aqeel
مشہور رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 300
- ری ایکشن اسکور
- 315
- پوائنٹ
- 119
یہ اقتباس عبد الرشید عراقی صاحب کی ایک تحریر سے لیا گیا ہے
بارہویں صدی ہجری میں حاملین بالقرآن والحدیث کی تعداد بکثرت نظر آتی ہے۔ جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت وترویج میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور ان کی یہ خدمات برصغیر(پاک وہند) کی اسلامی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جن میں مولانا محمد فاخر الہ آبادی (م۱۱۶۴ھ) مولانا شاہ محمد اسحاق بہراوی (م۱۲۳۴ھ)مرزا مظہرجان جاناں شہید(م۱۱۹ھ) امام شاہ ولی اللہ دہلوی (م۱۱۷۶ھ) تھے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۷۶ھ) کے بعد ان کے مشن کو ان کے چاروں صاحب زدگان عالی مقام یعنی شاہ عبدالعزیز (م۱۲۳۹ھ) شاہ رفیع الدین دہلوی(م۱۲۲۲ھ) شاہ عبدالقادر دہلوی (م۱۲۳۰ھ) اورشاہ عبدالغنی دہلوی(۱۲۲۷ھ) نے جاری رکھا۔ اور ان کے بعد شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی (ش۱۲۴۶ھ) کے تجدیدی کارناموں نے ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ آپ کی کتاب تقویۃ الایمان نے لاکھوں بندگان خدا کو کتاب وسنت کا متبع بنادیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م۱۳۷۳ھ) لکھتے ہیں ۔
اہل حدیث کے نام سے ملک میں جو تحریک اس وقت جاری ہے حقیقت کی رو سے وہ قدم نہیں صرف نقش قدم ہے۔ مولانا شاہ اسماعیل شہید جس تحریک کو لے کر اٹھے۔ وہ فقہ کے چند مسائل نہ تھی۔ بلکہ امامت کبری توحید خالص اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی تعلیمات تھیں ۔
بہرحال اس تحریک کے جواثرات پیدا ہوئے اوراس زمانے سے آج تک اس دور ادبار کی ساکن سطح میں اس سے جو جنبش ہوئی وہ بھی ہمارے لیے بجائے خود مفید اورلائق شکریہ ہے ۔بہت سی بدعتوں کا استیصال ہوا۔ توحید کی حقیقت نکھاری گئی۔ قرآن پاک کی تعلیم وتفہیم کاآغاز ہوا۔قرآن پاک سے ہمارا رشتہ براہ راست جوڑاگیا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتدریس اورتالیف واشاعت کی کوششیں کامیاب ہوئیں اوردعوی کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا اسلام میں ہندوستان ہی کو صرف اس تحریک کی براہ راست یہ دولت نصیب ہوئی نیز فقہ کے بہت سے مسئلوں کے چھان بین ہوئی اوراس کے ساتھ دلوں سے اتباع نبوی کا جو گم ہو گیا تھا وہ سالہا سال کے لیے دوبارہ پیدا ہو گیا۔
[تراجم علماء اہلحدیث ہندص۳۵]
خاندان ولی اللہ دہلوی نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم واشاعت میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ وہ قابل ستائش ہیں ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (م۱۲۳۹ھ) کے بعد ان کے جانشین ان کے نواسہ حضرت شاہ محمد اسحاق (م۱۲۶۳ھ) نے اپنے نانا کے مشن کو جاری رکھا جب مولانا شاہ محمد اسحاق نے اپنے برادر خورد مولانا شاہ محمد یعقوب (م۱۲۸۳ھ) کے ہمراہ مکہ معظمہ کی طرف ہجرت کی تواپنا جانشین شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کو مقرر کر گئے مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی نے ۶۲ سال تک حدیث کا درس دیا۔ اوران سے بے شمار حضرات مستفیض ہوئے جن میں بعد میں بعض مسند حدیث کے مالک بنے اورانھوں نے وہ علمی خدمات انجام دیں جن کا تذکرہ ان کا انشاء اللہ رہتی دینا تک باقی رہے گا۔
علامہ سید سلمان ندوی (م۱۳۷۳ھ) تراجم علمائے حدیث ہند کے مقدمہ ص۳۶ پر لکھتے ہیں :
’’علماء اہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات بھی قدر کے قابل ہیں ۔‘‘
پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خان(م۱۳۱۷ھ) کے قلم سے اورمولانا سید نذیر حسین دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین بن محسن یمنی (م ۱۳۲۷ھ) ان سب کے سرخیل تھے۔ اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کی مسنددرس بچھی تھی۔ اورجوق درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔
بھوپال میں محی السنہ مولانا نواب صدیق حسن خان (م ۱۳۱۷ھ) کی زیر نگرانی علمی وتحقیقی کام ہو رہا تھا۔ خود نواب صاحب دولہ نے عربی، فارسی اوراردو میں تفسیر، حدیث،عقائد، فقہ ، تردید فلسفہ ،سیاست، تاریخ وسیر، مناقب، علوم وادب، اخلاق، تردید شیعیت اورتصوف پر چھوٹی بڑی ۲۲۲ کتابیں لکھیں ۔ بھوپال میں بہت سے علماء فضلاء جمع تھے جن میں شیخ حسین بن محسن یمنی (م۱۳۲۷ھ)،مولانا محمد بشیر سہسوانی(م۱۳۲۶ھ) مولانا سعادت اللہ جے پوری (م۱۳۲۲ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
اس کے علاوہ نواب صاحب مرحوم نے کئی علمائے کرام کے ماہانہ وظائف مقرر کر رکھے تھے۔ جن سے دفاع حدیث اور رد بدعات کے سلسلے میں کتابیں لکھوا کر شائع کی جاتیں تھیں ۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ مولانا وحید الزمان حیدرآبادی (م۱۳۳۸ھ) مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ) اورابوالمکارم محمد علی مئوی (م۱۳۵۲ھ) قابل ذکر ہیں ۔
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ نے پوری برصغیر میں پھیل کر خدمت اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا۔ اورپوری زندگی کتاب وسنت کی اشاعت اورشرک وبدعت کی تردید میں بسر کردی۔ حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ نے اشاعت اسلام اور احیائے سنت کے سلسلہ میں جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ان کو مندرجہ ذیل طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ درس وتدریس
2۔ دعوت وتبلیغ کے ذریعہ تحریک واصلاح وتجدید کی آبیاری
3۔ تصوف، سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید
4۔ تصنیف وتالیف
5۔ باطل انکارونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید
6۔ تحریک جہاد
درس وتدریس اورکثرت تلامذہ میں مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ ان کے جانشین استاذپنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴ھ) مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری(۱۳۳۷ھ) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م۱۳۲۶ھ) مولانا عبدالوہاب ملتانی(۱۳۵۱ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی (م۱۳۲۶ھ)مولانا عبدالجبار امرپوری (م۱۲۳۴ھ) مولانا غلام حسن سیالکوٹی (م۱۳۲۱ھ) مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۳۱۲ھ) مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (م۱۳۸۱ھ) رحمہم اللہ اجمعین وغیرہم تھے۔
ان حضرات نے ساری زندگی حدیث پڑھنا اورپڑھانا مشغلہ رکھا، دعوت وتبلیغ کے ذریعے جن علمائے اہلحدیث نے کتاب وسنت کی اشاعت اورشرک وبدعت کی تردید اور خود عقیدہ کی اصلاح وتجدید کی آبیاری کے لیے پورے ہندوستان کو اپنی تگ وتاز کا مرکز بنائے رکھا، ان میں مولانا حافظ ابراہیم آروری(م۱۳۱۹ھ) مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۲۶ھ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری (م۱۳۲۲ھ) مولانا عبدالغفار میدانوی (م۱۲۱۵ھ) اورمولانا عبدالرحیم بنگالی (م۱۳۳۸ھ) وغیرہ سرفہرست ہیں ۔
تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات ومحدثات کی تردید اور اسلامی زہد و عبادت اورروحانیت کا درس دیا۔ اور عوام وخواص کی تربیت کی۔ اورمسلمانوں کی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کرایا۔ اوربدعت ومحدثات کی نشاندہی کی۔ ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۲۹۸ھ) مولانا شاہ عین الحق پھلواری (م۱۳۲۲ھ) مولانا غلام رسول آف قلعہ میاں سنگھ (م۱۲۹۱ھ) مولانا حافظ محمد لکھوی (م۱۲۱۳ھ) مولانا سید عبدالجبارغزنوی (م۱۳۳۱ھ) اورمولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م۱۳۴۸ھ) وغیرہ سرفہرست ہیں ۔
تصنیف وتالیف کے سلسلہ میں حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ میں جن علمائے اہل حدیث نے اشاعت اسلام ،خدمت حدیث اورشرک وبدعت کی تردید میں گراقدر علمی خدمات انجام دیں ان میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی (م۱۳۲۹ھ) مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ) عظیم محدث مولانا وحید الزماں حیدرآبادی (م۱۳۳۸ھ) مولانا حافظ ابو الحسن محمد سیالکوٹی (م۱۳۲۵ھ) مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(م۱۳۵۳ھ) اورمولانا عبدالسلام مبارکپوری (م۱۳۴۲) قابل ذکر ہیں ۔
باطل افکار ونظریات کی تردیداورمسالک حق کی تائید میں علمائے اہل حدیث کی خدمات قدر کے قابل ہیں مولانا سعید محمد بٹالوی (م۱۳۳۸ھ) مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (م۱۳۶۷) مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری (م۱۳۴۹ھ) مولانا عبداللہ صاحب تحفہ الہند (م۱۳۱۰ھ) مولانا ابوالقاسم سید بنارسی (م۱۳۲۹ھ) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م۱۳۷۵ھ) وغیرہ شامل ہیں ۔
ان علمائے کرام نے قادیانیت گرید سماج، عیسائیت، شیعیت، انکار حدیث اور بریلویت کا قلع قمع کر کے اسلام کی حقانیت اورمسلک اہل حدیث کی سچائی ظاہر کی اوراپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ تحریک جہاد میں حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ نے علمائے صادق پور کے ساتھ مل کر اس تحریک کو منظم کیا اور اس سلسلہ میں بڑی بڑی قربانیاں دیں ۔
اورہمیشہ فرنگی حکمرانوں کی نظروں میں کھٹکتے رہے تحریک جہاد میں مولانا حافظ ابراہیم آروی (م۱۳۱۹ھ) اورمولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۳۶ھ) مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م۱۳۳۷ھ) مولانا محمد اکرم خاں (م۱۹۶۸ھ) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اور ان کی خدمات جلیلہ ان شاء اللہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔
حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں کے سلسلہ میں مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۰ئ) حضرت العلام مولانا سید عبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۱ھ) کے شاگرد تھے۔ اورشیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (م۱۳۸۷ھ) جو استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴ھ) کے شاگرد تھے۔
ان حضرات نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف اور باطل افکاراورنظریات کی تردید اورمسلک حق کی تائید اوردین اسلام کی نصرت وحمایت میں اپنی زندگیاں بسر کر دیں اسی سلسلہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (م۱۹۸۷ئ) جومولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (م۱۳۸۱ھ) اورمولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۰ئ) کے شاگرد تھے درس وتدریس تصنیف وتالیف میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
اورعلاوہ ازیں اورحضرت العلام حافظ محمد گوندلوی کے کئی اور تلامذہ نے درس وتدریس، تصنیف وتالیف میں قابل قدر علمی خدمات انجام دیں ۔ اورادیان باطلہ ومذاہب محدثہ کی تردید میں عربی ، فارسی ،انگریزی اور اردو میں کتابیں تصنیف کر کے نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اوردوسری مسلک حق کی تائید میں بھی کتابیں لکھیں ۔ وجزاہم اللہ احسن الجزاء
