• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیقہ کی شرعی حیثیت

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عقیقہ کے بارے کوئی بھائی بتا دیں کیا عقیقہ میں دوندہ جانور ہونا ضروری ہے
عقیقہ اصل میں ’’ قربانی کی ہی ایک قسم ہے ‘‘
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ "لَا يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْعُقُوقَ"،‏‏‏‏ وَكَأَنَّهُ كَرِهَ الِاسْمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا نَسْأَلُكَ أَحَدُنَا يُولَدُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ "مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ عَنَ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ". قَالَ دَاوُدُ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ عَنِ الْمُكَافَأَتَانِ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الشَّاتَانِ الْمُشَبَّهَتَانِ،‏‏‏‏ تُذْبَحَانِ جَمِيعًا.)سنن النسائي ( 4217)
سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو پسند نہیں کرتا“۔ گویا کہ آپ کو یہ نام ناپسند تھا۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ہم تو آپ سے صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ جب ایک شخص کے یہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: ”جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے ۱؎ کرے، لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری“۔ داود بن قیس کہتے ہیں: میں نے زید بن اسلم سے «مكافئتان» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الضحایا ۲۱ (۲۸۴۲)، (تحفة الأشراف: ۸۷۰۰)، مسند احمد (۲/۱۸۲، ۱۸۳، ۱۸۷، ۱۹۳، ۱۹۴) (حسن صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 4212)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب عقیقہ از قسم قربانی ہی ہے ،تو اس کے جانور میں قربانی کی شرائط ہونا لازم ہے ،

آپ یہ فتوی بھی دیکھ لیں :
http://www.salmajed.com/fatwa/findnum.php?arno=11923
الشروط الواجب توفرها في العقيقة
فتوى رقم : 11923
لفضيلة الشيخ : سليمان بن عبدالله الماجد
س: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته .. جزاك الله خيرا .. ما هي الشروط الواجب توافرها في الشاة لذبحها في عقيقة عن البنت؟

سوال : عقیقہ کیلئے بکری میں کون سی شرائط ہونا واجب ہیں ؟

ج: وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته .. يشترط في العقيقة ما يشترط في الأضحية، ومن ذلك أن تبلغ السن المعتبرة بأن تكون ثنية في غير الضأن ، وتكفي في الضأن الجذعة ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "لا تذبحوا إلا مسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن" أخرجه مسلم ؛ والثنية من المعز هي ما تم لها سنة ، والضأن ما تم له ستة أشهر ، كما يشترط أن تكون خالية من العيوب التي تمنع الإجزاء الواردة في حديث البراء بن عازب رضي الله عنه قال : قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : "أربع لا تجوز في الأضاحي : العوراء البين عورها ، والمريضة البين مرضها ، والعرجاء البين ظلعها ، والكسير التي لا تنقي" . رواه أحمد أبو داود والترمذي . والله أعلم.

جواب : عقیقہ میں وہی شرائط ہیں جو قربانی میں لازم ہیں ،
جیسے عمر میں مطلوبہ شرعی معیار کا ہونا ۔صحیح مسلم میں قربانی کے جانور کے بارے حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حکم وارد ہے ۔کہ قربانی صرف دوندا ہی ذبح کرو ؛
اسی طرح ان عیوب سے پاک ہونا بھی لازم ہے جنہیں شریعت قبولیت میں مانع قرار دیتی ہے،
جیسے حدیث البراء بن عازب میں مروی ہے :
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار قسم صفات جن کی موجودگی میں قبانی کے جانور میں جائز نہیں ”ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا لنگڑا پن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اور نہ ایسے لاغر و کمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو“ ۱؎۔ اس سند سے بھی براء بن عازب رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف عبید بن فیروز کی حدیث سے جانتے ہیں انہوں نے براء سے روایت کی ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عقیقہ کے اہم مسائل

( فاروق رفیع صاحب حفظہ اللہ) محدث میگزین

عقیقہ کی وجہ تسمیہ

عقیقہ کے وجہ تسمیہ میں علما کے کئی اقوال ہیں:
1. حافظ ابن حجربیان کرتے ہیں کہ ''عقیقہ نو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کا نام ہے اور اس کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ چنانچہ ابو عبید اور اصمعی کہتے ہیں:

