• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیده توحید القرآن الحکیم

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
اہل علم،,,,,,
جو حضرات انبیاءکرام کے نائب ہیں،ان پر بھی واجب ہے کہ اس امر عظیم کو لوگوں کے سامنے بیان کریں،اہل علم کا سب سے بڑا مطلوب یہی ہونا چاہئے ،ان کی پوری توجہ عنایت اسی طرف ہونی چاہئے ،کیونکہ اگر عقیدہ توحید سلامت رہا تو دیگراموربھی اس کے تابع ہوں گے اوراگر توحید میں خلل آگیا تودیگراعمال اقوال کچھ نفع وپہنچاسکیں کے ۔

اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

﴿وَلَوْ أَشْرَ‌كُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الانعام۸۸/۶)
‘‘اور اگر (بالفرض والمحال)یہ لوگ شرک کرتے تو جوعمل وہ کرتے تھے، وه سب ضاوئع ہوجاتے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورً‌ا﴾ (الفرقان۲۵/۲۳)
‘‘اور انہوں نے جو جو عمل کیے گے ہم نےان کی طرف متوجہ ہوکر ان کو اڑتی خاک (پراگنده ذروں کی طرح) کردیں گے۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَ‌كْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾ (الزمر۶۵/۳۹)
‘‘
(اے محمد!ﷺ آپؐ کی طرف اور آپؐ سے پہلے کے تمام ا نبیاء علھیم السلام کی طرف یہی وحی کی بھیجی ہےگئی ہےکہ اگر تم نے بھی شرک کیا توتمھارے عمل برباد ہوجائیں گےاور تم تو زیاںکاروں میں سے ہوجاو گے۔’’

اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ نبی علیہ الصلواۃ والسلام نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد مکہ مکرمہ میں دس برس گزارے اوراس عرصہ میں نماز کی فرضیت سے قبل آپؐ نے لوگوں کو اللہ تعالی کی توحید کی دعوت دی،اس سارے عرصہ میں آپؐ کی دعوت یہ تھی کہ اللہ تعالی کی توحید کو اختیار کرو ،شرک اوربت پرستی کو چھوڑ دو،تمام جنوں اورانسانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اوراپنے آباواجداد کے شرک کو چھوڑدیں۔

روم کے باشاہ ہرقل نے صلح حدیبیہ کے ایام میں ابوسفیان بن حرب سے پوچھا تھا جب کہ ابوسفیان قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ فلسطین گئے تھے اورادھر اتفاق سے ہرقل بھی ان دنوں القدس میں آیا ہوا تھا،جب ہرقل کو اس قریشی قافلہ کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ ان سے نبی کے بارے میں سوال کرے،اس قافلہ کے سربراہ ابوسفیان تھے ،ہرقل نے ان سے آپؐ کے اور آپؐ کےدعوی نبوت کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے۔ہرقل نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو اس کے سامنے بٹھایا جائے اوراس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے بٹھادیا جائے اور اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے کچھ سوالات پوچھنے لگا ہوں اوراگر یہ غلط جواب دیں تو ان کی تکذیب کردینا۔ہرقل نے اس موقع پر ابوسفیان سے نبی کریم ﷺ کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جو مشہورومعروف ہیں اورصیح بخاری اوردیگر کتب میں موجود ہیں،ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ ‘‘یہ نبوت کا دعوی کرنے والاانسان کس بات کی دعوت دیتا ہے۔’’ابوسفیان کا جواب تھاکہ وہ ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم اللہ وحدہ کی عبادت کریں،اپنے آباواجدادکےدین کوترک کردیں نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے ،سچ بولنے ،صلہ رحمی کرنے اورعفت وپاک دامنی کی زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے۔ہر قل نے یہ سن کر کہا کہ اگر تم ٹھیک کہتے ہو تو وہ ایک دن میرے ان قدموں کی جگہ کا مالک ہوگا،
چنانچہ ایسے ہی ہوا،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کہ ملک شام کا مالک بنا دیا،رومیوں کو وہاں سے نکال دیا اور اپنے نبی اور اپنے لشکر کو اس نے فتح ونصرت سے سرفراز فرمایا۔
مقصود یہ کہ شریعت کا یہ اصول ایک عظیم امر ہے اور لوگوں نے جب اس میں سستی کی تو وہ شرک اکبر میں مبتلا ہو گئے۔۔۔مگر جس پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔یہ لوگ اسلام کے مدعی ہیں اور جو ان پر اسلام کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرے،اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس عظیم اصول سے جہالت کی وجہ سے خود شرک میں مبتلا ہیں...

انہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بہت سے مُردوں کو معبود بنا کر ان کی عبادت شروع کر دی ہے،

یہ لوگ ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں،

ان سے فریاد کرتے ہیں،

ان سے اپنے بیماروں کی شفاء کے لئے دعا کرتے ہیں،

حاجتوں کے پورا کرنے اور دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کے لئے ان سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں بلکہ یہ تو نیک لوگوں کی تعظیم اور ان کا اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ پیش کرنا ہے۔

یہ لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کو براہ راست نہیں پکار سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ اولیاء کے واسطہ کو اختیار کیا جائے جیسے بادشاہوں تک پہنچنے کے لئے وزیروں کا وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے،

اسی طرح رب تک پہنچنے کے لئے اولیاء کا وسیلہ اختیار کرنا ضروری ہے کہ اولیاء درحقیقت اللہ تعالیٰ کے وزیر ہیں۔

ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہٖہ دی اور پھر اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت شروع کر دی۔نسال الله العافية!

یہ سب کچھ اس عظیم اصول کے بارے میں جہالت اور قلت بصیرت کی وجہ سے ہے۔

بدوی،شیخ عبدالقادر،حسین اور دیگر اولیاء کے پجاری

درحقیقت بہت بڑی مصیبت میں مبتلا ہو چکے ہیں،یہ لوگ توحید کی حقیقت سے ناآشنا ہیں یہ انبیاءکرام کی دعوت سے ناواقف ہیں،
ان پر امور خلط ملط ہو گئے،یہ شرک میں مبتلا ہو کر اسے مستحہن سمجھنے لگے اور شرک ہی کو انہوں نے دین اور تقرب الہٰی کا ذریعہ سمجھ لیا اور جو انہیں سمجھائے اس کے یہ منکر ہیں اور پھر اکثر شہروں میں اس عظیم اصول کے بارے میں بصیرت رکھنے والے علماء بھی بہت کم ہیں،

اس قدر کم کہ انہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے،اور ان میں سے بھی بعض کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عالم ہیں لیکن وہ بھی قبروں کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح حکم نہیں دیا یعنی وہ بھی اہل قبور کو پکارتے،ان سے مدد طلب کرتے اور ان کی نذر وغیرہ مانتے ہیں۔

باقی رہے علماءحق،علماءسنت اور علماءتوحید تو وہ ہر جگہ ہی کم ہیں لہٰذا اس وقت سب مواحدین اور دیگر تمام اسلامی جامعات کے طلبہ و طالبات پر یہ واجب ہے کہ وہ اس اصول کو تھام لیں،اس کو نہایت مضبوط ومستحکم کر لیں تاکہ وہ ہدایت کے داعی اور حق کی بشارت سنانے والے بن جائیں اور لوگوں کو ان کے دین کی وہ حقیقت بتائیں جس کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا ہے بلکہ جس کے ساتھ اس نے اپنے تمام انبیاءکرام کو مبعوث فرمایا۔
 
Top