• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طائفہ منصورہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عقیدہ طائفہ منصورہ


گفتارِ مترجم

عقیدہ کا علم انتہائی اشرف و اعلیٰ مرتبے کا حامل ہے، کیونکہ کسی علم کی قدر و منزلت کا تعین اس کے موضوع سے ہوتا ہے اور عقیدہ کا موضوع اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ذات و صفات ہے، بقیہ مسائل ان کے تابع ہیں۔ دیگر اسلامی علوم کی طرح علمائے اسلام نے فن عقیدہ پر بھی بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے بعض مختصر ہیں اور بعض مطّول، اور دونوں ہی نوعیت کی کتابیں اپنی خصوصیات کی بنا پر مفید ہیں۔ مفصل کتاب سے اگر ہر مسئلہ پوری شرح و بسط سے فکر و نظر کے سامنے آجاتا ہے، تو مختصر کتاب کا فائدہ یہ ہے کہ اسے ذہن نشین کرنے میں سہولت رہتی ہے اور بالاجمال تمام ضروری مسائل و نکات ،فہم و فکر کی گرفت میں آجاتے ہیں۔

علمائے سلف کی تحریر کردہ مختصر کتب ِ عقیدہ میں سے امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ (م321ھ) کے ’عقیدئہ طحاویہ‘ کو جو شہرت اور قبولِ عام نصیب ہوا، وہ کسی دوسری کتاب کے حصہ میں نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بہت سی شرحیں اور حواشی لکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس کے اختصار و جامعیت اور اصابت منہج کے پیش نظر، عرب و عجم کے سلفی مدارس میں یہ آج بھی شامل نصاب ہے۔ ’عقیدہ طحاویہ‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے سلف اپنے عہد کے افکار و نظریات پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور ان سے متعلق قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں اپنا موقف واضح کرتے تھے۔ ہر دور میں کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں، جن پر خصوصیت سے عنان توجہ مبذول کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ ’عقیدہ طحاویہ‘ میں جرابوں پر مسح کو بھی عقائد میں شامل کیا گیا ہے، حالانکہ اصولاً یہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ لیکن جب ایک گروہ نے اس مسنون عمل کا سختی سے انکار کیا تو اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے عقائد میں داخل کرنا ناگزیر ٹھہرا، ظاہر ہے اس سے پہلے کے ادوار میں اس کی ضرورت نہ تھی۔ اسی طرح امام طحاویؒ سے پہلے مامون کے زمانے میں جب ایک عقلیت پسند گروہ (معتزلہ) نے اللہ عزوجل کی صفت ِ کلام کا انکار کرتے ہوئے قرآن شریف کو کلامِ الٰہی ماننے کی بجائے اسے مخلوق قرار دیا، تو امامِ اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر کتاب و سنت کا زاویۂ نظر واضح کیا اور اس کی پاداش میں بہت سی مصائب و مشکلات کا پامردی سے سامنا کیا۔

سلف صالحین کے اس طرزِ عمل سے بہ آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے میں رائج نظریات و تصورات پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے تبصرہ اور ان سے متعلق قرآن و حدیث کے موقف کی وضاحت عقیدہ کا لازمی جزو ہے، فلہٰذا اسلامی عقائد و افکار کے بیان اور توضیح و تفہیم میں اس نکتے کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ انہیں نظر انداز کرکے چند ما بعد الطبیعاتی اور فلسفیانہ افکار تو پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن انہیں ایمان و عقیدہ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

شیخ عبد المنعم مصطفی حلیمہ ابوبصیر طرطوسی اور شیخ ابو محمد عاصم المقدسی حفظہما اللہ نے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل سنت والجماعت کے منہج پر مختصر کتابچات تحریر کئے ہیں شیخ ابوبصیر طرطوسی نےاسے ’ھذہ عقیدتنا وھذا الذی ندعوا إلیہ‘ کا عنوان دیا ہے۔ شیخ موصوف متبحر عالم اور چالیس کے قریب بلند پایہ علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں، جن کے عناوین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اصل موضوع عقیدہ ہی ہے۔ شیخ طرطوسی نے علامہ ابن ابی العزالحنفی رحمہ اللہ کی ’شرح طحاویہ‘ کی تلخیص وتہذیب بھی کی ہے۔ شیخ کا زیر نظر رسالہ اس اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اس میں منہج سلف کے مطابق اسلامی عقائد کے بیان میں عصر حاضر کے معروف اور مروجہ تصورات مثلاً جمہوریت اور سیکولرازم کو بھی موضوع بحث بنایاہے اور وحی الٰہی کی روشنی میں ان کی حیثیت متعین کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی بعض اہم مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

