• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی حیات اور خدمات

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
"علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی حیات اور خدمات " پر ایک نظر

ثناءاللہ صادق تیمی
بر صغیر ہندو پاک میں عاملین بالحدیث کی تاریخ بڑی روشن رہی ہے ، ایک پر ایک علما ، دعاۃ اور صاحبان فکر ونظر سے یہ جماعت مالامال رہی ہے ۔ ان باکمالوں نے ہر میدان میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور فکروعقیدہ ، علم وعمل اور حق وصداقت کی راہیں روشن کی ہیں۔ لیکن یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ ان بزرگوں کی روشن تاریخ کو جس طرح موضوع بحث بنایا جانا چاہیے تھا اس طرح نہ بنایا جا سکا ۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے ان بزرگوں کے بڑے بڑے کارناموں سے آج کی نسل ناواقف ہے اور اس کا لازمی نتیجہ فکر و شعور کی بے اعتدالی کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔ ویسے یہ خوش آئند بات ہے کہ اس طرف یہ احساس ہونے لگا ہے اور کئی بزرگوں کے ساتھ اس جماعت کی عمومی تاریخ پر لکھنے کی محمود کوششیں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔
اس سلسلے میں مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب کی تازہ تصنیف " علامہ ابوالقاسم سیف بنارسی حیات و خدمات " معرکے کی تصنیف ہے ۔ سچ پوچھیے تو یہ کتاب ہر اعتبار سے ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایک کتاب کی تالیف میں جتنی ممکنہ محنت ہوسکتی ہے مولف نے وہ محنت کی ہے ۔ کتاب پر پہلی نظر شیخ محمد عزير شمس حفظہ اللہ کی رہائش پر پڑی تھی ۔ کتاب کو یہاںوہاں سے دیکھنے کی سعادت ملی لیکن مکمل مطالعے کی سعادت اب جاکر حاصل ہوئی ہے جب مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب نے از راہ عنایت بھارت سے کتاب خاکسار کے لیے روانہ کی ہے ۔کتاب جب ہاتھ لگی ہے تو پھر چھوڑنے کی طبیعت نہ ہوئی ۔ اس بیچ جب کوئی کام آيا یا کہیں نکلنا پڑا تو دل پر اس کا اثر ہوا ۔عام طور پر ضخیم کتابوں کو مکمل پڑھ پانا آسان نہیں ہوتا لیکن تحقیق و تنقید کی رفعت کے ساتھ مولانا کا اسلوب اتنا جاندار ہے کہ کب کتنے صفحے پڑھ لیے گئے ، پتہ ہی نہیں چلتا ۔
کتاب علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی ، ان کے اساتذہ ، ان کے شاگردان کے ساتھ ساتھ ان کے والد محترم شیخ محمد سعید محدث بنارسی اور پورے خاندان کی علمی و دعوتی خدمات کا تفصیلی تعارف تو کراتی ہی ہے اس پورے عہد کا مکمل نقشہ بھی کھینچ کررکھ دیتی ہے ۔مختلف تنظیموں ، اداروں اور تحریکوں جیسے آل انڈیا اہل حدیث کانفرنفس ، اہل حدیث لیگ ، ندوۃ العلماء ، جمعیت علماے ہند وغیرہ کی تاریخی حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے ۔اس پورے معاملے میں مولف نے جس طرح حوالہ جات سے اپنی باتوں کو مدلل کیا ہے وہ خاصے کی چيز ہے ۔ علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی اور شیخ محمد سعید محدث بنارسی کی کتابوں کا جس طرح آپ نے جائزہ لیا ہے اور تفصیلات ذکر کی ہیں ، وہ کتاب کا بطور خاص سب سے اہم حصہ ہے ۔یہ تفصیل ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے بزرگوں کو کس قسم کے حالات کا سامنا تھا اور انہوں نے کس طرح چومکھی لڑائی لڑ کر قرآن وسنت کی دعوت کو عام کرنے کا کام کیا ۔ ردوقدح کو لے کر بالعموم جس قسم کے الزامات عاملین بالحدیث پر لگائے جاتے ہیں ، ان تفصیلات سے ان کی حقیقت بھی سمجھ میں آسکتی ہے !!
کتاب ہر چند کہ علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی اور ان کے والد محترم شیخ محمد سعید بنارسی اور ان کے خاندان کے ارد گرد گھومتی ہے لیکن اس کے جلو میں پوری انیسویں صدی اور بیسویں صدی کی تاریخ کو دیکھا جاسکتا ہے خاص طور سے برصغیر میں مسلمانوں کی علمی ، دعوتی اور مناظرانہ سرگرمی کی جھلک آگئی ہے ۔ قادیانیت اور دوسرے فتنوں سے متعلق حقائق بھی سلیقے سے آگئے ہیں ۔ مولانا نے بالعموم کسی بھی باب سے پہلے جو تعارفی نوٹ تحریر کیے ہیں ، ان سے مولانا کی ژرف نگاہی اور وسیع النظری کا پتہ چلتا ہے ۔ مولف نے جب کہیں کسی کے تسامح پر تنبیہ کی ہے تو بڑا علمی لہجہ اپنایا ہے ۔ کتاب میں انسیویں اور بیسویں صدی کے اساطین علماے اہل حدیث جلوہ گر ہیں ۔ شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ، مولانا حسین احمد بٹالوی ،علامہ شمس الحق ڈیانوی ، مولانا عبداللہ غازیپوری ، مولانا عبدالمنان وزیر آبادی ، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، ثناءاللہ امرتسری ، میر سیالکوٹی اور مولانا ابراہیم آروی جیسے اعاظم اہل حدیث تو ہیں ہی ان کے ساتھ وہ پوری تاریخ بھی ہے جو اس وقت کے سیاسی اور دینی ماحول سے ہمیں روشناس کرتی ہے ۔اسی طرح اس تحریک کے دعوتی گوشوں کو بھی ہمارے لیے روشن کرتی ہے کہ کس طرح مختلف محاذوں پر علماے اہل حدیث توحید وسنت کی دعوت کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی دعوت اپنا اثر دکھارہی ہے ۔
کتاب کسی پی ايچ ڈی کے مقالے سے کم نہیں ، بلکہ آج جس قسم کے تحقیقی مقالے شائع ہورہے ہیں ، ایسے میں یہ مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ نئی نسل کو اس کتاب سے لکھنے کا سلیقہ بھی سیکھنا چاہیے ۔ کتاب کے اخیر میں مولانا نے مراجع و مصادر کی جو تفصیل رقم کی ہے ، اس سے بھی کتاب کی وقعت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ حاشیہ میں مختلف شخصیات کے تعارفی نوٹس مختصر لیکن جامع ہیں ۔کتاب میں مذکور اعلام کا اشاریہ بھی اخیر میں دے دیا گیا ہے جس سے کتاب سے استفادہ بھی آسان ہوا ہے اور شخصیات تک پہنچنا بھی ۔
کتاب میں طباعت کی غلطیاں نہ کے برابر ہیں ، کہیں کہیں پر بعض غلطیاں در آئی ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے جیسے خانوادہ سعیدی کے بانی مولانا محمد سعید بنارسی کا جہاں تذکرہ شروع ہوتا ہے وہاں تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کی تفصیل کچھ اس طرح درج ہے " پیدائش تخمینا 1269 ھ /1582،53 ء وفات : 1322ھ / 1904 ء" ص 401 ۔ حالانکہ اسی صفحے میں نیچے یہ تفصیل درست نقل کی گئی ہے ۔ اسی طرح 410 پر نصرۃ السنۃ کے حوالے سے یہ معلومات دی گئی ہے " 10 / ستمبر 1885 ء میں اسلام کی تبلیغ کے لیے ایک ماہنامہ رسالہ " نصرۃ السنۃ " کے نام سے جاری کیا " جب کہ پھر اسی صفحے میں مولانا امداد صابری کی کتاب " تاریخ صحافت اردو ، جلد سوم ، ص 421 " کے حوالے سے لکھا گيا ہے " بنارس محلہ دارا نگر تھانہ حبیب پور سے ماہانہ سولہ صفحات کا مذہبی رسالہ 10/ دسمبر 1985 ء کو وجود میں آیا "۔ اسی طرح صفحہ 395 پر شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے متعلق علامہ شمس الحق محدث ڈیانوی کا ایک قول غایۃ المقصود کے حوالے سےمع ترجمہ اس طرح درج ہے ؛
" ولو حلفت بين الركن و المقام أني ما رأيت بعيني مثله و لا أرى هو مثل نفسه في العلم و العبادة و الزهد و الصبر و الكرم و الخلق و الحلم ما حنثت"
( اگر میں کررکن اور مقام کے درمیان قسم کھاؤں کہ آپ جیسا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ میں نے علم ، عبادت ، زہد ، صبر ، جود وسخا ، حسن اخلاق اور تحمل و بردباری میں آپ جیسا کسی کو پایا تو اپنی قسم میں حانث نہیں ہوگا )
میں سمجھتا ہوں کہ یہاں عربی عبارت اور اردو ترجمہ دونوں نظر ثانی کے محتاج ہیں !!
طباعت کی تھوڑی بہت غلطیاں اور بھی راہ پاگئی ہیں لیکن وہ بہر حال نہ کے برابر ہی ہیں ۔ 696 صفحے کی کتاب میں طباعت کی بعض غلطیوں کا در آنا بہت مستبعد نہيں ۔
میری رائے میں ہر ایک طالب علم کے پاس اس کتاب کو ہونا چاہیے لیکن بطور خاص ان لوگوں کو تو ضرور حاصل کرکے پڑھنا چاہیے جنہیں تذکرہ ، سوانح ، تاریخ اور تحریک وغیرہ سے دلچسپی ہے ۔عاملین بالحدیث کے اس مقدس قافلے سے جن لوگوں کو نسبت ہے انہیں تو کتاب کے حصول میں اور بھی جلدبازی سے کام لینا چاہیے ۔فاروقی صاحب کا اتنی اچھی تالیف پر شکریہ ادا کیا جانا چاہیے ۔کتاب مرشد پبلیکیشن ، شاہین باغ ، دہلی سے نشر ہوئی ہے ، مکتبہ الفہیم مئو، دارالکتب الاسلامیہ ، اردو بازار دہلی اور مکتبہ جامعہ سلفیہ بنارس سے 650 روپے میں حاصل کی جاسکتی ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ انہیں بہتر بدلوں سے نوازے اور نئی نسل کو کتاب سے استفادہ کی توفیق دے ۔
 
Top