاب والوں سےعہد لیاکہ تم اس کتاب کو (جوتمہیں دی گئی ہے ) لوگوں سے (صاف صاف) بیان کردینا اوراسے چپھانا نہیں-
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ ﴿١٥٩﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ البقرة]
بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی کھلی نشانیوں اورہدایت کی باتوں کو کتاب (تورات) میں ہمارے لوگوں سے بیان کردینے کے بعد چھپاتے ہیں , یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اورسب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ,مگر جنہوں نے توبہ کی اور نیک بن گئے اورکھول کربیان کردیا ,تو ان کی توبہ میں قبول کرتا ہوں , اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا , مہربان ہوں – نبی rکا ارشاد :
"جو كسی بهلے کام کی رہنمائی کرے گا تو اسے بھی اس کام کے کرنے والے کے برابر اجرملے گا "(صحیح مسلم )
نیز آپ rنے فرمایا :
"جوراہ ہدایت کی دعوت دے گا تو اسے بھی اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجرملے گا " اوریہ ان کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا , اورجو راہ ضلالت کی طرف بلائے گا تو اس کے اوپر بھی اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ ہوگا " اوریہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ کرے گا" (صحیح مسلم)
نیز صحیحین میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی rو نے ارشاد فرمایا :
"الله تعالى جس شخص كے ساتہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی صحیح سمجھ عطا کردیتا ہے"

علم کی نشر واشاعت اورلوگوں کو اسکی ترغیب دلانے , نیز علم کو چھپانے یا اس سے بے رخی برتنے سے دور رہنے کے سلسلہ میں اوربھی بہت ساری آیات واحادیث وارد ہیں-
البتہ قبروں کے پاس جو طرح طرح کے شرک وبدعات اکثرملکوں میں کئے جاتے ہیں توبہ یہ چیز بالکل عیاں ہیں, اس پر خصوصی توجہ دے کر لوگوں کواس کی حقیقت سے آگاہ کرنا اوراس کے انجام سے ڈرانا چاہئیے, مثلاً مردوں کوپکارنا , ان سے فریاد کرنا , اوربیماروں کے لئے شفا اوردشمنوں پر فتح وغیرہ کا سوال کرنا , یہ سارے کام شرک اکبر ہیں جوزمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے , اللہ تعالی کا ارشاد ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١ البقرة]
اے لوگو! اپنے پروردگار کی بندگی کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ,تاکہ تم پرہیزگارہوجاؤ-
اور فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦ الذاریات ] اورمیں نے جن اورانسان کو اسی لئےپیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں –
اورفرمایا :وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ الإسراء:23] اورتيرے پروردگارنے یہ حکم دیا کہ اس کے سوا کسی اورکی بندگی نہ کرو - اورفرمایا:
وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ (سورة البينة:5) حالانكہ اہل کتاب کو یہی حکم ہواتھا کہ وہ یکسو ہوکرخالص اللہ ہی کی بندگی کریں-

اس معنی کی اوربھی بہت سی آیتیں موجود ہیں –
جس عبادت کے لئے اللہ تعالی نے جن اورانسان کوپیدا کیا اور جس کا انہیں حکم دیا وہ یہی توحید عبادت ہے,یعنی نماز,روزہ,زکوۃ,حج قربانی ,نذراور انکے علاوہ ہرطرح کی عبادت واطاعت کو اللہ کے لئے خاص کردیا جائے, اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِ‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْ‌تُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ الأنعام 161]
(اے پیغمبر) کہ دیجئے بیشک میری نماز اورمیری قربانی اور میرا جینا اورمیرا مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے جوسارے جہان کا پروردگار ہے , اسکا کوئی شریک نہیں, اورمجھے یہی حکم ہوا ہے ,اور میں (اس امت میں ) سب سے پہلا مسلمان ہوں- مذکورہ آیت میں "نسک" سے مراد عبادت ہے , اورقربانی بھی عبادت کی ایک قسم ہے- اورفرمایا:إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ‌ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ‌ ﴿٣ سورة الكوثر
(اے پیغمبر) ہم نے آپ کو کوثرعطا کیا ہے, تو (اسکے شکر میں ) اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اورقربانی کیجئے –
اورنبی کریم r نے ارشاد فرمایا :
"الله لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لئے قربانی کی "(صحیح مسلم) بروایت امیر المومنین علی بن ابی طالب t کا ارشاد ہے :وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨ الجن]
اور مسجديں اللہ ہی (کی عبادت) کے لئے ہیں , تو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو-
اورفرمایا : وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ لَا بُرْ‌هَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ ﴿١١٧ المؤمنون]
اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کوپکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں , تو اللہ ہی کے پاس اس کا حساب ہونا ہے , بیشک کافر کامیا ب نہیں ہونگے-
اورفرمایا : يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ‌ وَيُولِجُ النَّهَارَ‌ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ‌ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ‌ كُلٌّ يَجْرِ‌ي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَ‌بُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ‌ ﴿١٣﴾ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ‌ونَ بِشِرْ‌كِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ‌ ﴿١٤ الفاطر]
یہی الله تمهارا رب ہے ,اسی کی بادشاہت ہے , اور(اے مشرکو)جن کو تم اسکے سوا پکارتے ہو وہ گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ,اگر تم ان کوپکارو تو وہ تمہاری پکارنہ سنیں, اوراگر سن بھی لیں تو تمہارا کام نہ بناسکیں ,اورقیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے, اورتم کو (اللہ) خبررکھنے والے کے برابر کو ئی خبر نہیں دے سکتا –
مذکورہ بالاآیا ت میں اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے نماز پڑھنا اورقربانی کرنا, نیز مردوں ,بتوں ,درختوں اورپتھروں کو پکارنا یہ سب اللہ کے ساتھ شرک اورکفر کرنا ہے, اور اللہ کے سوا جن جن چیزوں کو پکاراجاتا ہے خواہ وہ نبی ہوں یافرشتے , ولی ہوں یا جن , بت ہوں یا کچہ اور, انہیں اپنے پکارنے والوں کے نفع ونقصان کا کوئی اختیار نہیں, اوراللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارنا شرک اور کفرہے, ساتہ ہی اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کردیا کہ اول تویہ اپنے پکارنے والے کی پکار سن نہیں سکتے , اوراگر بالفرض سن بھی لیں تو ان کا کچہ بنا نہیں سکتے –
لہذا تمام مکلف جن اورانسان پر واجب ہے کہ وہ خود ایسے کاموں سے بچیں اوردوسروں کو بھی ان سے دوررہنے کی تاکید کریں , اورکھول کربیان کردیں کہ یہ سب کام باطل اوررسولوں کی لائی ہوئی توحید واخلاص کی دعوت کے منافی ہے , اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ النحل :36]

نبی r تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے , انہیں شرک سے ڈراتے اور کلمۂ لاإلا إلا اللہ کا مفہو م واضح کرتے رہے, تو کچھ لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کی اوراکثر نے غرور وتکبر میں آکر آپ کی اتباع وفرمانبرداری کرنے سے انکار کردیا, پھر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اوروہاں انصار اورمہاجرین کے درمیان اللہ کی دعوت کو پھیلایا , اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور امراء اوربادشاہوں کے پاس خطوط لکھکر ان کے سامنے اپنی دعوت اور لائی ہوئی شریعت کو واضح کیا , اور اس راہ میں پیش آنے والی تمام مصیبتوں پر آپ نے اورآپ کے صحابہ رضي الله عنهم نے صبر کیا, یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہوا اورلوگ اللہ کے دین میں جوق درجوق داخل ہوئے , توحید کا بول بالاہو ا اورمکہ ومدینہ اورسارے جزیرہ عرب سے آپ r کے اور آپ کے بعدآپ کے صحابہ کے ہاتوں شرک کا خاتمہ ہوا, آپ کے بعد دعوت دین کی ذمہ داری آپ کے صحابہ نے سنبھالی اوراسکے لئے مشرق ومغرب میں جہاد کا پرچم لہرایا, یہاں تک کہ اللہ نے انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا ,روئے زمین پر ان کی سلطنت قائم ہوئی , اور اللہ کے وعدہ کے مطابق اس کا دین تما م دینوں پر غالب ہوا, جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
