• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء کی تعریف اور تقلید: کچھ شبہات اور ان کا ازالہ

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
علماء کی تعریف اور تقلید: کچھ شبہات اور ان کا ازالہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس فورم کے ایک رکن لالکائی نے امام کعبہ سعود الشریم کی دارالعلوم دیوبند کے حالیہ دورے پر کی جانے والی تقریر سے چند اقتباسات پیش کئے جو علمائے دیوبند یا دارالعلوم دیوبند کی تعریفوں پر مبنی ہیں۔ چونکہ اس پر کافی لمبی بحث چل چکی ہے لہٰذا اس کے متعلق اپنی چند گذارشات ادھر اس نئے تھریڈ میں پیش کر رہا ہوں۔

لالکائی نے ان تعریفات کے پیش کرنے کے بعد لکھا ہے:
یہ بیانات شیخ السعود الشریم کے ہیں جو انھوں نے ٤ مارچ ٢٠١٢ کو دارلعلوم دیوبند کے وزٹ پر دئیے ہیں۔ شیخ السعود الشریم پختہ کار عالم دین ہیں اور جامعہ ام القری میں استاذ ہیں۔ :-)۔
یہ بیانات تفصیلا آپ یہاں ملاحظہ فرمائیں۔ اور پڑھ کر اپنی اصلاح کریں۔ :-)۔
اب کیا فتوی لگائیں گے امام کعبہ شیخ السعود الشریم پر وہ جوشیلے حضرات جو ہاتھ دھو کر دیوبند مسلک کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ؟؟؟ :-)۔
اور کیا خیال کرتے ہیں وہ لوگ اپنی اِس مجلس اور اُس مجلس کے بارے ًمیں :-) :-)۔ جہاں پورے وثوق کے ساتھ دیوبندیت کو لتاڑا جاتا ہے!!!۔
ہر کسی کو اپنی دلیل پیش کرنے کی آزادی ہے اور ایک اچھی اور صحتمند بحث کی بنیاد یہی ہے کہ دوسرے کا نقطہ نظر سن لیا جائے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ جب جواب میں پیش کی گئی دلیل کا بودا اور باطل ہونا پیش کر دیا جائے تو ایسی دلیل سے معذرت کر لی جائے۔ اب دیکھئے کہ لالکائی صاحب نے دیوبندی حضرات کے دفاع میں امام کعبہ کو پیش کر دیا ہے۔
اس کے جواب میں عرض ہے کہ اگر صرف امام کعبہ کی رائے سے دیوبندی حضرات کے عقائد سے قطع نظر ان کی ثقاہت ثابت ہوتی ہے تو دیوبندی حضرات کو فرعون کو بھی ایمان والا ماننے کا فتویٰ دے دینا چاہئے کیونکہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے فرعون کو ایمان والا تسلیم کرنے والے میر اشرف سمنانی کو کامل ولی اللہ مانتے ہوئے ان کی اس رائے کو نقل کر رکھا ہے۔ دیکھئے اخبار الاخیار (ص٣٥٣)
اس سے معلوم ہوا کہ محض کسی کا کسی کی تعریف کر دینا صریح کفر و شرک کی موجودگی میں ہرگز فائدہ مند نہیں۔
لالکائی مزید لکھتے ہیں:
محترم شاہد نذیر صاحب کے نزدیک امام کعبہ صحیح العقیدہ ہیں یا فاسد العقیدہ ؟ بہرحال کروڑوں اہل توحید کی امامت کرنے والے انتہائی قابل تعظیم ہستی اور جامعہ ام القری کے مستند عالم دین جناب امام کعبہ نے دارالعلوم دیوبند اور علمائے دیوبند کی تعریف تو کر دی ہے :-)۔ اور غلط فہمی سے نہیں کی بلکہ پورے شرح صدر کے ساتھ اور ایمانی جذبات کے ساتھ کی ہے :-)
عرض ہے کہ شیخ عبدالحق دہلوی صحیح العقیدہ ہیں کہ فاسد العقیدہ؟ اگر انہوں نے فرعون کو ایمان والا قرار دینے والے کو مکمل شرح الصدر ساتھ کامل ولی اللہ قرار دے دیا ہے اور ایسی چیزوں سے فرعون ایمان والا تو ثابت نہیں ہو سکتا تو امام کعبہ سعود الشریم کی دیوبندیوں کے بارے میں گواہیاں کیا ثابت کر سکتی ہیں؟ چنانچہ عرض ہے کہ ایسی کمزور اور باطل دلیل کا کیا فائدہ جس کی بنیاد پر آپ کو فرعون کو بھی ایمان والا ماننا پڑے۔ لہٰذا ایسی دلیل سے جلد از جلد رجوع آپ کے ہی حق میں بہتر ہے۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اسی طرح فورم کے ایک اور رکن تلمیذ نے اصطلاحی و متنازعہ اور لغوی و عرفی غیر متنازعہ تقلید کا فرق کئے بغیر یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ علمائے حرمین عام آدمی کے لئے تقلید کے قائل ہیں۔
