• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علم حدیث

مصطلحات اور اصول
مؤلف
محمد إدریس زبیر

عنوانات کتاب

۱۔ تعارف
چند اہم اصطلاحات
محدثین کے القاب
۱۔ علم حدیث اور مختصر تاریخ
تاریخ وتدوین زمانہ قبل وبعد
تدوینی مراحل: غیر مدون
مدون صورت
مقدمہ ابن الصلاح میں علماء کی دل چسپی
علم حدیث کی انواع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم روایت ودرایت: روایت بالمعنی۔ درایت سے مراد اور اس کی شروط۔ اصول وقواعد درایت،
علم مصطلح کیوں؟
علم، ظن اور یقین
۲۔ علم حدیث کا موضوع : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سند: معنی ومفہوم ۔ضرورت وابتداء اور اہمیت۔اسنادعالی ونازل۔ طبقات سند۔اصول وقواعد۔
الانساب۔راوی حدیث کا تعارف اور مختلف علوم۔ متن: معنی ومفہوم۔اصول وقواعد
مصطلحات حدیثیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر ،حدیث، سنت، اثر
اقسام حدیث: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قولی فعلی تقریری شمائل وآداب قدسی
۳۔ تعداد اسانید کے اعتبار سے خبر کی اقسام:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر متواتراور اس کی اقسام: لفظی ومعنوی۔ اسباب تواترلفظی۔ اس کا وجود۔حکم۔
خبر واحد؍آحاد: غریب۔ عزیز۔ مستفیض۔مشہور۔
خبر عزیز۔اصول۔خبر مشہور: مستفیض۔خبر واحد اور نظریہ ظن۔قرائن۔احناف کے ہاں خبر واحد۔موازنہ
نسبت کے اعتبار سے خبر واحد کی اقسام:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرفوع اور اصول موقوف اور اصول مقطوع اور اصول
۴۔ ردوقبول کے اعتبار سے خبر واحد کی اقسام:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبول ومردود
مقبول حدیث کی پانچ اہم شروط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متصل۔ عادل۔ ضابط۔عدم علت ۔ عدم شذوذ
مقبول حدیث کی اقسام: احادیث: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح۔ حسن۔ محفوظ۔ معروف
حدیث صحیح اور اس کی اقسام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح لذاتہ: صحیح حدیث کے درجات اور فوائد۔ بعض احادیث کے صحیح ہونے پر محدثین کا اختلاف۔
صحیح لغیرہ
صحیحین پر استدراک اور استخراج
حدیث حسن اور اس کی اقسام
حسن لذاتہ: ۔
اصول وقواعد۔ صحیح وحسن میں فرق اور حکم۔ اصول وقواعد
حسن لغیرہ۔
اصول وقواعد۔
محفوظ ومعروف
ر۔ثقہ کی طرف سے کچھ اضافہ
طبقات کتب حدیث
طبقات محدثین
اعتبار ، متابعت اور شاہد
ردوقبول کے اعتبار سے خبر واحد کی دوسری قسم۔۔۔۔۔۔۔۔
مردود احادیث، حدیث ضعیف: راوی میں طعن کی وجہ سے۔ سند میں راوی کے سقوط کی وجہ سے
عدالت میں طعن کے متعدد اسباب جھوٹ: موضوع۔وضاع لوگ: زنادقہ۔ قصاص۔زاہد وعابد۔مذہبی متعصب۔ جھوٹ کیتہمت : متروک ومطروح۔ فسق۔جہالت: مجہول العین ومجہول الحال۔مبہم۔بدعت: بدعت کبری وصغری، سنی وبدعتی،
مبتدع اور محدثین کرام۔۔۔۔۔۔۔۔
مبتدع تائب ہوجائے تو کیا اس کی روایت قبول کی جائے؟ روافض سے روایت کا حکم کیا ہے؟ ضبط میں طعن کے متعدد اسباب: فحش غلطیاں۔غافل۔وہمی۔
مخالفت:مدرج۔مقلوب۔متصل سند میں اضافہ۔ مضطرب۔ محرف ۔مصحف شاذ۔ مختلط۔ منکر۔ معلل۔
حدیث ضعیف: سند میں راوی کے سقوط کی وجہ سے۔۔۔ سقط جلی کی وجہ سے انقطاع: منقطع۔معضل۔مرسل: متصل اور مرسل میں تعارض اور اصول۔ مرسل صحابی۔معلق۔
سقط خفی کی وجہ سے انقطاع: مدلّس۔مرسل خفی۔معنعن ومؤنن
ضعیف حدیث پر عمل
غیر محدثانہ اصول اور مہلک نتائج
تصحیح وتضعیف حدیث میں اختلاف اور وجوہات
۶۔روایت کی خصوصیات کی بنا ء پر احادیث کی تقسیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روایت اقران۔مدبج۔روایة الاکابر عن الاصاغر۔روایة الآباء عن الابناء۔روایة الابناء عن الآباء۔
راوی حدیث کی خصوصیات کے لحاظ سے حدیث کی تقسیم:۔۔۔۔۔۔۔
سابق ولاحق۔ معرفة الاخوة والاخوات۔معرفة المہمل۔مسلسل۔متفق ومفترق۔مؤتلف ومختلف۔متشابہ۔القاب۔
۷۔ تحمل حدیث اوراداء حدیث:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماع۔ قرا ء ة۔اجازہ۔مناولہ۔کتابہ۔اعلام الشیخ۔وصیة۔وجادة رموز حدیث۔ متعدد اسانید کے رموز۔ محذوفہ کلمات۔اختصار حدیث
۸۔حدیثی علوم کی انواع: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم مختلف الحدیث ۔علم ناسخ ومنسوخ۔علم علل حدیث۔علم غریب الحدیث، علم الرجال، وغیرہ
۹۔ علم جرح وتعدیل: وجوہ واسباب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرح یا غیبت۔مراتب۔شروط۔قاعدے
مصادر
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعارف


تحقیق وریسرچ کی مبادیات سے لے کر ان کی انتہاء تک جو ضابطے اور اصول ہوسکتے ہیں اور انہیں جو نام دیا جاسکتا ہے انہیں دے دیجئے مگر محدثین کی اس سلسلے میں امکانی کوششوں کی بھی داد دیجئے جو انہوں نے ایک تاریخ ساز اور عہد آفرین فن کو متعارف کرایا۔ اس علم کی تدوین کے بعد شاذ ونادر ہی کوئی نئی مصطلح متعارف ہوئی جو اس میں اضافے کا باعث بنی۔ آج بھی تحقیق کے تمام اصولی ضابطے اورسوتے وہیں سے پھوٹ رہے ہیں۔

ان اصطلاحات کے مصادر کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں۔خطیبؒ بغدادی پر اللہ تعالی اپنی رحمتوں کی برکھا برسائے جنہوں نے اس فن میں ڈوب کر اس کے محاسن کو اجاگر کیا اور اسے مربوط شکل دی۔ شاید ہی کوئی مصطلح ہو جس پر ان کی وقیع کتاب یا تحریر نہ ہو۔

مصطلحات اپنی حیثیت منواچکیں تو یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ ان مصطلحات کو دیگر ماہرین علوم نے بھی استعمال کیا ہے۔اور ہر ایک نے اپنے اپنے علم کے فنی تقاضوں کے مطابق اس کی تعریف ومراد لکھی اور بتائی۔بالخصوص معتزلہ نے ان مصطلحات کی تعریف ومراد اپنی سوچ اور رجحان کے مطابق کی۔ایسے فقہی اصول بنائے جن سے صحیح حدیث کو ضعیف ، موضوع یارائے وقیاس سے ٹکرا دیا جائے اور اصول حدیث کے آگے بند باندھا جاسکے۔جس کا صلہ بھی انہوں نے خوب پایا اور معمولی شدھ بدھ والا بھی انجانے میں انہی کی صف میں جاکھڑا ہوا۔محدثین کی اولین جماعت تو اس رخنہ اندازی کو بخوبی جان کر اپنے موقف پر ڈٹی رہی اوران عقل کے متوالوں کی تک بندیوں پر بصد افسوس آگاہ بھی کرتی رہی۔اس لئے کہ اس کے نتائج انکار حدیث کے سوا کچھ نہ تھے۔ اور ہوا بھی یہی جس کا خدشہ پیارے رسول نے اپنی حدیث میں ظاہر کردیا تھا ۔مگر متأخر محدثین نے انکار حدیث کے جہاں معقول جواب کے انبار لگائے وہاں اصول وقواعد کو بھی منضبط کیا اور انہیں بھی مصطلحات کا حصہ بنادیا۔اس کتاب کی یہی منفرد بات ہے کہ اصول حدیث کو اصول فقہ کا ہم پیالہ وہم نوالہ ثابت کیا گیا ہے۔

یہ مصطلحات واصول کیا ہیں ایک لمبی ، تھکا دینے والی محنت وکوشش اور دیانت دارانہ نقد کا مختصرمگر عاجزانہ اعتراف واظہار۔ یہ سن لینا کتنا آسان ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف ۔مگر اس لفظ کے پیچھے اس ساری محنت کا اندازہ ایک طالب علم کو صحیح حدیث یا ضعیف حدیث کی تخریج کرکے ہی ہو سکتا ہے۔

مؤلف​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انتساب

ان شخصیتوں کے نام جن کی حدیث وعلم حدیث دوستی نے مجھے متأثر کیا۔

٭٭٭​

مولائے کائنات! میرا ہر اچھا عمل میرے مشایخ کرام کے لئے صدقہ جاریہ بنادے۔
آمین یا رب العالمین

علم حدیث


امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال کی روشنی میں
جب میں اصحاب حدیث میں سے کسی کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میں نے اصحاب رسول میں سے کسی کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالی انہیں اس کی بھرپور جزا دے انہوں نے ہمارے لئے اصل (بنیاد) کو محفوظ کیا۔ انہیں یقیناً ہم پر فضیلت حاصل ہے۔

٭٭٭٭٭​

٭…اصحاب حدیث کو لازم پکڑلو کیونکہ وہ انسانوں میں سب سے زیادہ صواب پر ہیں۔

٭٭٭٭٭​

٭…اگر یہ دوات وروشنائی نہ ہوتی توآج منبروں پر زندیق لوگ ہی خطاب کررہے ہوتے۔

٭٭٭٭٭​

٭…امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أَعْرَاضُ الْمُسْلِمِینَ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ، وَقَفَ عَلَی شَفِیْرِھَا اثْنَانِ: المُحَدِّثُونَ وَالْحُکَّامُ۔
مسلمانوں کی عصمت وعفت سے کھیلنا گویا کہ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گرنا ہے جس کے کنارے دو قسم کے لوگ کھڑے ہیں: محدثین اور حکام۔

٭٭٭٭٭​

بے سند بات یا قول، محض چھلانگ ہے جو اخلاف کا اسلاف سے کٹا ہونے کا ثبوت ہے۔ دین میں ہَاتُوا بُرْہَانَکُم مستند دلیل وسند ہی اساسی شے ہے تاکہ اخلاف ، اسلاف سے جڑ جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چند اہم اصطلاحات


آحاد: واحد کی جمع ہے۔یعنی وہ خبر جسے ایک راوی روایت کرے۔ محدثین ہر اس خبر کو کہتے ہیں جو متواتر کی شرائط نہ رکھتی ہو۔ متواتر کے سوا تمام روایات اخبار آحاد کہلاتی ہیں۔

