• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ اور ولیمہ

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ورحمة الله ۔ مجھ سے اک بھائی نے سوال کیا ہے کہ میری شادی ہے اور تو کیا میں عقیقہ دینا چاھوں اور اسی گوشت سے ولیمہ بھی کر لوں تو کیا یہ درست ہو گا۔
یاں مجھے عقیقہ الگ۔۔ اور ولیمہ الگ کرنا چاہیے۔۔

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمة الله ۔ مجھ سے اک بھائی نے سوال کیا ہے کہ میری شادی ہے اور تو کیا میں عقیقہ دینا چاھوں اور اسی گوشت سے ولیمہ بھی کر لوں تو کیا یہ درست ہو گا۔
یاں مجھے عقیقہ الگ۔۔ اور ولیمہ الگ کرنا چاہیے۔۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ ؛
عقیقہ کیلئے مستقل علیحدہ جانور ہونا چاہیئے ، اور وہ
بھی صرف بکری، مینڈھا اور دنبہ سے ہی کیا جانا چاہیے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔بھینس ، گائے اور اونٹ ذبح کیے جانے کے متعلق کوئی صحیح اورقابل اعتماد حدیث موجود نہیں ہے۔لہٰذا اس مسئلہ میں اکثر علمائے سلف و خلف، ائمہ حدیث اور مجتہدین کا عمل اور فتویٰ یہی ہے کہ بھیڑ،یا بکری یا دُنبہ کے علاوہ کسی دوسرے جانور سے عقیقہ کرنا سنت مطہرہ سے ثابت اور صحیح نہیں ہے۔
(جان کے بدلے جان ) اسلئے عقیقہ الگ۔۔ اور ولیمہ الگ کرنا چاہیے۔۔
(‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ،‏‏‏‏ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ عَلِيٍّ،‏‏‏‏ وَأُمِّ كُرْزٍ،‏‏‏‏ وَبُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ وَسَمُرَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ،‏‏‏‏ وَابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَحَفْصَةُ هِيَ:‏‏‏‏ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حفصہ، عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی بیٹی ہیں، ۳- اس باب میں علی، ام کرز، بریدہ، سمرہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ/الذبائح ۱ (۳۱۶۳)، (تحفة الأشراف : ۱۵۱۳)، و مسند احمد (۶/۳۱، ۱۵۸، ۲۵۱)
وضاحت: ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ «عق» سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہا گیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیا جاتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیئے،
حدیث شریف میں وارد لفظ «شاة» کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ «شاة» کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف «شاة» کا تذکرہ نہ فرماتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3163)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کو ذبح کرنا مشروع ہے !
عقیقہ میں بھیڑ اور بکری ہی کفایت کرتی ہیں، ان کے علاوہ اونٹ گائے وغیرہ کا عقیقہ نبیﷺ سے ثابت نہیں، دلائل حسب ِذیل ہیں :
1. امّ کرز سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
«عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ، وَ عَنْ الْجَارِیَةِ وَاحِدَةٌ، لاَ یَضُرُّ کُمْ ذُکْرَانًا کُنَّ أَوْ إِناثًا»
"(عقیقہ میں) لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، بکریوں کا مذکر یا مؤنث ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں۔"
( جامع ترمذی : ۱۵۱۶؛ سنن ابن ماجہ : ۳۱۶... إسنادہ صحیح )

اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کا بیان ہے :
«عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ بِکَبْشَیْنِ بِکَبْشَیْنِ»
"رسول اللہﷺ نے حسن و حسینؓ کی طرف سے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"
(سنن نسائی : ۴۲۲۴... إسنادہ صحیح )
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ دو جنسوں: بھیڑ اور بکری ہی کا عقیقہ مسنون و مشروع ہے اورعقیقہ میں گائے اور اونٹ کفایت نہیں کرتے،
نیز قولِ سيده عائشہؓ بھی اس مفہوم کی تائید کرتا ہے جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہؓ صدیقہ سے کہا گیا : اے امّ المومنین!
«عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ»
"اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ ! بلکہ (ہم وہ ذبح کریں گے) جو رسول ﷺ نے فرمایا ہے: ( لڑکے کی طرف سے) دو ایک جیسی بکریاں۔"
( سنن بیہقی: ۹؍۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔ )
عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور وہ یہ کہ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
«مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ»
"جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ (عقیقہ میں) اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔"
1۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں۔
2۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔ 3۔ مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔
4۔ حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
شکریہ بھائی۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عقیقہ اور ولیمہ کیا ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۔"عقیقہ"اس چیز کو کہتے ہیں جسے بچے کی پیدائش کے مو قع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکرادا کرنے کے لیے ذبح کیا جاتا ہے"ولیمہ"وہ کھانا ہے جسے شادی کے موقع پر مدعوین کے لیے پیش کیا جاتا ہے خواہ جانور ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنے کے لیے سنت ہے اور اس کے فوائد میں سے خوشی اور نکاح کا اعلان کرتا ہے نیز ولیمہ کا لفظ شادی کے علاوہ عام دعوت طعام کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔(سعودی فتوی کمیٹی )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ نکاح و طلاق

ص281
محدث فتویٰ

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
اگر بھائی میں غلط نہیں سمجھ رہا تو ۔۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ولیمہ ۔۔ یا عقیقہ اک شکر گزاری ہے اور اس کھانے کو کو مہمانوں کو کہلا سکتے ہیں۔

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
مہربانی آپ مجھے اتنا بتا دیں کے عقیقہ کے گوشت کو شادی کے کھانے میں استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں۔۔ جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مہربانی آپ مجھے اتنا بتا دیں کے عقیقہ کے گوشت کو شادی کے کھانے میں استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں۔۔ جزاکم اللہ خیرا
جی نہیں ۔۔۔
ولیمہ اور چیز ہے ، اور عقیقہ دوسری چیز
عقیقہ دراصل قربانی کی ایک قسم ہے ،

علامہ زمخشری وغیرہ کا بیان ہے:
«"وَسُمِّیَتْ الشَّاةُ الَّتِی تُذْبَحُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ عَقِیْقَةً لِأَنَّهُ یُحْلَقُ عَنْهُ ذَلِكَ الشَّعْرُ عِنْدَ الذَّبْحِ"»
" پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔"
امام خطابی بیان کرتے ہیں:
«"اَلْعَقِیْقَةُ اسْمُ الشَّاةِ الْمَذْبُوْحَةِ عَنِ الْوَلَدِ، سُمِّیَت بِذَلِكَ لِأَنَّهَا تُعَقُّ مَذَابِحُهَا أی تُشَّقُّ وَ تُقْطَعُ» 1"نومولود کی طرف سے ذبح کی ہوئی بکری کو عقیقہ کہا جاتا ہے، کیونکہ ( نو مولود کی ولادت پر) اُس کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔ "
2. امام شوکانی بیان کرتے ہیں:
«"اَلْعَقِیْقَهُ الذَّبِیْحَةُ اَلَّتِي تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِي الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الـْمَوْلُوْدِ"»2
"عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔"
الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔
اور عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ کا لفظ استعمال کرنا افضل ہے اورنو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ یا ذبیحہ کہنا مستحب اور عقیقہ سے موسوم کرنا مکروہ ہے، جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْعَقِیْقَةِ؟ فَقَالَ: «لَا یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ»، وَقَالَ: «مَنْ ُولِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ، عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مکَافَئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ»3
''نبیﷺ سے عقیقہ کے بارے سوال ہو تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (لفظ) عقوق ( نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے ( یہ نام) مکروہ خیال کیا، اور آپﷺ نے فرمایا: "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرے، لڑکے کی طرف سے برابر دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔'' سنن ابو داؤد: ۲۸۴۲؛ سنن نسائی: ۴۲۱۷ )
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
جزاکم اللہ خیرا۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 
Top