• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کیلئے مسجد جانے کی شرائط :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

عورت کیلئے مسجد جانے کی شرائط :


الحمد للہ:

مخصوص شرائط کے ساتھ خواتین مسجد میں نماز کیلئے جا سکتی ہیں، تاہم ان شرائط میں محرم کا ساتھ ہونا شامل نہیں ہے، چنانچہ بغیر محرم کے مسجد میں جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی (7/332) کے فتاوی میں ہے کہ:

"خواتین کیلئے مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے، اور مرد حضرات اپنی بیویوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت مانگنے پر منع نہیں کر سکتے، بشرطیکہ خاتون پردہ میں ہو، اور اس کے جسم سے کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئے جسے اجنبی لوگوں کیلئے دیکھنا جائز نہ ہو؛

کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ :

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جب تمہاری بیویاں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں اجازت دے دو)"

اور ایک روایت میں ہے کہ :

(عورتیں اگر مسجد میں آ کر [نماز ]کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو)

تو بلال -یہ عبد اللہ بن عمر کے بیٹے ہیں- نے کہا :

"اللہ کی قسم! ہم تو انہیں روکیں گے" تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: "میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تم کہتے ہو ہم ضرور روکیں گے!!"

ان دونوں روایات کو مسلم نے نقل کیا ہے۔

تاہم اگر بے پردہ ہو اور اس کے جسم کا ایسا حصہ عیاں ہو رہا ہو جو اجنبی نظروں کیلئے حرام ہو ، یا خوشبو لگائی ہوئی ہو تو اس حالت میں اس کیلئے گھر سے باہر نکلنا بھی منع ہے، مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا تو بعد کی بات ہے؛ کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

{وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ}


ترجمہ: اور اے نبی ! مومن عورتوں سے فرما دیں کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کیا کریں ۔ مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبان پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے۔ [النور : 31]

اسی طرح فرمایا:


{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا}

ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے فرما دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں، یہ بہت ہی مناسب ہے تاکہ وہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ پہنچائی جائے، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور نہایت مہربانی فرمانے والا ہے ۔[الأحزاب : 59]

اور یہ بات ثابت ہے کہ زینب ثقفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:

(جب تم میں سے کسی نے عشاء کی نماز کیلئے حاضر ہونا ہو تو اس رات خوشبو مت لگائے)

اور ایک روایت میں ہے کہ:

(جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو خوشبو مت لگائے)

ان دونوں روایات کو مسلم نے نقل کیا ہے۔

اسی طرح صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ صحابہ کرام کی خواتین فجر کی نماز کیلئے اپنی چادروں میں لپٹ کر اور چہرہ ڈھانپ کر حاضر ہوتی تھیں، اور انہیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا، یہ بھی ثابت ہے کہ عمرہ بنت عبد الرحمن کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا:

"اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کی کارستانیاں دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی خواتین کو منع کیا گیا تھا" راوی کہتے ہیں میں نے عمرہ سے پوچھا: "کیا بنی اسرائیل کی خواتین کو مسجد میں آنے سے روکا گیا تھا؟" تو انہوں نے کہا: "ہاں !"

اسے بھی مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

ان تمام نصوص میں واضح دلالت ہے کہ مسلمان عورت اپنے لباس سے متعلق اسلامی آداب ملحوظِ خاطر رکھے، اور ایسی چیزوں سے اجتناب کرے جن کی وجہ سے کمزور ایمان لوگوں کی نظروں اور دلوں کیلئے کشش پیدا ہو تو اسے مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا، اور اگر کوئی خاتون دوسروں کی نظروں میں پرکشش اور دلکش انداز میں سامنے آئے تو انہیں مسجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے، بلکہ گھروں سے نکلنے کی اجازت نہ دی جائے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (14/211) میں کہتے ہیں:

"خواتین نماز تراویح میں شرکت کیلئے مسجد میں آسکتی ہیں، بشرطیکہ فتنے سے محفوظ رہیں، چنانچہ انہیں پر وقار ، مکمل پردے کا اہتمام کرتے ہوئے بغیر خوشبو لگائے مسجد کی طرف آنا چاہیے" انتہی

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "حراسة الفضيلة" (ص86) میں خواتین کے مسجد میں حاضر ہونے کی شرائط جمع کی ہیں چنانچہ آپ کہتے ہیں:

"خواتین کو مسجد جانے کیلئے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت درج ذیل احکام کی روشنی میں دی جائے گی:

1- خواتین خود بھی اور دوسرے لوگ بھی فتنے سے محفوظ رہیں۔

2- خواتین کے حاضر ہونے سے کوئی شرعی قباحت پیدا نہ ہو۔

3- راستے میں اور جامع مسجد میں مردوں کے سامنے مت آئیں۔

4- خوشبو مت لگائیں۔

5- مکمل پردے میں اور اپنی زینت چھپا کر گھر سے باہر نکلیں۔

6- مساجد میں خواتین کیلئے الگ سے دروازہ ہو، اور وہیں سے خواتین آئیں جائیں، جیسے کہ اس بارے میں سنن ابو داود وغیرہ میں خصوصی ارشاد بھی ہے۔

7- عورتوں کی صفیں مردوں کے پیچھے ہوں۔

8- مردوں کے بر عکس خواتین کیلئے آخری صف بہتر ہے۔

9- اگر امام نماز میں بھول چوک جائے تو مرد سبحان اللہ کہے، جبکہ عورت ہاتھ پر ہاتھ مارے۔

10- مسجد سے خواتین مردوں سے قبل چلی جائیں، اور مرد خواتین کے گھروں تک پہنچ جانے کا انتظار کریں، جیسے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی صحیح بخاری وغیرہ میں موجود حدیث میں ہے"

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/49898
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عورتوں كے ليے نماز تروايح ادا كرنے كا حكم

كيا عورتوں پر نماز تروايح كى ادائيگى ہے، اور كيا ان كے ليے گھر ميں ادا كرنا افضل ہے، يا وہ اس غرض كے ليے مسجد جائيں ؟

Published Date: 2012-08-01

الحمد للہ:

نماز تراويح سنت مؤكدہ ہيں، اور عورتوں كے حق ميں گھر ميں ہى قيام الليل كرنا افضل ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم اپنى عورتوں كو مساجد سے منع نہ كرو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں "

سنن ابو داود باب ماجاء فى خروج النساء الى المسجد: باب التشديد في ذلك، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 7458 ).