اس کا انگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے اور شیخ موصوف کی ویب سائٹ www.abubaseer.bizland.com پر دستیاب ہے۔

میں نے شیخ عبد المنعم مصطفی حلیمہ ابوبصیر طرطوسی اور شیخ ابو محمد المقدسی حفظہما اللہ کے کتابچات سے استفادہ کرتے ہوئے ’’ عقیدہ طائفہ منصورہ‘‘ کے نام سے اردو میں اہلِ سنت والجماعت کے عقائد جمع کئے ہیں۔ میں رب کریم کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ اس کاوش کو شرف قبولیت سے نواز کر جویانِ حق کے لیے مشعل راہ اور مترجم، اس کے والدین اور اہل خانہ کے لیے بخشش و مغفرت کا وسیلہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔۔۔۔حافظ طاہر اسلام عسکری
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بلا شبہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ ہم اپنے نفس کے فتنوں اور اپنے برے اعمال سے رب کریم کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ رب العزت راہِ ہدایت پر گامزن کر دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے و ہ اپنے در سے دھتکار دے، اس کے لیے کوئی رہبر نہیں ہو سکتا۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اس امر کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ جناب محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ آپ پر درود بھیجے اور آپ کی آل اور صحابہ پر بھی رحمتیں نازل فرمائے، نیز آپﷺ پر خوب سلامتی بھیجے۔
بعدہ!
یہ ہمارا عقیدہ ہے، ہم اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اسی کے لیے جہاد کرتے ہیں۔ اسی پر ہمیں موت آئے گی، اسی پر ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہی عقیدہ لے کر ہم اللہ عزوجل سے شرفِ ملاقات حاصل کریں گے ۔ ان شاء اللّٰہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
شہادت توحید


1) ہم ظاہر و باطن سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں تنہا ہے، وہ لاثانی ہے، اکیلا اور بے نیاز ہے۔ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد، اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

اس کے سوا کوئی خالق ہے، نہ رب اور وہی اس عالم وجود کا رازق، مالک اور مدبر ہے۔ ہم اللہ عزوجل کو اس کے افعال میں یکتا قرار دیتے ہیں اور اپنے تمام اعمال و افعال کا مرکز و محور اسی کی ذات اقدس کو بناتے ہیں، چنانچہ وہی ہماری عبادت اور قصد وارادہ کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور ہم اس امر کی اسی طرح شہادت دیتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں یہ گواہی دی ہے، نیز فرشتے اور ارباب علم بھی اس پر گواہ ہیں۔ بلاشبہ رب کریم انصاف پر قایم ہے، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی لایق پرستش نہیں ہے۔ ہم اس شے کا اثبات کرتے ہیں، جو کلمہ توحید سے ثابت ہوتی ہے، یعنی عبادت کو اللہ تعالی ٰکے لیے خالص کر دیا جائے اور اس کے لوازم و واجبات اور حقوق بہ تمام و کمال ادا کیے جائیں۔ یہ کلمہ شرک کی جملہ انواع و اقسام کی نفی کرتا ہے، فلہذا ہم بھی ان کا انکار کرتے ہیں۔

اللہ عزوجل ہمیشہ سے تھا، اس کے ساتھ یا اس سے پہلے کوئی شے نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو تخلیق فرمایا، پھر عرش کو پیدا کیا۔ پھر آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل ، مخلوق کی تقدیریں اور قیامت تک ہونے والے تمام امور و معاملات مقرر فرمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
توحید اسما ءو صفات