هُوَ الَّذِي أَرْ‌سَلَ رَ‌سُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ‌هُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِ‌هَ الْمُشْرِ‌كُونَ ﴿٣٣
التوبة]
وه الله ہی ہے جس نے پیغمبر کو ہدایت کی باتیں اورسچا دین دے کر اس لئے بھیجا کہ اس کو ہردین پر غالب کردے, گو مشرکوں کو برالگے-
اسی طرح بدعت اورشرک کے اسباب ووسائل میں سے وہ تمام کام بھی ہیں جو قبروں کے پاس کئے جاتے ہیں , مثلا قبروں کے پاس نمازپڑھنا , قرآن کی تلاوت کرنا اورانکے اوپر مسجد اورقبے تعمیر کرنا , یہ سارے کام بدعت ,خلاف شرع اورشرک اکبر کا ذریعہ ہیں , اوریہی وجہ ہے کہ رسول r نے ارشاد فرمایا :" يهود ونصاری پراللہ کی لعنت ہو ,انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنا لیا " (متفق علیہ بروایت عالئشہ رضی اللہ عنہا)
نیز صحیح مسلم میں جندب بن عبد اللہ t سے روایت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا :" سنو!تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں اوربزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا کرتے تھے , خبردار! تم قبروں کو سجدہ گا ہ نہ بنانا , میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں "
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں اوراس مفہوم کی دیگر حدیثوں میں آپ rو نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ یہود ونصاری اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گا ہ بنا لیا کرتے تھے , اورپھر آپ نے اپنی امت کو ان کی مشابہت اختیارکرکے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے , ان کے پاس نماز پڑھنے ,یا قیام کرنے , یا قرآن کی تلاوت کرنے سے منع فرمایا ہے , کیونکہ یہ سارے کام شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں , اورایسے ہی قبروں پر عمارت اورقبے بنانا اوران پر چادریں چڑھانا بھی شرک اورمردوں کے حق میں غلو کا سبب ہے, جیساکہ یہود ونصاری نے نیز امت محمدیہ کے جاہل عوام نے کیا , یہاں تک کہ انہوں نے مُردوں کی عبادت کی , ان کے لئے قربانی کی , ان سے فریاد کیا , ان کے لئے نذر مانی اور ان سے بیمار کے لئے شفا اوردشمنوں پر فتح وغلبہ کا سوال کیا , اوریہ ساری باتیں اس شخص سے مخفی نہں جس نے حسین , بدوی , شیخ عبد القادر جیلانی اور ابن عربی وغیرہ کی قبروں پر ان سب خرافات کا مشاہدہ کیا ہو , واللہ المستعان ولا حول ولا قوۃ إلاباللہ-
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول r نے قبروں کو چونا گچ کرنے , ان پر بیٹھنے اورعمارت بنانے اوران پر لکھنے سے منع فرمایا ہے, اوریہ ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ سارے کام شرک اکبر کا ذریعہ ہیں –لہذا تما م مسلمانوں پر –خواہ حکومتیں ہوں یا افراد – واجب ہےکہ وہ شرک وبدعات سے دور رہیں اورجب انہیں دین کے کسی معاملہ میں اشکال ہوجائے تو ان علماء سے دریافت کرلیں جو عقیدہ کی درستگی اورسلف صالحین کے نقش قدم پرچلنے میں مشہور ومعروف ہیں , تاکہ وہ علم وبصیرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیں ,
نبی rنے ارشاد فرمایا:"جوشخص علم كي طلب ميں کوئی راستہ چلے گا تو اللہ اس کے لئے اس کے بدلے جنت کا راستہ آسان کردےگا" اورفرمایا :
"الله تعالى جس شخص كے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی صحیح سمجھ عطا کردیتا ہے" اوریہ بات معلوم ہے کہ بندوں کی پیدائش بے مقصد نہیں , بلکہ انہیں ایک بڑی حکمت اوربہترین مقصد کے پیدا کیا گیا ہے , اوروہ ہرچیزسے بے نیاز ہو کرصرف اللہ کی عبادت کرنا ہے,
نیز یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس عبادت کی جان کاری کتاب وسنت کے اندر غوروتدبر کرکے, اللہ اور اس کے رسول نے جن عبادات کا حکم دیا ہے ان کی معرفت کرکے , اور اشکال کے وقت اہل علم سے دریافت کرکے ہی حاصل ہوگی, پس اس طریقہ سے اللہ کی عبادت کی معرفت حاصل کی جائے گی جس کے لئے اللہ نے بندوں کوپیدا کیا ہے, اور مشروع طریقہ پر اسے اداکیا جائے گا, اوراللہ کی رضا وخوشنودی اوراس کے کرم سے سرفرازی نیز اس کے غضب وعقاب سے نجات کا یہی واحد راستہ ہے – اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے , انہیں دین کی سمجھ عطا کرے , نیک اور بہترین لوگوں کو ان کا حاکم بنائے , ان کے رہنماؤں کی اصلاح فرمائے , اور ان کے علماء کو اپنی دعوت وتعلیم اورنصیحت وارشاد کی ذمہ داری اداکرنے کی توفیق دے –آمین
شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ غیر اللہ مثلاًنبیوں کی قسم, کسی کے سر کی , کسی کی زندگی کی , اورامانت اوربزرگی کی قسم کھائی جائے , نبی r کا ارشاد ھے: "جسے قسم کھانی ہی ہو وہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ خاموش رہے " (متفق علیہ) اورفرمایا:
"جس نے اللہ کے سوا کسی چیز کی قسم کھائی اس نے شرک کیا "اس حدیث کو امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ امیر المومنین عمربن خطاب t سے روایت کیا ہے –
اورفرمایا :"جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کیا " اسے ابوداؤداورترمذی نے بسند صحیح ابن عمرd سے روایت کیا ہے-اورفرمایا: "جس نے امانت کی قسم کھائی وہ ہم میں سے نہیں "
اورفرمایا :
"لوگو! تم اپنے ماں باپ کی اور شرکاء کی قسم نہ کھاؤ , اورجب اللہ کی قسم کھاؤ تو سچ بات ہی پر کھاؤ" – اس مفہوم کی اور بھی بہت ساری احادیث مروی هيں -
غیر اللہ کی قسم کھانا شر ک اصغر ہے, لیکن اگر اس قسم سے اللہ کی تعظیم کی طرح غیر اللہ کی تعظیم مقصود ہو, یا یہ اعتقاد ہو کہ اللہ کے سوا وہ نفع اورنقصان کا مالک ہے , یا یہ کہ اس لائق ہے کہ اسے پکارا جائے یا اس سے فریاد کی جائے , تو یہ شرک اکبر تک پہنچ سکتا ہے –شرک اصغرہی کی قسم سے درج ذیل جملے بھی ہیں:
"جو الله چاہے اورفلاں چاہے " اور"اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے " اور"یہ اللہ اورفلاں کی طرف سے ہے " اس قسم کی تمام باتیں شرک اصغر ہیں , کیونکہ نبی کریم r کا ارشاد ہے :
"يہ نہ کہوکہ جو اللہ چاہے او ر فلاں چاہے بلکہ یہ کہو کہ جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے"
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگریوں کہا جائے : "اگر اللہ نہ ہوتا پھر فلاں نہ ہوتا " یا "یہ اللہ کی طرف سے پھر فلاں کی طرف سے ہے" تو اس میں کوئی حرج نہیں , اوریہ اس صورت میں ہے جب وہ شخص اس کام کے حصول کا سبب ہو-
آپ r سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک صحابی آئے اورآپ سے عرض کیا :
"جو الله چاہے اورآپ چاہیں " تو آپ نے ان سے فرمایا : "تم نے تو مجھے اللہ کا شریک بنادیا ,بلکہ یوں کہو: جو صرف الله چاہے "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے :" جو صرف الله چاہے "تو یہی افضل ہے , لیکن اگر ایسا کہدے "جو اللہ چاہے پھر فلاں چاہے" تو کوئی حرج نہیں , اس طرح سے تمام حدیثوں اوردلیلوں میں تطبیق ہوجاتی ہے , واللہ ولی التوفیق –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 2:
بعض لوگ نبی r پر ایمان اورآپ کی محبت واطاعت کے وسیلہ کے درمیان اورآپ کی ذات اورجاہ ومرتبہ کے وسیلہ کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے , جبکہ بعض لوگ آپ کی زندگی میں آپ کی دعا کا وسیلہ لینے کے درمیان اورآپ کی وفات کے بعد آپ سے دعا طلب کرنے کے درمیان خلط ملط کردیتے ہیں , جس کے نتیجہ میں مشروع وسیلہ اورممنوع وسیلہ کے درمیان تمییز مشکل ہوجاتی ہے ,کیا اس سلسلہ میں کوئی تفصیل ہے جس سے یہ اشکال دور ہوجائے , اور ان باطل پر ستوں کی تردید ہوجائے جو اس قسم کے مسائل میں مسلمانوں کو الجھا ئے رکھتے ہیں ؟
جواب :
