• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عُریاں چہرے کے نقصانات

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
عُریاں چہرے کے نقصانات

عورت کے چہرے کو بے پردہ رکھنے کے بڑے بڑے نقصانات مندرجہ ذیل ہیں:
فتنے میں پڑنا
عورت جب اپنے چہرے کو بے پردہ رکھتی ہے تو اپنے آپ کو فتنے میں ڈالتی ہے کیونکہ اسے ان چیزوں کا اہتمام و التزام کرنا پڑتا ہے جس سے اس کا چہرہ خوبصورت ،جاذب نظر اور دلکش دکھائی دے۔اس طرح وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث بنتی ہے اور یہ شر و فساد کے بڑے اسباب میں سے ہے۔
شرم و حیا کا جاتے رہنا
اس عادتِ بد کی وجہ سے رفتہ رفتہ عورت سے شرم و حیا ختم ہوتی جاتی ہے جو ایمان کا جز ار فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔ایک زمانے میں عورت شرم و حیا میں ضرب المثل ہوتی تھی ،مثلا کہاجاتا تھا:
احیا من العذراء فی خدرھا
"فلاں تو پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلا ہے۔"
شرم و حیا کا جاتے رہنا نہ صرف یہ کہ عورت کے لیے دین و ایمان کی غارت گری ہے بلکہ اس فطرت کے خلاف بغاوت بھی ہے جس پر اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہے۔
مَردوں کا فتنے میں مبتلا ہونا
بے پردہ عورت سے مُردوں کا فتنے میں پڑنا طبعی امر ہے ،خصوصا جبکہ وہ خوبصورت بھی ہو،نیز ملنساری ،خوش گفتاری یا ہنسی مذاق کا مظاہرہ کرے۔ایسا بہت سی بے پردہ خواتین کے ساتھ ہو چکا ہے۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
نظرۃ فسلام فموعد فلقاء
"نگاہیں ملیں، سلام ہوا،بات چیت ہونے لگی،پھر قول و قرار ہوئے اور معاملہ باہم ملاقاتوں تک جا پہنچا۔"
شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہےبار ہا ایسا ہوا ہے کہ باہمی مذاق کے نتیجے میں کوئی مرد کسی عورت پر یا عورت کسی مرد پر فریفتہ ہو گئی جس سے ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ بن آئی۔اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے۔
مرد و عورت کا آزادانہ میل جول
چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مَردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مَردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مَردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم و حیا محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔
ایک دن رسول اکرم ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے۔آپ نے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ راستے میں چلتے ہوئے دیکھا،تو عورتوں سے ارشادفرمایا:
"استاخرن فانہ لیس لکن ان تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق"(رواہ ابو داود ،الادب،باب فی مشی النساء مع الرجال،حدیث: 5282)
"ایک طرف ہٹ جاؤ۔راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ایک طرف ہو کر چلا کرو۔
رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھو رہی ہوتیں۔اس حدیث کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 30)
کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی غیر محرم مَردوں سے عورتوں کے پردہ کرنے کے واجب ہونے کی تصریح کی ہے،چنانچہ وہ آیت:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے (سورۃ النور،آیت31)
کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز میں عورت کا ظاہری زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے علاوہ باطنی زینت کے،اور سلف صالحین کا زینت ظاہرہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد کپڑے ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد چہرے اور ہاتھ کی چیزیں ہیں جیسے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ۔ان دو مختلف اقوال کے لحاظ سے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے،یہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیھم کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی۔دوسرا قول یہ ہے کہ دیکھنا ناجائز ہے یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا (صحیح روایات کے مطابق) مذہب ہے۔اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا ہر عضو ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔اس کے بعد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی زینت کے دو درجے مقرر کیے ہیں:
(1) زینت ظاہرہ (2) زینت غیر ظاہرہ