ایک مسلمان کی کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے کہ اس کا عقیدہ بالکل صحیح ہو اور اس کے عقیدہ میں کسی قسم کی کجی اور بے راہ روی نہ ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ۱۳ سال مکی زندگی میں عقائد کی اصلاح کی طرف پوری توجہ دی۔ اگر کسی شخص کا عقیدہ ہی صحیح نہیں تو پھر اس کی نجات مشکل اورناممکن ہے۔ اگر عقیدہ صحیح ہے توپھر اس کی نجات کی پوری طرح امید ہے۔
مولانا محمد یحییٰ گوندلوی نے’’عقیدہ اہل حدیث‘‘کتاب لکھ کر دین اسلام اور مسلک اہل حدیث کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے اور اس کتاب میں درج تمام مسائل کی تشریح وتوضیح قرآن مجید اوراحادیث صحیحہ مرفوعہ سے کی ہے اورضعیف روایت کا سہارا نہیں لیا۔
کتاب’’عقیدہ اہل حدیث‘‘ ایک ابتدائیہ اور ۹ ابواب پر مشتمل ہے ۔مصنف نے اس کے ابتدائیہ میں قدامت اہل حدیث اور وجہ تسمیہ اہل حدیث تحریک اہل حدیث پر روشنی ڈالی ہے۔ اوراس کے بعد میں کتاب میں مبادیات عقیدہ وتوحید کے مسائل شرکیہ عقائد کی توضیح وتشریح اور فرشتوں پر ایمان ، انبیاء کرام پر ایمان ، معجزات عصمت انبیائ، ختم نبوت، فضائل صحابہ کرام ، مشاجرات صحابہ، منصب خلافت، عورت کی حکمرانی اورمسئلہ تقدیر او رایمان بالآخرت اوراس کے متعلقہ مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی جامع عمدہ اور نفیس ہے اوراپنے اسلوب عام فہم انداز اور تسلسل کے لحاظ سے بالکل منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے بارے میں اردو میں ایسی کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی محنت قبول فرمائے اورعوام کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے۔آمین
عبدالرشید عراقی
سوہدرہ۔ضلع گوجرانوالہ جون1999ء
بارہویں صدی ہجری میں حاملین بالقرآن والحدیث کی تعداد بکثرت نظر آتی ہے۔ جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت وترویج میں گراں قدر خدمات انجام دیں اور ان کی یہ خدمات برصغیر(پاک وہند) کی اسلامی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جن میں مولانا محمد فاخر الہ آبادی (م۱۱۶۴ھ) مولانا شاہ محمد اسحاق بہراوی (م۱۲۳۴ھ)مرزا مظہرجان جاناں شہید(م۱۱۹ھ) امام شاہ ولی اللہ دہلوی (م۱۱۷۶ھ) تھے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۷۶ھ) کے بعد ان کے مشن کو ان کے چاروں صاحب زدگان عالی مقام یعنی شاہ عبدالعزیز (م۱۲۳۹ھ) شاہ رفیع الدین دہلوی(م۱۲۲۲ھ) شاہ عبدالقادر دہلوی (م۱۲۳۰ھ) اورشاہ عبدالغنی دہلوی(۱۲۲۷ھ) نے جاری رکھا۔ اور ان کے بعد شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی (ش۱۲۴۶ھ) کے تجدیدی کارناموں نے ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ آپ کی کتاب تقویۃ الایمان نے لاکھوں بندگان خدا کو کتاب وسنت کا متبع بنادیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م۱۳۷۳ھ) لکھتے ہیں ۔
اہل حدیث کے نام سے ملک میں جو تحریک اس وقت جاری ہے حقیقت کی رو سے وہ قدم نہیں صرف نقش قدم ہے۔ مولانا شاہ اسماعیل شہید جس تحریک کو لے کر اٹھے۔ وہ فقہ کے چند مسائل نہ تھی۔ بلکہ امامت کبری توحید خالص اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی تعلیمات تھیں ۔
