• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عقیدہ ختم نبوت اور بریلویت
۱)مرزا غلام احمد قادیانی مردود کذاب لکھتا ہے :
’’یعنی جب کہ میں بروزی طور پر آنخضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کمالات محمدی ؐمع نبوت محمدیہ ؐکے میرے آئینہ ظلیت میں منعکس ہیں تو پھر کونسا الگ انسان ہوا جس نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعویٰ کیا۔‘‘ [ایک غلطی کا ازالہ:ص۸، روحانی خزائن:ج ۱۸ص ۲۱۲]
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزا قادیانی کذاب کا ایک جھوٹا دعویٰ یہ بھی تھا کہ نبی ﷺ کے تمام کمالات اس کذاب و دجال میں متجلی و منعکس ہیں (نعوذ باﷲ)۔ چونکہ تمام کمالات میں نبوت بھی شامل ہے، لہٰذا اسے کوئی ایسا انسان نہ سمجھا جائے جس نے الگ سے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہو بلکہ اس کو بروزی نبی تصور کیا جائے۔
فرقہ بریلویہ کا شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے لیئے یہی عقیدہ
انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب ،مرزا قادیانی کے لئے تو نہیں مگر شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لیئے ایسا ہی عقیدہ رکھتے تھے۔ چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا :
’’حضور پر نور سیدنا غوث اعظم ،حضور اقدس و انور سید عالم ﷺ کے وارث کامل و نائب تام و آئینہ ذات ہیں کہ حضور پرنور ﷺ مع اپنی جمیع صفات جمال و جلال و کمال و افضال کے ان میں متجلی ہیں ۔۔۔۔۔ تعظیم غوثیت عین تعظیم سرکاررسالت ہے۔۔۔۔۔‘‘ [ السنیۃ الانیفہ فی فتاویٰ افریقہ : ص ۹۷]
پتا چلا کہ جس طرح مرزا قادیانی کا اپنے متعلق کفریہ دعویٰ یہ تھا کہ نبی ﷺ اپنی تمام صفات کے ساتھ اس میں متجلی و منعکس ہیں اسی طرح احمد رضا خان بریلوی کا یہی جھوٹا و کفریہ دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے متعلق تھا کہ نبی ﷺ اپنی تمام صفات کے ساتھ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ میں متجلی ہیں اور یہ تمام صفات ان تمام جمال، جلال ،کمال اور افضال کے ساتھ ہیںجو نبی ﷺ کو حاصل تھا۔
ہو سکتا ہے کہ اس پر کوئی یہ فضول اور بیہودہ تاویل کرنے کی کوشش کرے کہ مرزا قادیانی نے تو یہ جھوٹا دعویٰ اپنے متعلق کیا تھا جبکہ احمد رضا خان صاحب نے یہ دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لئے کیا ہے۔ تو عرض ہے کہ جو بات مرزا کے لیئے کفر تھی وہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے لیئے ماننا کس طرح عین تعظیم رسالت ہو گئی ؟ جس طرح مرزا کو نبی یا نبی ﷺ کی صفات کا عکس اور اس میں متجلی ماننا کفر ہے اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو نبی ماننا یا نبی ﷺ کی جمیع صفات کاعکس اور ان میں متجلی ماننا بھی عین کفر ہے۔
تنبیہ: بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا:
’’۔۔۔۔صدیق اکبرؓ۔۔۔۔عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔۔۔اور عثمان ؓ۔۔۔۔اور علی مرتضےٰؓ۔۔۔۔اور سیداشباب الجنۃحسنینؓ جن کا مجموعہ بعینہ جمال ِ با کمال آنخضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ تھا۔۔۔۔‘‘ [سیفِ چشتیائی:ص۱۵]
ملاحظہ فرمائیں کہ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے نزدیک تو ابوبکر صدیق ، عمر فاروق،عثمان ، علی اور حسن و حسین رضوان اللہ اجمعین جیسے جلیل القدر اور افضل الخلق بعد الانبیاء صحابہ کرام کا مجموعہ نبی ﷺ کے جمال با کمال کا ہی آئینہ بن سکا جبکہ بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کی اکیلی ذات، نبی ﷺ کی تمام صفات صرف مع جمال ہی نہیں بلکہ جلال و کمال اور افضال کابھی تجلی خانہ و آئینہ قرار پائی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
۲)بریلویوں کے محقق العصر مفتی محمد خان قادری نے لکھا:
’’اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی ہے۔ کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی نبی نہیں آ سکتا۔ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے۔اور یہ کہے اور مانے کہ آپ کے بعد نیا نبی آ سکتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔‘‘ [مجلہ انوار رضا، تاجدار بریلی نمبر۲۰۰۳ء:ص۶۹]
اس سے معلوم ہوا کہ
i) نبی ﷺ کو آخری نبی ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔
ii) نبی ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی یا بروزی نبی ہرگز نہیں آ سکتا اور جو اس کے خلاف ایسا عقیدہ رکھے یا کسی بڑی سے بڑی شخصیت کے مقام کو مرتبہ نبوت کا ظل یا بروز مانے یعنی ظلی یا بروزی نبی مانے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔
فرقہ بریلویہ کاشیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو ظلی نبی ماننا
اب بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
’’یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے کہ بے شک مرتبہ علیہ رفعیہ حضور پر نور رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظل مرتبہ نبوت ہے۔‘‘ [عرفان شریعت:ص۸۴]
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب بریلوی کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا مقام، مرتبہ نبوت کا ظل ہے۔ ایک ہے مرتبہ نبوت اور ایک ہے ظل مرتبہ نبوت،جو مرتبہ نبوت پر ہو وہ نبی کہلاتا ہے اور جو ظل مرتبہ نبوت پر ہو وہ ظلی نبی ٹھہرا۔ گویا بریلویوں کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک شیخ جیلانیؒ ظلی نبی تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
کسی کو بھی نبی ﷺ کے بعد نبی ماننا ہی کفر اور دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا عقیدہ نہیں بلکہ جو کوئی کسی کو ظلی نبی مانے یا اس درجہ و مقام پر سمجھے وہ بھی ختم نبوت کا انکاری اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس بات کا اقرارخود بریلوی محققین کو بھی ہے جیسا کہ مفتی محمد خان قادری صاحب کے حوالے سے گزر چکا ہے۔ مگر افسوس کہ اپنے ہی اعلیٰ حضرت اسی کفریہ اور دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والے عقیدے کے حامل نکلے۔
بریلویوں کے نئے نئے نبی
۳)بریلویوں کے ثقہ و مستند پیر و مرشد خواجہ غلام فرید چشتی نے کہا:
’’حضرت قبلہ ٔعالم مہاروی بھی اتقاء میں یگانۂ روزگار تھے۔ جس طرح ایک نبی ٔمرسل صاحب مذہب ہوتا ہے۔ آپ بھی نبی مرسل کی طرح مبعوث کئے گئے تھے۔‘‘ [اشاراتِ فریدی ترجمہ مقابیس المجالس:ص ۸۷۲۔۸۷۱]
شیخ اور پیر کے نام کا کلمہ
۴)خواجہ غلام فرید چشتی نے کہا:
’’حضرت مولانا فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے حضرت شیخ کے تمام مریدین برگزیدہ تھے اور محبت شیخ میں اس قدر محو تھے کہ کلمہ طیبہ میں ’’محمد رسول اللہ‘‘حضرت شیخ کے ڈر سے کہتے تھے ورنہ ان کا جی چاہتا تھاکہ شیخ کے نام کا کلمہ پڑھیں۔‘‘ [اشاراتِ فریدی ترجمہ مقابیس المجالس:ص ۶۷۱]
اپنے تسلیم شدہ اکابرین کا تذکرہ کرتے ہوئے مشہور بریلوی عالم و محقق عبد الحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:
’’بحر معرفت حضرت خواجہ غلام فرید فاروقی چشتی قدس سرہ (چاچڑاں شریف)‘‘ [تذکرہ اکابر اہلسنت:ص۳۲۱]
