• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبیﷺ ایک مطالعاتی جائزہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم
اگر کسی کی ثواب کی نیت نہ ہو بس عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں میلاد منائے تو کیا جائز ہوگا؟
سورۃ الحجرات میں ارشادِ خداوندی ہے:
﴿وَلـٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيكُمُ الإيمـٰنَ وَزَيَّنَهُ فى قُلوبِكُم وَكَرَّ‌هَ إِلَيكُمُ الكُفرَ‌ وَالفُسوقَ وَالعِصيانَ ۚ أُولـٰئِكَ هُمُ الرّ‌ٰ‌شِدونَ ﴿٧﴾... سورة الحجرات
''اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر، فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھلائی پانے والے ہیں۔''

اس آیت میں ایمان کی محبت میں حب ِالٰہی اور حب ِرسولؐ بھی شامل ہے۔
گویا حب ِرسولؐ انعامِ خداوندی ہے اورحب ِرسولؐ ہمارے ایمان کا صرف حصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:

'' تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔'' (بخاری و مسلم)

سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم...٦ ﴾... سورة الاحزاب

''نبی مؤمنوں کے لئے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہیں۔''

عبداللہ بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ''حضرت عمرؓ آنحضرتؐ سے کہنے لگے: آپؐ میرے لئے، میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں تم مؤمن نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! اب آپؐ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو آپ ؐنے فرمایا: اَب، اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (فتح الباری: ۱؍۵۹)

سورئہ توبہ ، آیت نمبر ۲۴ میں ارشادِ الٰہی ہے:

﴿قُل إِن كانَ ءاباؤُكُم وَأَبناؤُكُم وَإِخو‌ٰنُكُم وَأَزو‌ٰجُكُم وَعَشيرَ‌تُكُم وَأَمو‌ٰلٌ اقتَرَ‌فتُموها وَتِجـٰرَ‌ةٌ تَخشَونَ كَسادَها وَمَسـٰكِنُ تَر‌ضَونَها أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّهِ وَرَ‌سولِهِ وَجِهادٍ فى سَبيلِهِ فَتَرَ‌بَّصوا حَتّىٰ يَأتِىَ اللَّهُ بِأَمرِ‌هِ...٢٤﴾... سورة التوبة
''(اے نبی! مسلمانوں سے)کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیںـ؛ اللہ، اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔''

اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔اس لئے انہی چیزوں سے مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو تب ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین وجائیداد اور تجارت اور پسندیدہ مکانات خدا اور رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

محبت ایک فطری کشش کا نام ہے، ایک ایسا میلانِ نفس جو ہمیشہ پسندیدہ اور مرغوب چیزوں کی جانب ہوا کرتا ہے۔
یہ محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو 'طبعی محبت'کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال وکمال یا احسان کی و جہ سے ہو تو 'عقلی محبت' کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو 'روحانی محبت' یا 'ایمان کی محبت' کہلاتی ہے۔

رسول اللہﷺکے ساتھ 'محبت ِطبعی' بھی ہے جیسی اولاد کی محبت باپ سے ہوتی ہے کیونکہ آنحضورﷺاُمت کے روحانی باپ ہیں اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ 'روحانی مائیں' جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں فرمایاگیا: ﴿وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهَاتُهُمْ﴾ بعض شاذ قراء توں میں ھو أبوھم کا لفظ بھی آیا ہے کہ نبی کریمؐ تمہارے والد کی جگہ پر ہیں۔ تو جس طرح حقیقی باپ سے محبت طبعی ہے اسی طرح آپؐ سے محبت ایک مسلمان کے لئے بالکل فطری امر ہے۔
_____________________
2. حب ِ رسولؐ کا حقیقی معیار ... اطاعت ِرسول ؐ

حب ِرسولؐ کا سب سے اہم تقاضا اطاعت ِرسول ؐ ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہوتا ہے :

1. ایک صحابیؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی :
'' یارسول اللہؐ! میں آپ کو اپنی جان و مال، اہل و عیال سے زیادہ محبو ب رکھتا ہوں، جب میں اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوقِ زیارت بے قرار کرتاہے تو دوڑا دوڑا آپؐ کے پاس آتا ہوں، آپؐ کا دیدار کرکے سکون حاصل کرلیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آپ تو انبیا کے ساتھ اعلیٰ ترین درجات میں ہوں گے، میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہ پہنچ سکوں گا اور آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا۔ (یہ سوچ کر) بے چین ہوجاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی: ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّ‌سولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَ‌فيقًا ٦٩﴾... سورة النساء ''اور جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔'' (المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر:ص۲۴۳)

