• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ امامت کا موجد اوّل عبد بن سبا یہودی تھا

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
عقیدہ امامت کا موجد اوّل عبد بن سبا یہودی تھا

(تحریر : اون اسلام)

بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا یہودی تھا ،پس اسلام لے آیا اور حضر ت علیؓ کی ''ولادت ''کا قائل ہو ا یہ اپنی یہو دیت کے زمانے یہو دیت کے زمانے میں یو شع بن نو ن علیہ السلام کے با رے میں غلو کر تے ہو ے کہا تھا کہ وہ مو سیٰ علیہ السلام کے و صی ہیں پس اسلام لانے کے بعد اسی قسم کی بات وہ حضر ت علی ؓ کے بارے میں کہنے لگاکہ آ نحضرت ﷺ کی وفات کے بعد وہ آپ کے وصی تھے​

یہ سب سے پہلاشخص ہے جس نے یہ مشہو ر کیا کہ حضرت علی ؓکی امامت کا قائل ہو نا فر ض ہے اور اس نے حضرت علی ؓ کے دشمنو ں پر ( جس سے اس ملعون کی مراد خلفائے راشدین تھے ) اعلانیہ تبراکیا اور حضرت علی ؓ کے مخالفین کو و اشگاف کیا اور ان کو کافر کہا ۔​

یہیں سے وہ لو گ جو شیعہ کے مخالف ہیں یہ کہتے ہیں کہ تشیع اور رافضیت ،یہو دیت کا چر بہ ہے ''
علامہ کشی چو تھی صدی کے اکابر شیعہ میں تھے ، اور پہلے شخص ہیں جنھو ں نے شیعہ اسما الر جا ل پر قلم اُ ٹھا یا ، '' رجا ل کشی '' اور '' رجال نجاشی '' جن سے علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب'' بحار الا نوار ''میں استفادہ کیا ہے ، ان دونوں کے با رے میں لکھتے ہیں۔۔۔​
'' و کتا با الر جال علیھا مدار العلما الا خیار فی الا عصا ر و الا مصا ر '' ( بحا ر الا نو ار ج : ۱ص :۳۳)
تر جمہ : رجا ل کی یہ دونو ں کتا بیں ، نہی پر پسند ید ہ علما کا مد ار ہے،تما م زما نو ں میں اور تما م شہر میں ''​

الغر ض!جو کتاب تما م اعصار و اَ مصا ر میں علماے اخیا ر کا مدا ر چلی آ تی ہے اسی میں یہ بتا یا گیا ہے کہ نظر یہ امامت سب سے پہلا مو جد و مبلغ عبد اللہ بن سبا یہو دی تھا ، جس کو امیر المؤ منین علی ؓ سے لقا و زیار ت کا شر ف حاصل تھا ۔ بعد میں جس کسی نے بھی '' نظر یہ امامت'' پیش کیا ، اس نے اپنے پیشو ا ابن سبا ء یہو دی کے وضع کر دہ سنگ بنیا د پر مسلہ امامت کی بلند و بالا عما ر ت تعمیر کی ۔ اب اگر آپ اپنے دلی نعمت اور مر شد ِ اوّل سے ۳۳۳۳کفر انِ فر ما ئیں تو اس کا کیا علاج ہے ؟​

کیا عبد اللہ بن سبا کا وجود فرضی ہے؟
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
تر جمہ :''اور شیعہ جو اہل سنت کے خلاف امام معصو م وغیر ہ کے دعو ے کر تے ہیں ، یہ دراصل ایک منا فق زندیق کا اختر اع ہے ، چنانچہ بہت سے اہل علم نے ذ کر کیا ہے کہ سب سے پہلے جس نے رفض ایجا د کیا اور جو سب سے پہلے حضرت علی ؓ کی امامت و عصمت کا قا ئل ہو ا وہ ایک منافق زند یق ( عبد اللہ بن سبا ) تھا ، جس نے دین اسلام کو بگا ڑ نا چا ہا اور اس نے مسلما نو ں سے وہی کھیل کھیلنا چا ہا جو پولس کے لیے ممکن ہو ا ، کیو نکہ نصا ر یٰ میں دین بھی کمز ور تھا اور عقل کی بھی کمی تھی ،کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام ( آسمان پر ) اُ ٹھا لیے گئے جبکہ ان کے پیر و زیادہ نہ تھے جو لو گو ں کو ان کے دین کی تعلیم دیتے اور ان کے علم و عمل کو لے کر کھڑے ہو جاتے ، لہذا جب پو لس نے حضر ت مسیح علیہ السلام کے بارے میں غلو اِختر اع کیا تو اس پر بہت سے گر و ہ اس کے پیر و ہو گئے ور وہ مسیح علیہ اسلام کے بارے میں غلو کو پسند کر نے لگے ، اور ان غالیو ں کے ساتھ بادشا ہ بھی غلو میں داخل ہو گئے اس وقت کے اہل حق کھڑے ہو ئے ، انہو ں نے ان کی مخا لفت کی اور ان کے غلو پر نکیر کی نتیجہ یہ کہ ان اہل حق میں سے بعض کو باد شا ہو ں نے قتل کر دیا ، بعض نے مد اہنت سے کام لیا اور ان کی ہاں میں ہاں ملا ئی ، اور بعض گر جو ں اور خلوت خانو ں میں گو شہ نشین ہو گئے۔ اور امت مسلمہ اللہ تعالی کا لا کھ لاکھ شکر ہے کہ اس میں ایک جماعت ہمیشہ حق قائم اور غالب رہی ، اس لیے کسی ملحد اور کسی بد عت ایجاد کر نے والے کو یہ قدرت نہ ہو ئی کہ اس امت کو غلو کی راہ پر ڈ ال دے اور حق پر غلبہ حاصل کر لے، ہاں !ایسے ملحد ان لو گوں کو ضر ور گمر ا ہ کر دیتے ہیں جو ان کی گمر ا ہی میں ان کی پیر وی اختیا ر کر لیں ( منہاج السنتہ ج :۳ ص : ۲۶۱)

