• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علوم الحدیث: ایک تعارف

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم
كتاب كا نام
علوم الحدیث: ایک تعارف

مصنف كا نام
محمد مبشر نذیر

نوٹ

اس کتاب کے زیادہ تر ابواب ڈاکٹر محمود طحان کی "تیسیر مصطلح الحدیث" سے ماخوذ ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرست مضامین

  1. [LINK="#post4247"]دیباچہ[/LINK]
  2. حصہ اول: تعارف
  3. یونٹ 1: علوم الحدیث کا تعارف
  4. سبق 1: تدوین حدیث کی تاریخ (History of Hadith Compilation)
  5. احادیث کی تدوین: پہلی، دوسری اور تیسری صدی ہجری میں
  6. وضع احادیث کے اسباب
  7. سوالات
  8. سبق 2: احادیث کی چھان بین کے طریقے
  9. سند کا اتصال
  10. سوالات
  11. سبق 3: حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات
  12. حدیث کی چھان بین کی ضرورت کیا ہے؟
  13. فن حدیث پیچیدہ کیوں ہے؟
  14. احادیث کو دیر سے کیوں مدون کیا گیا؟
  15. سوالات
  16. سبق 4: حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات
  17. کہیں ہم صحیح احادیث کو رد تو نہیں کر رہے؟
  18. دین کو سمجھنے کے لئے حدیث کا کردار کیا ہے؟
  19. بعد کی صدیوں میں حدیث پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟
  20. سوالات
  21. سبق 5: دور جدید میں حدیث کی خدمت کی کچھ نئی جہتیں
  22. سوالات
  23. سبق 6: علوم حدیث کی اہم اور مشہور کتب
  24. سوالات
  25. سبق 7: علم المصطلح کی بنیادی تعریفات
  26. علم المصطلح
  27. علم المصطلح کا موضوع
  28. علم المصطلح کا مقصد
  29. حدیث
  30. روایت
  31. خبر
  32. اثر
  33. اسناد
  34. سند
  35. متن
  36. مُسنَد (نون پر زبر کے ساتھ)
  37. مُسنِد (نون پر زیر کے ساتھ)
  38. مُحدِّث
  39. سوالات
  40. سبق 8: علم المصطلح کی بنیادی تعریفات
  41. حافظ
  42. حاکم
  43. راوی
  44. شیخ
  45. صحت و ضعف
  46. موضوع
  47. متصل اور منقطع روایت
  48. ضبط
  49. تابعین اور تبع تابعین
  50. شرح
  51. عربوں کے نام
  52. سن وفات
  53. حدیث کے کتاب کے مصنف کی شرائط (Criteria)
  54. تخریج
  55. شیخین اور صحیحین
  56. سوالات
  57. سبق 9: کتب حدیث کا ایک تعارف
  58. صحیح احادیث پر مشتمل کتب
  59. احکام کی احادیث پر مشتمل کتب
  60. راوی صحابی کی ترتیب پر مشتمل کتابیں
  61. اساتذہ کی ترتیب پر مشتمل کتابیں
  62. احادیث و آثار پر مشتمل کتابیں
  63. جامع کتب
  64. اجزا
  65. سیرت
  66. تاریخ
  67. اسائنمنٹ
  68. سبق 10: مشہور محدثین کا تعارف
  69. ابوحنیفہ نعمان بن ثابت
  70. مالک بن انس
  71. عبداللہ بن مبارک
  72. سفیان بن عینیہ
  73. محمد بن ادریس شافعی
  74. یحیی بن معین
  75. احمد بن حنبل
  76. محمد بن اسماعیل بخاری
  77. مسلم بن حجاج
  78. ابو عیسی ترمذی
  79. ابن ابی حاتم رازی
  80. احمد بن حسین البیہقی
  81. خطیب بغدادی
  82. ابن عبدالبر
  83. عبد الغنی المقدسی
  84. ابن الاثیر
  85. جلال الدین سیوطی
  86. اسائنمنٹ
  87. حصہ دوم: خبر (حدیث)
  88. یونٹ 2: خبر کی اقسام
  89. سبق 1: تاریخی معلومات کے حصول کے ذرائع
  90. سوالات
  91. سبق 2: خبر متواتِر
  92. متواتر کی تعریف
  93. متواتر کی شرائط
  94. متواتر کا حکم
  95. متواتر کی اقسام
  96. متواتر کا وجود
  97. متواتر سے متعلق مشہور تصانیف
  98. سوالات اور اسائنمنٹ
  99. سبق 3: خبر واحد
  100. خبر واحد کی تعریف
  101. خبر واحد کا حکم
  102. خبر واحد کی اقسام
  103. سوالات اور اسائنمنٹ
  104. سبق 4: خبر مشہور
  105. خبر مشہور کی تعریف
  106. خبر مشہور کی مثال
  107. خبر مستفیض اور خبر مشہور
  108. غیر اصطلاحی معنی میں خبر مشہور
  109. غیر اصطلاحی خبر مشہور کی اقسام
  110. خبر مشہور کا حکم
  111. خبر مشہور سے متعلق اہم تصانیف
  112. سوالات اور اسائنمنٹ
  113. سبق 5: خبر عزیز
  114. خبر عزیز کی تعریف
  115. تعریف کی وضاحت
  116. خبر عزیز کی مثالیں
  117. خبر عزیز سے متعلق اہم تصانیف
  118. سوالات اور اسائنمنٹ
  119. سبق 6: خبر غریب (اکیلے شخص کی خبر)
  120. خبر غریب کی تعریف
  121. تعریف کی وضاحت
  122. خبر غریب کا دوسرا نام
  123. خبر غریب کی اقسام
  124. غریب نسبی کی ذیلی اقسام
  125. غریب احادیث کی دوسری تقسیم
  126. غریب احادیث کہاں پائی جاتی ہیں؟
  127. غریب احادیث سے متعلق مشہور تصانیف
  128. سوالات اور اسائنمنٹ
  129. یونٹ 3: خبر مقبول
  130. سبق 1: خبر واحد کی قوت (قابل اعتماد ہونے) کے اعتبار سے اس کی تقسیم
  131. خبر مقبول کی اقسام
  132. سوالات اور اسائنمنٹ
  133. سبق 2: صحیح حدیث (1)
  134. صحیح حدیث کی تعریف
  135. تعریف کی وضاحت
  136. صحیح حدیث کی شرائط
  137. صحیح حدیث کی مثالیں
  138. صحیح حدیث کا حکم
  139. اس بات کا کیا مطلب ہے کہ "یہ حدیث صحیح ہے" اور "یہ حدیث صحیح نہیں ہے"
  140. کیا کسی سند کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ترین سند ہی ہو گی؟
  141. صرف صحیح احادیث پر مبنی سب سے پہلی تصنیف کون سی ہے؟
  142. ان میں سے کون سی زیادہ صحیح ہے؟
  143. کیا بخاری و مسلم نے تمام صحیح حدیثیں اپنی کتابوں میں شامل کر لی ہیں؟
  144. کیا ان کتب میں درج ہونے سے بہت زیادہ احادیث باقی رہ گئی ہیں یا تھوڑی سی؟
  145. ان دونوں میں احادیث کی تعداد کیا ہے؟
  146. سوالات اور اسائنمنٹ
  147. سبق 3: صحیح حدیث (2)
  148. جو صحیح احادیث بخاری و مسلم میں درج ہونے سے رہ گئی ہیں، وہ کہاں پائی جاتی ہیں؟
  149. مستدرک حاکم، صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمۃ
  150. صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر مستخرجات
  151. مستخرج کا موضوع
  152. صحیحین (بخاری و مسلم) پر کی گئی مستخرجات
  153. کیا مستخرجات کے مصنفین نے حدیث کے الفاظ میں صحیحین کی پیروی کا اہتمام کیا ہے؟
  154. کیا یہ درست ہے کہ ہم مستخرج سے حدیث نقل کریں اور اس کی بنیاد پر اصل کتاب کی حدیث کو تقویت دینے کی کوشش کریں؟
  155. مستخرجات کا کیا فائدہ ہے؟
  156. بخاری و مسلم کی کون سی روایات صحیح ہیں؟
  157. صحیح حدیث کے مراتب و درجات
  158. شیخین (امام بخاری و امام مسلم) کی شرائط
  159. "متفق علیہ" کا مطلب
  160. کیا صحیح حدیث کا عزیز ہونا ضروری ہے؟
  161. سوالات اور اسائنمنٹ
  162. سبق 4: حسن حدیث
  163. حسن حدیث کی تعریف
  164. حسن حدیث کا حکم
  165. حسن حدیث کی مثالیں
  166. حسن حدیث کے درجات
  167. "صحیح الاسناد" اور "حسن الاسناد" حدیث کا معنی
  168. امام ترمذی وغیرہ کے قول "یہ حدیث حسن صحیح ہے" کا معنی
  169. امام بغوی کی کتاب "مصابیح السنۃ" میں احادیث کی تقسیم
  170. حسن حدیث کہاں پائی جاتی ہے؟
  171. سوالات اور اسائنمنٹ
  172. سبق 5: صحیح لغیرہ
  173. صحیح لغیرہ کی تعریف
  174. صحیح لغیرہ کا درجہ
  175. صحیح لغیرہ کی مثالیں
  176. سوالات اور اسائنمنٹ
  177. سبق 6: حسن لغیرہ
  178. حسن لغیرہ کی تعریف
  179. حسن لغیرہ کا درجہ
  180. حسن لغیرہ کا حکم
  181. حسن لغیرہ کی مثالیں
  182. سوالات اور اسائنمنٹ
  183. سبق 7: خبر واحد جسے شواہد و قرائن کی بنیاد پر قبول کیا جائے
  184. وضاحت
  185. اقسام
  186. حکم
  187. سوالات اور اسائنمنٹ
  188. سبق 8: مُحکَم اور مُختَلِف حدیث
  189. "محکم" کی تعریف 84
  190. "مختلِف" کی تعریف
  191. 'مختلف' کی مثال
  192. تضاد کو دور کرنے کی مثال
  193. مختلف احادیث کا حکم
  194. اختلاف حدیث کے فن کی اہمیت اور اس کی تکمیل کیسے کی گئی ہے؟
  195. مختلف احادیث میں مشہور ترین تصانیف
  196. سوالات اور اسائنمنٹ