صحابی کے اظہارِ محبت کے جواب میں اللہ نے یہ آیت نازل کرکے واضح فرما دیا کہ اگر تم حب ِرسولؐ میں سچے ہو اور آنحضورؐ کی رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو رسولِ اکرمﷺکی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو۔

2. حضرت ربیعہؓ بن کعب اسلمی روایت کرتے ہیں کہ

''(ایک روز) نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: مانگ لو (جومانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا: ''جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں۔'' آپ نے فرمایا ''کچھ اس کے علاوہ بھی ؟'' میں نے عرض کیا ''بس یہی مطلوب ہے۔'' تو آپؐ نے فرمایا ''تو پھر اپنے مطلب کے حصول کیلئے کثرتِ سجود سے میری مدد کرو۔'' (یعنی میرے دعا کرنے کے ساتھ تم نوافل کا بھی اہتمام کرو تو اللہ تعالیٰ میری دعا قبول فرمائے گا)۔ (صحیح ابوداود؛۱۱۸۲)

گویا آپؐ نے واضح فرما دیاکہ اگر میری محبت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو عمل کرو۔ یہی حب ِرسولؐ ہے اور معیت ِرسولؐ حاصل کرنے کاذریعہ بھی۔5. فرمانِ رسول اللہ علیہ والصلوٰۃ والسلام ہے:

''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔'' (مشکوٰۃ للالبانی:۱۶۷)
رواه ابن أبي عاصم في " السنة " ( رقم 15 ) ،
[ والطبراني في " المعجم الكبير " ،
وأبونعيم في " الأربعين " – كما في " جامع العلوم والحكم " ( ص489 ) – ] ،
والخطيب في " تاريخه " ( ج4 / ص469 ) ،
والبيهقي في " المدخل " ( رقم 209 ) ،
[ والحسن بن سفيان في " الأربعين ( ق65 / 1 ) ،
وأبوالقاسم بن عساكر في " طرق الأربعين " ( ق59 / 2 ) – كما في " ظلال الجنة " ( ج1 / ص12 ) – ] ،
وقوَّام السنة الأصبهاني في " الحجة في بيان المحجة " ( ج1 / ص251 ) ،
وابن بطة في " الإبانة " ( رقم 291 ) ،
والهروي في " ذم الكلام "
والحسن بن سفيان النسوي في " الأربعين " ( رقم 9 ) ،
وأبوطاهر السلفي في " الأربعين البلدانية " ( رقم 45 ) ،
وفي " معجم السفر " ( ص375 ) ،
وابن الجوزي في " ذم الهوى " ( ص22 ، 23 ) ،
والبغوي في " شرح السنة " ( ج1 / ص212 ، 213 ) ،
وفي " الشمائل " ( ج2 / ص770 ، 771 ) .
من طرق عن نعيم بن حماد ، عن عبدالوهاب بن عبدالمجيد الثقفي ، عن هشام بن حسان ، عن محمد بن سيرين ، عن عقبة بن أوس ، عن عبدالله بن عمرو بن العاص ، مرفوعاً ، مثله .

وعند بعضهم : عن نعيم بن حماد ، حدثنا عبدالوهاب الثقفي ، حدثنا بعض مشايخنا : هشام ، أو غيره ، عن ابن سيرين ، به .''لا يؤمن أحدکم حتی يکون هواه تبعا لما جئت بهٖ''



یعنی کافر اور مؤمن میں تمیز ہی یہی ہے کہ جو اللہ کے رسولؐ کی تابعداری کرے گا وہ مؤمن ہوگا اور جو رسول اللہﷺکی اطاعت نہ کرے گا، وہ کافر ہوگا جیساکہ

