• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء سوء کون ہیں ؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
علماء سوء کون ہیں ؟

الحمد لله رب العالمين وصلى ﷲ وسلم وبارك على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد:

علماء سوء کی صفات بہت ہیں ان میں سے بعض ظاہری اور باطنی ہیں اور ان کا ذکر وحی متلو و غیر متلو (یعنی قرآن و حدیث) دونوں میں ہوا ہے اور علماء اسلام نے ان کے بارے میں بات کی ہے جیسا کہ تاریخ کی کتابوں اور تراجم نے انہیں ہمارے لیے محفوظ کر رکھا ہے۔

پہلی صفت: علم اور دعوت سے ان کا ارادہ رضائے الہی نہیں ہوتا:

بلکہ علم اور دعوت میں ان کے بہت سے اہداف ہوتے ہیں /علم اور دعوت سے ان کے بہت سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں /علم اور دعوت سے ان کا مقصد دنیاوی مفادات کا حصول ہوتا ہے جیسے طواغیت کے ہاں عزت حاصل کرنا یا لوگوں میں شہرت حاصل کرنا وغیرہ۔ امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن السماک کی سند سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ذر نے اپنے والد عمر بن ذر سے کہا: کیا بات ہے کہ بولنے والے بولتے ہیں تو کوئی نہیں روتا، اور جب آپ بات کرتے ہیں تو ادھر ادھر سے رونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! کرائے کا نوحہ؛ سوگوار پر رونے کی طرح نہیں ہے۔ "

دوسری صفت: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت:

پس، آپ انہیں واقعات کے سائیڈ لائنز کے علاوہ اور کہیں نہیں پاتے۔(پس آپ انہیں رونما ہونے والے حادثات و واقعات کے پیچ و خم سے بالکل ایک جانب بطور تماشائی موجود پائیں گے۔) زخمی ہونا یا قتل ہونا تو بہت دور کی بات ہے ان میں سے کسی کو یہ ڈر لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کے کپڑے پانی سے تر نا ہو جائیں۔

اس لیے یہ آپ کو سکرینوں، اخبار و جرائد کے صفحات اور انٹرنیٹ ویب سائٹس کے علاوہ اور کہیں نہیں ملیں گے۔ حتی کہ ان فیصلوں/مسائل کو بھی عملی جامہ پہنانے میں بنفس نفیس شامل نہیں ہوتے جنہیں خود یہ بنتے تراشتے ہیں اور جن کی نصرت و کامیابی کے لیے یہ فنا ہو جانے تک کے دعوے کرتے ہیں۔

یہ ہی وہ وھن (ذلت ،پستی،کم ہمتی، نفسیاتی غلامی) ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے جسے احمد نے اپنی مسند میں اور دوسرے محدثین نے بھی روایت کیا ہے۔

تیسری صفت: بغیر علم کے اللہ کے بارے میں بات کرنا:

اگر ان میں سے کسی سے ہزار سوالات پوچھے جائیں تو وہ بغیر ہچکچاہٹ کے ان سب کا جواب دے دیتا ہے اور بغیر سوچ و بچار(فکر و تأمل) کے پاگل اونٹنی کی طرح مسائل کو خلط ملط کرتے ہوئے جواب دیتا چلا جاتا ہے تاکہ کسی سوال کے متعلق لاعلمی اس کے ریکارڈ میں محفوظ نہ رہ جائے ( لیکن اسے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کسی سوال سے لاعلمی اس کے ریکارڈ میں محفوظ رہ جائے)گویا کہ وہ تمام پہلوؤں اور جہتوں سے علم کو گھیرے ہوئے ہو۔

جندب ابن عبداللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:"جس نے اپنی رائے سے قرآن کے الفاظ و معانی میں بات کی اگر وہ اس کے بیان کرنے میں درست بھی ہوا تو بھی اس نے غلطی کی۔" اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔

چوتھی صفت: اس علم کے خلاف عمل کرنا جو وہ سکھاتے ہیں:

احمد نے اپنی مسند میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا جن کے ہونٹ آگ کی قینچی سے کاٹے جا رہے تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا: میں نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ تو ملائک نے کہا:" یہ دنیا والوں کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو تو نیکیوں کا حکم کرتے تھے لیکن خود کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔ کیا وہ عقل نہیں رکھتے تھے؟!‘‘

