• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر ( حصہ چہارم)

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
الحمد اللہ ۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے "حیات فی القبور و حیات النبیﷺ " کے موضوع پر حصے یہاں پوسٹ کر چکا ہوں کہ ہمارا اور ہمارے فریقین کا نظریہ کیا ہے ۔ انبیاء علیہم السلام پر بھی موت آئی ۔۔ اور نفیِ اعادہ روح پر ۔۔ اب یہ چوتھا اور آخری حصہ پیش کرنے لگا ہوں :

انبیاء،شہداء و مؤمنین کی روحانی حیاتِ برزخیہ و اخرویہ فی الجنت الفردوس


جیسا کہ میں نے عقیدہ واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ روح جسم سے نکل جانے کے بعد اپنے مستقر میں رہتی ہے قیامت تک۔اور انبیاء ، صدیقین ، شہداء ، مؤمنین کی ارواح کا مستقر جنت الفردوس ہے جسے "علیین" ، "اعلٰی علیین " یا رفیقِ اعلٰی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔

تو اب دلائل اسی پر دوں گا انشاء اللہ کہ انبیاء و شہداء ، صدیقین و مؤمنین کی وفات کی بعد ان کی ارواح جنت الفردوس میں سکونت پذیر ہیں اور بروزِ قیامت ان ارواح کو اجساد، عنصریہ میں داخل کیا جایا گا ۔۔

قرآن سے دلائل:

آیت نمبر 1: سورۃ فجر آیت 27-30[/COLOR]

ٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ 27؀ڰارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً 28؀ۚفَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ 29؀ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ 30؀ۧ


ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح۔ اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو۔

I-ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالماجددریابادی رحمہ اللہ علیہ۔۔ اے اطمینان والی روح۔! اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش پھر تو میرے خاص بندوں میں شامل ھو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔یہ بشارت ھر مومن کو عین اس وقت ملے گی جو وقت اس مادی جسم سے انقطاع روح کا ھو گا۔اس کا مصداق ھر مومن، انبیاء اکرام و اولیاء کاملین ھوتے ھیں۔

Ii-شاہ ولی اللہ قدس سرہ، ازالۃ الخفاء میں بیان کرتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیت يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة تلاوت کی اور اس مجلس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر بوقت وفات فرشتہ تم سے یہی کہے گا اور يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة کہ کر تمہیں مخاتب کرے گا
(الدر المنشور ۵۱۳۔۸)

3- یایتھا النفس المطمئنة، یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اسکے ترک سے بے چینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضات ومجاہدات کرکے اپنی بری عادات اور اخلاق ذیلہ کو دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اسکا مزاج اور شریعت اسکی طبیعت بن جاتی ہے اس کو خطاب کرکے فرمایا گیا ارجعی الی ربک یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکا پہلا مقام بھی اب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی مسقرد وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے ایک روز یہ آیت یایتھا النفس المطمئنة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی تو صدیق اکبر جو مجلس میں موجود تھے کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کتنا اچھا خطاب اور اکرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سن لو فرشتہ موت کے بعد آپ کو یہ خطاب کریگا
تفسیر معارف القرآن


آیت نمبر 2: سورۃ مططفین آیت 19

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ 19؀ۭ


اور آپ کو کیا خبر کہ علیّین کیا ہے

حضرت ابن عباسؓ نے حضرت کعبؒ سے سجین کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا وہ ساتوین زمین ھے جہاں کافروں کی روحیں ھیں۔اور علیّین کے سوال کے جواب میں فرمایا یہ ساتواں آسمان ھے اس میں مومئنین کی روحیں ھیں۔

تفسیر ابن کثیر ص ۵۳۱ ج ۵ (مکتبہ اسلامیہ)

Ii-اس آیت کی تفسیر میں بیان ھے کہ۔حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

تفسیر معارف القرآن ص ۶۹۷ ج ۸

Iii-اعلٰی علیین جس کو رفیق اعلٰی سے بھی تعبیر کیاجاتا ھے خاص مقربین کا مقام ھے اور اسکا عبور روحانی مفارقت جسم کی بعد روح کو حاصل ھوتا ھے کہ فرشتے مقربین کی ارواح کو اعلٰی علیین میں لے جاتے ھیں۔

تفسیر المنان ص ۲۸۸ ج ۵

آیت نمبر 3 : سورہ النحل آیت نمبر 32

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 32؀


وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے، جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے ۔

ف۵۔ قبض روح کے بعد جنت میں جانا روحانی جانا ہے ، اور جسمانی جانا مخصوص ہے قیامت کے ساتھ اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ قیامت میں تم جنت میں جانا، اور ہر حال میں مقصود بشارت سنانا ہے ۔ اور اعمال کو جو سبب دخول جنت کا فرمایا تو یہ سبب مادی ہے ،اور سبب حقیقی رحمت الہیہ ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے ۔
تفسیر بیان القران

ف ١٠ یعنی ان کی جانیں موت کے وقت تک کفرو شرک کی نجاست سے پاک اور فسق و فجور کے میل کچیل سے صاف رہیں۔ اور حق تعالیٰ کی صحیح معرفت و محبت کی وجہ سے نہایت خوشدلی اور انشراح بلکہ اشتیاق کے ساتھ اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کی۔
ف١١ ایک حیثیت سے روحانی طور پر تو انسان مرنے کے بعد ہی جنت یا دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہاں جسمانی حیثیت سے پوری طرح دخول حشر کے بعد ہوگا۔ ممکن ہے اس بشارت میں دونوں قسم کے دخول کی طرف اشارہ ہو۔
ف ١٢ یعنی تمہارا عمل سبب عادی ہے دخول جنت کا۔ باقی سب حقیقی رحمت الٰہیہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا۔ "اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَ نِیَ اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ۔"