جواب: یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ جہالت اورحق بات کی رہنمائی کرنے والوں کی قلت کے سبب مشروع وسیلہ اورممنوع وسیلہ کے درمیان فرق نہیں کرپاتے , حالانکہ دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے , مشروع وسیلہ وہ ہے جس کے ساتہ اللہ نے رسولوں کو بھیجا ,آسمان سے کتابیں اتاریں اور جس کے لئے جن اور انسان کوپیداکیا , اوروہ ہے اللہ کی عبادت کرنا , اس سے اوراس کے رسول سے نیز تمام رسولوں اورمومنوں سے محبت کرنا , اوراللہ ورسول پر اور ان تمام باتوں پر ایمان لانا جن کی اللہ اور اس کے رسول نے خبردی ہے, مثلاً مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا , جنت وجہنم اوروہ تمام باتیں جن کی اللہ اور اس کے رسول نے خبردی ہیں , یہ سب جنت میں داخل ہونے , جہنم سے نجات پانے اوردنیا وآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہونے کے لئے مشروع وسیلہ ہیں –
مشروع وسیلہ کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ سے اس کے اسماء وصفات , اس کی محبت , اس پر ایمان اور اپنے ان نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مشروع فرمایا ہے , اورانہیں اپنی رضا وخوشنودی اورجنت کے حصول نیز مشکلات سے نجات اوردنیا وآخرت میں تمام امور کی آسانی کا وسیلہ قراردیا ہے , جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ﴾ (3) سورة الطلاق
اورجوكوئي الله سے ڈرے گا تو اللہ اس کے لئے (ہرآفت میں ) ایک راستہ نکال دے گا ,اور اس کو وہاں سے روزی دےگاجہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو –
اور فرمایا : ) وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} (4) سورة الطلاق
اورجو کوئی اللہ سے ڈرے گا تو اللہ اس کیلئے اسکے کام میں آسانی کردےگأ – اورفرمایا : ) وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُعْظِمْ لَهُ أَجْرًا} (5) سورة الطلاق
اورجو كوئي الله سے ڈرے گا تو اللہ اس کے گناہ اس پر سے اتاردے گا اور اسکو بڑا اجردیگا –
اورفرمایا :﴿ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ} (15) سورة الذاريات –
بے شک پرہیز گار لوگ جنت اورچشموں میں ہوں گے –
اورفرمایا :﴿ {إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ } (34) سورة القلم –
بے شک پرہیزگاروں کے لئے ان کے مالک کے پاس نعمت کے باغات ہیں – اورفرمایا:﴿ يِا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إَن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ} (29) سورة الأنفال
مومنو!اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہارے چھٹکارے کی صورت نکال دے گا , اورتمہارے گناہ تم پر سے اتاردیگا , اورتم کو بخش دے گا –

اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں وارد ہیں-
مشروع وسیلہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نبی r کی محبت ,آپ پرایمان اورآپ کی شریعت کی اتباع کے وسیلہ سے اللہ سے دعا مانگی جائے, کیونکہ یہ سب عظیم ترین نیک اعمال اورقربت الہی کے بہترین وسائل میں سے ہیں-
رہا آپ r کے جاہ ومرتبہ سے , یا آپ کی ذات سے , یا آپ کے حق سے ,یا دیگرانبیاء اورصالحین کے جاہ ومرتبہ سے, یا ان کی ذات سے ,یا ان کےحق سے وسیلہ لینا, تویہ سب بدعت ہیں, شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں ,بلکہ یہ شرک کے اسباب ووسائل میں سے ہیں , کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا نہیں کیا ,جبکہ وہ نبی کریم r سے اورآپکے حق سے سب سے زیادہ واقف تھے , اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو انہوں نے ہم سے پہلے اسے کیا ہوتا , اورایسے ہی جب امیر المومنین عمربن خطاب t کے دورخلافت میں ایک بار قحط پڑا تو لوگوں نے نبی r کی قبرکے پاس جاکرآپکا وسیلہ نہیں لیا اورنہ آپ کی قبر کے پاس دعا کی ,بلکہ عمرt نے آپ کےچچا عباس بن عبد المطلب t کی دعا کے وسیلہ سے بارش طلب کی , چنانچہ وہ منبر پر کھڑے ہوئے اورفرمایا : اے اللہ! جب ہم اپنے نبی کے دور میں قحط کا شکارہوتے تھے تو اپنے نبی کے وسیلہ سے تجھ سے بارش طلب کرتے تھے اورتو ہمیں سیراب کرتا تھا ,اب ہم اپنے نبی کے چچا کے وسیلہ سے تجہ سے بارش طلب کررہے ہیں پس تو ہمیں سیراب کر, اورپھر بارش ہوتی تھی (صحیح بخاری)
پھر انہوں نے عباس t کودعاکرنے کاحکم دیا ,انہوں نے دعاکی اورتمام مسلمانوں نے ان کی دعاپر آمین کہی اوراللہ نے لوگوں کو سیراب کیا-

اس سلسلہ میں غاروالوں کا قصہ بھی مشہور ہے جو صحیحین میں مروی ہے , جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے تین آدمیوں نے بارش کی وجہ سے رات گزارنے کے لئے ایک غارمیں پناہ لی , جب وہ غارمیں داخل ہوگئے تو پہاڑ سے ایک چٹان کھسک کر آئی جس سے غارکا منہ بند ہوگیا اوروہ اسے ہٹا نہ سکے , چنانچہ انہوں نے باہم یہ طے کیا کہ اس مصیبت سے نجات پانے کا صرف ایک راستہ ہے ,وہ یہ کہ ہم میں سے ھر شخص اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ سے دعا وفریاد کرے , چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ,ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا وسیلہ لیا,دوسرے نے زنا پر قادرہونے کے باوجود اپنی پاکدامنی کا اورتیسرے نے اپنی امانتداری کا وسیلہ لیا , آخر کا راللہ نے چٹان کو ہٹادی اوروہ باہر نکل آئے , یہ قصہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ نیک اعمال مشکلات ومصائب سے نجات اوردنیا وآخرت کی سختیوں سے عافیت کے عظیم ترین اسباب میں سے ہیں –
پس معلوم ہواکہ کسی شخص کے جاہ ومرتبہ سے , یا اس کی ذات سے ,یا اسکے حق سے وسیلہ لینا مذموم بدعت اورشرک کے وسائل میں سے ہے – رہا مرد ے کوپکارنا اوراس سے فریاد کرنا تویہ شرک اکبرہے –
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی r کی زندگی میں قحط کے زمانہ میں آپ سے بارش کے لئے دعا کی درخواست کرتے , اوراپنے نفع بخش امور میں آپ سے شفارش کرواتے تھے , لیکن جب آپ کی وفات ہوگئی تو اس کے بعد انہوں نے آپ سے کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا , اورنہ ہی شفاعت وغیرہ طلب کرنے کے لئے وہ کبھی آپ کی قبر پر آئے , کیونکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ آپ کی وفات کے بعد یہ چیز جائز نہیں , بلکہ یہ چیز آپ کی وفات کے پہلے آپ کی زندگی تک مخصوص تھی , اب اسکے بعد قیامت کے دن ہی آپ سے شفاعت طلب کی جائے گی , جیساکہ صحیحین میں ثابت ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مومن آدم ,نوح, ابراہیم ,موسى اورعیسى علیہم السلام کے پاس جائیں گے تاکہ یہ ان کے لئے شفارش کریں کہ اللہ انکا حساب وکتاب شروع کرے اوروہ جنت میں داخل ہوں , توان میں سے ہر شخص نفسی نفسی کہ کرمعذرت کردے گا اوردوسرے کے پاس بھیج دے گا, اورجب آخرمیں یہ لوگ عیسى علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے تو وہ معذرت کرتے ہوئے ہمارے نبی محمد r کی طرف رہنمائی کردیں گے , یہاں تک کہ جب لوگ آپ کے پاس پہنچیں گے تو آپ اللہ کے وعدہ کے مطابق فرمائیں گے :" میں ہی اس کے لئے ہوں ,میں ہی اس کے لئے ہوں " پھر آپ جائیں گے اوراللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے اورکثرت سے اس کی حمد وتعریف کریں گے ,یہاں تک کہ آپ سے کہا جائیگا ": سر اٹھاؤ اورکہو بات سنی جائے گی , مانگو دیا جائے گا اورسفارش کرو قبول کی جائے گی "
یہی حدیث شفاعت ہے اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کا ذکر اللہ نے ذیل کی آیت میں کیا ہے :﴿ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا} (79) سورة الإسراء
عنقریب تیرارب تجھے مقام محمود پرپہنچادیگا –
اللہ آپ پر اور آپ کے آل واصحاب پر اور آپ کی سچی اتباع کرنے والوں پر رحمت وسلامتی نازل فرمائے, اورہمیں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے ,بیشک وہ سننے والا اورقریب ہے –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 3:
دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جن کا شمار امت مسلمہ میں ہوتا ہے کلمۂ لا إلہ إلا اللہ کے معنی ومفہوم سے ناواقف ہوتے ہیں , جس کے نتیجہ میں ان سے ایسے ایسے اقوال وافعال سرزد ہوجاتے ہیں جوکلمہ کے سراسر منافی یا اس میں نقص کا سبب ہوتے ہیں , سوال یہ ہے کہ لا الہ إلا اللہ کا صحیح مفہوم ,نیز اس کے تقاضے اوراس کی شرطیں کیا ہیں ؟
جواب :