«أَصْلُهَا الشَّعْرُ الَّذِي یَخْرُجُ عَلى رَأْسِ الْمَوْلُوْدِ»
"عقیقہ دراصل مولود کے سر کے وہ بال ہیں، جو ولادت کے وقت اس کے سر پر اُگے ہوتے ہیں۔ "
علامہ زمخشری وغیرہ کا بیان ہے:

«"وَسُمِّیَتْ الشَّاةُ الَّتِی تُذْبَحُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَالَةِ عَقِیْقَةً لِأَنَّهُ یُحْلَقُ عَنْهُ ذَلِكَ الشَّعْرُ عِنْدَ الذَّبْحِ"»
" پیدائش کے بالوں کی موجودگی میں مولود کی طرف سے ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ سے موسوم کیا جاتا ہے، کیونکہ ذبح کے وقت یہ بال مونڈھے جاتے ہیں۔"
امام خطابی بیان کرتے ہیں:

«"اَلْعَقِیْقَةُ اسْمُ الشَّاةِ الْمَذْبُوْحَةِ عَنِ الْوَلَدِ، سُمِّیَت بِذَلِكَ لِأَنَّهَا تُعَقُّ مَذَابِحُهَا أی تُشَّقُّ وَ تُقْطَعُ» 1"نومولود کی طرف سے ذبح کی ہوئی بکری کو عقیقہ کہا جاتا ہے، کیونکہ ( نو مولود کی ولادت پر) اُس کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔ "
2. امام شوکانی بیان کرتے ہیں:

«"اَلْعَقِیْقَهُ الذَّبِیْحَةُ اَلَّتِي تُذْبَحُ لِلْمُوْلُوْدِ وَالْعَقُّ فِي الْأَصْلِ: الشَّقُّ وَالْقَطْعُ، وَسَبَبُ تَسَمِیْتِهَا بِذٰلِكَ أَنَّهُ یُشَّقُّ حَلْقُهَا بِالَّذَبْحِ وَقَدْ یُطْلَقُ اسْمُ الْعَقِیْقَةِ عَلى شَعْرِ الـْمَوْلُوْدِ"»2
"عقیقہ وہ ذبیحہ ہے، جو نو مولود کی خاطر ذبح کیا جاتا ہے۔ اصل میں عَقَّ کا معنی پھاڑنا اور کاٹنا ہے اور عقیقہ کو عقیقہ کہنے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ذبح کے وقت ذبیحہ کا حلق کاٹا جاتا ہے، نیز کبھی عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں پر بھی ہوتا ہے۔"
الغرض عقیقہ کی بحث میں قول فیصل یہ ہے کہ عقیقہ کا اطلاق نومولود کے بالوں اور اس کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور، دونوں پر ہوتا ہے اور عقیقہ سے مقصود پیدائش کے ساتویں دن نومولود کے بال مونڈھنا اور اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا ہے۔

عقیقہ کو' نسیکہ' یا 'ذبیحہ' کہنا مستحب وافضل ہے!
عقیقہ کے بجائے نسیکہ یا ذبیحہ کا لفظ استعمال کرنا افضل ہے اورنو مولود کی طرف سے ذبح کیے جانے والے جانور کو نسیکہ یا ذبیحہ کہنا مستحب اور عقیقہ سے موسوم کرنا مکروہ ہے، جس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے جس میں عبد اللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں :
«سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْعَقِیْقَةِ؟ فَقَالَ: «لَا یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ»، وَقَالَ: «مَنْ ُولِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ، عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مکَافَئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةٌ»3
''نبیﷺ سے عقیقہ کے بارے سوال ہو تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ (لفظ) عقوق ( نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے ( یہ نام) مکروہ خیال کیا، اور آپﷺ نے فرمایا: "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرنا چاہے تو وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرے، لڑکے کی طرف سے برابر دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔''
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ
1. عقیقہ کے متعلق سوال پر آپﷺ کا فرمانا کہ اللہ تعالیٰ عقوق (نافرمانی) کو نا پسند کرتا ہے، میں اشارہ ہے کہ ( نومولود کی جانب سے ذبح کیے جانے والے جانور) کا نام عقیقہ مکروہ ہے کیونکہ عقیقہ اور عقوق (مادہ) ایک ہے۔ اور اس جملے «فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ» میں توضیح ہے کہ لفظ عقیقہ کو نسیکہ سے تبدیل کر دیا جائے۔ (یعنی عقیقہ کو نَسِیکہ کہا جائے)۔
4
2. علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مسئلہ عقیقہ کی توہین اور اس فعل کا سقوط مقصود نہیں، بلکہ اس سے تو یہ مراد ہے کہ آپﷺ نے اس فعل کے عقیقہ نام کو ناپسند کیا ہے اور یہ بتلایا کہ اس کا اس سے کوئی اچھا نام یعنی نسیکہ یا ذبیحہ رکھا جائے۔5
عقیقہ کا حکم
عقیقہ آیا واجب ہے، سنّتِ موٴکدہ یا مکروہ عمل ہے؟ اس بارے علماء کے مختلف مذاہب ہیں، ذیل میں ہم ان مذاہب ہر مذہب کے دلائل، پھر راجح مذہب کی نشاندہی کریں گے :
مذہب اوّل : حسن بصری، داؤد ظاہری اور ظاہریہ کا مذہب ہے کہ عقیقہ واجب ہے۔6 جس کے دلائل حسبِ ذیل احادیث ہیں:
1. سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