﴿ قل ان کنتم تحبون الله فاتبعونی یحببکم الله ویغفر لکم ذنوبکم ﴿31﴾ قل أطيعوا الله والرسول، فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين ﴿32﴾ [ آل عمران ]
"آپ کہہ دیں اگر تم الله تعالی کو محبوب رکھنا چاھتے ھو تو میری اتباع کرو اس وقت الله تعالی تمہیں محبوب رکھے گا اور تمہارےگناھوں کو بخش دے گا۔" کہہ دیجئے! کہ الله تعالی اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ موڑ پھیر لیں تو بے شک الله تعالی کافروں سے محبت نہیں کرتا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ :
محبت رسول ﷺ چونکہ اصل ایمان ہے ، اسلئے اس کے اظہار کے طریقے اور انداز ہماری خواہش و پسند کے مطابق نہیں بلکہ صرف اتباع رسول ﷺ
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع میں ادا ہوسکتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محبت رسول ﷺ کیلئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے ؛


عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله والله إني لأحبك. فقال له: «انظر ماذا تقول»، قال: والله إني لأحبك، ثلاث مرات، فقال: «إن كنت تحبني فأعد للفقر تجفافا، فإن الفقر أسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه» :
" هذا حديث حسن (سنن الترمذی )

ترجمہ :سیدنا عبداللہ بن مغفلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ
''یارسول اللہﷺ! مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہے ہو، سوچ سمجھ کر کہو۔ تو اس نے تین دفعہ کہا، خدا کی قسم مجھے آپؐ سے محبت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے محبوب رکھتے ہو تو پھر فقروفاقہ کے لئے تیار ہوجاؤ (کہ میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے) کیونکہ جو مجھ سے محبت کرتاہے فقروفاقہ اس کی طرف اس سے زیادہ تیزی سے آتا ہے جیسی تیزی سے پانی بلندی سے نشیب کی طرف بہتا ہے۔'' (ترمذی؛۲۳۵۰ )
 

مقصود

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
6
خادم رضوی کی گالیوں کے دفاع میں حوالہ دے رہیں ہیں کہ ابوبکرصدیق نے حدیبیہ میں کسی کو گالی میں کہا کہ اپنے لات ۔بت کی شرمگاہ چوس حوالہ بخاری کا دے رہے ہیں وضاحت چاہیے کیا کسی صحابی سے ایسے الفاظ ثابت ہیں ۔۔۔ جناب محمد اسحاق سلفی صاحب
 

مقصود

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
6
تحریک لبیک عشرو اشاعت پاکستان والوں نے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
خادم رضوی کی گالیوں کے دفاع میں حوالہ دے رہیں ہیں کہ ابوبکرصدیق نے حدیبیہ میں کسی کو گالی میں کہا کہ اپنے لات ۔بت کی شرمگاہ چوس حوالہ بخاری کا دے رہے ہیں وضاحت چاہیے کیا کسی صحابی سے ایسے الفاظ ثابت ہیں ۔۔۔ جناب محمد اسحاق سلفی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سےپہلے تو آپ کو محدث فورم پر اہل ایمان کی محفل میں شریک ہونے پر خوش آمدید ۔ مرحبا
ان شاء اللہ یہاں آپ کو علم کے قیمتی موتی سمیٹنے کا موقع ملے گا ،
وفقك الله لكل ما يحب ويرضى،،وعلمك بما ينفعك ونفعك بما علمك ونفع بك الاسلام والمسلمين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کاسوال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جس جملہ کے متعلق ہے ، وہ جملہ تاریخ اسلام اور سیرت النبی ﷺ کے ایک مشہور واقعہ (صلح حدیبیہ ) کے ضمن میں منقول ہے ؛
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جملہ کو سمجھنے کیلئے پہلے اس کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلح حدیبیہ

