• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمران نیازی ٹولے اور مرزا جہلمی کی توہین رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض جاہلوں کا دفاع

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
عمران نیازی ٹولے اور مرزا جہلمی کی توہین رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض جاہلوں کا دفاع

تحریر : حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی

ائمہ دین کا اتفاق ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص شان خواہ صریح ہو یا تعریض(کنائے وغیرہ) کی صورت میں، اور کرنے والا سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ یعنی فرط جہل کی بنا پر کھیل کُود کا انداز ہو تمام صورتوں میں کُفر اور مستوجب سزائے موت ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے اس مسئلے پر مذاہب اربعہ اور دیگر ائمہ اُمت کے متفقہ اقوال نقل کرکے یہی فیصلہ فرماتے ہوئے کہا (فقد اتفقت نصوص العلماء من جميع الطوائف على أن التنقص به كفر مبيح للدم وهم في استتابته على ما تقدم من الخلاف ولا فرق في ذلك بين أن يقصد عيبه لكن المقصود شيء آخر حصل السب تبعا له أو لا يقصد شيئا من ذلك بل يهزل ويمزح أو يفعل غير ذلك.)

جیسا کہ شوافع سے صراحتا نقل کرتے ہیں(كل من تعرض لرسول الله صلى الله عليه وسلم بما فيه استهانة فهو كالسب الصريح)، یعنی اس باب میں تصریح شرط نہیں بلکہ تعریض(اشارے کنائے سے توہین کرنا) صریح توہین ہی کی طرح ہے۔ اسی طرح کے اقوال امام ابو حنیفہ ، مالک اور اُن کے اصحاب کے ہیں۔

یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ توہین رسالتماب علیہ السلام سے متعلق عوام میں منتشر بعض جہلیات کا ازالہ کیا جائے جن میں بعض خُودساختہ قبل از وقت “مُفتی” بھی شریک اور انتشار جہل کا سبب ہیں۔

جہل ۱- فُلاں تو موحد ہے وہ کیسے توہین کرسکتا ہے؟

ازالہ:- توحید کی سب سے اہم بنیاد اللہ اور اُس کے رسول کا ادب ہے۔ اللہ رب العزت نے اُمت کی عظیم ترین ہستیوں صحابہ کرام کو سورت حجرات میں حکم دیا کہ نبی مکرم کے حضور اپنی آوازوں کو پست رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ پتہ بھی نہ چلے اور تمام اعمال برباد ہوجائیں۔ معلوم ہوا کہ اس بے ادبی میں علم و جہل شرط نہیں بلکہ کوئی بھی ایمان سے محروم ہوسکتا ہے۔

صحيح بخاري میں تابعی جلیل ابن ابی ملیکہ کا بيان ہے کہ قریب تھا کہ اُمت کی دو عظیم ترین ہستیاں یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی اگر بحضور نبی کریم اپنی آوازوں کو پست نہ رکھتیں تو ہلاک ہوجاتیں۔ اور اس پر کتاب و سُنت کے درجنوں دلائل ہیں، جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں، کہ ادب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر توحید اور ایمان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ لہذا جو توحید کو اہانت نبی کریم سے الگ کوئی چیز سمجھتا ہے اُسے اپنے جہل کو دور کرنا چاہیے۔ مزید تفصیل اگلے نکات میں۔

جہل ۲- وہ رسول اللہ پر ایمان رکھتا ہے لیکن جہل کی وجہ سے توہین کر رہا ہے۔

ازالہ:- قران نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کو صرف تب قابل نجات ٹہرایا ہے جب وہ آپ علیہ السلام کی نصرت اور توقیر کے ساتھ ہو (فالذين آمنوا به وعزروه ونصروه..الآية) اور اسی طرح آخری درجہ تک نبی کریم کی توقیر کا حکم دیا ہے (لتعززوه وتوقروه) اور بلکہ رب ذو الجلال نے آپ علیہ السلام کے فیصلہ کے خلاف دل میں بھی تنگی لانے والے ایمان کی نفی پر قسم کھائی ہے (سورت نساء :65)، اسی طرح حدیث مبارکہ میں اس شخص کے ایمان کی نفی ہے جسے آپ علیہ السلام اپنے ماں باپ اور بچوں سمیت تمام انسانوں سی زیادہ محبوب نہ ہوں۔