نیز عبدالحکیم شرف قادری بریلوی نے ’’اشاراتِ فریدی‘‘ (ترجمہ مقابیس المجالس) کو بھی خواجہ غلام فرید چشتی کے ملفوظات تسلیم کر رکھا ہے۔ دیکھئے تذکرہ اکابر اہلسنت(ص۲۲۳)
بریلویوں کے شیخ الحدیث و التفسیر فیض احمد اویسی نے بھی ’’اشاراتِ فریدی‘‘ (ترجمہ مقابیس المجالس) کوخواجہ غلام فرید چشتی کے ملفوطات تسلیم کر رکھا ہے۔ دیکھئے التذکار السعید(ص۶۴۔۶۵) بحوالہ تذکرہ اکابر اہلسنت(حاشیہ ص۲۲۳)
بریلویوں کے پیر سید نصیر الدین نصیرگولڑوی (سابقہ سجادہ نشین، آستانۂ عالیہ غوثیہ مہریہ، گولڑہ شریف ) لکھتے ہیں:
’’وابستگانِ سلسلہ ٔ چشتیہ کے نزدیک بالعموم اور بصیر پوری و سیالوی صاحب کے نزدیک بالخصوص مستند و حجت کتاب مقابیس المجالس‘‘ [لطمۃ الغیب:ص ۲۱۰]
بریلویوں کے تسلیم و توثیق شدہ نئے کلمے
۵)کوئی یہ نہ سمجھے کہ نیاکلمہ پڑھوانے کی کسر رہ گئی ہے۔لہٰذا بریلویوں کی مصدقہ و تسلیم شدہ کتب سے ان کے ایجادو توثیق کردہ نئے کلمے پیش ِ خدمت ہیں۔
شبلی رسول اللہ (نعوذ باللہ)
(iبریلویوں کے سلطان المشائخ محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیا ء نے فرمایا:
’’ایک شخص شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ میں آپ کا مرید ہوتا ہوں ۔۔۔۔(حضرت شیخ ) شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا تو کلمہ طیبہ کس طرح پڑھتا ہے ۔مرید نے جواب دیا کہ میں اس طرح پڑھتا ہوں ۔ لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ۔ شبلی بولے اس طرح پڑھ لا الٰہ الااللہ شبلی رسول اللہ مرید نے فوراً اسی طرح پڑھ دیا ۔ اس کے بعد شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شبلی آنخضرت ﷺ کے ادنیٰ چاکروں میں سے ایک ہے ۔ اللہ کے رسول تو وہی ہیں میں تو تیرے اعتقاد کا امتحان کر رہا تھا۔‘‘ [فوائد الفواد، پانچویں جلد آٹھویں مجلس:ص۳۹۹]
احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’حضرت محبوب الٰہی کے ملفوظاتِ کریمہ فوائد الفواد شریف کہ حضور کے مرید رشید حضرت میر حسن علا سنجری قدس سرہ کے جمع کئے ہوئے ہیں ان میں بھی حضور کا صاف ارشاد مذکور ہے۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۱ص۵۶۴]
ایک اور جگہ احمد رضا خان بریلوی نے فوائد الفواد سے اپنے حضور حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء کا ایک ارشاد نقل کرنے کے بعد کہا:
’’حضور ممدوح کے یہ ارشادات ِ عالیہ ہمارے لیے سند کافی۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۴ص۸۰]
(iiبریلویوں کے امام الاصفیاء پیر جماعت علی شاہ لاثانی کے خلیفہ مجاز حکیم محمد شریف نے لکھا:
’’شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دو شخص بیعت کے لئے حاضر ہوئے۔ایک مولوی وضع کا تھااور ایک سادہ زمیندار تھا۔ آپ نے بیعت کرنے پر مولوی صاحب سے فرمایا۔ کہ پڑھ لاالہ الاللہ۔ شبلی رسول اللہ۔ اس پر مولوی صاحب نے لاحول پڑھااور آپ نے جھڑک دیا۔ پھر زمیندار کی باری آئی ۔ آپ نے اس کوبھی اسی طرح فرمایا۔ وہ خاموش رہا۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بولتے کیوں نہیں ۔تم بھی مولوی صاحب سے متفق ہو۔ زمیندار بولاکہ مَیں تو آپ کوخدا تعالیٰ کے مقام پرسمجھ کر آیا تھا۔ آپ ابھی تک مقام ِ نبی ؐ کا ہی ذکر فرماتے ہیں۔‘‘ [منازل الابرار:ص۱۰۶]
جماعت علی شاہ کے خلیفہ حکیم محمد شریف نے اس پورے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا:
’’الغرض یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔عوام نہیں سمجھ سکتے۔ خواص اور سالکانِ طریقت کو ان چیزوں کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔‘‘ [منازل الابرار:ص۱۰۶]
بریلوی پیر علی حسین شاہ نقش ِ لاثانی کی تصدیق و تائید کے ساتھ دربارِ پیر جماعت علی شاہ لاثانی (علی پور سیداں)سے شائع ہونے والی کتاب ’’انوارِ لاثانی کامل‘‘ (ص۵۸۵) میں حکیم محمد شریف کو پیر جماعت علی شاہ لاثانی کا خلیفہ تسلیم کیا گیا ہے۔
جماعت علی شاہ کے خلیفہ مجازحکیم محمد شریف نے اپنی اس کتاب کے متعلق لکھا:
’’حضرت قبلہ حکیم خادم علی صاحب مد ظلہ العالی جلوہ آرائے مطب برلب سڑک بنام گرامی خادم علی روڈ بمقام سیالکوٹ نے مجموعہ افکار فقیر کا ملاحظہ اور رموزانہ بلیغ فرماتے ہوئے تہ دل سے صحت کی تاکید کی اور با اشتیاق خود اشاعت کی تاکید فرمائی۔‘‘ [منازل الابرار:ص۳]
گویا یہ کتاب ’’منازل الابرار‘‘ سیالکوٹ کے مشہور بریلوی بزرگ حکیم خادم علی کی بھی تصدیق و تائید شدہ ہے اور یہ حکیم خادم علی بریلویوں کے امیر ملت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری کے خلیفہ اور بریلوی اکابرین میں سے ہیں۔ دیکھئے تذکرہ اکابر اہلسنت (ص۱۳۵)
2۔چشتی رسول اللہ (نعوذ باللہ)
(iبریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا:
’’سالک کا وجود بعینہ مظہر حقیقت محمدیہؐ ہو کر’’لا الہ الاللہ چشتی (سالک) رسول اللہ‘‘کے ترنم میں آتا ہے۔‘‘ [تحقیق الحق:ص۱۲۷]
ii) خواجہ غلام فرید چشتی لکھتے ہیں:
’’ایک شخص خواجہ معین الدین چشتی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اپنا مرید بنائیں۔ فرمایا کہہ لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں چشتی اللہ کا رسول ہے۔‘‘ [فوائدِ فریدیہ: ص ۸۳]
خواجہ غلام فرید کی کتاب ’’فوائد فریدیہ‘‘ کے متعلق عبد الحکیم شرف قادری نے لکھا:
’’مسلکِ توحید اور اعتقادی مسائل پر بہترین کتاب۔‘‘ [تذکرہ اکابر اہلسنت:ص۳۲۳]
iii) خواجہ معین الدین چشتی نے مرید ہونے کے لئے آنے والے شخص کو کہا:
’’آپ نے فرمایاکہ تو کلمہ کس طرح پڑھتا ہے؟اس نے کہالا الہ الاللہ محمد رسول اللہ۔ آپ نے فرمایا یوں کہو! لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ۔اس نے اسی طرح کہا۔ خواجہ صاحب نے اسے بیعت کر لیااور خلعت و نعمت دی اور بیعت کے شرف سے مشرف کیا۔‘‘
[فوائد السالکین:ص۲۷]
اس کے بعد موجود ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی نے وضاحت کی کہ کلمہ اصلی وہی ہے جو پہلا تھا اور چشتی رسول اللہ کا کلمہ صرف مرید کا اعتقاد جانچنے کے لئے جان بوجھ کرپڑھایاگیا۔ نیز چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھانے اور مرید کا اسے پڑھ لینے کے متعلق کہا:
’’چونکہ تو مرید ہونے کیلئے آیا ہے اور تجھے مجھ پر یقین کامل تھا۔ اس لئے فوراً تو نے ایسا کہہ دیااس لئے سچا مرید ہو گیا۔ اور درحقیقت مرید کا صدق بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اپنے پیرکی خدمت میں صادق اور راسخ رہے۔‘‘ [فوائد السالکین:ص۲۷]
بریلویوں کی معروف تنظیم ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کے علماء و محققین پر مشتمل مجلس المدینۃ العلمیہ نے ’’فوائد السالکین‘‘ کو خواجہ معین الدین چشتی کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ملفوظات تسلیم کر رکھا ہے۔دیکھئے ملفوظات اعلیٰ حضرت مع تخریج و تسہیل(ص۴۲)
بریلویوں کے ترجمان مسلک اعلیٰ حضرت حسن علی رضوی نے خواجہ غلام فرید کی کتاب ’’فوائد فریدیہ‘‘ سے پیش کیے گئے ’’چشتی رسول اللہ‘‘ کے کفریہ کلمہ کی وضاحت میں لکھا:
’’پھر خواجہ غلام فرید علیہ الرحمۃ پر کیا اعتراض ہے جبکہ یہ کلمہ اپنی تفصیل کے ساتھ ’’فوائد السالکین‘‘ملفوظات خواجہ قطب الدین بختیار کاکی مرتبہ خواجہ بابا فرید الدین گنج شکر میں موجود ہے۔‘‘ [برقِ آسمانی بر فتنہ شیطانی:ص۱۳۸]
