• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید غدیر کی شرعی حیثیت

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
عید غدیر خم کی شرعی حیثیت

تحریر : عبد الخبیر السلفی

عید غدیر سے متعلق چند باتیں مندرجہ ذیل نقات میں پیش کی جا رہی ہیں :
(1) غدیر خم مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے اور یہ اس وقت بمنزلہ ایک چوراہے کے تھا یہاں سے مکہ سے آنے والے حجاج کے راستے الگ الگ ہوتے تھے مکہ اور یمن جانے والوں کا راستہ جنوب میں جاتا تھا عراق اور ہندوستان وغیرہ کو جانے والوں کا راستہ مشرق کو جاتا تھا اور مغربی ممالک اور مصر وغیرہا کا راستہ مغرب کی سمت تو مدينة شمال کی جانب تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سن 10 ہجری کو مکہ سے واپس ہوئے اور اس مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کیوں کہ اس کے بعد آپ کے ساتھ حج پر جانے والے صحابہ الگ الگ ہونے والے تھے
(2) حدیث غدیر خم سے مراد وہ روایت ہے جس کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل وغیرہ نے مختلف صحابہ کرام سے روایت کیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق ارشاد فرمایا " اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ".(مسند احمد بن حنبل : 950) یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ اس روایت کی صحت و ضعف کو لیکر علماء اہل سنت میں اختلاف رہا ہے جبکہ اہل تشیع اس اس کے تمام مندرجات کے ساتھ متواتر گردانتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے جس کا ذکر علامہ البانی رحمہ اللہ سے آگے آ تا ہے، چند حوالے پیش خدمت ہیں؛ إمام زیلعی حنفی رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہما نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، امام زیلعی فرماتے ہیں " وكم من حديث كثرت رواته و تعددت طرقه وهو حديث ضعيف كحديث" من كنت مولاه فعلي مولاه "( نصب الراية في تخريج الهداية :1/189) یعنی کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جن کے راوی اور سندیں بہت ہیں حالانکہ کہ وہ ضعیف ہیں جیسے حدیث" من کنت مولاہ......... ،
علامہ إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ( وأما قوله من كنت مولاه فعلي مولاه فليس هو في الصحاح لكن هو مما رواه العلماء وتنازع الناس في صحته فنقل عن البخاري وإبراهيم الحربي وطائفة من أهل العلم بالحديث انهم طعنوا فيه... وأما الزيادة وهي قوله اللهم وال من والاه وعاد من عاداه الخ فلا ريب انه كذب) منهاج السنة 7/319) اور جہاں تک بات ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کی تو یہ صحیح روایات میں سے نہیں ہے لیکن یہ علماء کی ان روایات میں سے ہے جن کی صحت کے سلسلے میں لوگوں نے کافی اختلاف کیا ہے پس امام بخاری، ابراہیم حربی اور حدیث کے جانکار علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس میں طعن کرتے ہیں، اور جہاں تک بات" أللهم وال من والاه و عاد من عاداه" کی ہے تو یہ جھوٹ ہے،
ان اقوال کے علاوہ بعض دوسرے علماء اہل سنت نے اس روایت کے اوپر منقول الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "له طرق يصدق بعضها بعضاً" ( تاريخ الإسلام:3/632 ) یعنی اس کئی طرق ہیں جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سندوں پر بحث کرنے کے بعد فرمایا " ذكرت وخرجت ما تيسر لي منها مما يقطع الواقف عليها بعد تحقيق الكلام على أسانيدها بصحة الحديث يقينا، وإلا فهي كثيرة جدا، وقد استوعبها ابن عقدة في كتاب مفرد، قال الحافظ ابن حجر: منها صحاح ومنها حسان. وجملة القول أن حديث الترجمة حديث صحيح بشطريه، بل الأول منه متواتر عنه صلى الله عليه وسلم كما ظهر لمن تتبع أسانيده وطرقه، وما ذكرت منها كفاية. (السلسلة الصحيحة :4/343) یعنی اس حدیث کے طرق میں سے جو مجھے میسر ہوئے ان کو میں نے ذکر کر دیا ہے جن کی اسانید پر واقفیت رکھنے والے پر تحقیق کے بعد