• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ وحید الزماں کا مسلکی اتار چڑھا ؤ

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

علامہ وحید الزماں جو کہ معروف شخصیت ہیں انھو ں نے کئی کتب احادیث کے ترجمے کئے اور حنفی کتب کی شروحات بھی لکھیں مو لانا چو نکہ ابتدا ء میں کٹر حنفی مقلد تھے اس لئیے ان کی تحقیق کا دائرہ وسیع نہ تھا اسی لئے جس اثنا ء میں آ پ حنفی تھے ان ایام میں آپ نے کئی مرتبہ اہل حدیث کے عقائد پر تابڑ توڑ حملے کئے مولانا وحیدالزماں کا خاندان چونکہ حنفی تھا اسی لئے مولانا صاحب اوائل میں حنفیت کا دفاع بھرپور انداز سے کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے والد سیدمسیح الزماں کی ایماء پر سب سے پہلے جس کتاب کا ترجمہ کیا وہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب ''شرح وقایہ'' تھی کچھ عرصے بعد آپ نے حیدرآباد دکن میں اس کی اردو میں مبسوط شرح لکھی جس میں غیر مقلدین پر اعتراضا ت کئے اور مسلک احناف کو ثابت کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگادیا اس کے بعد آپ کے برادر مولانا بدیع الدین زماں کی صحبت اور حدیث کی کتب کے ترجمہ کرنے کی وجہ سے آپ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ تقلید کرنا اور حنفیت کا دفاع کرنا مناسب نہیں ہے اسی اثناء میں آپ ترک تقلید کی طرف مائل ہوئے ۔ عزیزانِ گرامی تفصیل سے قبل ہم علامہ صاحب کی کچھ ذاتی زندگی کے بارے میں قارئین کے سامنے چند سطور پیش کرنا چاہتے ہیں۔
نام ونسب وبچپن:

محمد وحیدالزماں نام وقار نواز جنگ خطاب ،نسبًافاروقی تھے آپ کے بزرگوں کا اصلی وطن اگرچہ ملتان تھا مگر آپ کا نپور میں پیدا ہوئے سال ولادت ۱۸۵۰ءہے۔
آپ ایک دینی خاندان میں پیداہوئے آپ کے والد خود ایک بڑے بزرگ تھے ، پانچ برس تک والد ماجد ہی کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی، کسی وجوہات کی بناء پر شیخ مسیح الزماں نے اہل وعیال کو کانپور سے موضع پنڈریا میں منتقل کردیا اور پھر سال بھر کے بعد جب حالات سازگار ہوئے تو مولانا پر خاص توجہ دی۔
تعلیم وتربیت:

وحیدالزماں کے والد نے ابتداء میں اپنے بڑے فرزند اور ان کے بھائی حافظ بدیع الزماں صاحب کے سپرد کیا ، جن سے انہوں نے قرآن پاک ناظرہ پڑھا اور خود قرآن مجید کا اردو ترجمہ کرایا اور ساتھ ساتھ اردو فارسی کی کتابیں پڑھانا شروع کیں۔
مدرسہ فیض عام کانپور میں ائمہ فن سے فن کی متوسطات کی تعلیم پائی اور پھر علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تحصیل کیلئے نامور علماء کے حلقہ درس میں شرکت کی۔ غرضیکہ تمام علوم مروجہ کی تکمیل صرف سات سال یعنی پندرہ سولہ برس ہی کی عمر میں کرلی تھی ۔
سفر دکن:
تعلیم سے فراغت کے بعد۱۸۶۶ء میں آپ کے والد جناب مسیح الزماں  نے حیدرآباد دکن بلایا ، چنانچہ۱۰/ذیقعد ۱۲۸۳ھ کوآپ بخیر عافیت حیدرآباد دکن پہنچ گئے۔ یہاں بھی ارباب کمال سے اکتساب ِ علم میں مشغول رہے ۔ آپ کے والد حیدرآباد دکن میں مطبع سرکاری کے مہتمم اور نگران تھے ، بعض امراء سے بھی اچھے مراسم تھے ۔ جب آپ کو حیدرآباد بلایا تو کچھ عرصے کے بعد مختار الملک بہادر (جو عدالت سرکارِ عالی کے معتبر تھے ) کے پاس ۱۸۶۷ء میں بمشاہرہ پچیس25روپیہ ماہوار ملازم کرادیا اور مولانا اپنے فرائض منصبی بخوبی انجام دینے لگے۔
شدید علالت:

ابھی ملازم ہوئے دوسال ہی گزرے تھے کہ حیدرآباد میں ہیضے کی وبا پھیل گئی اور مولانا بھی اس مرض میں مبتلا ہوگئے اللہ نے خیر کی اس مرض سے نجات ملی، مگر صحت خراب ہوگئی ۔
سفر حج:

مولانا کے گھر کا ماحول تمامتر اسلامی تھا ، قال اللہ اور قال الرسول کا چرچا رہتاتھا۔ اس وجہ سے بچپن ہی میں سرورکائنات ﷺکی ذات ستود ہ صفات سے بڑی عقیدت ومحبت تھی، پھر علوم دینیہ کی تحصیل ، علماء کی صحبت نے اس مئے کو اور بھی دوآتشہ کردیا تھا ، چنانچہ عنفوانِ شباب ہی میں ملازمت کے ٹھیک تین سال کے بعد والد ماجد کے ہمراہ۱۸۷۰ء میں فریضہ حج اداکیا ۔ روضہ اقدس کی زیارت کیلئے مدینہ منورہ گئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد حیدرآباد واپس آگئے ۔
ازدواجی زندگی:

حج سے واپس آنے کے بعد والد ماجد نے تأہل پرزوردیا ۔ آپ نے والد کے ارشاد کو برضا ورغبت قبول کرلیا۔ چنانچہ ۱۸۷۲ء میں مولوی محمد مراد اللہ بن مولوی محمد اشرف لکھنوی کی دختر نیک اختر سے نہایت سادہ طریقہ پر لکھنؤ میں نکاح ہوا اور حیدرآباد آگئے۔
والدین کی وفات:

جس زمانے میں مولانا وحیدالزماں کو ہیضہ ہوا تھا اسی سال ۱۸۶۹ءمیں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا۔ ۱۸۷۷ء میں مولانا وحیدالزماں کے دوجوان عالم فاضل بھائی حافظ سعیدالزماں اور فرید الزماں کا یکے بعد دیگر ے انتقال ہوگیا۔ ادھر مسلمانوں کی دین سے بے اعتنائی نے تازیانہ کاکام کیا اور پورا خاندان گویا ہجرت پر آمادہ ہوگیا، آپ بھی اہل وعیال کو لے کر والد ماجد کے ساتھ حج کو روانہ ہوگئے۔ دوران قیام۹ذیقعدہ ۱۲۹۵ھ موصوف کے والد شیخ مسیح الزماں ؒ مکہ معظمہ میں انتقال ہوا اور جنۃ المعلاۃ میں دفن ہوئے۔
سابقہ اوراق میں ہم نے یہ واضح کیا کہ آپ ابتداء میں حنفی تھے کیونکہ آپ کا خاندان بھی حنفی مذہب سے گہرا تعلق رکھتا تھا اسی لئے آپ نے ''شرح وقایہ''کا ترجمہ کیا اور حنفیت کو ثابت کرنے کیلئے کوشاں رہے لیکن جب آپ کا تحقیق کا دائرہ وسیع ہوتا رہا تو آپ نے تقلید کے قلابہ کو اپنی گردن سے اتارنے کا قصد کیا چنانچہ محمد حسن لکھنوی لکھتے ہیں:
اوائل عمر میں آپ مقلد تھے اور مقلد بھی نہایت متعصب ۔۔۔لیکن جوں جوں تحقیق آپ کی بڑھتی گئی ، تقلید کا مادہ گھٹتا گیا اور اب آپ سچے متبع کتاب وسنت ہیں۔(لائف سی سالہ ص۴۵)
یہ وہ موڑ تھا جب مولانا نے حنفیت کو چھوڑ کر کتاب وسنت کی طرف مائل ہوئے ، لیکن حقیقت اور بصیرت کی نگاہ رکھنے والا مولانا کی زندگی کو اگر بغور مطالعہ کرے گا تو وہ یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ مولانا صحیح معنی میں کتاب وسنت کے عاملین وحاملین میں نہ تھا بلکہ آپ میں نکتہ چینی اور تعصب کے اثرات پھر بھی موجود تھے ایک مقام پر لکھتے ہیں:
ہمارے اہل حدیث بھائیوں نے ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شوکانی ، شاہ ولی اللہ اور مولوی اسماعیل صاحب شہید نوراللہ مرقدھم کو دین کا ٹھیکیدار بنارکھا ہے جہاں کسی مسلمان نے ان بزرگوں کے خلاف کسی قول کو اختیار کیا بس اس کے پیچھے پڑگئے برابھلا کہنے لگے بھائیو! ذراتو غور کرو انصاف کرو جب تم نے ابوحنیفہ ؒاور شافعیؒ کی تقلید چھوڑی تو ابن تیمیہ اور ابن قیم اور شوکانی جوان سے متاثر ہیں ان کی تقلید کی کیا ضرورت ہے ۔
(وحید اللغات ۔مادہ''شر'')
مولانا کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اب وہ اہل حدیث مسلک سے بھی بھاگنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ اہل حدیث جو صرف کتاب وسنت ہی کی پیروی کرتے ہیں ان کے نزدیک کوئی کتنا ہی اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیوں نہ ہوا جب بات قرآن وسنت کے نصوص کے خلاف ہوگی تو ان کی بات کو ردکردیا جائے گا لہٰذا مولانا نے جب مسائل میں اہل حدیثوں پر نکیر نہ کرسکے بلاوجہ ابن قیم ،ابن تیمیہ اور شوکانی کانام لے کر زبردستی اہل حدیثوں کو ان کا مقلد بنانے کی کوشش کی یہ دشمنی کی آگ ان کے سینے میں کس طرح سے بھڑکی غور کیجئے۔
علامہ وحیدالزماں لکھتے ہیں:
ہمارا گروہ اہل حدیث ماشاء اللہ ایسا گروہ ہے کہ ایک دفعہ میں سخت مشکل میں پھنس گیا یہاں تک کہ زوال عزت وجان کا خوف ہوگیا تھا مگر طائفہ اہل حدیث میں سے کسی نے ایک خط بھی ہمدردی کا نہیں لکھا روپیہ پیسہ کی امداد کا تو کیا ذکرہے۔۔۔۔
(وحیداللغات مادہ ''لھو'')
ان کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ اگر اہل حدیث ان کی اس وقت روپیوں سے مددکردیتے تو اہل حدیث انکی نگاہ میں اہل حق ہوتے اور وہ اہل حدیثوں کا ذکر مادہ ''لھو'' کے بجائے مادہ''خیر'' میں کرتے ان حقائق پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ مولانا صاحب کی اصل منشاء مال کمانا تھا لہٰذا یہ بات قابل غور ہے کہ اہل حدیث نے کبھی بھی ابن تیمیہ ، ابن قیم ، اور شوکانی رحمھم اللہ کی تقلید کا دعویٰ نہیں کیا ہاں ان کی تحقیقات کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے کہ ان کی تحقیقات غیر تعصبی اور محقق ہوا کرتی ہیں۔
ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا صحیح معنوں میں اہل حدیث نہ تھے صرف قرآن وسنت کا نام لینے سے ہرگز کوئی اہل حدیث نہیں ہوتا۔
علامہ وحیدالزماں کا تفضیلی تسنن:

یہ بات بھی معروف ہے کہ علامہ صاحب آخری عمر میں تفضیلی کا شکار ہوچکے تھے ۔
عبدالحلیم چشتی صاحب لکھتے ہیں:
''افسوس حیدرآباد میں امراء کی صحبت دراسات اللبیب فی اسوۃ الحسنۃ بالحبیب مؤلفہ ملامعین بھٹوی(المتوفی 1161ھ) اور شیخ محمد یحییٰٰ کی مجمع البحرین کے مطالعے نے اخیر عمر میں اہل بیت سے محبت غلو کے درجہ تک پہنچادی تھی اور تفضیلی قسم کے تسنن کا رنگ غالب آگیا تھا۔ آپ نے اس کو تبلیغ انداز میں جابجا بیان کیا۔
(حیات وحیدالزماںص۲۰۷)
لیکن یہ بات محل نظر ہے کہ مولانا آخری عمر میں تفضیلی تسنن کا شکار ہوئے بلکہ وہ اٹھارہ یا بیس سال کی عمر سے ہی امرا کی صحبت اختیار کرچکے تھے۔
۱۲۸۴ھ ۱۸۶۷ء میں علامہ صاحب کو حیدرآباد میں ملازمت ملی اس وقت علامہ صاحب کی عمر سترہ برس تھی ۱۲۸۷ھ بمطابق۱۸۷۰ء کو علامہ صاحب اپنے والد کے ہمراہ حج بیت اللہ کیلئے گئے ۔ حج کے بعد علامہ صاحب کے دوبھائی حافظ سعید الزماں اور فریدالزماں اوپر تلے وفات پاگئے نواب صاحب حیدرآباد میں قیام پر افسردہ تھے انہوں نے اپنے والد اور دیگر افراد ِخانہ کے ہمراہ حجاز کا رخ کیا ، لگ بھگ تین سال بعد آپ واپس آگئے اور دوبارہ اپنی ملازمت شروع کردی۔یہ سلسلہ ۱۳۱۸ھ بمطابق ۱۹۰۰ء تک رہا ۔۱۳۳۸ھ بمطابق ۱۹۲۰ء کو علامہ صاحب نے وفات پائی ان تفصیلات اور دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ وحیدالزماں کو حیدرآباد میں امراء کی صحبت آخری عمر میں نہیں بلکہ اٹھارہ برس کی عمر سے ہی میسر آچکی تھی یعنی ابتداء میں وہ حنفی مقلد تھے بعد میں وہ تفضیلی تسنن کی طرف راغب ہوئے۔ اور یہ رغبت آپ میں رچ بس چکی تھی ۔
۳۲۔۱۳۳۱ھ میں علامہ صاحب دمشق تشریف لے گئے اور سیدنا حسین tکے سر کے مدفن پر حاضری دی وہاں علامہ صاحب نے اپنی عقائد کا کشف کیا اور اپنے جذبات کی وہ خود ہی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
دمشق میں عجیب اتفاق ہوا، جب میں اس گنبد کی زیارت کو گیا تو اس کے نزدیک جاتے ہی واقعہ شہادت کا تصور بن گیا اور میں چیخیں مارمار کر رونے لگا سارے عرب جو حاضر تھے وہ تعجب کرنے لگے ، میرا رونا تھمتاہی نہیں تھا اور بار بار عربی زبان کہتا ہائے ہماری بدقسمتی کہ ہم آپ کے بعد پیدا ہوئے ۔ اگر اس وقت ہوتے جب آپ کربلائے معلی میں گھر گئے تھے تو پہلے ہم آپ پر تصدق ہوجاتے پھر کوئی ملعون آپ پر ہاتھ ڈالتا ۔
(لغات الحدیث ج۲ص۱۶)
علامہ صاحب کا نظریہ آپ نے پڑھا مزید سنئے! علامہ صاحب لکھتے ہیں:
جب سے امام حسین کی شہادت محرم ہوئی ، یہ مہینہ خوشی کا نہیں رہا، مترجم کہتا ہے اگر سب مسلمان مل کر سال کا آغاز ماہ شوال سے کرلیں تو بہت مناسب ہوگا ۔
(لغات الحدیث مادہ''عدد'')