  197. سبق 9: ناسخ اور منسوخ حدیث
  198. "نسخ" کی تعریف
  199. "نسخ" کی اہمیت، مشکلات اور اس میں مشہور ماہرین
  200. ناسخ و منسوخ کا علم کیسے ہوتا ہے؟
  201. حدیث کے ناسخ و منسوخ سے متعلق اہم تصانیف
  202. سوالات اور اسائنمنٹ
  203. یونٹ 4: خبر مردود (مسترد شدہ خبر)
  204. سبق 1: خبر مردود اور اسے مسترد کرنے کے اسباب
  205. تعریف
  206. خبر مردود کی اقسام اور اس کے اسباب
  207. سوالات اور اسائنمنٹ
  208. سبق 2: ضعیف حدیث
  209. "ضعیف" کی تعریف
  210. ضعیف حدیث کے درجات
  211. کمزور ترین اسناد
  212. ضعیف حدیث کی مثالیں
  213. ضعیف حدیث کی روایت کا حکم
  214. ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم
  215. ضعیف حدیث پر مشتمل مشہور تصانیف
  216. سوالات اور اسائنمنٹ
  217. سبق 3: اسقاط سند کے باعث مسترد کردہ حدیث
  218. "اسقاط سند" کی تعریف
  219. "سقوط سند" کی اقسام
  220. سوالات اور اسائنمنٹ
  221. سبق 4: معلق حدیث
  222. "معلق حدیث" کی تعریف
  223. "معلق حدیث" کی صورتیں
  224. "معلق حدیث" کی مثالیں
  225. "معلق حدیث" کا حکم
  226. صحیحین میں موجود معلق احادیث کا حکم
  227. سوالات اور اسائنمنٹ
  228. سبق 5: مُرسَل حدیث
  229. "مرسل حدیث" کی تعریف
  230. "مرسل حدیث" کی صورت
  231. "مرسل حدیث" کی مثال
  232. فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کے نزدیک "مرسل حدیث" کا معنی
  233. "مرسل حدیث" کا حکم
  234. صحابی کی "مرسل حدیث"
  235. صحابی کی "مرسل حدیث" کا حکم
  236. "مرسل حدیث" سے متعلق مشہور تصانیف
  237. سوالات اور اسائنمنٹ
  238. سبق 6: مُعضَل حدیث
  239. "معضل حدیث" کی تعریف
  240. "معضل حدیث" کی مثال
  241. "معضل حدیث" کا حکم
  242. معضل اور معلق احادیث میں بعض مشترک خصوصیات
  243. "معضل حدیث" کہاں پائی جاتی ہے؟
  244. سوالات اور اسائنمنٹ
  245. سبق 7: مُنقطِع حدیث
  246. "منقطع حدیث" کی تعریف
  247. تعریف کی وضاحت
  248. متاخرین کے نزدیک "منقطع حدیث" کی تعریف
  249. "منقطع حدیث" کی مثال
  250. "منقطع حدیث" کا حکم
  251. سوالات اور اسائنمنٹ
  252. سبق 8: مُدَلّس حدیث
  253. تدلیس کی تعریف
  254. تدلیس کی اقسام
  255. تدلیس اسناد
  256. تدلیس تسویہ
  257. تدلیس شیوخ
  258. تدلیس کا حکم
  259. تدلیس شیوخ کے مقاصد
  260. تدلیس کرنے والے کی مذمت کے اسباب
  261. تدلیس کرنے والے کی دیگر روایات کا حکم
  262. تدلیس کا علم کیسے ہوتا ہے؟
  263. تدلیس اور مدلسین کے بارے میں مشہور تصانیف
  264. سوالات اور اسائنمنٹ
  265. سبق 9: مُرسَل خفی
  266. مرسل خفی کی تعریف
  267. مرسل خفی کی مثال
  268. مرسل خفی کیسے پہچانی جاتی ہے؟
  269. مرسل خفی کا حکم
  270. مرسل خفی سے متعلق مشہور تصانیف
  271. سوالات اور اسائنمنٹ
  272. سبق 10: مُعََنعَن اور مُؤَنَن احادیث
  273. تمہید
  274. معنعن کی تعریف
  275. معنعن کی مثال
  276. معنعن متصل ہے یا منقطع؟
  277. مؤنن حدیث کی تعریف
  278. مؤنن حدیث کا حکم
  279. سوالات اور اسائنمنٹ
  280. سبق 11: راوی پر الزام کے باعث مردود حدیث
  281. راوی پر الزام کا مطلب
  282. راوی پر الزام کے اسباب
  283. سوالات اور اسائنمنٹ
  284. سبق 12: موضوع حدیث
  285. موضوع حدیث کی تعریف
  286. موضوع حدیث کا درجہ
  287. موضوع حدیث کی روایت کرنے کا حکم
  288. جعلی احادیث ایجاد کرنے کا طریقہ
  289. موضوع حدیث کو کیسے پہچانا جائے؟
  290. جعلی احادیث ایجاد کرنے کی وجوہات اور احادیث گھڑنے والوں کی خصوصیات
  291. قرب الہی کا حصول
  292. مسلک اور فرقے کی تائید
  293. اسلام پر اعتراضات
  294. حکمرانوں کا قرب
  295. روزگار کا حصول
  296. شہرت کا حصول
  297. وضع حدیث کے بارے میں فرقہ کرامیہ کا نقطہ نظر
  298. موضوع حدیث بیان کرنے کے بارے میں بعض مفسرین کی غلطی
  299. موضوع حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف
  300. سوالات اور اسائنمنٹ
  301. سبق 13: متروک حدیث
  302. متروک حدیث کی تعریف
  303. راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کے اسباب
  304. متروک حدیث کی مثال
  305. متروک حدیث کا درجہ
  306. سوالات اور اسائنمنٹ
  307. سبق 14: "مُنکَر" حدیث
  308. "منکر" حدیث کی تعریف
  309. منکر اور شاذ میں فرق
  310. "منکر" حدیث کی مثال
  311. "منکر" حدیث کا درجہ
  312. معروف حدیث
  313. سوالات اور اسائنمنٹ
  314. سبق 15: مُعَلَّل حدیث
  315. معلل حدیث کی تعریف
  316. "علّت" کی تعریف
  317. لفظ "علت" کا غیر اصطلاحی معنی میں استعمال
  318. "علل حدیث" کے فن کی اہمیت اور اس کے ماہرین
  319. کس قسم کی اسناد میں علل تلاش کی جاتی ہیں؟
  320. علت کو معلوم کرنے کے لئے کس چیز سے مدد لی جاتی ہے؟
  321. معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار کیا ہے؟
  322. علت کہاں موجود ہوتی ہے؟
  323. کیا سند کی علتوں سے متن بھی متاثر ہوتا ہے؟
  324. معلل حدیث سے متعلق مشہور تصانیف
  325. سوالات اور اسائنمنٹ
  326. سبق 16: نامعلوم راوی کی بیان کردہ حدیث
  327. تعریف
  328. عدم واقفیت کے اسباب
  329. مثالیں
  330. مجہول کی تعریف
  331. مجہول کی اقسام
  332. عدم واقفیت کے اسباب سے متعلق مشہور تصانیف
  333. سوالات اور اسائنمنٹ
  334. سبق 17: بدعتی راوی کی بیان کردہ حدیث
  335. تعریف
  336. بدعت کی اقسام
  337. بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا حکم
  338. بدعتی کی حدیث کا کیا کوئی خاص نام ہے؟
  339. سوالات اور اسائنمنٹ
  340. سبق 18: کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ حدیث
  341. کمزور حفاظت کی تعریف
  342. کمزور حفاظت کی اقسام
  343. کمزور حفاظت والے راوی کی بیان کردہ احادیث کا حکم
  344. سوالات اور اسائنمنٹ
  345. سبق 19: ثقہ راویوں کی حدیث سے اختلاف کے باعث مردود حدیث
  346. سوالات اور اسائنمنٹ
  347. سبق 20: مُدرَج حدیث
  348. مدرج حدیث کی تعریف
  349. مدرج حدیث کی اقسام
  350. مدرج حدیث کی مثال
  351. حدیث کے شروع میں ادراج:
  352. حدیث کے درمیان میں ادراج
  353. حدیث کے آخر میں ادراج
  354. ادراج کرنے کی وجوہات
  355. ادراج کا علم کیسے ہوتا ہے؟
  356. ادراج کا حکم
  357. مدرج حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف
  358. سوالات اور اسائنمنٹ
  359. سبق 21: مَقلُوب حدیث
  360. مقلوب حدیث کی تعریف
  361. مقلوب حدیث کی اقسام
  362. قلب کی وجوہات
  363. قلب کا حکم
  364. مقلوب حدیث سے متعلق مشہور تصانیف
  365. سوالات اور اسائنمنٹ
  366. سبق 22: "المَزید فی مُتصل الاسانید" حدیث
  367. "المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی تعریف
  368. "المزید فی متصل الاسانید" حدیث کی مثال
  369. مثال میں "اضافے" کی وضاحت
  370. اضافے کو مسترد کرنے کی شرائط
  371. اضافے سے متعلق اعتراضات
  372. "المزید فی متصل الاسانید" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف
  373. سوالات اور اسائنمنٹ
  374. سبق 23: "مضطرب" حدیث
  375. "مضطرب" حدیث کی تعریف
  376. "مضطرب" حدیث کی تعریف کی وضاحت
  377. اضطراب کی تحقیق کرنے کی شرائط
  378. "مضطرب" حدیث کی اقسام
  379. اضطراب کس سے واقع ہو سکتا ہے؟
  380. "مضطرب" حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ
  381. "مضطرب" حدیث سے متعلق مشہور تصنیف
  382. سوالات اور اسائنمنٹ
  383. سبق 24: "مُصحَّف" حدیث
  384. "مصحف" حدیث کی تعریف
  385. "مصحف" حدیث کی اہمیت اور دقت
  386. "مصحف" حدیث کی اقسام