اسی بنا پر ائمہ اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جس طرح شرک کلیتا ترک کیے بغیر کلمہ توحید سے اسلام نہیں مل سکتا اسی طرح جناب رسالتمآب میں سوئے ادب ترک کیے بغیر عبودیت یا اطاعت رسول کا وجود متحقق نہیں ہوسکتا۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اہانت آمیز کملہ کُفر اکبر ہے اور کُل دین کی نفی ہے خواہ کوئی جاہل کہے یا عالم۔

امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ حکم توہین میں وہ شخص یقینا داخل ہے جو نبی کریم کی رسالت اور اتباع کا اعتقاد رکھے اور پھر آپ علیہ السلام کی توہین کرے اس لیے کہ کلمہ توحید و رسالت کا مُوجَب ہی یہ ہے کہ جس پر ایمان لاتے ہو اور غیر مشروط اطاعت کا اعلان کرتے ہو اُس کی تعظیم کرو نہ کہ تحقیر اس لیے کہ ایمان قول وعمل دونوں کا نام ہے۔

بلکہ فرماتے ہیں (إن قيام المدحة والثناء عليه والتوقير له صلى الله عليه وسلم قيام الدين كله، وسقوط ذلك سقوط الدين كله) کہ آپ کی تعظیم وتوقیر یعنی (بصورت ادب و اطاعت) ہی کُل دین کا قیام اور آپ علیہ السلام کا سوئے ادب کُل دین کا سقوط ہے۔

شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ رسول کریم کا ادب دراصل مُرسل(اللہ رب العزت) کا ادب ہے جیسا کہ آپ کی اطاعت ہی اللہ رب العزت کی اطاعت ہے (من يطع الرسول فقد اطاع الله

اسی لیے ائمہ اُمت بالخصوص مسلمانوں کے درمیان رہنے والے شاتم رسول کو جو جہل، عدم علم یا “بس یونہی کہ دیا ارادہ نہیں تھا” کا عذر پیش کرنے والے کو منافق قرار دیتے، بلکہ قران نے یہ انداز توہین ذکر ہی منافقین کے لیے کیا ہے جو بظاہر اسلام، توحید اور حُب رسول کا دم بھرتے اور بعض کُفار کی مانند صریح اہانت کی جرات نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا (لا تعتذروا قد كفرتم بعد ايمانكم

اور اسی لیے ابن تیمیہ اور دیگر ائمہ اُمت رحمھم اللہ تعالی نے کلمہ توہین میں ہنسی، دل لگی، غیر سنجیدگی، جہالت یا ڈنگر پن جیسی کیفیتوں کا فرق نہیں کیا بلکہ فرمایا (وهذا كله يشترك فى هذا الحكم)۔ لہذا جو شخص مفسر قران یا مُفتی بنا پھرتا ہو پھر توہین کرے تو وہ یقینا مُنافق ہے گرچہ لنڈے کے مُفتی اُسے جاہل کہ کر جہالت اور توہین میں فرق کریں۔ ان جاہلوں کو شاید علم نہیں مُشرک بھی جاہل ہوتا ہے بنص قرانی اور کافر و مُرتد بھی۔ اور جس جہل و اکراہ یا نسیان سے حکم شرعی رفع ہوتا ہے اُس کا اطلاق ایسے شخص پر نہیں ہوتا۔

جہل ۳- “کل کا چھوکرا” توہین نہیں، توہین صریح ہوتی ہے۔

ازالہ:- الزامی جواب تو سادہ ہے کہ اگر تیرے باپ یا ماں کو کوئی”کل کا چھوکرا” کہے تو تُجھے توہین محسوس ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو یقینا تو ایک شریف النفس نہیں بلکہ بیغیرت اور فاتر العقل انسان ہے۔ البتہ تحقیقی جواب(جو تُجھ جاہل سے زیادہ اہل علم قارئین کرام) کے لیے ہے کہ اللہ رب العزت نے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین جو مستوجب سزائے موت ہے کی صریح علت “اذی” بتلائی ہے، اور عربیت میں “اذی” کا کم از کم اطلاق اس قول پر ہوتا ہے جو فی نفسہ بربنائے اہانت اذیت دینے والا ہو گرچہ کہنے والے کا یہ مقصد یہ نہ ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے نصوص شریعت سے استدلال کرتے ہوئے “الصارم المسلول” میں بڑی تفصیل سے اس مفہوم کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں (فإن الرجل يتكلم بالكلمة من سخط الله تعالى ما يظن أن تبلغ ما بلغت يهوي بها في النار أبعد مما بين المشرق والمغرب ومن قال ما هو سب وتنقص له فقد آذى الله ورسوله وهو مأخوذ بما يؤذي به الناس من القول الذي هو في نفسه أذى وإن لم يقصد أذاهم ألم تسمع إلى الذين قالوا: إنما كنا نخوض ونلعب فقال الله تعالى: {أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ}