2) ہم اسما ءو صفات میں بھی اللہ تعالیٰ کو منفرد اور یکتاقرار دیتے ہیں، چنانچہ کوئی ہستی اس کی ہم پایہ ہے، نہ اس کے مشابہ۔ اس کا کوئی ہم مثل ہے ، نہ اس کی کوئی نظیر اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے:

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤(الاخلاص)
’’کہو وہ اللہ ہے یکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔‘‘

ہم کتا ب و سنت سے ثابت شدہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کو ثابت مانتے ہیں اور بغیر کسی تاویل و تعطیل یا تشبیہ و تمثیل کے ان پر ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ نبی مکرمﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریق کار تھا۔

ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ اللہ رب العزت کے ایسے اسما ءاور صفات بھی ہیں، جو ہمیں معلوم نہیں ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اپنے علم ِ غیب میں اپنے پاس ہی رکھا ہے۔

ہم اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے، جو اپنے بندوں سے بے نیاز ہے اور اس کے بندے اسی کے محتاج ہیں۔ تمام مخلوق اس کے ساتھ قائم اور اس کے در کی محتاج ہے، جبکہ وہ قائم بالذات اور اپنی مخلوق کو تھامنے والا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ﴿٢(آلِ عمران)
’’اللہ ، وہ زندہ جاوید ہستی ، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔‘‘

نیز فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَ‌اءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴿١٥(الفاطر35:15)
ُُ’’ لوگو! تم ہی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے۔‘‘

نیز ارشاد ربانی ہے:
فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧(آل عمران 97:3)
’’ بے شک اللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے۔ ‘‘

ہم اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی نفی نہیں کرتے اور نہ ہی کلام کو اس کے موقع و محل سے ہٹاتے ہیں۔ہم تنزیہہ کے نام پر صفاتِ الٰہیہ کے باب میں اپنی آرا سے کوئی تاویل کرتے ہیں اور نہ ہی اس ضمن میں ظن و وہم کی بنا پر دخل دیتے ہیں، کیونکہ اپنے دین کے معاملہ میں وہی سلامت رہتا ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے اور مشتبہ امور کا علم،اللہ کے سپرد کردیتا ہے۔ پس اسلام پر اسی شخص کو ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے، جو تسلیم و اطاعت کی روش اختیار کرے۔ فلہٰذا جو شخص ایسے علم کے حصول کے درپے ہوا، جس سے روکا گیا تھا اور اپنی فہم و خرد کی صلاحیتوں کو تسلیم و قبول سے نہ جھکایا، تو اس کا یہ اقدام اس کے لیے ایمان صحیح اور توحیدِ خالص سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔

3) ہم اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب واضح عربی زبان میں نازل فرمائی ہے۔ ہم صفات کے مفہوم میں تفویض کے قائل نہیں ہیں، البتہ کیفیت و نوعیت کا علم اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۔۔۔۔﴿٧(آل عمران7:3)
’’ہمارا ان پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔‘‘

4) ہم ’جہمیہ‘ کی تعطیل اور ’مشبہہ‘ کی تمثیل سے اعلان براء ت کرتے ہیں۔ ہم ان میں سے کسی کی طرف مائل نہیں ہیں، بلکہ مراد الٰہی کے مطابق نفی و اثبات صفات میں، راہ اعتدال اور جادہ مستقیم پرگامزن ہیں۔ ہمارے پرورد گار کی شان تو یہ ہے کہ:

لَيْسَ كَمِثْلِہٖ شَيْءٌوَہُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
’’اس کی مانند کوئی شے بھی نہیں ہے اور وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘

ہم اس باب میں بھی، دیگر مسائل کی مانند، اسی منہج کے پابند ہیں، جس پر ہمارے سلف یعنی اہل سنت و الجماعت رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مسئلۂ إستواء


1) توحید اسما ءو صفات میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ عزوجل آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی خبر دی ہے اور رسول اللہ ﷺ سے یہ بہ طریق تواتر ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ءَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا ہِيَ تَمُوْرُ (الملک16:67)
’’کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تمھیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے۔‘‘