  387. 1۔ موقع کے اعتبار سے تقسیم
  388. 2۔ تصحیف کی وجہ کے اعتبار سے تقسیم
  389. 3۔ لفظ اور معنی کے اعتبار سے تقسیم
  390. کیا تصحیف کی وجہ سے راوی پر الزام عائد کیا جاتا ہے؟
  391. کثرت سے تصحیف کرنے کی وجہ
  392. "مصحف" حدیث سے متعلق مشہور تصانیف
  393. سوالات اور اسائنمنٹ
  394. سبق 25: "شاذ" اور "محفوظ" حدیث
  395. "شاذ" حدیث کی تعریف
  396. "شاذ" حدیث کی تعریف کی وضاحت
  397. شذوذ (شاذ ہونا) کہاں پایا جاتا ہے؟
  398. "محفوظ" حدیث کی تعریف
  399. "شاذ" اور "محفوظ حدیث کا حکم
  400. سوالات اور اسائنمنٹ
  401. یونٹ 5: مقبول و مردود دونوں قسم کی احادیث پر مشتمل تقسیم
  402. سبق 1: نسبت کے اعتبار سے حدیث کی تقسیم
  403. حدیث قدسی
  404. حدیث قدسی کی تعریف
  405. حدیث قدسی اور قرآن مجید میں فرق
  406. احادیث قدسی کی تعداد
  407. حدیث قدسی کی مثال
  408. حدیث قدسی کی روایت کرنے کے الفاظ
  409. حدیث قدسی سے متعلق مشہور تصانیف
  410. سوالات اور اسائنمنٹ
  411. سبق 2: "مَرفُوع" حدیث
  412. مرفوع حدیث کی تعریف
  413. مرفوع حدیث کی تعریف کی وضاحت
  414. مرفوع حدیث کی اقسام
  415. مرفوع حدیث کی مثالیں
  416. سوالات اور اسائنمنٹ
  417. سبق 3: "مَوقُوف" حدیث
  418. موقوف حدیث کی تعریف
  419. موقوف حدیث کی تعریف کی وضاحت
  420. موقوف حدیث کی مثالیں
  421. لفظ "موقوف" کا دیگر استعمال
  422. فقہاء خراسان کے نزدیک "موقوف" کی تعریف
  423. مرفوع قرار دی جانے والی موقوف احادیث سے متعلق احکام
  424. کیا موقوف حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے؟
  425. سوالات اور اسائنمنٹ
  426. سبق 4: "مَقطُوع" حدیث
  427. مقطوع حدیث کی تعریف
  428. مقطوع حدیث کی تعریف کی وضاحت
  429. مقطوع حدیث کی مثالیں
  430. مقطوع حدیث سے دینی احکام اخذ کرنے کا حکم
  431. مقطوع اور منقطع
  432. مقطوع حدیث کہاں پائی جاتی ہے؟
  433. سوالات اور اسائنمنٹ
  434. سبق 5: "مُسنَد" حدیث
  435. مسند حدیث کی تعریف
  436. مسند حدیث کی مثال
  437. سوالات اور اسائنمنٹ
  438. سبق 6: "مُتَصِّل" حدیث
  439. متصل حدیث کی تعریف
  440. متصل حدیث کی مثال
  441. کیا تابعی کے قول کو بھی متصل کہا جا سکتا ہے؟
  442. سوالات اور اسائنمنٹ
  443. سبق 7: زیادات الثقات
  444. زیادات الثقات کا معنی
  445. زیادات الثقات کے ماہرین
  446. زیادات الثقات کا مقام
  447. متن میں اضافے کا حکم
  448. زیادات الثقات کی مثالیں
  449. متضاد مفہوم کے بغیر اضافہ
  450. متضاد مفہوم میں اضافہ
  451. کسی حد تک مفہوم میں تضاد
  452. اسناد میں اضافے کا حکم
  453. سوالات اور اسائنمنٹ
  454. سبق 8: اعتبار، متابع، شاھد
  455. تعریف
  456. کیا شاہد و تابع، اعتبار کی اقسام ہیں؟
  457. تابع و شاہد کا دوسرا مفہوم
  458. متابعت
  459. مثالیں
  460. سوالات اور اسائنمنٹ
  461. حصہ سوم: جرح و تعدیل
  462. یونٹ 6: راوی اور اسے قبول کرنے کی شرائط
  463. سبق 1: جرح و تعدیل کا تعارف
  464. سوالات اور اسائنمنٹ
  465. سبق 2: راوی کے قابل اعتماد ہونے کی شرائط
  466. راوی کا عادل ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟
  467. عدالت کے ثبوت کے بارے میں ابن عبدالبر کا نقطہ نظر
  468. راوی کے ضبط کا علم کیسے ہوتا ہے؟
  469. کیا جرح و تعدیل کو بغیر کسی وضاحت کے قبول کر لیا جائے گا؟
  470. کیا جرح یا تعدیل ایک ماہر کی رائے سے ثابت ہو جاتی ہے؟
  471. سوالات اور اسائنمنٹ
  472. سبق 3: جرح و تعدیل سے متعلق چند اہم مباحث
  473. اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل دونوں پائی جائیں توکیا کیا جائے؟
  474. کسی راوی کے بارے میں اسی سے مروی تعدیل کی روایات کا حکم
  475. فسق و فجور سے توبہ کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم
  476. حدیث کی تعلیم کا معاوضہ لینے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم
  477. تساہل، سستی اور غلطیاں کرنے والے سے حدیث قبول کرنے کا حکم
  478. حدیث بیان کر کے بھول جانے والے کی بیان کردہ احادیث کا حکم
  479. سوالات اور اسائنمنٹ
  480. یونٹ 7: جرح و تعدیل سے متعلق تصانیف
  481. سبق 1: جرح و تعدیل سے متعلق تصانیف
  482. سوالات اور اسائنمنٹ
  483. یونٹ 8: جرح و تعدیل کے درجات (Levels)
  484. سبق 1: جرح و تعدیل کے بارہ درجات
  485. سبق 2: تعدیل کے مراتب اور اس سے متعلق الفاظ
  486. تعدیل کے مختلف مراتب کا حکم
  487. سوالات اور اسائنمنٹ
  488. سبق 3: جرح کے مراتب اور اس سے متعلق الفاظ
  489. جرح کے مختلف مراتب کا حکم
  490. سوالات اور اسائنمنٹ
  491. حصہ چہارم: روایت، اس کے آداب اور اس کے ضبط کا طریق کار
  492. یونٹ 9: ضبط روایت
  493. سبق 1: حدیث کو حاصل، محفوظ اور روایت کرنے کا طریق کار
  494. تمہید
  495. کیا حدیث کو حاصل کرنے کے لئے مسلمان اور بالغ ہونا ضروری ہے؟
  496. حدیث کو حاصل کرنے کا عمل کتنی عمر میں شروع کرنا بہتر ہے؟
  497. کیا کم عمری میں حدیث کو حاصل کرنے کے عمل کے صحیح ہونے کی کوئی کم از کم حد مقرر ہے؟
  498. سبق 2: حدیث کو حاصل کرنے کے مختلف طریقے
  499. شیخ کے الفاظ میں سننا (سماع حدیث)
  500. شیخ کے سامنے حدیث پڑھ کر سنانا
  501. اجازت
  502. مناولۃ (دے دینا)
  503. کتابت
  504. اعلام
  505. وصیت
  506. وجادہ
  507. سوالات اور اسائنمنٹ
  508. سبق 3: کتابت حدیث اور حدیث سے متعلق تصانیف کا طریق کار
  509. حدیث کو تحریر کرنے کا حکم
  510. احادیث لکھنے کے بارے میں اختلاف رائے کی وجوہات
  511. احادیث لکھنے سے منع کرنے اور اجازت دینے کی تطبیق
  512. حدیث کو تحریر کرنے والے کو کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہییں؟
  513. احادیث کا اصل ماخذ سے موازنہ
  514. کتب حدیث میں استعمال ہونے والی بعض اصطلاحات
  515. طلب علم کے لئے سفر
  516. حدیث کی تصانیف کی اقسام
  517. سوالات اور اسائنمنٹ
  518. سبق 4: روایت حدیث کا طریق کار
  519. روایت حدیث کے طریق کار کی وضاحت
  520. اگر راوی نے حدیث کو حفظ نہ کیا ہو تو کیا محض کتاب سے پڑھ کر اسے روایت کرنا درست ہے؟
  521. نابینا شخص کی روایت حدیث کا حکم
  522. حدیث کی روایت بالمعنی اور اس کی شرائط
  523. حدیث میں لحن اور اس کے اسباب
  524. سوالات اور اسائنمنٹ
  525. سبق 5: غریب الحدیث
  526. تعریف
  527. اس فن کی اہمیت
  528. غریب الفاظ کی بہترین توضیح
  529. مشہور تصانیف
  530. سوالات اور اسائنمنٹ
  531. یونٹ 10: آداب روایت
  532. سبق 1: محدث کے لئے مقرر آداب
  533. تمہید
  534. محدث کی شخصیت میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں؟
  535. حدیث کی تعلیم و املاء کی مجلس کے لئے کس چیز کا اہتمام بہتر ہے؟
  536. حدیث کی تعلیم دینے کے لئے مناسب عمر کیا ہے؟
  537. مشہور تصانیف
  538. سبق 2: حدیث کے طالب علم کے لئے مقرر آداب
  539. تمہید
  540. محدث اور طالب علم دونوں سے متعلق آداب
  541. صرف طالب علم سے متعلق آداب
  542. حصہ پنجم: اسناد اور اس سے متعلقہ علوم
  543. یونٹ 11: اسناد سے متعلق اہم مباحث
  544. سبق 1: عالی اور نازل اسناد
  545. تمہید
  546. تعریف
  547. عُلُوّ کی اقسام
  548. نزول کی اقسام
  549. علو بہتر ہے یا نزول
  550. مشہور تصانیف
  551. سوالات اور اسائنمنٹ
  552. سبق 2: مسلسل
  553. تعریف
  554. تعریف کی وضاحت
  555. مسلسل کی اقسام
  556. راویوں کی حالت کے اعتبار سے تسلسل
  557. راویوں کی خصوصیات کے اعتبار سے تسلسل
  558. روایت کی خصوصیت کے اعتبار سے تسلسل
  559. سب سے بہتر تسلسل
  560. تسلسل کے فوائد
