• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب اور اطلاع علی الغیب

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علم الغیب اور اطلا الغیب میں فرق کیا ہے۔۔اور علم غیب کی تعریف کیا ہے۔۔۔ دلا،ل کی روشنی میں جواب دیں
شاید آپ یوں کہنا چاہتے ہیں :
’’علم الغیب اور اطلاع علی الغیب میں فرق کیا ہے ؟ علم غیب کی تعریف کیا ہے ؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیں ۔‘‘
؟
 
شمولیت
اگست 28، 2013
پیغامات
162
ری ایکشن اسکور
119
پوائنٹ
75
شاید آپ یوں کہنا چاہتے ہیں :
’’علم الغیب اور اطلاع علی الغیب میں فرق کیا ہے ؟ علم غیب کی تعریف کیا ہے ؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیں ۔‘‘
؟
جی بلکل خضر بھای۔۔۔اکثر اہل بدت اسی چیز میں کنفیوز کرتے ہے۔کہ آپ علم غیب نہیں مانتے لیکن اطلا عن الغیب مانتے ہو آخر ان دونوں میں فرق کیا ہے۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’’علم الغیب اور اطلاع علی الغیب میں فرق کیا ہے ؟ علم غیب کی تعریف کیا ہے ؟ دلائل کی روشنی میں جواب دیں ۔‘‘؟
علم غیب کی تعریف :
علم غیب ہر چیز کو جاننے کا نام ہے۔ (حوالہ)
علم غیب ذاتی ہوتا ہے جبکہ اطلاع علی الغیب کسی کی طرف سے ہوتی ہے ۔ علم غیب صرف اللہ کے پاس ہے
قل لا یعلم من فی السموات والأرض الغیب إلا اللہ
کہہ دیجیے زمین و آسمان میں اللہ کے سوا غیب کوئی نہیں جانتا ۔
جبکہ اطلاع علی الغیب اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے انبیاء کو بھی کی ہے ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّ‌سُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُ‌سُلِهِ ﴾ ... آل عمران: 179
کہ ’’اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ تم کو غیب پر مطلع کر دے غیب کی باتیں بتانے کے لیے تو وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے لہٰذا (امور غیب کے بارے میں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا (٢٦) إِلَّا مَنِ ارْ‌تَضَىٰ مِن رَّ‌سُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَ‌صَدًا (٢٧) لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِ‌سَالَاتِ رَ‌بِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴾ ... سورة الجن
کہ ’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (26) سوائے اُس رسول کے جسے اُس نے پسند کر لیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے (27) تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ اُن کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے" (28)
مزید تفصیلات کے لیے درج ذیل دھاگے ملاحظہ فرمائیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/مسئلہ-علم-غیب-پر-چند-مغالطے-اور-اُن-کی-وضاحتیں.2963/
http://forum.mohaddis.com/threads/مسئلہ-علم-غیب-پر-چند-مغالطے-اور-اُن-کی-وضاحتیں-تبصرہ-کریں.4077/
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خضر بھائی۔ یہ تقسیم کسی عالم نے کی ہے پہلے؟ اگر ہے تو حوالہ دے دیجیے۔
دوسری چیز علم غیب عطائی (جسے ہم اطلاع علی الغیب کہہ سکتے ہیں) کا اگر کوئی عقیدہ رکھے تو وہ کیا کافر ہوگا؟ میں اس سلسلے میں تذبذب میں ہوں کیوں کہ اصولا وہ کافر نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس نے اصل صفت اللہ پاک کے لیے ہی ثابت کی ہے۔ لیکن مشرکین بھی تو یہی کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو اللہ کی طرف سے یہ خصوصیات حاصل ہیں۔
اسی طرح قدرت کے مسئلہ میں بھی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر بھائی۔ یہ تقسیم کسی عالم نے کی ہے پہلے؟ اگر ہے تو حوالہ دے دیجیے۔
دوسری چیز علم غیب عطائی (جسے ہم اطلاع علی الغیب کہہ سکتے ہیں) کا اگر کوئی عقیدہ رکھے تو وہ کیا کافر ہوگا؟ میں اس سلسلے میں تذبذب میں ہوں کیوں کہ اصولا وہ کافر نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس نے اصل صفت اللہ پاک کے لیے ہی ثابت کی ہے۔ لیکن مشرکین بھی تو یہی کہتے تھے کہ ہمارے معبودوں کو اللہ کی طرف سے یہ خصوصیات حاصل ہیں۔
اسی طرح قدرت کے مسئلہ میں بھی ہے۔
تقسیم تو بالکل واضح اور بدیہی ہے ۔ اس میں کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے ۔
رہا تکفیر والا مسئلہ ، اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
در اصل بدعتیوں اور صوفیوں نے یہ ہوا اڑایی اور ہمارے سیدھے سادے بھایی ان حقیقت کے دشمنوں کے چکر میں آگیے ۔ حقیقت میں علم غیب ایک ھے اسکی تقسیم غلط۔ ۔ غیب کاعلم صرف اللہ کو ہے کسی غیر کو نہیں ۔ جب اللہ تعالی نے غیب کاعلم اپنے نبی کو بتا دیا یا غیب کی جو جو باتیں اللہ تعالی نے اپنے بندے کو بتا دیں پہر وہ غیب نہیں رہا مثلا شریعت کی ساری باتیں غیب میں تھیں اللہ نے ھمیں بتایا تو اب وہ غیب نہیں رہیں ۔اسی طرح دوسرے مسایل ہین جب اللہ نے ہمیں بتادیا تو اب وہ غیب نہیں رہیں ۔اب اسکی تقسیم کرکے یہ کہنا کہ یہ علم غیب عطایی ہے ۔یہ صحیح نہین ھے در اصل اس طرح باتیں کرکے یہ لوگ اپنے ملاوں کیلیے علم غیب ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔اللہ انکے شر سے محفوظ رکھے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
اِطلاع عَلٰی الغیب