زینت ظاہرہ کو عورت اپنے شوہر اور محرم مَردوں کے علاوہ دسرے لوگوں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عورتیں چادر اوڑھے بغیر نکلتی تھیں۔مَردوں کی نظر ان کے ہاتھ اور چہرے پر پڑتی تھی ۔اس دور میں عورتوں کے لیے جائز تھا کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں اور مَردوں کے لیے بھی ان کی طرف دیکھنا مباح تھا کیونکہ ان کا کھلا رکھنا جائز تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
تو عورتیں مکمل طور پر پردہ کرنے لگیں۔(مجموع الفتاوی : 22/110)
اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیں: :جلباب چادر کا نام ہے۔"
حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے ردا (اوڑھنی) اور عام لوگ اسے اذار (تہہ بند)کہتے ہیں۔اس سے مراد بڑا تہہ بند ہے جو عورت کے سر سمیت پورے جسم کو ڈھانپ لے۔جب عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم اس لیے ہوا کہ وہ پہچانی جا سکیں تو یہ مقصد چہرہ ڈھانپنے یا اس پر نقاب وغیرہ ڈالنے ہی سے ھاصل ہو گا،لہذا چہرہ اور ہاتھ اس زینت میں سے ہوں گے جس کے بارے میں عورت کو حکم ہے کہ کہ یہ غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔اس طرح ظاہر کپڑوں کے سوا کوئی زینت باقی نہ رہی جس کا دیکھنا غیر محرم مَردوں کے لیے مباح ہو۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آخری حکم ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (نسخ سے) پہلے کا حکم ذکر کیا ہے۔
آخر میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
"نسخ سے پہلے کے حکم کے برعکس اب عورت کے لیے چہرہ،ہاتھ اور پاؤں غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کپڑوں کے سوا کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کر سکتی۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 22/114)
اسی جز میں صفحہ 117 اور صفحہ 118 پر فرماتے ہیں:
"عورت کو چہرہ،ہاتھ اور پاؤں صرف غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ورنہ عورتوں اور محرم مَردوں کے سامنے ان اعضاء کے ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ شارع کے دو مقاصد ہیں:اول تو یہ کہ مرد و عورت میں امتیا رہے ،دوم یہ کہ عورتیں حجاب میں رہیں۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 22/117-118)
یہ تو تھا اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر۔ان کے علاوہ دوسرے حنبلی فقہاء میں سے متاخرین کے چند اقوال نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔
"المنتہی" میں ہے کہ نامرد،خواجہ سرا اور ہیجڑے کے لیے بھی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
"الاقناع" میں لکھا ہے " نامرد ہیجڑے کا عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔" اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ہے: "آزاد غیر محرم عورت کی طرف قصدا دیکھنا،نیز اس کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے۔"
"الدلیل " کے متن میں ہے: "دیکھنا آٹھ طرح سے ہوتا ہے۔پہلی قسم یہ ہے کہ بالغ مرد (خواہ اس کا عضو کٹا ہوا ہو ) آزاد غیر محرم عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھے۔اس صورت میں عورت کے کسی بھی عضو کو بلا شرعی ضرورت کے دیکھنا حرام ہے حتی کہ اس کے (سر پر لگے) مصنوعی بالوں کی طرف نگاہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔" شافعی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ بالغ آدمی کی نگاہ بطریق شہوت ہو یا اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو تو بلا اختلاف قطعی طور پر حرام ہے۔اگر بطریق شہوت نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ان کے ہاں دو قول ہیں۔مولف "شرح الاقناع" نے انہیں نقل کرنے کے بعد کہا ہے : :صحیح بات یہ ہے کہ اس قسم کی نگاہ بھی حرام ہے جیسا کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب "منہاج" میں ہے۔" اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا تمام اہل اسلام کے نزدیک بالاتفاق ممنوع ہے،نیز یہ کہ نگاہ فتنے کا مقام اور شہوت کی محرک ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: مومنوں سے کہہ دو کہ نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 31)
احکام شریعت میں ملحوظ حکمتوں کے شایان شان امر یہی ہے کہ فتنے کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا جائے اور حالات کے تفاوت کو بہانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔
"نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار" میں ہے: عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا بالخصوص اس زمانے میں جہاں بدقماش لوگوں کی کثرت ہو،بالاتفاق اہل اسلام حرام ہے۔"
پردہ از شیخ محمد بن صالح العثیمین
 
Top