• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شرعی حیثیت

شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
ربیع الاول اللہ کی طرف سے مقرر کردہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے، جِس کے بارے میں قُرآن اور سُنّت میں کوئی فضلیت نہیں ملتی، لیکن ہمارے معاشرے میں اِس مہینہ کو بہت ہی زیادہ فضلیت والا مہینہ جانا جاتا ہے اور اِس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ اِس ماہ کی بارہ تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی تھی، اور پھر اِس تاریخ کو عید کے طور پر "منایا "جاتا ہے، اور یہ "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "منانے کے لئیے کیا کیا جاتا ہے وہ کِسی سے بھی پوشیدہ نہیں، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اِس عید میلاد کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اور اِس میں کئیے جانے والے کاموں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

ہم یہاں عید میلاد منانے والوں کے دلائل کا تجزیہ کریں گے۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کے دلائل

(1) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

“اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ، اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں‘‘ (سورت ابراہیم، آیت ٥)

( 2) أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ

“ اے رسول) کیا آپ نے نہیں ا ُنکو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور (اِس اِنکار کی وجہ سے) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتارا" (سورت ابراہیم آیت ٢٨)

( 3) وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ

" اور جو تمہارے رب کی نعمت ہے اُس کا ذِکر کِیا کرو " (سورت الضُحیٰ، آیت ١١)

( 4) قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

"مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر، (اس کا نازل ہونا) ہمارے لئیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے " (سورت المائدہ، آیت ١١٤)

( 5) قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ

" (اے رسول) کہو (یہ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (سے ہے) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ (خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں (اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے" (سورۃ یونس آیت58)

( 6) سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ کے متعلق کہتے ہیں کہ اِس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اِسی طرح '' عید میلاد "کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دِلاتے ہیں۔

( 7) اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لئیے خود کو اور اپنے مریدوں کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی، خود ولادت پر خوشی منانا ہے ''

( 8) کہتے ہیں کہ "ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے ''

( 9) کہتے ہیں کہ "میلاد شریف میں ہم حضور پاک کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اُن کی تعریف کرتے ہیں نعت کے ذریعے، اور یہ کام تو صحابہ بھی کِیا کرتے تھے، تو پھر ہمارا میلاد منانا بدعت کیسے ہوا ؟ ''

( 10) کہتے ہیں "ہم رسول اللہ صیی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اُن کی پیدائش کی خوشی مناتے ہیں، اور جو ایسا نہیں کرتے اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی مُحبت نہیں، وہ محروم ہیں۔

( 11) اللہ کے فرمان الیوم اکملت لکم دینکم کی تفسیر میں عبداللہ ابن عباس اور عُمر رضی اللہ عنہم کے ایک قول کو دلیل بنایا جاتا ہے، اور کس طرح بنایا جاتا ہے وہ جواب میں ملاحظہ فرمائیے،

( 12) عالمی جشن

( 13) صحابہ کی محبت کا انداز وہ تھا، اور اب وقت اور ضرورت کے مطابق محبت کا انداز اور ہے۔

ہم ان شاء اللہ ان تمام دلائل کے جوابات بیان کریں گے۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی پہلی دلیل

عید میلاد منوانے اور منانے والے ہمارے کلمہ گو بھائی سورت ابراہیم کی آیت ٥ کے ایک حصے کو بطورِ دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ یعنی" اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ "، کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے)اِن کی مراد یہاں عاشوراء کا روزہ ہے یعنی دس محرم کا روزہ) اور چونکہ حضور پاک اللہ کی نعمت ہیں لہذا ہم حضور پاک کی ولادت کی یاد میں جشن کرتے ہیں ''

جواب:مکمل آیت یوں ہے :::

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ۔۔اور ہم نے موسی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نِکالو، اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کرواؤ، اِس میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیئے نشانیاں ہیں

اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟ اور اگر یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ تفسیر کی معتبر ترین کتابوں میں اس کی کیا تفسیر بیان ہوئی ہے تو اِن لوگوں کا یہ فلسفہ ہوا ہوجاتا ہے۔

اِمام محمد بن احمد جو اِمام القُرطبی کے نام سے مشہور ہیں اپنی شہرہ آفاق تفسیر " الجامع لِاحکام القُرآن " میں اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وقد تسمى النعم الأيام " نعمتوں کو کبھی ایام بھی کہا جاتا ہے "

اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) اور مقاتل (بن حیان) نے کہا: بوقائع الله في الأمم السالفة " اللہ کی طرف سے سابقہ اُمتوں میں جو واقعات ہوئے"

اور سعید بن جبیر نے عبداللہ بن عباس سے اور اُنہوں نے اُبي بن کعب (رضی اللہ عنہم) سے روایت کِیا کہ اُبي بن کعب نے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ (ایک دفعہ موسی (علیہ السلام) اپنی قوم کو اللہ کے دِن یاد کروا رہے تھے، اور اللہ کے دِن اس کی طرف سے مصبتیں اور اس کی نعمتیں ہیں) صحیح مسلم /کتاب الفضائل / باب من فضل الخضر علیہ السلام، اوریہ(حدیث) دِل کو نرم کرنے والے اور یقین کو مضبوط کرنے والے واعظ کی دلیل ہے، ایسا واعظ جو ہر قِسم کی بدعت سے خالی ہو، اور ہر گمراہی اور شک سے صاف ہو۔

اِمام ابن کثیر رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے اِس آیت کی تفسیر میں اِمام مجاہد اور اِمام قتادہ کا قول نقل کِیا کہ اُنہوں نے کہا : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ } أي:بأياديه ونعَمه عليهم، في إخراجه إياهم من أسر فرعون وقهره وظلمه وغشمه، وإنجائه إياهم من عدوهم، وفلقه لهم البحر، وتظليله إياهم بالغمام، وإنزاله عليهم المن والسلوى، إلى غير ذلك من النعم ۔۔{ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ } یعنی اِن کو اللہ کی مدد ا ور نعمتیں یاد کرواؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اِن کو فرعون کے ظلم سے نجات دِی، اور اُن کے دشمن سے اُنہیں محفوظ کِیا، اور سمندر کو اُن کے لیئے پھاڑ کر اُس میں سے راستہ بنایا اور اُن پر بادلوں کا سایہ کِیا، اور اُن پر من و سلویٰ نازل کِیا، اور اِسی طرح کی دیگر نعمتیں " (تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر)

غور فرمائیے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس آیت میں اللہ کے دِنوں کی کیا تفسیر فرماتے ہیں، کیا کہیں اُنہوں نے جشن میلاد منانے کا فرمایا یا خود منایا ؟ میلاد کے حق میں دلیل بنانے والے صاحبان کو اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین یاد کیوں نہیں آتے کہ یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ O يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۔۔ (اے لوگو جو اِیمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے آگے مت بڑھو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچو بے شک اللہ سُننے اور عِلم رکھنے والا ہے اے لوگو جو اِیمان لائے ہو، نبی کی آواز سے آواز بلند مت کرو اور نہ ہی اس کے ساتھ اُونچی آواز میں بات کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے سورت الحجرات/ آیت 1-2

پھر یہ لوگ اِس آیت کے ساتھ دس محرم کے روزے کو منسلک کرتے ہوئے کہتے ہیں" وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ یعنی"اور اُنہیں اللہ کی نعمتیں یاد کراؤ" کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے بنی اسرائیل روزہ رکھتے تھے اور، حضور پاک بھی اِس کے لیئے روزہ رکھا کرتے تھے''

جی ہاں یہ درست ہے کہ بنی اِِسرائیل اُس دِن روزہ رکھا کرتے تھے جِس دِن اللہ تعالیٰ نے اُنہیں فرعون سے نجات دی تھی اور وہ ہے دس محرم کا دِن، اور بنی اِسرائیل اِس دِن روزہ کیوں رکھا کرتے تھے ؟ عید مناتے ہوئے یا اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ کام کرتے تھے جِس کا موسیٰ علیہ السلام نے اُنہوں حُکم دِیا، ابھی ابھی اِس بات کے آغاز میں یہ لکھا گیا ہے کہ "اگر اِس آیت کے بعد والی آیات کو پڑھا جائے تو یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے اِس حُکم پر کیسے عمل کِیا، اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کروائِیِں یا عید منانے کا حکم دِیا ؟؟؟