iv)بریلویوں کے زبدۃ العارفین میرعبدالواحد بلگرامی نے خواجہ معین الدین چشتی کے حوالے سے لکھ رکھا ہے کہ بیعت کی غرض سے حاضر ہونے والے شخص کے کمال ،اعتقاد اور صدق کوآزمانے کے لیے کہا گیا:
’’اگر تم کہو کہ ’’لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘تو میں تمہیں مرید کر لوں ۔ وہ شخص چونکہ دھن کا پکا اور سچا تھااس نے فوراً اقرار کر لیا۔خواجہ نے بیعت کے لیے اسے اپناہاتھ دیااور اسے بیعت کر لیا۔‘‘ [سبع سنابل:ص۲۷۸۔۲۷۹]
میر عبدالواحد بلگرامی نے چشتی رسول اللہ کا کلمہ پڑھانے اور مرید کا اسے پڑھ لینے کے متعلق کہا:
’’لہٰذا پیر کے ساتھ صدق یہی ہے کہ ظاہر و باطن کی کسی حالت پر زرہ برابر اعتراض نہ کرے۔‘‘ [سبع سنابل:ص۲۷۹]
گویا اگر پیر اپنے نام کا کلمہ بھی پڑھائے تو مرید کو چاہئے کہ پڑھ لے اور اپنے پیر پر اعتراض نہ کرے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
بریلویوں کے امام احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’سید سادات بلگرام حضرت مرجع الفریقین ، مجمع الطریقین ،حبر شریعت،بحر طریقت،بقیۃ السلف،حجۃ الخلف سیدنا و مولانا میر عبدالواحد حسینی زیدی واسطی بلگرامی قدس اللہ تعالیٰ سرہ السامی نے کتاب مستطاب سبع سنابل شریف تصنیف فرمائی کہ بارگاہِ عالم پناہ حضور سید المرسلین ﷺ میں موقع قبولِ عظیم پر واقع ہوئی۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۴۸۴۔۴۸۵]
نیز دیکھئے فتاویٰ رضویہ(ج۱۴ص۶۵۷)
عبدالحکیم شرف قادری بریلوی نے لکھا:
’’سبع سنابل عمدہ ترین کتابے است در عقائد و تصوف۔۔۔۔عظیم ترین امتیاز کہ سبع سنابل را حاصل شد این است کہ درگاہِ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مقبول و منظور شد۔‘‘ [عظمتوں کے پاسبان:ص۱۶]
اس فارسی عبارت کا سلیس مطلب یہی ہے کہ (میر عبدالواحد بلگرامی کی کتاب) سبع سنابل عقائد و تصوف کی عمدہ ترین کتاب ہے اور اس کا عظیم ترین امتیاز یہ کہ سبع سنابل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے قبول و منظور شدہ ہے۔
3۔انگریز رسول اللہ (نعوذ باللہ)
بریلویوں کے شیر ربانی شیر محمد شرقپوری نے غصہ میں آ کر ایک نوجوان کو کہا:
’’کہو لا الہ الاللہ انگریز رسول اللہ ، لا الہ الاللہ لندن کعبۃ اللہ۔۔۔۔‘‘ [انقلاب الحقیقت :ص۳۱، احوالِ مقدسہ:ص۵۰، منبع انوار:ص۸۱]
کتاب انقلاب الحقیقت مئولفہ صاحبزادہ عمر بیربلوی خلیفہ مجاز شیر محمد شرقپوری
کتاب احوالِ مقدسہ مئولفہ قا ضی ظہور احمد اختر۔ اس کتاب پر بریلویوں کے مشہور و معروف عالم دین محمد منشاء تابش قصوری کی تقریظ اور مئولف و کتاب کی تعریف و توصیف بھی موجود ہے۔
کتاب منبع انوار مرتبہ صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری
عقیدہ ختم نبوت اسلام و ایمان کا انتہائی اہم و بنیادی عقیدہ ہے۔ مگر فرقہ بریلویہ کی انتہائی معتبر و مستندکتب میں اس کے صریح مخالف و معارض عقائد و نظریات کی ایک سنگین تعداد پائی جاتی ہے۔جس کے کافی ثبوت مع مکمل حوالہ جات پیش کر دیے گئے ہیں۔
’’لاالہ الاللہ شبلی رسول اللہ‘‘، ’’لا الہ الاللہ چشتی رسول اللہ‘‘ اور ’’لا الہ الاللہ انگریز رسول اللہ‘‘کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کی باطل تاویل میں کسی قسم کا غلبہ حال، شطح یا مستی کا مردود بہانہ بھی فضول اور ناقابلِ قبول ہے۔ کیونکہ ان تینوں کفریہ و گستاخانہ کلمات کے پڑھانے اور پڑھنے والوں کا ان خبیث کلمات کو جان بوجھ کر محض مرید کے صدق اور اعتقاد کو آزمانے یا محض اپنا غصہ دکھانے کے لئے بلا اکراہ پڑھنا پڑھانا مذکور ہے۔ نیز ان کو نقل کرنے والوں نے بھی بطور استدلال و تائید اور بطور حجت ان کفریہ و گستاخانہ کلمات کو پیش کر رکھا ہے۔
غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھا:
’’ان تمام عبارات میں تصریح ہے کہ گستاخانہ کلمات بولنے والا جو مراد بھی بیان کرے اس سے حکم کفر ٹل نہیں سکتا۔ جو آدمی کہہ رہا ہے کہ مَیں اللہ کا رسول ہوں اپنی مراد بھی بتلائے پھر بھی فقہاء اس کو کافر سمجھ رہے ہیں۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۱ص۳۶۵]
لہٰذا ’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے والے اور ان کو صحیح سمجھنے والے چاہے جو مرضی بہانے بنائیں اور جو مرضی اپنی مراد بیان کریں ان کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے کی وجہ سے ان پر جو حکم کفر عائد ہوتا ہے ہرگز ٹلنے والا نہیں۔
غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے ایک اور جگہ لکھا:
’’نیز یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب ایک آدمی کفریہ کلمہ بولے اور کچھ لوگ اس کی تائید کریں اور اس کو کفر نہ سمجھیں تو وہ کفریہ کلمہ سب کی طرف منسوب ہو گااور یہی سمجھا جائے گا کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۲ص۵۰]
اس بریلوی اصول سے بھی معلوم ہوا کہ ’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ کے صریح کفریہ و گستاخانہ کلمات کہنے والے اور ان کو بطور تائید و حجت نقل کرنے والے اور ان صریح کفریہ کلمات کو کفر نہ سمجھنے والے سب کے سب اس جرم میں شریک ہیں اور یہ کفر و گستاخی ان سب کا عقیدہ سمجھی جائے گی۔
احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’نشہ کی بیہوشی میں اگر کسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بیہوشی کافر نہ کہیں گے نہ سزائے کفر دیں گے، مگر نبی صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشہ کی بیہوشی سے بھی صادر ہوا تو اسے معافی نہ دیں گے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۱۴ص۳۰۱]
غلام نصیر الدین سیالوی بریلوی نے لکھا:
’’اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ایک ہے باقی کلمات کفر کا حکم اور ایک ہے سرکار(ﷺ)کی شان میں گستاخی کرنے کا حکم ۔ تو جو آدمی سرکار کی شان میں گستاخی کرے گاوہ چاہے نشہ میں ہو یا اس کی زبان قابو میں نہ ہو پھر بھی اس کو کافر سمجھا جائے گا۔‘‘ [عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۲ص۳۸۶]
ان بریلوی اصولوں سے واضح ہوا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی اور توہین دوسرے کلمات کفر کی طرح نہیں بلکہ اس کا حکم باقی کفریات سے کہیں زیادہ درجہ سخت ہے۔ باقی کلمات کفر کا مرتکب اگر ہوش میں نہ ہوتو کافر قرار دیا جائے گا نہ کفر کی سزا پائے گا مگر جو شخص نبی ﷺ کی گستاخی و توہین کا مرتکب ہو چا ہے ہوش میں نہ ہو یا اس کی زبان قابو میں نہ ہو تب بھی معافی و خلاصی نہیں پا سکتا اور کفر کا مرتکب و کافرسمجھاجائے گا۔ اور جو جان بوجھ کر اس کفر و گستاخی کا مرتکب ہو اس کا حکم کس قدر سنگین ہو گا جاننا مشکل نہیں۔
ان اپنے تسلیم شدہ اصولوں کے باوجود بریلوی حضرات اگر’’چشتی ، شبلی و انگریز رسول اللہ‘‘ جیسے سنگین کفریہ و گستاخانہ کلمات کی من گھڑت باتوں کے سہارے تاویل کریں اور ان کے قائلین کا دفاع کریں تو یہ سوائے گمراہی و ضلالت کے کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے تمام کفر یہ و گستاخانہ کلمات اور ان کی تائید سے اپنی پناہ میں رکھے اور صرف سلف صالحین کے منہج کے مطابق کتاب و سنت کو اپنا عقیدہ و عمل بنانے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
[/JUSTIFY]