کلمۂ لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ یقیناً دین کی بنیاد اوراسلام کا پہلا رکن ہے , جیسا کہ صحیح حدیث میں مروی ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا : "اسلام کی بنیادیں پانچ چیزوں پر ہے : " اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , اورمحمد r اللہ کے رسول ہیں , نمازقائم کرنا ,زکو'ۃ ادا کرنا ,ماہ رمضان کے روزے رکھنا ,اوربیت اللہ کا حج کرنا " (متفق علیہ بروایت ابن عمر d)
اورصحیحین ہی میں عبد اللہ بن عباس d سے مروی ہے کہ نبی r نے معاذ t کو یمن بھیجتے وقت ان سے فرمایا :" تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں , تو تم سب سے پہلے انہیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اورمیں اللہ کا رسول ہوں , جب وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے رات اوردن میں ان کے اوپر پانچ نمازیں فرض کی ہیں , اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان کے اوپر زکو'ۃ فرض کیا ہے جوان کے مالداروں سے لی جائے گی اورانہی کے غریبوں میں تقسیم کردی جائے گی"(متفق علیہ)
اس سلسلہ میں اور بھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں –
کلمۂ لاالہ الااللہ کی شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , اس کلمہ سے اللہ کے سوا ہرچیز سے سچی الوہیت کی نفی ,اورخالص اللہ کے لئے اسکا اثبات ہوتا ہے ,اللہ تعالى کا ارشاد ہے :﴿ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ } (62) سورة الحـج
یہ اس لئے کہ اللہ ہی سچا معبود ہے , اوراسکے سوایہ لوگ جس کو پکارتے ہیں وہ باطل ہے –
اورفرمایا :﴿ وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ} (117) سورة المؤمنون
اورجوشخص اللہ کےساتھ کسی دوسرے معبود کوپکارے گا جس کی کوئی دلیل اسکے پاس نہیں ہے , تو اللہ ہی کے پاس اسکا حساب ہونا ہے , بے شک کافر کامیاب نہیں ہوں گے-
اورفرمایا :﴿ وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لاَّ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ} (163) سورة البقرة
لوگو! تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے , اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ,وہ بہت رحم کرنے والا,مہربان ہے-
اورفرمایا :﴿ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء } (5) سورة البينة
حالانکہ انہیں یہی حکم ہوا تھا کہ وہ یکسو ہو کرخالص اللہ کی بندگی کریں –
اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں وارد ہیں –
یہ کلمہ کسی شخص کے لئے اسی وقت نفع بخش ہوگا اوراسے شرک سے نکال کردائرہ اسلام میں داخل کرے گا جب وہ اسے زبان سے ادا کرنے کے ساتہ ہی اسکے معنی ومفہوم سے واقف ہو , اور اسکی تصدیق کرتے ہوئے اس پرعمل کرے , منافقین زبان سے یہ کلمہ پڑہتے تھے مگر اس کے باوجود وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے , کیونکہ انہوں نے نہ اس کی تصدیق کی اورنہ اس پر عمل کیا ,اسی طرح یہود بھی اس کلمہ کے قائل تھے مگر اس کے باوجود وہ انتہائی درجہ کے کافر شمارہوئے , کیونکہ ان کا اس پرایمان نہیں تھا , اسی طرح اس امت میں قبروں اورولیوں کی پرستش کرنے والے کافر,یہ بھی زبان سے اس کلمہ کو پڑہتے ہیں ,مگراپنے اقوال وافعال اورعقائد سے اس کی صریح مخالفت کرتے ہیں , لہذا ایسے لوگوں کے لئے یہ کلمہ نہ تو فائدہ مند ہوگا اورنہ ہی اسے محض زبان سے کہ لینے سے وہ مسلمان ہو جائیں گے , کیونکہ انہوں نے اپنے اقوال وافعال اورعقائد سے اسکی کھلی مخالفت کی ہے –
بعض اہل علم نے کلمۂ شہادت کی آٹہ شرطیں بتائی ہیں اورانہیں درج ذیل دو شعروں میں یکجا کردیا ہے :
علم يقين وإخلاص وصدقك معَ محبة وانقياد والقبول لها
وزِيدَ ثامنها الكفران منك بما سِوى الإله من الأشياء قدألها

يعنی علم, یقین, اخلاص ,صدق ,محبت ,تابعداری,اوراس کی قبولیت ,اور مزید آٹھویں شرط اللہ کے سوا جن جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے انکا انکار-
ان دونوں شعروں میں کلمہ کی تمام شرطوں کو جمع کردیا گیا ہے , اوران کی تفصیل درج ذیل ہے :
1- اس کے معنی کا علم جوجہالت کے منافی ہو , جبسا کہ اوپر گزرچکا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں , پس اللہ کے سوا جن جن معبودوں کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ سب کے سب باطل ہیں –
2-یقین جو شک کے منافی ہو, پس کلمہ پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسکا اس بات پر کامل یقین ہو کہ اللہ تعالی ہی معبود برحق ہے –
3-اخلاص ,اور یہ اس طرح کہ بندہ اپنی ساری عبادتیں خالص اپنے مالک اللہ کے لئے کرے, اگر اس نے عبادت کی کوئی بھی قسم اللہ کے سوا کسی نبی ,یا ولی ,یافرشتہ ,یا بت یا جن وغیرہ کے لئے کی تو وہ اللہ کے ساتہ شرک کرنے والا ہوگا اوراس کے کلمہ شہادت سے اخلاص کی شرط مفقود ہوگی –
4-صدق ,یعنی وہ اس کلمہ کے اقرارمیں سچا ہو,اسکا دل اسکی زبان سے , اوراسکی زبان اسکے دل سے ہم آہنگ ہو, اگر اس نے زبان سے اسے پڑھ لیا مگر دل میں اسکی تصدیق نہیں تویہ اس کے لئے سود مند نہیں , اوروہ دیگر منافقوں کی طرح کافر شمار ہوگا-
5- محبت, یعنی وہ اللہ تعالى سے محبت رکھے , اگر اس نے اسے زبان سے پڑھ لیا مگر اسکا دل اللہ کی محبت سے خالی ہے تو وہ منافقوں کی طرح کافر اوراسلام سے خارج شمارہوگا – اور اس کی دلیل اللہ تعالى کا یہ فرمان ہے
:﴿ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ } (31) سورة آل عمران
(اے پیغمبر) آپ کہ دیجئے کہ اگرتمہیں اللہ سےمحبت ہے تو میری اتباع کرو, اور فرمایا:﴿ {وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ } (165) سورة البقرة
اورکچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو شریک بناتے ہیں اوروہ اللہ کے برابر ان سے محبت رکھتے ہیں , اورجو ایمان والے ہیں وہ اللہ سے محبت رکھنے میں سب سے زیادہ ہیں –
اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں موجود ہیں –
6-اس کے معنی ومدلول کی تابعداری ,یعنی وہ صرف اللہ کی عبادت کرے, اس کی شریعت کا تابعدارہو,اس پرایمان لائے اوریہ اعتقاد رکھے کہ یہی حق ہے ,اگراس نے کلمہ پڑھ لیا , لیکن خالص اللہ کی بندگی نہیں کی اورنہ ہی اسکی شریعت کی تابعداری کی , بلکہ غرور وتکبرسےکام لیا تو وہ ابلیس اوراس کے مانند لوگوں کی طرح مسلمان نہیں ہوگا-
7-اس کے معنی ومدلول کی قبولیت ,یعنی وہ اس بات کو قبول کرے کہ اللہ کے سوا ہرچیز کی عبادت کوچھوڑ کرخالص اسی کی بندگی کرنا ہے اوریہی کلمہ کا مدلول ہے, نیز وہ اسکا التزام کرے اوراس سے مطمئن ہو-
8-اللہ کے سوا تمام چیزوں کی عبادت کا انکار, یعنی وہ غیراللہ کی عبادت سےکنارہ کش ہو اوریہ اعتقاد رکھے کہ غیراللہ کی عبادت باطل ہے ,جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے :﴿ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} (256) سورة البقرة
پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اوراللہ پرایمان لے آئے , تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں , اوراللہ سننے والا ,جاننے والا ہے-
اوررسول r سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :"جس شخص نے لاالہ الا اللہ کہا ,اوراللہ کے سوا تما م چیزوں کی عبادت کا انکار کیا,تو اسکا مال اوراسکا خون حرام ہوگیا , اوراسکا حساب اللہ کے حوالے ہے "(صحیح مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا :"جس نے اللہ کو ایک جانا, اوراللہ کے سوا تما م چیزوں کی عبادت کا انکارکیا ,تو اسکا مال اور اسکا خون حرام ہوگیا" (صحیح مسلم)
لہذا تمام مسلمانوں پرواجب ہے کہ وہ مذکورہ بالا شرطوں کی رعایت کرتے ہوئے کلمۂ طیبہ کے تقاضے پورے کریں , اورجب کسی شخص نے اسکے معنی کو سمجھ لیا اوراس پر کاربند ہوگیا تواب وہ حقیقی مسلمان ہے جسکا مال اورخون حرام ہے , اگرچہ وہ ان شرطوں کی تفصیلات سے واقف نہ ہو,کیونکہ حق بات کا جاننا اوراس پر عمل کرنا ہی مقصود ہے – مذکورہ آیت میں "طاغوت" سے مرا د ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے , چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا } (256) سورة البقرة
پس جو کوئی طاغوت کا انکار کردے, اوراللہ پرایمان لے آئے ,تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جوٹوٹنے والانہیں –
اورفرمایا﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ َ} (36) سورة النحل
