• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم روایت میں تقسیم آحاد و تواتر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم روایت میں تقسیم آحاد و تواتر

حافظ ثناء اﷲ زاہدی
مُترجِم: قاری مصطفی راسخ​
گذشتہ شمارہ میں محمد آصف ہارون کے قلم سے ’تواتر کامفہوم اور ثبوتِ قراء ت کاضابطہ‘ کے زیر عنوان ایک تحقیقی مقالہ شائع کیاگیا تھا۔ زیر نظر مضمون کو اسی اُصولی موضوع کا تسلسل شمار کرنا چاہئے، جس میں فاضل شخصیت، معروف عالم دین مولانا حافظ ثناء اللہ زاہدی﷾ نے فن خبر میں ’تقسیم آحاد و تواتر‘ کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے دلائل کے ساتھ بالتفصیل اس بات کو واضح کیا ہے کہ علم روایت میں کسی خبر کی تقویت کا اساسی معیار عددی اکثریت یا اقلیت نہیں، بلکہ راوی کا کردار (عدالت)، صلاحیت (ضبط) اور اتصالِ سند وغیرہ ہے۔ ہمیں ان کے مؤقف سے اس حد تک کامل اتفاق ہے کہ معتزلہ اور بعض متاخر اُصولیین کا، ان بنیادی شرعی معیارات سے قطع نظر، روایت کو افراد کی کثرت و قلت (تواتر وآحاد) کے معیارات پر پرکھنا سلف صالحین کے متفقہ تعامل سے انحراف کی بنا پر ایک واقعی بدعت ہے۔ لیکن علم و تحقیق کے میدا ن میں جس طرح ہر مؤقف سے کلی اتفاق ضروری نہیں، ہم بھی عرض کرناچا ہتے ہیں کہ حضرت العلام کی یہ رائے کہ محدثین کے ہاں ’تقسیم آحاد و تواتر‘ خبر کی کوئی مسلمہ تقسیم نہیں، مناسب نہیں۔ اگر بعض لوگ روایات کی قبولیت و ردّ کا معیار عددی اکثریت یا اقلیت کو تسلیم کرتے ہیں تو ان کے ردّعمل میں سرے سے تقسیم آحاد و تواتر کا انکار کردینا گویا علمائے حدیث کی ایک ہزار سالہ متفقہ رائے سے چشم پوشی ہے، جس کے حوالے سے رُشد قراء ات نمبر اوّل و دوم میں ’تعارف علم قراء ات‘ نامی مضمون میں سوال نمبر ۱۸ تا ۲۲ میں اور جناب آصف ہارون کے محولہ بالا مضمون میں تفصیلاً بحث پیش کر دی گئی ہے۔
اس اختلاف سے قطع نظر عمومی پہلو سے حضرت حافظ صاحب﷾ کا یہ مؤقف کہ قبولِ روایت میں اساسی شے عددی قلت و کثرت نہیں بہرحال ایک مفید بحث ہے جس کی ’ضابطہ ثبوت قراء ات‘ سے یک گونہ مناسبت کی وجہ سے رُشد قراء ات نمبر سوم میں اسے ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خبر متواتر اورخبر واحد کی تقسیم سے متعلق یہاں چند انتہائی اہم امور پر متنبہ ہونا ضروری ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(١) متواتر اپنی متعدد تعاریف، اَحکام، مختلف شرائط اور کتب اُصول وغیرہ میں مذکور وسیع اختلاف کے باوجود ایسی شئ ہے کہ اسے اصلاً اور ابتداء ً مسلمانوں نے ایجاد اور وضع نہیں کیا اور نہ ہی یہ لفظ کلّی یا جزئی طور پر اپنے اصطلاحی متعلقات کے ساتھ عہدنبویﷺ، عہد صحابہ رضی اللہ عنہم اور عہد تابعین رحمہم اللہ میں متعارف تھا۔ بلکہ اس فکر (یعنی خبر متواتر اور خبر واحدکی فکر) کی بنیاد کتبِ فلاسفہ ہیں۔ عباسی خلیفہ عبداللہ بن ہارون الرشید المأمون (المتوفی:۲۱۸ھ) نے بڑے اِہتمام سے ان کتب کے ترجمے کروائے جس کے نتیجے میں یہ فکر، اِسلامی اَبحاث اور دینی مقامات میں داخل ہوگئی۔ نیز اس کے حلقہ اَحباب میں شامل عیسائی اطباء اور فرقہ جہمیہ کے علماء وغیرہ نے اس میں اَہم کردار اَدا کیا۔