علم غیب تو کسی کو حاصل نہیں غیب کی کُنجیاں صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ کسی مخلوق کی ان تک رسائی اور دسترس نہیں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو بعض غیوب پر مُطلع فرما دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا

وَ مَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَ لٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ

اور اللہ تعالیٰ تم کو غیب پر مُطلع نہیں کرتے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہیں منتخب فرما لیتے ہیں۔

عام لوگوں کو بلاواسطہ کسی غیب پر اطلاع نہیں دی جاتی۔ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء علیھم السَّلام کو غیب کی جس بات پر چاہین اطلاع دے دیتے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا

عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظِھُرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا ۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلِ فَاِنَّہٗ یَسْلُک مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا
(آخری سورۃ جن)

اللہ عالم الغیب ہے ۔ سو وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ مگر اپنے کسی برگزید پیغمبر کو تو اس کے آگے اور پیچھے محافظ (فرشتے) چلاتا ہے۔

تو غیب حق اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اللہ اپنے برگزیدہ و پسندیدہ۔ رسولوں کو اپنے غیب کی جس بات پر چاہے اطلاع دے دیتا ہے۔ اور یہ اطلاع بذریعہ وحی ہوتی ہے اور وحی کے ساتھ فرشتوں کا چوکی پہر ہوتا ہے۔

نقل
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تقسیم تو بالکل واضح اور بدیہی ہے ۔ اس میں کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے ۔
رہا تکفیر والا مسئلہ ، اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
یعنی پھر ایسی صورت میں ہم انہیں کافر کہنے سے رکے رہیں؟ یعنی انہیں مسلمان سمجھیں؟
کیوں کہ مسلمان میں اصل تو عدم کفر ہی ہے نا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
تقسیم تو بالکل واضح اور بدیہی ہے ۔ اس میں کسی حوالے کی ضرورت نہیں ہے ۔
جی محترم بھائی واقعی عقل والے کے لئے وضاحت کی ضرورت نہیں البتہ پھر بھی اگر کوئی اس تقسیم کی دلیل یا حوالہ چاہے تو کہا جائے گا کہ اس تقسیم کے بغیر قرآن و حدیث میں علم الغیب کی نصوص میں اختلافات کی تطبیق دی ہی نہیں جا سکتی اسکی وضاحت ایسے ہے