ملاحظہ فرمائیے، قارئین کرام، آیت نمبر ٥ کی بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ O وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ O وَقَالَ مُوسَى إِن تَكْفُرُواْ أَنتُمْ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ ۔۔ (اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو کہ اللہ نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات دِی جو تم لوگوں کی شدید عذاب دیتی تھی کہ وہ لوگ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے (تا کہ اُنہںِ لونڈیاں بنا کر رکھیں) اور اِس عذاب میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا O اور (یہ نعمت بھی یاد کرو کہ) جب تمہارے رب نے تمہیں یہ حُکم دیا کہ اگر تُم لوگ شُکر ادا کرو گے تو میں ضرور تُم لوگوں کو (جان، مال و عزت میں) بڑھاوا دوں گا اور اگر تُم لوگ (میری باتوں اور احکامت سے) اِنکار کرو گے تو (پھر یاد رکو کہ) بلا شک میرا عذاب بڑا شدید ہے O اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تُم سب اور جو کوئی بھی زمین پر ہے، کفر کریں تو بھی یقیناً اللہ تعالیٰ (کو کوئی بھی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ) غنی اور حمید ہے سورت ابراہیم

تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ لوگ دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے !!! "عید"نہیں منایا کرتے تھے۔

اگر یہ لوگ اُن احادیث کا مطالعہ کرتے جو دس محرم کے روزے کے بارے میں تو اِنہیں یہ غلط فہمی نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ روزہ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللّهِ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے رکھا کرتے تھے : آیے ان احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(۱) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ فَقَالَ ۔۔ عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا کہ مَا هَذَا ؟ یہ کیا ہے ؟ قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَى ۔۔ تو اُنہیں بتایا گیا کہ '' یہ نیک دن ہے، اِس دِن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دِی تھی توموسیٰ (علیہ السلام)نے اس دن روزہ رکھا"، قَالَ۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ۔۔ میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ ۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا " (صحیح البخاری/ کتاب الصیام /باب صوم یوم عاشوراء)

( ٢) عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔ (ابو موسی رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ "دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا فَصُومُوهُ أَنْتُمْ ۔۔ (تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو ۔صحیح البخاری /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

اس حدیث مبارک میں ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ خوشی کے مواقع کو اس طرح عید بنانا یہودیوں کی عادات میں سے ہے، جس پر انکار فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے خوشی کے شکر کے طور پر اللہ کی عبادت کی حکم دیا اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے، یہودیوں ہی کی طرح عیدیں بنانے اور منانے کی اجازت نہ دی۔

( ٣) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ''مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ" (صحیح البخاری کتاب الصیام باب صوم یوم عاشوراء)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اِس دس محرم کے روزے کو کِسی بھی اور دِن کے (نفلی) روزے سے زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہنیے سے زیادہ (فضیلت والا جانتے تھے) یعنی رمضان کے مہینے کو ""

( ۴) ابو قتادہ رضی اللہ عنہُ ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ ""خلیفہ دوئم بلا فصل امیر المؤمنین عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہُ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عاشوراء (دس محرم) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد فرمایا اَحتَسِبُ علی اللہِ أن یُکَفِّرُ السّنَۃَ المَاضِیَۃَ ۔۔ (میں اللہ سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ (اس عاشوراءکے روزہ کے ذریعے) پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف فرما دے گا)"صحیح مُسلم حدیث 1162/کتاب الصیام/باب36، صحیح ابن حبان /حدیث3236)

( ٥) اُم المؤمنین عائشہ، عبداللہ ابنِ عُمر، عبداللہ ابنِ مسعود اور جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے روایات ہیں کہ :

(ا) عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَاأَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَرِهَ فَلْيَدَعْهُ (صحیح مُسلم /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوم ِ عاشورا کے روزے کے بارے میں فرمایا " اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے تو جوچاہے اِس دِن روزہ رکھے ا ور جو چاہے نہ رکھے"

(ب‌) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَيَحُثُّنَا عَلَيْهِ وَيَتَعَاهَدُنَا عِنْدَهُ فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ لَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا وَلَمْ يَتَعَاهَدْنَا عِنْدَهُ (صحیح مُسلم /کتاب الصیام/ باب صوم یوم عاشوراء)

"رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیں دس محرم کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے، اور اس کی ترغیب دِیا کرتے تھے، اور اس کے بارے میں ہم سے عہد لیا کرتے جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیں نہ اس کا حُکم دِیا، نہ اور نہ ہی اِس سے منع کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں ہم سے کوئی وعدہ لیا"

