• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت، گھر اور گھوڑے میں نحوست: حدیث پر اعتراض کا ازالہ

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
اہل علم سے درخواست ہے کہ حدیث کی تشریح میں درستگی، مفید اضافہ جات کی جانب رہنمائی فرمائیے، تاکہ منکرین حدیث کے حدیث کے ضمن میں ایسے تمام عوامی قسم کے اعتراضات کے جامع جوابات تیار کئے جا سکیں، کیونکہ ان سطحی قسم کے اعتراضات کو علمائے کرام عموماً اہمیت نہیں دیتے اور عوام میں اس قسم کے اعتراضات سے، علمی اعتراضات کی بہ نسبت زیادہ فتنہ پھیلتا ہے۔

منکرین حدیث کی جانب سے ایک حدیث پر اعتراض:

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے عورتوں میں، مکان میں، اور جانور میں ( بخاری ومسلم)


حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني سالم بن عبد الله أن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمرأة والدار.
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 124 حدیث مرفوع مکررات 21 متفق علیہ 12
ابوالیمان، شعیب، زہری، سالم بن عبداللہ ، عبداللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔


أخبرنا محمد بن عبد الأعلی قال حدثنا خالد قال حدثنا ابن جريج عن أبي الزبير عن جابر أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال إن يک في شي ففي الربعة والمرأة والفرس
سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1511 حدیث مرفوع مکررات 2
محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، ابوزبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر نحوست کسی شئی میں ہے تو عورت مکان اور گھوڑے میں ہے۔
اعتراض کا ازالہ:

حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اپنی مرضی کے برعکس مسلم گھرانوں میں‌پیدا ہوا ہو، اور مغرب کی چکا چوند ترقی سے فکری طور پر مرعوب ہو کر غیر اسلامی عقائد و نظریات کو حرزجان بنا چکا ہو، اور کھلے عام اسلام کو خیر باد کہہ دینے کی اخلاقی جرات سے بھی محروم ہو، تو اسے اپنے مبنی بر وحی دین کی ہر شے دریابرد کرنے لائق نظر آتی ہے۔ اخلاقاً اور لفظاً تو وہ اسلام ہی کو مان رہے ہوتے ہیں، لیکن قلباً و معناً وہ ہمہ وقت اس کی تحریفات میں‌مشغول رہتے ہیں۔

عام بات ہے کہ کوئی شخص‌جب کسی دوسرے سے دلی طور پر کسی بھی وجہ سے نفرت کرنے لگ جائے۔ تو اس کی ہر اچھائی اور خوبی بھی کانٹے کی طرح‌چبھتی ہے۔ بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ نفرت میں اور اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال ہمارے ان بھائیوں کو بھی درپیش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بغض‌اور نفرت و عناد میں‌اندھے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ علمائے کرام ان کے اعتراضات کے شافی جوابات دے کر فارغ‌ہو چکے، لیکن ان کے اندر کا حسد انہیں‌چین نہیں‌لینے دیتا۔ بار بار انہی گھسے پٹے اعتراضات کی تشہیر کئے جاتے ہیں۔

حدیث‌ کے جن الفاظ‌کو تختہ مشق کے لئے چنا گیا ہے، وہ دو طرح کے ہیں:
الشؤم في ثلاث في الفرس والمرأة والدار
نحوست تین چیزوں میں ہے۔ گھوڑے، عورت اور گھر میں۔
اور دوسری طرح کے الفاظ:
إن کان ففي الفرس والمرأة والمسکن
اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی ایک گھوڑے میں دوسرے عورت میں تیسرے گھر میں۔
اور یہ بات معلوم ہے کہ جیسے قرآن کا بعض، بعض کی تفسیر کرتا ہے، ایسے ہی احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ اس موضوع پر تمام احادیث‌کو یکجا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ درست عقیدہ تو یہ ہے کہ نحوست کسی چیز میں ہوتی ہی نہیں ہے۔ اور بالفرض اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا تو یہ گھوڑے ، عورت اور گھر میں‌ہوتی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ یہ حدیث کہ:
لوکان شی سابق القدر لسبقۃ العین
یعنی اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لاجانے والی ہو تو وہ نظر بد ہوتی ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر پر سبقت لانے والی کسی چیز کا حقیقی وجود ہے ہی نہیں، ہاں اگر کوئی ایسی چیز ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی۔