  561. کیا تسلسل کا تمام راویوں میں پایا جانا ضروری ہے؟
  562. کیا مسلسل حدیث کا صحیح ہونا ضروری ہے؟
  563. مشہور تصانیف
  564. سبق 3: اکابر کی اصاغر سے حدیث کی روایت
  565. تعریف
  566. تعریف کی وضاحت
  567. اقسام
  568. روایت الاکابر عن الاصاغر کی صورتیں
  569. فوائد
  570. مشہور تصانیف
  571. سوالات اور اسائنمنٹ
  572. سبق 4: باپ کا بیٹے سے حصول حدیث
  573. تعریف
  574. مثال
  575. فوائد
  576. مشہور تصانیف
  577. سوالات اور اسائنمنٹ
  578. سبق 5: بیٹے کا باپ سے حصول حدیث
  579. تعریف
  580. اہمیت
  581. اقسام
  582. فوائد
  583. مشہور تصانیف
  584. سبق 6: مُدَبَّج اور روایت الاَقران
  585. اقران کی تعریف
  586. روایت الاقران کی تعریف
  587. مدبج کی تعریف
  588. مدبج کی مثالیں
  589. فوائد
  590. مشہور تصانیف
  591. سوالات اور اسائنمنٹ
  592. سبق 7: سابق اور لاحق
  593. تعریف
  594. مثال
  595. فوائد
  596. مشہور تصانیف
  597. سوالات اور اسائنمنٹ
  598. یونٹ 12: اسماء الرجال (راویوں کا علم)
  599. سبق 1: صحابہ کرام
  600. صحابی کی تعریف
  601. اہمیت و فوائد
  602. کسی شخص کے صحابی ہونے کا علم کیسے ہوتا ہے؟
  603. تمام صحابہ عادل ہیں؟
  604. کثرت سے احادیث روایت کرنے والے صحابہ
  605. سب سے زیادہ علم والے صحابی
  606. عبادلہ سے کیا مراد ہے؟
  607. صحابہ کی تعداد
  608. صحابہ کے طبقات
  609. فضیلت والے صحابہ
  610. سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ
  611. سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابہ
  612. مشہور تصانیف
  613. سوالات اور اسائنمنٹ
  614. سبق 2: تابعین
  615. تابعی کی تعریف
  616. فوائد
  617. تابعین کے طبقات
  618. مخضرمین
  619. تابعین کے سات فقہاء
  620. تابعین میں سب سے افضل حضرات
  621. تابعین میں سب سے افضل خواتین
  622. مشہور تصانیف
  623. سوالات اور اسائنمنٹ
  624. سبق 3: راویوں میں رشتہ
  625. اہمیت
  626. فوائد
  627. مثالیں
  628. مشہور تصانیف
  629. سبق 4: متفق اور مفترق راوی
  630. تعریف
  631. مثالیں
  632. اہمیت
  633. ایک ہی نام کے مختلف افراد میں فرق بیان کرنا کب ضروری ہے؟
  634. مشہور تصانیف
  635. سوالات اور اسائنمنٹ
  636. سبق 5: مُوتلِف اور مختلِف راوی
  637. تعریف
  638. مثالیں
  639. کیا حرکات اور نقاط کو درج کیا جاتا ہے؟
  640. اہمیت اور فوائد
  641. مشہور تصانیف
  642. سوالات اور اسائنمنٹ
  643. سبق 6: متشابہ راوی
  644. تعریف
  645. مثالیں
  646. فوائد
  647. متشابہ کی دیگر اقسام
  648. مشہور تصانیف
  649. سبق 7: مُہمَل راوی
  650. تعریف
  651. مہمل ہونے سے کب فرق پڑتا ہے؟
  652. مثالیں
  653. مہمل اور مبہم میں فرق
  654. مشہور تصانیف
  655. سبق 8: مبُہَم راوی
  656. تعریف
  657. فوائد
  658. مبہم کو متعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟
  659. مبہم کی اقسام
  660. مشہور تصانیف
  661. سوالات اور اسائنمنٹ
  662. سبق 9: وُحدان راوی
  663. تعریف
  664. فوائد
  665. مثالیں
  666. کیا بخاری و مسلم نے بھی وحدان سے حدیث روایت کی ہے؟
  667. مشہور تصانیف
  668. سبق 10: راویوں کے مختلف نام، القاب اور کنیتیں
  669. تعریف
  670. مثال
  671. فوائد
  672. خطیب بغدادی کا اپنے اساتذہ کے مختلف نام استعمال کرنا
  673. مشہور تصانیف
  674. سبق 11: راویوں کے منفرد نام، صفات اور کنیت
  675. تعریف
  676. فوائد
  677. مثالیں
  678. مشہور تصانیف
  679. سبق 12: کنیت سے مشہور راویوں کے نام
  680. تمہید
  681. فوائد
  682. کنیت کے فن میں تصنیف کا طریق کار
  683. کنیت سے مشہور افراد کی اقسام اور مثالیں
  684. مشہور تصانیف
  685. سبق 13: القاب
  686. تعریف
  687. القاب کی بحث
  688. فوائد
  689. اقسام
  690. مثالیں
  691. مشہور تصانیف
  692. سبق 14: اپنے والد کے علاوہ کسی اور سے منسوب راوی
  693. تعارف
  694. فوائد
  695. اقسام اور مثالیں
  696. مشہور تصانیف
  697. سبق 15: کسی علاقے، جنگ یا پیشے سے منسوب راوی
  698. تمہید
  699. فوائد
  700. مثالیں
  701. مشہور تصانیف
  702. سبق 16: راویوں سے متعلق اہم تاریخیں (Dates)
  703. تعریف
  704. اہمیت
  705. مثالیں
  706. مشہور تصانیف
  707. سوالات اور اسائنمنٹ
  708. سبق 17: حادثے کا شکار ہو جانے والے ثقہ راوی
  709. تعریف
  710. مثالیں
  711. صاحب اختلاط کی روایات کا حکم
  712. مشہور تصانیف
  713. سبق 18: علماء اور راویوں کے طبقات
  714. تعریف
  715. فوائد
  716. کیا کوئی راوی ایک اعتبار سے ایک طبقے اور دوسرے اعتبار سے دوسرے طبقے سے متعلق ہو سکتا ہے؟
  717. طبقات کے محقق کو کس بات کا علم ہونا چاہیے؟
  718. مشہور تصانیف
  719. سوالات اور اسائنمنٹ
  720. سبق 19: آزاد کردہ غلام
  721. تعریف
  722. مولٰی کی اقسام
  723. فوائد
  724. مشہور تصانیف
  725. سبق 20: ثقہ اور ضعیف راوی
  726. تعریف
  727. اہمیت
  728. مشہور تصانیف
  729. سبق 21: راویوں کے ممالک اور شہر
  730. تعارف
  731. فوائد
  732. عرب و عجم کے لوگوں کو کس سے منسوب کیا جاتا رہا ہے؟
  733. شہر تبدیل کرنے والے شخص کو کس سے منسوب کیا جائے؟
  734. جو شخص کسی شہر کے قریبی گاؤں سے تعلق رکھتا ہو تو اسے کس سے منسوب کیا جاتا ہے؟
  735. کتنی مدت کے قیام سے کسی شخص کو اس شہر سے منسوب کیا جاتا ہے؟
  736. مشہور تصانیف
  737. حصہ ششم: حدیث کو پرکھنےکا درایتی معیار
  738. یونٹ 13: درایت حدیث
  739. سبق 1: درایت حدیث کا تعارف
  740. سوالات اور اسائنمنٹ
  741. سبق 2: شاذ حدیث
  742. سوالات اور اسائنمنٹ
  743. سبق 3: علم و عقل کے مسلمات کے خلاف حدیث
  744. سوالات اور اسائنمنٹ
  745. سبق 4: حدیث کا سیاق و سباق اور موقع محل
  746. سوالات اور اسائنمنٹ
  747. سبق 5: حدیث کو تمام متعلقہ آیات و احادیث کے ساتھ ملا کر سمجھنے کی اہمیت
  748. سوالات اور اسائنمنٹ
  749. سبق 6: موضوع حدیث کی پہچان
  750. حدیث میں نامعقول سی بات بیان کی گئی ہو
  751. حدیث میں حسی مشاہدے کے خلاف بات کہی گئی ہو
  752. حدیث میں بیہودہ سی بات بیان کی گئی ہو
  753. حدیث میں ظلم یا برائی کی تلقین کی گئی ہو
  754. حدیث میں کوئی حکم دیا گیا ہو اور تمام صحابہ کرام کا عمل اس کے خلاف ہو
  755. حدیث میں کوئی باطل بات کہی گئی ہو
  756. حدیث کلام انبیاء کے مشابہ نہ ہو
  757. کسی متعین تاریخ یا مہینے کے بارے میں کوئی عجیب و غریب بات بیان کی گئی ہو
  758. حدیث اطباء کے کلام سے مشابہ ہو
  759. حدیث میں عقل کی تخلیق سے متعلق عجیب و غریب بات ہو
  760. سیدنا خضر علیہ السلام سے متعلق احادیث
  761. حدیث میں واضح شواہد کے خلاف کوئی بات ہو
  762. حدیث قرآن کے صریحا خلاف ہو
  763. حدیث میں مخصوص ایام کی خاص نمازوں کا ذکر ہو
  764. حدیث میں گھٹیا زبان استعمال کی گئی ہو
  765. حدیث میں کسی خاص گروہ کی برائی بیان کی گئی ہو
  766. حدیث میں معروف تاریخی حقائق کے خلاف بات بیان کی گئی ہو
  767. حدیث میں خاص سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کئے گئے ہوں
  768. حدیث میں مخصوص صحابہ اور علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہوں
  769. سوالات اور اسائنمنٹ
  770. مصادر اور مراجع
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیباچہ
پچھلی صدی میں جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے بعض افراد کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث ہم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی ہیں۔ اس غلط فہمی کے پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کو پھیلانے والے حضرات اعلی تعلیم یافتہ اور دور جدید کے اسلوب بیان سے اچھی طرح واقف تھے۔ اہل علم نے اس نظریے کی تردید میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جو اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ضمن میں ایک بہت ہی اہم کام کرنا باقی تھا اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کو جانچنے اور پرکھنے کے طریق کار کو دور جدید کے اسلوب میں تعلیم یافتہ طبقے تک پہنچا دیا جائے۔ اگر یہ کام کر دیا جائے تو علم و عقل کی بنیاد پر سوچنے والا ہر غیر متعصب شخص باآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث ہم تک نہایت ہی قابل اعتماد ذرائع سے پہنچی ہیں اور اس ضمن میں ہمارے محدثین نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کا معیار نہایت ہی بلند ہے۔
اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ اصول حدیث سے متعلق جدید انداز میں ایک کتاب لکھ دی جاتی اور دوسری صورت یہ تھی کہ اس فن کا جو بہت بڑا علمی ذخیرہ عربی زبان میں موجود ہے اسے جدید طرز کی اردو زبان میں منتقل کر دیا جاتا۔ میں نے دوسری صورت کو ترجیح دیتے ہوئے یہ خدمت انجام دینے کی کوشش کی ہے۔
اس خدمت کے لئے میں نے پہلے تو امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی "نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر" کا انتخاب کیا لیکن اس کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوا کہ اس کتاب کو جدید اسلوب میں پیش کرنے کے لئے کتاب میں کافی تصرفات کرنا ہوں گے۔ اس کے برعکس دور جدید ہی کے ایک عرب عالم ڈاکٹر محمود طحان کی کتاب "تیسیر مصطلح الحدیث" پہلے ہی دور جدید کے اسلوب میں لکھی گئی ہے تو کیوں نہ اسی کتاب کے مندرجات کو آسان اردو میں پیش کر دیا جائے۔
یہ کتاب بہت سے دینی مدارس کے نصاب میں اصول حدیث کی ابتدائی کتاب کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمود طحان کا تعلق شام سے ہے اور ان کی ساری عمر سعودی عرب اور کویت کی یونیورسٹیوں میں حدیث اور اس سے متعلقہ علوم کی تدریس میں گزری ہے۔ اس کتاب میں ہم نے آزاد ترجمانی کا اصول اختیار کر کے مصنف کی کتاب کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں پہلے اور آخری یونٹ کا اضافہ ہم نے خود کیا ہے
اگرچہ اس کتاب کا اردو ترجمہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اس ترجمے میں فاضل مترجم نے مصنف کی تحریر کو من و عن اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ترجمے میں بہت سے مقامات پر ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو دینی مدارس کے طلباء کے لئے تو یقیناً قابل فہم ہیں لیکن ایک عام تعلیم یافتہ قاری کے لئے انہیں سمجھنا مشکل ہو گا۔
اس کے علاوہ مجھے یہ ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ بہت سے مقامات پر قارئین کو کچھ نکات کی وضاحت کی ضرورت درکار ہو گی۔ دینی مدارس کے طلباء کے لئے تو یہ وضاحت ان کے اساتذہ کتاب کی تدریس کے دوران ہی کرتے رہتے ہیں لیکن پورے پس منظر سے عدم واقفیت کے باعث ایک جدید تعلیم یافتہ قاری کے لئے اس وضاحت کے بغیر پوری بات کو سمجھنا ممکن نہ ہو گا۔ اس وجہ سے ترجمے کے ساتھ ساتھ بہت سے مقامات پر میں نے اضافی معلومات فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
کتاب کو اردو اسلوب میں ڈھالنے کے لئے یہ اقدامات کیے گئے ہیں:
•یہ کوشش کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات میں وہیں گفتگو کی جائے جہاں قاری اس اصطلاح سے پہلے ہی واقف ہو چکا ہے ورنہ اس بات کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے۔
•مصنف نے کتاب کی ترتیب کے لئے 'باب' اور 'فصل' کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چونکہ فصل کا لفظ جدید کتب میں اب کم ہی استعمال کیا جاتا ہے، اس وجہ سے میں نے 'باب' کو 'حصہ' اور 'فصل' کو 'یونٹ' میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
•مختلف مباحث کو نمبروار درج کر دیا گیا ہے۔ یونٹ 3 میں کچھ مباحث کی ترتیب میں معمولی سی تبدیلی کی گئی ہے۔
•قارئین کو علوم الحدیث سے جدید انداز میں روشناس کروانے کے لئے شروع میں ایک یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس یونٹ میں تدوین حدیث کی تاریخ، حدیث سے متعلق اہم سوالات کے جوابات، اصول حدیث کی مشہور کتب کا تعارف اور فن حدیث کی بنیادی اصطلاحات کو شامل کر دیا گیا ہے۔
•مصنف نے چونکہ "درایت حدیث" سے متعلق مواد اپنی کتاب میں درج نہ کیا تھا، اس وجہ سے ضمیمے کے طور پر خطیب بغدادی کی کتاب "اصول کفایۃ"، جلال الدین سیوطی کی کتاب "تدریب الراوی" اور حافظ ابن قیم کی "منار المنیف" سے متعلقہ مباحث نقل کر دیے گئے ہیں۔
•فن حدیث کے بعض مباحث کی توضیح کے لئے ڈائیا گرامز سے مدد لی گئی ہے۔
•لفظی ترجمے کی بجائے آزاد ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
اس کوشش میں میں اپنے استاذ محمد عزیر شمس صاحب کا بہت مشکور ہوں جن کی راہنمائی مجھے اس کام کے دوران حاصل رہی۔
قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے تاثرات اور تنقید بلا جھجک مجھے بھیجیں تاکہ اس کتاب کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ اسی طرح جن قارئین کے ذہن میں علم حدیث سے متعلق کوئی بھی سوال موجود ہو، وہ بلاتکلف مجھے لکھ بھیجیں۔ انشاء اللہ میں جلد از جلد اس کا اپنے ناقص علم کی حد تک جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
محمد مبشر نذیر​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حصہ اول: تعارف
یونٹ 1: علوم الحدیث کا تعارف
اس روئے زمین پر دین کا تنہا ماخذ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ ہی کی ذات مبارکہ ہے جس کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت قرآن مجید کی صورت میں ملی اور آپ ہی کی سنت مبارکہ کے ذریعے ہماری جسمانی و روحانی تطہیر اور تزکیے کا اہتمام کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی حیات طیبہ کے بارے میں ہمارے لئے ےتفصیلی معلومات کا واحد ذریعہ حدیث ہے۔ احادیث اور اس سے متعلق معلومات کی تدوین امت مسلمہ کا ایسا کارنامہ ہے جو اس سے پہلے کسی اور قوم نے انجام نہیں دیا۔ اس کی تفصیل یہاں بیان کی جا رہی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبق 1: تدوین حدیث کی تاریخ
احادیث کی تدوین: پہلی، دوسری اور تیسری صدی ہجری میں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی صحبت میں گزرا کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کی بہت سی باتوں کو نوٹ کیا اور آپ کی حیات طیبہ میں اور اس کے بعد اسے بیان کرنا شروع کردیا۔ صحابہ کرام سے یہ علم تابعین کو منتقل ہوا۔
ہمیں جن صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ حدیثیں سب سے زیادہ تعداد میں مل سکی ہیں ان میں حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر بن خطاب، انس بن مالک، ام المومنین حضرت عائشہ، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، علی المرتضی، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کی شخصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ سے احادیث مروی ہیں لیکن ان کی تعداد کافی کم ہے۔ بعض صحابہ نے ذاتی طور پر احادیث کو لکھ کر محفوظ کرنے کا کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں شروع کر دیا تھا۔
