• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ ابن باز کی طرف سے بعض حکام پر اعلانیہ انکار

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
علامہ ابن باز کی طرف سے بعض حکام پر اعلانیہ انکار

تحریر : خضر حیات (علمی نگران محدث فورم)

جب حاکم عراق صدام حسین کی طرف سے کویت پر فوج کشی کی گئی، تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی طرف سے اس وقت اخبارات میں بھی بیانات چھپے، اور انہوں نے اس وقت مساجد میں دروس بھی دیے، جو بعد میں تحریری شکل میں نشر ہوئے. کچھ اقتباسات ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:

"وفي هذه الأيام جرى ما جرى من الفتنة في الحادي عشر من المحرم من السنة الهجرية 1411 هـ الثاني من أغسطس من الشهور الميلادية 1990م جرى ما جرى من عدوان حاكم العراق على دولة الكويت المجاورة له واجتاحها بجيوشه المدمرة الظالمة، واستحل الدماء والأموال وانتهك الأعراض وشرد أهل البلاد، وجرت فتنة عظيمة بسبب هذا الظلم والعدوان، واستنكر العالم هذا البلاء وهذا الحدث الظالم، وحشد الجيوش على الحدود السعودية
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وهذه الفتنة التي وقعت الآن ليست مما يعتزل فيها؛ لأن الحق فيها واضح... فالواجب أن ينصر المظلوم ويردع الظالم، ويردع الباغي عن بغيه وينصر المبغي عليه، ويجاهد الكافر المعتدي وينصر المظلوم المعتدى عليه، وفي هذا المعنى يقول الله : انْفِرُوا خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ [التوبة:41] ويقول سبحانه: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ [الصف:10] ثم شرحها للناس فقال سبحانه: تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ۝ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۝ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ [الصف: 11-13]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فكيف إذا كانت الطائفة الباغية ظالمة كافرة، كما هو الحال في حاكم العراق، فهو بعثي ملحد، ليس من المؤمنين، وليس ممن يدعو للإيمان والحق، بل يدعو إلى مبادئ الكفر والضلال، وبدأ يتمسح بالإسلام لما جرى ما جرى، فأراد أن يلبس على الناس ويدعو إلى الجهاد كذبا وزورا ونفاقا، ولو كان صادقا لترك الظلم وترك البلاد لأهلها وأعلن توبته إلى الله من مبادئه الإلحادية وطريقته التي يمقتها الإسلام، ولعمل بمصدر التشريع في كتاب الله وسنة نبيه ﷺ وحينئذ تحل المشكلات بالطرق السلمية بعد ذلك. أما أن يدعو إلى الجهاد وهو مقيم على الظلم والعدوان والتهديد لجيرانه، فكيف يكون هذا الجهاد الظالم وهذا الجهاد الكاذب والنفاق الذي يريد به التلبيس؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقد رأيت أن أبسط القول في هذه المسألة لإيضاح الحق وبيان ما يجب أن يعتقد في هذا المقام وبيان صحة موقف الدولة فيما فعلت؛ لأن أناسا كثيرين التبس عليهم الأمر في هذه الحالة، وشكوا في حكم الواقع وجوازه بسبب الضرورة والحاجة الشديدة؛ لأنهم لم يعرفوا الواقع كما ينبغي، ولعظم خطر هذا الظالم الملحد - أعني حاكم العراق - صدام حسين. ولهذا اشتبه عليهم هذا الأمر، وظنوا واعتقدوا صحة ما فعله لجهلهم ولالتباس الأمر عليهم وظنهم أنه مسلم يدعو إلى الإسلام بسبب نفاقه وكذبه، وربما كان بعضهم مأجورًا من حاكم العراق فتكلم بالباطل والحقد لأنه شريك له في الظلم، وبعضهم جهل الأمر وجهل الحقيقة وتكلم بما تكلم به أولئك الظالمون جهلاً منه بالحقيقة والتبست عليه الأمور.

(مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز 6/ 117)

مذکور بالا اقتباسات میں کچھ باتیں بہت واضح ہیں:

1۔ صدام کا نام لے کر، اس کی تکفیر کی گئی ہے، او راسے ظالم و جابر، خائن کہا گیا ہے۔

2۔ لوگوں کو اس کے خلاف ابھارا گیا ہے، کہ اس کو ظلم سے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ اسلام کا نام صرف دھوکہ دینے کے لیے رہا ہے، در حقیقت اسے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

3۔ اس کے خلاف کافر فوجوں سے مدد کے لیے جواز کا موقف پیش کیا گیا ہے۔

4۔ بعض لوگ اسے فتنہ سمجھ کر، اس سے الگ تھلگ رہنا چاہتے تھے، لیکن شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں حق اور باطل واضح ہے، لہذا اس کو محض فتنہ کہہ کر، اس سے پیچھے ہٹنا، ظالم کو نہ روکنا، اور مظلوم کی مدد سے پیچھے ہٹنا.. یہ بالکل درست نہیں ہے۔

5۔ اور یہ سارا سلسلہ اعلانیہ ہوا ہے۔

تیونس کے ایک صدر تھا، جس نے اپنی کسی گفتگو میں قرآن و صاحب قرآن کے بارے میں توہین و تحقیر آمیز کفریہ کلمات کہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں لکھا تھا:

لا شك أن ما نسب إلى الرئيس أبي رقيبه، من القول بتناقض القرآن وإنكار عصا موسى وقصة أهل الكهف، والتنقص للرسول - صلى الله عليه وسلم - ونسبته إلى الكذب على الله- سبحانه- أنواع من الكفر الصريح والردة عن الإسلام، وهكذا دعوته الحكام إلى تطوير الأحكام وزعمه أن إعطاء الأنثى - في الميراث - نصف الذكر، نقص تجب إزالته، لأنه ليس منطقيا ولا يناسب تطور المجتمع، وهكذا حجره تعدد النساء، لكونه لا يناسب تطور المجتمع، كل ذلك من الكفر الصريح والاعتراض على الله- سبحانه- والاتهام له في حكمه - كما تقدم بيان ذلك - فالواجب - على جميع رؤساء الدول الإسلامية - قطع العلاقات السياسية معه حتى يعلن التوبة الصريحة مما نسب إليه، أو التكذيب لذلك بطرق الإعلام الرسمية، حتى يعلم الناس حقيقة ما هو عليه، وحتى يعاملوه بما يجب أن يعامل به، وحتى لا يتأسى به غيره، من الحكام أو غيرهم، لأن ما نسب إليه من أنكر المنكرات التي يجب إنكارها على من وقعت منه - حسب القدرة -. ولا شك أن قطع العلاقات معه من إنكار المنكر المستطاع، من الدول الإسلامية، كما قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "من رأى منكم منكراً فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان"، وقال - عليه الصلاة والسلام-: "ما من نبي بعثه الله في أمة قبلي إلا كان له من أمته حواريون
(حکم الإسلام فیمن زعم أن الإسلام متناقض:45)

مذکورہ عبارت میں شیخ رحمہ اللہ نے مذکورہ حکمران کے اعمال کو کفریہ قرار دیا ہے، اور دیگر مسلمان حکمرانوں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا مجلۃ البحوث میں ایک مقالہ چھپا، جس میں انہوں نے لکھا کہ بہت سارے ملکوں میں امراء و ملوک کی وفات پر، ان کا سوگ منانے، چھٹی کرنے، جھنڈے نیچے گرانے کی عادات موجود ہیں. جو کہ تشبہ بالکفار ہے، بالکل جائز نہیں. لہذا ان پر واجب ہے کہ وہ ان چیزوں کو ترک کریں.
(مجلة البحوث الإسلامية العدد التاسع الصادر للأشهر الربيعان والجماديان عام 1404 هـ.)

یہ چند نمونے پیش کیے ہیں، اس عالم دین کے، جن کا نام لے کر، لوگ کہتے ہیں کہ وہ صرف کان میں بات کیا کرتے تھے، انہوں نے اعلانیہ کبھی کسی پر تنقید نہیں کی تھی۔

ہم اسی لیے کہتے ہیں، یہ نام نہاد منہجی صرف بعض حکمرانوں بلکہ ان کی جابرانہ و مکارانہ سیاست و سلطۃ کے مقلد ہیں۔ جہاں تک، وہاں کے علماء کی بات ہے، وہ تو ان سے مختلف منہج رکھتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
Tanweer Alam :
شیخ کفر اور ظلم واضح ہوجانے کے بعد نا ایسا کیا ہے؟

Khizar Hayat :
یہ تو ایک اور اعتراض كا بھی جواب ہے کہ انہوں نے نہ صرف تنقید کی، بلکہ تکفیر معین بھی کی۔
 
Top