اندازہ فرمائیں یہ خالصتاً شیعی فکر کا عکس ہے اور بڑی عجیب بات ہے محرم میں خوشی منانا اور اسلامی ماہ کی ابتداء شوال سے کرنا مہینوں میں آگے پیچھے کرنے کے مترادف ہے قرآن مجید نے مہینوں کو آگے پیچھے کرنے کو کفر سے تعبیرکیا ہے (دیکھئے :التوبۃ:۳۷/۹)علامہ صاحب کی سوچ اور عقائد پر تشعیت کا ایسا رنگ غالب آچکا تھا کہ انہیں یہ خیال ہی نہ رہا کہ میں اسلامی مہینوں میں تبدیلی کا ارتکاب کررہا ہوں۔ تشعیت کا رنگ ایسا غالب ہوا کہ ایک جگہ یہ لکھتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے تئیں سب سے زیادہ خلافت کا مستحق جانتے تھے اور ہے بھی یہی آپ بلحاظ قرابت قریب اور فضیلت اور شجاعت کے سب سے زیادہ پیغمبر کی قائم مقامی کے مستحق۔۔۔۔۔۔ (وحید اللغات مادہ ''عجز'')
اس قسم کی عبارتوں اور غلو سے وحیداللغات بھری پڑی ہے جس سے بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ صاحب کئی ایک مسائل میں امت کے خلاف تھے پوری امت اس امر پر اتفاق کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر tہی خلافت کے مستحق تھے مگر اس مسلمہ حقیقت سے علامہ صاحب دستبردار ہوچکے تھے۔
مولانامحمد نافع علامہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں :
جناب وحیدالزماں کچھ زمانہ سنی حنفی تھے ۔اسی دور میں انہوں نے شرح وقایہ کا ترجمہ ''نورالہدایہ'' کے نام سے کیا تھا۔ ان کے تزکرے نویس لکھتے ہیں کہ ان کی طبع میں ایک قسم کی تلون اور انتہا پسندی تھی ۔ کچھ عرصے مقلد رہنے کے بعد غیر مقلد بن گئے اور آزادانہ تحقیق کے کاربند ہوگئے ۔ اسی دور میں انہوں نے صحاح ستہ کے تراجم کئے پھر ایک مدت دراز کے بعد ملامعین سندھی ٹھٹوی کی کتاب ''دراسات اللبیب'' وغیرہ سے متاثر ہوئے اور شیعی نظریات کے حامل ہوگئے ۔ اسی دور میں انہوں نے ''انواراللغۃ ملقب بہ وحیداللغات'' مرتب کی اس میں متعدد مقامات پر انہوں نے اپنی شیعی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (بنات اربعہ ص۳۸۔ ۴۳۷)
لہٰذا علامہ وحیدالزماں صاحب زندگی بھر مسلکی اتارچڑھاؤ کا شکاررہے انہوں نے بخاری ، مسلم، ابوداؤدوغیرہ کے ترجمہ کتب احادیث کے کئے ہیں مگر ان تراجموں میں بھی اچھی خاصی شیعیت کی بوآتی ہے خصوصا جب علامہ صاحب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا ذکرکرتے تو ان کا قلم جمبش کھاکر اہل تشیع حضرات کی عکاسی کرتا چلاجاتا حتی کہ انہوں نے ایک موقع پر تیسیرالباری میں حدیث کی شرح کرتے ہوئے جب امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو لکھتے ہیں:
ان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس ان کے والد سفیان تھے جو آنحضور ﷺ سے برابر جنگ کرتے رہے آخرمیں مجبور ہوکر مسلمان ہوئے معاویہ آنحضور ﷺ کے منشی تھے ۶۰ء میں دمشق میں مرے بیاسی سال کی عمر پائی۔ امام بخاری نے اور بابوں کی طرح یوں نہ کہا کہ معاویہ کی فضیلت کیونکہ ان کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہوئی امام نسائی اور اسحاق بن راہویہ نے ایسا ہی کہا مترجم(وحیدالزماں)کہتا ہے صحابیت کا ادب ہم کو اس سے مانع ہے کہ ہم معاویہ کے حق میں کچھ کہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل میں آنحضور ﷺ کے اہل بیت کی الفت اور محبت نہ تھی جب امام حسن کا انتقال ہوا تو کیا کہنے لگے ایک انگار تھا جس کو اللہ نے بجھادیا ان کا باپ ابوسفیان ساری زندگی آنحضرت ﷺ سے لڑتا رہا یہ خود حضرت علی سے لڑے ان کے بیٹے ناخلف یزیدپلید نے تو غضب ڈھایا امیر المومنین امام حسین علیہ السلام کو مع اکثر اہل بیت کے بڑے ظلم اور ستم کے ساتھ شہید کرادیا۔ (تیسرا لباری شرح صحیح بخاری ج۳حاشیہ ص۵۸۷)