ائمہ ستہ: اس سے مرادوہ چھ ائمہ محدثین ہیں جنہیں صحیح احادیث کو جمع کرنے، ان سے فقہی مسائل استنباط کرنے، انہی پر عمل کرنے اور انہی صحیح احادیث کی طرف دعوت دینے کا شرف حاصل ہوا۔ جن میں سب سے بڑے اور انتہائی محترم ومعزز امام محمد بن اسماعیل بخاری، پھر امام مسلم بن الحجاج القشیری، پھر بالترتیب امام نسائی، امام ابوداؤد، امام ترمذی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ ہیں۔

اثر: عربی میں باقی ماندہ کو کہتے ہیں۔اصطلاح حدیث میں یا تو یہ لفظ حدیث کا ہم معنی ہے یا پھر صحابہ وتابعین کی طرف منسوب ان کے اقوال ، افعال اور فتاوی وغیرہ۔اسی کی نسبت سے کچھ علماء اپنے آپ کو اثری کہا کرتے۔

اجزاء: یہ جزء کی جمع ہے ۔ مختصر کتابچہ کو کہتے ہیں جس میں یا تو ایک ہی موضوع سے متعلق احادیث جمع ہوتی ہیں یا پھر ایک ہی راوی کی احادیث ۔

اربعین: حدیث کی ایک مختصرابتدائی کتاب جس میں چالیس احادیث ہوتی ہیں یا پھر چالیس شیوخ سے چالیس شہروں میں جاکریہ احادیث سنی ہوتی ہیں ۔ جیسے اربعین نووی اور اربعین البلدانیہ۔

استشہاد: کسی روایت میں اضافہ کے ثبوت کے لئے یا ابہام کے ازالہ کے لئے کوئی اور روایت بطور شاہد کے تلاش کرنا جو معنی حدیث کو درست کردے۔

استنباط: لغت میں کنویں سے ڈول نکالنے کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں آیت یا حدیث یا سیرت نبوی وصحابہ سے کوئی شرعی مسئلہ یا حکم کشید کرنا کو کہتے ہیں۔

اسماء الرجال: یہ ایسا علم ہے جس میں حدیث کی سند کے ہر راوی کے نام، نسب، کنیت اورلقب کو اس لئے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اس سے ملتے جلتے دوسرے راویوں کو نکھار دیا جائے اور ضعیف وثقہ میں فرق کیا جاسکے۔علماء نے اس کی بیالیس سے زیادہ انواع لکھی ہیں۔

اصحاب سنن: یہ وہی چار ائمہ کرام ہیں جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے جنہوں نے السنن نام کی کتب لکھیں اور ان احادیث کو جمع کیا جن میں فقہی مسائل رسول اللہ ﷺ سے ثابت تھے اور یوں سب سے پہلے انہوں نے فقہی مسائل پر مبنی صحیح ترین کتب پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ یہ فقہ الحدیث کی کتب بھی کہلاتی ہیں۔

اصل: جڑ یا بنیاد کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں سند حدیث کی ابتداء جہاں سے ہوتی ہے اسے اصل کہتے ہیں۔

امام: علم دین کے انتہائی ثقہ ، باعمل اور ماہرعالم کو کہتے ہیں۔اس کی جمع ائمہ آتی ہے ۔ ہماری تاریخ میں بے شمار ائمہ کرام آئے۔جو اپنے اپنے میدان کے ماہر ہونے کی وجہ سے امام کہلائے۔

باب: کتاب کا (Sub Chapter)، یہ وہ کتابی حصہ ہوتا ہے جس میںخاص مسئلہ کی طرف استنباط سے محدث راہنمائی کرتاہے۔ اور جس کا مصدر اگلی حدیث ہے۔ یہی محدث کی فقاہت اور درایت کو ثابت کرتاہے۔

تعارض: ایک ہی مسئلہ میں دو ہم پلہ مخالف احادیث کا ہونا۔تعارض کہلاتا ہے۔ورنہ یہ تعارض نہیں۔

ترجیح: بظاہر تعارض ہونے کی صورت میں دونوں احادیث میں جو قوی حدیث ہو اسے عمل واستنباط کے لئے زیادہ مناسب قرار دینا ترجیح کہلاتا ہے۔

تعدیل: راوی حدیث کی علمی، اخلاقی، اور اعتقادی حالت کے علاوہ اس کے حافظہ وغیرہ کو درست اور صحیح پانے کے بعد اسے ثقہ قرار دینا اسے تعدیل کہتے ہیںتاکہ اس کی حدیث قبول کی جاسکے۔

جامع: محدثین اپنی اصطلاح میں جامع اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں عموماً آٹھ قسم کی احادیث لکھی گئی ہوں۔

۱۔احادیث عقائد وایمان ۲۔ احادیث احکام ۳۔احادیث رقاق ۴۔ احادیث آداب

۵۔احادیث تفسیر ۶۔احادیث شمائل، تاریخ وسیر ۷۔احادیث فتن ۸۔احادیث زہد واخلاق

صحیح بخاری وصحیح مسلم دو ایسی کتب ہیں جنہیں جامع کہا جاتا ہے۔

جرح: راوی حدیث کی علمی، اخلاقی، اور اعتقادی حالت کے علاوہ اس کے حافظہ وغیرہ کونا درست اور کمزور یا غلط پانے کے بعد اسے ضعیف قرار دینا اسے جرح کہتے ہیں۔

راوی: یہ وہ شخص ہے جو روایت حدیث کرتا ہے۔اس میدان میں اترنا گویا اپنے آپ کو ثقہ کہلوانا یا ضعیف کہلوانا ہوتا ۔ اس لئے بہت سے نااہل بھی ثابت ہوئے۔

سنت: صحیح حدیث سے ماخوذ فقہی، اعتقادی یا اخلاقی مسائل سنت کہلاتے ہیں۔ دوسرے معنی میں سنت صرف رسول محترمﷺ کے طریقے کو کہتے ہیں۔ کسی اور کا طریقہ سنت نہیں کہلا سکتا۔

السنن سے مراد۔۔محدثین کے نزدیک۔۔ وہ کتب حدیث ہیں جن کی احادیث کو ان کے مؤلفین نے فقہی ابواب کی ترتیب دی ہے۔ جیسے کتاب طہارة، صلاة، زکوة، وغیرہ آخر تک۔اس لئے یہ فقہ الحدیث کی کتب ہیں۔ یہی وہ ترتیب ہے جسے بہت پسند کیا گیا اور یہی انداز تالیف ہے جو بعدکے فقہاء نے اپنی تصنیفات میں اپنایا۔

شیخین: امام بخاری وامام مسلم چونکہ ان محدثین میں سے ہیں جن کی فقاہت اور ثقاہت میدان حدیث میںسب سے برتر ہے اس لئے ان دونوں کو شیخین کے لقب سے کتب حدیث میں یاد کیا جاتا ہے۔

صحیحین: یہ نام بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر اس لئے چسپاں کیا گیا ہے کہ یہ دونوں صحیح احادیث روایت کرنے میں دوسری تمام کتب سے ممتاز ومنفرد ہیں۔

صیغہ تمریض: یہ وہ لفظ ہے جسے محدث روایت کے وقت اس وقت استعمال کرتا ہے جب اسے روایت کی صحت کا یقین نہ ہو۔ جیسے: قِیْلَ، ذُکِرَ یا رُوِیَ کے الفاظ۔

صیغہ جزم:یہ وہ لفظ ہے جسے محدث روایت کے وقت اس وقت استعمال کرتا ہے جب اسے روایت کی صحت کا یقین ہو۔ جیسے: قَالَ، ذَکَرَ اور رَوَی وغیرہ کے الفاظ۔

طریق: راستہ کو کہتے ہیں اس کی جمع طرق ہے۔ عموماً یہ لفظ سند کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

فقہ: قرآن وحدیث کے گہرے اور صحیح فہم کو کہتے ہیں ۔ یعنی قرآن کریم یا صحیح حدیث کی نص میں ڈوب کر ایک عالم اگر وقتی مسائل اور اشکالات کا حل نکالے خواہ ان کا تعلق عمل سے ہو یا حلال وحرام سے یا عقیدہ وایمان سے ہواسے فقہ کہتے ہیں۔یہ مسائل چونکہ ہر دور میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے اسی دور کے علماء ہی اپنے اس گہرے دینی فہم سے اس کا جواب دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر وہ فقہ جو قرآن کریم اور صحیح حدیث سے ماخوذ ہو اور شخصی نہ ہو وہ اسلامی فقہ کہلاتی ہے ۔مگر جوفقہ کسی امام کی طرف منسوب ہو اور اسی کی اقوال کے گرد گھومتی ہویا اسی کی طرف منسوب ہو وہ مذہبی یا شخصی فقہ کہلاتی ہے۔

متفق علیہ: جس حدیث کا متن صحیح بخاری وصحیح مسلم میں یکساں ہو مگر سند اپنی اپنی ہو اسے متفق علیہ کہتے ہیں۔

مروی: ہروہ حدیث جو روایت شدہ ہو۔

مستملی: شیخ کی حدیث سننے کے بعد اسے بلند آواز سے مجمع میں دوسرے طلبہ تک پہنچانے والا۔محدثین کرام نے محتاط مستملی متعین کئے ہوتے جو انتہائی چوکنے اور ہوشیار ہوتے۔

مقلد: کسی ایک امام کے مذہب کو بغیر دلیل کے ماننے والے کو کہتے ہیں۔ اس سے بہتر لفظ متبع یا مطیع کا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے پیروکار کو یا آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرنے والے کو کہتے ہیں۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محدثین کے القاب


۱۔ امیرالمؤمنین فی الحدیث: حدیث خُلَفَائِیْ مِنْ بَعْدِیْ سے یہ اصطلاح ماخوذ کی گئی ہے۔محدثین میں یہ اعلی ترین مقام ومرتبہ اورلقب ہے۔معاصرین کے مقابلے میں جوحدیث اور علل حدیث میں اپنے حفظ ، اتقان اور گہرائی میں لاثانی ہو۔اور متاخرین کے لئے بھی وہ مرجع بن جائے۔مثلاً: ابو الزناد عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ذکوان المدنی(م:۱۳۰ھ)، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن المبارک، شعبہ بن حجاج الواسطی ، سفیان الثوری(م: ۱۶۰ھ)، احمد بن حنبل، امام بخاری اور امام دارقطنی وغیرہ اپنے اپنے دور کے امیر المومنین فی الحدیث کہلاتے ہیں۔آج اس لفظ سے مراد امام بخاریؒ ہی لئے جاتے ہیں۔

ثِقَۃ : ایسا راوی جس میں عدالت، ضبط تام اور اتقان جیسی اعلی صفات موجود ہوں۔یہی لفظ اگر تکرار کے ساتھ ہو تو تعدیل کا اعلی درجہ رکھتا ہے۔

ثَبْت: ایسا راوی جو عدل وضبط کے اعلی درجہ پر فائز ہو۔ اگر وہ ثقہ ہوتو تعدیل کا اعلی درجہ اسے حاصل ہوگا۔