«کُلُّ غُلاَمٍ رَهِیْنَةٌ بِعَقِیْقَةِ، تُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ سَابِعِهِ وَیُحْلَقُ وَ یُسَمَّی»7
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے ( عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔"
امام خطابی بیان کرتے ہیں کہ ''اس حدیث کے مفہوم کے بارے علما کا اختلاف ہے، چنانچہ احمد بن حنبل کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہو اور وہ بچپن میں فوت ہو جائے تو وہ روزِقیامت اپنے والدین کی شفاعت نہیں کرے گا اور دوسرے قول کے مطابق اس سے مقصود یہ ہے کہ عقیقہ بہر صورت لازم ہے۔ اور نومولود کے لیے عقیقہ ایسے لازم ہے، جیسے مُرتہن(قرض کے عوض گروی رکھنے والا) کے ہاتھ میں گروی چیز لازم ہوتی ہے (یعنی جیسے گروی چیز حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو قرض لوٹانا لازم ہے، اسی طرح نو مولود کیلئے عقیقہ لازم ہے) اور یہ قولِ ثانی وجوبِ عقیقہ کے قائلین کے موقف کو قوت دیتا ہے۔ ''8
2. سلمان بن عامر ضبیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
«مَعَ الْغُلاَمِ عَقِیْقَةٌ فَأَهْرِیقُوَا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْهُ الْأَذَی»9
"ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، سو اس کی طرف سے خون بہاؤ (عقیقہ کرو) اور اس سے گندگی محو کرو ( یعنی سر کے بال مونڈھ دو)۔"
3. سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں:
«أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَعُقَّ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَیْنِ، وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةً»10
"رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔"
یہ احادیث دلیل ہیں کہ نو مولود کی طرف سے عقیقہ واجب ہے، کیونکہ عقیقہ کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، نیز "رَهِیْنَةٌ " ( بچہ عقیقہ کے عوض گروی ہے) کے الفاظ نص ہیں کہ عقیقہ واجب ہے اور اسے کسی بھی صورت استحباب پر محمول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جیسے گروی چیز کو قرض ادا کیے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے، اسی طرح نو مولود کی پیدائش کے شکریہ کی ادائیگی کے لیے عقیقہ لازم و واجب ہے۔
مذہبِ ثانی: جمہور علماے کرام کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔11 امام ابن قدامہ حنبلیبیان کرتے ہیں:
«وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ»12
"اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ ، فقہاے تابعین﷭ اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔"
حافظ ابن قیم الجوزیۃ کا بیان ہے :

«فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِﷺ »13
"جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہﷺکی سنت ہے۔"
ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں :

«سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: «لاَ یُحِبَّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ» وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ»14
"نبیﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ عقوق کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے یہ نام ( عقیقہ) نا پسند کیا۔ پھر فرمایا : "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔"
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ
1. امام شوکانیؓ بیان کرتے ہیں: حدیث میں: «مَنْ أَحَبَّ» کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔
15
2. حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: اس حدیث میں«مَنْ أَحَبَّ»کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔16
3. امام مالکبیان کرتے ہیں: «وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا»17
"عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔"
مذہب ثالث : ابو حنیفہ اور احناف کا مذہب ہے کہ عقیقہ نہ واجب ہے، نہ سنت بلکہ جاہلیت کی ایک رسم ہے۔18
علماے احناف کی دلیل گزشتہ روایت کے یہ الفاظ ہیں :
«لاَ یُحِبُّ اللهُ الْعُقُوْقَ» (اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند کرتے ہیں)
راجح موقف

