• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کی ازدواجی تعلق میں سرد مہری (Women Frigidity): وجوہات اور حل

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عورت کی ازدواجی تعلق میں سرد مہری (Women Frigidity): وجوہات اور حل

----------------------------------------------------------------------------------
ہمارے فیس بک کے دوست ثناء اللہ احسن صاحب نے اس حوالے سے ایک پوسٹ لگائی ہے کہ جس پر انہیں 270 کمنٹس موصول ہوئے اور ان کمنٹ کرنے والوں میں سے ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی۔ بڑی تعداد میں کمنٹس کا مطلب ہے کہ لوگ اس مسئلے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک خاتون مدیحہ جمال نے خواتین کی سرد مہری کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی: "مرد جو ہے وہ اندر سے جنگلی وحشی درندہ ہوتا ہے، پہلے ان جانوروں جاہلوں کو صحیح تربیت تو دو، ایک بار مرد کے وحشی ہونے کی ویڈیو بناکر دکھاو سب کو، فرشتے بھی زمین پر آکر کان پکڑ لیں گے، اللہ کرے سب کتے کی موت مر جاٸیں۔"

مدیحہ کے الفاظ سے اتفاق بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ الفاظ بہت ہی غیر مناسب اور غیر اخلاقی ہیں البتہ ان کی وہ بات جو وہ کہنا چاہ رہی ہیں لیکن مناسب الفاظ میں کہہ نہیں پا رہیں، قابل غور ہے۔ بیوی کی سرد مہری کی ایک بڑی وجہ مرد کی سافٹ ہینڈلنگ نہ ہونا ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بعد شرم وحیا کے پردے آہستہ آہستہ اترتے چلے جاتے ہیں اور مرد میں نسبتا جلدی اتر جاتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے کہ اس پورے عمل میں وہ اقدام کرتا ہے یعنی آگے بڑھنے میں پہل کرتا ہے، معاملہ شروع کرتا ہے، ایکٹو موڈ میں ہوتا ہے اور فطرتا جری ہوتا ہے۔ اور دوسرا اس وجہ سے کہ اس کی جنسی خواہش، عورت کی جنسی خواہش سے زیادہ ہوتی ہے اور اس پر ہم مستقل لکھ چکے ہیں اور کوانٹیٹیو ریسرچز کے حوالے بھی دے چکے ہیں۔ اور مرد کا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ان دو مسائل کی وجہ سے سیکس میں ہر بار کچھ نیا اور انوکھے کی خواہش رکھتا ہے، اور میری نظر میں یہ اس کا بائیولاجیکل نہیں بلکہ ذہنی مسئلہ ہے جو میاں بیوی کے بہت سے جنسی مسائل کی جڑ ہے اور ماحول کی پیداوار ہے۔

عورت اس سارے معاملے میں پیسو موڈ میں ہوتی ہے لہذا کبھی کبھار اپنے ذہنی یا سماجی مسائل کی وجہ سے مرد کو اس طرح سے ریسپانس نہیں کر پاتی جیسا کہ کرنا چاہیے تھا۔ تو اس سے مرد کی ایگریسونیس میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس کا اِڈ (id) یعنی آسان الفاظ میں نفس یہ سمجھتا ہے کہ اس کی خواہش اس طرح سے پوری نہیں کی گئی جیسا کہ پوری ہونی چاہیے تھی لہذا یہ چیز اس کے لاشعور میں ایک ایگریسونیس پیدا کر دیتی ہے کہ اس کا حق مارا گیا ہے۔ یہی مرد جب اگلی مرتبہ عورت کے پاس جاتا ہے تو اس کے لاشعور میں یہ ہوتا ہے کہ پچھلی مرتبہ اس عورت نے تمہیں نا آسودہ (unsatisfied) رکھا یعنی تمہاری خواہش کی اچھے سے تکمیل نہیں کی، اب کی بار تم نے اپنا یہ حق زبردستی وصول کرنا ہے۔ یہاں مرد اِن سیکور (insecure) ہوتا ہے اور اگر اگلی مرتبہ بھی عورت تھوڑی سی بھی ویلکمنگ نہ ہو تو مرد اس تعلق میں ایگریسو ہوتا چلا جاتا ہے کہ جس کے ریسپانس میں عورت میں سرد مہری بڑھتی چلی جاتی ہے۔

تو اس مرحلے پر آ کر مرد کے سیکسچوئل ایٹی چیوڈ میں دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں؛ ایک عجلت اور دوسرا اجڈ پن۔ وہ عورت سے اِن سیکور ہو کر اپنا سیکسچوئل رائٹ ایک تو جلدی حاصل کرنا چاہتا ہے اور دوسرا جیسے جھپٹا مار کر حاصل کرنا چاہتا ہو۔ مرد کی طرف سے سیکس میں عجلت کی وجوہات اور فیکٹرز بعض اوقات سماجی بھی ہوتے ہیں جیسا کہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں زیادہ بچے ہونے کی صورت میں ان کے آنے کا خوف، بچوں کے جاگ جانے کا ڈر وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ رویہ عورت میں سرد مہری پیدا کر دیتا ہے کیونکہ عورت اس معاملے میں فطرتا عجلت کو پسند نہیں کرتی کہ پیسو موڈ میں ہوتی ہے اور نہ ہی اجڈ پن کو کہ اس کی اصل خواہش رومانس ہوتی ہے نہ کہ سیکس اور رومانس کے لیے وقت چاہیے۔