( ٦) عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ رَضِيٰ اللَّهُ عَنْهُمَا يَوْمَ عَاشُورَاءَ عَامَ حَجَّ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ " يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ ؟" سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ وَلَمْ يَكْتُبْ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ وَأَنَا صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْ " (صحیح البخاری کتاب الصوم باب صوم یوم عاشوراء)

حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے اُس سال میں جس سال میں معاویہ رضی اللہ عنہُ نے حج کیا، معاویہ رضی اللہ وعنہُ کو عاشوراء کے دن منبر پر یہ کہتے ہوئے سُنا کہ " اے مدینہ والو تمہارے عُلماء کہاں ہیں؟"۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کہتے ہوئے سُنا۔۔ "یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا، اور میں روزے میں ہوں، تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے"

( ٧) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ (صحیح مسلم کتاب الصوم باب فضل صوم المحرم)

ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت محرم کے روزوں میں ہے، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت رات کی نماز میں ہے

اِن احادیث پر غور فرمائیے، کہیں سے اِشارۃ ً بھی یہ ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس آیت کو بنیاد بنا کر یہ روزہ رکھا تھا، بلکہ رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس روزے کی ترغیب تک بھی نہیں دی، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں ہے، بلکہ ہمیں بڑی وضاحت سے اِس بات کا ثبوت مِلتا ہے کہ یہ روزہ ایامِ جاہلیت میں بھی رکھا جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے اِس روزہ کو رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم بھی دِیا اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس کی ترغیب بھی نہیں دی جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں ہے، رہا معاملہ اِس روزہ کو موسی علیہ السلام کے یومِ نجات کی خوشی میں رکھنے کا تو درست یہ کہ خوشی نہیں بلکہ شکر کے طور پر رکھا جاتا تھا، اور اگر خوشی ہی کہا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ کِسی بات پر خوش ہو کر روزہ رکھا جائے، لہذا اِن کو بھی چاہیئے کہ یہ جِس دِن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن مانتے ہیں، حالانکہ وہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوتا، اِس کا ذِکر آگے آئے گا اِن شاء اللہ، تو اپنی اِس خام خیالی کی بنیاد پر اِن کو چاہیئے کہ یہ لوگ خود اور اِن کے تمام تر مریدان اُس دِن روزہ رکھیں۔

مندرجہ بالا احادیث پر غور فرمایئے، خاص طور پر پہلی حدیث پر تو ہمیں بالکل واضح طور پر یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں جا کر اُنہوں نے یہودیوں کو اِس دِن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ " یہ کیا ہے "؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس سوال سے یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرتِ مدینہ سے پہلے اِس دِن جو روزہ رکھا کرتے تھے وہ موسی علیہ السلام کے یوم نجات کی خوشی میں نہ تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ جانتے بھی نہیں تھے کہ دس محرم موسی علیہ السلام کا یومِ نجات تھا، اور یہ حدیث اِس بات کے بہت سے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عالم غیب نہیں تھے، خیر یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں ہے۔

اور بات بھی بڑی مزیدار ہے یہ صاحبان شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ سورت اِبراہیم مکی سورت ہے سوائے دو اور ایک روایت میں ہے کہ تین آیات کے، اور وہ ہیں آیت نمبر 28، 29، 30، مزید تفصیل کےلئیے ملاحظہ فرمائیے، اِمام محمد بن الشوکانی کی تفسیر "فتح القدیر "اور اِمام محمد بن احمد القُرطبی کی تفسیر "الجامع لِاحکام القُرآن "،
تو جِس آیت کو ہمارے یہ بھائی "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "کی دلیل بنا رہے ہیں اور اِس دلیل کی مضبوطی کےلئیے یوم ِ عاشورا کے روزے کا معاملہ اس کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، صحیح احادیث اور صحابہ اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس آیت کا یوم ِ عاشورا کے روزے سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے اِس دِن کے روزے کو موسی علیہ السلام کی نسبت سے نہ جانتے تھے، اور اِس آیت کے نزول سے پہلے یہ روزہ قریش مکہ بھی رکھا کرتے تھے، جیسا کہ اُوپر بیان کی گئی احادیث میں سے پانچویں حدیث میں اِس بات کا ذِکر صراحت کے ساتھ ملتا ہے،
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی دوسری دلیل