عقیقہ واجب ہے، یہی موقف راجح اور اقرب الیٰ الصواب ہے، کیونکہ جس حدیث سے جمہور علما نے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لی ہے، اس روایت سے عقیقہ کے استحباب کی دلیل لینا درست نہیں، نیز اس روایت سے استدلال کرنے میں جمہور علما اور احناف افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں، کیونکہ سیاقِ حدیث نہ تو عقیقہ کے مکروہ ہونے پر دال ہے اور نہ اس سے عقیقہ کا وجوب ساقط ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث میں لفظِ عقیقہ کے استعمال کو مکروہ قرار دیا گیا اور اس لفظ کے نام کی تبدیلی پر زور دیا گیا ہے کہ اس کو نسیکہ یا ذبیحہ کہا جائے، کیونکہ لفظ عقوق اور عقیقہ کا مادہ ایک ہے، لہٰذا اس اشتباہ و مماثلت کا ازالہ مقصود ہے۔ عقیقہ کی کراہت و استحباب مقصود نہیں، چنانچہ علامہ سندھی مذکورہ حدیث کی توضیح یوں بیان کرتے ہیں:
'' اس حدیث میں عقیقہ کی توہین اور اس کے وجوب کو ساقط کرنا مقصود نہیں، بلکہ آپﷺ نے محض اس (عقیقہ) نام کو نا پسند کیا ہے اوریہ پسند فرمایا کہ اس کا اس سے بہتر نام یعنی 'نسیکہ یا ذبیحہ' وغیرہ ہو۔''
19
اس مسئلہ کی مزید توضیح و بیان کے لیے محدثِ شہیر حضرۃ العلام حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کا فتویٰ قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے جسے من و عن پیش کیا جاتا ہے:
عقیقہ واجب ہے یا سنّت ؟
عقیقہ کے واجب و غیر واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ حسن بصریتابعی اور ظاہر یہ وجوب کے قائل ہیں اور جمہور کہتے ہیں، سنت ہے اور امام ابو حنیفہکہتے ہیں: "نہ فرض ہے، نہ سنت۔" امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمدکے نزدیک قربانی کے ساتھ منسوخ ہو گیا ہے اور امام ابو حنیفہسے یہ بھی روایت ہے کہ یہ جاہلیت کی رسم تھی، اسلام نے اسے مٹا دیا ہے، شاید امام ابو حنیفہکو عقیقہ کی احادیث نہ پہنچی ہوں۔ یہ تمام اقوال امام شوکانینے نیل الأوطار میں ذکر کیے ہیں۔20 امام شوکانی کا میلان جمہور کے مذہب کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے جمہور کی دلیل کے طورپر جو حدیث پیش کی ہے، اس حدیث میں «أحَبَّ» ( جو پسند کرے) کا لفظ چاہتا ہے کہ عقیقہ ضروری نہ ہو۔ مگر یہ دلیل کمزور ہے، کیونکہ دوسری احادیث سے ضروری ثابت ہوتا ہے، کیونکہ بعض روایتوں میں صیغہ امر آیا ہے۔ مثلاً
«أَهْرِیْقُوْا عَنْهُ دَمًا» "اس سے خون بہاؤ" جو وجوب کے لیے ہے اور بعض میں «رَهِیْنَةٌ» کا لفظ آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ عقیقہ نہ ہو تو بچہ ماں باپ کی شفاعت نہیں کر سکتا، یا عقیقہ اس طرح لازمی ہے جیسے کوئی شے گروی ہوتی ہے اور قرض کی ادائیگی کے بغیر چھوٹ نہیں سکتی اور بعض نے اس کے معنی کیے ہیں کہ وہ گروی کی طرح بند ہے۔جب تک عقیقہ نہ کیا جائے، نہ نام رکھا جائے اور نہ بال اُتارے جائیں اور بال اُتارنے سے تو چارہ نہیں، پس عقیقہ بھی ضروری ہو گیا اور بعض روایتوں میں «أَمَرَنَا» کا لفظ آیا ہے، یعنی رسول اللہﷺ نے ہمیں عقیقہ کا حکم دیا، اس سے بھی وجوب ثابت ہوتا ہے۔ امام شوکانینیل الأوطار میں کہتے ہیں، اگرچہ یہ الفاظ وجوب کے لیے ہیں، مگر «مَنْ أَحَبَّ» کا لفظ قرینہ صارفہ ہے، اس لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ سے وجوب مراد نہیں، بلکہ امر استحبابی ہے، لیکن امام شوکانی کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ امر کا صیغہ یا امر کا لفظ کبھی قرینہ کے ساتھ استحباب کے لیے آ جاتا ہے، لیکن «مَنْ أَحَبَّ» کے معنی استحباب کے لیے مشکل ہے، علاوہ اس کے «رَهِیْنَةٌ» کا لفظ استحباب کے لیے تسلی بخش دلیل نہیں۔ دیکھیے قرآن میں ہے ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠﴾ " کہہ دو، اگر تم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اس آیت میں وہی محبت کا لفظ ہے، مگر باوجود اس کے آپﷺ کی اتباع ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح حدیثِ مذکور کو سمجھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسے شرط ہوتی ہے ویسے ہی جزا کا حکم ہوتا ہے، اللہ کی محبت چونکہ ضروری ہے اس لیے آپﷺ کی اتباع بھی ضروری ہے، اسی طرح عقیقہ چونکہ ضروری ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے، اس لیے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں(یعنی دونوں مُسنّہ) ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک ضروری ہے، یعنی اس سے کم نہ کرے، ہاں اگر حدیث یوں ہوتی کہ جو عقیقہ کرنا دوست رکھے تو وہ عقیقہ کرے تو پھریہ حدیث استحباب کی دلیل بن سکتی تھی،اب نہیں۔ علاوہ ازیں محبت کے لفظ سے خلوص مقصود ہے، پس اس صورت میں مطلب یہ ہو گا، جو اخلاص سے عقیقہ کرے، وہ دو ہم عمر بکریاں لڑکے کی طرف سے کرے اور ایک لڑکی کی طرف سے اور ظاہر ہے کہ اخلاص ضروری ہے، پس عقیقہ خود ہی ضروری ہے۔21
کیا عقیقہ کے بجائے رقم صدقہ کرنا جائز ہے ؟
کچھ لوگ عقیقہ کرنے کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دیتے ہیں، لیکن احادیثِ عقیقہ کی لغوی تعریف کی رو سے عقیقہ کا جانور ذبح کرنا لازم ہے، رقم صدقہ کرنے سے عقیقہ نہیں ہو گا، چنانچہ ابن قدامہ حنبلیبیان کرتے ہیں:
'' عقیقہ کی رقم صدقہ کرنے کے بجائے عقیقہ کرنا افضل ہے، امام احمدنے اس پر نص بیان کی ہے اور وہ کہتے ہیں: جب عقیقہ کرنے والے کے پاس عقیقہ کرنے گنجائش نہ ہو اور وہ قرض لے کر عقیقہ کرے تو مجھے قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے احیاے سنّت کے عوض بہتر نعم البدل دے گا۔ ابن منذرکا قول ہے کہ امام احمدکا قول مبنی بر حق ہے، کیونکہ سنت کا احیا اور ان کی اتباع افضل ہے، نیز عقیقہ کے متعلق روایات میں جتنی تاکید آئی ہے، دیگر مسائل میں اتنی تاکید وارد نہیں ہوئی، پھر اس ذبیحہ کے بارے نبیﷺ نے حکم بھی دیا ہے، سو ولیمہ اور قربانی کی طرح عقیقہ ذبح کرنے کا اہتمام اولیٰ و افضل ہے۔ ''
22
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حوالہ جات