عورت کا کامیاب ازدواجی تعلق، رومانس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس کا دل ہوتا ہے کہ اسے ہاتھ بھی قدرت کا کوئی شاہکار سمجھ کر لگایا جائے۔ عورت کی یہ خواہش بھی ایک دوسری انتہا ہے جیسا کہ مرد سیکس میں ایک انتہا چاہتا ہے۔ لیکن درمیان کی راہ نکالی جا سکتی ہے، مرد میں اس عمل کے دوران ٹھہراؤ اور تہذیب کی صورت میں، اور عورت کو اس پر راضی کر کے کہ وہ کم از کم درجے میں تو مرد کو مطمئن کرے۔ اور یہ کام دونوں یعنی میاں بیوی کی کاؤنسلنگ کی صورت میں ہو سکتا ہے۔

باقی سرد مہری کی کچھ خارجی وجوہات بھی ہوتی ہیں جیسا کہ شوہر کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں۔ گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا تو عورت کو کیسے تعلق میں رغبت ہو گی؟ عورت کی شاپنگ کی خواہش پوری نہ ہو رہی ہو تو وہ مرد کی خواہش پورا نہ کر کے انتقام لیتی ہے اور یہ کبھی شعور کے ساتھ کرتی ہے اور کبھی لاشعوری طور بھی۔ عموما جس دن مرد شاپنگ کروائیں یا باہر کھانے پر لے جائیں تو اس دن عورت کا ریسپانس بڑھ جاتا ہے۔ لیکن مرد کے لیے ہر روز ایسا کرنا ممکن نہیں ہے اور اگر وہ کر بھی لے تو عورت کی خواہش ھل من مزید کی طرح بڑھتی رہے گی۔ بس صرف ڈومین کا فرق ہے، مرد سیکس میں ھل من مزید چاہتا ہے اور عورت اپنے شوہر سے خرچے اور مال ودولت میں۔ تو مرد کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جیسے میں اس کی ھل من مزید نہیں پوری کر سکتا، اسی طرح وہ بھی نہیں پوری کر سکتی۔

اسی طرح جوائنٹ فیملی سسٹم کی ذمہ داریاں، لڑائیاں اور ماحول بھی عورت میں نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباؤ پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے رویے میں سرد مہری آ جاتی ہے۔ اسی طرح عورت کے بچوں پر بچے ہو رہے ہوں تو بھی میں اس میں سرد مہری کا آ جانا لاجیکل ہے۔ اسی طرح شوہر کے اخلاقی رویے اور خود عورت کے ذہنی مسائل بھی سرد مہری کی وجوہات میں سے ہیں۔ تو خارجی ماحول اور مسائل تو خود عورت کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ ابھی ابھی اس کی ساس یا نند سے لڑائی ہوئی ہے، اس کا موڈ خراب ہے اور مرد کی خواہش ہے کہ وہ اسے سو فی صد ریسپانس کرے تو یہ لاجیکل نہیں ہے۔

تو مردوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ خواہش رکھنا کہ ہر مرتبہ آپ کی بیوی آپ کو سو فی صد ریسپانس کرے تو یہ لاجیکل نہیں ہے کہ یہ اس کی فطری تخلیق، ذہنی سانچے اور سوشل ایشوز کی وجہ سے ممکن نہیں ہے۔ ہاں عورت کو ایک کام لازما کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو کسی درجے میں مطمئن کر دے اور یہ وہ کر سکتی ہے، کسی بھی حال میں کر سکتی ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے یہ جان کر جب کوئی مذہبی آدمی مجھے یہ کہتا ہے کہ میں شادی شدہ ہوں اور میرے لیے دعا کریں کہ مشت زنی (masturbation) سے میری جان چھوٹ جائے۔ اب یہی کام وہ خود کرے تو گناہ ہے اور وقت کے ساتھ پورن ایڈیکشن کا شکار بھی علیحدہ سے ہو جائے گا اور بیوی اس سے اتنا تعاون کر دے تو وہ گناہ سے بچ جائے گا۔

میں اکثر جوڑوں کو اس قسم کے اختلاف میں ایک بات کہتا ہوں کہ اگر شوہر بیوی کو خرچہ دے رہا ہے تو بیوی کے پاس بستر پر آنے سے انکار کرنے کی کوئی اخلاقی اور عقلی وجہ باقی نہیں رہ جاتی جبکہ شوہر اس پر بھی راضی ہو کہ مجھے کم از کم درجے میں ہی مطمئن کر دے لیکن مطمئن تو کرے ناں۔ دیکھیں، شوہروں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا کی کوئی خواہش ایسی نہیں ہے کہ جو ہر مرتبہ ایک ہی جیسے لیول پر جا کر آپ کو تسکین دے۔ آپ روزانہ کھانا کھاتے ہیں، دن میں کئی مرتبہ کھاتے ہیں لیکن بعض اوقات پیٹ بھرنے کو کھاتے ہیں یعنی ضرورت کا کھاتے ہیں اور بعض اوقات مزے کے لیے کھاتے ہیں۔ تو اس مسئلے کا یہی معتدل حل ہے۔

لنک
 
Top