(ذی قعدہ ۶ھ )
عمرہ ٔ حدیبیہ کا سبب :
جب جزیرہ ٔ نمائے عرب میں حالات بڑی حد تک مسلمانوں کے موافق ہوگئے تو اسلامی دعوت کی کامیابی اور فتح ِ اعظم کے آثار رفتہ رفتہ نمایاں ہونا شروع ہوئے۔ اور مسجدِ حرام میں جس کا دروازہ مشرکین نے مسلمانوں پر چھ بر س سے بند کررکھا تھا مسلمانوں کے لیے عبادت کا حق ِ تسلیم کیے جانے کی تمہیدات شروع ہوگئیں۔
رسول اللہﷺ کو مدینہ کے اندر یہ خواب دکھلایا گیا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی لی۔ اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا۔ پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفاکی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ا س خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی۔ اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپﷺ عمرہ ادا فرمائیں گے۔ لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کی روانگی کا اعلان:
آپﷺ نے مدینہ اور گردوپیش کی آبادیوں میں اعلان فرمادیا کہ لو گ آپ کے ہمراہ روانہ ہوں ، لیکن بیشتر اعراب نے تاخیر کی۔ ادھر آپﷺ نے اپنے کپڑے دھوئے۔ مدینہ پر ابن اُم ِ مکتوم یا نمیلہ لیثی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ اور اپنی قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوکر یکم ذی قعد ہ ۶ ھ روز دوشنبہ کو روانہ ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ اُم المومنین حضرت ام سلمہ ؓ بھی تھیں۔ چودہ سو (اور کہا جاتا ہے کہ پندرہ سو ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمرکاب تھے۔ آپﷺ نے مسافرانہ ہتھیار یعنی میان کے اندر بند تلواروں کے سوااور کسی قسم کا ہتھیار نہیں لیاتھا۔
مکہ کی جانب مسلمانوں کی حرکت:
آپ• کا رُخ مکہ کی جانب تھا۔ ذو الحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی1کو قلادے پہنائے۔ کوہان چیر کر نشان بنایا۔ اور عمرہ کا احرام باندھا تاکہ لوگوں کو اطمینان رہے کہ آپ جنگ نہیں کریں گے۔ آگے آگے قبیلہ خزاعہ کا ایک جاسوس بھیج دیا تاکہ وہ قریش کے عزائم کی خبر لائے۔ عسفان کے قریب پہنچے تو اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ میں کعب بن لوی کو اس حالت میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ انھوں نے آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے احابیش1 (حلیف قبائل ) کو جمع کررکھا ہے۔ اور بھی جمعیتیں فراہم کی ہیں۔ اور وہ آپ سے لڑنے اورآپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور فرمایا : کیا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ یہ لوگ جو قریش کی اعانت پر کمر بستہ ہیں ہم ان کے اہل وعیال پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیں ؟ اس کے بعد اگر وہ خاموش بیٹھتے ہیں تو اس حالت میں خاموش بیٹھتے ہیں کہ جنگ کی مار اور غم والم سے دوچار ہوچکے ہیں اور بھاگتے ہیں تو وہ بھی اس حالت میں کہ اللہ ایک گردن کا ٹ چکا ہوگا۔ یا آپ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ہم خانہ کعبہ کا رُخ کریں۔ اور جو راہ میں حائل ہواس سے لڑائی کریں ؟ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ مگر ہم عمرہ اداکرنے آئے ہیں۔ کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ البتہ جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگا اس سے لڑائی کریں گے نبیﷺ نے فرمایا : اچھا تب چلو۔ چنانچہ لوگوں نے سفر جاری رکھا۔