ایک مقام پر جہاں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحابہ کے مناقب پر ابواب قائم کئے وہاں پر سیدنا امیر معاویہ tکے بارے میں یوں باب قائم کرتے ہیں:
علامہ صاحب کی اس عبارت سے قارئین یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کو امیر معاویہ اور ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے کس قدر عداوت و عناد تھی مزید دیکھیے۔
باب ذکر معاویہ رضی اللہ عنہ:
اس پر علامہ صاحب اپنے عقائد باطلہ کو بروئے کار لاکر لکھتے ہیں کہ معاویہ tکے بارے میں کوئی فضیلت ہی نہیں ہے اسی لئے امام بخاری نے باب مناقب معاویہ t نہیں لکھا بلکہ ذکر معاویہ t لکھا ہے اس لئے کہ ان کے بارے میں کوئی فضیلت موجود نہیں ۔ علامہ صاحب نے کوئی ایسا موقع خالی جانے نہیں دیا جو معاویہ t کے خلاف انہیں موقع ملا ہو اور انہوں نے صحابی رسول معاویہ t پر حملہ نہ کیا ہو ۔اگر بقول علامہ صاحب کے یہی بات ہے تو ان کے نزدیک سیدنا عباس t تو بہت ہی فضیلت کے حامل ہونگے؟ امام بخاری ؒ نے جب عباس بن عبدالمطلب کا ذکرفرمایا تو وہاں بھی باب قائم کرتے ہیں:
''باب ذکر العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ''
تو کیا خیال ہے علامہ صاحب کا کہ عباسt کے بارے میں بھی کوئی فضیلت وارد نہیں ؟ اگر ہے تو پھر معاویہ tپر یہ ستم کیوں؟ تو پھر اس کا چہ معنی وارد؟
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا باب میں مناقب کی جگہ ''ذکر'' کرنے سے کیا مراد ہوتی ہے:
علامہ وحیدالزماں نے جو تاثر دینے کی کوشش فرمائی ہے کہ معاویہ tکی فضیلت میں کچھ ثابت ہی نہیں مگر یہ صرف ان کا جھانسہ ہے جو وہ عامۃ المسلمین کو دینا چاہتے تھے کیونکہ رافضیت کے اثرات ان کے قلب میں اس طرح نقش ہوچکے تھے کہ صحابی کا مقام اور عزت کا اعلیٰ سرمایہ آپ نے اپنے ہاتھوں سے گم کردیا ۔ قطعاً امام بخاری ؒ باب سے یہ ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے کہ معاویہ tکے بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں امام بخاری a نے ''باب ذکر معاویہ رضی اللہ عنہ '' اس لئے قائم فرمایا کہ جو مناقب کی احادیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہیں وہ ان کی شرائط پر نہیں تھیں دقیق نظر سے بخاری کا مطالعہ کرنے والا اس مسئلے کو بخوبی جانتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے کئی مقامات پر صرف باب قائم کرکے صحیح حدیث کی طرف اشارہ فرمادیا مگر ان کی شرائط پر وہ حدیث پوری نہ اترتی تو صرف اس کی طرف باب میں اشارہ فرمادیتے ایسی کئی امثال کثیر صحیح بخاری میں موجود ہیں مثلاً امام بخاری a باب قائم فرماتے ہیں:
''اذاأقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ الاالمکتوبۃ''
''جب فرض نماز کی تکبیر ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں ہوتی۔''
باب کے ذیل میں ایک حدیث کا ذکر فرمایا جس کا مختصر یہ ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ ﷺنے دیکھا کہ اقامت ہوجانے کے بعد دورکعت اداکررہا تھا تورسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا کہ کیا صبح کی نماز (فرض) چار رکعت ہیں؟ کیا صبح کی نماز چار رکعت ہیں؟
(صحیح بخاری کتاب الاذان ج ۱رقم۶۶۳)
اس حدیث میں واضح نہیں فرمایا گیا کہ اقامت کے بعد کوئی نماز نہیں سوائے فرض کے لیکن امام بخاری a نے باب قائم فرماکر اس حدیث کی طرف اشارہ فرمادیا جس میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ جب فرض نماز کی اقامت ہوجائے تو فرض کے سوا کوئی اور نماز نہیں ہوتی چونکہ وہ حدیث امام بخاری ؒ کی شرط پر نہ تھی اس لئے یہاں ذکر نہ فرمایا اور اس حدیث کو ذکر فرمادیا جس سے دقیق اور گہرائی کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد یہی مسئلہ اخذ ہوتا ہے جو امام صاحب نے باب قائم فرمایا ۔لہٰذا ایسی ان گنت مثالیں صحیح بخاری میں موجود ہیں طوالت سے بچتے ہوئے ایک ہی مثال پر اکتفا ہے۔