عید میلاد منوانے او رمنانے والے ہمارے یہ بھائی کہتے ہیں کہ سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ کی تفسیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا قول نقل کیا گیا ہے کہ "نعمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں '"، اور پھر عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہُما کے اِس قول کو بنیاد بنا کر اِن لوگوں نے یہ فلسفہ گھڑ لیا کہ "نعمت کا اظہار کرنا شکر ہے اور شکر نہ کرنا کفر ہے اور جب شکر کیا جائے گا تو خوشی ہو گی لہذا ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خوشی اظہارِ نعمت کی خوشی ہے"

جواب:

سورت اِبراہیم کی آیت ٢٨ یوں ہے ۔۔۔أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ ۔۔ (اے رسول) کیا تُم نے نہیں ا ُن کو نہیں دیکھا جِنہوں نے اللہ کی نعمت کا اِنکار کِیا اور (اِس اِنکار کی وجہ سے) اپنی قوم کو تباہی والے گھر میں لا اُتارا۔

اللہ جانے اِن لوگوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہُما کا یہ قول کہاں سے لیا ہے کیونکہ تفسیر، حدیث، تاریخ و سیرت اور فقہ کی کم از کم سو ڈیڑھ سو معروف کتابوں میں مجھے کہیں بھی یہ قول نظر نہیں آیا، البتہ تفسیر ابن کثیر میں اِمام ابن کثیر نے یہ کہا ہے کہ :

"وإن كان المعنى يعم جميع الكفار؛ فإن الله تعالى بعث محمدا صلى الله عليه وسلم رحمة للعالمين، ونعمة للناس، فمن قبلها وقام بشكرها دخل الجنة، ومن ردها وكفرها دخل النار۔۔ (یہ بات ہر کافر کےلیے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام اِنسانوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا، پس جِس نے اس کو قبول کِیا اور اِس پر شکر ادا کیا وہ جنّت میں داخل ہو گا، اور جِس نے اِس کو قُبُول نہ کِیا اور اِس کا اِنکار کِیا وہ جہنم میں داخل ہو گا "

اللہ جانے اِمام ابن کثیر کے اِس مندرجہ بالا قول کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی طرف سے بیان کردہ تفسیر قرار دینا اِن کلمہ گو بھائیوں کی جہالت ہے یا تعصب، اگر بالفرض یہ درست مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ قول عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا کہا ہوا ہے، تو کہیں تو یہ دِکھائی کہ دیتا عبداللہ ابن عباس یا ان کے والد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہُ یا کِسی بھی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن کِسی بھی طور پر "منایا "ہو، اِس طرح تو ان کے ابھی ابھی اُوپر بیان کردہ فلسفے کے مُطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کُفرانِ نعمت کیا کرتے تھے؟
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی تیسری دلیل

تیسری دلیل کے طور پر اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ "سورت الضحیٰ کی آیت رقم گیارہ ١١ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی نعمتوں کے اظہار کا حُکم دِیا ہے اور اِظہار بغیر ذِکر کے ہو نہیں سکتا، اور اِس آیت میں حُکم ہے کہ اِظہار کرو اب سوال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں اور یقیناً ہیں بلکہ تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہیں تو پھر اس کا ذِکر کیوں نہیں ہو گا ۔

جواب:

اگرمیرے یہ کلمہ گو بھائی سورت الضحیٰ کو پورا پڑھیں تو پھر اِنہیں اِس کی آیت رقم گیارہ ١١ وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ۔۔ اور تمہارے رب کی جو نعمت ہے اُس کا ذِکر کِیا کرو سے پہلے کی آیات سے یہ سمجھ میں آ جانا چاہئیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دل جمعی فرماتے ہوئے ان کو اپنی نعمتیں یاد کرواتے ہیں اور اپنی اِن نعمتوں کو بیان کرنے کا حُکم دینے سے پہلے دو حُکم اور بھی دیتے ہیں کہ:

فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ O وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ ۔۔پس جو یتیم ہے اُس پر غُصہ مت کرو O اور جو کوئی سوالی ہو تو اُسے ڈانٹو نہیں۔