یہ کتب ،فلسفہ کی چار اَنواع پر مشتمل تھیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ریاضیات: یعنی انجینئرنگ، جغرافیہ، علم الأعداد اور علم موسیقی وغیرہ۔
(٢) طبیعیات: یعنی نباتات، معدنیات، حیوانات، کائنات، جسم، صورت، زمان و مکان اور حرکت وغیرہ کا علم۔
(٣) الٰہیات : یعنی واجب الوجود، فرشتوں اور نفسیات وغیرہ کی بحث۔
(٤) منطقیات: اور یہ پانچ ہیں۔ شعر، خطب، جدل، برھان اور مغالطہ کی صنعت، فلاسفہ کے ہاں اس کو ضاعات خمسہ کہا جاتا ہے۔
اِن ضاعات خمسہ میں سے برہان (جس کو فلاسفہ قیاس برھانی کہتے ہیں) تیرہ(۱۳) مادوں پر قائم ہے۔ ان میں سے ایک متواترات کا مادہ ہے۔ جیسا کہ ابن سیناء کی شفاء المنطق (قسم البرھان:۶۷) میں ، الشمسیۃ فی المنطق مع شروحھا (ص:۳۰۷،۳۰۸) میں، ایسا غوجی (ص:۷۴) میں، المنطق للشیعي محمد رضا المظفر (ص:۲۶۴) میں،محک النظر لابن حزم (ص:۲۳۴) میں، مقاصد الفلاسفۃ للغزالي (ص:۳۹) میں اور لقطۃ العجلان للزرکشی (ص:۱۱۳) وغیرہ جیسی کتبِ فلسفہ و منطق میں تفصیلاً موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) جب مسلمان اہل علم نے ان کتب سے یہ فکر لے لی اور اس کے ظاہری حسن و جمال سے متاثر ہوگئے تو بعض اہل علم نے اس کو، اخبار اور مرویات کو پرکھنے کے محدثین کے نظام تحقیق پر تطبیق دینے کی کوشش کی۔ اور اپنے گمان کے مطابق وہ محدثین کے نظام کو مضبوط اور اس کی بنیاد وں کو پختہ کررہے تھے۔ جیسا کہ عام اَہل الرائے اور متکلمین اصولیوں نے کیا۔ جبکہ بعض بدعتی فرقوں نے اپنی بدعات و خرافات کو رواج دینے کے لیے متون اور اَسانید کی تحقیق و تدقیق پر مبنی محدثین کے منہج سے جان چھڑا کر اَخبار کو متواتر اور آحاد میں تقسیم کردیا اور کہا کہ جو کچھ محدثین روایت کرتے ہیں اس میں سے کچھ بھی متواتر نہیں ہے اور اخبار آحاد اس اَمر میں حجت نہیں ہیں۔
پھر مذکورہ دونوں مکاتب فکر ، اپنی نیتوں کے اختلاف اور عقائد کے فرق کے باوجود، ان اُمور کی شرح اور تفاصیل بیان کرتے وقت علمی فتنے میں مبتلا ہوگئے جس میں قدیم فلاسفہ ہوئے تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے اَخبار کو ابتدائی طور پر متواتر اور آحاد میں تقسیم کردیا پھر ان دونوں کے درمیان ایک اَساسی فارق کے ساتھ تمیز کردی اور کہا :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی قسم: (متواتر) میں تو کمیت و کیفیت کے اِعتبار سے مجہول عوامی کثرت سے قطعیت حاصل ہوجاتی ہے۔
دوسری قسم: (آحاد) میں ظن معلق رہتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے متواتر کی صحیح تعبیر اور یقین تک پہنچانے والی حقیقی شرائط اور اس اصطلاح اور اس کے تابع اَحکام کی معنویت کی تحقیق میں محکم ضوابط کی توضیح میں شدید اختلاف کیا ہے۔
اَکثر لوگوں نے اس مقصد کے لیے متواتر کی تعریف اُسی اَساس اور بنیاد پر کی ہے جو بنیاد اور اَساس کتب فلاسفہ نے مہیا کی تھی یعنی حصول قطعیت کے لیے صرف عوامی کثرت پر اعتماد کرنا۔ چنانچہ انہوں نے متواتر کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