اسی طریقے سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو احادیث ان کی فضیلت پر دال ہیں وہ احادیث امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی شرائط پر نہیں تھیں اسی وجہ سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ''مناقب''کی جگہ ''ذکر'' کے دقیقانہ الفاظ کو استعمال فرماکر ان کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا ، غور کیجئے اگر امام بخاری ؒ کے نزدیک مطلق کوئی حدیث امیر معاویہ tکی فضیلت میں ثابت ہی نہ ہوتی تو وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کتاب المناقب (یعنی فضائل صحابہ) میں کیوں کرتے؟؟یہ نکتہ اس مسئلہ پر مہر ثبت کے مانند ہے کہ امام بخاری ؒ مطلقاً معاویہ tکی فضیلت کے انکاری نہیں ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی۸۵۲ھ) رقمطراز ہیں:
''لأن ظاھر شھادۃ ابن عباس لہ بالفقہ والصحبۃ دالۃ علی الفضل الکثیر'' (فتح الباری ج۷ص۱۳۱)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ظاہری شہادت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فقہ اور صحبت کے بارے میں ہے جو کہ انکی کثیر فضیلت کی دلیل ہے ۔
''وقد صنف ابن ابی عاصم جذأ فی مناقبہ''
یقینا ابن ابی عاصم نے ایک جذء لکھا ہے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر۔(ایضاً)
اس مختصر سی گفتگو سے الحمد للہ یہ بات آشکار ہوئی کہ امام بخاری سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہکی فضیلت کی حدیث کے مطلقاً انکاری نہ تھے بلکہ ان کی شرائط پر احادیث نہ تھی جس کا وہ ذکر نہ کرسکے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں صحیح احادیث:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان جلیل القد ر صحابہ میں تھے جو غزوہ حنین میں شریک تھے اللہ تعالیٰ نے جنگ حنین میں شریک ہونے والوں کے لئے بشارت دیتا ہے ۔
﴿ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَعَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَعَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭوَذٰلِكَ جَزَاۗءُ الْكٰفِرِيْنَ﴾ (التوبة: ۲۶)
ترجمہ: ''پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر تسکین نازل فرمائی اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا یہی بدلہ ہے۔''
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے دعا فرمائی :
1''اللّٰھم علّم معاویہ الکتب والحساب وقہ العذاب''
اے اللہ معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطاکر اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔
(ابن حبان ۲۲۷۸، مسند احمد ۱۲۷/۴، مسند بزار ۲۷۲۳، الفسوی فی التاریخ ۳۴۵/۲،معجم الکبیر للطبرانی ۶۲۸/۲۵۱/۱۸، ابن عدی''الکامل'' ۴۰۶/۶، ابن بشران فی الأمالی ۱/۴، ابن عساکر تاریخ دمشق ۶۸۳-۶۸۲/۱۶، الصحیحہ للالبانی ۶۸۸/۷، صحیح موارد الظمان ۳۹۸/۳)
علامہ ناصر الدین الالبانی رحمتہ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث پر کئی طرق کو جمع فرمایا اور صحیح مواردالظمان میں صحیح لغیرہ کا حکم لگایا ہے۔ اسی حدیث کا ایک طرق امام بخاری a کی کتاب ''التاریخ'' میں موجود ہے جس کو ذکر کرنے کے بعد شیخ البانی رقمطراز ہیں:
''قلت ھذا اسناد جید عندی، وشاھد قوی، رجالہ ثقات رجال مسلم''
''میں کہتا ہوں (البانی a ) اس کی سند جید ہے میرے نزدیک اور شواہد بھی قوی ہیں اور اس کے رجال ثقہ اور مسلم کے ہیں۔ '' (الصحیحۃ للالبانی ج۷ص۶۹۰)