1-قرآن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ تمھیں عالم الغیب کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو اس سے یہ پکا ثابت ہو گیا کہ عالم الغیب کوئی ایسی اصطلاح ہے کہ جو اللہ کے علاوہ دوسرے پر نہین بولی جا سکتی
2-دوسری جگہ احادیث میں اور قرآن میں ہمیں مخلوق کے غیب جاننے کی نصوص ملتی ہیں
3-اب اوپر دونوں کی تطبیق کے لئے بھی اللہ نے ہی خود بتایا ہوا ہے جو اس تھریڈ کا موضوع ہے کہ مخلوق کو اللہ غیب پر مطلع کرتا ہے جب چاہتا ہے پس انکو غیب کا پتا چلنے کے باوجود عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا اسکا فرق یہ ہے کہ اللہ اسکو مطلع اپنی مرضی سے جب چاہے گا کرے گا وہ ہستی خود اپنی مرضی سے جب چاہے غیب نہیں جان سکتی


رہا تکفیر والا مسئلہ ، اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
اب اس وضاحت کے بعد آج کل جو عطائی علم الغیب کا نعرہ لگاتے ہیں میرے ناقص علم کے مطابق انکے بارے رائے مندرجہ ذیل قسم کی ہو سکتی ہے

آج اگر زید کسی انسان مثلا علی ہجویری کے بارے غیب جاننے کا عقیدہ رکھتا ہے تو اسکی مندرجہ ذیل مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں کچھ یہاں لکھ دیتا ہوں باقی صورتحال بتا کر پوچھی جا سکتی ہیں

1-زید خود تو یہ سمجھتا ہے کہ علی ہجویری جب چاہے اور جس وقت چاہے خود ہی سب کچھ معلوم کر لیتا ہے یا زید علی ہجویری سے منسوب ایسے واقعات پر یقین رکھتا ہے کہ جس سے یہ واضح نظر آتا ہے کہ علی ہجویری جب چاہے اپنی مرضی سے ہرغیب کی چیز کا علم حاصل کر سکتا ہے مگر لوگوں کے اعتراضات سے بچنے کے لئے اس غیب کو اطلاع علی لغیب یا عطائی غیب کہتا ہے تو اس وقت یہ کہا جائے گا کہ زید کا عقیدہ شرکیہ ہے


2-زید خود یہ سمجھتا ہے کہ علی ہجویری جب چاہے اور جس وقت چاہے خود اپنی مرضی سے سب کچھ معلوم نہیں کر سکتا ہاں اللہ اگر کسی وقت چاہے تو اسکو معلومات کرامت کے طور پر دے سکتا ہے اسی وجہ سے زید علی ہجویری سے منسوب ایسے واقعات پر یقین نہیں رکھتا کہ جس سے یہ واضح نظر آتا ہے کہ علی ہجویری جب چاہے اپنی مرضی سے ہرغیب کی چیز کا علم حاصل کر سکتا ہے البتہ زید علی ہجویری کے ایسے واقعات پر یقین رکھتا ہے کہ جس میں علی ہجویری کی اپنی مرضی سے غیب جاننا ثابت نہیں ہوتا تو اس وقت اسکے عقیدے کو شرکیہ تو نہیں کہا جائے گا مگر دو چیزوں کا پھر بھی خیال رکھنا پڑے گا ایک یہ کہ کسی واقعہ کے اندر خلاف شریعت تو کوئی بات تو نہیں اور دوسری یہ کہ وہ واقعہ حقیقت میں ثابت بھی ہے کہ نہیں

باقی وضاحت ان شاءاللہ میں تب کر سکتا ہوں جب اوپر باتوں کی راسخ العلم بھائیوں کی طرف سے اصلاح ہو جائے گی اور کچھ مزید صورتحال سامنے آ جائے گی
ابھی محترم خضر بھائی اور محترم @اشماریہ بھائی اور باقی ساتھیوں سے گزارش ہے کہ میری اس ناقص رائے کی اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
 
Top