بہرحال اس تحریک کے جواثرات پیدا ہوئے اوراس زمانے سے آج تک اس دور ادبار کی ساکن سطح میں اس سے جو جنبش ہوئی وہ بھی ہمارے لیے بجائے خود مفید اورلائق شکریہ ہے ۔بہت سی بدعتوں کا استیصال ہوا۔ توحید کی حقیقت نکھاری گئی۔ قرآن پاک کی تعلیم وتفہیم کاآغاز ہوا۔قرآن پاک سے ہمارا رشتہ براہ راست جوڑاگیا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتدریس اورتالیف واشاعت کی کوششیں کامیاب ہوئیں اوردعوی کیا جا سکتا ہے کہ ساری دنیا اسلام میں ہندوستان ہی کو صرف اس تحریک کی براہ راست یہ دولت نصیب ہوئی نیز فقہ کے بہت سے مسئلوں کے چھان بین ہوئی اوراس کے ساتھ دلوں سے اتباع نبوی کا جو گم ہو گیا تھا وہ سالہا سال کے لیے دوبارہ پیدا ہو گیا۔
[تراجم علماء اہلحدیث ہندص۳۵]
خاندان ولی اللہ دہلوی نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم واشاعت میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ وہ قابل ستائش ہیں ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی (م۱۲۳۹ھ) کے بعد ان کے جانشین ان کے نواسہ حضرت شاہ محمد اسحاق (م۱۲۶۳ھ) نے اپنے نانا کے مشن کو جاری رکھا جب مولانا شاہ محمد اسحاق نے اپنے برادر خورد مولانا شاہ محمد یعقوب (م۱۲۸۳ھ) کے ہمراہ مکہ معظمہ کی طرف ہجرت کی تواپنا جانشین شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کو مقرر کر گئے مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی نے ۶۲ سال تک حدیث کا درس دیا۔ اوران سے بے شمار حضرات مستفیض ہوئے جن میں بعد میں بعض مسند حدیث کے مالک بنے اورانھوں نے وہ علمی خدمات انجام دیں جن کا تذکرہ ان کا انشاء اللہ رہتی دینا تک باقی رہے گا۔
علامہ سید سلمان ندوی (م۱۳۷۳ھ) تراجم علمائے حدیث ہند کے مقدمہ ص۳۶ پر لکھتے ہیں :
’’علماء اہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات بھی قدر کے قابل ہیں ۔‘‘
پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خان(م۱۳۱۷ھ) کے قلم سے اورمولانا سید نذیر حسین دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔ بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اوراعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین بن محسن یمنی (م ۱۳۲۷ھ) ان سب کے سرخیل تھے۔ اوردہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کی مسنددرس بچھی تھی۔ اورجوق درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔
بھوپال میں محی السنہ مولانا نواب صدیق حسن خان (م ۱۳۱۷ھ) کی زیر نگرانی علمی وتحقیقی کام ہو رہا تھا۔ خود نواب صاحب دولہ نے عربی، فارسی اوراردو میں تفسیر، حدیث،عقائد، فقہ ، تردید فلسفہ ،سیاست، تاریخ وسیر، مناقب، علوم وادب، اخلاق، تردید شیعیت اورتصوف پر چھوٹی بڑی ۲۲۲ کتابیں لکھیں ۔ بھوپال میں بہت سے علماء فضلاء جمع تھے جن میں شیخ حسین بن محسن یمنی (م۱۳۲۷ھ)،مولانا محمد بشیر سہسوانی(م۱۳۲۶ھ) مولانا سعادت اللہ جے پوری (م۱۳۲۲ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
اس کے علاوہ نواب صاحب مرحوم نے کئی علمائے کرام کے ماہانہ وظائف مقرر کر رکھے تھے۔ جن سے دفاع حدیث اور رد بدعات کے سلسلے میں کتابیں لکھوا کر شائع کی جاتیں تھیں ۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ مولانا وحید الزمان حیدرآبادی (م۱۳۳۸ھ) مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ) اورابوالمکارم محمد علی مئوی (م۱۳۵۲ھ) قابل ذکر ہیں ۔
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ نے پوری برصغیر میں پھیل کر خدمت اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا۔ اورپوری زندگی کتاب وسنت کی اشاعت اورشرک وبدعت کی تردید میں بسر کردی۔ حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ نے اشاعت اسلام اور احیائے سنت کے سلسلہ میں جو کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔ ان کو مندرجہ ذیل طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1۔ درس وتدریس