دوسری بات یہ کہ اس مقصد کے لئے گھوڑے، عورت اور گھر ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ ان تینوں‌میں ایسی کیا مشترک بات ہے؟ تو وہ یہ ہے کہ عموماً انسان کو سواری، عورت (بمعنی بیوی ) اور گھر (بمعنی گھر یا مال و دولت) سے محبت ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا سبب ہیں۔ نحوست کی نسبت ان کی جانب کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ یہ چیزیں بجنسہٖ منحوس ہیں، کیونکہ یہ تو حدیث سے ثابت ہے کہ نحوست ہوتی ہی نہیں، بلکہ صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
لاطیرۃ: کوئی نحوست اور بدشگونی نہیں [صحیح بخاری : ۵۷۵۴]

لہٰذا یہاں نحوست سے مراد ان چیزوں کا انسان کے لئے فتنہ ہونا ہے۔ اور اس بات میں کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ عورت فتنہ ہے، سواری یا گھر (مال و دولت) فتنہ ہیں، اور ان کے فتنہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہ دل لبھانے والی، زیب و زینت اور آرائش سے بھرپور چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں انسانوں کے لئے خوب کشش رکھی ہے۔ اور یہی کشش ان کے فتنہ ہونے کا باعث ہے۔

جیسے گھر میں نحوست کا یہ مطلب نہیں کہ گھر بذات خود منحوس ہے، لہٰذا گھروں میں رہنے کی بجائے سنیاس لے لیا جائے اور کٹیاؤں، یا جنگلوں اور غاروں میں جا کر رہیں، بلکہ گھر میں نحوست کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو گھر کی خواہش ہوتی ہے۔جو دل میں فخر و غرور اور احساس برتری یا شرمندگی اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے۔ اور یہی خواہش اسے بالآخر حرام کام کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے، یا فرائض میں کوتاہی کا سبب بنتی ہے ۔ لہٰذا بالآخر گھر، سواری یا مال و دولت لوگوں کے لئے آزمائش اور فتنہ کا باعث بنتی ہیں، دنیا میں مگن رہنے اور آخرت کو بھول جانے کا باعث بنتی ہے اور گھر کی جانب نحوست کی نسبت کا یہی درست معنی ہے کہ گھر بذات خود دنیاوی آرام و آسائش کی چیز ہے، اور اسی وجہ سے لوگوں کے فتنہ کا سبب ہے۔

بعینہ اسی طرح عورت میں نحوست کا یہ مطلب نہیں کہ عورت بجنسہٖ منحوس ہے، لہٰذا شادیاں ہی نہ کرو اور بیٹی کی پیدائش پر غم مناؤ کہ منحوس شے پیدا ہو گئی ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت کو بھول کر اسے بھی منحوس گردانو۔ ایسے مطلب اخذ کرنے والے خود الٹی کھوپڑی کے لوگ ہیں۔ جو ہر سیدھی چیز کو بھی بغض و عناد کے سیاہ آئینے میں الٹا دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہاں بھی نحوست کی نسبت فنتے ہی کے معنوں میں ہے اور یہی درست معنیٰ ہے کہ عورت بذات خود چونکہ آرائش کا سامان ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے کشش رکھی ہے، زیب و زینت کی شے بنایا ہے۔ لہٰذا اس کی وجہ سے انسان فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے۔

لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ہم لاکھ دلیل سے کسی حدیث کی ایسی درست تشریح پیش کرتے رہیں کہ جو اس پر چھا جانے والے شکوک کے بادلوں کو ہٹانے کے لئے کافی ہو، لیکن ہمارے یہ کینہ پرور حضرات حدیث دشمنی میں اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ورنہ تو ان کے مسلک کی بنیادیں ہی اکھڑ جائیں گی۔ کیونکہ منکرین حدیث بذات خود سو سالہ مختصر دور میں کثیر گروہوں میں ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں، اور واحد شے جو ان سب گروہوں میں مشترک ہے وہ یہی ہے کہ احادیث کا استخفاف و استہزاء کیا جائے۔ عوامی سطح پر احادیث میں تشکیک کی مہم چلائی جائے تاکہ حدیث کے سادہ سے الفاظ کو اپنی سڑی ہوئی غلیظ ذہنیت سے ذومعنی اضافہ جات کی پرکاری کر کے معصوم ذہنوں میں شکوک کے کانٹے بوئے جائیں۔ اور پھر مگر مچھ کے آنسوؤں کے ساتھ جذباتی دہائیاں زور و شور سے دی جائیں کہ دیکھو جی حدیث میں تو نعوذباللہ یہ بھی ہے ، وہ بھی ہے۔ ۔۔۔ وغیرہ۔ورنہ اس انکار حدیث کے علاوہ ان کے ہر دو گروہوں کا آپس میں اسلام کے مبادیات تک میں کفر و اسلام جیسا اختلاف موجود ہے۔

خیر، یہ احادیث صحیح بخاری و مسلم کی ہیں جن کی اسنادی صحت کسی شک سے بالا تر ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہرحال یہ الفاظ ضرور ثابت ہیں۔ اور جو لوگ ہماری پیش کردہ تشریح کے بعد بھی ان احادیث کا استہزاء اڑاتے رہنا چاہتے ہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ اخلاقی جراءت کا ثبوت دیتے ہوئے پھر قرآن کی درج ذیل آیت کا بھی انہی معنوں میں استہزاء کریں ( اور اپنے ایمان کی فکر بالکل نہ کریں، رسول کی بات پر غلیظ تبصرے کرنے سے ایمان نہیں جاتا تو قرآن کی ایک آدھ آیت کا مذاق اڑانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا)۔۔۔


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ
[التغابن : ۱۴]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔
لیں جی، اب استغفراللہ، نعوذباللہ پڑھتے ہوئے خواتین کے سامنے جا کر دہائی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صراحت کے ساتھ ایمان والوں کا دشمن قرار دیا ہے۔ ان منکرین حدیث حضرات کی حدیث کے بارے میں بعینہ وہی ٹیکنیک ہے جو غیر مسلم قرآن کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ کہ رائی برابر کوئی چیز ملے تو اسے پہاڑ بنا کر پیش کر ڈالتے ہیں۔ خود ساختہ مفاہیم اپنے مخالفین کے گلے مڑھتے ہیں اور پھر اپنے ہی بنائے گئے خود ساختہ مفہوم کی تردید کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔

جس طرح درج بالا آیت میں عداوت کا مطلب اپنے اصل معروف معنوں میں دشمنی مراد لینا پرلے درجے کی ناانصافی ہے۔ بلکہ یہاں بھی مراد یہی ہے کہ انسان کے لئے بیوی اور اولاد میں اللہ تعالیٰ نے بہت کشش اور محبت رکھی ہے۔ انسان ان کی محبت میں حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے، یا اپنے دیگر فرائض و واجبات میں ان کی وجہ سے کوتاہی کر بیٹھتا ہے۔ لہٰذا دشمنی کی نسبت بیویوں اور اولاد کی جانب کرنا ، دراصل بیویوں اور اولاد کے فتنہ ہونے کی بنا پر ہے۔ بعینہ یہی تشریح حدیث کی بھی ہے فرق اتنا ہے کہ قرآن عورت کی جانب صراحت کے ساتھ دشمنی کی نسبت کرتا ہے اور حدیث میں نحوست کی نسبت کی گئی ہے وہ بھی شرطیہ (اگر نحوست ہوتی تو)۔ اور دونوں کا ماحصل ایک ہی ہے۔ فللہ الحمد۔

اب یا قرآن پر بھی اعتراض کیجئے یا حدیث پر سے اعتراض واپس لیجئے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے۔