یعنی وہ کلمہ جو لوگوں یا معاشرے کے عُرف میں باعث اذیت مانا جاتا ہے اگرچہ کہنے والے کی یہ نیت نہ بھی ہو۔ بلکہ عدم نیت کے باوجود کہنے والا بسا اوقات جہنم میں جاگرتا ہے جیسا کہ حدیث ذکر کی گئی۔

اسی طرح منافقین کی اذیت قولی پر اللہ رب العزت نے اُنھیں دنیا و آخرت کی دائمی لعنت کی وعید سُنائی ہے (ان الذين يؤذون الله ورسوله لعنهم الله فى الدنيا والاخرة..الآية) اور یہی کلمہ “اذی” نبی کریم نے کعب بن اشرف ملعون کے لیے فرمایا تھا جس کی ایذا رسانی صرف زبان کے ذریعے تھی (من لكعب بن الاشرف فانه قد آذى الله ورسوله

چنانچہ ہر وہ کلمہ جو مہذب لوگوں کے عام افراد کے ہاں توہین آمیز اور باعث اذیت خیال کیا جاتا ہے وہ بالاولی اشرف الانبیاء والمُرسلین کی توہین مانا جائے گا۔

بلکہ اس پر قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی نے (الشفاء) میں فقہائے مالکیہ کے فتاوی ذکر فرمائے ہیں جن میں اشارے کنائے یا پُرغموض الفاظ کے ذریعے توہین رسالت کی گئی تھی، مثلا (اللہ رب العزت مُجھے اس نقل کے تبعات سے بھی محفوظ فرمائے جو مجبورا کررہا ہوں) سیاہ کہنا، کسی بُرے حلیے والے شخص سے تشبیہ دینا، یا بطور تحقیر یتیم یا محتاج کہنا وغیرہ، تو یہ سب شرارتیں اور منافقین کا خبث نفس ان فقہاء کی بصیرت نے بھانپ لیا اور انہیں واجب القتل قرار دیا۔ وللہ الحمد۔

لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ آجکل اس ھمز ولمز جیسی شرارت کے ذریعے اُس ذات مقدسہ و منورہ کی مسلسل توہین کی جارہی ہے کہ جس کی تعظيم اور اجلال کرتے ہوئے کبھی رب العالمین نے بھی اُس کے نام نامی اسم گرامی مُحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خطاب نہیں فرمایا۔

آج کبھی کسی مسخ شدہ بدفطرت بچے کو کھڑا کیا جاتا جو عمران نیازی جیسے مُشرک اور بدکار کی پیدائش کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد جیسا کہتا ہے تو تمام عمرانڈو تالیاں پیٹتے ہیں، تو کبھی جہلم کا منافق مرزا امام الانبیاء علیہ السلام کو (معاذ اللہ) چھوکرے کا لقب دیتا ہے، اور پھر اصرار کرتا ہے کہ اس میں حرج کیا ہے؟ پھر بعض سفہاء اس کا دفاع کرتے ہیں۔

حالانکہ جہلم کے منافق کی ایک عُمر صحابہ کرام بشمول حضرت حسن، حضرت معاویہ اور ام امومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کی توہین میں سیاہ ہوچُکی ہے۔ حتی کہ قران کریم کی بھی توہین کرچُکا ہے۔ تو ایسے خبیث کو اگر شہ دی جائے اور گرفت نہ کی جائے تو اُس کے لیے بہت آسان ہوجاتا ہے کہ اُس کے مُنہ کا گٹر کائنات کی عظیم ترین ہستی کی طرف بھی کُھل جائے۔ یقینا یہ حالیہ توہین رسالت کی مخفی مگر خطرناک لہر اگر قابو نہ پایا گیا تو ارض وطن میں بہت بڑے فساد اور فتنے کو جنم دے سکتی ہے۔

واللہ المُستعان
 
Top