- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
بسم الله الرحمن الرحيم
كتاب كا نامعلوم الحدیث: ایک تعارف
مصنف كا نام
محمد مبشر نذیر
نوٹ
اس کتاب کے زیادہ تر ابواب ڈاکٹر محمود طحان کی "تیسیر مصطلح الحدیث" سے ماخوذ ہیں۔
اس کتاب کے زیادہ تر ابواب ڈاکٹر محمود طحان کی "تیسیر مصطلح الحدیث" سے ماخوذ ہیں۔
اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ اصول حدیث سے متعلق جدید انداز میں ایک کتاب لکھ دی جاتی اور دوسری صورت یہ تھی کہ اس فن کا جو بہت بڑا علمی ذخیرہ عربی زبان میں موجود ہے اسے جدید طرز کی اردو زبان میں منتقل کر دیا جاتا۔ میں نے دوسری صورت کو ترجیح دیتے ہوئے یہ خدمت انجام دینے کی کوشش کی ہے۔میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ضمن میں ایک بہت ہی اہم کام کرنا باقی تھا اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کو جانچنے اور پرکھنے کے طریق کار کو دور جدید کے اسلوب میں تعلیم یافتہ طبقے تک پہنچا دیا جائے۔ اگر یہ کام کر دیا جائے تو علم و عقل کی بنیاد پر سوچنے والا ہر غیر متعصب شخص باآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث ہم تک نہایت ہی قابل اعتماد ذرائع سے پہنچی ہیں اور اس ضمن میں ہمارے محدثین نے جو خدمات انجام دی ہیں ان کا معیار نہایت ہی بلند ہے۔
اگرچہ اس کتاب کا اردو ترجمہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اس ترجمے میں فاضل مترجم نے مصنف کی تحریر کو من و عن اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ترجمے میں بہت سے مقامات پر ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو دینی مدارس کے طلباء کے لئے تو یقیناً قابل فہم ہیں لیکن ایک عام تعلیم یافتہ قاری کے لئے انہیں سمجھنا مشکل ہو گا۔یہ کتاب بہت سے دینی مدارس کے نصاب میں اصول حدیث کی ابتدائی کتاب کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمود طحان کا تعلق شام سے ہے اور ان کی ساری عمر سعودی عرب اور کویت کی یونیورسٹیوں میں حدیث اور اس سے متعلقہ علوم کی تدریس میں گزری ہے۔ اس کتاب میں ہم نے آزاد ترجمانی کا اصول اختیار کر کے مصنف کی کتاب کو آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں پہلے اور آخری یونٹ کا اضافہ ہم نے خود کیا ہے
اس کوشش میں میں اپنے استاذ محمد عزیر شمس صاحب کا بہت مشکور ہوں جن کی راہنمائی مجھے اس کام کے دوران حاصل رہی۔•یہ کوشش کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات میں وہیں گفتگو کی جائے جہاں قاری اس اصطلاح سے پہلے ہی واقف ہو چکا ہے ورنہ اس بات کو سادہ زبان میں بیان کیا جائے۔
•مصنف نے کتاب کی ترتیب کے لئے 'باب' اور 'فصل' کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ چونکہ فصل کا لفظ جدید کتب میں اب کم ہی استعمال کیا جاتا ہے، اس وجہ سے میں نے 'باب' کو 'حصہ' اور 'فصل' کو 'یونٹ' میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
•مختلف مباحث کو نمبروار درج کر دیا گیا ہے۔ یونٹ 3 میں کچھ مباحث کی ترتیب میں معمولی سی تبدیلی کی گئی ہے۔
•قارئین کو علوم الحدیث سے جدید انداز میں روشناس کروانے کے لئے شروع میں ایک یونٹ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس یونٹ میں تدوین حدیث کی تاریخ، حدیث سے متعلق اہم سوالات کے جوابات، اصول حدیث کی مشہور کتب کا تعارف اور فن حدیث کی بنیادی اصطلاحات کو شامل کر دیا گیا ہے۔
•مصنف نے چونکہ "درایت حدیث" سے متعلق مواد اپنی کتاب میں درج نہ کیا تھا، اس وجہ سے ضمیمے کے طور پر خطیب بغدادی کی کتاب "اصول کفایۃ"، جلال الدین سیوطی کی کتاب "تدریب الراوی" اور حافظ ابن قیم کی "منار المنیف" سے متعلقہ مباحث نقل کر دیے گئے ہیں۔
•فن حدیث کے بعض مباحث کی توضیح کے لئے ڈائیا گرامز سے مدد لی گئی ہے۔
•لفظی ترجمے کی بجائے آزاد ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