اور حافظ شمس الد ین الذہبی نے بھی '' المنتہی '' میں اسی کا خلاصہ درج کیا ہے علامہ شہر ستانی '' الملل او الخل '' میں لکھتے ہیں ''

'' سبا ئیہ عبداللہ سبا کے پیر و کہلاتے ہیں جس نے حضر ت علی ؓ سے کہا تھا کہ آپ آپ ہین یعنی آپ ہی خد ا ہیں ۔ حضر ت علی ؓ نے اس کو مد نیہ کی طر ف جلاوطن کر دیا تھا ۔ کہتے ہیں کہ یہ یہو دی تھا ، اور اپنی یہو دیت کے زمانے میں یو شع بن نو ن کو مو سیٰ علیہ السلام کا و صی کہا کر تا تھا ، جیسا کہ وہ حضرت علی ؓ کے با رے میں کہتا تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے و صی ہیں ۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے اس عقید ے کا اظہا ر کیا کہ حضر ت علی ؓ کی امامت کا قائل ہو نا فر ض ہے ''( الملل والخل ج : ص : ۱۱)

حا فظ ابن حجر ؒ '' لسان المیزان '' میں لکھتے ہیں :
'' ابو الجلاس کہتے ہیں کہ میں حضرت علی ؓ کو عبد اللہ بن سباء سے یہ کہتے ہو ئے خو د ہے کہ اللہ قسم !مجھے رسو ل اللہ ﷺ نے ایسی راز کی کو ئی با ت نہیں بتائی جس کو کسی سے چھپا ہو ،اور میں نے آ نحضرت ﷺ کا یہ ارشا دخو د سنا کہ '' قیامت سے پہلے تیس جھو ٹے ہو ں گے '' تو بھی ان میں سے ایک ہے ۔

ابو اسحا ق فزاری نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ کے زمانہ میں سو ید بن غفلہ آپ ؓ کی خد مت میں حا ضر ہوئے ، پس آ پ ؓ کی خدمت میں عر ض کیا کہ : میں کچھ لو گو ں کے پاس سے گزار جو ابو بکر و عمر ؓ کو برائی سے یا د کر رہے تھے ، اان کی رائے یہ ہے کہ آپ بھی ( یعنی حضرت علی ؓ بھی ) ان دو نو ں کے بارے میں یہی با ت اپنے دل میں چھپائے ہو ئے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں ۔ اس گر وہ میں سے ایک عبد اللہ بن سبا ہے اور عبد اللہ بن سبا سب سے پہلا شخص تھا جس نے اس کا ( عداوت شیخین کا )اظہار کیا۔ حضرت علی ؓ نے میری بات سن کر فر مایا : مجھے اس کا لے خبیث( عبد اللہ بن سبا ) سے کیا تعلق ؟ پھر فر مایا کہ : اللہ کی پنا ہ کہ میں شیخین ؓ کے با رے میں بھلائی اور خو بی کے سو اکو ئی اور با ت اپنے دل میں چھپا ؤ ں۔ پھر آپ نے عبد اللہ بن سبا کو بلا بھیجا ، پس اسکو مد ا ئن کی طر ف چلتا کیا اور فر ما یا : یہ میر ے سا تھ ایک شہر میں نہیں ر ہ سکتا ۔ پھر اُ ٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے، یہا ں تک کہ لو گ جمع ہوگئے ۔یہاں راوی طو یل قصہ ذکر کیا ہے جس میں حضرت علی ؓ نے شیخین کی مدح و ثنا فر ما ئی ، اس کے آ خر میں حضرت علی ؓ کے الفا ظ یہ تھے :