 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
کسی بھائی نے اسی محدث فورم سے لے کر اسی مضمون کی مکمل سکرین شاٹس مع اسکین حوالہ جات ایک بریلوی فورم پر شئیر کر دیں۔ جس پر وہاں موجود ایک سعیدی نامی بریلوی عالم نے باطل تاویلات کے سہارے چند حوالہ جات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب تاریخ البدایہ والنہایہ سے ایک حوالہ شروع میں نقل کیا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کو چند لوگوں نے رسول کہا اور آپ نے ان پر نکیر نہیں کی۔ اس حوالے کی بنیاد پر سخت مغالطہ انگیزی کی بنیاد قائم کی۔ اللہ کی توفیق و رحمت سے ان باطل تاویلات اور مغالطہ انگیزیوں کا جواب لکھ کر وہاں پیش کر دیا ہے۔ جسے یہاں بھی افادہ عام کے لئے شئیر کیا جا رہا ہے۔

سعیدی صاحب کے جواب میں

سعیدی صاحب کے امام احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’پھر تاریخ کسی کی تصنیف ہومدارِ عقیدہ نہیں ہو سکتی، مئورخ رطب ،یابس،مسند، مرسل،مقطوع،معضل سب کچھ بھر دیتے ہیں۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۶ص۴۲۹]
ایسے میں سعیدی صاحب کے اکابرین کی مستندکتب میں موجود صریح کفریات اور ان کی تائید کو امام ابن کثیر ؒ کی کتابِ تاریخ ’’البدایہ و النہایہ‘‘ کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

سعیدی صاحب نے لکھا:
’’کیا بے سند اوراور باسند برابر ہیں ؟‘‘
سعیدی صاحب ہم نے آپ سے کب کہا کہ بے سند اور با سند برابر ہیں۔۔۔؟ مگر خود آپ حضرات کے اصول کے مطابق کتب مشائخ میں کسی سند کی حاجت ہی نہیں۔ یہاں سند دریافت کرنا آپ کی اپنے ہی اصولوں سے لاعلمی ہے!

۱)بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی شب معراج میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح پاک کے حاضر ہونے اور نبی ﷺ کے ان کی گردن پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہونا وغیرہ بلا سند و مردود روایات کے متعلق لکھتے ہیں:
’’ہاں فاضل عبدالقادر قادری ابن شیخ محی اہلی نے کتاب تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ روایات لکھی ہیں اور اسے جامع شریعت و حقیقت شیخ رشید ابن محمد جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’حرز العاشقین‘‘ سے نقل کیا ، اور ایسے امور کو اتنی ہی سند بس ہے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۶ص۳۹۹]

اندازہ لگائیں جب اعلیٰ حضرت کے ہاں نبی کریم ﷺ کی جانب بھی ایک بات منسوب کرنے کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ فلان فلاں مشائخ تصوف نے اس بات کو اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور یہی سند بھی کافی ہے وہ اگر اپنے اکابرین و بزرگوں کے تسلیم و تائید شدہ اور استدلال کردہ واقعات کی سند دریافت کریں تو اسے کیا کہیں۔۔۔؟

۲) احمد رضا خان بریلوی مزید اپنے اس اصول کو بیان کرتے لکھتے ہیں:
’’اور حضرات مشائخ کرام قدست اسرارھم کے علوم اس طریقئہ سند ِظاہری حدثنا فلاں عن فلاں میں منحصر نہیں۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۴۲۶]

۳) خان صاحب بریلوی مزید فرماتے ہیں:
’’نہ روایات مشائخ اس طریقئہ سند ِظاہری میں محصور‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۸ص۴۲۷]

معلوم ہوا کہ ان کے یہاں مشائخ کی روایات سند وغیرہ کی محتاج نہیں اور سعیدی صاحب کا بزرگوں کی روایات و نقول پر سند کا اعتراض کرنا خود ان کے اپنے اعلیٰ حضرت کے اصولوں کے مطابق غلط ہے۔