تفسیرِ عثمانی

آیت نمبر4: سورہ یٰسین آیت نمبر 26۔27

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ 26؀ۙبِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ 27؀

(اس سے) کہا گیا کہ جنت میں چلا جا، کہنے لگا کاش! میری قوم کو بھی علم ہو جاتا۔ کہ خدا نے مجھے بخش دیا اور عزت والوں میں کیا۔

یعنی فوراً بہشت کا پروانہ مل گیا۔ آگے نقل کرتے ہیں کہ قوم نے اس کو نہایت بیدردی کے ساتھ شہید کر ڈالا۔ ادھر شہادت واقع ہوئی ادھر سے حکم ملا کہ فوراً بہشت میں داخل ہو جا۔ جیسا کہ ارواح شہداء کی نسبت احادیث سے ثابت ہے کہ وہ قبل از محشر جنت میں داخل ہوتی ہیں۔
تفسیرعثمانی

اس آیت سے ظاہر ہے کہ جب اس کو قتل کر دیا گیا تو اس کو کہا گیا تو جنت میں چلاجا۔حضرت قتادہ نے کہا اللہ تعالٰی نے اس جنت میں داخل کر دیا اب وہ جنت میں زندہ ہے اس کو رزق دیا جاتا ہے۔

تفسیر بحر المحیط جلد 7 صفحہ 329
تفسیر قرطبی جلد15 صفحہ 20

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں، اسی وقت اللہ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی، اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کردیا اور امن چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا جنت ان کیلئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی، اپنے ثواب و اجر کو، عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میرا بڑا ہی اکرام کیا
تفسیر ابن کثیر

آیت نمبر 5: سورۃ بقرۃ آیت 154

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ

اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مرا ہوا نہ کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے

1- ١٥٤۔١ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلٰے قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے(ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١١٩؁) 3۔آل عمران:119) (ابن کثیر)

تفسیر مکہ از سورۃ بقرہ آیت نمبر 154

ف ٦ سو شہداء کرام دنیا کے اعتبار سے اگرچہ موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں، ان کی روحیں ان کے ابدان سے علیحدہ اور جدا ہو جاتی ہیں، ان پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اور ان کو دوسرے مردوں کی طرح قبروں میں دفن بھی کر دیا جاتا ہے۔ ان کی بیویاں بیوہ ہو جاتی ہیں، ان کے دوسرے شوہروں سے نکاح بھی کر دیئے جاتے ہیں، ان کے بچے یتیم قرار پاتے ہیں، اور ان کی میراثیں بھی تقسیم کر دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی دوسرے عام مردوں کے تمام احکام ان پر بھی جاری ہوتے ہیں۔ لیکن وہ عالم برزخ میں ایک ایسی امتیازی حیات سے بہرہ مند اور سرفراز ہوتے ہیں جو اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ اور جسکی اصل حقیقت کا شعور و ادراک بھی یہاں کس کو نہیں ہو سکتا۔ سو اپنی اسی امتیازی شان کی برزخی زندگی کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات سے بہرہ مند وسرفراز ہوتی ہیں، پس تم لوگ ان کو مردہ مت کہو، اور نہ ان کو عام مردوں کی طرح مردہ سمجھو۔

تفسیر مدنی از سورۃ بقرہ آیت نمبر 154

پھر فرمایا کہ شہیدوں کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ ایسی زندگی میں ہیں جسے تم نہیں سمجھ سکتے انہیں حیات برزخی حاصل ہے اور وہاں وہ خورد و نوش پا رہے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ شہیدوں کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جس جگہ چاہیں چرتی چگتی اڑتی پھرتی ہیں پھر ان قندیلوں میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں ان کے رب نے ایک مرتبہ انہیں دیکھا اور ان سے دریافت کیا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا اللہ ہمیں تو تو نے وہ وہ دے رکھا ہے جو کسی کو نہیں دیا پھر ہمیں کس چیز کی ضرورت ہو گی؟ ان سے پھر یہی سوال ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اب ہمیں کوئی جواب دینا ہی ہو گا تو کہا اللہ ہم چاہتے ہیں کہ تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج ہم تیری راہ میں پھر جنگ کریں پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں اور شہادت کا دگنا درجہ پائیں، رب جل جلالہ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا یہ تو میں لکھ چکا ہوں کہ کوئی بھی مرنے کے بعد دنیا کی طرف پلٹ کر نہیں جائے گا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں ہے کہ مومن کی روح ایک پرندے میں ہے جو جنتی درختوں پر رہتی ہے اور قیامت کے دن وہ اپنے جسم کی طرف لوٹ آئے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کی روح وہاں زندہ ہے لیکن شہیدوں کی روح کو ایک طرح کی امتیازی شرافت کرامت عزت اور عظمت حاصل ہے۔
تفسیر ابن کثیر

آیت نمبر 6: سورۃ العمران آیت 169

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ

جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں (١)۔


بیئر معونہ کے شہداء اور جنت میں ان کی تمنا؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو شہید فی سبیل اللہ دنیا میں مار ڈالے جاتے ہیں لیکن آخرت میں ان کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور رزق پاتی ہیں، (۔۔۔)

صحیح مسلم شریف میں ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں۔ عرش کی قندلیں ان کے لئے ہیں ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلیوں میں آرام کریں ان کی طرف ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو؟ کہنے لگے اے اللہ اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے اے رب! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دے ہم پھر دنیا میں جا کر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں اب معلوم ہو گیا کہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا کہ کیا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ مر جائیں اور اللہ کے ہاں بہتری پائیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے مگر شہید کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا جائے اور دوبارہ راہ اللہ میں شہید ہو کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ رہا ہے (مسند احمد) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے، مسند احمد میں ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا اے جابر تمہیں معلوم بھی ہے؟ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے کہا اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے؟ تو کہا اے اللہ دنیا میں پھر بھیج تا کہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی یہاں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا، ان کا نام حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری تھا اللہ تعالیٰ ان سے رضامند ہو،

صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت جابر فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور ابا کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ صحابہ مجھے منع کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں، مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد والے دن شہید کئے گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی درختوں کے پھل کھائیں اور جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے سائے تلے وہاں لٹکتی ہوئی قندیلوں میں آرام و راحت حاصل کریں جب کھانے پینے رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش کہ ہمارے بھائیوں کو جو دنیا میں ہیں ہماری ان نعمتوں کی خبر مل جاتی تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ کی لڑائیوں سے تھک کر نہ بیٹھ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تم بےفکر رہو میں یہ خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں چنانچہ یہ آیتیں نازل فرمائیں،

یہ بھی مفسرین نے فرمایا ہے کہ احد کے شہیدوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ ابو بکر بن مردویہ میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تحسبن) الخ، فرمائی،

تفسیر ابن کثیر از سورہ عمران آیت نمبر 169

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (----) لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا

یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت کے باغوں میں چرتی پھرتی ہیں پھر عرش سے آویزاں قندیلوں میں آرام کرتی ہیں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں جو عزت میں نے تم کو عطا کی ہے کیا اس سے زیادہ عزت و تکریم تمھارے علم میں ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ نہیں البتہ ہماری تمنا ہے کہ آپ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم جہاد کریں اور ایک بار پھر شہید ہو جائیں۔۔۔

تفسیر الدر المنثور صفحہ 96 جلد 2

اورمعتبر مفسرین و علماء جنہوں نے اس آیت کی تفسیر میں شہداء کو جنت میں زندہ مانا :


  • حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ – تفسیر ابن جریرجلد 4 صفحہ 176
  • حضرت امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ علیہ – بحوالہ تفسیر الدر المنثور صفحہ 96 جلد 2
  • حضرت امام ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ – بحوالہ شرح الصدور صفحہ 96
  • امام علی بن احمد الواحدی رحمۃ اللہ علیہ – بحوالہ تفسیر ابو سعود جلد 4 صفحہ 429
  • امام حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی شافعی رحمہ اللہ علیہ – بحوالہ تفسیر قاسمی جلد 2 صفحہ 323
  • حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ – تفسیر عزیزی از سورۃ ال عمران
  • امام محمد بن احمد الانصاری القرطبی رحمۃ اللہ علیہ – تفسیر قرطبی جلد 2 صفحہ 629
  • امام عبداللہ بن احمد بن محمود حنفی رحمہ اللہ علیہ – تفسیر مدارک تحت آیت مذکورہ
  • امام راغب اصفہانی رحمۃ علیہ – مفردات القران جلد 1 صفحہ 278
  • امام خارزن رحمہ اللہ علیہ – تفسیر خارزن تحت آیت مذکورہ
آیت نمبر 7: سورۃ نساء 69

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ

اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔

آیت کی تفسیر حدیثِ مبارکہ سے :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَکَانَ فِي شَکْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ وَالصَّالِحِينَ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ


صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1766
محمد بن عبداللہ بن جوشب، ابراہیم بن سعد، ان کے والد، عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نبی کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں سے کسی ایک کو رہنے کے لئے پسند کرے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کی آواز میں کرختگی پیدا ہوگئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّ نَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَا ءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰ ى ِكَ رَفِيْقًا 4۔ النسآء : 69)چنانچہ میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار ملا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کو ترجیح دی ہے۔

انشاء اللہ "اعلٰی رفقاء ، رفیقِ اعلٰی کی مزید تشریح آگے کر دی جائےگی ۔۔

احادیث سے مزید دلائل:

حیات الانبیاء علیہم السلام پر :

حدیث نمبر 1:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام وَا کَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَی أَبِيکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ


سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا بلاوہ قبول کرلیا ہے، اے میرے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اب جنت الفردوس ہے، ہائے میرے ابا جان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جبرائیل کو سناتی ہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جا چکا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تم لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔

بخاری شریف ج ۲ ص ۶۴۱ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاۃ
عمدۃ القاری شرح بخاری جز ۱۸ ص ۷۴ رقم الحدیث ۴۴۵

حدیث نمبر 2:

- حدثنا يحيی بن قزعة حدثنا إبراهيم بن سعد عن أبيه عن عروة عن عائشة رضي الله عنها قالت دعا النبي صلی الله عليه وسلم فاطمة ابنته في شکواه الذي قبض فيها فسارها بشيئ فبکت ثم دعاها فسارها فضحکت قالت فسألتها عن ذلک فقالت سارني النبي صلی الله عليه وسلم فأخبرني أنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبکيت ثم سارني فأخبرني أني أول أهل بيته أتبعه فضحکت

یحیی بن قزعہ ابراہیم بن سعد عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے مرض میں جس میں آپ نے رحلت فرمائی بلوایا (جب وہ آئیں) تو ان سے آہستہ آہستہ کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں پھر آہستہ سے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، میں نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا سبب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے اس بات سے خبردار کیا تھا کہ آپ اسی مرض میں وفات پائیں گے، تو میں رونے لگی جب دوبارہ آپ نے آہستہ سے کہا کہ میں ان کے اہل میں سب سے پہلے ان سے ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔

صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 238، حدیث نمبر 927

سوال: یہ ملاقات کہاں ھوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک حجرہ عائشہ میں ھے، اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر مقدس جنت البقیع میں ھے۔کیا اب قبروں میں ملاقات ھو گی؟؟
مطلب یہی تھا کہ ھماری ملاقات ادھر ہی ھو گی جدھر ھماری روحیں ھوں گی۔(جنت میں )

حدیث نمبر 3:

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَائٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (----) وَالدَّارُ الْأُولَی الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَائِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيکَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَکَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ قَالَا ذَاکَ مَنْزِلُکَ قُلْتُ دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي قَالَا إِنَّهُ بَقِيَ لَکَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَکْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَکْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَکَ



آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم سے سوال کیا کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے جواب دیا کہ نہیں، آپ نے فرمایا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ارض مقدسہ کی طرف لے گئے وہاں دیکھا کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (ہمارے بعض ساتھیوں نے کہا کہ) لوہے کا ٹکڑا ہے جسے اس (بیٹھے ہوئے آدمی) کے گلپھڑے میں ڈالتا ہے، یہاں تک کہ وہ گدی تک پہنچ جاتا ہے پھر اسی طرح دوسرے گلپھڑے میں داخل کرتا ہے اور پہلا گلپھڑا جڑ جاتا ہے، تو اس کی طرف پھر آتا ہے اور اسی طرح کرتا ہے، میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو۔ ہم آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس پہنچے جو چت لیٹا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے سر پر فہر یا ضحرہ (ایک بڑا پتھر) لئے کھڑا تھا۔ جس سے اس کے سر کوٹتا تھا جب اسے مارتا تھا تو پتھر لڑک جاتا تھا۔ اور اس پتھر کو لینے کے لئے وہ آدمی جاتا تو واپس ہونے تک اس کا سر جڑ جاتا اور ویسا ہی ہوجاتا جیسا تھا وہ پھر لوٹ کر اس کو مارتا، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں نے کہا کہ آگے بڑھو۔چنانچہ ہم آگے بڑھے تو تنور کی طرح ایک گڑھے تک پہنچے کہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ اور نچلا چوڑا تھا اس کے نیچے آگ روشن تھی جب آگ کی لپٹ اوپر آتی تو وہ لوگ (جو اس کے اندر تھے) اوپر آنے کے قریب ہوجاتے اور جب آگ بجھ جاتی تو دوبارہ پھر اس میں لوٹ جاتے اور اس میں مرد اور ننگی عورتیں تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے چلو۔ ہم آگے بڑھے یہاں کہ ہم ایک خون کی نہر کے پاس پہنچے اس میں ایک شخص کھڑا تھا اور نہر کے بیچ میں یا جیسا کہ یزید بن ہارون نے اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم سے روایت کیا۔ نہر کے کنارے ایک شخص تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ آدمی جو نہر میں تھا سامنے آتا تو (کنارے والا) آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا اور وہیں لوٹ جاتا جہاں ہوتا میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آگے بڑھو ہم آگے چلے یہاں تک کہ ہم ایک سرسبز شاداب باغیچے کے قریب پہنچے جس میں بڑے بڑے درخت تھے اور اس کی جڑ میں ایک بوڑھا اور چند بچے تھے اور ایک شخص اس درخت کے قریب اپنے سامنے آگ سلگا رہا تھا۔ ان دونوں نے مجھے درخت پر چڑھایا اور ہمیں ایسے گھر میں داخل کیا جس سے بہتر اور عمدہ گھر نہیں دیکھا اور اس میں بوڑھے اور جوان آدمی اور عورتیں اور بچے ہیں پھر مجھے اس سے نکال کرلے گئے اور ایک درخت پر چڑھا دیا اور مجھے ایک گھر میں داخل کیا جو بہتر اور عمدہ تھا۔ وہاں بوڑھوں اور جوانوں کو دیکھا، میں نے پوچھا کہ تم نے مجھے رات بھر گھمایا تو اس کے متعلق بتاؤ جو میں نے دیکھا ان دونوں نے کہا بہتر! وہ آدمی جسے تم نے دیکھا کہ اس کا گلپھڑا چیرا جارہا ہے وہ شخص جھوٹا ہے جو جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور اس سے سن کر لوگ دوسروں سے بیان کرتے تھے یہاں تک کہ جھوٹی بات ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے اس کے ساتھ قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا اور جس کا سر پھوڑتے ہوئے تم نے دیکھا وہ شخص تھا جسے اللہ نے قرآن کا علم عطا کیا لیکن اس سے غافل ہو کر رات کو سو رہا اور دن کو اس پر عمل نہ کیا قیامت تک اس کیساتھ یہی ہوتا رہے گا تنور میں جن لوگوں کو تم نے دیکھا وہ زانی تھے اور جنہیں تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھے اور ضعیف جنہیں تم نے درخت کی جڑ میں دیکھا وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور بچے ان کے اردگرد لوگوں کے ہیں اور وہ شخص جو آگ سلگا رہا تھا وہ مالک داروغہ دوزخ تھا اور وہ گھر جس میں تم داخل ہویے عام مومنین کا گھر تھا اور یہ گھر شہداء کا ہے اور میں جبرییل اور یہ میکاییل ہیں اپنا سر اٹھاؤ میں نے اپنا سر اٹھایا تو اپنے اوپر بادل کی طرح ایک چیز دیکھی ان دونوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے میں نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنی جگہ میں داخل ہو جاوں ان دونوں نے کہا تمہاری عمر باقی ہے جو پوری نہیں ہوئی جب تم اس عمر کو پورا کرلو گے تو اپنی منزل میں آجاؤ گے۔
صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 185 حدیث نمبر 1311,1324,

حدیث نمبر 4

حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَيَّ ظَهْرَهُ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ



معلی بن اسد عبدالعزیز ہشام بن عروہ عباد بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کا وقت قریب ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ یا اللہ مجھے بخش دے رحم فرما اور بلند رفیقوں سے ملا۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1625
بخاری شریف ج ۲ ص ۶۳۹ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، بخاری شریف ج ۲ ص ۸۴۷ کتاب المرضٰی