۲۔ حافظ: یہ لقب اس محدث کے لئے استعمال ہوا جو روایت ودرایت کا عالم وماہر ہو۔یعنی جو معنی ومفہوم حدیث کوبخوبی جانتا، سند حدیث پر گہری نظر ہو اورحدیث کے رواة کی جرح وتعدیل کا ماہر نیز ضعیف وصحیح حدیث میں فرق کرنا بھی جانتا ہو۔ جس نے شیوخ سے براہ راست علم حدیث حاصل کیا ہو۔ اس کا علم کتابی نہ ہو۔ اسے وہ اسانید متن سمیت ضرور یاد ہوں اور لکھی ہوئی بھی جن کی صحت پر علماء نقاد نے صاد کیا ہویا جن رواة میں انہوں نے اختلاف کیا ہو۔ جیسے امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین اور امام بخاری رحمہم اللہ یگانہ روزگار حفاظ محدثین میں سے تھے۔امام ابن حجر ؒ (النکت۱؍۲۶۸) میں لکھتے ہیں:

حافظ حدیث ہونے کی چند شروط: یہ شروط جب کسی محدث میں جمع ہوجائیں تو وہ حافظ کہلانے کا مستحق ہے۔

۱۔ طلب حدیث میں شہرت ایسی ہو کہ رجال حدیث سے براہ راست احادیث سنی ہوں نہ کہ صحف سے احادیث لی ہوں۔

۲۔ رواة حدیث کے طبقات اور ان کے مراتب کی صحیح معرفت رکھتا ہو۔

۳۔ تجریح وتعدیل کی بھی اسے پہچان ہو، اوراپنے بکثرت حافظے اور متون کے استحضار کے ساتھ صحیح وسقیم میں تمیز کرنا کرناجانتا ہو۔

۳۔ حاکم: جو تمام احادیث کا سندی اور متنی اعتبار سے اور جرح وتعدیل وتاریخ کے اعتبار سے احاطہ کرچکا ہو۔ جس سے علم حدیث کا بہت کم حصہ ازبر ہونے سے رہ گیا ہو۔

۴۔ حجۃ: اسے تین لاکھ احادیث سند سمیت یاد ہوںاور احادیث کے ہر نکتہ پر اس کی گہری نظر ہو کہ وہ صحیح ہے یا ضعیف۔

۵۔ مُتْقِن: ضابط کو ہی کہتے ہیں۔ وہ جو ہر بات بڑی پختگی سے کرتا ہو اور اس پختگی میں کمزوری یا غلطی نہ ہو۔

۶۔ محدث: کسی بھی حدیث کے بارے میں یہ فیصلہ دینا کہ صحیح ہے یا ضعیف۔ حفظ حدیث اور فہم وعرفت کا متقاضی ہے۔جو محدث حفظ کے ساتھ اپنی فہم وذکاء اور معرفت کو اس موقع پر نمایاں کرتا ہے وہ واقعی محدث کہلانے کا مستحق ہے ورنہ نہیں۔خواہ اس نے کتنی ہی احادیث ازبر کیوں نہ کررکھی ہوں۔نیز محدثین اپنے فہم ومعرفت میں بھی مختلف درجات کے ہیں۔ کوئی انتہائی اعلی مقام پر فائز ہے اور کوئی ادنی مقام پر۔ اس لئے وقتاً فوقتاً اس کی تعریف میں مختلف آراء لکھی گئیں ہیں۔

أ۔تاج الدین سبکی لکھتے ہیں: محدث وہ ہوتا ہے جو اسانید وعلل کو جانتا ہواسماء رجال اور سند عالی ونازل سے بھی اسے صحیح معرفت حاصل ہو۔ بکثرت احادیث بطور خاص متون اسے ازبر ہوں۔ اس نے کتب ستہ کے علاوہ مسند احمد، سنن بیہقی اور معجم طبرانی وغیرہ اپنے مشایخ سے سنی ہوں۔ اس کے علاوہ مزید ہزار کے قریب اجزاء حدیثیہ سے بھی شناسا ہو۔یہ محدث کا کم ترین درجہ ہوگا۔ان کتب کو سننے کے بعد وہ شیوخ حدیث کے پاس آتا جاتا ہے اور ان سے علل حدیث، وفیات رجال اور مسانید پر گفتگو کرتا ہے تب جا کر وہ محدثین کے ابتدائی درجات میں شامل ہوگا۔پھر اللہ تعالی جسے چاہے مزید نواز دے۔

ب۔ابن سید الناس کہتے ہیں: ہمارے زمانہ میںمحدث وہ ہے جو حدیث کی روایت ودرایت میں مشغول ہو۔ اور رواۃ کے حالات کو جمع کرتا ہو۔ اور اپنے زمانے کے رواۃ وروایات پر اس کی دسترس ہو۔ اس میں وہ دوسروں سے ممتاز اس وقت ہوتا ہے جب حدیث میں اس کا خط پہچان لیا جائے اور وہ ضبط حدیث میں مشہور ہوجائے۔

ج۔زرکشی کہتے ہیں فقہاء کی طرف سے محدث اسے نہیں کہا جاتا جو سند حدیث کو یاد کرلے اور اس کے راویوں کی تعدیل وتجریح کردے اور سماع سے کم پر اکتفاء کرلے۔

د۔محدثین کے نزدیک محدث وہ ہے جو حصول علم کے بعدہر عالم کی جمع شدہ روایات حدیث کا بھرپور مطالعہ کرے۔ وہ بیشتر روایات اور رواۃ سے بھی واقف ہو ۔ ان کے مابین امتیاز کرنا بھی جان لے دیگر علماء کے ہاں اس کا حفظ بھی معروف ہو۔ ضبط میں بھی اسے شہرت مل گئی ہو۔اس کی اکثرروایات صحیح ہوں اور متون کو یاد رکھنے کے ہمراہ وہ راویوں کے حالات، طبقات اور مراتب سے بخوبی واقف ہو۔وہ روایت اور درایت سے بھی آگاہ ہو۔محدث کہلاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب ا

علم حدیث اور مختصر تاریخ


الحمد للہ رب العالمین۔ والصلاۃ والسلام علی نبینا وحبیبنا محمد، وعلی أزواجہ أمہات المؤمنین، وذریتہ، وآل بیتہ، وأصحابہ، وأہل بیتہ وأصحابہ الطیبین الطاہرین ومن تبعہ بإحسان إلی یوم الدین۔ أما بعد:

حافظ زین الدین عبد الرحیم العراقی نے شرح الفیہ تلخیص مقدمہ ابن الصلاح کی ابتداء میں اس فن کے بارے میں یہ لکھا:

عِلْمُ الحَدیثِ خَطِیْرٌ وَقْعُہُ، کَبیرٌ نَفْعُہُ، عَلَیہِ مَدارُ أکثرِ الأحکامِ، وبِہِ یُعرَفُ الحَلالُ وَالحَرامُ، وَلأِھلِہِ اصْطلاحٌ لابُدَّ لِلطالبِ مِنْ فَھْمِہِ۔ علم حدیث میں پڑنا انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے بڑا مفید ہے۔بیشتر شرعی احکام کا دارومدار اسی علم پر ہے۔حلال وحرام کی معرفت اسی کے فیض سے ہے۔اس فن کے ماہرین نے اس کی مصطلحات متعارف کرائی ہیں جن کا فہم طالب علم کے لئے بہت ضروری ہے۔

تعریف: شیخ الاسلام ابو الفضل ا بن حجر ؒ کے نزدیک اس علم کی عمدہ تعریف یہ ہے:

مَعْرِفَةُ الْقَوَاعِدِ الْمُعَرِّفَةِ بِحَالِ الرَّاوِیْ وَالْمَرْوِیِّ مِنْ حَیثُ اْلقَبُولِ وَالرَّدِّ۔ ایسے معلوم قاعدوں اور ضابطوں کا علم جن کے ذریعے سے کسی بھی حدیث کے راوی یا متن کے حالات کی اتنی معرفت حاصل ہوجائے: آیا راوی یا اس کی حدیث قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں؟(النکت علی ابن الصلاح: ۱ ؍۲۲۵ )

اصول: اس تعریف سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:

۱۔ سند اور متن کے حالات جانے بغیر کسی بھی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا علم نہیں ہوسکتا۔یہی علم میزان ہے۔ ۲۔اگر حدیث رسول کے لئے صحیح نسبت یعنی سند ومتن کے صحیح ہونے کا ہونا ضروری ہے تو صحابی وتابعی یا فقیہ ومجتہد یا کسی کے قول وفعل اور اس کے فتاوی کی نسبت( سند) کا ہونا اس سے زیادہ ضروری ہے۔بے سند بات شرعی مسئلہ نہیں ہوتی خواہ وہ کسی کی بھی ہو۔کیونکہ شرع ایک علم ہے۔

۳۔احادیث لازماً کچھ مقبول ہوتی ہیں اور کچھ غیر مقبول۔

۴۔ مقبول وصالح عمل یا غیر مقبول وغیر صالح عمل کا اصول ، علم حدیث ہی بتاتا ہے۔

۵۔ مسائل شرعیہ کشید کرتے وقت اصول حدیث بھی پیش نظر رہیں ۔

امام شعبی اور امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہما اللہ رائی کو یہ شعر سنایا کرتے:

دِیْنُ النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ أَخْبَارُ
نِعْمَ الْمَطِیَّةُ لِلْفَتَی الآثَارُ
لَا تَرْغَبَنْ عَنِ الْحَدِیْثِ وَأَھْلِہِ
فَالرَّأْیُ لَیْلٌ وَالْحَدِیْثُ نَھَارُ

دین نبی محمد ﷺ اخبار واحادیث ہی ہے۔ ایک نوجوان کے لئے یہی آثار ہی عمدہ سواری ہے​

حدیث اور اہل حدیث سے منہ مت موڑو اس لئے کہ رائے رات کی مانند تاریک ہے اور حدیث دن کی طرح روشن

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاریخ وتدوین زمانہ قبل وبعد


آپ ﷺ نے خود اس علم کو عام کرنے اسے اور اس کے مفہوم کو یاد کرنے اور اسے روایت کرنے کا ارشاد فرمایا اور اس کے حفاظ اور علماء کو بہت بابرکت دعا دی:

نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَوَعَاھَا فَأَدَّاھَا کَمَا سَمِعَھَا۔ اللہ تعالی اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات غور سے سنتا اور اسے اچھی طرح یاد کرتا ہے اور پھر اسے دوسرے تک ویسے ہی پہنچاتا ہے جیسے اس نے سنی ہوتی ہے۔

علم روایت اور علم درایت کی یہ بنیاد تھی جو آپ ﷺ نے فراہم کردی۔اسی کا نام محدثین کرام نے علم الحدیث رکھا۔جس میں حدیث کی نصوص اور اس کے تمام علوم شامل ہیں۔دعائے رسول کے حصول کے لئے انہوں نے اسے حفظ کرکے، اسے تلاش کرکے ، اسے روایت کرکے اور پھر ہر حدیث کے رجال سند اور متن کی تحقیق کا حیرت انگیزمیزان قائم کرنے کی کوشش کی۔

٭… علم حدیث کی تدوین سے قبل اور بعد کے مراحل کو جاننا ہی اس علم کی اصل تاریخ ہے۔یہ تاریخ ابتدائی تین صدیوں پر محیط ہے۔ اس زمانہ کے علمائے حدیث کا میسر سرمایہ علم حدیث ہی وہ بنیاد ہے جس پر بعد میں مباحثات ہوئے، ان کی تفصیلات طے ہوئیں اور پیداشدہ اشکالات کی وضاحت کی گئی۔ اس لئے علم حدیث ، تدوین حدیث کے بعد اپنے نکھار اور جوبن پہ آتے ہی منضبط ہونے لگا اور جلدہوگیا۔ انہی تین صدیوں کے رجال حدیث ہی تو ہیں جو کسی بھی حدیث کو کھنگالنے میں اور اس کی تصحیح وتضعیف میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