ہمارے بھائی ابن داود اور شاہد نذیر وغیرہ نے بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تقلید کے جس مفہوم پر اہل حدیث کا احناف کے ساتھ تنازعہ ہے اس کے ہرگز بھی علمائے حرمین قائل نہیں۔ یہاں پر میں صرف بطور مثال دیوبندیں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ تھانوی صاحب نے کہا:
"قرآن اور رسول نے جو کہہ دیا ہے اس کی تقلید کرو۔۔۔" (اشرف الجواب:ص393)
جس طرح تھانوی صاحب کے قول میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو تقلید کا نام دے دیا گیا ہے جبکہ یہ حقیقت میں تقلید ہی نہیں اسی طرح علمائے حرمین بھی عرفی طور پر جس بات کو تقلید کا نام دے دیتے ہیں وہ بھی تقلید نہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی کچھ شبہات کا جواب ایک جگہ لکھا تھا۔ اس کو یہاں بھی پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ اس بحث میں فائدہ مند ثابت ہو گا:

اس مسئلہ میں ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں وہ یہ کہ کسی کی بات کو یہ سمجھ کر مان لینا کہ کتاب و سنت کے مطابق ہو گی تقلید نزاعی میں سے نہیں۔ مسئلہ کسی غیر نبی کی بات کو حجت بنانے سے ہے۔ اس کو بطور مثال یوں سمجھیں:
1۔ایک شخص نے کسی عالم سے سوال کیا اور عالم نے دلیل شرعی کے ساتھ اس کو جواب دے دیا۔ یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔
2۔ایک شخص نے کسی عالم سے سوال کیا اور اس عالم نے جواب تو دیا مگر دلیل ذکر نہ کی۔ کچھ آئمہ جب تقلید کے جواز کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ مگر یہ وہ اصطلاحی تقلید نہیں جس پر نزاع ہے کیونکہ اس تقلید کی تعریف یہ ہے کہ بلا دلیل کسی کی بات کو حجت ماننا جبکہ یہاں صرف مسئلہ پوچھا گیا اور عالم کی بات کو مان لیا گیا ہے اسے کی بات کو حجت نہیں مانا گیا کیونکہ اگر اسی عالم کی بات کسی دلیل کے ساتھ ٹکراتی نظر آ جائے تو فورآ اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ نیز اس میں کسی عالم کی تخصیص بھی نہیں بلکہ کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کسی بھی عالم سے سوال کر سکتا ہے جبکہ اصطالحی تقلید جس کی دعوت احناف دیتے ہیں اس میں کسی بھی دوسرے شخص کی بات کسی ایک عالم یا امام کے علاوہ نہیں مانی جا سکتی نہ بلا دلیل نہ با دلیل۔
خود مقلدین کو بھی یہ بات تسلیم ہے کہ یہ تقلید نہیں چنانچہ احمد یار خان نعیمی نے کہا:
"اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالمون کی بات یا کام کو اپنے لیے حجت نہیں بناتا۔"(جاءالحق،حصہ اول:ص23)
محمود حسن دیوبندی نے کہا:
"لیکن سوائے امام اور کسی کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے۔" (ایضاح الادلہ:ص276)
عرض ہے کہ کیا خود حنفی حضرات امام ابوحنیفہ کے اقوال و افعال کے دیکھے بغیر یا بتائے بغیر ’’فتویٰ اسی پر ہے‘‘ بیان نہیں کرتے تو کیا وہ اس وقت امام ابوحنیفہ کی بجائے فتویٰ دینے والے کے مقلد ہوتے ہیں۔ ہرگز نہیں کیونکہ جو فتویٰ دے رہا ہے وہ امام ابوھنیفہ کا قول یا فعل نقل نہ بھی کرے مگر چونکہ صرف اسی کو حجت مانتے ہوئے مسئلہ مان رہا ہے اسی لیے بدستور امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد ہے۔ اسی طرح وہ عالم جو صرف کتاب و سنت کو حجت مانتا ہے جب دلیل نہ بھی بتائے تو مسئلہ پوچھنے والا اس کا مقلد نہیں اور نہ وہ تقلید کر رہا ہے کیونکہ مسئلہ بتانے والا اور نہ مسئلہ پوچھنے والا اس کو حجت سمجھتا ہے بلکہ بدستور متبع کتاب و سنت ہے کیونکہ وہ صرف اسی کو حجت مانتا ہے۔
3۔ ایک شخص نے کسی مقلد (عالم) سے سوال کیا اور اس نے اس کو اپنے امام کی فقہ کے مطابق جواب دیا۔ دلیل کی جانب وہ خود دیکھ ہی نہیں سکتا اور نہ اس کی دلیل دے سکتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اپنے امام کا قول و فعل ہی حجت ہے۔ یہ ہے وہ اصطلاحی تقلید جس پر نزاع اور جھگڑا ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک کسی غیر نبی کی بات کو حجت بنا لینا غلط و مردود ہے۔‘‘