۴)احمد رضا خان بریلوی ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’قدم میں کیا وجہ انکار ہے کہ نقول مشائخ کو خواہی رد کیا جائے ۔ ہاں سند محدثانہ نہیں پھر نہ ہو ایسی جگہ اسی قدر بس ہے سند کی حاجت نہیں۔‘‘
[عرفان شریعت:ص۹۱]​
سعیدی صاحب جب نقول مشائخ کو خوامخواہ رد کرنا آپ لوگوں کے نزدیک درست ہی نہیں اور نہ مشائخ کی نقل کردہ روایات و حکایات میں سند کی حاجت ہے بلکہ مشائخ کا نقل کر دینا ہی کافی ہے توپھر کیوں سند پر معترض ہو رہے ہیں۔۔۔؟

نیز احمد رضا خان بریلوی کا یہ قول پہلے بھی نقل کر دیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک خواجہ نظام الدین اولیاء کے ارشادات عالیہ مندرجہ ’’فوائد الفواد‘‘ سند کا درجہ ہی رکھتے ہیں اور انہیں میں ’’شبلی رسول اللہ‘‘ کا کفریہ کلمہ با تائید اور جان بوجھ کر پڑھانا مذکور ہے۔

سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’شبلی و چشتی کی حکایات کو جب متفرق مقامات سے جمع کر کے ایک جگہ محدثانہ طریق سے مجموعی طور پر دیکھیں تو کیا غلبہ حال و استغراق کے الفاظ اور رجوع کے الفاظ نہیں ملتے؟‘‘
عرض ہے کہ قطعاً نہیں۔۔۔ہم نے جو بھی روایات اس سلسلے میں پیش کی ہیں ان میں حال و استغراق کا بہانہ مردود و باطل ہے۔ ان روایات کو جمع بھی کر لیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر یہ کفریہ و ناپاک کلمات پڑھائے تھے۔ اپنے ان کفریہ کلمات پر بعد میں بہانے بنانا ان کا ہوش و حواس میں ہونا ثابت کرتا ہے، جس کا کوئی انصاف پسند انکار نہیں کر سکتا۔

جہاں تک رجوع کا تعلق ہے تو سعیدی صاحب سے عرض ہے کہ کیا ان کفریہ کلمات پڑھنے پڑھانے والوں میں سے کسی کا بھی توبہ کرنا ثابت ہے۔۔۔۔؟ اگر نہیں تو کیا بعد میں بہانے بنانے کو رجوع کہتے ہیں۔۔۔۔؟ مثال کے طور پر اگر کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا ان کی شان میں گستاخی کرے اور ساتھ یہ بھی کہتا رہے کہ میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں ۔۔۔۔یا کوئی اور بہانے بنائے ۔۔۔۔تو کیا اس گستاخ کے یہ باطل بہانے اس کا رجوع ہیں یا قابل قبول ہیں؟ اللہ تعالیٰ ایسے گستاخوں اور ان کے حامیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔سعیدی صاحب! ہمیں تو پہلے ہی پتا ہے اور ان شاء اللہ آپ کی ان غلط تاویلات سے عام لوگوں کوبھی پتا چل رہا ہے کہ اصلی گستاخ اور ان کا حامی کون ہے؟

سند یا رجوع کا مسئلہ ہی نہیں

یہاں پر پڑھنے والوں پر ایک اور بات واضح کر دینا بھی مقصود ہے وہ یہ کہ یہاں مسئلہ سند اور رجوع وغیرہ کا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کیونکہ ان کفریہ کلمات و حکایات کو بریلوی اکابرین نے بطور تائید پیش کر رکھا ہے اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے استدلال کر رکھا ہے۔ جس کی اصل تفصیل ہمارے پیش کیے گئے ہر حوالے کے ساتھ ساتھ موجود ہے۔نیز یہ بریلوی اصول اسی ضمن میں پیش کیا جا چکا ہے کہ
’’یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب ایک آدمی کفریہ کلمہ بولے اور کچھ لوگ اس کلمہ کی تائید کریں اور اس کو کفر نہ سمجھیں تو وہ کفریہ کلمہ سب کی طرف منسوب ہو گا اور یہی سمجھا جائے گا کہ سب کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘
[عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ:ج۲ص۵۰]

اپنے اس تسلیم شدہ اصول سے ثابت اصل نکتے سے جان چھڑانے کے لئے سعیدی صاحب تاویلات میں مشغول ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بڑوں نے تو ان کفریہ کلمات کی زبردست تائید کر رکھی ہے ۔ آپ کی جان ان کے اس کفر کو تسلیم کئے بغیر کیسے چھوٹے گی۔۔۔؟بلکہ خود ان کفریہ کلمات ا ور ان کے تائید کرنے والوں کا دفاع کرنے والے اپنا اصلی عقیدہ ظاہر کر چکے ہیں چاہے جتنا چھپانے کی کوشش کریں۔

سعیدی صاحب یہاں جن باطل و مردود تاویلات میں مشغول ہیں ان کا پھرپور جواب تو دے ہی دیا گیا ہے ۔ سعیدی صاحب کی ان تاویلات کو بریلوی علماء کیا سمجھتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے ۔ اشرف علی تھانوی نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش کر رکھا ہے جس میں پیر نے مرید کو اپنے نام کا کلمہ پڑھایا اور مرید کے پڑھنے پر بہانے بنائے۔ اس کو نقل کر کے مخالف پر رد کرتے ہوئے کوکب نورانی اوکاڑوی بریلوی نے لکھا:
’’خود تھانوی صاحب کی زبانی یہ بھی جان لیا کہ بیعت کے لئے امتحان کرتے ہوئے کلمے میں اپنا نام پڑھوانا ،جائز سمجھا گیا ۔۔۔۔ اپنے ممدوحین کے لئے آپ فاسد تاویل کر کے غلط کو بھی صحیح قرار دینا اپنا ایمانی فریضہ سمجھتے ہیں ، یعنی آپ کے نزدیک آپ کے دیوبندی اکابرکی جو عزت ہے وہ اللہ کریم کے رسول کریم ﷺ کی نہیں۔۔۔۔اللہ کریم ہمیں آپ کی اس نام نہاددین داری اور آپ کے ایسے ممدوحین سے بچائے۔ (آمین)‘‘
[حقائق:ص۱۱۱]

غور فرمائیے! کوکب نورانی اوکاڑوی بریلوی نے یہ ہرگز نہیں دیکھا کہ تھانوی صاحب نے جو واقعہ پیر کا مرید کو اپنے نام کا کلمہ پڑھانے کانقل کیا ہے اس کی سند بھی ہے کہ نہیں بلکہ تھانوی کے اس پر اعتماد کو بنیاد بنا کر اعتراض کیا۔نیز اس کے مقابلے میں تمام بے بنیاد بہانوں کو فاسد تاویل قرار دے کر رد کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکالا کہ ایسی تاویلات کرنے والے اپنے اکابرین کی عزت کو اللہ کے رسولﷺ کی عزت سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ بھلا اس سے زیادہ سعیدی صاحب اور ان جیسے کفریہ عبارات کو ایمان کا لبادہ پہنا کر پیش کرنے والے بریلوی حضرات کی حقیقت کیا واضح ہو گی جو خود کوکب نورانی اوکاڑوی نامی بریلوی عالم نے کر دی ہے۔