حدیث نمبر 5

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرَضَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ جَعَلَ يَقُولُ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1621
مسلم شعبہ سعد عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مرض میں بیمار ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ فرماتے تھے ( فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی) اعلیٰ مرتبہ کے رفیقوں میں رکھنا۔

حدیث نمبر 6 :

-11 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَفِي يَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَکَانَتْ إِحْدَانَا تُعَوِّذُهُ بِدُعَائٍ إِذَا مَرِضَ فَذَهَبْتُ أُعَوِّذُهُ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَی السَّمَائِ وَقَالَ فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَی وَمَرَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ وَفِي يَدِهِ جَرِيدَةٌ رَطْبَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ بِهَا حَاجَةً فَأَخَذْتُهَا فَمَضَغْتُ رَأْسَهَا وَنَفَضْتُهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِ فَاسْتَنَّ بِهَا کَأَحْسَنِ مَا کَانَ مُسْتَنًّا ثُمَّ نَاوَلَنِيهَا فَسَقَطَتْ يَدُهُ أَوْ سَقَطَتْ مِنْ يَدِهِ فَجَمَعَ اللَّهُ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ الدُّنْيَا وَأَوَّلِ يَوْمٍ مِنْ الْآخِرَةِ

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1635
سلیمان بن حرب حماد بن زید ایوب، ابن ابی ملیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا: کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیدی، آپ نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ مجھے دینے لگے تو وہ آپ کے ہاتھ سے گر پڑی، اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے آپ کے آخری دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔

حدیث نمبر 7

-12 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ يُونُسُ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ فِي رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ حَتَّی يَرَی مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرَ فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ وَرَأْسُهُ عَلَی فَخِذِي غُشِيَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَی سَقْفِ الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی فَقُلْتُ إِذًا لَا يَخْتَارُنَا وَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِي کَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ قَالَتْ فَکَانَتْ آخِرَ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَ بِهَا اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی

بشر بن محمد، عبداللہ ، یونس، زہری، سعید حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کئی معزز حضرات کی موجودگی میں فرمایا: کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حالت صحت میں دعا فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو جنت میں اس کا ٹھکانا اور مقام دکھا دیا جاتا ہے اور پھر اسے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو دنیا کو پسند کر لے چاہے تو آخر کو پسند کر لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا، آپ نے آنکھیں کھولیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی، میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا، مگر آپ ہم لوگوں میں رہنا پسند نہیں فرماتے اور میں یہ بھی سمجھ گئی کہ یہ وہی بات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تندرستی میں فرمایا کرتے اور آپ کا آخری کلام بھی یہی ہے کہ اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی کہ اے اللہ بلند مرتبہ رفیقوں میں مجھے رکھنا۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1643
عمدۃ القاری شرح بخاری جز ۱۸ ص ۷۵ رقم الحدیث ۴۴۶،
بخاری شریف ج ۲ ص ۶۴۱

حدیث نمبر 8:

-13 حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَکَی مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ثُمَّ قَالَ أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا کَانَ يَصْنَعُ فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَی قَالَتْ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَی
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1210
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق زہیر جریر، اعمش، ابی ضحی مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے پروردگار شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دینے والا ہے تیری شفا کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدید ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تاکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسی طرح کروں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا پھر فرمایا اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کر دے سیدہ فرماتی ہیں میں نے آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وَاصِل اِلَی اللہِ ہو چکے تھے۔

حدیث نمبر 9:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَی صَدْرِهَا وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ


صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1792
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، قری ہشام عباد بن عبداللہ بن زبیر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خبر دیتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات سے قبل اس حال میں آرام فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کی تو آپ فرما رہے تھے (اللَّهُمَّ اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ) اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلی سے ملا دے۔

حدیث نمبر 10:

و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ نَبِيٌّ حَتَّی يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَتْ فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِيقًا قَالَتْ فَظَنَنْتُهُ خُيِّرَ حِينَئِذٍ

صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1794
محمد بن مثنی، ابن بشار ابن مثنی محمد بن جعفر، شعبہ، بن سعد بن ابراہیم، عروہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کے بارے میں اختیار نہ دے دیا جاتا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے مرض وفات میں سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ( مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِيقًا) یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے نیبوں میں سے اور صدیقیں اور شہداء میں سے اور نیک لوگوں میں سے اور یہ سارے بہترین رفیق ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر میں اسی وقت سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا گیا ہے۔

حدیث نمبر 11

حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ فِي رِجَالٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّی يُرَی مَقْعَدُهُ فِي الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ عَلَی فَخِذِي غُشِيَ عَلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَی السَّقْفِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی قَالَتْ عَائِشَةُ قُلْتُ إِذًا لَا يَخْتَارُنَا قَالَتْ عَائِشَةُ وَعَرَفْتُ الْحَدِيثَ الَّذِي کَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ فِي قَوْلِهِ إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّی يَرَی مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَکَانَتْ تِلْکَ آخِرُ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلَهُ اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1796
عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابن سعد ابی جدی عقیل بن خالد ابن شہاب سعید بن مسیب عروہ بن زبیر، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کی زوجہ مطہرہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں کہ آپ تندرست تھے فرماتے ہیں کہ کوئی نبی اس وقت تک اس دنیا سے رخصت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے جنت میں اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے پھر اختیار نہ دے دیا جائے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ کے وصال کا وقت آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میری ران پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ دیر غشی طاری رہی پھر افاقہ ہوا اور آپ نے اپنی نگاہ چھت کی طرف کی پھر فرمایا اے اللہ مجھے رفیق اعلی سے ملا دے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت میں نے کہا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اختیار نہیں فرمائیں گے اور مجھے وہ حدیث یاد آ گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صحت و تندرستی کی حالت میں بیان فرمائی تھی کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی گئی جب تک کہ اسے جنت میں اس کا مقام نہ دکھا دیا جائے پھر اسے اختیار نہ دے دیا جائے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے جو بات فرمائی اس کا آخری کلمہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَی) اے اللہ مجھے رفیق اعلی سے ملا دے۔