٭…سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہی اولین افراد صحابہ ہیں جنہوں نے روایت وکتابت حدیث اوراس کی تحقیق و تلاش میں اور جرح وتعدیل میں بڑا نام پایا۔ دیگر صحابہ عبد اللہ بن عباس، عبادۃ بن الصامت، انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے بھی اس شجرہ علم کی خوب آبیاری کی۔ روایت، کتابت، حفظ ، رحلہ، نقد اور نقدرجال حدیث جیسے علوم کی صحیح معرفت کے بعد اسے خوب رواج دیا۔ امہات المؤمنین بالخصوص سیدہ عائشہ وسیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابیات کابھی خاطر خواہ حصہ ہے۔ ان صحابہ کرام کی تعداد پچاس سے متجاوز ہے۔

٭…زمانہ صحابہ کرام اور ائمہ تابعین میں رجال حدیث پر نقد زیادہ تر حافظے پر مبنی ہوتی۔یوں حدیث کا ہر راوی یا تو صحابی رسول ہوتے جو یقیناً عادل تھے یا تابعی کبیر تھے جو ثقہ ہوتے۔ ان میںکا ہر شخص صدق کو پانے اور بتانے کی بھرپور کوشش کرتا اور راوی کے بارے میں سخت گیر بھی ہوتا۔مگر چند راویوں سے بلاشبہ وہم وخطا بھی ہوئی۔جو ایک بشری لازمہ ہے عصمت تو صرف اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول محترمﷺ کو ہی حاصل ہے۔ چنانچہ ائمہ حدیث نے ان کی خطا سے متنبہ کیا اور جہاں تک ہوسکا اسے واضح کیا۔ان صحابہ و تابعین نے ان راویوں پر جو نقدی کلمات کہے وہ مختصر ترین تھے۔

٭…تابعین کرام میں سعید بن المسیب، حسن بصری، عامرشعبی اور ابن سیرین رحمہم اللہ جیسے عظیم ائمہ وقت نے فتنہ شہادت عثمان ذو النورین کے سر اٹھاتے ہی تفتیش کے مراحل میںسختی پیدا کردی اور زاہد وقصہ گو حضرات اور اصحاب بدعت پر عدم اعتمادی کا اظہار کرکے ان کی جھوٹی عقیدت کو عقیدہ کا بگاڑ قرار دیا۔اور ان کی مرویات کو ذرہ برابر وقعت نہ دی۔ اس دور میں گو کوئی کتاب مدون نہ ہوسکی مگران علماء کی توجہ روایت حدیث اور اس کی نقدو جرح پر ہی مرکوز رہی۔ ہر صحابی کو عادل قرار دیا اور ثقہ تابعی کبیرپر اعتماد کا اظہار کیا۔انہوں نے ہی تعلیم وتدریس کی مسند پر براجمان ہوکر معاملہ حدیث کو مزید حساس بنادیا ، طالبان حدیث کی عقیدت کو صحیح رخ دیا۔ حفاظت حدیث کے بند باندھے ۔ اسے صفحہ قرطاس پررقم کیا اور صحیح وغلط، کذاب ومفتری کا پتہ دیا۔ ہاں جن سے اوہام و خطا صادر ہوئی ان سے آگاہ کیا۔اور پرمغز وضاحت کی۔ یہ لوگ چونکہ بہت کم تھے اس لئے زیادہ نقد وجرح نہ ہوسکی۔ نتیجتاً متفرق مصطلحات بھی متداول ہونے لگیں۔اس طرح پہلی صدی ہجری گذر گئی۔

٭…دوسری صدی ہجری کے شروع میں ۔۔جو اوسط تابعین کا دور ہے۔۔کچھ راوی ایسے نمودار ہوئے جو مرسل اور منقطع روایت کرنے لگے۔ اور اس شیخ کی بھی روایت عام ہونے لگی جس کی روایت حدیث میں بکثرت غلطیاں ہوتیں۔یہ کام بتدریج دوسری صدی ہجری کے نصف تک بڑھتا گیا۔ سیاسی فرقے بھی ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے نفرت وتعصب کو ہوا دی ۔عجمی ثقافت اسلامی اقدار پر حملہ آور ہونا شروع ہوئیں۔ خرافی اور بدعتی اپنے مفروضہ مذہب کے لئے عمداً حدیث میں جھوٹ بولنے لگے۔ چنانچہ اکابر علماء حدیث مجبور ہوئے کہ سند اور متن کی تفتیش ونقد کا دائرہ اب وسیع تر وسخت ترکردینا چاہئے۔

٭…پہلی صدی ہجری کے وسط سے ہی حدیث کو نتھارنے کا عمل شروع ہوا۔ شواہد ودلائل اکٹھے ہوئے جو سینوں میں محفوظ تھا اسے اپنے دروس میں دہرایا اور سفینوں میں بھی لکھا ۔حلقات حدیث کی وسعت نے پوری اسلامی سلطنت میں اپنی جگہ بنالی۔ علم حدیث کی اصطلاحات اور اصول کا چرچا مجالس علمیہ میں عام ہونے لگا۔رجال حدیث کا ذکر بھی ان کے ہمراہ رہا جو مختلف کتب اور رسائل میں بین السطور بکھرے اقوال وملاحظات کی صورت میں تھے جنہیں بتدریج ضبط تحریر میں لایا گیا۔

٭… امام زہری رحمہ اللہ نے سرکاری سرپرستی میں جو عظیم الشان تدوینی کام سرانجام دیا وہ اپنے مستقل ثمرات امت کو دے گیا۔ مصر وشام اور یمن وعراق میں پھیلے جید علماء وفقہاء کی مشارکت سے ان کا کام مزید سہل اور مجمع علیہ ہوگیا۔احادیث واقوال اور فتاوی میں فرق اور جھوٹ وسچ میں امتیاز کرنے کی ابتدا ء سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کردی جوخاص توفیق اور عنایت ربانی ہے۔امام مالک رحمہ اللہ بھی ان کے شاگرد تھے جو اپنی کاوشوں ، سوچ کے دھاروں اور تعلیم کے حلقوں میں اسی تمیز کو ہی پروتے گئے۔کتاب موطا لکھی تو احادیث مرفوعہ اور اقوال موقوفہ ومقطوعہ کے انبار لگائے ۔

٭…امام شعبہ بن الحجاج (م:۱۶۰ھ)، ہشام بن ابو عبد اللہ دستوائی(م:۱۵۴ھ)امام عبد اللہ بن المبارک(م: ۱۸۱ھ)، سفیان بن عیینہ(م: ۱۹۸ھ) اور پھر یحییٰ بن سعید القطان(م:۱۹۸ھ) وغیرہ نے رجال حدیث پر اپنی جرح وتعدیل کی۔اسی طرح ان کے شاگردوں نے بھی رواۃ پر جرح وتعدیل کی۔امام مالکؒ کے اثرات اہل عراق سے مناقشوں کے بعد ان کے تلمیذ خاص امام شافعی ؒ پر بھی ہوئے جنہوں نے الرسالہ میں اصطلاحات حدیث اور اصول حدیث کو بڑی علمی زیرکی کے ساتھ مدلل کیا ۔ اس علم کو شفاف بنانے کے دو مراحل نظر آتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر مدون

۱۔غیر مدون صورت میں: اس مرحلے میں اصول حدیث سے متعلق متقدم علماء کے ان تبصروں اوربکھری ابحاث اور اقوال کو جمع کیا گیاجو حدیث یا سند سے متعلق بین السطور کوئی نقدیا اہم نکتوں کی صورت میں ہوتے۔یا کسی کتاب کا کوئی ایسا باب ہوتایا ایک ہی موضوع پر مشتمل جزء یا اجزاء ہوتے۔مثلاً امام شافعیؒ (م: ۲۰۴ھ)نے الرسالہ اور الام میں صحت حدیث کی شرائط، خبر واحد کا حجت ہونا، راوی کا حافظ ہونا، غلط راویوں سے احتراز، روایت بالمعنی، مدلس کی حدیث کو اس وقت قبول کرنا جب وہ حدیث کے سماع کی صراحت کردے۔ موضوع، ضعیف، منکر، مدلس، ثقہ، خبر واحد، علم ظنی وعلم یقینی وغیرہ جیسی مصطلحات کا تعارف کرایا۔کبار تابعین کی مراسیل، نیزحدیث مرسل حجت ہے یا نہیں؟ وغیرہ جیسے مباحث کو انہوں نے علماء تابعین وتبع تابعین کے نقدی تبصروں اور مابین السطور نقدی نکتوں سے اخذ کئے۔ مثال کے طور پر:

بابُ خبرِ الواحدِ: قَال لِی قائِلٌ: اُحْدُدْ لِی أَقَلَّ مَا تَقُومُ بِہِ الْحُجَّةُ عَلَی أھلِ العِلْمِ حَتّٰی یَثْبُتَ عَلَیھِمْ خَبَرُ الْخَاصَّةِ فَقُلتُ: خَبَرُ الواحِدِ عَنِ الوَاحِدِ حَتّٰی یَنْتَھِیَ بِہِ إِلَی النبیِّ ﷺ، أَوْ مَنِ انْتَھَی بِہِ إِلَیہ دُونَہُ، وَلَا تَقُومُ الْحُجَّةُ بِخَبَرِ الْخَاصَّةِ حَتّٰی یَجْمَعَ أمورًا: خبر واحد کے بارے میں باب: مجھے کہنے والے نے کہا: میرے لئے معمولی حد مقرر کردیجئے جو اہل علم پر حجت بن جائے تاکہ خاصہ کی خبر ان پر ثابت ہو جائے۔میں نے کہا: واحد(فرد) کی خبر واحد(فرد) سے ہو یہاں تک کہ وہ نبی کریم ﷺ تک جا کرمنتہی ہوجائے ۔یا اس پر جا ختم ہو جو آپ ﷺ سے نیچے کا راوی (صحابی) ہو۔ اور خبر خاصہ اس وقت تک حجت نہیں بن سکتی جب تک کہ اس میں درج ذیل چند امور نہ ہوں۔

مِنھا: أَن یکونَ مَنْ حَدَّثَ بِہِ ثِقَةً فِی دِینِہِ، مَعْروفًا بِالصِّدقِ فِی حَدیثِہِ، عَاقِلًا لِمَا یُحَدِّثُ بِہِ، عَالِمًا بِمَا یُحِیلُ مَعَانِی الْحَدیثِ مِنَ اللَّفْظِ، وَأن یَّکونَ مِمَّنْ یُؤَدِّی الْحَدیثَ بِحُرُوفِہِ کمَا سَمِعَ، لَا یُحَدِّثُ بِہِ عَلَی الْمَعْنَی لأِنَّہُ إِذا حَدَّثَ بِہ عَلَی الْمَعْنَی وَھُو غَیرُ عَالِمٍ بِمَا یُحِیْلُ مَعنَاہُ: لَمْ یَدْرِ: لَعَلَّہُ یُحِیلُ الْحَلَالَ إِلَی الْحَرَامِ، وَإِذَا أَدَّاہُ بِحُرُوفِہِ فَلَمْ یَبْقَ وَجْہٌ یُخَافَ فِیہ إِحَالَتُہُ الْحَدِیثَ۔ ان میں ایک تو یہ ہے کہ جس سے وہ روایت کرے وہ اپنی دین داری میں ثقہ ہو، سچا ئی میں معروف ہو، جو بیان کرے اسے سمجھتا بھی ہو۔ معانی حدیث اگر بتانا چاہے تو ان الفاظ کو بھی بخوبی جانتا ہو، ایسا راوی ہو جو حدیث کے الفاظ وحروف کو ویسا ہی روایت کرے جیسا اس نے سنا ہو۔الفاظ حدیث کو معناً روایت نہ کرے۔کیونکہ عالم نہ ہونے کی صورت میں معناً روایت کرنے والے کو کیا معلوم کہ وہ حلال کو حرام کی طرف لے جائے۔مگر جب اس حدیث کو حروف سمیت وہ ادا کرے گا تو پھر کوئی خدشہ نہیں رہتا کہ وہ حدیث کیابن گئی۔