اور احمد نے کتاب الزہد میں امام مالک بن دینار کی سند سے بھی روایت کی ہے (کہ انہوں نے فرمایا: "اگر کوئی عالم اپنے علم پر عمل نہ کرے تو اس کے وعظ(نصیحت) کا اثر دلوں سے اس طرح زائل اور ختم ہو جاتا ہے جیسے صفائی والے کپڑے سے قطرے گر کر تری کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور صفائی والا کپڑا خشک باقی رہ جاتا ہے۔"

پانچویں صفت: اللہ کے دشمنوں یعنی کفار اصلی اور مرتدین سے دوستی و وفاداری نبھانا:

آپ انہیں صلیبیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا سب سے جلد نرم مزاج اور خوش کلام پائیں گے۔ اسی طرح ان میں سے کوئی روتے ہوئے یا رلاتے ہوئے اللہ سے اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر حکومت کرنے والے حکام کے لیے حفاظت کی دعا کرتا ہے جیسا کہ ان کے پیشرو "بلعم بن باعوراء" نے اس وقت کیا جب اس نے اللہ کے رسول موسیٰ کلیم اللہ کے خلاف جابروں کی فتح کے لئے اللہ سے دعا کی (، امام ابن کثیر نے فرماتے ہیں: "یہ بات متفق علیہ ہے کہ بلعام ابن باعوراء نے موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جبارین کی اعانت دعا کے ذریعے کی تھی۔ پس اللہ تعالی نے اس کے اور اس کی طرح کے لوگوں کے لیے قیامت کے دن تک یہ آیات اتاریں:

﴿وَٱتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَأَ ٱلَّذِيٓ ءَاتَيۡنَٰهُ ءَايَٰتِنَا فَٱنسَلَخَ مِنۡهَا فَأَتۡبَعَهُ ٱلشَّيۡطَٰنُ فَكَانَ مِنَ ٱلۡغَاوِينَ.وَلَوۡ شِئۡنَالَرَفَعۡنَٰهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُۥٓ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُۚ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلۡكَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَثۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ‍َٔايَٰتِنَاۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ﴾[سورۃ الأعراف]

"اور انھیں اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیات(نشانیوں) سے نوازا تھا۔ پھر وه ان آیات سے بالکل ہی نکل گیا۔ تو شیطان نے اسے اپنے پیچھے لگا لیا پس وہ صراط مستقیم سے اغوا ہونے والوں میں سے ہو گیا۔

اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ پر فائز کر دیتے لیکن وه تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا۔ سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کتا۔ کہ اگر تو اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے تب بھی ہانپے یا اسے ویسے رہنے دے تو تب بھی ہانپے۔ یہی مثال ان لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ ان واقعات کو بیان کیجیے ہو سکتا ہے کہ وه لوگ غور و فکر کریں۔"

چھٹی صفت: علمائے ربانیین، سچے مبلغین اور مجاھدین کو دشمن بنانا:

اسی لیے آپ انہیں خلافت الاسلامیہ کے سپاہیوں اور امراء پر طعن و تشنیع کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے لمبی زبانوں والا پائیں گے۔ اپنی ان لمبی زبانوں کے ساتھ اسلامی ریاست پر بھونکتا ہوا اور بکواسات کرتا ہوا پائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿قَدۡ يَعۡلَمُ ٱللَّهُ ٱلۡمُعَوِّقِينَ مِنكُمۡ وَٱلۡقَآئِلِينَ لِإِخۡوَٰنِهِمۡ هَلُمَّ إِلَيۡنَاۖ وَلَا يَأۡتُونَ ٱلۡبَأۡسَ إِلَّا قَلِيلًا١٨ أَشِحَّةً عَلَيۡكُمۡۖ فَإِذَا جَآءَ ٱلۡخَوۡفُ رَأَيۡتَهُمۡ يَنظُرُونَ إِلَيۡكَ تَدُورُ أَعۡيُنُهُمۡ كَٱلَّذِي يُغۡشَىٰ عَلَيۡهِ مِنَ ٱلۡمَوۡتِۖ فَإِذَا ذَهَبَ ٱلۡخَوۡفُ سَلَقُوكُم بِأَلۡسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى ٱلۡخَيۡرِۚ أُوْلَٰٓئِكَ لَمۡ يُؤۡمِنُواْ فَأَحۡبَطَ ٱللَّهُ أَعۡمَٰلَهُمۡۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٗا﴾[سورۃ الاحزاب:آیة 18]

"اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اپنے یار دوست اور قوم قبیلے کے لوگوں کو جہاد سے روکتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے کے بجائے ہمارے پاس چلے آؤ اور ہماری طرح آرام سے گھروں میں رہو۔ اور خود جنگوں میں شریک نہیں ہوتے مگر بہت ہی کم بزدلی کے ساتھ فقط دکھلاوے اور مال کے حصول کے لیے۔
تمہارے ساتھ تعاون کرنے میں انتہائی بخیل ہیں۔

سو جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انھیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف گھومتی آنکھوں کے ساتھ ایسے دیکھتے ہیں جیسے وہ شخص دیکھتا ہے جس پر موت کی غشی طاری ہو۔ پھر جب خوف دور ہو جاتا ہے تو مال غنیمت کے حصول کے لیے حرص کرتے ہوئے تم پر اپنی تیز زبانوں کے ساتھ چڑھ دوڑتے ہیں۔ درحقیقت یہ مؤمن ہے ہی نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام اعمال نیست و نابود کر دیے اور اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا بہت ہی آسان ہے۔"

ساتویں صفت: ان کے موقف اور فتوے طاغوتی حکام یا عوام کی اکثریت کی چاہت کے حسب موافق بدلتے رہتے ہیں:

اسی لیے تو آپ ان میں سے کسی کو بیس سال تک جمہوریت کو کفر کہتا ہوا پائیں گے۔ پھر اسے مباح قرار دیتا ہوا پائیں گے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیتا ہوا پائیں گے۔ بلکہ دو ہاتھ مزید آگے بڑھتے ہوئے خود اسے اس میں شرکت کرتا ہوا پائیں گے -ایسی بدبختی سے اللہ کی پناہ -
اسی طرح ان میں سے بہت سے ایسے بھی آپ کو ملیں گے کہ جنہوں نے شاید اپنی پوری زندگی خلافت، اس کی علامات بیان کرتے اور اس کی خوشخبری دیتے ہوئے گزار دی ہو لیکن جب عراق و شام میں خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہوئی(کا قیام عمل میں آیا) تو اس کا انکار کر دیا اور اس کے جانی دشمن بن کر ابھرے(عیاں ہوئے، سامنے آئے)۔ بلکہ دو ہاتھ مزید آگے بڑھتے ہوئے ہر محفل اور مجلس میں االلہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت تمام تر فصاحت و بلاغت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی صورت مسخ کرنے پر تل گئے۔(مصر ہو گئے) -اللہ کی پناہ ایسی بدبختی سے-

بیہقی نے روایت کیا ہے کہ أبو مسعود رضی اللہ عنہ حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی مرگ وفات میں آئے اور کہا:"مجھے کچھ وصیت کرتے جائیں۔
تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:"کیا تجھے یقین کامل حاصل نہیں ہو چکا؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی عزت و جلال کی قسم کیوں نہیں ۔
حذیفہ نے فرمایا:"جان لے کہ حقیقی گمراہی یہ ہے کہ تو برائی(گناہ، کفریہ کام) کو نیکی اور نیکی کو برائی سمجھنے لگے۔ خبردار دین میں رنگ برنگی سے بچنا۔ یقیناً اللہ کا دین صرف ایک ہی ہے۔

آٹھویں صفت: وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں:

آپ انہیں شرکیہ انتخابات (ووٹنگ) میں شرکت کا امر کرتا ہوا اور طواغیت کی بیعت اور ان کی اطاعت میں داخل ہونے پر اکساتا ہوا پائیں گے۔ اور ساتھ ساتھ شریعت الہی کی بالادستی کے لیے جہاد سے روکتا ہوا اور دارا الاسلام ھجرت سے نفرت دلاتا ہوا پائیں گے۔

اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ٱلۡمُنَٰفِقُونَ وَٱلۡمُنَٰفِقَٰتُ بَعۡضُهُم مِّنۢ بَعۡضٖۚ يَأۡمُرُونَ بِٱلۡمُنكَرِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمَعۡرُوفِ﴾
"منافق مرد اور منافقہ عورتوں کا معاملہ ایک ہی ہے۔ دونوں
برائیوں کا امر کرتے ہیں اور اچھائیوں سے روکتے ہیں۔ "

ان کے علاوہ دیگر اوصاف اور علامات بھی ہیں جو ان کے علماء سوء ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور ان کے معاملے کو فاش (واضح) کرتی ہیں۔ /ان کا پردہ چاک کرتی ہیں۔

واللہ المستعان۔

والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام۔
 
Top