''سن رکھو ! جس شخص کے بارے میں بھی مجھے یہ خبر پہنچی کہ وہ مجھے شیخین ؓ پر فضیلت دیتا ہے ،میں اس پر بہتان لگا نے والے کی حد (اسی ّ درّے ) جاری کر وں گا'' ( لسان المیزان ج :۳ ص : ۲۹۰)

''عبداللہ بن سبا کے حالات توارایخ میں مشہو ر ہیں ، اور الحمد اللہ کہ اس کی کو ئی روایت نہیں ، اس کے کچھ پیر و کار ہیں جن کو ''سبا ئیہ ' کہا جاتا ہے ، وہ حضرت علی ؓ کی الو ہیت کا عقید ہ رکھتے ہیں، اور حضرت علی ؓ نے ان کو آ گ میں جلایاتھا''

ابن سبا کے نظریات اور اس کی تعلیمات
بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اس کے ( ابن سبا کے ) عقا ئد و نظریا ت نہ کسی کتا ب میں منقو ل ہیں اور نہ ہی ہو سکے ہیں ، کیو نکہ یہ تحر یک محض سیا سی تھی ، شر ح عقا ئد اور بیا ن مسائل سے اس کا کیا تعلق ہو سکتا ہے ؟

اس ناکارہ کو یہ لکھتے ہو ئے نہایت رنج ہو تا ہے کہ آ پ کا دعویٰ غلط اور دلیل غیر منظقی ہے شیعی سنی دونوں کتابوں میں ابن سبا کے عقا ئد مذکو ر ہیں چنا نچہ :

اس ملعو ن نے سب پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ حضرت امیر المو منین ؓ حضرات شیخین ؓ سے افضل ہیں ۔ حضرت امیر ؓ نے اس کو بلا کر سر ز نش فرمائی اس کو جلاوطن کر دیا اور بر سر منبر یہ خطبہ ارشا د فرمایا کہ جو شخص آئند مجھے حضر ات ِ شیخین ؓ پر فضیلت دے گا ، اس پر مفتری کی حد لگاو ں گا ۔ علامہ مجلسی نے ''رجا ل کشی '' کے حوالے سے امام جعفر صادق ؒ کا ایک طویل ارشاد نقل کیا ہے جس کا ایک فقر ہ یہ ہے

'' امیر المو منین ،رسو ل ﷺ کے بعد سب سے سچے تھے اور جو شخص آپ پر جھو ٹ باندھ باندھ کر آپ کے سچ کو جھو ٹا ثا بت کر تا تھا وہ عبداللہ بن سبا تھا ،اللہ تعا لیٰ کی اس پر لعنت ہو '' ( بحار الا نو ار ج:ص۲۸۶)

غالبا َ اس نے حضرت اَمیر پر جو پے در پے جھو ٹ باندھے ان میں سب سے پہلا جھو ٹ یہی تھا کہ امیر المو منین ؓ حضرات شیخین سے افضل ہین ، اور اس کا یہی عقید ہ تھا جس کو سن کر امیر المؤ منین ؓ کے رو نگٹے کھڑے ہو گئے تھے ، اور اس ملعون کے اس ملعو ن عقید ے کا جب خیال آجا تا تھا تو امام زین العابدینؒ کے بھی رو نگٹے کھڑ ے ہو جاتے تھے ۔ چنا نچہ علامہ مجلسی ہی نے ''کشی '' کے حوالے سے ان کا یہ ارشاد نقل کیا ہے

''لعن اللہ من کذب علینا ، انّی ذکر ت عبد اللہ بن سبا فقا ہت کل شعر ہ فی جسدی لقد ادّعی امر ا لظیمَا، مالہ لعنہ اللہ ''
'' اللہ لعنت ہو اس پر جو ہم جھو ٹ باندھے ، میں عبداللہ سب کو یاد کر تا ہو ں تو میرے بدن کے سارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس نے بہت بڑی بات کا دعویٰ کیا تھا ، اس کو کیا ہو گیا تھا ؟اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو ۔''
(بحا ر الا نو ار ج : ۲۵ : ص ۲۸۶)

ابن سبا کا عقید ہ ولا یت بھی اوپر آ چکا ہے ، جس کی وہ لوگو ں کو تعلیم دیتا تھا کہ آ نحضرتﷺ نے امیر المو منین کو پو شید ہ علو م سے آ گاہی بخشی تھی ، کیو نکہ آپ وصئی رسول تھے ،چنانچہ خلافت و ولایت حضرت امیر المو منین کا حق تھا اور یہ کہ ان سے پہلے کے حضر ات خلفائے راشد ین ؓ نے ان کا یہ حق غضب کر لیا تھا ، لہذا ان سے تبرا ضروری ہے ۔'' تنقیح المقال''اور ''بحا ر الا نوار '' کی وہ روایت جو اوپر نقل کر چکا ہو ں اور جس میں بتا یا گیا ہے کہ وصایت و و لایت علی ب کا عقید ہ سب سے پہلے ابن سبا نے مشہو ر کیا تھااور مخالفین پر تبرا سب سے پہلے ا س نے شروع کیا ، اس پر ''بحا رالا نوار '' کے فاضل محشی کا یہ حاشیہ بڑا معنی خیز ہے