صحابہ کے بعد تابعین کا دور آیا۔ تابعین ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا۔ اگرچہ تابعین حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے سے بہت قریب تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی زیارت کی سعادت حاصل نہ کرسکے تھے چنانچہ وہ بڑے اشتیاق کے ساتھ صحابہ کرام سے آپ کی باتیں سنا کرتے تھے۔ یہی شوق ان کے بعد تبع تابعین، یعنی وہ حضرات جنہوں نے تابعین کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا، اور ان کے بعد کی نسلوں میں منتقل ہوا۔ بہت سے تابعین نے بھی اپنے ذخیرہ احادیث کو تحریری صورت میں محفوظ بھی کرلیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے حاصل کردہ معلومات کے بیان کا معاملہ انتہائی حساس (Sensitive) ہے۔ ایک متواتر اور مشہور حدیث کے مطابق اگرکوئی آپ سے جھوٹی بات منسوب کر دے تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بڑے بڑے صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، طلحۃ، زبیر، ابوعبیدہ، عباس رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کی تعداد بہت کم ہے۔
ایسا ضرور ہوا ہے کہ بعض مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ ارشاد فرمایا کہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس کی ایک مثال حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطبہ ہم تک معنوی اعتبار سے تواتر سے پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جن صحابہ نے احادیث بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، وہ ان کے اپنے ذوق، فہم ، رجحان طبع اور Initiative کی بنیاد پر تھا۔ احادیث کے معاملے کی اسی حساسیت کی وجہ سے حدیث کو بیان کرنے والے افراد نے یہ اہتمام کیا کہ کوئی حدیث ان تک جس جس شخص سے گزر کر پہنچی، انہوں نے اس کا پورا ریکارڈ رکھا۔
کچھ ہی عرصے میں احادیث بیان کرنے والوں کو معاشرے اور حکومت کی طرف سے غیر معمولی مقام حاصل ہوگیا۔ اس ممتاز طبقے کو محدثین کہا جاتا ہے۔ ان محدثین نے اپنی پوری پوری عمریں حدیث رسول صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی تعلیم و تبلیغ میں صرف کر دیں۔ یہ حضرات ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں میل کا سفر کرنے سے بھی گریز نہ کرتے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وضع احادیث کے اسباب
اس صورتحال کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آئے۔ اسی دور میں اپنی طرف سے باتیں گھڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف منسوب کرنے کا فتنہ پیدا ہوا جو دین میں پیدا کئے جانے والے فتنوں میں سب سے زیادہ شدید ہے۔ ان گھڑی ہوئی حدیثوں کو"موضوع حدیث" یعنی وضع کی گئی جعلی حدیث کا نام دیا گیا۔ جعلی حدیثیں گھڑنے جیسا مذموم فعل کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل تھے جن میں سے اہم یہ ہیں:
•پچھلے آسمانی مذاہب کی طرح اسلام کے دشمن بھی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے ہی سے مسلمانوں میں کچھ گمراہ کن افکار داخل کرنے کی کوشش میں تھے۔ خلافت راشدہ کے دور میں انہیں اس کا موقع نہ مل سکا۔ بعد کے ادوار میں انہیں اس کا ایک موقع میسر آگیا۔ ان لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہ تھا کہ اپنی طرف سے قرآن مجید یا سنت متواترہ میں کوئی اضافہ کر سکتے کیونکہ ان کو کروڑوں مسلمان اپنے قولی و فعلی تواتر سے آگے منتقل کر رہے تھے، البتہ حدیث کے میدان میں ان کے لئے کسی حد تک گنجائش موجود تھی۔چنانچہ اپنے افکار کو پھیلانے کے لئے انہوں نے حدیثیں گھڑنے کا کام شروع کردیا۔ ابن ابی العوجاء نامی حدیثیں ایجاد کرنے والے ایک شخص کو بصرہ کے گورنر محمد بن سلیمان بن علی کے پاس لایا گیا تو اس نے اعتراف کیا: "میں نے تم لوگوں میں 4000 جعلی احادیث پھیلا دی ہیں، جن میں میں نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔ " اس کے جواب میں اسے کہا گیا کہ محدثین انہیں چھانٹ کر الگ کر لیں گے۔
•اس دور تک امت میں سیاسی گروہ بندی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ہر دھڑے کے کم علم اور کم فہم افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے فضائل اور ناپسندیدہ شخصیات کی مذمت میں جعلی حدیثیں گھڑیں اور انہیں بیان کرنا شروع کردیا۔
•اس وقت تک مسلمانوں میں فرقہ پرستی کی وبا پھیل چکی تھی۔ بہت سے فرقہ پرست متعصب افراد نے اپنے نقطہ نظر اور افکار کی حمایت اور اپنے مخالفین کی مذمت میں احادیث وضع کرنا شروع کیں۔ جرح و تعدیل کے مشہور امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" کے مقدمے میں ایسے ہی ایک صاحب، جو احادیث گھڑا کرتے تھے اور بعد میں اس مذموم عمل سے توبہ کر چکے تھے، کا یہ قول نقل کیا ہے، "اس بات پر نگاہ رکھو کہ تم اپنا دین کن لوگوں سے اخذ کر رہے ہو۔ ہمارا یہ حال رہا ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز پسند ہوتی تو اس کے لئے حدیث گھڑ لیا کرتے تھے۔"
•چونکہ محدثین کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل تھا اور ان کے لئے دنیاوی جاہ اور مال و دولت کے دروازے کھلے تھے، اس لئے بعض مفاد پرستوں نے بھی یہ فوائد حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر پھیلانا شروع کردیں۔ یہ مفاد پرست خود تو اس قابل تھے نہیں کہ محدثین جتنی محنت کر سکتے، انہوں نے سستی شہرت کے حصول کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنی طرف سے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں۔
•بعض ایسے بھی نامعقول لوگ تھے جنہوں نے محض اپنی پراڈکٹس کی سیل میں اضافے کے لئے ان چیزوں کے بارے میں حدیثیں گھڑنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر ہریسہ (ایک عرب مٹھائی) بیچنے والا ایک شخص یہ کہہ کر ہریسہ بیچا کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو ہریسہ بہت پسند تھا۔
•بعض ایسے افراد بھی تھے جو ذاتی طور پر بہت نیک تھے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم معاشرے میں دنیا پرستی کی وبا پھیلتی جارہی ہے تو انہوں نے اپنی ناسمجھی اور بے وقوفی میں دنیا پرستی کی مذمت ، قرآن مجید کی سورتوں اور نیک اعمال اور اوراد و وظائف کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر بیان کرنا شروع کردیں تاکہ لوگ نیکیوں کی طرف مائل ہوں۔ انہی جعلی احادیث کی بڑی تعداد آج بھی بعض کم علم مبلغ اپنی تقاریر میں زور و شور سے بیان کرتے ہیں۔ مصر کے مشہور محدث اور محقق علامہ احمد محمد شاکر (م 1957ء) لکھتے ہیں، "احادیث گھڑنے والوں میں بدترین لوگ اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے وہ ہیں جنہوں نے خود کو زہد و تصوف سے وابستہ کر رکھا ہے۔ یہ لوگ نیکی کے اجر اور برائیوں کے برے انجام سے متعلق احادیث وضع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے بلکہ اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ اپنے اس عمل کے ذریعے وہ اللہ سے اجر پائیں گے۔" امام مسلم، صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں، "ہم نے ان صالحین کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔"
ان تمام عوامل کے نتیجے میں حدیث کے پاکیزہ اور خالص ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ ہوگئی۔اس موقع پر ہمارے محدثین (اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے) نے ایک نہایت ہی اعلیٰ نوعیت کا اہتمام فرمایا۔ انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے احادیث بیان کرنے والوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا۔ ان کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپرنگر کے مطابق یہ ایک ایسا فن ہے جس کی مدد سے پانچ لاکھ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوالات
•عہد رسالت اور عہد صحابہ کے تمدنی حالات کا ایک خاکہ بیان کیجیے۔؟
•اس دور کی علمی محافل کیسی ہوا کرتی تھیں؟ تعلیم کا نظام کیا تھا؟
• علم کو کس طرح سے محفوظ کیا جاتا تھا۔
•حدیث وضع کرنے والوں کی شخصیت کا تجزیہ کیجیے۔؟
•ایسے افراد کی نفسیات میں ایسے کیا مسائل ہوا کرتے تھے جو انہیں حدیث وضع کرنے جیسا عظیم جرم کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبق 2: احادیث کی چھان بین کے طریقے
علم حدیث میں کسی بھی حدیث کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ "سند" سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں حدیث کی کتاب کو ترتیب دینے والے امامِ حدیث (Compiler) سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک کے تمام راویوں (حدیث بیان کرنے والے) کی مکمل یا نامکمل زنجیر (Chain of Narrators) کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔
"متن" حدیث کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالات بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔ سند کی تحقیق میں سند کا حدیث کی کتاب کے مصنف سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملا ہوا ہونا اور راویوں پر جرح و تعدیل شامل ہیں جبکہ متن کی تحقیق کو درایت حدیث کہا جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سند کا اتصال
سب سے پہلے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ سند حدیث بیان کرنے والے سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملی ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر ایک راوی کی وفات مثلاً 200ھ میں ہوئی ہے اور کوئی شخص اس سے 210ھ میں حدیث روایت کرنے کا دعوی کر رہا ہو تو ظاہر ہے وہ اپنے دعوے میں درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں سند متصل (یعنی ملی ہوئی) نہیں بلکہ منقطع (ٹوٹی ہوئی) ہوتی ہے۔ راویوں پر جرح و تعدیل
فن رجال وہ علم ہے جس میں حدیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مل جاتا ہے۔ حدیث میں اس ملاوٹ کی وجہ سے محدثین نے احادیث کو پرکھنے کے اصول مرتب کئے تاکہ فلٹر کرکے اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جاسکے۔ ان اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہم ایک مثال سے وضاحت کرتے ہیں۔فرض کیجئے امام ترمذی اپنی کتاب "الجامع الصحیح سنن" میں جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے ایک حدیث بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث کے سند والے حصے میں سند کچھ یوں بیان ہوتی ہے: "ہم سے اس حدیث کو راوی 'اے' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'بی' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'سی' نے بیان کیا، انہوں نے اس حدیث کو 'ڈی' سے سنا اور انہوں نے 'حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ' کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا: ---------- (حدیث کا متن)"۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے لے کر امام ترمذی تک پانچ افراد ہیں جن میں سے ایک صحابی رسول سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے علاوہ چار اور اشخاص ہیں، چھٹے امام ترمذی خود ہیں۔ ہمیں یہ چیک کرنا ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمائی تھی یا پھر کسی نے اسے اپنی طرف سے وضع کرکے آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ چیک کرنا ہے کہ یہ حدیث اصلی ہے یا جعلی۔
اس چیکنگ کے لئے محدثین نے جو ٹسٹ ایجاد کئے ہیں، ان میں سے سب سے پہلا اور اہم ترین یہ ہے کہ حدیث کے راویوں کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ وہ قابل اعتبار ہیں کہ نہیں۔ اس اصول کی بنیاد قرآن مجید کی اس آیت پر ہے: یا ایھا الذین اٰمنوا ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا۔ (الحجرات 49:4) "اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی اچھی طرح جانچ پڑتا ل کرلو۔"
امام ترمذی حدیث کے مشہور امام ہیں اور ان کے حالات ہمیں تفصیل سے معلوم ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انتہائی دیانت دار، محتاط اور قابل اعتماد شخص ہیں۔ اس معاملے میں ان کے بارے میں پوری امت کا اتفاق ہے ۔ ان کی کتاب جامع ترمذی ان کی زندگی ہی میں مشہور ہوگئی تھی۔ بہت سے طلباء نے ان سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ اس کی سینکڑوں کاپیاں ان کی زندگی ہی میں تیار ہو کر عالم اسلام میں پھیل چکی تھیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں تیار کی جاچکی ہیں اور ہر دور میں، ہر دینی مدرسے میں حدیث کے طالب علم اس کتاب کو پڑھتے آرہے ہیں، اس کی بہت سی شروحات (Commentaries) لکھی جاچکی ہیں، چنانچہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کسی نے ان کی کتاب میں اپنی طرف سے کوئی حدیث گھڑ کر لکھ دی ہو۔
ایسا ضرور ممکن ہے کہ جامع ترمذی کے مختلف نسخوں میں کتابت وغیرہ کی غلطیوں کے باعث تھوڑا بہت فرق پایا جاتا ہو لیکن مجموعی طور پر اس کتاب کے اپنے مصنف کی طرف منسوب ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ جامع ترمذی کے ہر دور کے نسخے دنیا بھر کی لائبریریوں اور میوزیمز میں دستیاب ہیں۔ قدیم دور کی قلمی کتابیں، جنہیں مخطوطہ کہا جاتا ہے، کو ڈیجیٹل تصاویر کی صورت میں دنیا بھر کے محققین کے لئے دستیاب کر دیا گیا ہے۔ جامع ترمذی کے مختلف ادوار کے نسخوں کا اگر ایک دوسرے سے تقابل کیا جائے تو ان میں کوئی بہت بڑا فرق موجود نہیں ہے۔
کسی کی کتاب میں اپنی طرف سے کچھ داخل کر دینے کا عمل صرف انہی کتابوں ہی میں ممکن ہے جو صرف چند افراد تک محدود تھیں مثلاً اہل تصوف کی کتابیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے لے کر امام ترمذی تک تو کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی دیانت داری اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں کر سکتا۔ ضرورت اصل میں امام ترمذی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان موجود چار اشخاص کو تفصیل سے چیک کرنے کی ہے کیونکہ اگر کوئی گڑبڑ ہوسکتی ہے تو وہ ان ہی میں ہو سکتی ہے۔ اس چیکنگ کو محدثین "جرح و تعدیل" کا نام دیتے ہیں۔ اس عمل میں ان میں سے ہر شخص کے بارے میں یہ سوالات کئے جاتے ہیں کہ کیا ان کی شہرت ایک دیانت دار اور محتاط شخص کی ہے؟ کیا وہ اپنی نارمل زندگی میں ایک معقول انسان تھے؟ کہیں وہ لاابالی اور لاپرواہ سے آدمی تو نہیں تھے؟ کہیں وہ کسی ایسے سیاسی یا مذہبی گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتے تھے جو اپنے عقائد و نظریات کو فروغ دینے کے لئے حدیثیں گھڑتا ہو؟ کہیں وہ کسی شخصیت کی عقیدت کے جوش میں اندھے تو نہیں ہوگئے تھے؟ عمر کے کسی حصے میں کہیں ان کی یادداشت تو کمزور نہیں ہوگئی تھی یا ان کی حدیث لکھنے والی ڈائری گم تو نہیں ہو گئی تھی؟ یہ صاحب حدیثوں کو لکھ لیتے تھے یا ویسے ہی یاد کر لیتے تھے؟ ان کے قریب جو لوگ تھے، اُن کی اِن کے بارے میں کیا رائے ہے؟ وہ کس شہر میں رہتے تھے؟ انہوں نے کس کس امام حدیث سے کس زمانے میں تعلیم حاصل کی؟ وہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے؟ ان کی کس کس محدث اور راوی سے ملاقات ثابت ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزاروں راویوں کے بارے میں یہ معلومات کہاں سے آئیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فن رجال کے ماہرین نے اپنی پوری زندگیاں وقف کر کے ان تمام معلومات کا اہتمام کر دیا ہے۔ انہوں نے ان راویوں کے شہروں کا سفر کیا اور ان راویوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ چونکہ یہ لوگ حدیث بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اپنے شہروں میں مشہور افراد تھے، اس لئے ان کے بارے میں معلومات بھی نسبتاً آسانی سے مل گئیں۔ یہ تمام معلوما ت فن رجال کی کتابوں میں محفوظ کردی گئی ہیں۔ یہ کتب بھی عام شائع ہوتی ہیں اور کوئی بھی شخص انہیں حاصل کرسکتا ہے۔ اب تو انٹرنیٹ پر بھی یہ کتب بلامعاوضہ مہیا کر دی گئی ہیں۔ کوئی بھی شخص انہیں سرچ کر کے حاصل کر سکتا ہے۔