سیدنا معاویہ بن الحکم السلمی سے مروی ’حدیث جاریہ‘ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لونڈی سے دریافت فرمایا کہ ’أَیَنَ اللّٰہُ؟‘اللہ کہاں ہے؟‘ اس نے جواب دیا: ’فِی السَّمَاءِ‘ یعنی آسمان میں ہے۔ پھر پوچھا: ’مَنْ أَنَا؟‘میں کون ہوں؟‘ باندی نے کہا ’أنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ‘آپ اللہ کے رسول ہیں۔‘ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ’أَعْتِقْھَا فَإِنَّھَا مُؤمِنَۃٌ‘، ’اسے آزاد کر دو، کہ یہ مومنہ ہے‘۔ (مسلم:836؛ ابوداؤد: 931؛ مسند احمد:22645)

2) ہمارے نزدیک یہ امر بر حق ہے، جس میں شک و ریب کی کوئی گنجا ئش نہیں ہے، لیکن ہم اس باب میں پائے جانے والے بے بنیاد اور باطل ظنون واوہام کی نفی کرتے ہیں، جیسا کہ ہمارے سلف نے کی ہے۔ مثلاً، یہ گمان کرنا کہ آسمان اللہ رب العزت پر سایہ فگن ہے، یا اسے اٹھائے ہوئے ہے، تو یہ قطعی طور پر باطل ہے۔ ہم نے جو اس گمان فاسد کا تذکرہ کر کے اس کی نفی کی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ بیان کی ہے، تو ایسا بہ درجہ مجبوری کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے اسلاف اس مسئلہ سے تعرض نہ کرتے، تو ارباب بدعت بحث و جدل کا طوفان بپا کرتے اور اہل سنت پر باطل الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے۔ اس ضمن میں قرآن حکیم کی درج ذیل آیات لایق غور ہیں ۔

ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَسِعَ كُرْسِـيُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ(البقرہ255:2)
’’اس کی کرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کی وسعت کو گھیررکھا ہے۔‘‘

نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے:
اِنَّ اللہَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا(فاطر41:35)
’’ بےشک اللہ تعالیٰ آسمانوں اورزمین کوتھامے ہوئے ہے کہ کہیں سرک نہ جائیں۔‘‘

نیز ارشاد ہے:
وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ (الحج65:22)
’’اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا۔‘‘

نیز فرمایا:
وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَاءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ (الروم25:30)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔‘‘

3) ہمارا ایمان ہے کہ اللہ سجانہ و تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (طٰہٰ5:20)
’’رحمن اپنے عرش پر مستوی ہے۔‘‘

ہم ’استواء‘ کی تاویل ’استیلاء‘(غلبہ) سے نہیں کرتے، بلکہ یہ اپنے اسی مفہوم میں ہے، جولغت عرب میں لیا جاتا ہے اور جس میں اللہ عزوجل نے قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے استواکو کسی مخلوق کے استوا ءسے تشبیہ بھی نہیں دیتے۔ اس باب میں ہمارا زاویہ نگاہ وہی ہے، جس کی نمائندگی امام مالک رحمہ اللہ کے اس مشہور قول سے ہوتی ہے:

الإِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ، وَالْاِیْمَان بِہٖ وَاجِبٌ، وَالْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ، وَالسُّؤَالُ عَنْہٗ بِدْعَۃٌ.
’’استواء‘ معلوم ہے اس پر ایمان واجب ہے، اس کی کیفیت نا معلوم اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘

اللہ رب العزت کے جس قدر اوصاف و افعال کتاب الٰہی اور سنت سے ثابت ہیں، مثلاً ’نزول‘ اور ’مجیء‘ (آمد) وغیرہ، ان سب سے متعلق ہمارا یہی طرز عمل ہے۔

قربِ الٰہی:

4) ہم اس امر پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ عرش پر مستوی ہوتے ہوئے اور آسمانوں پر اپنے علو کے باوجوداپنی صفات عالیہ کے اعتبار سےاللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قریب ہے، جیسا کہ فرمایا :
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ(البقرہ186:2)
’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں، تو میں قریب ہوں۔‘‘