’’ما رواہ قوم لا یحصیٰ عددھم ولا یتوھم تواطؤھم علی الکذب۔‘‘
’’جس کو ایک لاتعداد قوم نے روایت کیا ہو اور ان کے جھوٹ پر اکٹھا ہونے کا گمان نہ ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِبتداء ً اس اَساس پریہ تعریف بڑی خوبصورت اور شاندار نظر آتی ہے اور عقل و فکر کو خوش کردیتی ہے لیکن اگر تحقیق و تدقیق اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ اَساس فاسد اور انتہائی لغو محسوس ہوتی ہے، کیونکہ مکارم اخلاق، محاسن اَقدار اور اعلیٰ خصائل سے عاری فقط عددی اکثریت اغلب معاشروں میں، جہالت، گمراہی، رذالت و دناء ت کا خلاصہ ہے۔ چنانچہ فقط عددی اکثریت کو احکام شرعی سے متعلق رِوایات و اَخبار کے باب میں قطعیت و یقین کی علت بنانا درست اور مناسب نہیں ہے۔ نہ تو اللہ تعالیٰ اس فکر کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی علماء میں سے صاحب عقل و بصیرت اس کی تائید کرتے ہیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ وَ لٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ (یوسف:۲۱) ’’مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
’’وَلٰکِنَّ أَکْثَرَکُمْ لِلْحَقِّ کٰرِھُوْنَ‘‘ (زخرف:۷۸) ’’لیکن تم میں اکثر کو حق ناگوار گزرتا ہے۔‘‘
’’وَ أَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘ ( آل عمران:۱۱۰) ’’ان کے اکثرافراد نافرمان ہیں۔‘‘
’’ وَ أَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ‘‘ (المائدہ:۱۰۳) ’’ اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں‘‘
’’ وَ لٰکِنَّ أَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ‘‘ ( الانعام:۱۱۱) ’’ لیکن ان میں سے اکثر جاہل ہیں۔‘‘
’’وَمَا یَتَّبِعُ أَکْثَرُھُمْ اِلاَّ ظَنًّا‘‘ (یونس:۳۶)
’’حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ، محض قیاس اور گمان کے پیچھے چلے جارہے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ھُمْ اِلاَّ کَالْأَنْعٰمِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً‘‘ (الفرقان:۴۴)
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔‘‘
’’وَأَکْثَرُھُمْ کٰذِبُوْنَ‘‘ ( الشعراء :۲۲۳) ’’اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں۔‘‘
’’وَاِنْ تُطِعْ أَکْثَرَمَنْ فِی الْأَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ‘‘ (الأنعام:۱۱۶)
’’اے نبیﷺ! اور اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔‘‘
قرآن مجید میں اس معنی کی متعدد آیات مبارکہ موجود ہیں جو اس اَمر پردلالت کرتی ہیں کہ محض عوامی کثرت جھوٹ، جہالت، فسق اور گمراہی کا مجموعہ ہے، ان سے یقینی حکایات اور قطعی اَخبار کا حصول مناسب نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُمور شریعت یا کسی اَمر کے ثبوت اور صدق کے لیے ایسے لوگوں کی روایت پراعتماد کرنے کا اِنکار کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اہل علم میں سے اِمام الحرمین الجوینی ﷫ اپنی کتاب ’البرھان‘ (۱؍۵۷۸،۵۷۲) میں لکھتے ہیں:
’’ما من عدد تمسک بہ طائفۃ إلا ویمکن فرض تواطئھم علی الکذب۔‘‘