''عبد اللہ بن سبا سے پہلے کے لو گ تقییہ سے کام لیتے تھے ،ِاور ان امور کو ( کہ حضرت علیؓ و صی ر سو ل ہیں ،اَحق بالا ِ مامت ہیں شیخین سے افضل ہیں )اعلانیہ کہتے تھے ۔

لیکن اس معلو ن نے تقیہ چھو ڑ دیا اور ان با تو ں کو اعلانیہ ذ کر کر نا شر وع کر دیا
( معلوم ہو ا کہ جو لو گ تقیہ کو چھوڑکر اعلانیہ حضرت علی ؓ کو وصی ، اَ حق بالا مامت اور حضرات شیخین ؓ سے افضل کہتے ہیں ،وہ ابن سبا کے مقلد ہیں ، اس سے پہلے کو ئی شخص ان باتو ں کا اعلانیہ اظہا ر نہیں کر تا تھا ۔ ) مخالفن ِ اِ مامت کوکافر کہنا بھی اس کی خصو صیا ت میں سے ہے۔اس پر اللہ کی لعنت ہو '' (بحا ر الانوار ج :۲۵ص: ۲۸۷)

یہ بھی اوپر آچکا ہے کہ وہ حضرت علی ؓ کی الوہیت کا عقید رکھتاتھا ۔'' رجا ل کشی '' میں حضرت صادق ؒ کا ارشا د نقل کیا ہے:

لعن اللہ عبداللہ بن سب انّہ ادّعی الر بو بیہ فی امیر المؤ منین، وکا ن واللہ ا میر المؤ منین علیہ السلا م عبدا للہ طا ئعاَ، الو یل کذ ب علینا، وانّ قو ماَ یقولو ن فینا مالا نقو لہ فی انفسنا، نبرا الی للہ منھم، نبر ا الی اللہ منھم ''( بحا ر الانو ار ج : ۲۵ ص :۲۸۶)

تر جمہ :عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو کہ اس نے امیر المؤ منین کے بارے میں ربو بیت کا دعو ی کیا اللہ کی قسم !امیر المؤ منین علیہ السلام اللہ تعالی کے فر ما ں بر دار بندے تھے ، ہلاکت ہو اس کے لیے جو ہم پر جھو ٹ باندھے ، کچھ لو گ ہما رے با رے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو ہم خو د اپنے با رے میں نہیں کہتے ، ہم اللہ کے سامنے ان لو گوں سے بر ات کا اظہا ر کر تے ہیں (دومر تبہ فر مایا ) ۔''

اسی کے سا تھ سا تھ وہ اپنے لیے نبو ت کا بھی دعو یٰ ر کھتا ،علامہ مجلسی نے ''رجا ل کشی ''اور''منا قب آ ل ابی طالب ''کے حوالے سے امام باقر '' کا یہ ارشا د نقل کیا ہے

''عبداللہ بن سبا نبت کا دعو یٰ رکھتا تھااور کہتا تھا ،کہ امیر المؤ منین علیہ السلام ہیں ،اللہ تعالیٰ اس سے بالا تر ہیں ،امیر المؤمنین علیہ السلا م کو اس کی یہ بات پہنچی تو اسے بلا بھیجا ، اس سے پو چھا تو اس نے اقرار کیا اور کہا کہ :ہاں !آپ وہی میر ے دل میں یہ با ت ڈالی گئ کہ آپ اللہ ہیں اور میں نبی ہوں۔ (بحا ر الا نو ار ج ص:۲۸۶)۔۔۔

ابن سبا کے پہلے تین عقیدوں کو شیعہ فر قو ں نے آپس میں تقسیم کر لیا ۔ چنانچہ تفضیلی شیعو ں نے اس عقیدے کو لے لیا ، سنی رافضیوں نے اس کے دو سرے عقیدے پر اپنے عقا ئد کی عما رت اِستوار کر لی ، اور غالی رافضیو ں نے آخری درجے پر جا کر دم لیا ،غالبا ِ َیہ اس عیا ر کی حکمت عملی تھی کہ ہر عقیدے کی ہر جما عت کو جداگانہ تعلیم دی ،چنا نچہ شاہ عبدلعزیزمحدث دہلو ی نے اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ صفحہ نمبر ۹۷پر بہت تفضیل سے ذکر فرمایا ہے ۔
 
Top