اورہم نے ہر قوم میں ایک پیغمبر(یہ حکم دےکر) بھیج چکے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے بچے رہو-
البتہ وہ لوگ جن کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے اوروہ اس سے قطعاً راضی نہیں ,مثلا ً انبیاء ,صالحین اورفرشتے ,تویہ طاغوت نہیں ہیں, بلکہ ایسی صورت میں طاغوت درحقیقت شیطان ہے جس نے ان کی عبادت کو لوگوں کے لئے مزین کیا اوراسکی دعوت دی ,ہماری دعا ہےکہ اللہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو ہربلا سے محفوظ رکھے (آمین)-
رہے وہ اعمال جو کلمہ لا الہ الا اللہ کے کلی طورپر منافی ہیں, اوروہ اعمال جوکلی طور پرنہیں بلکہ کمال توحید کے منافی ہیں, توان کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہر وہ عمل ,یا قول ,یا اعتقاد جوانسان کوشرک اکبر میں مبتلا کردے وہ کلی طورپر کلمہ کے منافی ہے , جیسے مردوں ,فرشتوں,بتوں ,درختوں ,پتھروں اور ستاروں وغیرہ کوپکارنا ,ان کے لئے قربانی کرنا, نذرماننا اورانہیں سجدہ کرنا وغیرہ ,یہ سارے کام کلی طور پر توحید کی ضداوراسکے منافی ہیں , اوران سے کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار باطل ہوجاتا ہے –
اور اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو حرام قراردیا ہے اوردین میں ان کی حرمت بالکل واضح اورمسَلّم ہے انہیں حلال سمجھنا , جیسے زناکاری ,شراب نوشی,والدین کی نافرمانی ,اور سود خوری وغیرہ , نیز اللہ نے جواقوال وافعال واجب قراردئیے ہیں , اوردین میں ان کی فرضیت بالکل واضح اورمسلم ہے انکا انکار ,جیسے پنج وقتہ نماز, زکو'ۃ ,رمضان کے روزے ,والدین کےساتھ حسن سلوک ,اور شہادتین کے اقرار کی فرضیت کا انکار-
رہے وہ اقوال واعمال اورعقائد جوایمان اورتوحید میں کمزوری کا سبب, اوراس کے واجبی کمال کے منافی ہیں , تو یہ بہت سے ہیں , انہیں میں سے ایک شرک اصغر ہے جیسے ریاکاری ,غیراللہ کی قسم کھانا , اوریہ کہنا کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے ,یایہ اللہ کیطرف سے اور فلاں کی طرف سے ہے , وغیرہ – اوریہی حکم تمام معصیت اورگناہوں کابھی ہے, یہ بھی توحید اورایمان میں کمزوری کاسبب اور اس کے واجبی کمال کے منافی ہیں , لہذا ان تمام اقوال وافعال اورعقائد سے دور رہنا واجب ہے جو کلی طورپر توحید اور ایمان کے منافی ہیں یا ان کے ثواب میں کمی کا باعث ہیں –
اہل سنت وجماعت کے نزدیک ایمان قول وعمل کامجموعہ ہے, جو اطاعت سے بڑھتا اورمعصیت سے گھٹتا ہے , اوراس کی دلیلیں بے شمار ہیں , جنہیں اہل علم نے عقیدہ وتفسیر اورحدیث کی کتابوں میں وضاحت سے ذکر کیا ہے , جو ان کتابوں کی طرف رجوع کرے گا وہ ان ساری دلیلوں سے ضرور واقف ہوگا ,انہی دلیلوں میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے:﴿ وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ } (124) سورة التوبة
اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کس کے ایمان کو اس سورت نے بڑھادیا ,تو جو لوگ ایمان والے ہیں انہی کے ایمان کو اس سورت نے بڑھا یا اوروہی خوشی مناتے ہیں –
اورفرمایا :﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ} (2) سورة الأنفال
مومن تو وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے توان کے دل دہل جاتے ہیں , اورجب ان کے سامنے اس کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تویہ ان کے ایمان کو بڑھادیتی ہیں , اوروہ اپنے رب ہی پربھروسہ کرتے ہیں –
اورفرمایا :﴿ وَيَزِيدُ اللَّهُ الَّذِينَ اهْتَدَوْا هُدًى } (76) سورة مريم
اورجولوگ ہدایت یافتہ ہیں انہیں اللہ مزید ہدایت سے نوازتا ہے –اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں موجود ہیں –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 4-
موجوده دورميں اللہ کے وجود اوراسکی ربوبیت کوثابت کرنے کیلئے مقالات ,تالیفات اورمحاضرات کا کثرت سے اہتمام کیا جاتا ہے ,مگر توحید الوہیت جو اسکا لازم اورتقاضا ہے اس کے اثبات کے لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاتا, جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان توحیدالوہیت سے ناواقفیت ,اوراس سلسلہ میں سستی وکاہلی پائی جاتی ہے , اس لئے بہترہوگا کہ آپ توحید الوہیت پر اس پہلو سے روشنی ڈال دیں کہ یہی مدارنجات اورسارے رسولوں کی دعوت کانقطہ آغازہے, نیزیہی وہ بنیاد ہے جس پردین کے دوسرے امور قائم ہیں؟
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالى نے بندوں پراپنے حق کوواضح کرنے اورانہیں غیراللہ کو چھوڑ کرخالص اللہ کی عبادت کی طرف بلانے ہی کے لئے دنیا میں رسولوں کو بھیجااورآسمان سے کتابیں اتاریں,کیونکہ اس روئے زمین پر بسنے والوں میں اکثرلوگوں نے اس بات کوتوجاناکہ اللہ ہی انکا خالق ومالک اوررازق ہے, مگر جہالت ونادانی اورآباء واجدادکی تقلید میں اپنی ساری یا بعض عبادتوں کوغیراللہ کےلئے انجام دیکروہ شرک کے مرتکب ہوئے , جیساکہ نوح علیہ السلام اوران کے بعد کی قوموں,نیز اس امت کے پہلے لوگوں کے ساتہ پیش آیا,چنانچہ رسول rنے جب انہیں اللہ کی توحید کی دعوت دی تو انھوں نے آپ کی دعوت کو ناپسند کیا اوراس کا انکار کرتے ہوئے کہا:﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ} (5) سورة ص
کیا اس نے سارے معبودوں کوایک معبود بنا دیا ,یہ تو بڑی انوکھی بات ہے-
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالى کا ارشاد ہے:﴿ إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ} (35 -36) سورة الصافات
ان لوگوں سےجب کہاجاتا ہے کہ لاالہ الا اللہ کہو تو اکڑ بیٹھتے تھے, اورکہتے تھے کہ کیا ایک باؤلے شاعر کے کہنے سے ہم اپنے دیوتاؤں کو چھوڑدیں گے.
اورفرمایا:﴿ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ} (23) سورة الزخرف
ہم نے اپنے باب دادا کو ایک دین پرپایا ہے اورہم توانہیں کے قدم بقدم چلنے والے ہیں –
اسی مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں موجود ہیں –لہذا علمائے اسلام اورداعیان حق پرواجب ہے کہ وہ لوگوں کوتوحید الوہیت کی حقیقت بتائیں ,نیزتوحید الوہیت کے درمیان اورتوحید ربوبیت اورتوحید اسماء وصفات کے درمیان فرق واضح کریں , کیونکہ غیرمسلموں سے قطع نظرخود بہت سے مسلمان اس سے ناواقف ہیں –
چنانچہ کفارقریش ,دیگرعرب اوراکثرقوم کے لوگ یہ جانتے تھے کہ اللہ ہی ان کا خالق اوررازق ہے,اسی لئے اللہ نے ان پر اسی بات سے حجت قائم کی ہے ,کیونکہ اللہ عزوجل بندوں کی عبادت کا مستحق اسی لئے ہے کہ وہ ان کا خالق ,رازق اورپورے طور ان پر قادرہے ,اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } (87) سورة الزخرف
اوراگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ,تویہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے –
اورفرمایا :﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ } (61) سورة العنكبوت
اوراگرآپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اورزمین کس نے پیدا کئے, اورسورج اورچاند کو کس نے کام میں لگایا توضروریہی کہیں گے کہ اللہ نے –

اور اللہ نے اپنے نبی r کو یہ حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان سے پوچھیں انہیں روزی کون دیتا ہے :﴿ قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ} (31) سورة يونس
(اے پیغمبر) آپ ان سے پوچھیں تو سہی کہ تم کو آسمان اورزمین سے کون روزی دیتا ہے, یا تمہارے کانوں اورآنکھوں کا کون مالک ہے , اورمردہ سے زندہ ,اورزندہ سے مردہ کون نکالتا ہے ,اوردنیا کے کاموں کو کون چلاتا ہے , تویہ ضرورکہیں گے کہ اللہ , پھر آپ کہیں کہ تب تم اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے –اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیتیں موجود ہیں , جن میں اللہ تعالى نے کافروں کے توحید الوہیت کے انکار, نیز بتوں اوراللہ کے سوا پوجی جانے والی ہرچیز کی عبادت کے بطلان پرخود ان کے توحید ربوبیت کے اسی قرارکے ذریعہ ان پرحجت قائم کی ہے –
اسی طرح اللہ تعالى نے بندوں کویہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ اسکے اسماء اورصفات پرایما ن لائیں , اورمخلوق کی مشابہت سے اسے پاک رکھیں ,چنانچہ فرمایا: {وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا } (180) سورة الأعراف
اوراللہ کے اچھے اچھے نام ہیں , تو اسے انہی ناموں سے پکارو-