صحابہ کے بعد تابعین کا دور آیا۔ تابعین ان لوگوں کو کہتے ہیں جنہوں نے صحابہ کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا۔ اگرچہ تابعین حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے سے بہت قریب تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی زیارت کی سعادت حاصل نہ کرسکے تھے چنانچہ وہ بڑے اشتیاق کے ساتھ صحابہ کرام سے آپ کی باتیں سنا کرتے تھے۔ یہی شوق ان کے بعد تبع تابعین، یعنی وہ حضرات جنہوں نے تابعین کا زمانہ پایا اور ان سے دین سیکھا، اور ان کے بعد کی نسلوں میں منتقل ہوا۔ بہت سے تابعین نے بھی اپنے ذخیرہ احادیث کو تحریری صورت میں محفوظ بھی کرلیا تھا۔ہمیں جن صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ حدیثیں سب سے زیادہ تعداد میں مل سکی ہیں ان میں حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر بن خطاب، انس بن مالک، ام المومنین حضرت عائشہ، عبداللہ بن عباس، جابر بن عبداللہ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمرو بن عاص، علی المرتضی، اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کی شخصیات بہت نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ سے احادیث مروی ہیں لیکن ان کی تعداد کافی کم ہے۔ بعض صحابہ نے ذاتی طور پر احادیث کو لکھ کر محفوظ کرنے کا کام بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں شروع کر دیا تھا۔
ایسا ضرور ہوا ہے کہ بعض مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص یہ ارشاد فرمایا کہ ان باتوں کو دوسروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس کی ایک مثال حجۃ الوداع کا خطبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطبہ ہم تک معنوی اعتبار سے تواتر سے پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ جن صحابہ نے احادیث بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، وہ ان کے اپنے ذوق، فہم ، رجحان طبع اور Initiative کی بنیاد پر تھا۔ احادیث کے معاملے کی اسی حساسیت کی وجہ سے حدیث کو بیان کرنے والے افراد نے یہ اہتمام کیا کہ کوئی حدیث ان تک جس جس شخص سے گزر کر پہنچی، انہوں نے اس کا پورا ریکارڈ رکھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے حاصل کردہ معلومات کے بیان کا معاملہ انتہائی حساس (Sensitive) ہے۔ ایک متواتر اور مشہور حدیث کے مطابق اگرکوئی آپ سے جھوٹی بات منسوب کر دے تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں صحابہ کرام علیہم الرضوان بہت احتیاط فرمایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بڑے بڑے صحابہ جیسے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، طلحۃ، زبیر، ابوعبیدہ، عباس رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث کی تعداد بہت کم ہے۔
ان تمام عوامل کے نتیجے میں حدیث کے پاکیزہ اور خالص ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ ہوگئی۔اس موقع پر ہمارے محدثین (اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے) نے ایک نہایت ہی اعلیٰ نوعیت کا اہتمام فرمایا۔ انہوں نے اپنی دن رات کی محنت سے احادیث بیان کرنے والوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا۔ ان کی ان کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کا وہ فن وجود میں آیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر اسپرنگر کے مطابق یہ ایک ایسا فن ہے جس کی مدد سے پانچ لاکھ افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔•اس دور تک امت میں سیاسی گروہ بندی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ ہر دھڑے کے کم علم اور کم فہم افراد نے اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات کے فضائل اور ناپسندیدہ شخصیات کی مذمت میں جعلی حدیثیں گھڑیں اور انہیں بیان کرنا شروع کردیا۔
•اس وقت تک مسلمانوں میں فرقہ پرستی کی وبا پھیل چکی تھی۔ بہت سے فرقہ پرست متعصب افراد نے اپنے نقطہ نظر اور افکار کی حمایت اور اپنے مخالفین کی مذمت میں احادیث وضع کرنا شروع کیں۔ جرح و تعدیل کے مشہور امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" کے مقدمے میں ایسے ہی ایک صاحب، جو احادیث گھڑا کرتے تھے اور بعد میں اس مذموم عمل سے توبہ کر چکے تھے، کا یہ قول نقل کیا ہے، "اس بات پر نگاہ رکھو کہ تم اپنا دین کن لوگوں سے اخذ کر رہے ہو۔ ہمارا یہ حال رہا ہے کہ جب ہمیں کوئی چیز پسند ہوتی تو اس کے لئے حدیث گھڑ لیا کرتے تھے۔"
•چونکہ محدثین کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل تھا اور ان کے لئے دنیاوی جاہ اور مال و دولت کے دروازے کھلے تھے، اس لئے بعض مفاد پرستوں نے بھی یہ فوائد حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر پھیلانا شروع کردیں۔ یہ مفاد پرست خود تو اس قابل تھے نہیں کہ محدثین جتنی محنت کر سکتے، انہوں نے سستی شہرت کے حصول کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنی طرف سے احادیث وضع کرنا شروع کر دیں۔