سعیدی صاحب نے لکھا:
’’میاں شیر محمد شرقپوری صاحب نے طنزکے طور پر جو کہا، وہ مقصود نہ تھا، طنز میں الٹ مقصود تھا۔‘‘
سبحان اللہ۔ میں نے پہلے ہی ان تمام بیہودہ تاویلات کا راستہ بند کرنے کے لئے بریلوی اصول پیش کر دیے تھے کہ ایسے کفریہ کلمات میں نیت، مقصود اور مراد جو بھی ہو،حکمِ کفر ٹل نہیں سکتا۔ چنانچہ مزیدعرض ہے کہ بریلوی غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
’’توہین رسالت پر حکمِ کفر کا مدار ظاہر الفاظ پر ہے ۔ توہین کرنے والے کے قصد و نیت اور اس کے قرائن ِ حال کو نہیں دیکھا جائے گا، ورنہ توہین کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔‘‘
[گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔۔:ص۴۱]

احمد رضا بریلوی نے لکھا:
’’کیا بلا ضرورت با اختیار خود کفر بکنے سے آدمی کافر نہیں ہوتاجب کہ دل سے نہ ہو، اس دل سے نہ ہونے کا عذر منافقین پیش کر چکے اور اس پر واحد قہار سے فتوائے کفر پا چکے۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۱۴ص۵۹۹]

اس کی وضاحت میں مزید لکھا:
’’یہاں وہ ضرورت معتبر ہے کہ حدِ اکراہ شرعی تک پہنچی ۔۔۔۔کوئی اسے قتل کر دیتایا ہاتھ پائوں کاٹ دیتایا آنکھیں پھوڑ دیتا، کچھ بھی نہ ہوتااس کے ایک رونگٹے کو بھی ضرر نہ پہنچتا، تو یقینا اس نے بلا اکراہ وہ کلماتِ کفر بکے اور واحد قہار عز جلالہ نے کلماتِ کفربکنے میں کافر ہونے سے صرف مبتلائے اکراہ کا استثناء فرمایاہے۔۔۔۔
یہاں اکراہ تو درکنار ایک رونگٹے کو بھی نقصان نہ پہنچتاتھاایک دھیلا بھی گرہ سے نہ جاتا تھا۔۔۔۔لہٰذا جو بلا اکراہ کلمہ کفر بکے بلا فرق ِ نیت مطلقاً قطعاً یقینا اجماعاً کافر ہے‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۱۴ص۶۰۰]​

لہٰذ ’’چشتی رسول اللہ‘‘ ، ’’شبلی رسول اللہ ‘‘ اور ’’انگریز رسول اللہ ‘‘ کے کفریہ کلمات پڑھانے والوں اور ان کے قائلین کا صریح واضح کفر نیت، مقصود، قرائن و طنز کے پردوں میں چھپ نہیں سکتا۔کیا ان کفریہ کلمات کے قائلین کے مقصود اور طنز کرنے کی ضرورت حدِ اکراہ شرعی تک پہنچتی ہے۔۔۔۔؟ہرگز نہیں۔

آخر میں ان صریح گستاخیوں اور کفریات کی باطل تاویلات میں مشغول ہونے والے سعیدی صاحب جیسوں کے لئے ان کے ہی غزالی زماں کا فتویٰ پیشِ خدمت ہے۔بریلوی غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
’’وہ لوگ جو نبی ﷺ کی توہین صریح کی تاویل کر کے اس کے مرتکب کو کفر سے بچانا چاہیں بالکل اسی طرح قتل کے مستحق ہیں جیسا کہ خود توہین کرنے والا مستوجب حد ہے۔‘‘
[گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔۔:ص۴۵]