اورفرمایا:﴿ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (22) {هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ }(23) {هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} (24) سورة الحشر
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں, وہ چپھی اورکھلی سب باتیں جاننے والاہے, وہ بہت رحم والا,مہربان ہے, اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں, وہ سارے جہان کا بادشاہ , ہرعیب سے پاک , سلامتی والا, بندوں کو امن دینے والا, ہرچیز کی نگہبانی کرنےوالا, زبردست ,بڑے دباؤوالا, اوربڑائی والاہے, اللہ ان مشرکوں کے شرک سے پاک ہے , وہ اللہ ہرچیز کا بنانے والا,پیدا کرنے والااورنقشہ کھیچنےوالاہے, اس کے اچھے اچھے نام ہیں , آسمان اورزمین میں جتنی چیزیں ہیں سب اس کی پاکی بیان کررہی ہیں , اوروہ زبردست اورحکمت والا ہے-
اورفرمایا :﴿ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ(3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ} 4 سورة الإخلاص
(اے پیغمبر) کہ دیجئے وہ اللہ ایک ہے ,اللہ بے نیازہے, نہ اس نے کسی کو جنا اورنہ اسے کسی نے جنا ہے, اورنہ ہی اسکا کوئی ہمسرہے-
اورفرمایا :﴿ فَلاَ تَجْعَلُواْ لِلّهِ أَندَاداً وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ} (22) سورة البقرة
توجان بوجہ کرکسی کو اللہ کے برابرمت بناؤ-
اورفرمایا ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ} (11) سورة الشورى
اس کی طرح کوئی چیز نہیں, اوروہ سننے والا ,دیکھنے والاہے-

اس معنی کی اوربھی بہت سی آیتیں واردہیں-
علمائے کرام نے یہ بات وضاحت کے ساتہ بیان کی ہے کہ توحید ربوبیت ,توحید الوہیت یعنی صرف اللہ کی عبادت کرنے کو مستلزم ہے , نیزیہ اسکا لازمہ اورتقاضہ ہے, یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالى نے کافروں پر اسی بات سے حجت قائم کی ہے , اسی طرح توحید اسماء وصفات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ساری عبادتیں اللہ کے ساتہ خاص کردی جائیں , کیونکہ وہی اپنی ذات اوراسماء وصفات میں باکمال ,اوربندوں کا منعم ہے ,لہذا وہی اس بات کا سزاوار ہےکہ لوگ اس کی عبادت کریں , اسکے اوامرکوبجالائیں, اورنواہی سے اجتناب کریں-
رہی بات توحید عبادت(توحید الوہیت) کی تواگر کوئی شخص اسے علم وعمل دونوں لحاظ سے اپناکرکاربند ہوجائے تویہ توحید کی باقی دونوں قسموں کوبھی شامل ہے ,جیساکہ علماء کرام نے اس بات کو عقیدہ اورتفسیرکی کتالوں مین تفصیل کے ساتہ بیان کیا ہے, مثلاتفسیرطبری,تفسیرابن کثیر, تفسیربغوی, عبد اللہ بن امام احمد کی کتاب السنۃ,امام ابن خزیمہ کی کتاب التوحید ,اورعلامہ عثمان بن سعید دارمی کی وہ کتاب جسے انہوں نے بشرمریسی کے رد میں لکھی ہے ,نیزدیگرعلماء سلف کی کتابیں-
اس موضوع پرجن لوگوں نے بہترین کام کیا ہے ان میں شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور انکے شاگرد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ہیں, اوراسی طرح بارہویں صدی ہجری اوراسکے بعد کے دورمین ائمہ دعوت وتوحید مثلا امام محمدبن عبد الوہاب رحمہ اللہ , ان کےآل واحفاد اورتلامذہ نیزان کے منہج پرچلنے والے دیگرعلماء سنت ہیں-
اس موضوع پر لکھی گئی بہترین کتابوں میں "فتح المجید" اوراسکی اصل "تیسیرالعزیزالحمید" ہے , پہلی کتاب شیخ عبد الرحمن بن حسن رحمہ اللہ کی , اوردوسری شیخ سلیمان بن عبد اللہ آل شیخ رحمہ اللہ کی تالیف ہے-
نیز اس موضوع پر بہترین مجموعہ کتاب"الدررالسنیّۃ" کے پہلے اجزاء ہیں, ان میں علامہ شیخ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ نے آل شیخ کے ائمہ دعوت اوربارہویں صدی ہجری اوراسکے بعد کے دیگر علماءکے عقیدہ اوراحکام سے متعلق فتاوے جمع کئے ہیں , میری نصیحت ہےکہ ان کتابوں کےاوران کے علاوہ علماء سنت کی دیگرکتابوں کے مطالعہ کا اہتمام کیا جائے , کیونکہ ان میں بڑے فوائد ہیں-
انہی مفید کتابوں میں سے" مجموعۃ الرسائل الاولی"ہے جوآل شیخ کے ائمہ دعوت اوردیگرعلماء کے رسالوں کا مجموعہ ہے , اورشیخ عبد الرحمن بن حسن ,شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن ,شیخ عبداللہ ابابطین, شیخ سلیمان بن سحمان ,اوردیگرائمہ توحید کی وہ مولفات ہیں جو اہل باطل کی تردید میں لکھی گئی ہیں, یہ کتابیں بڑی مفید ہیں کیونکہ یہ علمی فوائد کے ساتھ اہل باطل کے بہت سارے شکوک وشبہات کے تردید وازالہ پر مشتمل ہیں, اللہ ان علماء وائمہ کو اپنی وسیع رحمت سے نوازے , انہیں جنت میں جگہ دے , اورہمیں ان کی سچی اتباع کرنے کی توفیق دے-
اسی طرح "مجلہ البحوث الاسلامیۃ"جورئاست عامہ برائے علمی تحقیقات وافتاء ودعوت وارشاد سے صادرہوتا ہے , اسکے شمارے بھی قابل مطالعہ ہیں , جو عقیدہ واحکام سے متعلق گرانقدر علمی تحقیقات اوربے شمار فوائد پرمشتمل ہوتے ہیں –
ایسے ہی میرے فتاوے اورمقالات کے ابتدائی اجزاء جوعقیدہ سے متعلق ہوتے ہیں یہ بھی بہت مفید ہیں , الحمدللہ یہ سب کتابیں مطبوع اورطلبہ علم کے درمیان متداول ہیں , اللہ ان کی افادیت کو عام کرے-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 5:
بعض لوگ علماء اور صالحین اوران کے آثار سے تبرک چاہنے کوجائزسمجھتے ہیں , اوران کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی r سے تبرک حاصل کیا ہے, تو اسکا کیا حکم ہے؟کیا ایساکرنا غیرنبی کونبی صr کے ساتھ تشبیہ دینا نہیں ہے؟ اورکیا نبی r سے آپ کی وفات کے بعد تبرک حاصل کیا جاسکتا ہے؟ نیز نبی r کی برکت کا وسیلہ لینا کیسا ہے ؟
جواب:
نبی r کے علاوہ کسی اورکی ذات سے, یا اس کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے , یا اس کے بال سے , یا اسکے پسینے سے, یا اس کے بدن کے کسی بھی حصہ سے تبرک چاہنا جائزنہیں, یہ ساری چیزیں آپ کے لئے خاص تھیں ,کیونکہ اللہ نے آپ کے جسم میں اورجس چیز پر آپکا دست مبارک لگ جاتا تھا اس میں خیروبرکت دے رکھی تھی-
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کی زندگی میں اورآپ کی وفات کے بعد کبھی کسی صحابی سے تبرک نہیں چاہا ,اورنہ ہی خلفائے راشدین وغیرہم کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ,جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں پتہ تھا کہ یہ چیز نبی r کے ساتہ خاص ہے , کسی اورکے لئے جائز نہیں , اوراسلئے بھی جائزنہیں کہ یہ غیراللہ کی عبادت اورشرک کا ذریعہ ہے , اسی طرح نبی r کے جاہ ومرتبہ ,یا آپ کی ذات ,یاصفات , یا برکت کے وسیلہ سے دعا کرنا بھی جائزنہین , کیونکہ اس چیزکی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ,نیز یہ آپ کے حق میں غلو اورشرک کا ذریعہ ہے, اوراس لئے بھی کہ صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا ,اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی توہم سے پہلے انہوں نے اسے کیا ہوتا ,اوریہ اس لئے بھی جائز نہیں کہ یہ شرعی دلیلوں کے خلاف ہے,جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا } (180) سورة الأعراف
اوراللہ کے اچھےاچھے نام ہیں ,تو اسکو انہی ناموں سے پکارو-
اللہ نے کسی کے جاہ ,یا حق ,یا برکت کے وسیلہ سے دعا کرنے کا حکم نہیں دیا ہے –
اسی طرح اللہ کی صفات مثلاً اس کی عزت ,رحمت ,اورکلام وغیرہ سے وسیلہ لینے کا حکم بھی وہی ہے جو اسکے اسماء کا ہے, جیساکہ متعدد صحیح حدیثوں میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعہ اوراللہ کی عزت وقدرت کے ذریعہ پناہ مانگنے کا ذکر موجود ہے –
اوریہی حکم اللہ کی محبت , اس کے رسول کی محبت,اللہ اوراسکے رسول پر ایمان, اورنیک اعمال سے وسیلہ لینے کا بھی ہے, جیساکہ غاروالوں کے قصہ میں موجود ہے , جسکا خلاصہ یہ ہے کہ بارش کی وجہ سے تین آدمیوں نے رات گزارنے کے لئے ایک غارمیں پناہ لی , جب وہ غار میں داخل ہوگئے تو پہاڑ سے ایک چٹان کھسک کر آئی , جس سے غارکا منہ بند ہوگیا اوروہ اسے ہٹا نہ سکے , چنانچہ انہوں نے باہم یہ طے کیا کہ اس مصیبت سےچھٹکارا پانے کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم میں سے ہرایک اپنے اپنے نیک عمل کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کرے , چنانچہ ایک نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا وسیلہ لیا , توچٹان کچہ ہٹ گئی لیکن ابھی اس سے نکلنا ناممکن تھا, پھر دوسرے نے زناپرقادرہونے کے باوجود اپنی پاکدامنی کا وسیلہ لیا , توچٹان کچھ اورہٹ گئی مگرابھی وہ نکل نہیں سکتے تھے , پھرتیسرے نے اپنی امانت کی ادائیگی کا وسیلہ لیا توچٹان مکمل ہٹ گئی اوروہ غارسے صحیح وسالم باہرنکل آئے –