•بعض ایسے بھی نامعقول لوگ تھے جنہوں نے محض اپنی پراڈکٹس کی سیل میں اضافے کے لئے ان چیزوں کے بارے میں حدیثیں گھڑنا شروع کردیں۔ مثال کے طور پر ہریسہ (ایک عرب مٹھائی) بیچنے والا ایک شخص یہ کہہ کر ہریسہ بیچا کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو ہریسہ بہت پسند تھا۔
•بعض ایسے افراد بھی تھے جو ذاتی طور پر بہت نیک تھے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم معاشرے میں دنیا پرستی کی وبا پھیلتی جارہی ہے تو انہوں نے اپنی ناسمجھی اور بے وقوفی میں دنیا پرستی کی مذمت ، قرآن مجید کی سورتوں اور نیک اعمال اور اوراد و وظائف کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر بیان کرنا شروع کردیں تاکہ لوگ نیکیوں کی طرف مائل ہوں۔ انہی جعلی احادیث کی بڑی تعداد آج بھی بعض کم علم مبلغ اپنی تقاریر میں زور و شور سے بیان کرتے ہیں۔ مصر کے مشہور محدث اور محقق علامہ احمد محمد شاکر (م 1957ء) لکھتے ہیں، "احادیث گھڑنے والوں میں بدترین لوگ اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے وہ ہیں جنہوں نے خود کو زہد و تصوف سے وابستہ کر رکھا ہے۔ یہ لوگ نیکی کے اجر اور برائیوں کے برے انجام سے متعلق احادیث وضع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے بلکہ اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ اپنے اس عمل کے ذریعے وہ اللہ سے اجر پائیں گے۔" امام مسلم، صحیح مسلم کے مقدمے میں لکھتے ہیں، "ہم نے ان صالحین کو حدیث سے زیادہ کسی اور چیز میں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔"
"متن" حدیث کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالات بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔ سند کی تحقیق میں سند کا حدیث کی کتاب کے مصنف سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک ملا ہوا ہونا اور راویوں پر جرح و تعدیل شامل ہیں جبکہ متن کی تحقیق کو درایت حدیث کہا جاتا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے لے کر امام ترمذی تک پانچ افراد ہیں جن میں سے ایک صحابی رسول سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے علاوہ چار اور اشخاص ہیں، چھٹے امام ترمذی خود ہیں۔ ہمیں یہ چیک کرنا ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمائی تھی یا پھر کسی نے اسے اپنی طرف سے وضع کرکے آپ کی طرف منسوب کر دیا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں یہ چیک کرنا ہے کہ یہ حدیث اصلی ہے یا جعلی۔فن رجال وہ علم ہے جس میں حدیث بیان کرنے والے تقریباً تمام راویوں کی عمومی شہرت کا ریکارڈ مل جاتا ہے۔ حدیث میں اس ملاوٹ کی وجہ سے محدثین نے احادیث کو پرکھنے کے اصول مرتب کئے تاکہ فلٹر کرکے اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جاسکے۔ ان اصولوں کو سمجھنے کے لئے ہم ایک مثال سے وضاحت کرتے ہیں۔فرض کیجئے امام ترمذی اپنی کتاب "الجامع الصحیح سنن" میں جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے ایک حدیث بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث کے سند والے حصے میں سند کچھ یوں بیان ہوتی ہے: "ہم سے اس حدیث کو راوی 'اے' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'بی' نے بیان کیا، ان سے اس حدیث کو 'سی' نے بیان کیا، انہوں نے اس حدیث کو 'ڈی' سے سنا اور انہوں نے 'حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ' کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا: ---------- (حدیث کا متن)"۔