بیت اللہ سے مسلمانوں کو روکنے کی کوشش:
ادھر قریش کو رسول اللہﷺ کی روانگی کا عِلم ہوا تو اس نے ایک مجلس ِ شوریٰ منعقد کی۔ اور طے کیا کہ جیسے بھی ممکن ہو مسلمانوں کو بیت اللہ سے دور رکھا جائے چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب احابیش سے کتراکر اپنا سفر جاری رکھاتو بنی کعب کے ایک آدمی نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش نے مقام ذی طویٰ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے اور خالد بن ولید دوسو سواروں کا دستہ لے کر کُرَاع الغمیم میں تیا ر کھڑے ہیں (کُراع الغمیم ، مکہ جانے والی مرکزی اور کاروانی شاہراہ پر واقع ہے ) خالد نے مسلمانوں کو روکنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سواروں کو ایسی جگہ تعینات کیا جہاں سے دونوں فریق ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ خالد نے ظہر کی نماز میں یہ بھی دیکھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے کررہے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ لوگ غافل تھے۔ ہم نے حملہ کردیا ہوتا تو انھیں مارلیاہوتا۔ اس کے بعد طے کیا کہ عصر کی نماز میں مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑیں گے ، لیکن اللہ نے اسی دوران صلوٰۃ خوف (حالت جنگ کی مخصوص نماز) کا حکم نازل کردیا۔ اور خالد کے ہاتھ سے موقع جاتا رہا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ حبشی لوگ نہیں ہیں جیسا کہ بظاہر لفظ سے محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ بنوکنانہ اور دوسرے عرب قبائل کی چند شاخیں ہیں۔ یہ حبشی -ح کو پیش ، ب ساکن ش کو زیر -پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔ جو وادی نعمان اراک سے نیچے واقع ہے۔ یہاں سے مکہ کا فاصلہ چھ میل ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں بنوحارث بن عبد مناۃ بن کنانہ ، بنومصطلق بن حیا بن سعد بن عمر اور بنو الہون بن خزیمہ نے اکٹھے ہوکر قریش سے عہد کیا تھا، اور سب نے مل کر اللہ کی قسم کھائی تھی کہ جب تک رات تاریک اور دن روشن ہے ، اور حبشی پہاڑاپنی جگہ برقرار ہے ہم سب دوسروں کے خلاف ایک ہاتھ ہوں گے۔ ( معجم البلدان ۲/۲۱۴، المنمق ۵ ۷ ۲ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خونریز ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش اور راستے کی تبدیلی :
ادھر رسول اللہﷺ کُراع الغمیم کا مرکزی راستہ چھوڑ کر ایک دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہوکر گزرتا تھا۔ یعنی آپ داہنے جانب کترا کر حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا۔ ثنیۃالمرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں۔ اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا ، اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا وہ بائیں جانب چھوٹ گیا۔ خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیاکہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت ِ حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے۔
ادھر رسول اللہﷺ نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا ، جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگو ں نے کہا : حل حل ، لیکن وہ بیٹھی ہی رہی۔ لوگوں نے کہا : قصواء اڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا :قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے ، لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کوروک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ، پھر آپ نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا۔ جس میں تھو ڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذراذرا سالے رہے تھے، چنانچہ چند ہی لمحوں میں ساراپانی ختم ہوگیا۔ اب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد واللہ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہوکر واپس ہوگئے۔
بدیل بن ورقاء کا توسط :
رسول اللہﷺ مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا۔ تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ ) رسول اللہﷺ کا خیر خواہ تھا۔ بدیل نے کہا : میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑ اؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے۔ اور سخت ضرر پہنچا یا ہے اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں۔ اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں۔ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی۔
اور اگر انہیں لڑائی کے سو ا کچھ منظور نہیں تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اپنے دین کے معاملے میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں گا جب تک کہ میری گردن جدا نہ ہوجائے یا جب تک اللہ اپنا امر نافذنہ کردے۔
بُدَیل نے کہا : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں اسے قریش تک پہنچادوںگا۔ اس کے بعد وہ قریش کے پاس پہنچا۔ اور بولا: میں ان صاحب کے پا س سے آرہا ہوں میں نے ان سے ایک بات سنی ہے ، اگر چاہو تو پیش کردوں۔ اس پر بیوقوفوں نے کہا:ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم سے ان کی کوئی بات بیان کرو۔لیکن جو لوگ سوجھ بوجھ رکھتے تھے انہوں نے کہا : لاؤ سناؤ تم نے کیا سنا ہے ؟ بدیل نے کہا : میں نے انہیں یہ اور یہ بات کہتے سنا ہے۔ اس پر قریش نے مکرز بن حفص کو بھیجا۔ اسے دیکھ کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ بد عہد آدمی ہے، چنانچہ جب اس نے آپ کے پاس آکر گفتگوکی تو آپ نے اس سے وہی بات کہی جو بدیل اور ا س کے رفقاء سے کہی تھی۔ اس نے واپس پلٹ کر قریش کو پوری بات سے باخبر کیا۔
قریش کے ایلچی :
اس کے بعد حلیس بن علقمہ نامی بنوکنانہ کے ایک آدمی نے کہا: مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لو گوں نے کہا: جاؤ۔ جب وہ نمودار ہوا تو نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : یہ فلاں شخص ہے۔ یہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جو ہَدْی کے جانوروں کا بہت احترام کرتی ہے۔لہٰذا جانوروں کو کھڑا کردو۔ صحابہ نے جانوروں کو کھڑا کردیا۔ اور خود بھی لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا : سبحان اللہ ! ان لوگوںکو بیت اللہ سے روکنا ہرگز مناسب نہیں۔ اور وہیں سے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس پلٹ گیا۔ اور بو لا : میں نے ہدی کے جانور دیکھے ہیں جن کے گلوں میں قلادے ہیں۔ اورجن کی کوہان چیری ہوئی ہیں۔ اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ انہیں بیت اللہ سے روکا جائے۔ اس پر قریش اور اس شخص میں کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ وہ تاؤ میں آگیا۔