1. فتح الباری : ۹؍۷۲۶

2. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰

3. سنن ابو داؤد: ۲۸۴۲؛ سنن نسائی: ۴۲۱۷

4. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۳؛عون المعبود : ۸؍۴۶

5. شرح النسائی از اما م سندی : ۵؍۴۹۸

6. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰؛ المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۱

7. صحیح بخاری:۵۴۷۲

8. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۱؛ عون المعبود : ۸؍۴۲

9. صحیح بخاری: ۵۴۷۲

10. جامع ترمذی: ۱۵۱۳؛ سنن ابن ماجہ: ۳۱۶۳

11. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۰

12. المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۰

13. تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸

14. سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷

15. نیل الأوطار : ۵؍۴۴

16. التمہید لا بن عبد البر : ۴؍۳۱۱

17. موطا امام مالک: ۲۹۵

18. نیل الأوطار : ۵؍۱۴۱؛ المغنی مع الشرح الکبیر: ۱۱؍۱۲۰

19. شرح سنن نسائی از اما م سندی : ۵؍۴۹۸

20. جلد ۴؍صفحہ۳۶

21. فتاویٰ اہل حدیث از حافظ عبد اللہ محدث روپڑی﷫: ۲؍۵۴۸، ۵۴۹

22. المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۱
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
امام ابو حنیفہ اور احناف کا مذہب ہے کہ عقیقہ نہ واجب ہے، نہ سنت بلکہ جاہلیت کی ایک رسم ہے ،
مؤطا امام کا ایک باب ملاحظہ فرمائیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
باب: العقيقة
(یہ باب عقیقہ کے بیان میں ہے )
659 - أخبرنا مالك، حدثنا زيد بن أسلم، عن رجل من بني ضمرة، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن العقيقة؟ قال: «لا أحب العقوق» ، فكأنه إنما كره الاسم، وقال: «من ولد له ولد فأحب، أن ينسك عن ولده فليفعل»
۲۵۶۔ امام مالکؒ نے ہمیں حدیث سنائی کہ حضرت زید بن اسلم نے بنی ضمرہ کے کسی آدمی سے روایت نقل کی اس نے اپنے و الد سےنقل کیا کہ
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں ” عقوق‘‘ کو ناپسند کرتا ہوں
گویا کہ آپ نے لفظ عقیقہ کے نام کونا پسند فرمایا اور فرمایا جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے لئے میں پسند کرتا ہوں کہ وہ اپنے بچے کی طرف سے جانورذبح کرے۔

660 - أخبرنا مالك، أخبرنا نافع، عن عبد الله بن عمر، أنه «لم يكن يسأله أحد من أهله عقيقة إلا أعطاه إياه، وكان يعق عن ولده بشاة شاة عن الذكر والأنثى»
۲۵۷۔ امام مالک نے ہم کو خبر دی کہ میں حضرت نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے خبر دی کہ اگر کوئی ان کے اہل خانہ سے عقیقہ کے لئے کہتے تو وہ ضرور عقیقہ کرتے ،اور وہ اپنی اولا دکی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ کرتے خواہ لڑکا ہوتا یا لڑکی۔
661 - أخبرنا مالك، أخبرنا جعفر بن محمد بن علي، عن أبيه، أنه قال: «وزنت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شعر حسن، وحسين رضي الله عنهما، وزينب، وأم كلثوم، فتصدقت بوزن ذلك فضة»
۱۵۱۔ امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ میں جعفر بن محمد بن علی (بن حسین )رضی اللہ تعالی عنہ نےخبر دی کہ ان کے والد ماجد سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ سیدہ فاطمہ بنتِ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین حضرت فاطمہ اور حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم رضی الله تعالی عنہم کے بالوں کا چاندی سے وزن کرکے وہ چاندی صدقہ کردی ۔

662 - أخبرنا مالك، أخبرني ربيعة بن أبي عبد الرحمن، عن محمد بن علي بن حسين، أنه قال: «وزنت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شعر حسن، وحسين، فتصدقت بوزنه فضة»
۲۵۹۔ امام مالک نے ہمیں خبر دی کہ بیشک وہ فرماتے تھے کہ حضرت فاطمہ بنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہا کے بالوں کا وزن فرمایا اور اس کے برابر چاندی کا صدقہ دیا گیا۔
قال محمد: أما العقيقة فبلغنا أنها كانت في الجاهلية، وقد فعلت في أول الإسلام ثم نسخ الأضحى كل ذبح كان قبله، ونسخ صوم شهر رمضان كل صوم كان قبله، ونسخ غسل الجنابة كل غسل كان قبله، ونسخت الزكاة كل صدقة كانت قبلها، كذلك بلغنا "
ترجمہ :
http://www.elmedeen.com/read-book-1983

امام محمدفرماتے ہیں عقیقہ کے متعلق ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جاری رہا پھر قربانی نے ہر ذبیحہ کو منسوخ کر دیا جیسے کہ ماہ رمضان کے روزوں نے تمام روزوں کے منسوخ کردیا جو اس سے پہلے رکھے جاتے تھے اور غسل جنابت نے ہرقسم کے غسل کو اور زکوة نے ہر صدقہ کومنسوخ کر دیا جو اسلام سے پہلے جاری تھے اور یہ بات اسی طرح ہم تک پہنچی ہے۔​
https://archive.org/stream/MuwattaImamMuhammadBinHasanShaybani-Urdu/Muwatta-Imam-Muhammad#page/n466
 
Last edited:
Top