قطعی یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی اسانید صحیح ہیں، ورنہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے إبن عقدہ نے ان کو تفصیلاً ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ان اسانید میں کچھ صحیح جبکہ کچھ حسن بھی ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے دونوں مضمون (من کنت مولاہ...... اور اللہم وال من والا...........) کے اعتبار سے صحیح ہے بلکہ پہلا مضمون تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہے جیسا کہ اسانید کا تتبع کرنے والے پر ظاہر ہے اور جو میں نے ذکر کیا وہ کافی ہے
(3) حدیث غدیر خم اہل تشیع کے یہاں خاص اہمیت رکھتی ہے اور وہ اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے طور پر دیکھتے ہیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ 18/ ذی الحجہ کو ارشاد فرمایا تھا اس لیے ان کے یہاں یہ عید کا دن قرار پایا، سب سے پہلے معز الدولہ نے سن 351 ہجری میں اس کو عید کا دن قرار دیا اور اس کا نام عید غدیر خم رکھا،
اہل تشیع نے اس حدیث سے خلافت علی پر جن امور سے دلیل پکڑی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
*حدیث کے اندر موجود لفظ 'مولی' کا معنی ولی سر پرست کے ہے اور قرائن اس کی شہادت دیتے ہیں*
*- حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تمام مومنین کی دوستی کوئی مخفی اور پیچیدہ چیز نہ تھی کہ جس کے لئے اس قدر تاکید اور بیان کی ضرورت ھوتی، اور اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس بے آب و گیاہ اور جلتے ھوئے بیابان میں اس عظیم قافلہ کو دوپھر کی دھوپ میں روک کرایک طویل و مفصل خطبہ دیا جائے اور سب لوگوں سے اس دوستی کا اقرارلیا جائے۔
قرآن مجید نے پھلے ھی وضاحت کے ساتھ یہ اعلان فردیا ھے: < إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ>”مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ھیں“
ایک دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْض> ”مومن مرد
اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور مددگار ھیں“۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی اخوت اور مسلمانوں کی ایک دوسرے سے دوستی اسلام کے سب سے واضح مسائل میں سے ھے جو پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ سے چلی آرھی ھے، اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو بارھا بیان فرمایا اوراس سلسلہ میں تاکید فرمائی ھے، اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نھیں تھا جس سے آیت کا لب و لہجہ اس قدر شدید ھوجاتا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس راز کے فاش ھونے سے کوئی خطرہ محسوس کرتے۔
*- ”اٴلَسْتُ اٴولیٰ بِکُمْ مِنْ اٴنفُسِکم“ (کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفسوں سے زیادہ اولی اور سزاور نھیں ھوں؟) حدیث کا یہ جملہ بہت سی کتابوں میں بیان ھوا ھے جو ایک عام دوستی کو بیان کرنے کے لئے بے معنی ھے، بلکہ اس جملہ کا مفھوم یہ ھے کہ جس طرح مجھے تم پر اولویت و اختیار حاصل ھے اور جس طرح میں تمھارا رھبر اور سرپرست ھوں بالکل اس طرح علی رضی اللہ عنہ کے لئے بھی ثابت ھے، اورھمارے عرض کئے ھوئے اس جملے کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی انصاف اور حقیقت سے دور ھيں، خصوصاً ”من انفسکم“ کے پیش نظر یعنی میں تمھاری نسبت تم سے اولیٰ ھوں۔
*-اس تاریخی واقعہ پرتمام لوگوں کی طرف سے خصوصاً حضرت ”عمر “ اور حضرت ”ابوبکر“ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خد مت میں مبارکباد پیش کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ یہ مسئلہ صرف خلافت کا مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے تبریک و تھنیت پیش کی جارھی تھی، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کا مسئلہ تو سب کو معلوم تھا اس کے لئے تبریک کی کیا ضرورت تھی؟!!