حافظًا إذَا حَدَّثَ بِہ مِنْ حِفْظِہِ، حافظًا لِکِتَابِہِ إِذَا حَدّثَ مِنْ کِتابِہِ، إِذَا شَرِكَ أھلَ الْحِفْظِ فِی الحدیثِ وَافَقَ حَدِیثَھمْ، بَرِیْئًا مِنْ أن یکونَ مُدَلْسًا: یُحَدِّثُ عَمَّنْ لَقِیَ مَا لَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ، وَیُحَدِّثُ عَنِ النَّبیِّ ﷺ مَا یُحَدِّثُ الثِّقَاتِ خِلَافَہُ عَنِ النبیِّ ﷺ۔ جب حدیث اپنے حافظے سے روایت کرے تو اسے حدیث بخوبی یاد ہو اور اگر اپنی کتاب سے روایت کرے تو اپنی کتاب کا بھی محافظ ہو۔جب محدثین کے ساتھ روایت میں شریک ہو تو ان کی حدیث سے موافقت کرتا ہو۔ وہ تدلیس سے بری ہویعنی ایسا نہ ہو کہ جس شیخ سے ملاقات تو کی مگر اس سے وہ حدیث روایت کرے جو اس سے سنی ہی نہ ہو۔ اور نبی کریم ﷺ سے وہ حدیث روایت کرے جسے ثقات اس کے خلاف روایت کرتے ہوں۔

ویکونَ ھَکَذا مَنْ فَوقَہُ مِمَّنْ حَدَّثَہُ، حَتّٰی یَنْتَھِیَ بِالحدیثِ مَوصُولا إِلَی النبی ﷺ، أو إلَی مَنِ انْتَھَی بِہِ إِلیہِ دُونَہُ، لأِنَّ کُلَّ وَاحدٍ مِنْھُم مُثْبِتٌ لِمَنْ حَدَّثَہُ، وَ مُثْبِتٌ عَلَی مَنْ حَدَّثُ عَنْہُ، فَلَا یَسْتَغْنِیْ فِی کُلِّ وَاحِدٍ مِنْھُمْ عَمَّا وَصَفْتُ۔ ۔ الخ۔اسی طرح اوپر والے راوی بھی انہی صفات کے حامل ہوں۔ رسول اللہ ﷺ تک سبھی شیوخ اتصال کو ثابت کریں۔یا آپ ﷺ سے نیچے جس راوی تک سند جا کر رکتی ہے وہاں تک متصل ہو۔کیونکہ ان میں کاہر راوی یہ ثابت کررہا ہوتا ہے کہ میں نے اوپر والے سے حدیث سنی ہے۔اور اسے بھی جس نے اس سے حدیث روایت کی ہے۔اس لئے سند کا کوئی بھی راوی ان مذکورہ صفات وشرائط سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔

امام ابن حجر رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو پر یوں وضاحت کرتے ہیں:

وقَدْ تَضَمَّنَ کلامُ الشافِعِیِّ ھٰذَا جَمِیْعَ الشُّروطِ الْمُتَّفَقِ عَلَیھَا بَینَ أَھْلِ الْحَدیثِ فِی حَدٍّ مَنْ تُقْبَلُ رِوَایَتُہُ
امام شافعی رحمہ اللہ کی یہ ساری گفتگوان تمام متفقہ شروط پر مشتمل ہے جو محدثین کے ہاں ایک مقبول راوی کی ہوسکتی ہیں۔

شیخ احمد شاکر ؒ نے الرسالۃ میں اسی گفتگو پر یوں حاشیہ آرائی کی ہے:

ومِنْ فِقْہِ کلامِ الشافِعِیِّ فِی ھَذَا البابِ وُجِدَ أنَّہُ جَمَعَ کُلَّ الْقَوَاعدِ الصَّحِیْحَةِ لِعُلُومِ الْحَدیثِ ۔۔الْمُصْطَلَحِ۔۔ وَأَنَّہُ أوَّلُ مَنْ أَبَانَ عَنْہُ إِبانَةً واضِحَةً، وَاَقْوٰی مَنْ نَصَرَ الحَدیثَ، وَاحْتَجَّ لِوُجوبِ الْعَمَلِ بِہِ، وَتَصَدّٰی لِلرَّدِّ عَلَی مُخالِفِیہِ، وَقَدْ صَدَقَ أَھْلُ مَکَّةَ وَبَرُّوا إِذْ سَمَّوہُ: نَاصِرُ الْحَدِیثِ۔ امام محترم کی اس عمدہ فقہی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ علوم حدیث (مصطلحات) کے تمام صحیح قواعد کو انہوں نے جمع کردیا ہے ۔ وہی اولین شخص ہیں جنہوں نے اس موضوع کوخوب نکھاراہے۔ نصرت حدیث میں سب سے زیادہ وہ جان دار ثابت ہوئے ۔انہوں نے حدیث پر عمل واجب اور قابل حجت بتایا۔ اور ان شرائط کے مخالفین کی بھی خوب خبر لی۔ اہل مکہ نے امام محترم کے بارے میں جو کہا صحیح کہا اور مناسب کہا: وہ ناصر حدیث ہیں۔

ان کی کتاب اختلاف الحدیث بھی ایسا مواد رکھتی ہے۔جس کی بے شمارمثالیں دے کر اسلامی ادب کو ایک علمی رنگ دیا۔

٭…امام احمدؒ بن حنبل (م: ۲۴۱ھ) نے بھی اس علم کے مباحث میں حصہ ڈالا جن کے فوائد کا علم ہمیں ان کے اور ان کے شاگردوں کے مابین ہونے والی سوال وجواب کی نشست سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ امام اہل السنہ ہی اس قربانی کے سبب کہلائے جو انہوں نے جبرو قہر اور استبداد کی رعونت کے سامنے صحیح سنت رسول کا استدلال مانگا۔ عقلی تک بندیوں کے سامنے بند باندھے اور نصوص سے امت کو راہنمائی کا درس دیا۔ یہ ظاہر پرستی تھی نہ ہی مصلحت بلکہ ایک عبرت آموزسبق تھا جو ہمیشہ کے لئے نصوص کے مقابلے میں ذاتی رجحان وعقلی قیاسات کی بے وقعتی کا امت کو دے گئے۔

٭…امام ابو عبد اللہ الحمیدی (م: ۲۱۹ھ) نے علم حدیث پر جو نکتہ سنجی کی ہے اسے بالتفصیل امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الکفایۃ میں ذکر کیا ہے جس کا ایک مختصر کتابچہ بھی بن سکتا ہے۔ وہ حدیث جو قابل احتجاج ہو اس کی وضاحت انہوں نے کی۔ حدیث معنعن کے حکم کا ذکر بھی انہوں نے چھیڑا اور راوی پر کون سی جرح قبول کی جائے اور کون سی نہیں۔ جیسے مباحث امام ابوعبد اللہ الحمیدیؒ سے بالتفصیل نقل کئے ہیں۔

٭…امام علی بن المدینی نے علوم حدیث کے موضوع پر بے شمار کتب لکھیں۔وہ اور یحییٰ بن معین(م: ۲۳۲ھ) رحمہما اللہ یار غار تھے اور دونوں ایک ہی شاہراہ پر گامزن۔ ان حضرات کی کتب اور ان سے منقول اقوال (تار یخ یحییؒ بن معین)شاہد ہیں کہ اصول اور مصطلحات حدیث ، علماء حدیث کے مابین متداول تھیں۔ ان کے معاصر مؤلفین نے اپنے لائق تلامذہ کو یہ علم پڑھایا اور ہزاروں کے مجمع میں پڑھایاجسے روایت کرنے کی اجازت بھی دی۔متأخرین کے بہترین لوگوں نے اس خزانے کو سمیٹا اوراپنے ذوق تالیف کو شہ دے کر اسے مزید اجالا دیا۔ علی بن المدینی رحمہ اللہ کا منہج مصطلح ونقد حدیث خاصا معروف ہے۔

٭… امام عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی (م:۲۵۵ھ) کا السنن میں لکھا نفیس مقدمہ علم حدیث کا شاہکار ہے۔ زمانہ جاہلیت، صاحب سنت جناب رسالت مآب ﷺ کا تعارف، آپ ﷺ کے ابتدائی حالات، معجزات، صفات، واخلاق، ذکر وفات، اتباع رسول و سنت رسول کا ادب واحترام،آپﷺ کے اوامر ونواہی وغیرہ کا تفصیلی ذکربھی اس میں ہے۔

٭…اس منہج سے نہ صرف امام بخاری(م:۲۵۰ھ) (کتب تواریخ ثلاثہ) بلکہ اصحاب خمسہ اور امام عبید اللہ بن عبد الکریم ابوزرعہ رازی (م:۲۶۴ھ) رحمہم اللہ بھی متأثر ہوئے۔ جہاں علوم حدیث پر بہت پر مغز اور علمی نکات ملتے ہیں۔

٭… تیسری صدی ہجری کی متنوع تصنیفا ت حدیثیہ میں اصول حدیث کے درایتی مباحث کا جابجا ذکر ملتا ہے۔بطور خاص کتب تاریخ رجال میں۔کوئی ایک مستقل کتاب اس موضوع پر نظر نہیں آتی۔یہ وہ مباحث تھے جو روایت حدیث کے ساتھ ہی اٹھے اور مدون ہوتے گئے۔مگر جب خلیفہ محترم عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حکم سے سنت مطہرہ مدون ہوئی تو علماء کا جمع سنت، تألیف سنت، اس کے انتخاب اور تر تیب میں ذوق مختلف ہوتا گیا۔ہر طبقہ کے علماء نے اپنے انتخاب کو منفرد اندازمیں مرتب کیا۔ ان کتب میں بعض احادیث پر حکم لگایا گیا اورکہیں معلول روایت کی علت درج تھی۔ بعض راویوں پرنقد تھی۔ان تصنیفات میں اسناد کے بارے میں مقتدر علماء کے اقوال بھی تحریر تھے۔اور متقدمین نے سند یا متن کے لئے جو خاص تنقیدی اصطلاحات استعمال کیں وہ بھی مذکور تھیں۔ان مجالس کا بھی ذکر تھا جن میں کسی بھی روایت یا حدیث پر بحث ہوئی۔

٭… جب رواۃ کے حالات وواقعات سے متعلق گفتگو ہوئی تو جرح وتعدیل کا آغاز ہوگیا اور جس میں متعدد اقوال کی وجہ سے وسعت آتی گئی بحث نے گہرائی اختیار کی۔حدیث روایت ہوئی اور صحیح وسقیم کو نکھارا جانے لگا۔متعدد علوم کی تصنیفات تالیف ہوئیں سند میں رواۃکے احوال پر کتب تاریخ، طبقات، وفیات، معرفۃ الوحدان، اکابر کی اصاغر سے روایت، مدلسین وکذابین کی اقسام، خبر کے احوال پر بھی کتب تالیف ہوئیں جیسے کتب العلل، قبول ورد کے الفاظ اور ان کے مراتب، حفاظ محدثین کی جرح وتعدیل کے الفاظ کی وضاحت، اور علم اصول حدیث کی متعدد انواع جن کے بارے میں ابن الملقن کا کہنا ہے کہ اس کی انواع دوسو سے بھی زائد ہیں۔امام ابوحاتم ابن حبان نے صرف ضعیف حدیث کی انچاس اقسام ذکر کی ہیں۔