حدیث نمبر 12


حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ بِهَؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ أَذْهِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا فَلَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُهُ وَأَقُولُهَا فَنَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَی قَالَتْ فَکَانَ هَذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ کَلَامِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1619
ابوبکر بن ابی شیبہ، ابومعاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت ہے کہ آنحضرت پناہ مانگتے تھے ان کلموں کے ساتھ ( أَذْهِبْ الْبَاسْ رَبَّ النَّاسْ) یعنی دور کر دے بیماری اے مالک لوگوں کی اور تندرستی دے تو ہی تندرستی دینے والا ہے۔ تندرستی تیری تندرستی ہے تو ایسی تندرستی عطا فرما کہ بالکل بیماری نہ رہے جب آنحضرت بیمار ہوئے ُ اس بیماری میں کہ جس میں انتقال فرمایا تو میں نے آپ کا ہاتھ تھاما اور اس کو پھیرنا شروع کیا آپ نے جسم پر یہ کلمات کہے اور (عائشہ نے آنحضرت کا ہاتھ پھرایا اس کی برکت سے جلد آپ کو صحت خاص ہو۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا پھر فرمایا اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَی یا اللہ ! مجھ کو بخش دے اور بلند رفیق سے (ملائکہ انبیاء صدیقین اور شہداء سے) ملا دے مجھ کو عائشہ نے کہا تو یہ آخری کلمہ تھا جو میں نے آپ سے سنا ۔

حدیث نمبر 13

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي وَيَوْمِي وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي فَدَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَهُ سِوَاكٌ رَطْبٌ فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ فِيهِ حَاجَةً قَالَتْ فَأَخَذْتُهُ فَمَضَغْتُهُ وَنَفَضْتُهُ وَطَيَّبْتُهُ ثُمَّ دَفَعْتُهُ إِلَيْهِ فَاسْتَنَّ كَأَحْسَنِ مَا رَأَيْتُهُ مُسْتَنًّا قَطُّ ثُمَّ ذَهَبَ يَرْفَعُهُ إِلَيَّ فَسَقَطَ مِنْ يَدِهِ فَأَخَذْتُ أَدْعُو اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بِدُعَاءٍ كَانَ يَدْعُو لَهُ بِهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام وَكَانَ هُوَ يَدْعُو بِهِ إِذَا مَرِضَ فَلَمْ يَدْعُ بِهِ فِي مَرَضِهِ ذَلِكَ فَرَفَعَ بَصَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ وَقَالَ الرَّفِيقُ الْأَعْلَى الرَّفِيقُ الْأَعْلَى يَعْنِي وَفَاضَتْ نَفْسُهُ فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 4197
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رخصتی میرے گھر میں میری باری کے دن، میرے سینے اور حلق کے درمیان ہوئی اس دن عبدالرحمن بن ابی بکر آئے تو ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی عمدگی کے ساتھ مسواک فرمائی کہ اس سے پہلے میں نے اس طرح مسواک کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اوپر کر کے وہ مجھے دینے لگے تو وہ مسواک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے گر گئی ، یہ دیکھ کر میں وہ دعائیں پڑھنے لگیں جو حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے موقع پر پڑھتے تھے لیکن اس موقع پر انہوں نے وہ دعائیں نہیں پڑھی تھیں، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا رفیق اعلیٰ، رفیق اعلیٰ اور اسی دم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک پرواز کر گئی، ہر حال میں اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دن میرے اور ان کے لعاب کو جمع فرمایا۔

حدیث نمبر 14

حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ حَدَّثَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى صَدْرِهِ فَقُلْتُ أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ أَنْتَ الطَّبِيبُ وَأَنْتَ الشَّافِي وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 4744
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو میں نے اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر رکھ کر یہ دعاء کی کہ اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما، تو ہی طبیب ہے اور تو ہی شفاء دینے والا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دعا فرما رہے تھے کہ مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے، مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔

حدیث نمبر 15

عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول وهو صحيح : " لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير " . قالت عائشة : فلما نزل به ورأسه على فخذي غشي عليه ثم أفاق فأشخص بصره إلى السقف ثم قال : " اللهم الرفيق الأعلى " . قلت : إذن لا يختارنا . قالت : وعرفت أنه الحديث الذي كان يحدثنا به وهو صحيح في قوله : " إنه لن يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير " قالت عائشة : فكان آخر كلمة تكلم بها النبي صلى الله عليه و سلم : " اللهم الرفيق الأعلى " . متفق عليه
مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 563
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مرض الموت میں مبتلا ہونے سے قبل ) اپنی تندرستی کے زمانہ میں فرمایا کرتے تھے کہ کسی نبی کی روح اس وقت قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت اس کا مستقر (یعنی وہ منازل عالیہ جو اس کے لئے جنت میں مخصوص ہیں ) اس کو دیکھا کر اس کو اختیار نہیں دے دیا جاتا (کہ چاہے ابھی اور دنیا میں رہو اور چاہے یہاں ہماری بارگاہ میں آجاؤ اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جب (مرض وفات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت قریب آیا تو اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اور (شدت مرض سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار بے ہوش ہو رہے تھے ، (ایک بار ) جوہوش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھت (یعنی آسمان ) کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا : الہٰی !میں نے رفیق اعلی کو پسند کرتا ہوں (مجھے رفیق اعلی میں شامل فرما ) میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ سنتے ہی ) کہا : اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (یعنی دنیا کی زندگی کو ) ناپسند کردیا ہے (اور عالم آخرت کی زندگی کو اختیار کرلیا ہے ) کیونکہ مجھے وہ ارشاد گرامی یاد آگیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تندرستی کے زمانہ میں فرمایا تھا کہ کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک کہ جنت کا اس کا مستقر اس کو دکھا کر اسکواختیار نہیں دیا جاتا (پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا گویا جنت میں اپنا مستقر دیکھنا تھا) اور اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلہ کا اعلان ہے کہ ملے ہوئے اختیار کے تحت میں نے دنیا کی زندگی کو چھوڑ کر عالم آخرت کو پسند کرلیا ہے ) حضرت عائشہ نے بیان کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہی اللہم رفیق الاعلی کے الفاظ تھے ۔"