مسند احمد میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ میں مبارک باد دی:
”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
”مبارک ھو مبارک! اے ابو طالب کے بیٹے! آج سے تم ھر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے“۔
علامہ فخر الدین رازی نے < یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ >کے ذیل میں تحریر کیا ھے کہ حضرت عمر نے کھا: ”ھنئیاً یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“جس سے معلوم ھو تا ھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخود حضرت عمر اپنااور ھر مومن و مومنہ کا مولا سمجھتے تھے۔
تاریخ بغداد میں روایت کے الفاظ یہ ھیں: ”بخٍ بخٍ لک یا بن اٴبِي طالب اٴصبحتَ وَاٴَمسیتَ مولاي و مولاکُلّ مسلم“ ”اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ھو مبارک! آپ آج سے میرے اور ھر مسلمان کے مولا ھوگئے“۔
فیض القدیر اور صواعق محرقہ دونوں کتابوں میں نقل ھوا ھے کہ حضرت ابوبکر اور عمر دونوں نے حضرت علی علیہ السلام سے کھا: ”وَاٴَمسیتَ یابن اٴبي طالبٍ مولی کُلّ موٴمن و موٴمنةٍ“
یہ بات واضح ھے کہ ایک عام دوستی تو سبھی مومنین کے درمیان پائی جاتی تھی، تو پھر اتنا اہتمام کیسا؟! لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ یہ اس وقت صحیح ھے جب مولی کے معنی صرف اور صرف حا کم اور خلیفہ ھوں۔
*- حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار بھی اس بات پر بہترین گواہ ھیں کہ جن میں بلند مضامین اور واضح الفاظ میں خلافت کے مسئلہ کو بیان کیا گیا ھے، جن کی بنا پر مسئلہ کافی واضح ھے (یہ چاروں نقات مختصراً ایک شیعی مضمون سے ماخوذ ہیں)
دلائل کا تجزیہ

*- یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوستی تمام مومنین سے مخفی اور پیچیدہ نہیں تھی لیکن بعض واقعات کو لیکر اس وضاحت کی ضرورت پڑی کیونکہ یمن کے غزوہ میں بعض معاملات کو لیکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق بعض أصحاب کے دلوں میں بے چینی تھی جس کا ذکر انہوں نے برملا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے خاص أسلوب میں سمجھایا تو ان کی سمجھ میں بھی آ گیا اور بعض روایات کے مطابق انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی اٹوٹ کا اقرار بھی کیا لیکن بات چونکہ چند افراد سے نکل کر آگے بڑھ چکی تھی اس لئے ضرورت تھی کہ اس غلط فہمی کا ازالہ سب کے سامنے ہو چنانچہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، عَنْ بُرَيْدَةَ ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ عَلِيًّا فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ : " يَا بُرَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ؟ " قُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ".(مسند احمد بن حنبل :22945) یعنی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کا غزوہ کیا تو میں نے ان کے اندر کچھ سختی دیکھی تو جب میں مدینہ آیا تو میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان کم کرکے بیان کی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو بدلتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کے نزدیک ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ تو بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا میں دوست اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست،
تو جب روایات میں اس کی وجہ موجود ہے اور اہل تشیع کے مطابق ان روایات کی اسناد متواتر ہیں تو ہم اپنے من سے بنائی ہوئی باتوں کو کیسے مان لیں؟ اسی طرح جلال الدین سیوطی نے شرح إبن ماجہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے " وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اسلامی بھائی چارہ مراد لیا ہے جیسا کہ سورہ محمد آیت گیارہ میں" یہ اس وجہ سے کہ اللہ مومنین کا دوست ہے اور کافروں کا کوئی دوست نہیں" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب ورود یہ بھی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ میرے دوست نہیں میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی،