2۔ دعوت وتبلیغ کے ذریعہ تحریک واصلاح وتجدید کی آبیاری
3۔ تصوف، سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید
4۔ تصنیف وتالیف
5۔ باطل انکارونظریات کی تردید اور مسلک حق کی تائید
6۔ تحریک جہاد
درس وتدریس اورکثرت تلامذہ میں مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ ان کے جانشین استاذپنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴ھ) مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری(۱۳۳۷ھ) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م۱۳۲۶ھ) مولانا عبدالوہاب ملتانی(۱۳۵۱ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی (م۱۳۲۶ھ)مولانا عبدالجبار امرپوری (م۱۲۳۴ھ) مولانا غلام حسن سیالکوٹی (م۱۳۲۱ھ) مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۳۱۲ھ) مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (م۱۳۸۱ھ) رحمہم اللہ اجمعین وغیرہم تھے۔
ان حضرات نے ساری زندگی حدیث پڑھنا اورپڑھانا مشغلہ رکھا، دعوت وتبلیغ کے ذریعے جن علمائے اہلحدیث نے کتاب وسنت کی اشاعت اورشرک وبدعت کی تردید اور خود عقیدہ کی اصلاح وتجدید کی آبیاری کے لیے پورے ہندوستان کو اپنی تگ وتاز کا مرکز بنائے رکھا، ان میں مولانا حافظ ابراہیم آروری(م۱۳۱۹ھ) مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۲۶ھ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری (م۱۳۲۲ھ) مولانا عبدالغفار میدانوی (م۱۲۱۵ھ) اورمولانا عبدالرحیم بنگالی (م۱۳۳۸ھ) وغیرہ سرفہرست ہیں ۔
تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات ومحدثات کی تردید اور اسلامی زہد و عبادت اورروحانیت کا درس دیا۔ اور عوام وخواص کی تربیت کی۔ اورمسلمانوں کی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس کرایا۔ اوربدعت ومحدثات کی نشاندہی کی۔ ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۲۹۸ھ) مولانا شاہ عین الحق پھلواری (م۱۳۲۲ھ) مولانا غلام رسول آف قلعہ میاں سنگھ (م۱۲۹۱ھ) مولانا حافظ محمد لکھوی (م۱۲۱۳ھ) مولانا سید عبدالجبارغزنوی (م۱۳۳۱ھ) اورمولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م۱۳۴۸ھ) وغیرہ سرفہرست ہیں ۔
تصنیف وتالیف کے سلسلہ میں حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ میں جن علمائے اہل حدیث نے اشاعت اسلام ،خدمت حدیث اورشرک وبدعت کی تردید میں گراقدر علمی خدمات انجام دیں ان میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی (م۱۳۲۹ھ) مولانا محمد سعید بنارسی (م۱۳۲۲ھ) عظیم محدث مولانا وحید الزماں حیدرآبادی (م۱۳۳۸ھ) مولانا حافظ ابو الحسن محمد سیالکوٹی (م۱۳۲۵ھ) مولانا عبدالرحمن مبارکپوری(م۱۳۵۳ھ) اورمولانا عبدالسلام مبارکپوری (م۱۳۴۲) قابل ذکر ہیں ۔
باطل افکار ونظریات کی تردیداورمسالک حق کی تائید میں علمائے اہل حدیث کی خدمات قدر کے قابل ہیں مولانا سعید محمد بٹالوی (م۱۳۳۸ھ) مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (م۱۳۶۷) مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری (م۱۳۴۹ھ) مولانا عبداللہ صاحب تحفہ الہند (م۱۳۱۰ھ) مولانا ابوالقاسم سید بنارسی (م۱۳۲۹ھ) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م۱۳۷۵ھ) وغیرہ شامل ہیں ۔
ان علمائے کرام نے قادیانیت گرید سماج، عیسائیت، شیعیت، انکار حدیث اور بریلویت کا قلع قمع کر کے اسلام کی حقانیت اورمسلک اہل حدیث کی سچائی ظاہر کی اوراپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ تحریک جہاد میں حضرت میاں صاحب دہلوی کے تلامذہ نے علمائے صادق پور کے ساتھ مل کر اس تحریک کو منظم کیا اور اس سلسلہ میں بڑی بڑی قربانیاں دیں ۔