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی دیانت داری اور حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت پر کوئی شک نہیں کر سکتا۔ ضرورت اصل میں امام ترمذی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان موجود چار اشخاص کو تفصیل سے چیک کرنے کی ہے کیونکہ اگر کوئی گڑبڑ ہوسکتی ہے تو وہ ان ہی میں ہو سکتی ہے۔ اس چیکنگ کو محدثین "جرح و تعدیل" کا نام دیتے ہیں۔ اس عمل میں ان میں سے ہر شخص کے بارے میں یہ سوالات کئے جاتے ہیں کہ کیا ان کی شہرت ایک دیانت دار اور محتاط شخص کی ہے؟ کیا وہ اپنی نارمل زندگی میں ایک معقول انسان تھے؟ کہیں وہ لاابالی اور لاپرواہ سے آدمی تو نہیں تھے؟ کہیں وہ کسی ایسے سیاسی یا مذہبی گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتے تھے جو اپنے عقائد و نظریات کو فروغ دینے کے لئے حدیثیں گھڑتا ہو؟ کہیں وہ کسی شخصیت کی عقیدت کے جوش میں اندھے تو نہیں ہوگئے تھے؟ عمر کے کسی حصے میں کہیں ان کی یادداشت تو کمزور نہیں ہوگئی تھی یا ان کی حدیث لکھنے والی ڈائری گم تو نہیں ہو گئی تھی؟ یہ صاحب حدیثوں کو لکھ لیتے تھے یا ویسے ہی یاد کر لیتے تھے؟ ان کے قریب جو لوگ تھے، اُن کی اِن کے بارے میں کیا رائے ہے؟ وہ کس شہر میں رہتے تھے؟ انہوں نے کس کس امام حدیث سے کس زمانے میں تعلیم حاصل کی؟ وہ کب پیدا ہوئے اور کب فوت ہوئے؟ ان کی کس کس محدث اور راوی سے ملاقات ثابت ہے؟کسی کی کتاب میں اپنی طرف سے کچھ داخل کر دینے کا عمل صرف انہی کتابوں ہی میں ممکن ہے جو صرف چند افراد تک محدود تھیں مثلاً اہل تصوف کی کتابیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم سے لے کر امام ترمذی تک تو کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی راوی کے بارے میں سرے سے معلومات ہی دستیاب نہ ہوں۔ اس صورتحال کے نتیجے میں بھی حدیث کمزور حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ اسی طرح ایک صحابی اگر کسی حدیث کو بیان کرتے ہوں اور کسی دوسری مستند روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ ان کا اپنا عمل اس حدیث کے خلاف تھا تو یہ چیز بھی حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے کیونکہ صحابہ کرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے کسی ارشاد کو جاننے کے باوجود اس پر عمل نہ کریں۔ ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے وہ حکم کسی خاص صورتحال کے پیش نظر دیا ہو جو ہر حال میں قابل عمل نہ ہو۔اسی طرح راوی سی اگر کوفہ میں رہتا تھا اور ساری عمر شہر سے باہر نہیں نکلا اور راوی ڈی دمشق میں رہتا تھا اور کبھی کسی سفر پر کوفہ نہیں گیا تب بھی یہ بات کنفرم ہو جاتی ہے کہ ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایسی صورتوں میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ان دو راویوں کے درمیان بھی کوئی راوی موجود ہے جس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ چیز بھی اس حدیث کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔
عام طور پر احادیث کی سند میں تین سے لے کر نو افراد تک موجود ہوتے ہیں۔ تین راویوں والی احادیث کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ موطاء امام مالک میں بہت سی ایسی احادیث موجود ہیں کیونکہ امام مالک علیہ الرحمۃ (م 179ھ) اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زمانے کا فاصلہ زیادہ طویل نہ تھا۔ موطا میں بعض احادیث میں تو صرف دو راوی ہیں۔ ایسی بعض احادیث بخاری میں بھی موجود ہیں۔ امام بخاری اور حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم میں تقریباً دو سو سال کا فرق ہے چنانچہ انہیں تین کڑیوں والی احادیث بہت کم مل سکی ہیں۔یہ وہی احادیث ہیں جن کے راویوں نے طویل عمریں پائی ہوں گی۔ درایت کے اصولایسا بھی ممکن ہے کہ ایک شخص نے تو بات مکمل طور پر بیان کر دی ہو لیکن دوسرا اسے سمجھنے میں اور آگے منتقل کرنے میں غلطی کردے۔ سند جتنی طویل ہوتی جائے گی، اور حدیث کی کتاب مرتب کرنے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے درمیان زنجیر کی کڑیاں بڑھتی جائیں گی تو اس قسم کی غلطیوں کا امکان بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین ان احادیث کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جن کی سند مختصر ہو بشرطیکہ وہ ثقہ (Reliable) راویوں کے ذریعے منتقل ہوئی ہوں۔
ان تمام فلٹرز سے گزر کر جو حدیث ہم تک پہنچے گی ، اس کے بارے میں ہم اطمینان سے کہہ سکتے ہیں کہ اس ذریعے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ارشادات اور آپ کے افعال کے بارے میں جو معلومات ملی ہیں وہ قابل اطمینان حد تک درست ہیں اور ان میں درمیان کے واسطوں میں کوئی غلطی یا فراڈ نہیں ہوا۔ ہم جدید ریسرچ کی زبان میں کہہ سکتے ہیں یہ حدیث مثلاً1% Error Margin یا 99% Confidence Level کے تقاضوں کو پورا کر رہی ہے۔