٭…صحیح بخاری میں اور بالخصوص کتاب العلم میں بھی علوم الحدیث کے بے شمار نکات ہیں۔نیز امام بخاری رحمہ اللہ کی تینوں تواریخ بھی انہی اصطلاحات کو ضمناً لئے ہوئے ہیں ، جرح وتعدیل اس پر مستزاد ہے۔ امام مسلم ؒکا انتہائی جامع مقدمہ صحیح ،جسے اگر حدیثی اصطلاحات کا دیوان قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ امام محترم نے اس موضوع کواپنے جاندار زور بیان سے مثالیں دے کر پیش کیا ہے۔ امام ابوداؤدکا لکھا رِسَالَةُ أَبِی دَاوٗدَ إِلٰی أَھْلِ مَکَّةَ ور السنن میں امام النسائی کے بہت سے اصولی وحدیثی مباحث بھی قابل توجہ ہیں۔سنن ترمذی میں تصحیح ، تحسین اور تضعیف حدیث سبھی علوم حدیث کا لطیف اظہارہیں ۔ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ اپنی کتاب عارضۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں:

وَلَیْسَ فِی قَدَرِ کِتابِ أبی عیسیٰ مِثْلَہُ حَلَاوَةُ مَقْطَعٍ، وَنَفاسَةُ مَترَعٍ، وَعَذُوبةَ مَشرعٍ، وفِیہِ أربعةَ عَشَرَ عِلْمًا فَرَائِدَ، : صَنَّفَ۔ أی الأحادیثَ عَلَی الأبوابِ، وَذَلِك أقرَبُ لِلْعَمَلِ، وَأسْنَدَ، وَصَحَّحَ، وَأَشْھَرَ، وَعدَّدَ الطُّرُقَ، وَجَرَّحَ، وَعَدَّلَ، وَأَسْمٰی، وَاَکْنٰی، وَ وَصَلَ، و قَطَعَ، و أَوْضَحَ الْمَعمولَ بِہِ وَ الْمَتْرُوكَ، وَ بَیَّنَ اخْتِلَافَ العُلَماءِ فِی الرَّدِّ وَالْقَبُولَ لآِثارِہِ، وَذَکَرَ اخْتِلافَھُم فِی تَأوِیْلِہِ، وَکُلُّ عِلْمٍ مِنْ ھَذِہِ الْعُلُومِ أَصْلٌ فِی بابِہِ فَرْدٌ فیِ نَصَابِہِ۔امام ابوعیسیٰ ترمذی کی کتاب جیسی کوئی کتاب نہیں جو جملوں کی حلاوت ، عبارت کی نفاست اور استفادہ کی لذت اپنے اندر رکھتی ہو۔اس کتاب میں چودہ منفرد علوم ہیں: انہوں نے احادیث کو ابواب کے تحت لکھا۔ جو عمل کے اعتبار سے زیادہ قابل فہم ہے۔ انہوں نے سند پیش کی، حدیث کو صحیح قرار دیا، اسے مشہور بتایا، حدیث کے متعدد طرق پیش کئے، جرح وتعدیل بھی کی، راوی کا نام لکھا اس کی کنیت بھی پیش کی، سند حدیث کو موصول کیا، اور مقطوع بھی۔ معمول بہ کی وضاحت کی اور متروک کی بھی۔ آثار میں علماء حدیث کے اختلاف رد وقبول کو بھی پیش کیا اور یہ اختلاف اپنے مفہوم میں بھی ذکر کیا۔ان علوم حدیث میں ہر علم اپنے موضوع میں ایک اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اپنی ذات میں منفرد بھی ہے۔

امام ابو عبد اللہ محمد بن عمر بن رشید رحمہ اللہ قاضی ابوبکر ابن العربی کی اس گفتگو پر اپنی نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جو کچھ قاضی محترم نے لکھا ہے اس میں کچھ تو اپنا تداخل(interruption) ہے مزید یہ کہ جو علوم انہوں نے گنوانے کی کوشش کی ہے وہ گنوا نہ سکے۔ اگر وہ ان کا بھی شمار کرتے تو تعداد میں یہ چودہ سے کہیں بڑھ جاتے۔ امام ترمذی ؒنے حدیث کو حسن بھی قرار دیا، اور غریب بھی بتایا، متابعت اور انفراد کی بھی بات کی، زیادات الثقات کو بھی ذکر کیا، مرفوع اور موقوف کے فرق کو بتایا، اور مرسل وموصول کو بھی واضح کیا، المزید فی متصل الاسانید بھی پیش کی، صحابہ کی ایک دوسرے سے روایت بھی بتائی، اور اسی طرح تابعین کی بھی۔ صحابی کی تابعی سے روایت کی مثال بھی پیش کی، اوران صحابہ کابھی شمار کرڈالا جنہوں نے تابعی سے حدیث کو روایت کیا۔ کس کی صحبت ِرسول ثابت ہے اور کس کی نہیں؟ اس پر بھی انہوں نے گفتگو کی نیز اکابر کی اصاغر سے روایت کابھی ذکر کیا۔

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی السنن کے آخر میں ایک جزء بنام العِلَلُ الصَّغِیْرُ بھی تصنیف فرمائی جس میں جرح وتعدیل، اسناد کا لازماً ہونا، ضعفاء سے روایت کرنا، ان کی حدیث کب قابل احتجاج ہوگی؟ اور کب نہیں؟ روایت بالمعنی، بعض کبار محدثین کے بارے میں اہم معلومات، تحمل واداء حدیث کی صورتیں؟ حدیث مرسل کا حکم، اور خود ان کی اپنی اصطلاح حدیث حسن اور حدیث غریب وغیرہ جیسے مباحث ہیں۔

٭…امام ابو الحسن أحمد بن عبد اللہ بن صالح العجلی(م: ۲۶۱ھ) کی کتاب الثقات میں بھی جرح وتعدیل اور بعض مصطلحات کا تذکرہ ملتا ہے۔ تاریخ أبی زرعة الدمشقی (م:۲۸۱ھ) رجال وعلم حدیث پر تبصروں سے مملو کتاب ہے ۔ ان کے شاگرد رشید امام ابو بکر الخلال احمد بن احمد بن ہارون (م: ۳۱۱ھ) نے اسے کتاب التاریخ وعِلَلُ الرِّجَال کا نام دیا ہے جس میں امام ابن شہاب الزہری(م:۱۲۴ھ)،امام اوزاعیؒ(م: ۱۵۷ھ)، اور امام مالکؒ بن انس کے اصول ومصطلحات کا تذکرہ بھی ہے۔

٭… ان کتب میں رواۃ کی توثیق وتضعیف، جرح وتعدیل، بعض ثقات رواۃ کی بعض پر تفضیل، نیز مدلس وغیر مدلس، حافظ و احفظ، فقیہ وغیر فقیہ کے مابین افضلیت، حدیث وخبر دینے ، اجازت ، سماع و قراء ت اور اداء حدیث کے اصول اور ان کی مستعمل مصطلحات حدیثیہ کا بھی ذکر ہے۔ کون صحبت رسول اللہ ﷺ سے فیض یاب ہوا اور کون محروم رہا۔ بعض موالی اور ان کے موالی کا ذکر بھی ہے۔متفق اور مختلف فیہ رواۃ حدیث پر بحث بھی ہے۔رواۃ کے انساب، القاب، کنیتیں، مولد، وفیات اور ان کے کچھ شیوخ کاتذکرہ ملتا ہے۔ قدریہ، خوارج، زنادقہ ،مقربین سلطنت اور خروج کرنے والوں کا بھی جابجا ذکر ہے۔

٭… امام یعقوب بن سفیان الفَسَوی (م: ۲۷۷ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ بھی علم مصطلح پر بکھرے بکھرے موتی رکھتی ہے۔ امام ابوبکر احمد بن عمر بن عبد الخالق البزار(م: ۲۹۰ھ) کے مختصر کتابچہ میں متروک اور مقبول راوی پر خاصی علمی بحث تھی جس کا تذکرہ حافظ عراقیؒ نے اپنے الفیہ کی شرح میں کیا ہے ۔

مگر چوتھی صدی ہجری کے وسط میں یہ رجحان غالب آگیا کہ کیوں نہ ایسے مباحث وقواعد کو یک جا مرتب کرکے کتابی شکل دی جائے۔اس لئے مصطلحات کی جامع ومانع تعریفات متأخرین میں قرار پکڑ گئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مدون

۲۔ مدون صورت میں: اس مرحلہ میں یہی چیدہ موتی باہم پروئے گئے۔لڑی سے جب لڑی ملتی گئی تو اصول حدیث بنتے گئے اوراس موضوع پر کتب آنا شروع ہوگئیں۔ ہر اصول صرف صحیح حدیث کو قبول کرنے اور ضعیف وموضوع حدیث کو رد کرنے کا بنا مثلاً: ثقہ راوی اگر ثقات کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت ضعیف قرار دے کر ثقات کی روایت کو ترجیح دی جائے یا ایک حدیث میںرسول اکرم ﷺ کا حکم ہو اور دوسری حدیث میں عمل کا ذکر ہو تو اصول یہ بنایا کہ ہم حکم کے پابند ہیں اس لئے حکم کو لیا جائے گا اور عمل آپﷺ کے لئے خاص گردانا جائے گا۔

٭…یاد رہے ہر مصطلح کسی بھی حدیث کی ایک طویل تحقیق و تفتیش کا لب لباب یا اس پر مختصر تبصرہ ہے۔مثلاً محدث کا کسی حدیث کو سادہ لفظ میں صحیح ، ضعیف یا موضوع کہہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ محدث نے اس متن حدیث کو سمجھنے کے لئے اس حدیث کے دیگر تمام متون مختلف کتب سے تلاش کئے۔ سند میں راویوں کے نام ، ان کی کنیتیں،انساب اور القاب تک کو پہچانا، شاگرد و استاد کی ملاقات ، ان کی ثقاہت وعدالت یا ضعف وارسال ، نیز اخذ واداء کے الفاظ اور فرق وغیرہ اور اسانید کے رواۃ کا باہم مقابلہ کیا ۔ان کے الفاظ و معنی کے ضبط کو دیکھا ۔ کتب بھی دیکھیں، مشایخ سے سنا اور راوی کو دیکھا بھی۔پھر آخرمیں یوں کہہ دیا: یہ حدیث صحیح ہے یا یہ حدیث ضعیف و موضوع ہے وغیرہ۔ چنانچہ یہ ایک قاعدہ اور ضابطہ قرار پایا کہ جب کوئی علم حدیث کا ماہر عالم کسی حدیث کو صحیح کہہ دے تو یہ ایک مصطلح ٹھہرے گی اوراپنی تمام تر شروط کے ساتھ قابل قبول ہوگی۔

٭…کسی ضعیف حدیث کو صحیح اور صحیح کو ضعیف قرار دینے کے اصول صرف درایتی نہیں بلکہ روایتی بھی ہیں۔ روایت میں درایت کا استعمال تو ہے مگر درایت میں روایت کو کوئی جگہ نہ دینا اصول حدیث نہیں۔