ہمارے علم کے مطابق ان میں سے کسی کتاب کا اردو ترجمہ ابھی تک شائع نہیں ہوا کیونکہ ان کے استعمال کرنے والے سب لوگ عربی سے واقف ہی ہوتے ہیں۔چنانچہ ان کا مطالعہ کرنے کے لئے عربی زبان سے واقفیت ضروری ہے۔ حالیہ سالوں میں ایسے سافٹ ویئر بھی دستیاب ہو چکے ہیں جن میں کسی راوی کے نام پر کلک کرکے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اردن کے "دار التراث الاسلامی" کا تیار کردہ سافٹ وئیر ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں ہمیں اپنی زیر بحث حدیث کے تمام راویوں کے بارے میں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دیانت دار اور معقول لوگ تھے۔ ان کا تعلق کسی ایسے گروہ سے نہیں تھا جو حدیثیں گھڑنے کی شہرت رکھتا ہو۔ یہ محتاط اور اچھی شہرت کے حامل تھے۔ لوگوں کی ان کے بارے میں رائے اچھی تھی۔ یہ اچھی یادداشت رکھنے والے لوگ تھے اور حدیثوں کو محفوظ بھی کر لیتے تھے۔ اگر ان میں سے کسی ایک راوی کے بارے میں بھی ایسی معلومات ملتی ہیں جس سے وہ ناقابل اعتبار ثابت ہوتا ہے تو اس کی بیان کردہ تمام احادیث کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
مسترد کرنے کا معنی یہ ہے کہ یہ طے کر لیا جائے کہ اس حدیث کو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا درست نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ ان راویوں کی آپس میں ملاقات بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ فرض کیجئے کہ راوی اے کی پیدائش 200 ہجری میں ہوئی اور راوی بی کی وفات 190 ہجری میں ہوئی تو یہ بات کنفرم ہوگئی کہ ان دونوں کی ملاقات ممکن نہیں۔
اسی طرح راوی سی اگر کوفہ میں رہتا تھا اور ساری عمر شہر سے باہر نہیں نکلا اور راوی ڈی دمشق میں رہتا تھا اور کبھی کسی سفر پر کوفہ نہیں گیا تب بھی یہ بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایسی صورتوں میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ان دو راویوں کے درمیان بھی کوئی راوی موجود ہے جس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ چیز بھی اس حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی راوی کے بارے میں سرے سے معلومات ہی دستیاب نہ ہوں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں بھی حدیث کمزور حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی طرح ایک صحابی اگر کسی حدیث کو بیان کرتے ہوں اور کسی دوسری مستند روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ ان کا اپنا عمل اس حدیث کے خلاف تھا تو یہ چیز بھی حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے کسی ارشاد کو جاننے کے باوجود اس پر عمل نہ کریں۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے وہ حکم کسی خاص صورتحال کے پیش نظر دیا ہو جو ہر حال میں قابل عمل نہ ہو۔
کمزور احادیث کو علم حدیث کی اصطلاح میں "حدیث ضعیف" کہا جاتا ہے۔ جبکہ درست سند کی احادیث کو "صحیح" اور "حسن" کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ محدثین نے حدیث کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں جن کی تفصیل آگے اصل کتاب کے متن میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس قدر تفصیلی چھان بین کے بعد حدیث کی سند کی تحقیق کا کام مکمل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کے بارے میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی سند درست ہے۔ اس کے تمام راوی قابل اعتبار ہیں اور اس سند کی زنجیر میں کوئی کڑی غائب نہیں۔ تاہم یہ ایک فطری سی بات ہے کہ کوئی انسان خواہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، بسا اوقات کسی بات کو سمجھنے اور بیان کرنے میں غلطی کر سکتا ہے۔ اسے غلط فہمی بھی لاحق ہوسکتی ہے، وہ بات کو یا اس کے کچھ حصے کو بھول بھی سکتا ہے، اس سے بیان کرنے میں غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ اس قسم کی غلطیوں سے کسی بڑی شخصیت کے علم و فضل اور جلالت شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کیونکہ اس قسم کی خطائیں ہر انسان کا خاصہ ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک شخص نے تو بات مکمل طور پر بیان کر دی ہو لیکن دوسرا اسے سمجھنے میں اور آگے منتقل کرنے میں غلطی کردے۔ سند جتنی طویل ہوتی جائے گی، اور حدیث کی کتاب مرتب کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زنجیر کی کڑیاں بڑھتی جائیں گی تو اس قسم کی غلطیوں کا امکان بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین ان احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن کی سند مختصر ہو بشرطیکہ وہ ثقہ (Reliable) راویوں کے ذریعے منتقل ہوئی ہوں۔
عام طور پر احادیث کی سند میں تین سے لے کر نو افراد تک موجود ہوتے ہیں۔ تین راویوں والی احادیث کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ موطاء امام مالک میں بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں کیونکہ امام مالک علیہ الرحمۃ (م 179ھ) اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زمانے کا فاصلہ زیادہ طویل نہ تھا۔ موطا میں بعض احادیث میں تو صرف دو راوی ہیں۔ ایسی بعض احادیث بخاری میں بھی موجود ہیں۔ امام بخاری اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم میں تقریباً دو سو سال کا فرق ہے چنانچہ انہیں تین کڑیوں والی احادیث بہت کم مل سکی ہیں۔یہ وہی احادیث ہیں جن کے راویوں نے طویل عمریں پائی ہوں گی۔ درایت کے اصول
سند کی درستگی کے باوجود ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم راوی کو جن معلومات کی بنیاد پر پرکھ رہے ہیں، وہ بھی بہرحال انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور ان میں بھی غلطی کا امکان (Error Margin) موجود ہے۔ عین ممکن ہے کہ فن رجال کے کسی امام نے ایک صاحب کو ثقہ (قابل اعتماد) قرار دیا ہو لیکن وہ اپنی اصل زندگی میں انتہائی گمراہ کن آدمی ہو۔ ممکن ہے کہ اس نے اپنی ہوشیاری سے اپنی گمراہیوں اور کردار کی کمزوریوں پر پردہ ڈال رکھا ہو۔ انہی مسائل کی وجہ سے علمائے حدیث نے درایت کے اصول بھی وضع کئے ہیں۔ درایت کا معنی یہ ہے کہ سند کی درستگی کے باوجود حدیث کے متن یعنی اصل الفاظ کو بھی پرکھا جائے۔ اس کی تفصیل ضمیمہ میں بیان کر دی گئی ہے۔
ان تمام فلٹرز سے گزر کر جو حدیث ہم تک پہنچے گی ، اس کے بارے میں ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ذریعے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ارشادات اور آپ کے افعال کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں وہ قابل اطمینان حد تک درست ہیں اور ان میں درمیان کے واسطوں میں کوئی غلطی یا فراڈ نہیں ہوا۔ ہم جدید ریسرچ کی زبان میں کہہ سکتے ہیں یہ حدیث مثلاً1% Error Margin یا 99% Confidence Level کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوالات
•اس سبق میں بیان کردہ حدیث کی چھان بین کے طریقوں کو نکات کی صورت میں بیان کیجیے۔
•روایت اور درایت کے اصولوں میں کیا فرق ہے؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top