اور متفق علیہ حدیث میں ہے:
أَیُّھَا النَّاسُ ارْبَعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ، فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، تَدْعُوْنَ سَمیعًا بَصِیْرًا قَرِیْبًا. (بخاری:7386؛ مسلم:4873)
’’لوگو! اپنے اوپر نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے بلکہ اس پروردگار کو پکار رہے ہو جو سمیع و بصیر اور قریب ہے۔‘‘

دوسری روایت میں ہے:
وَالَّذِیْ تَدْعُوْنَہُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَۃِ اَحَدِکُمْ. (مسلم:7042)
’’تم جس ہستی کو پکار رہے ہو، وہ تمھارے اونٹ کی گردن سے بھی زیادہ تمھارے نزدیک ہے۔‘‘

معیت الٰہیہ:

5) اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ہے، خواہ وہ جہاں بھی ہوں اور وہ ان کے تمام اعمال کا علم رکھتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ. (الحدید4:57)
’’وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی کرتے ہو، اسے وہ دیکھ رہا ہے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تردید حلول و اتحاد


6) لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’وَہُوَ مَعَکُمْ‘، سے زندیقوں کی طرح یہ مفہوم مراد نہیں لیتے کہ وہ اپنے بندوں سے مختلط ہے یا حلول و اتحاد کی صورت میں ان سے ملا ہوا ہے۔ یہ کفر و ضلالت پر مبنی نظریات ہیں اور ہم اللہ ذوالجلال کی بار گاہِ میں ان سب سے اظہار براء ت کرتے ہیں۔ بلکہ ہم معیت سے مراد قدرت،علم اور احاطہ و دیگر صفات قدسیہ کے ساتھ معیت مراد لیتے ہیں۔

معیت خاصہ:

7) ’معیت عامہ‘ کے علاوہ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک اور معیت بھی ہے، جسے ’معیت خاصہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ نصرت و توفیق اور ہدایت و رہنمائی سے عبارت ہے،
جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ (النحل128:16)
’’اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس سے ڈرتے ہیں اور جو اچھے کام کرنے والے ہیں۔‘‘

پس اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی اور آسمانوں سے اوپر ہے، لیکن اپنی صفات عالیہ کے اعتبار سے وہ ہر جگہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے اور ان کے ہر عمل سے باخبر ہے۔ جو شخص اسے پکارتا ہے، وہ اس سے قریب ہے۔ اللہ رب العزت اپنے مومن بندوں کے ساتھ ہے، بایں طور کہ ان کی حفاظت و نصرت فرماتا ہے۔ الغرض رب ذوالجلال کا قرب و معیت اس کے علو و فوقیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ اوصاف و صفات میں کوئی شے، اس کی مثل نہیں، وہ حالت قرب میں شان علو کا حامل ہے، اور اپنے علو میں ہوتے ہوئے قریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
معبود برحق:
8) ہمارا ایمان ہے کہ اللہ عزوجل ہی وہ پناہ دینے والا معبود ِ برحق ہے، جو عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے۔ اسی اکیلے کی عبادت واجب ہے، اس کے علاوہ کسی ہستی کی، کسی بھی نوع کی عبادت جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شے مخلوق اور اسی کی پروردہ ہے، اسے یہ استحقاق نہیں کہ کسی بھی چیز میں اس کی عبادت کی جائے۔ اگر کوئی اس کی عبادت کرتا ہے، تو یہ عبادت باطل اوراللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔

اطاعت و محبتِ الٰہی:
9) صرف اللہ عزوجل ہی اپنی ذات میں لائق اطاعت اور قابلِ محبت ہے۔ اس کے ماسوا سے محبت ہو گی تو اسی کے لیے اور اس کے علاوہ کسی کی اطاعت ہوگی، تو اسی کی فرمانبرداری میں۔ ہر وہ مخلوق جسے بالذات محبوب یا مطاع مان لیا جائے، تو یہ اسے اللہ کا شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے، گویا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ اس کی بھی پرستش کی جارہی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ (البقرۃ 165:2)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں، جو دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدّمقابل بناتے ہیں اور ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حکمت تخلیق جن و بشر:
10) اللہ تبارک و تعالیٰ نے صرف ایک مقصد کی خاطر مخلوق کو وجود بخشا، رسول بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں، وہ مقصد یہ ہے کہ لوگ صرف اسی اکیلے کی عبادت کریں اور کسی شے کو اس کا شریک نہ ٹھیرائیں۔
رب کریم فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذاریات56:51)
’’ میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘

نیز فرمایا:
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَۥۙ حُنَفَاءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوۃَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَۃِ (البینہ 5:98)
’’ اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے ، بالکل یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، یہی نہایت صحیح و درست دین ہے۔‘‘

نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل:36:16)
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا،(جو انہیں یہ کہتاکہ) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘

یہ عبادت، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ اگر وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ حق ادا کریں گے، تو وہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور جنت میں داخل فرمائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تصور عبادت:
11) عبادت، جسے اللہ تعالیٰ کے لیے بجا لانا واجب ہے، ان تمام ظاہری و باطنی اعمال و اقوال کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے، جو اللہ عزوجل کو محبوب ہیں۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۶۲لَا شَرِيْكَ لَہٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (الانعام162-163:6)
’’ فرما دیجیے کہ میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے میں فرمانبردار ہوں۔‘‘

12) عبادت محض اسی صورت میں شرف قبولیت پائے گی، جب دو شرطیں موجود ہوں:
ایک یہ کہ وہ خالصتاً رضاے الٰہی کے لیے ہو، اس میں ریا کی آمیزش نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ مشروع اور مامور طریقے پر ہو۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے :

فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا(الکہف110:18)
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ‘‘

نیز فرمایا :
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملک2:67)
’ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

’احسن عملًا ‘کی تفسیر میں سلف کا کہنا ہے کہ اس سے مراد وہ عمل ہے، جو سنت کے مطابق اور خالص ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنًّ اللّٰہَ لَا یَقبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَا کَانَ لَہٗ خَالِصاً وَابْتُغِیَ بِہٖ وَجْھُہٗ۔(سنن النسائی :3089)
’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی عمل کو قبول نہیں فرماتا مگر یہ کہ وہ خالص اسی کے لیے ہو اور اس سے اسی کی رضا مقصود ہو۔‘‘

نیز آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
قَالَ اللّٰہ تَعَالیٰ: اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ ، فَمَنْ عَمِلَ عَمَلاً اَشْرَکَ فِیْہِ غَیْرِیْ فَاَنَا مِنْہٗ بَرِیٌٔ وَھُوَ لِلَّذِیْ اَشْرَکَ (المعجم الاوسط للطبرانی : 324/6)
’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں تمام شرکا ءسے بڑھ کر شرک سے مستغنی ہوں ، جو شخص اپنے عمل میں میرے غیر کو شریک کرے، تو میں اس سے بیزار ہوں اور وہ عمل اسی کے لیے ہے جسے اس نے شریک ٹھہرایا۔‘‘

13) یہ شرطیں انفرادی لحاظ سے تعبدی اعمال میں سے ہر ایک عمل کے لیے ہیں، لیکن اگر عبادت مجمل طور پر مراد ہو اور بہ حیثیت مجموعی وہ تعبدی اعمال مقصود ہوں ، جنہیں لے کر بندہ بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوتا ہے، تو اس صورت میں ان دونوں شرطوں کے ساتھ تیسری شرط کا اضافہ بھی ضروری ہے اور وہ ہے : طاغوت کا انکار اور ظاہری و مخفی ہر طرح کے شرک سے اظہار براء ت، کیونکہ شرک عمل کو باطل اور تباہ و برباد کر دیتا ہے اور قبولیت ِ عمل میں مانع ہے۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (الانعام 88:6)
’’ اگر کہیں ان(انبیاء کرام)نے شرک کیا ہوتا، تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔‘‘

نیز فرمایا :
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الزمر65:39)
’’تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیاتو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔‘‘
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
طرطوسی صاحب والا ترجمہ تو میں نے ہی کیا ہے جو عقیدہ طائفہ منصورہ کے نام سے شائع ہوا ہے لیکن مقدسی صاحب والا ابھی شائع نہیں ہوا میرے علم کے مطابق ؛میں نے اس کا مسودہ دیکھا ہے اس پر مترجم کا نام نہیں؛نوٹ فرمالیں۔
 
Top