ـ رفیق اعلٰی کی تشریح ـ

علامہ بدرالدین عینی حنفیؒ لکھتے ہیں رفیق اعلٰی سے مراد بہشت ہے‘
عمدۃ القاری شرح بخاری جز ۱۸، ص ۶۴

ملا علی قاری رحمۃ اللہ کہتے ہیں:
’-فی رفیق اعلٰی‘ کا ترجمہ ھوگا اے اللہ مجھے رفیق اعلٰی میں جگہ عطا فرما۔اور رفیق اعلٰی سے مراد انبیاء ہیں جن کی روحیں مقام اعلٰی علیین میں سکونت پذیر ھیں۔
رفیق اعلٰی سے مراد انبیاء اکرام کی وہ جماعت ہے جو اعلٰی علیین میں رہتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعامانگی یا اللہ! مجھے بھی جنت الفردوس میں انبیاء اکرام کی رفاقت مہیں پہنچادے۔۔

مرقات شرح مشکٰوۃ ج ۱۱ ص ۲۳۹

-اعلٰی علیین جس کو رفیق اعلیٰ سے بھی تعبیر کیاجاتا ھے خاص مقربین کا مقام ھے۔مقربین کی ارواح کو اعلٰی علیین میں پہنچا دی جاتی ھیں

تفسیر فتح المنان ج ۵ ص ۲۸۸

ـ علامہ نواب محمد قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ علیہ

رفیق اعلی سے مراد انبیاء اکرام ہیں جو اعلٰی علیین میں پہنچ چکے ہیں ۔ اسکی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس مین اس دعا کے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ یعنی انبیاء اکرام کے ساتھ ، صدیقین کے ساتھ، شہداء کے ساتھ صلحاء کے ساتھ وہی لوگ اچھے رفیق ہیں۔

مظاہر حق جلد 5 صفحہ 531

ـ علامہ بن قیم رحمہ اللہ علیہ اور امام ابن رجب رحمہ اللہ علیہ :

انبیاء کرام کی ارواح وفات کے بعد جسموں سے نکل کر اعلٰی علیین میں چلی جاتیں اور وہی مقامِ جنت ارواحِ انبیاء اکرام کا مسقر ہے۔اسکی دلیل بخاری شریف کی وہ حدیث ہے جس میں ام المومنین نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام یہ تھا کہ " اللھم الرفیق الاعلی"

شرح الصدرور صفحہ 239


ـ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مطلب واضح ہے رفیق اعلٰی سے مراد انبیاء اکرام ، صدیقین ، شہداء کی ارواح کا مستقر ہے ۔

فتح الباری صفحہ 202 جلد 9

ـ علامہ آلوسی رحمہ اللہ علیہ :

اس میں کوئی شک نہیں کہ ارواح انبیاء اکرام علیین میں ہی رہتی ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت میں "اللھم الرفیق الاعلٰی" سے دعا کی کہ اللہ میری روح کو بھی اعلٰی علین ، رفاقتِ انبیاء میں پہنچادے۔

روح المعانی جلد 15 صفحہ 161

حیاتِ شہداء و مومنین پر دلائل :

حدیث نمبر 1

عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ کَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَيْرٌ يَعْلَقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَرْجِعَهُ اللَّهُ إِلَی جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ


کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندہ کی شکل بن کر جنت کے درخت سے لٹکتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بدن کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا ۔

موطا امام مالک:جلد اول:حدیث نمبر 504 ص ۲۲۱ باب الجنائز

حدیث نمبر 2 :

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَتْ أُمُّ مُبَشِّرٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَهُوَ شَاكٍ اقْرَأْ عَلَى ابْنِي السَّلَامَ تَعْنِي مُبَشِّرًا فَقَالَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكِ يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ تَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَتْ صَدَقْتَ فَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ


مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1621
عبدالرحمن بن کعب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ام مبشر ان سے کہنے لگے کہ میرے بیٹے مبشر کو میرا سلام کہنا جب موت کے بعد اس سے ملاقات ہو انہوں نے فرمایا کہ ام مبشر اللہ تمہاری مغفرت فرمائے کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے تا آنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹا دیں گے ام مبشر نے اس پر کہا کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔

حدیث نمبر 3 :

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُسْلِمِ طَيْرٌ يَعْلُقُ بِشَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ


مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1625
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹا دیں گے۔

حدیث نمبر 4

ٴحضرت عبدالرحمٰن اپنے والد مکرم حضرت کعبؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کرتے ھیں کہ ‘عالم برزخ میں مئومن کی روح پرندہ کے قالب میں جنت کے درختوں سے میوے کھاتی رہتی ھے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اس دن کہ جب قیامت کے دن اسے اسکے بدن میں واپس بھیج دے گا’۔

نسائی شریف ج ۱ ص ۲۹۲ باب ارواح المئومنین
حدیث صحیح ، صحیح سنن النسائی ج ۲ ص ۷۹ رقم الحدیث ۲۰۷۲
مسند احمد ج ۳ ص ۴۵۵

حدیث نمبر 5:

ْحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ أُصِيبَ حَارِثَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَهُوَ غُلَامٌ فَجَائَتْ أُمُّهُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَرَفْتَ مَنْزِلَةَ حَارِثَةَ مِنِّي فَإِنْ يَکُنْ فِي الْجَنَّةِ أَصْبِرْ وَأَحْتَسِبْ وَإِنْ تَکُ الْأُخْرَی تَرَی مَا أَصْنَعُ فَقَالَ وَيْحَکِ أَوَهَبِلْتِ أَوَجَنَّةٌ وَاحِدَةٌ هِيَ إِنَّهَا جِنَانٌ کَثِيرَةٌ وَإِنَّهُ فِي جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ



صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1211
عبداللہ بن محمد معاویہ بن عمرو ابواسحاق حضرت حمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے سنا کہ حارث بن سراقہ بدر کے دن شہید ہوئے وہ لڑکے تھے ان کی والدہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں حارثہ سے مجھ کو کیسی محبت تھی اب اگر وہ بہشت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر کسی برے حال میں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہیں کہ میں کیسا رو رہی ہوں حضور اکرم نے فرمایا افسوس! کیا تو دیوانی ہوگئی ہے اور کیا اللہ کی ایک ہی بہشت سمجھی ہے بہشتیں بہت سی ہیں اور تیرا بیٹا حارثہ تو جنت الفردوس میں ہے۔

حدیث نمبر 6:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَيْنَ أَنَا قَالَ فِي الْجَنَّةِ فَأَلْقَی تَمَرَاتٍ فِي يَدِهِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ


صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1271
عبداللہ بن محمد، سفیان، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ احد کے دن ایک شخص نے حضور اکرم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائیے کہ اگر میں مارا جاؤں تو کہاں جاؤں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہشت میں وہ سن کر ایسا ہوگیا کہ کھجوریں جو کھا رہا تھا پھینک دیں اور پھر لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔

حدیث نمبر 7:

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا


یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرض کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388

حدیث نمبر 9:

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَقَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَأُخْبِرْنَا أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ وَتَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ قَالُوا رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ الثَّانِيَةَ فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَکُوا قَالُوا تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ


جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 948 حدیث قدسی
ابن ابی عمر، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرة، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت ولاء تحسبن الذین۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اس کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کی (یعنی شہداء کی) روحیں سبز پرندوں (کی شکل) میں جو جنت میں جہاں چاپتے ہیں وہاں پھرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف جھانکا اور پوچھا کیا تم لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہو جو میں تمہیں عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اللہ ہم اس سے زیادہ کیا چاہیں گے کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اسی طرح کیا تو ان شہداء نے سوچا کہ ہم اس وقت تک نہیں چھوٹیں گے جب تک کوئی فرمائش نہیں کریں گے۔ تو انہوں نے تمنا ظاہر کی کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں واپس کر دی جائیں تاکہ ہم دنیا میں جائیں اور دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو کر آئیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حدیث نمبر 10:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ قَالَ کُنَّا بِصِفِّينَ فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَکُمْ فَإِنَّا کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَی قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَائَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَسْنَا عَلَی الْحَقِّ وَهُمْ عَلَی الْبَاطِلِ فَقَالَ بَلَی فَقَالَ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَی قَالَ فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْکُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی عُمَرَ إِلَی آخِرِهَا فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ قَالَ نَعَمْ


عبداللہ یحیی یزید حبیب بن ابوثابت ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ جنگ صفین میں شریک و موجود تھے کہ سہل بن حنیف نے کھڑے ہو کر کہا لوگو! تم اپنی رائے کا قصور سمجھو ہم لوگ تو جنگ حدیبیہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے اگر جنگ کی ضرورت دیکھتے تو ضرور لڑتے جہاں فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرور عالم سے کہا تھا یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور یہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ارشاد ہوا ہاں! اس کے بعد انہوں نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مرے ہوئے لوگ دوزخ میں نہیں ہیں ارشاد ہوا کہ ہاں! تو اس کے بعد انہوں نے پھر پوچھا بتائیے تو پھر ہم اپنے مذہب کے بارے میں ان لوگوں سے کمزوریوں کو قبول کیوں کریں اور دین میں ان سے کیوں دبیں اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور ان کا فیصلہ کرے کیا ہم واپس ہو جائیں تو سرور عالم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی رسوا و ذلیل نہیں کرے گا۔ اس کے بعد فاروق اعظم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر وہی سب کچھ کہا جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا تھا تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا سرور عالم بیشک اللہ کے رسول ہیں جن کو اللہ کبھی بھی رسوا اور برباد نہیں کرے گا اور جب سورت فتح نازل ہوئی تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رسالت مآب نے پوری کی پوری پڑھی جس کو سن کر فاروق اعظم نے کہا یا رسول اللہ (یہ صلح حدیبیہ) کیا فتح ہے؟ ارشاد عالی ہوا ہاں (صلح حدیبیہ بیشک فتح مندی ہے) ۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 442 , بخاری شریف صفحہ ۳۹۵ جلد ۱
تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۶۴۲.

اللہ کے شکر سے
انبیاء،شہداء و مؤمنین کی روحانی حیاتِ برزخیہ و اخرویہ فی الجنت الفردوس
پر کوئی 34 دلائل قرآن و سنت سے اور بہت سے دلائل اقوالِ علمائے اسلام سے تائیداً پیش کر دیئے ہیں۔

یہ اس سلسے کا آخری حصہ تھا ۔۔ جس کے اختتام سے ساتھ ہی یہ حیات فی القبور کا سلسہ ختم ہوا ۔

اللہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے دلوں کو ہدایت کے لیئے کھول دے ( اٰمین) دعاؤں میں یاد رکھئیے گا ۔۔ اللہ نگہبان
 
Top