اس موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی نے مداخلت کی اور بو لا : اس شخص (محمدﷺ ) نے تمہارے سامنے ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذا اسے قبول کرلو۔ اور مجھے ان کے پاس جانے دو۔ لوگوں نے کہا : جاؤ ! چنانچہ وہ آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اور گفتگو شروع کی۔ نبیﷺ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ نے کہا : اے محمد ! یہ بتایئے کہ اگر آپ نے اپنی قوم کا صفایا بھی کردیا تو کیا اپنے آپ سے پہلے کسی عرب کے متعلق سنا ہے کہ اس نے اپنی قوم کا صفایا کردیا ہو۔ اور اگر دوسری صورتِ حال پیش آئی تو اللہ کی قسم! میں ایسے چہرے اور ایسے اوباش لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جو اسی لائق ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اس پر حضرت ابو بکرؓ نے کہا: لات کی شرمگاہ کا لٹکتا ہوا چمڑا چوس۔ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگیں گے ؟ عروہ نے کہا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : ابو بکرؓ ہیں۔ اس نے حضرت ابو بکر کو مخاطب کرکے کہا : دیکھو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی کہ تم نے مجھ پر ایک احسان کیا تھا اور میں نے اس کا بدلہ نہیں دیا ہے ، تو میں یقینا تمہاری اس بات کا جواب دیتا۔
اس کے بعد عروہ پھر نبیﷺ سے گفتگو کرنے لگا۔ وہ جب گفتگو کرتا تو آپ کی ڈاڑھی پکڑ لیتا۔ مغیرہ بن شعبہؓ نبیﷺ کے سر کے پاس ہی کھڑے تھے۔ ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خُود ، عروہ جب نبیﷺ کی داڑھی پر ہاتھ بڑھاتا تو وہ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ اپنا ہاتھ نبیﷺ کی داڑھی سے پرے رکھ۔ آخر عروہ نے اپناسر اٹھایا ، اور بولا: یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا: مغیرہ بن شعبہ ہیں۔ اس پر اس نے کہا: ... او ...بدعہد ... ! کیا میں تیری بدعہدی کے سلسلے میں دوڑ دھوپ نہیں کررہا ہوں ؟ واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ جاہلیت میں حضرت مغیرہ کچھ لوگوں کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں قتل کرکے ان کا مال لے بھاگے تھے۔ اور آکر مسلمان ہوگئے تھے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اسلام تو قبول کرلیتا ہوں ، لیکن مال سے میرا کوئی واسطہ نہیں (اس معاملے میں عروہ کے دوڑدھوپ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مغیرہ اس کے بھتیجے تھے )
اس کے بعد عروہ نبیﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق ِ خاطر کا منظر دیکھنے لگا۔ پھر اپنے رفقاء کے پاس واپس آیا اور بولا : اے قوم ! واللہ میں قیصر وکسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے پاس جاچکا ہوں۔ واللہ میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اُس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے ساتھی محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! وہ کھنکار بھی تھوکتے تھے تو کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اور وہ شخص اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا تھا۔ اور جب وہ کوئی حکم دیتے تھے تواس کی بجاآوری کے لیے سب دوڑ پڑتے تھے۔ اور جب وضو کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ اس کے وضو کے پانی کے لیے لوگ لڑپڑیں گے۔ اور جب کوئی بات بولتے تھے تو سب اپنی آوازیں پست کرلیتے تھے۔ اور فرطِ تعظیم کے سبب انہیں بھرپورنظر نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے تم پر ایک اچھی تجویز پیش کی ہے۔ لہٰذااسے قبول کرلو۔

یہ تفصیل میں نے سیرت النبی ﷺ کی مشہور کتاب (الرحیق المختوم ) سے نقل کی ہے ،جو یونیکوڈ میں اسی فورم پر ہمارے فاضل بھائی محترم @محمد نعیم یونس صاحب نے پیش کر رکھی ہے ، جزاہ اللہ تعالی خیراً
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تو اس صلح کی تفصیلات ہیں جس کے انعقاد کے دوران یہ جملہ سیدنا ابوبکر سے منقول ہے
اس جملہ کے معنی و مفہوم ان شاء اللہ کل نماز جمعہ کے بعد پیش کروں گا ۔ والتوفیق بیداللہ
 
Last edited:
Top