٭…یہی وہ قواعد ہیں جن کے اطلاق اور تطبیق (Implementation) سے کسی بھی حدیث کی صحت و ضعف کا پتہ چل جاتا ہے۔ ان پر بے شمار کتب بھی لکھی گئیں۔جن کا تاریخی تذکرہ امام ابن حجرؒ(م:۸۵۲ھ) نے کیا ہے۔

٭…باضابطہ اولین کتاب سب سے پہلے قاضی ابومحمدالحسن بن عبد الرحمن بن خلاد رامہرمزی (م۔۳۶۰ھ) نے لکھی۔جس کا نام المحدث الفاصل بین الراوی والواعی رکھا۔ابتدائی کتاب ہونے کے باوجود پھر بھی اس میں بے شمار علمی فائدے ہیں۔کتاب فن روایت اور اس کے آداب کو متنوع صورت میں اجاگر کرتی ہے۔اپنی کتاب میں درایت حدیث سے متعلق بہت سامواد بھی جمع کیا جو تیسری صدی ہجری کے ائمہ حدیث کے نقدی تبصروں اور الفاظ پر ہی مبنی تھا۔بہت سے مباحث کی ۔۔بقول حافظ ابن حجر۔۔پھر بھی اس میں کمی رہی۔

٭…حافظ ابوعبد اللہ بن مندہ(م: ۳۹۵ھ) رحمہ اللہ نے بھی قرائت وسماع ، مناولہ اور اجازت حدیث پر ائمہ حدیث کی شروط ایک جزء میں جمع کیں جس کا ذکر حافظ سبط ابن العجمی نے اپنی کتاب التبیینُ لأسماءِ المُدَلِّسین میں کیا ہے۔

٭…امام ناقد ابن حبان البستی (م: ۳۵۴ھ)نے اپنی حدیثی کتاب التقاسیمُ والأنْواعُ کا جو مقدمہ لکھا وہ اصول حدیث کا شاہکار ہے۔ دوسری کتاب المجروحین اور تیسری کتاب الثقات کے مقدمے بھی اصول حدیث اور مصطلحات کے مباحث سے مملو ہیں۔بالخصوص پہلی دو کتب کے مقدمے تو علوم حدیث کی تاریخ اور اس کے اہم مباحث اور قواعد کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔اسی صدی کے شروع میں امام ابوسلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی(م: ۳۸۸۔ھ) نے اپنی کتاب مَعَالِمُ السُّنَنِ کا مختصر مقدمہ لکھا جس میں انہوں نے حدیث کی تقسیم صحیح حسن اور ضعیف میں کرڈالی۔یہ اولین کوشش تھی جوروایات حدیث کی تقسیم کی کی گئی۔امام ابو الحسن علی بن محمد بن خلف القابسی(م: ۴۰۳ھ) نے مختصَرُ موطأ عَنْ مالِكٍ کتاب جو الْمُلَخَّصُ لکھی جس کے مقدمے میں اتصال ، انقطاع، الفاظ اداء اور حدیث مرفوع ودیگر انواع پر بحث کی۔

٭…امام حاکم ابوعبد اللہ نیسابوری(م:۴۰۵ھ) نے معرِفَةُ علمِ الحدیثِ لکھی جوابن خلاد رامہرمزی کی کتاب کا تکملہ تھی۔ جس میں مصطلح الحدیث کے علاوہ اس کتاب کے بعض الفاظ کی شرح اور مثالیں بطور وضاحت دی گئیں۔امام حاکمؒ نے اس میں جن ابحاث کو سمیٹا ان میں اسناد عالی ونازل، موقوف ومرسل، اور منقطع، معنعن، معضل اور صحیح وسقیم ودیگر انواع کی تقسیم تھی۔جن کی تعداد باون تک پہنچ گئی۔یہ وضاحت بھی اس میں موجود ہے کہ یہ تمام مصطلحات اور اصول حدیث تیسری صدی ہجری کے ائمہ حدیث کا ہی منہج ہے۔ بہرحال یہ کتاب غیر مرتب اور مزید تحقیق طلب تھی۔ا بونعیم اصفہانی(م: ۴۳۰ھ) نے بھی زیادہ تر امام حاکمؒ کے طریقہ کار کو اپنا کر مستخرَج علی معرفۃِ علومِ الحدیث تصنیف کی اس لئے کہ مستخرج کتاب کا مزاج ہی یہی ہوا کرتا ہے۔یہ کتاب بھی تشنہ رہی اور بعد والوں کے لئے بہت کچھ کرنے کو باقی رہ گیا۔

٭…پانچویں صدی ہجری میں حافظ مشرق امام ابوبکر خطیب بغدادیؒ(م۔۴۶۳ھ) نے علوم حدیث پر بہت لکھا ،ان ابحاث کو سمیٹا، مرتب کیا، کہیں تفصیل دی تو کہیں تقسیم بھی کی۔انہی کے بارے میں ابوبکرؒبن نقطہ الحنبلی نے التقیید میں لکھا:

کُلُّ مَنْ أَنْصَفَ عَلِمَ أنَّ الْمُحدثینَ بَعْدَ الْخطیبِ عِیالٌ علَی کُتُبِہِ۔ جو بھی منصف ہے وہ بخوبی جان لے گا کہ محدثین کرام ، خطیب بغدادی کے بعد ان کی کتب کے محتاج ہیں۔(التقیید)

یعنی سبھی ان کی کتب سے علم حدیث کی غذا لیتے اور مستفید ہوتے ہیں۔امام ابن حجرؒ نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا ہے:

قَلَّ فَنٌّ مِنْ فُنُونِ الْحدیثِ إِلَّا وَقَدْ صَنَّفَ فِیہ ِکتَابًامفردًا۔ فنون حدیث میں شاید ہی کوئی فن ایسا ہو جس پر انہوں نے مستقل کتاب نہ لکھی ہو۔

ان کتب میں سب سے عمدہ اور مفید کتاب الکِفایةُ فِی عِلْمِ الرِّوایَةِ ہے جو علوم حدیث اور اس کی روایت کے اصول وقوانین پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کا منہج مؤلف نے مقدمہ میں یوں واضح کیا ہے:

فِی ھٰذَا الکِتابِ: مَا بِطَالِبِ الْحَدیثِ حَاجَةٌ إلی مَعْرِفتِہِ، وبِالْمُتَفَقِّہِ فَاقَةٌ إلٰی حِفْظِہِ، وَدِرَاسَتِہِ مِنْ بَیَانِ أُصولِ عِلْمِ الْحَدیثِ وَشَرائِطِہِ، وَأَشْرَحُ مِنْ مَذَاھِب سَلَفِ الرواةِ وَ النَّقَلَةِ فِی ذَلِکَ مَا یَکْثُرُ نَفْعُہُ وتَعُمُّ فائدتُہ۔ اس کتاب میں وہ کچھ ہے جس کی معرفت ایک طالب حدیث کے لئے ضروری ہے ۔اور فقیہ بننے کے خواہشمند بھی اس کے حفظ اور مطالعے کے ضرورت مند ہیں کہ اصول علم حدیث اور ان کی شرائط کی وضاحت ہو۔ اس سلسلے میں،میں نے پہلے رواۃ اور حدیث کے ناقلین کے مذاہب کو بھی واضح کیا ہے جن کا ان شاء اللہ بہت نفع اور عام فائدہ بھی ہوگا۔

امام خطیب ؒبغدادی کی علوم حدیث پردوسری اہم کتاب، الجَامِعُ لِآدابِ الشَّیْخِ وَالسَّامِعِ ہے۔جس میں شیخ اور شاگرد یا سامع کے حدیث سننے اور بیان کرنے کے آداب کو انتہائی عقیدت مندی سے بیان کیا ہے اور اسلاف کی مثالیں دے کر حدیث ، اس کی مجالس کا ادب واحترام نیز مشایخ حدیث کی شخصیت ، دروس حدیث کی تیاری اور سامعین کی حاضری ، سننے ولکھنے کے آداب وغیرہ کے مباحث شامل ہیں۔

٭…ابو العباس احمد بن فرح اللخمی إشبیلی دراز قد، بارعب اورو جیہ شخصیت کے مالک عالم حدیث تھے۔ انہوں نے علم حدیث پر ایک بڑا ملیح غزلیہ قصیدہ لکھا جسے امام دمیاطی اور الیونینی نے سنا ۔یہ شائع ہوچکا ہے جس کے کل بیس اشعار تھے۔ اس کا ایک شعر امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ(۲ ۵؍۳۸۴) میں لکھا ہے:

غَرَامِیْ صَحِیْحٌ وَالرَّجَا فِیْكِ مُعْضَلُ وَحُزْنِیْ وَدَمْعِیْ مُرْسَلٌ وَمُسَلْسَلُ

میری محبت بالکل صحیح ہے اور تیرے بارے میں امید ٹوٹی پھوٹی (معضل) ہے میرا غم اور میرے آنسوبہہ (مرسل) رہے ہیں اور مسلسل بہہ رہے ہیں​

٭… اسی صدی کے حافظ حدیث امام ابویعلی الخلیل بن عبد اللہ بن احمد الخلیلی(م: ۴۴۶ھ) نے ایک انتہائی عمدہ کتاب اصول حدیث پر لکھی جس کا نام الإرشاد فی معرفۃ ِعلماءِ الحدیث رکھا۔ اس کی نفاست: تقدیم،مصطلحات حدیث ، ان کی شرح اور مثالوں میں عیاں ہوتی ہے۔ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک محدثین کے پنگھٹ کا صاف وشفاف علم ، اقوال زریں سمیت انہوں نے پیش کیا ہے۔امام بیہقیؒ(م: ۴۵۸ھ) نے بھی المَدْخَلُ إِلَی السُّنَنِ الْکُبْرٰی کتاب لکھی۔ جس کا دوسرا حصہ طبع ہوا ہے مگر پہلا جزء ابھی تک طبع نہیں ہوسکاجس میں علوم الحدیث اور اس کی مصطلحات پر مکمل بحث ہے۔ محقق محترم ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی نے اس جزء کی نقول اور اقتباسات کو مختلف کتب سے تلاش بسیار کے بعد شائع کیا ہے ۔ امام ابن کثیر ؒ نے مقدمہ ابن الصلاحؒ کے بعد امام بیہقیؒ کی اس کتاب کو علم حدیث کا مرجع ثانی قرار دیا ہے۔ المَدْخَلُ میں چوتھی صدی ہجری کے علماء حدیث کے اصول روایت اور اس کے قواعد سے متعلق اقوال بہ اسناد منقول ہیں۔

٭…حافظ مغرب امام ابوعمر یوسف ابن عبد البر اندلسی(م: ۴۶۳ھ) نے موطأ کی شرح التَّمْھِیْدُ لِمَا فِی الْمُوَطَّأِ مِنَ الْمَعَانِی وَالْمَسَانِیدِ کا ایک انتہائی نفیس مقدمہ لکھا جو علم حدیث اور مصطلحات حدیثیہ کی ابحاث میں بہت ہی جامع وشامل اور انتہائی مفید ہے ۔ حافظ ابنؒ الصلاح اپنی کتاب مَعْرِفَةُ أنواعِ عِلْمِ الْحَدِیثِ میں اس سے بھی مستفید ہوئے ہیں۔