’’کچھ سلفی علماء جس تقلید کے جواز کی بات کرتے ہیں اس پر اصطلاحی تقلید کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایسے ہی خطیب بغدادی رح فرماتے ہیں:
"تقلید جس کے لیے جائز ہے وہ ایسا عامی یعنی جاہل ہے جو شرعی احکام نہیں جانتا، اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر یعنی علماء سے پوچھ لو۔" (الفقہ والمتفقہ68/2)
یہاں بھی دیکھئے عالم سے مسئلہ پوچھنے کو تقلید قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ نزاعی تقلید ہی نہیں اور نہ اس پر اس تقلید کا اطلاق ہوتا ہے جس کی مخالفت اہل حدیث کرتے ہیں۔ اسی پر غور کیجئے کہ مقلدین تو عقائد میں تقلید کو نا جائز قرار دیتے ہیں اور ان اقوال میں تو جاہل کو عالم سے پوچھے جانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے وہ عقیدہ و فروع دونوں کو شامل ہے۔ اس لحاظ سے کیا مقلدین عقیدے کا مسئلہ پوچھنے پر تقلید کا اطلاق کرنے کو تیار ہیں یا ایک جاہل کا کسی عالم سے عقیدے کا مسئلہ پوچھنے کو ناجائز قرار دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ان کے نزدیک تو عقائد میں تقلید ناجائز ہے اور ان اقوال میں مسئلہ پوچھنے کو ہی تقلید قرار دیا جا رہا ہے۔
اشرف علی تھانوی نے کہا:
"قرآن اور رسول نے جو کہہ دیا ہے اس کی تقلید کرو۔۔۔۔‘‘ (اشرف الجواب:ص393)
جس طرح یہاں قرآن اور حدیث کو ماننا یا ان کی پیروی کو تقلید کا نام دے دیا گیا ہے جس کا اصطلاحی تقلید سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اصطلاحی تقلید میں تو بلا دلیل بات حجت مانی جاتی ہے اور قرآن و حدیث تو خود دلیل ہیں۔ اسی طرح امام ابن تیمیہ و خطیب وغیرہ علماء کا جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنے کو تقلید قرار دینا بھی اصطلاحی تقلید نہیں کیونکہ کوئی بھی عالم کی بات کو اپنے لیے حجت قرار نہیں دیتا اور نہ امام ابن تیمیہ و خطیب کا مقصد غیر نبی کی بات کو حجت بنانے کی دعوت دینا ہے۔ مقلدین جس تقلید کی دعوت دیتے ہیں جس میں قول امام بھی قول رسول شمار ہو، جس میں تسلیم شدہ حق کو اپنے امام کی تقلید میں چھوڑ دیا جائے، جس میں آیتیں اور احادیث نہیں صرف قول و فعل امام ہی حجت ٹھہرے، اس کو کوئی صاحب ایمان جائز نہیں سمجھ سکتا چہ جائیکہ امام ابن تیمیہ سے اس کا ثبوت دینے کی کوشش کی جائے۔ اللہ حق بات سمجھنے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔‘‘
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم جناب طالب نور صاحب
لالکائی صاحب نے ایک مضمون شروع کیا تھا اور اس پر میں کچھ باتیں کہیں تھیں ۔ وہاں جواب دینے کے بجائے آپ نیا تھریڈ شروع کردیا ۔ اس تھریڈ میری گذارشات کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ابومریم صاحب نے جو دعوی کیا ائمہ حرمین کے نذدیک پسندیدہ منہج سلفیت ہے تو میں نے جواب دیا اس سلفیت میں تقلید بھی ہے ۔ جب کہ یہاں پاکستانی اہل حدیث تقلید کا نام بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ اب ائمہ حرمیں کی مراد کونسی تقلید ہے اس پر بات کے لیئے وہی تھریڈ رہنے دیں ۔ یہاں تقلید کے جواز اور عدم جواز کے حوالہ سے آپ نے جو بات کی ہے مجھے اس کی کچھ تشریح مطلوب ہے ۔ امید ہے آپ کی طرف سے ایسا ہی مفصل جواب آئے گا
آپ نے کہا تھا کہ
اگر اسی عالم کی بات کسی دلیل کے ساتھ ٹکراتی نظر آ جائے تو فورآ اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
یہاں دلیل سے کیا مراد ہے ؟ یعنی وہ دلیل کیا ہے جس کے پانے پر ایک عامی کو عالم کی بات رد کرنی چاہئیے ؟
 
Top