’’کوئی بھی اَیسا عدد نہیں ہے جس پر ایک جماعت نے اعتماد کیا ہو، مگر اس کا جھوٹ پراکٹھا ہونے کا اِمکان موجود رہتا ہے۔‘‘
٭ امام رازی﷫ اپنی کتاب ’المحصول‘ (۴؍۳۷۷) میں فرماتے ہیں:
’’الحق أن العدد الذي یفید قولھم العلم غیر معلوم، فإنہ لا عدد یفرض إلا وھو غیر مستبعد في العقل صدور الکذب عنھم۔‘‘
’’حق بات یہی ہے کہ علم کا فائدہ دینے والا عدد غیر معلوم ہے، کیونکہ کوئی بھی فرضی عدد ایسا نہیں ہے ، مگر عقلاً ان سے جھوٹ کا صدور بعید نہیں ہے۔‘‘
٭ امام سرخسی﷫ ’الاصول‘ (۱؍۲۹۴) میں فرماتے ہیں:
’’لا یوجد حد من حیث العلم یثبت بہ علم الیقین۔‘‘
’’عدد کی کوئی ایسی متعین حد نہیں پائی جاتی جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام سبکی﷫ ’رفع الحاجب‘ (۲؍۳۰۴) میں فرماتے ہیں :
’’ویختلف عدد التواتر باختلاف قرائن التعریف، وأحوال المخبرین، والاطلاع علیھما، وإدراک المستمعین، والوقائع۔‘‘
’’ تفصیلات، مستمعین کے ادراک، اطلاع خبر، مخبرین کے احوال اور تعریف کے قرائن مختلف ہونے کے سبب تواتر کا عدد بھی مختلف ہوتا ہے۔‘‘
اَحناف میں سے امام بزدوی﷫، امام سرخسی﷫، امام حسامی﷫، امام اتقانی﷫ اور امام خبازی﷫وغیرہ نے تواتر میں معتبر عددی کثرت کو عدالت، اسلام، تباین اماکن، آراء کے اختلاف اور اختلاف طبائع وغیرہ میں مقید کیا ہے۔ اگر ان کے نزدیک محض عوامی اکثریت متواتر میں قطعیت کی علت ہوتی تو وہ محض عددی اکثریت کو ان شروط واوصاف میں مقید نہ کرتے۔
(٣) حصول یقین کے لیے مذکورہ عوامی کثرت کو معتبر کہنے والوں نے اس پر اعتماد کرنے میں شدید اختلاف کیا ہے۔ان کا یہ اختلاف دو اعتبار سے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) مقدار کے اِعتبار سے
حصول یقین کے لیے بعض نے کہا ہے کہ راویوں کی تعداد پانچ ہو، بعض نے سات، بعض نے دس، اسی طرح بعض نے بارہ، بیس، چالیس، ستر، تین سو ، چودہ سو، پندرہ سو، سترہ سو، اور بعض نے کہا کہ اتنی تعداد ہو کہ پورا شہر ان سے بھر جائے یا بعض نے کہا اسے لاتعداد لوگوں نے نقل کیا ہو یا بعض نے کہا کہ پوری اُمت نے اسے روایت کیا ہو وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ اقوال ،کشف الأسرار لعلاء الدین البخاري (۲؍۶۵۷)، البحر المحیط للزرکشي (۴؍۲۳۲)، الإیضاح للمازري (ص۴۲۶)، التمہید لأبي الخطاب (۳؍۲۸)، تحفۃ المسئول لابن موسیٰ (۲؍۳۲۴) اور دیگر اُصول مصادر میں موجود ہیں۔
انہوں نے پانچ کے عدد سے لے کر پوری اُمت کو اس میں شامل کردیا ہے اور یہ اجماع کا مسئلہ ہے تواتر کا نہیں۔ اِجماع سے کم شئ پران کا دل مطمئن نہیں ہوا۔
اس اِختلاف، اضطراب اور تشویش کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی چیز (محض عوامی کثرت) کو قطعیت کی علت قرار دے دیا ہے جو درحقیقت قطعیت کی حقیقی علت نہیں ہے۔ اس کے ظاہری جمال کو دیکھ کر ہر شخص یہی گمان کرتا ہے کہ یہ حقیقی فکر اور علت ہے حالانکہ یہ صرف وہم اور خیال ہے۔ ’’کَسَرَابٍ بِقِیْعَۃٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْئَانُ مَآئً حَتّٰی اِذَا جَآئَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا‘‘ (النور:۳۹)
 
Top