تنبیہہ: نامناسب عبارات و الفاظ حذف۔۔ انتظامیہ
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بریلوی فورم پر بریلوی عالم سعیدی نے مزید تلبیسات کے سہارے اپنے اکابرین کے کفر کا دفاع کرنا چاہا ہے نیز امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی شخصیت کو شبہات کے سہارے دھندلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا جواب بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ والحمدللہ۔
بریلویت = تلبیسات و دجل
سعیدی صاحب بے چارے اپنے بڑوں کی صریح کفریات پر تلبیسات و دجل کا پردہ ڈال کر بریلویت کی لاج رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس سارے معاملے میں حالت یہ ہے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کے عمدہ مصداق ثابت ہو رہے ہیں۔ پوچھا کچھ جاتا ہے جواب کچھ آتا ہے۔اپنے ہی بڑوں کے تسلیم شدہ اصولوں کے چیتھڑے اڑا کر سعیدی صاحب تاویلات کا پیرہن سینے میں مشغول ہیں۔
سند کے حوالے سے تو تفصیل سے بیان کر ہی دیا گیا ہے اور قارئین ہماری جانب سے پیش کئے گئے حوالوں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کیا (بقول سعیدی صاحب) صرف اعمال مشائخ (مثلاً سر درد کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا وغیرہ) کے لئے ہی اقوال و روایات ِ مشائخ کو حجت سمجھتے ہیں یا نظریات و اعتقادات میں بھی۔ نیزکسی بھی انصاف پسند کے لئے جتنی بحث ہو چکی اسی سے اندازہ لگانا کافی ہے کہ سعیدی صاحب کے پاس اپنے بڑوں کی ان صریح کفریہ و گستاخانہ عبارات و نظریات کے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں سوائے دجل و تلبیسات کے۔ مگر چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں تاکہ سعیدی صاحب کی ناسعیدیاں مزید واضح ہو جائیں۔
سعیدی صاحب نے لکھا:
’’آپ کے بزرگ ابن کثیر۔۔۔۔‘‘
سعیدی صاحب نے یوں باور کروانے کی کوشش کی ہے جیسے امام ابن کثیر ؒ صرف ہمارے ہی بزرگ ہیں حالانکہ امام ابن کثیر ؒ کو بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے اکابر محققین و محدثین میں شمار کر رکھا ہے۔ دیکھئے فتاویٰ رضویہ(ج۲۶ص۴۱۷)
اگر سعیدی صاحب کے دھوکہ کے مطابق (جس کی تفصیل سے وضاحت آگے آ رہی ہے) امام ابن کثیر ؒ کے نزدیک سیدنا امیر معاویہؒ کا ’’رسول اللہ‘‘ کہلانا حسن و صحیح اور مقبول ہے تو اس کا الزام صرف ہمارے بزرگ ابن کثیر پر ہی نہیں آپ کے اکابر محققین و محدثین میں شمار ہونے والے ابن کثیر پر بھی ہے۔ جو جواب اپنے محقق و محدث ابن کثیر کا سمجھ میں آئے ہمارے بزرگ ابن کثیر کا بھی سمجھ لیجئے گا۔ یا شاید سعیدی صاحب اپنے محقق و محدث ابن کثیر ؒ سے امیر معاویہ ؓ کے بارے میں پیش کی گئی روایت کو صحیح و حسن باور کروا کر اور اس سے من گھڑت نتائج اخذ کر کے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ’’رسول اللہ‘‘ کہلوانے میں کچھ حرج نہیں۔ اللہ ایسی الٹی سوچ سے اپنی پناہ میں رکھے۔
آئمہ محدثین و مئورخین کا روایت بیان کرنا
سعیدی صاحب کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگائیں کہ عنوان قائم کرتے ہیں:
’’(امیر معاویہؓ کا) (رسول اللہ) کہلاناابن کثیر کے نزدیک صحیح /حسن + مقبول ہے‘‘
انا للہ و انا الیہ راجعون، سعیدی صاحب نے اس ضمن میں جو حوالہ نقل کر رکھا ہے اس کی صحت و سند سے قطع نظر پورے حوالے میں یہ بات دور دور تک موجود نہیں کہ سیدنا امیر معاویہ ؓ نے ان چند مجہول لوگوں سے خودرسول اللہ ’’کہلوایا ‘‘ تھا۔ بلکہ ان مجہول لوگوں کی درباریوں یا وہاں موجود لوگوں کی جانب سے اہانت کا ذکر ہے، سیدنا عمر و ابن العاصؓ کا ان مجہول لوگوں پرسیدنا امیر معاویہ ؓ کے پاس سے آنے کے بعد ان لوگوں پر شدید ردعمل منقول ہے۔اس کے باوجود سعیدی صاحب نے اپنے بڑوں کے دفاع میں امیر معاویہ ؓ پر ’’رسول اللہ‘‘ کہلانے کا الزام عائد کردیا۔
اپنے بڑوں کے کفریہ کلمہ پڑھانے اور اس پر مریدوں کو شاباشی دینے والوں کا دفاع کرنے والوں کے نزدیک سیدنا امیر معاویہ ؓ کو ان کے عتاب زدہ مجہول لوگوں کا ’’رسول اللہ‘‘ کہنا امیر معاویہ ؓ پر الزام بن گیا، جن کا نہ ان کفریہ کلمات کا خود کہلانا مذکورہے اور نہ اس پر رضامندی و تعریف مذکور ہے۔ ممکن ہے کہ سعیدی صاحب کہیں کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے نکیر نہیں کی تو عرض ہے کہ اس حوالے میں صاف موجود ہے کہ سیدنا عمر و ابن العاص ؓ جب سیدنا امیر معاویہ ؓ کے پاس سے ہی اٹھ کر آئے تو انہوں نے ان لوگوں پر شدید نکیر کی۔ نیز بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے لکھا:
’’عدم نقل ، وجود کے منافی نہیں۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ :ج۵ص۶۴۰]
معلوم ہوا کہ امیر معاویہ ؓ کے بارے میں صراحت سے منقول نہ ہونا مضر نہیں کہ ان کا ان کفریہ کلمات کو پڑھانا یا اس پر رضا مند ہونا بھی منقول نہیں اور اس کے مقابلے میں سیدنا عمروبن العاصؓ کا مذمت کرنا منقول ہے۔اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو صریح کفریہ کلمات پڑھانے والوں اور پڑھنے والوں اور ان کے اس کفر کی تائید کرنے والوں کا اس روایت سے دفاع کرنا سوائے تلبیس ابلیس کے کچھ نہیں۔
سعیدی صاحب نے خود بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ
’’یہ ٹھیک ہے کہ عام طور پر کتب تاریخ میں رطب و یابس ، جھوٹ سچ جمع کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اس پر ہم نے بریلوی اعلیٰ حضرت کا حوالہ بھی پیش کر دیا تھا اور جب سعیدی صاحب نے خود بھی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے تو باوجود اس تسلیم شدہ بات کے سیدنا امیر معاویہ ؓ اور امام ابن کثیرؒ پر الزام تراشی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
سعیدی صاحب نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے امام ابن کثیر ؒ کی دو عبارات کو ملا کر یہ تا ثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں پیش کی گئی تمام روایات صحیح یا حسن ہیں چاہے ان کا تعلق کتاب و سنت سے ہو یا آثار سے۔ حا لانکہ یہ صرف دھوکہ ہے۔
سعیدی صاحب کی جانب سے پیش کئے گئے دوسرے سکین (ص۷) کی عبارت میں امام ابن کثیر ؒ نے صراحت کر رکھی ہے کہ اعتماد اور استناد صرف کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ پر ہی ہے اور وہ بھی صرف اسی پر جس کی نقل صحیح و حسن ہے اور جو ضعیف ہے اس کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔حسن و صحیح کی یہ شرط اور ضعیف کی نشاندہی کی صراحت صرف سنت رسول ﷺ سے متعلق روایات کے بارے میں ہے۔
اس کے مقابلے میں پیش کی گئے سکین (ص۶) کی پہلی عبارت الگ ہے اور اس میں صراحت ہے کہ اس کتاب میں وہ چیزیں بھی پیش کی گئی ہیں جو آثار و اخبار میں سے ہیں اور مقبول عند العلماء ہیں یعنی علماء نے اسے اپنی کتابوں میں قبول کیا ہے۔ان آثار و اخبار میں ضعیف و موضوع کی نشاندہی کی کوئی شرط امام ابن کثیر ؒ نے عائد نہیں کی بلکہ صرف کسی عالم کا اپنی کتاب میں کسی اثر یا خبر کو قبول کر لینے کی ہی بنیاد پر پیش کر دیا گیا ہے۔اسی طرح ایک اور جگہ امام ابن کثیر ؒ نے فرمایا:
’’اور وہ جملہ باتیں جو احادیث نبوت اور علمائے کرام کی توسط سے ہم تک پہنچی ہیں بیان کریں گے۔‘‘
[البدایہ و النہایہ(اردو ترجمہ تاریخ ابن کثیر):ج۱ص۴۳نفیس اکیڈمی کراچی]​