یہ حدیث صحیحین میں نبی r سے ثابت ہے , آپ r نے ہماری عبرت اورنصیحت کی خاطراگلے لوگوں کے واقعات کے ضمن میں اسکا تذکرہ کیا ہے-
اس جواب میں جو کچہ میں نے ذکرکیا ہے متعدد علماء مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ اوران کے شاگرد علامہ ابن قیم ,نیز شیخ عبد الرحمن بن حسن وغیرہم رحمہم اللہ –نے اپنی اپنی کتابوں میں اسی بات کی صراحت کی ہے –
رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک نابینا شخص نے نبی r کی زندگی میں آپ کاوسیلہ لیا, پھر آپ r نے اللہ سے اسکے لئے سفارش اوردعا کی اوراللہ نے اس کی بینائی واپس کردی , تویہ نبی r کی جاہ اورحق کا وسیلہ نہیں , بلکہ آپ کی دعا اورسفارش کا وسیلہ ہے ,جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے, اور اسی طرح قیامت کے دن لوگ حساب وکتاب شروع ہونے کے لئے , اورجنتی اپنے جنت میں داخل ہونے کئلئے آپ کی شفاعت کا وسیلہ اختیارکریں گے , یہ سب آپ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ اختیارکرنےکی صورتیں ہیں , خواہ دنیا کی زندگی ہویا آخرت کی , نیزیہ آپ کی دعا اورشفاعت کا وسیلہ ہے , نہ کہ آپ کی ذات اورحق کا وسیلہ ,جیساکہ اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے , جن میں سے بعض کا نام ابھی مذکورہواہے-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال6:
بہت سے عوام عقیدہ توحید سے متعلق بڑی بڑی غلطیاں کربیٹھتے ہیں ,توایسے لوگوں کا کیا حکم ہے؟اورکیا وہ اپنی جہالت کی وجہ سے معذور تصورکئے جائیں گے ؟ نیز ان سے شادی بیاہ کرنے اوران کا ذبیحہ کھانے کا کیا حکم ہے ؟ اورکیا مکہ مکرمہ میں انکا داخل ہونا درست ہے؟
جواب:
جس شخص کے بارے میں معلوم ہوکہ وہ مردوں کوپکارتا ,ان سے فریاد کرتا ,ان کے لئےنذرمانتا ,اوراس طرح کی دیگرعبادتیں ان کیلئے کرتا ہے تو وہ مشرک اورکا فرہے, نہ تو اس سے شادی بیاہ کرنا درست ہے , اورنہ اسکا مسجد حرام میں داخل ہونا جائزہے , اورنہ ہی اس کے ساتہ مسلمانوں جیساکوئی سلوگ کیا جائیگا ,بھلے وہ ان باتوں سے اپنی لاعلمی کا دعوى'کرے ,یہاں تک کہ وہ اللہ سے توبہ کرلے,اللہ تعالى کا ارشاد ہے:﴿وَلاَ تَنكِحُواْ الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلاَ تُنكِحُواْ الْمُشِرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُواْ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ } (221) سورة البقرة
اورمشرک عورتوں سے نکا ح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں , اورشرک کرنے والی عورت گو تم کو بھلی لگے اس سے مسلمان باندی بہترہے , اورمشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مسلمان عورتوں سے انکا نکاح نہ کرو, اورمشرک مرد گو تم کو بھلا لگے اس سے مسلمان غلام بہترہے-
اورفرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ذَلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} (10) سورة الممتحنة
مومنو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ھجرت کرکے آئیں تو ان کا امتحان لےلیا کرو ,اللہ ان کے ایمان کے متعلق خوب جانتا ہے , پھراگر تم جان لوکہ وہ مومن ہیں تو ان کو کافروں کی طرف مت لوٹاؤ,نہ یہ ان کے لئے حلال ہیں , اورنہ وہ ان کے لئے حلال ہیں , اورکافروں نے ان عورتوں پرجو خرچ کیا ہے وہ ان کو دے دو,اوراگرتم ایسی عورتوں کے مہرادا کردو توان سے نکاح لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں , اورکا فرعورتوں کے نکاح کو برقرارمت رکھو, اورتم نے جو ان پرخرچ کیا ہے وہ کافروں سے مانگ لو, اورانہوں نے جو خرچ کیا ہے وہ تم سے مانگ لیں , یہی اللہ کا حکم ہے جس کے ذریعہ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے ,اوراللہ جاننے والا ,حکمت والا ہے-
اور فرمایا :﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا } (28) سورة التوبة
اے مومنو! مشرک تو نجس ہیں لہذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کےٍ نزدیک نہ آنے پائیں –
جولوگ مذکورہ بالا امورسے اپنی جہالت ولاعلمی کا دعوى' کریں تو انکی جہالت کا کوئی اعتبارنہیں ہوگا , بلکہ واجب ہے کہ ان کے ساتھ کافروں جیسا برتاؤکیا جائے یہاں تک کہ وہ اللہ سے توبہ کرلیں, کیونکہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ وَإِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءنَا وَاللّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللّهَ لاَ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء أَتَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ(28) قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُواْ وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ(29) فَرِيقًا هَدَى وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلاَلَةُ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ اللّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ} (30) سورة الأعراف
اورجب یہ لوگ کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کوایسا ہی کرتے پایا , اوراللہ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے , تو اے پیغمبر !کہ دیجئیے کہ اللہ تعالی برےکام کا حکم نہیں دیتا , کیا تم اللہ کے متعلق ایسی بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ,اے پیغمبر!کہ دیجئے میرے مالک نے تو انصاف کا حکم دیا ہے اوریہ کہ جہاں نماز پڑھو اپنے منہ سیدھے کرلو اوراسی کے تابعدارہوکراسکو پکارو, جس طرح اسنے تم کوپہلے پیدا کیا ویسے ہی پھردوبارہ تم پیدا ہوگے , اسی نے ایک گروہ کو راہ پرلگایا , اورایک گروہ کی تقدیرمیں گمراہی مقدر ہوگئی, بیشک انہوں نے اللہ کوچھوڑکرشیطان کواپنا دوست بنایا , اوریہ سمجھتے رہے کہ وہ راہ پرہیں-
نیزنصارى' اوران جیسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:
﴿ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا(103) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا}
( 104) سورة الكهف
اے پیغمبر!کہ دیجئے کیا میں تمہیں ان لوگوں کو بتلاؤں جو عمل کے اعتبارسے بہت گھاٹے میں ہیں , یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں اکارت ہوگئی اوروہ سمجھتے رہےکہ وہ اچھے کام کررہے ہیں-
اس مفہوم کی اوربھی بہت ساری آیتیں وارد ہیں-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال7:
بہت سےاسلامی معاشرے میں دین کے ظاہری شعارمثلاًداڑھی بڑھانے اورلباس کو ٹخنوں سے اوپررکھنے وغیرہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے ,کیا دین کے ساتہ اس طرح کا مذاق کرنے سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے ؟ اورجو اس برائی میں مبتلا ہے اسے آ پ کیا نصیحت فرماتے ہیں؟
جواب :
اللہ اسکے رسول ,اسکی آیتوں ,اسکی شریعت اوراسکے احکام کامذاق اڑانا یقیناً کفرکے اقسام میں سے ہے , اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿ قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ(65)لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِن نَّعْفُ عَن طَآئِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُواْ مُجْرِمِينَ} ( 66) سورة التوبة
اے پیغمبر! کہ دیجئے کیا تم اللہ , اوراسکی آیتوں ,اوراسکے رسول کا مذاق اڑاتے ہو, بہانے مت کرو,تم ایمان لاکرپھرکافرہوگئے-
اسی حکم میں توحید ,یانماز ,یا زکو'ۃ,یاروزہ,یاحج, یادین کے دیگرمتعلقہ احکام کا مذاق اڑانا بھی داخل ہے-
رہا اس شخص کا مذاق اڑانا جو داڑھی لمبی رکھتا ہے,یا اپنے ازارکو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے پرہیزکرتا ہے, یا اس طرح کے دیگر امور جن کا حکم بعض لوگوں پر بسا اوقات واضح نہیں ہوپاتا , تو اسمیں تفصیل ہے , مگر ضروری ہے کہ اس سے بچا جائے , اورجس کے بارے میں اس قسم کی کوئی بات معلوم ہوجائے اسے نصیحت کی جائے , یہاں تک کہ وہ اللہ سے توبہ کرکے شریعت کا پابند ہوجائے ,نیزاللہ اوررسول کی اطاعت میں ,اوراللہ کے غیظ وغضب اورغیرشعوری ارتداد سے بچتے ہوئے شریعت کی پابندی کرنے والوں کا مذاق أڑانے سے بازآجائے, دعاہے کہ اللہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو ہربلاسے محفوظ رکھے ,واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال8:
عقیدہ کے موضوع پر آپ کن کتابوں کے مطالعہ کی نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب:
عقیدہ ,احکام اوراخلاق وغیرہ سیکھنےکے لئے سب سے عمدہ ,سب سے عظیم اورسب سے سچی کتاب جسکا مطالعہ کرنا ضروری ہے وہ اللہ کی کتاب (قرآن ) ہے ,جس میں باطل کا کوئی دخل نہیں, نہ آگے سے نہ پیچھے سے , جوحکمت والے ,تعریف کے لائق مالک کی طرف سے اتاری گئی ہے , جس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يِهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا} (9) سورة الإسراء
بیشک یہ قرآن وہ راہ بتاتا ہے جوبہت ہی ٹھیک ہے , اورمومنوں کو جونیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجرہے-
اورفرمایا:
﴿ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاء }(44) سورة فصلت
اے پیغمبر!کہ دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اورشفا ہے-
اورفرمایا:
﴿ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ} (29) سورة ص
یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پراتارا , جوبڑی برکت والی ہے , تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غورکریں , اورعقل والے اس سے نصیحت لیں-
اورفرمایا :
﴿ وَهَذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} (155) سورة الأنعام
اوریہ ایسی کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا, جوبرکت والی ہے ,پس اس کی پیروی کرو اوراللہ سے ڈرو ,تاکہ تم پررحم کیا جائے –
اورفرمایا :
﴿ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ} (89) سورة النحل
اورہم نے آپ پریہ کتاب اتاری جس میں ہرچیز کا اچھا بیان ہے , اوریہ مسلمانوں کے لئے ہدایت ,رحمت اورخوشخبری ہے-
اس معنی کی اوربھی بہت ساری آیتیں موجود ہیں –
اورصحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم r نے اس قرآن کے متعلق حجۃ الوداع کے موقع پراپنے خطبہ میں فرمایا :
"بے شک میں تمہارے درمیان ایک ابسی چیزچھوڑکرجارہا ہوں کہ اگراسے تم مضبوطی سے تھامے رہوگے توہرگزگمراہ نہیں ہوگے, یعنی اللہ کی کتاب "(صحیح مسلم بروایت جابربن عبد اللہ d )
اورغدیرخم کے دن حجۃالوداع سے مدینہ لوٹتے وقت آپنے اپنے خطبہ میں فرمایا :"بےشک میں تمہارے درمیان دوعظیم چیزیں چھوڑکرجارہاہوں ,ان میں پہلی چیزتو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اورنورہے ,پس تم اللہ کی کتاب کو اپنا لو اوراسے مضبوطی سے تھام لو"
اس حدیث میں آپ r نے اللہ کی کتاب پر ابھارا اوراس کی ترغیب دلائی اوراسکےبعد فرمایا :
"اوراہل بیت ,اہل بیت کے بارے میں میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ,اہل بیت کے بارے میںمیں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں "(صحیح مسلم بروایت زید بن ارقم t)
اورآپ r نے فرمایا :"تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اوردوسروں کوسکھائے" (صحیح بخاری)
اورفرمایا :
"جوشخص علم کی طلب میں کوئی راستہ چلےگا , تو اللہ اسے قیامت کےدن جنت کے راستہ پرچلائےگا , اورجب بھی کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر(مسجد) میں اکھٹا ہوکراللہ کی کتاب کی تلاوت اورآپس میں اس کا مذاکرہ کرتے ہیں تو ان پرسکینت نازل ہوتی ہے , اوراللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اورفرشتے ان کوگھیر لیتے ہیں , اوراللہ انکا ذکراپنے پاس فرشتوں میں کرتا ہے ,اورجس شخص کو اسکا عمل پیچھے کردے اسے اسکا نسب اورخاندان آگے نہیں بڑھاسکتا "(صحیح مسلم بروایت ابوہریرہ t)
اس باب میں اوربھی بہت سی حدیثیں وارد ہیں-
قرآن کریم کے بعد مطالعہ کے لئے بہترین کتابیں حدیث کی کتابیں ہیں , جیسے صحیحین ,سنن اربعہ اورحدیث کی دیگرمعتمد کتابیں ,لہذا علم کی مجلسوں اورحلقوں کو قرآن کی تلاوت اوراس کی تعلیم وتدریس ,نیز حدیث شریف کے درس وتدریس سے آباد رکھنا چاہئیے ,اوریہ کام ایسے علماء کو کرنا چاہئے جن کے علم ودرایت اورنصیحت واستقامت پرلوگوں کواعتماد ہو, اورمناسب ومفید کتابوں میں سے ریاض الصالحین ,ترغیب وترہیب ,الوابل الصیب,عمدۃ الحدیث الشریف ,بلوغ المرام ,اورمنتقى الأخباروغیرہ بھی ہیں ,ان کتابوں کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہیں ہے-
رہا عقیدہ تواس موضوع پرلکھی گئی بہترین کتابوں میں "کتاب التوحید" ہے جو امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی تالیف ہے,اوراسکی دوشرحیں "تیسیرالعزیز الحمید " اور "فتح المجید" ہیں جو شیخ کے دوپوتے شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد , اورشیخ عبد الرحمن بن حسن بن محمد رحمہما اللہ کی تالیف ہیں –
انہی عمدہ کتابوں میں سے امام محمد بن عبدالوہاب کی تالیف مجموعہ التوحید , اورشیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تالیفات :کتاب الإیمان ,القاعدہ الجلیلہ فی التوسل والوسیلہ ,العقیدہ الواسطیہ ,التدمریہ ,اورالحمویہ بھی ہیں, اسی طرح مفید کتابوں میں زاد المعاد فی ہدی خیرالعباد ,الصواعق المرسلہ علی الجہمیہ والمعطلہ, اجتماع الجیوش الإسلامیہ ,العقیدہ النونیہ , اغاثۃ اللہفان من مصائد الشیطان بھی ہیں ,یہ سب علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی تالیف ہیں-
انہی میں سے ابن ابی العزکی "شرح العقیدۃ الطحاویۃ" شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی "منہاج السنۃ النبویہ " اوراقتضاءالصراط المستقیم " ابن خزیمہ کی "کتاب التوحید"عبد اللہ بن امام احمد کی "کتاب السنۃ"شاطبی کی "کتاب الإعتصام" اوران کے علاوہ اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کے بیان میں دیگرعلماء سلف کی لکھی ہوئی کتابیں بھی ہیں –
نيز اس سلسله ميں جامع ترین کتاب" مجموع فتاوى شیخ الإسلام ابن تیمیہ "اور"الدررالسنیۃ فی الفتاوی النجدیۃ" ہیں ,جنہیں علامہ شیخ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ نے جمع کیا ہے –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 9:
بعض مسلم معاشرے میں لوگ مذاق کے طورپرایسے الفاظ بول جاتے ہیں جن میں کفریا فسق پایا جاتا ہے , اسلئےبہترہوگا کہ آپ اس مسئلہ پرروشنی ڈالدیں ,نیزیہ بیان کردیں , کہ اہل علم اوردعاۃ کا اس سلسلہ میں کیا رویہ ہوناچاہئے؟
جواب :
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاق میں جھوٹ اورکفریہ کلمات کا استعمال بہت بڑا گناہ ہے, اورجب یہ لوگوں کے درمیان ان کی مجلسوں میں ہو تو اورہی خطرناک ہو جاتا ہے , لہذا ایسے مذاق سے دوررہناانتہائی ضروری ہے , چنانچہ اللہ تعالى اس بات سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِؤُونَ} ( 65سورة التوبة
اے پیغمبر! اگرآپ ان سے پوچھیں تو وہ یہی کہیں گے کہ ہم تویوں ہی گپ شپ اوردل لگی کررہے تھے , تو کہ دیجئے کہ کیا تم اللہ اوراسکی آیتوں اوراسکے رسول سے ہنسی ٹھٹھا کرتے ہو ,بہانے مت بناؤ, تم ایمان لاکرپھر کافرہوگئے-
بہت سے علماء سلف کا کہنا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں اتری ہے جنہوں نے نبی r کے ساتھ سفرمیں آپس میں اس قسم کی بات کہی کہ ہم نے اپنے ان قاریوں جیساپیٹو,جھوٹا, اورمڈبھیڑ کے وقت بزدل کسی کو نہیں دیکھا ,تو اللہ نے انکے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی-
نیز صحیح سندسے ثابت ہے کہ نبی r نے ارشاد فرمایا:"
بربادی ہو اس شخص کے لئے جوکوئی چیزبیان کرے پھر جھوٹ بولے تاکہ وہ اس سے دوسروں کوہنسائے ,بربادی ہواسکے لئے ,پھر بربادی ہواسکے لئے " (ابوداؤد ,ترمذی ,نسائی بسند صحیح)
پس اہل علم اورتمام مومن مرد اورعورتوں پرواجب ہےکہ وہ خود اس سے بچیں اوردوسروں کوبھی اس سے بچنے کی تاکید کریں , کیونکہ یہ فعل انتہائ خطرناک ,بڑاہی نقصان دہ اورانجام کےلحاظ سے بے حد برا ہے –
اللہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو اس برائی سے عافیت میں رکھے , اورہم سب کو سیدھے راستہ پرچلنے کی توفیق دے , بے شک وہ سننے والا,قبول کرنے والاہے-
 
Top