بلكہ عورت كى نماز جتنى مخفى اور پوشيدہ جگہ ميں ہو گى اتنى ہى افضل ہو گى، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" عورت كا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنا اس كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور اس كا اپنے پچھلے كمرہ ميں نماز ادا كرنا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے "

سنن ابو داود كتاب الصلاۃ باب ما جاء في خروج النساء الى المسجد حديث نمبر ( 483 ) اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 3833 ).

اور ابو حميد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر كہنے لگى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

مجھے علم ہے كہ تجھے ميرے ساتھ نماز ادا كرنا محبوب ہے، تيرا اپنے گھر كے اندر والے كمرہ ميں نماز ادا كرنا گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنا گھر كے احاطہ ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور گھر كے احاطہ ميں نماز ادا كرنا قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے"

راوي بيان كرتے ہيں كہ: انہوں نے اپنے گھر ميں بالكل آخرى كونے اور اندھيرى جگہ ميں نماز ادا كرنے كى جگہ تيار كروائى تو وہ فوت ہونے تك وہيں نماز ادا كرتى رہيں.

مسند احمد حديث نمبر ( 25842 ) اس كے رجال ثقات ہيں.

ليكن يہ افضليت انہيں مسجدوں ميں جانے كى اجازت دينے سے منع نہيں كرتى، جيسا كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جب تمہارى عورتيں مسجدوں ميں جانے كى اجازت مانگيں تو انہيں مسجدوں ميں جانے سے منع نہ كرو"

بلال بن عبد اللہ رحمہ اللہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ہم انہيں ضرور منع كرينگے، تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى نے ان كى جانب متوجہ ہو كر انہيں بہت ہى سخت الفاظ ميں برا بھلا كہا ايسا ميں نےكبھى بھى ان سے نہيں سنا تھا، اور انہيں كہنے لگے: ميں نے تجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث بتائى ہے، اور تو كہتا ہے كہ ہم انہيں ضرور منع كرينگے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 667 ).

ليكن عورت مندرجہ ذيل شروط پر عمل كر كے مسجد جا سكتى ہے:

1 - مكمل اور پورى باپرد ہو كر نكلے.

2 - خوشبو اور عطر وغيرہ نہ لگايا ہو.

3 - خاوند كى اجازت سے جائے.

اور اس كے نكلنے ميں كوئى اور حرام كام مثلا ڈرائيور كے ساتھ خلوت اور اكيلے جانا وغيرہ نہ ہو.

اگر ان مذكورہ اشياء ميں سے عورت نے كسى كى بھى مخالفت كى تو خاوند اور اس كے سربراہ كو مسجد جانے سے منع كرنے كا حق حاصل ہے، بلكہ اس پر اسے منع كرنا واجب ہے.

ميں نےاپنے استاذ اور شيخ عبد العزيز سے نماز تروايح كے متعلق اور خاص كر عورت كا مسجد ميں نماز كى افضليت كے بارہ ميں سوال كيا تو انہوں نے نفى ميں جواب ديا، كہ عورت كى گھر ميں نماز كى افضليت والى احاديث عام ہيں جو تراويح اور غير تراويح سب كو شامل ہيں. واللہ اعلم

ہم اللہ تعالى سے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائيوں كے ليے اخلاص اور قبول كى دعا كرتے ہيں، اور اللہ تعالى ہمارے اعمال كو اپنے پسنديدہ بنائے اور ہم پر راضى ہو، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

الشيخ محمد صالح المنجد

https://islamqa.info/ur/3457
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عورتوں كا نماز تراويح كے ليے بچوں سميت مسجد جانا

عورتوں كا بچوں كو لے كر نماز تراويح كے ليے مساجد ميں جانے كا حكم كيا ہے ؟

Published Date: 2011-08-23

الحمد للہ:

" عورتوں كو بچوں سميت رمضان المبارك ميں مساجد ميں آنے سے منع نہيں كيا جائيگا، كيونكہ سنت نبويہ سے ثابت ہے كہ عورتيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى مساجد ميں آتى اور ان كے ساتھ بچے بھى ہوتے تھے.

حديث ميں وارد ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں نماز شروع كرتا ہوں تو ميرا ارادہ ہوتا ہے كہ نماز لمبى پڑھاؤں، ليكن ميں بچے كے رونے كى آواز سنتا ہوں تو اپنى نماز مختصر كر ديتا ہوں، كيونكہ مجھے علم ہے كہ بچہ رونے كى بنا پر اس كى ماں بہت پريشان ہوتى ہے "

اور ايك حديث ميں وارد ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نواسى امامۃ رضى اللہ تعالى عنہا كو گود ميں اٹھا كر مسجد ميں فرضى نماز كى امامت فرمائى "

ليكن عورتوں كو چاہيے كہ وہ مساجد كى صفائى كا خيال كريں اور وہاں بچوں كے سونے وغيرہ كى حالت ميں ان كى نجاست سے احتراز كريں " انتہى .

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ ( 4 / 214 - 215 ).

https://islamqa.info/ur/106462
 
Top