لیکن میں نے کسی حدیث میں (اس وقت حوالہ یاد نہیں) یہ بات پڑھی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’تصحیح‘‘ اس طرح کی تھی کہ : جس نے یہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات سنی ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا: یہودی کہتے ہیں کہ ۔۔۔ عورت گھر اور گھوڑے میں نحوست ہوتی ہے۔
سننے والے نے ’’یہودی کہتے ہیں کہ‘‘ والی بات سنی نہیں اور اگلا فقرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کردیا۔

اصحاب علم سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کریں کہ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منسوب یہ وضاحت کسی صحیح حدیث میں موجود ہے؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
أبو داود الطيالسي (المتوفى: 204)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ مَكْحُولٍ،(؟) قِيلَ لِعَائِشَةَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ: فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ " فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لَمْ يَحْفَظْ أَبُو هُرَيْرَةَ لِأَنَّهُ دَخَلَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، يَقُولُونَ إِنَّ الشُّؤْمَ فِي ثَلَاثَةٍ: فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ " فَسَمِعَ آخِرَ الْحَدِيثِ وَلَمْ يَسْمَعْ أَوَّلَهُ[مسند أبي داود الطيالسي:3/ 124]۔

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّاسِبِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ [رَاشِدٍ] ، عَنْ مَكْحُولٍ،(؟) أَنَّ عَائِشَةَ، ذُكِرَ لَهَا قَوْلُ أَبِي هُرَيْرَةَ: " إِنَّ الشُّؤْمَ فِي الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ [وَالدَّارِ، فَقَالَتْ: لَمْ] يَحْفَظْ أَبُو هُرَيْرَةَ، إِنَّمَا دَخَلَ [وَ] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [يَقُولُ: «قَاتَلَ اللَّهُ] الْيَهُودَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الشُّؤْمَ فِي الْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ وَالدَّارِ» فَسَمِعَ آخِرَ [الْحَدِيثِ وَ] لَمْ يَسْمَعْ أَوَّلَهُ[مسند الشاميين للطبراني 4/ 342]۔

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ امام مکحول کی ملاقات اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں ہے۔



امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ، قَالَ دَخَلَ رَجُلَانِ مِنْ بَنِي عَامِرٍ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَاهَا أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " الطِّيَرَةُ فِي (1) الدَّارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ " فَغَضِبَتْ فَطَارَتْ شِقَّةٌ مِنْهَا فِي السَّمَاءِ، وَشِقَّةٌ فِي الْأَرْضِ، وَقَالَتْ: وَالَّذِي أَنْزَلَ الْفُرْقَانَ عَلَى مُحَمَّدٍ مَا قَالَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ، إِنَّمَا قَالَ: " كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَتَطَيَّرُونَ مِنْ ذَلِكَ "[مسند أحمد: 43/ 158]۔

اس کی سند ضعیف ہے قتادہ مشہور مدلس ہیں اورروایت عن سے اس کے کسی بھی طریق میں مجھے سماع کی صراحت نہیں مل سکی۔

لہذا صحیح بات وہی ہے جو مضمون نگار نے پیش کی ہے ۔

یعنی حدیث مذکور میں شؤم حقیقی معنی میں نہیں ہے ، شؤم کا یہی مفہوم محدثین کے ان تمام اقوال میں بھی ہے جن میں ابوحنیفہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے، اس کی مکمل تفصیل ابوحنیفہ والے تھریڈ میں پیش کروں گا۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جزاک اللہ کفایت اللہ بھائی!
وضاحت کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
ویسے کیا ہی اچھا ہو کہ قرآن و حدیث کے ہرعربی اقتباس کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جائے، کیونکہ اس اردو فورم میں آنے والے سارے قارئین عربی زبان سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا وبارک فیکم کفایت اللہ بھائی۔
اگر اس مضمون میں اضافہ جات کئے جا سکتے ہوں، اور کوئی بھائی مزید دلائل پیش کر سکتے ہوں تو ضرور شکریہ کا موقع دیجئے۔
 
Top