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اپنی صحیح میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر ایک حدیث کا ذکر فرماتے ہیں جسے علامہ وحیدالزماں نظر انداز کرگئے۔
ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
''قلت نام النبی ﷺ یوما قریباً منی، ثم استیقظ یتبسم،فقلت ما اضحک؟قال اناس من امتی عرضوا علی یرکبون ھذا البحرالأخضر کالملوک علی الأسرۃ۔۔۔۔''
(صحیح بخاری کتاب الجھاد، باب فضل من یصرع فی سبیل اللہ وباب رکوب البحر)
''ایک دن رسول اللہ ﷺ اُمّ حرام رضی اللہ عنہ کے ہاں آرام فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ کو نیند آگئی ۔ تھوڑی دیر میں آپ ﷺ جاگے تو مسکرارہے تھے ۔ حضرت اُمّ حرام t نے پوچھا ''آپ کیوں مسکرارہے ہیں ؟'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے (میرے سامنے) پیش کئے گئے ، وہ سبز سمندر میں اس طرح چلے جارہے تھے گویا وہ تخت نشین بادشاہ ہیں ، یہ منظر مجھے بہت اچھا معلوم ہوا (اس لئے مسکرارہا ہوں) یہ میری امت کا پہلا بحری لشکر ہے ، ان کیلئے (جنت) واجب ہوگئی''
حضرت اُمّ حرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا '' اے اللہ کے رسول ﷺ دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے ۔'' رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اور پھر سوگئے ۔ کچھ دیر بعد پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔ حضرت اُمّ حرامرضی اللہ عنہ نے پھر مسکرانے کا سبب دریافت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہوئے (میرے سامنے ) پیش کئے گئے ، گویا وہ تخت نشین بادشاہ ہیں ، یہ منظر مجھے بہت اچھا معلوم ہوا ۔'' حضرت اُمّ حرام رضی اللہ عنہ نے کہا ''اے اللہ کے رسول ﷺ، دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے ۔'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''تم پہلے لشکر میں شامل ہو (دوسرے میں نہیں)''۔
مندرجہ بالا حدیث میں جس لشکر کا ذکر موجود ہے کہ ان پر جنت کو واجب کردیا گیا کہ یہ وہ لشکر تھا جو رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے کافی عرصے بعد وقوع پذیر ہوا اس لشکر کے سپہ سالار سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے لہٰذا ان پر جنت کو واجب قراردیا گیا۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے محبوب خاندان کے ایک فرد تھے :
اما م بخاری a صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
فتح مکہ کے موقع پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ اور ان کی والدہ سیدہ ھندہ بنت عتبہ دونوں نے اسلام قبول فرمایا، سیدہ ھندہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر فرمانے لگیں ''اے اللہ کے رسول ﷺ، ایک وقت تھا کہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ ایسا نہیں تھا کہ جن کا ذلیل ہونا مجھے آپ کے اہل خیمہ کے ذلیل ہونے سے زیادہ محبوب ہو اور آج یہ حالت ہے کہ روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ ایسے نہیں جن کا باعزت ہونا مجھے آپ کے اہل خیمہ کے باعزت ہونے سے زیادہ محبوب ہو، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری بھی یہی حالت ہے ۔
(صحیح بخاری کتاب الایمان والنذور باب کیف کانت یمین رسول اللہ ﷺرقم الحدیث۶۶۴۱)
مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اہل خانہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک محبوب تھا اور اس اہل خانہ کے چشم وچراغ سیدنا امیر معاویہ tرضی اللہ عنہ تھے آپ tاللہ کے رسول ﷺ کے محبوب خاندان سے تھے ساتھ ہی ساتھ احادیث ِ رسول سے محبت، شغف اور اطاعت رسول ﷺ کے جذبے سے سرشار ومالامال بھی تھے آپ کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک اور شرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو نوازا اتنے سارے فضائل کے باوجود آپ کاتب وحی بھی تھے ۔ امام ابن کثیر a فرماتے ہیں:
''کان معاویہ رضی اللہ عنہ یکتب الوحی لرسول اللہ ﷺ''
''معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی یعنی رسول اللہ ﷺ کی وحی لکھا کرتے تھے ۔''
(البدایہ النھایۃ ج۱۱ص۳۹۶)
ان تمام فضائل کے باوجود ان گنت فضیلتیں موجود ہیں جوکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تقوی اور دین سے محبت کی دلیل ہے اوراق کا قلت ہونا مجھے اجازت نہیں دیتا وگرنہ کئی صفحات پر اس موضوع پر گفتگو کی جاسکتی ہے ، عقلمند اور دانشور انسان کیلئے ان شاء اللہ یہی دلائل کافی وشافی ہونگے۔
قارئین کرام ! آپ نے دیکھا کہ علامہ وحیدالزماں نے کس قدر صحابی رسول ﷺ سے بغض وعناد رکھا یہ اس بات کی واضح اور مبین دلیل ہے کہ علامہ صاحب شیعیت سے بہت زیادہ متاثر تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ صاحب کے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوگیا ایک موقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ صاحب فرماتے ہیں :
ہم کو بڑی امید ہے کہ اللہ جل جلالہ امام حسن علیہ السلام کے صدقے میں ہم کو دوزخ سے اور عذاب قبر سے بچادے گا۔ (تیسر الباری ج۵حاشیہ صفحہ۵۲۶)
علامہ صاحب نے یہاں پر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا صدقہ اللہ تعالیٰ کو دیا جوکہ آپ کے ایمان کی بگاڑ کی منہ بولتی تصویر ہے لہٰذا آپ یہ بھی غور فرمائیں کہ جب بھی سیدنا حسن ،حسین،علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہم کا نام آتا ہے تو موصوف نے اپنی عادت کے موافق رضی اللہ عنہ کی جگہ علیہ السلام ہی کو اختیار کیا جوکہ شیعیت کی طرف مائل ہونے کی کڑی ہے ، علامہ صاحب کو تصوف سے بھی بہت گہرا لگاؤ تھا اسی وجہ سے مولوی فضل رحمن گنج مراد آبادی نے علامہ صاحب کو سلسلہ نقش بندیہ میں بھی داخل کرلیا تھا۔ علامہ وحیدالزمان خود لکھتے ہیں:
طریقہ درویشی میں فقیر نے شیخ رحمان صاحب مرادآبادی سے بیعت کی ۔ پہلے طریقہ قادریہ میں داخل ہوا، پھر موصوف نے مجھ کو اپنے دست خاص سے یہ لکھا بھیجا''شمارا درطریقہ نقشبندیہ ہم داخل غودم ہم نے آپ کو نقشبندیہ طریقے میں داخل کرلیا۔
(حیات وحیدالزماں ص۴۵)
قارئین کرام یہ وہ چند چیدہ چیدہ حوالے ہیں جو ہم نے علامہ وحیدالزماں صاحب ہی کے اقتباسات سے نقل کئے ہیں ،اس کے علاوہ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ حقیر نے جو کچھ علامہ صاحب کے بارے میں لکھا ہے صرف اس لئے کہ انہوں نے رافضیت کے عقائد کو بڑے دقیق انداز میں سنیوں تک ٹرانسفر کیا ہے ان کے تراجم اور شروحات تقریبا گھروں اور مکتبوں میں پائے جاتے ہیں میں نے ضروری سمجھا کہ عوام الناس کو آگاہ کروں کہ ان کی تشریحات اور ترجمہ پڑھتے وقت بہت احتیاط سے کام لیں بہتر یہی ہے کہ ان کے ترجموں کو خیرآباد کرکے صحیح العقیدہ سلفی علماء کے تراجموں سے استفادہ کیا جائے تاکہ قرآن وصحیح حدیث کی اصل منشاء تک بآسانی سے رسائی ہو۔
نوٹ:
ہمیں علامہ صاحب سے کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی ہرگز نہیں ہے ان کے بارے میں اور ان کی علمی خیانتوں پر پردہ اس لئے اٹھایا گیا کہ انہوں نے صحابی رسول پر نکتہ چینی کی جوکہ کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا علامہ موصوف کے ترجمہ تقریبا ہرجگہ باآسانی پائے جاتے ہیں اس لئے حقیر نے ان کی کوتاہیوں اور اغلا ط کو قارئین کے سامنے رکھا تاکہ عوام الناس کسی بھی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور ہمیشہ قرآن وسنت کو بروئے کارلاکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توقیر اور عظمت کا خیال رکھیں ۔
 
Top