٭… امام علی ؒبن احمد بن سعید اندلسی (م: ۴۵۶ھ)، جو ابن حزم الظاہری کے نام سے شہرت رکھتے ہیں کی کتاب الإحْکامُ فِی أُصولِ الأحْکامِ میں علوم حدیث کے قواعدو مصطلحات بھی ہیں مگر یہ انہی کی اختراع ہیں نہ کہ محدثین کرام کے۔

٭… قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبیؒ(م۔۵۴۴ھ) کے نصیب میں الإلْمَاعُ إِلَی مَعْرِفَةِ أصولِ الرِّوایةِ وَتَقْیِیْدِ السَّمَاعِ جیسی مختصر مگر مفید کتاب تھی جس میں اصول روایت، طرق تحمل حدیث، ان کی حجیت نیز الفاظ اداء حدیث اور اس کے آداب جیسے اہم مباحث ہیں۔اس کتاب میں مصطلحات حدیثیہ پرکوئی خاص گفتگو نہیں ۔مقدمہ صحیح مسلم کی شرح إِکْمَالُ الْمُعْلِمِ بِفَوَاِئدِ مُسْلِمٍ میں علوم حدیث کے بعض اہم مباحث کا تذکرہ ہے۔ چونکہ قاضی عیاض ؒ ایک اصولی اورفقیہ بھی تھے اس لئے ان کی اس شرح میں فقہاء، اصولیین اور متکلمین کے اقوال کی بھرمار ہے جس کا غلبہ متاخر محدثین پر بھی نظر آتا ہے۔

٭…ابوحفص میانجی یا میانشی جو عمر بن عبد المجید بن عمر القرشی نزیل مکہ (م:۵۸۰ھ) تھے انہوں نے بھی مَالَا یَسَعُ الْمُحَدِّثَ جَھْلُہُ نامی کتاب لکھی ۔یہ ایک مختصر اور مفید کتابچہ ہے جس کا غالب حصہ امام حاکمؒ کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث اور امام خطیبؒ بغدادی کی کتاب الکفایۃ سے منقول ہے۔

٭…امام ابو السعادات مبارک بن محمد (م: ۶۰۶ھ) ابن الاثیر کی کتاب جَامِعُ الأصولِ کے مقدمہ کا باب ثالث علم حدیث اوراس سے متعلقات کا شاہکار ہے ۔ فصیح عبارت، بہتر اسلوب ولطافت میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔باب کے آغاز میں ہی انہوں نے اعتراف کیا کہ میری یہ محنت امام ترمذیؒ ، امام حاکمؒ، اور خطیب بغدادیؒ کی کتب کی مرہون منت ہے۔

٭… ابوبکر محمد بن موسیٰ الحازمی(م: ۵۸۵ھ) کی شُروطُ الأئِمَّۃِ الْخَمْسَۃِ،ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی(م: ۶۰۷ھ) کی شرُوطُ الأئِمَّۃِ السِّتَّۃِ، ابوطاہر احمد بن محمد السلفی (م:۵۷۶ھ)کی الوَجِیزُ فِی ذِکرِ الْمَجازِ وَالْمُجِیزِ، (تحقیق وتخریج ڈاکٹر فرحت ہاشمی) وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔اس فن میں بے شمار کتب ہیں مگر آخر میں دو اہم کتب کا تعارف ضرور ی ہے جن سے علم حدیث کو نئی جہت ملی ۔ان میں پہلی کتاب کے مصنف :

٭…علومُ الحدیث یا مُقَدِّمَۃُ ابنِ الصلاحِ یہ ابوعمرو عثمان بن الصلاح عبد الرحمن شہرزوری (م:۶۴۱ھ) کی تصنیف ہے ۔ دمشق کے مدرسہ اشرفیہ میں تدریس حدیث کے دوران انہوں نے اس فن کا گہرا مطالعہ کیا۔ بالخصوص امام خطیب بغدادی کی کتب سے مستفید ہوئے۔ اسے سمیٹا ،نئی ترتیب دی اورپھر تھوڑا تھوڑا کرکے املاء کرایا ۔اور پینسٹھ انواع علوم حدیث بیان کیں۔مگر کتاب ویسی مرتب نہ ہوسکی جیسا اس کا حق تھا ۔ اس کتاب کے بعد علم حدیث کا فن اپنی جولانیوں سمیت تھم گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقدمہ ابن الصلاح میں علماء کی دل چسپی


چونکہ مؤلف نے اس کتاب میں اہم مباحث پرودئے تھے۔دیگربے شمار محاسن کی وجہ سے یہ کتاب ہر طالب علم، محدث اور عالم کے لئے مشرب علم بن گئی۔ وہ اس کے اسلوب بیان ، مختلف النوع موضوعات اور متعدد علمی فوائد کے ایسے فریفتہ ہوئے کہ انہوں نے اس کی متعدد شروحات و اختصارات لکھے۔ حاشیے چڑھائے اور نظم بندی کی۔

حافظ عراقی رحمہ اللہ (م: ۷۰۸ھ) نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح لکھی جس کا نام انہوں نے التَّقْیِیْدُ وَالإیْضَاحِ رکھا۔حافظ ابن حجر عسقلانی(م:۸۵۲ھ) نے بھی الإفْصَاحِ عَنْ نُکَتِ ابْنِ الصَّلاح نام کی شرح لکھی۔ امام نووی رحمہ اللہ (م: ۶۷۶ھ) نے اس مقدمہ کا اختصارالإرْ شَاد کے نام سے لکھا پھر اس کی ایک اور مختصرلکھی جس کا نام انہوں نے التَّقْرِیْب رکھا۔جس کی شرح امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (م:۹۱۱ھ) نے تَدْرِیْبُ الرَّاوِیْ لکھی۔پھر اس کا اختصار بدرالدین محمد بن ابراہیم بن جماعۃ (م:۷۳۳ھ) نے المَنْہَلُ الرَّوِیّ کے نام سے لکھا۔المَنْہَل کی شرح بدر الدین کے پوتے عزالدین محمد بن ابی بکر بن جماعۃ(م:۸۱۹ھ) نے المَنْہَجُ السَّوِیّ کے عنوان سے لکھی۔اسی طرح مقدمہ کا اختصار امام اسماعیل بن کثیر (م:۷۷۴ھ) نے بھی اختصارُ عُلومِ الْحَدِیْثِ لکھا۔جس کی شرح البَاعِثُ الْحَثِیْثِ کے عنوان سے علامہ احمد محمد شاکر نے لکھی۔حافظ البلقینی (م: ۸۰۵ھ) نے بھی مقدمہ کا اختصار لکھا جو مَحَاسِنُ الِاصْطِلَاحِ وَتَضْمِیْنُ کتَابِ ابْنِ الصَّلاحِ کے عنوان سے چھپ چکا ہے۔

اس کتاب کو نظم میں بھی لکھا گیا۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے نَظْمُ الدُّرَرِ فِی عِلْمِ الاَثَرِ کے نام سے ہزار اشعار پر مبنی اس کا الفیہ لکھا۔اس الفیہ میں انہوں نے کچھ اضافہ بھی کیا اور دوشرحیں بھی اس کی خود لکھ ڈالیں۔پہلی شرح فَتْحُ الْمُغِیْثِ کے نام سے ہے اور دوسری أَلْفِیَۃُ الْعِرَاقِی کے عنوان سے۔پھر اس الفیہ عراقی کی شرح امام شمس الدین سخاوی (م: ۹۰۲ھ) نے فَتْحُ الْمُغِیْثِ ہی کے نام سے لکھی۔ جو بہت مکمل اور عمدہ شرح ہے۔اسی طرح الفیہ العراقی کی شرح شیخ زکریا انصاری (م: ۹۲۸ھ) نے بعنوان فَتْحُ البَاقِی لکھی۔ امام سیوطی نے بھی اس الفیہ پر کچھ اضافہ کرکے پانچ دنوں میں اس پر الفیہ لکھا ۔

٭…دوسری منفرد، مختصر مگر جامع کتاب نُخْبَۃُ الْفِکَرِ فِی مُصْطَحِ أہْلِ الَأثرِ ہے۔جس کے مؤلف امام ابو الفضل أحمد بن علی بن محمد المعروف بابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ(م: ۸۵۲ھ) ہیں۔پھر خود اس کی شرح بھی لکھی جو نُزْہَۃُ النَّظَرِ فِی تَوضِیْحِ نُخْبَۃِ الْفِکَر کے نام سے ہے۔علماء حدیث نے اس پر توجہ دی۔ کیونکہ یہ مختصر، مرتب، محقق اور اہم مباحث پر مشتمل کتاب تھی نیز اس میں چند ایسے مباحث تھے جو مقدمہ ابن الصلاحؒ میں نہیں تھے۔اس لئے یہ کتاب مدارس وعلماء کے ہاں اہمیت اختیار کرگئی جس کی شروحات، مختصرات اور حواشی اور نظم بکثرت لکھی گئیں جن کا احاطہ کرنا شاید آسان نہیں۔ امام ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

میں نے بھی احباب کے اصرار پر ایک کتاب لکھی جس کا نام نُخْبَۃُ ا لْفِکَر رکھاہے۔پھر اس کی ایک شرح لکھی جو نُزْہَۃُ النَّظَرِ کے نام سے ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں متکلمین اور فقہاء کی ضروریات کو میں نے پیش نظر رکھاہے۔(شرح نخبۃ الفکر: ۲۔۵)

٭… علم حدیث میں جن متاخرعلماء نے حصہ لیا ان میں امام نوویؒ (م:۶۷۶ھ)، ابن دقیق العید، الذہبی، ابن کثیر (م:۷۷۴ھ)، عراقی (م: ۸۰۶ھ)، ابن حجر (م:۸۵۲ھ) اور سیوطی (م: ۹۱۱ھ)، سخاوی رحمہم اللہ شامل ہیں انہوں نے بالترتیب اختصار در اختصار، نظم اور شرح جیسا کام اسی مقدمہ ابن الصلاح پر کر ڈالا۔ التَّقْرِیْبُ، الِاقْتِرَاحُ، المُوقِظَۃُ، الباعِثُ الحَثِیثِ، النُّکَتُ عَلَی کتابِ ابن الصلاح، أَلْفِیَۃ جیسے عمدہ کام اس کتاب کی خدمت ہیں۔اس علم میں انتہائی جامع کتاب محمد بن ابراہیم (م: ۸۴۰ھ) نے لکھی جو تَنْقِیْحُ الاَنْظَارِ کا عنوان رکھتی ہے۔اور جو ابن الوزیر کے نام سے مشہور ہیں۔اسی طرح نخبۃ الفکر کی ایک قابل قدر شرح شیخ عبد الرؤف المناوی (م: ۱۰۳۱ھ) نے الیَوَاقِیْتُ الدُّرَرِ فِیْ شَرْحِ نُخْبَۃِ الْفِکَرِ لکھی۔ جدید تصنیفات میں قابل قدر کام تَوْضِیْحُ الاَفْکاَرِ از امیر صنعانی (م: ۱۱۸۲ھ)، قَوَاعدُ التَّحدیثِ از جمال الدین قاسمی (م:۱۳۳۲ھ) اور تَوجِیہُ النَّظَرِ از شیخ طاہر جزائری (م: ۱۳۳۸ھ) کی کتب ہیں۔ اس طرح ایک راہنما کتب کا خاطر خواہ ذخیرہ بھرپور نقد وتبصرے کے بعددستیاب ہوگیا۔ آج بحمد اللہ علم حدیث خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ کے اصول پر قائم اور اہل فکر کے لئے ایک راہنما ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
 
Top