اورہمیشہ فرنگی حکمرانوں کی نظروں میں کھٹکتے رہے تحریک جہاد میں مولانا حافظ ابراہیم آروی (م۱۳۱۹ھ) اورمولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۳۶ھ) مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م۱۳۳۷ھ) مولانا محمد اکرم خاں (م۱۹۶۸ھ) وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ اور ان کی خدمات جلیلہ ان شاء اللہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔
حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں کے سلسلہ میں مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۰ئ) حضرت العلام مولانا سید عبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۱ھ) کے شاگرد تھے۔ اورشیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (م۱۳۸۷ھ) جو استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴ھ) کے شاگرد تھے۔
ان حضرات نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف اور باطل افکاراورنظریات کی تردید اورمسلک حق کی تائید اوردین اسلام کی نصرت وحمایت میں اپنی زندگیاں بسر کر دیں اسی سلسلہ میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی (م۱۹۸۷ئ) جومولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی (م۱۳۸۱ھ) اورمولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۰ئ) کے شاگرد تھے درس وتدریس تصنیف وتالیف میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
اورعلاوہ ازیں اورحضرت العلام حافظ محمد گوندلوی کے کئی اور تلامذہ نے درس وتدریس، تصنیف وتالیف میں قابل قدر علمی خدمات انجام دیں ۔ اورادیان باطلہ ومذاہب محدثہ کی تردید میں عربی ، فارسی ،انگریزی اور اردو میں کتابیں تصنیف کر کے نمایاں خدمات انجام دیں ۔ اوردوسری مسلک حق کی تائید میں بھی کتابیں لکھیں ۔ وجزاہم اللہ احسن الجزاء
ایک مسلمان کی کامیابی اور نجات کے لیے ضروری ہے کہ اس کا عقیدہ بالکل صحیح ہو اور اس کے عقیدہ میں کسی قسم کی کجی اور بے راہ روی نہ ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ۱۳ سال مکی زندگی میں عقائد کی اصلاح کی طرف پوری توجہ دی۔ اگر کسی شخص کا عقیدہ ہی صحیح نہیں تو پھر اس کی نجات مشکل اورناممکن ہے۔ اگر عقیدہ صحیح ہے توپھر اس کی نجات کی پوری طرح امید ہے۔
مولانا محمد یحییٰ گوندلوی نے’’عقیدہ اہل حدیث‘‘کتاب لکھ کر دین اسلام اور مسلک اہل حدیث کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے اور اس کتاب میں درج تمام مسائل کی تشریح وتوضیح قرآن مجید اوراحادیث صحیحہ مرفوعہ سے کی ہے اورضعیف روایت کا سہارا نہیں لیا۔
کتاب’’عقیدہ اہل حدیث‘‘ ایک ابتدائیہ اور ۹ ابواب پر مشتمل ہے ۔مصنف نے اس کے ابتدائیہ میں قدامت اہل حدیث اور وجہ تسمیہ اہل حدیث تحریک اہل حدیث پر روشنی ڈالی ہے۔ اوراس کے بعد میں کتاب میں مبادیات عقیدہ وتوحید کے مسائل شرکیہ عقائد کی توضیح وتشریح اور فرشتوں پر ایمان ، انبیاء کرام پر ایمان ، معجزات عصمت انبیائ، ختم نبوت، فضائل صحابہ کرام ، مشاجرات صحابہ، منصب خلافت، عورت کی حکمرانی اورمسئلہ تقدیر او رایمان بالآخرت اوراس کے متعلقہ مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑی جامع عمدہ اور نفیس ہے اوراپنے اسلوب عام فہم انداز اور تسلسل کے لحاظ سے بالکل منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے بارے میں اردو میں ایسی کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی محنت قبول فرمائے اورعوام کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے۔آمین
عبدالرشید عراقی
سوہدرہ۔ضلع گوجرانوالہ جون1999ء