*- یہ بات بھی مسلم ہے کہ حضرت علی کی دوستی عام نہیں تھی بلکہ اک خاص دوستی تھی اس کی پہلی وجہ تو یہی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں جو درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے بہت بلندی کا مقام تھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ خاص طور پر اہل بیت میں سے ہیں جن کی پاسداری کا اقرار الگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایا تھا جب معاملہ یہ ہے تو پھر یہ عام دوستی کہاں رہی؟ اس سے یہ استدلال کرنا کہ "جس طرح میں تمہارا رہبر و سر پرست ہوں علی بھی رہبر و سرپرست ہیں" بالکل غلط ہے صحیح احادیث اس کی تائید نہیں کرتیں یہ مفہوم تو متعصب ہی نکال سکتا ہے انصاف پسند سے بعید ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے أصحاب سے متعلق خصوصی محبت اور دوستی کے وعدے اور اقرار لئے ہیں تو کیا وہ سب خلافت اور ولایت کے وعدے ہیں؟
*- اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی مبارکباد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی جیسا کہ مسند احمد کی بعض روایات سے ثابت ہے لیکن اس سے خلافت علی رضی اللہ عنہ پر استدلال کرنا بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر معاملہ یہی ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام پیش نا کرتے؟ صرف مبارک باد پیش کرنے سے مسئلہ کیسے خلافت کا ثابت ہو گیا؟ ایسے مبارکبادیں تو اور بھی ثابت ہیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ان کی توبہ کی قبولیت پر مبارکباد دی، آیت تیمم کے نزول پر صحابہ نے آل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مبارکباد پیش فرمائی ان کے علاوہ اور بھی مبارکبادیں ثابت ہیں، محض مبارکباد سے مسئلہ خلافت ثابت نہیں ہوتا، مبارکباد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت ضرور ثابت ہوتی ہے جس کا ہمیں اقرار ہے اور اس سے مولی کے معنی زبردستی حاکم اور خلیفہ کے لینا محض غلط ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر مولی کا معنی حاکم یا خلیفہ لیا جائے تو یہ سیاق و سباق کے خلاف ہے ظاہر سی بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حاکم اور خلیفہ ہونا خلاف حقیقت ہے جبکہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی چل رہی ہے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، کیا یہ عجیب بات نہیں لگتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہیں " جس کا میں والی و حاکم ہوں، علی اس کے والی و حاکم ہیں"؟ لہذا مولی کا معنی والی و حاکم لینا کسی طرح مناسب نہیں ہے بلکہ اس کا وہی مفہوم ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اور وہ دوست، مددگار وغیرہ ہے
*- اور جہاں تک حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قصیدے کی بات ہے جو انہوں نے غدیر خم کے موقع کی مناسبت سے کہا اور جس میں خلافت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے تو یہ سراسر باطل اور من گھڑت ہے اس کی سند حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تک ثابت نہیں کی جا سکتی؟ پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر صدیق و عمر بن الخطاب اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مراثی ثابت ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسان ایسے لوگوں کی تعریفیں کریں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کر لیا ہو؟
(4) واقعہ غدیر خم کی بنیاد پر 18/ ذی الحجہ کو عید کا دن قرار دینا بالکل غلط ہے اس کا حکم نا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور نا ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا ثبوت ہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی کبھی اس کو بطور عید نہیں منایا جبکہ اس واقعہ کے تیس سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ با حیات رہے چھبیس سال بلا خلافت اور ساڑھے چار سال خلافت کے، کم از کم یہ خلافت کے ایام میں تو 18/ذی الحجہ کو بطور عید مناتے؟ ان کے بعد بھی صدیوں تک اس کو بطور عید نہیں منایا گیا 351 ہجری میں معز الدولہ نے بغداد میں سب سے پہلے اس کو منایا اور اس کا نام عید غدیر خم رکھا اور یہ سب جانتے ہیں بادشاہ نہایت بد کردار اور شیعہ تھا
(5) دراصل عید غدیر خم کی آڑ میں اہل تشیع شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی تاریخ پر خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ یہی تاریخ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کی ہے جس طرح حضرت معاویہ کی وفات پر کونڈوں کی رسم ادا کی جاتی ہے لیکن بعض نادان اہل سنت بھی ان کی چالوں سے نا واقف ہونے کی بنیاد پر ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اللہ ان کو ہدایت عطاء فرمائے آمین
 
Top