امام ابن کثیر ؒ نے علمائے کرام کے توسط سے پہنچنے والے آثار و اخبار کے لئے ہرگز بھی صرف صحیح و حسن کی شرط عائد نہیں کی اور نہ ہی ضعیف کی نشاندہی کی شرط پیش کی ہے جو سعیدی صاحب اس بنیاد پر دھوکہ دینے میں مشغول ہیں۔ امام ابن کثیر ؒ نے سیدنا حسین ؓ کے واقعات شہادت اور مابعدکی ڈھیر ساری روایات بیان کی ہیں ان میں سے الگ الگ کسی پر کوئی حکم نہیں لگایا بلکہ بعد میں لکھا:
’’اور جو کچھ ہم نے بیان کیا اس کا بعض محل نظر ہے اور اگر ابن جریر (طبری) وغیرہ حفاظ اور آئمہ نے اسے ذکر نہ کیا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔‘‘
[البدایہ و النہایہ(اردو ترجمہ تاریخ ابن کثیر):ج۸ص۲۵۸نفیس اکیڈمی کراچی]​
اس سے بھی بالکل واضح ہے کہ اخبار و آثار کے لئے امام ابن کثیر ؒ نے بھی دوسرے مئورخین کی طرح ہرگز بھی صرف حسن و صحیح کی شرط عائد نہیں کی اور نہ یہ تمام ان کے نزدیک حسن یا صحیح ہیں بلکہ صرف دوسرے آئمہ کے اپنی کتب میں درج کرنے کی بنا پر یہ روایات پیش کر دی ہیں اور خود سعیدی صاحب اور ان کے اعلیٰ حضرت کو یہ بات بخوبی تسلیم ہے کہ مئورخین ہر طرح کی روایات لے آتے ہیں جن سے استدلال باطل و مردود ہے۔
احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’جب انہوں نے فرما دیا کہ بعض یہ روایت لائے تو وہ بری الذمہ ہو گئے جیسے بہت سے محدثین احادیث باطلہ موضوعہ روایت کرتے اور جانتے کہ جب ہم نے سند لکھ دی ہم پر الزام نہ رہا۔‘‘
[فتاویٰ رضویہ:ج۲۲ص۴۹۶]
نیز بریلویوں کے غوث الاسلام پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا:
’’اصحابِ روایت کے مدِ نظر فقط روایت کے سلسلے کو بیان کرنا ہے جو ان کو ملا ۔ اس روایت کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا مذہب بھی یہی ہے۔‘‘
[سیف چشتیائی:ص۱۱۲]
لہٰذا امام ابن کثیر ؒ کا امام ابن جریر طبریؒ کے حوالے سے صرف روایت پیش کرنا حسن و صحیح کہنا نہیں اور امام ابن جریر ؒ نے اپنی تاریخ میں فقط روایات کا سلسلہ بیان کیا ہے نیز اسناد کا التزام کیا ہے جس کی بنا پر بقول بریلوی اکابرین بھی ان پر ہرگز کوئی الزام نہیں اور یہ بری الذمہ ہیں۔سعیدی صاحب اپنے ان اکابرین کے صریح کفریہ و گستاخانہ نظریات کو ان بہانوں میں چھپا نہیں سکتے جو نہ صرف صریح کفر کے مرتکب ہیں بلکہ کفر و گستاخی کی تائید میں مشغول ہیں۔
سعیدی صاحب کی باقی باتوں کا تفصیلی جواب پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔ جس پر سعیدی صاحب محض بہانوں اور اپنے اکابرین کے تضادات کے سہارے پردہ ڈال رہے ہیں۔ جس طرح شیعہ کی کتب میں جو بھی کفر و شرک یا گستاخی اہل بیت حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی جانب منسوب ہے اور بطور تائید و استدلال درج ہے ان کی سند نہ ہونا یا ان کے الفاظ میں فرق ہونا ان کے کفر یات و گستاخیوں کو بطور تائید و استدلال درج کرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا بالکل اسی طرح سعیدی صاحب کے یہ بہانے بھی اپنے ان اکابرین کے ہرگز کام آنے والے نہیں جنہوں نے صریح کفر و گستاخی کوبطور تائید اپنے بزرگوں سے منسوب کر کے استدلال کر رکھا ہے ۔حتیٰ کہ صریح کفریات کے بارے میں یہ تک لکھا: ’’الغرض یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔۔۔۔‘‘ [منازل الابرار:ص۱۰۶]
بریلوی اکابرین ان کفریات کی تائید کریں اور ان کو درست تسلیم کریں اور سعیدی صاحب بیچارے عاجز آ کر الٹے سیدھے من گھڑت اصول وضع کر کے دفاع کریں تو ان کفریات و گستاخیوں کو کیافائدہ پہنچا سکتے ہیں؟ الٹا خود بھی اسی ضلالت و گمراہی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔
سعیدی صاحب نے لکھا:
’’ آپ نے تھانوی کے متعلق کوکب نورانی کا کلام نقل کیا۔۔۔‘‘
جی بالکل کیا! اور کوکب نورانی اوکاڑوی کے کلام سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے تھانوی کے صرف بے سند حکایت کے نقل پر اعتراض کیا اور اسے کفریہ کلمہ کی تائید قرار دیا اور اس بات کو اپنے اکابرین کی عزت اللہ اور رسول سے بھی زیادہ قرار دینا مانا۔جس کے مرتکب یہاں سعیدی صاحب اپنے اکابرین کے دفاع میں ہو رہے ہیں۔
تھانوی کا جو کلام (السنۃ الجلیہ سے) پیش کر کے سعیدی صاحب دھوکہ دینا چاہتے ہیں وہ کوکب نورانی اوکاروی کے پیشِ نظر ہی نہیں بلکہ صرف حکایت کے درج کرنے کو بنیاد بنا کر کوکب نورانی اوکاڑوی نے اعتراض کیا ہے۔خود سعیدی صاحب نے لکھا:
’’یہاں تھانوی نے (فلاں رسول اللہ) کہنے کو کلمہ کفر نہ مان کر ہمیں سند پوچھنے کا موقع نہ دیا اور نہ ہی سند پوچھنے کی ضرورت رہنے دی۔‘‘
جناب کے اکابرین نے بھی ’’چشتی او شبلی رسول اللہ‘‘ کو کفر نہ مان کر بلکہ درست مان کر اور ان کفریہ کلمات کے پڑھنے والوں کی تائید کر کے ہمیں سند پوچھنے کی ضرورت ہی نہ رہنے دی۔ ملاحظہ فرمائیں:
بریلوی اکابرین کاصریح کفریہ و گستاخانہ کلمات پڑھنے والوں کو کہنا:
’’سالک کا وجود مظہر حقیقتِ محمدیہ۔۔۔۔‘‘
’’الغرض یہ چیزیں طریقت کے رموز ہیں اور درست ہیں۔۔۔۔‘‘
’’ سچا مرید۔۔۔۔مرید کا صدق بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔۔۔۔‘‘
’’لہٰذا پیر کے ساتھ صدق یہی ہے۔۔۔۔‘‘
جو بات ہم مسلسل سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے اور سعیدی صاحب مسلسل اس پر باطل تاویلات کا پردہ ڈالنا چاہ رہے تھے، تھانوی کے ردمیں خود بھی تسلیم کر گئے۔ اللہ ہدایت دے، آمین۔
سعیدی صاحب کو ’’انگریز رسول اللہ‘‘ کے صریح کفر کے دفاع میں اس بات پر بھی غصہ ہے کہ ہم نے ان کے اکابرین کے حوالے سے ہی اس بات کو کیوں پیش کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی توہین و گستاخی اور اس سے متعلق کفریات میں نیت ، قصد و قرائن کا خیال نہیں کیا جائے گا اور سعیدی صاحب مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح نبی ﷺ کی توہین اور اپنے بڑوں کی کفریات کو کبھی مقصد اور کبھی طنز کے تحت جائز ثابت کر دیں۔
حالانکہ اس ضمن میں ہم پر برسنا اور غصہ نکالنا بالکل فضول ہے۔ اپنے دلائل اور تاویلات اپنے اعلیٰ حضرت کے سامنے پیش کیجئے جنہوں نے لکھ رکھا ہے کہ ’’جو بلا اکراہ کلمہ کفر بکے بلا فرق ِ نیت مطلقاً قطعاً یقیناً اجماعاً کافر ہے۔‘‘ نیزلکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’کلماتِ کفر بکنے میں کافر ہونے سے صرف مبتلائے اکراہ کا استثناء فرمایاہے‘‘۔ اپنا غصہ اپنے غزالی زماں پر نکالئے جنہوں نے ارشاد کیا کہ ’’توہین کرنے والے کے قصد، نیت اور اس کے قرائن حال کو نہیں دیکھا جائے گا۔‘‘ اس فقیر کا کیا قصور ہے سوائے آپ کو آپ ہی کا چہرہ آپ کے ہی اکابرین کی تحریروں کی روشنی میں دکھانے کے۔
سعیدی صاحب نے نصیر الدین نصیر گولڑوی اور نصیر الدین سیالوی جیسے بریلوی علماء کے متعلق لکھا:
’’وہ ہمارے خلاف ہرگز حجت نہیں۔‘‘
بھئی نہ سہی آپ جانیں آپ کا کام جانے۔ ہم تو لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ جب گولڑوی و سیالوی جیسے بریلوی علماء بھی سعیدی صاحب پر حجت نہیں تو بریلوی حضرات پر سعیدی صاحب جیسے مجہول کیسے حجت ہو سکتے ہیں۔۔۔۔؟جو بریلوی اکابرین کے قائم کردہ اور تسلیم شدہ اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر لوگوں کو دھوکہ دینے میں مشغول ہیں۔
سعیدی صاحب سے بھی عرض ہے کہ اپنے جیسے مجہول قلمکار کے من گھڑت اصولوں کو بنیاد بنانے کی بجائے معتبربریلوی علماء کا کوئی فتویٰ پیش فرمائیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کلمہ کی توہین اور ایسے دیگر کفر بکنے کوبطور طنز جائز قرار دیا گیا ہو ورنہ ’’انگریز رسول اللہ‘‘ کے کفریہ و گستاخانہ کلمہ کو بلا اکراہ بکنے والوں کاحکم آپ کے اکابرین سے پیش کیا ہی جا چکا ہے۔ جس پر آپ تڑپیں یا پھڑکیں کچھ حاصل نہیں۔
 
Top