اِن دو حُکموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں بیان کرنے کا حُکم دِیا، اگر نعمتوں کا ذِکر کرنے سے مُراد عید میلاد النبی منانا ہے تو پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اور ان کے بعد ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیوں نہیں کِیا ؟

اس آیت کو اپنے فلسفے کی دلیل بنانے والے میرے کلمہ گو بھائی اگر قُرآن کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی أحادیث یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار میں ڈھونڈنے کی زحمت فرما لیتے یا اُمت کے اِماموں کی بیان کردہ تفاسیر میں سے کِسی تفسیر کا مطالعہ کرتے تو اِن پر واضح ہو جاتا کہ جو منطق و فلسفہ یہ بیان کر رہے ہیں وہ ناقابلِ أعتبار اور مردود ہے، کیونکہ خِلافِ سُنّت ہے، جی ہاں خِلافِ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، خِلافِ سُنّت ِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے، اور کُچھ نہیں تو صِرف اتنا ہی دیکھ لیتے کہ اِن آیات میں موجود اللہ کے أحکام پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اور اُن کے صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین نے کیسے عمل کیا ہے تو اِس قسم کے فلسفے کا شکار نہ ہوتے۔

کوئی اِن سے پوچھے تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہُم أجمعین اور ان کے بعد تابعین، تبع تابعین اور چھ سو سال تک اُمت کے کِسی عالِم کو کِسی اِمام کو، کِسی مُحدِّث، کِسی مُفسر، کِسی فقیہہ، کِسی کو بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ اللہ کے حُکموں کا مطلب "عید میلاد النبی منانا "ہے ؟ اور جِس کو یہ تفسیر سب سے پہلے سمجھ میں آئی وہ تو پھر اِن سب سے بڑھ کر قُرآن جاننے والا اور بلند رتبے والا ہو گیا ؟ اِنّا للَّہِ و اِنّا اِلیہِ راجِعُوانَ۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی چوتھی دلیل


چوتھی دلیل کے طور پر سورت المائدہ کی آیت ١١٤ کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کہا جاتاہے "عیسی علیہ السلام نے دُعا کی اے اللہ آسمان سے مائدہ نازل فرما جِس دِن کھانا نازل ہو گا وہ ہمارے لیے اور بعد والوں کے لیے عید کا دِن ہو گا، غور کریں کہ اِس آیت کا مفہوم یہ کہ جِس دِن کھانا آئے وہ دِن خوشی کا ہو اور اب تک عیسائی اُس دِن خوشی مناتے رہیں تو کاہ وجہ ہے جِس دِن نبی پاک تشریف لائے کیوں نہ خوشی کریں۔

جواب:

سورت المائدہ کی آیت نمبر ١١٤ مندرجہ ذیل ہے:

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ۔۔مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے اللہ ہمارے رب ہم پر آسمان سے مائدہ نازل کر، (اس کا نازل ہونا) ہمارے لئیے اور ہمارے آگے پیچھے والوں کے لئیے عید ہو جائے، اور تمہارے طرف سے ایک نشانی بھی، اور ہمیں رزق عطاء فرما تو ہی سب بہتر رزق دینے والا ہے (سورت المائدہ / آیت ١١٤)

اِس آیت میں عیسائیوں کے لیے تو مائدہ نازل ہونے والے دِن کو خوشی منانے کی کوئی دلیل ہو سکتی ہے، مسلمانوں کے لیے “عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "منانے کی نہیں۔ انتہائی حیرت بلکہ دُکھ کی بات ہے کہ اِن لوگوں کو اِس بنیادی أصول کا بھی پتہ نہیں کہ شریعت کا کوئی حُکم سابقہ اُمتوں کے کاموں کو بُنیاد بنا کر نہیں لیا جاتا سوائے اُس کام کے جو کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے برقرار رکھا گیا ہو۔

(سابقہ شریعتوں کے احکام کے بارے میں میرےمضمون " سابقہ شریعتوں کا شرعی حکم " کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید ہو گا)

اورشاید یہ بھی نہیں جانتے کہ اہل سُنّت و الجماعت یعنی سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے مُطابق عمل کرنے والوں میں سے کبھی کِسی نے بھی گزری ہوئی اُمتوں یا سابقہ شریعتوں کو اِسلامی کاموں کے لیے دلیل نہیں جانا، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات"علم الأصول الفقۃ "میں طے ہے کہ:

باب العِبادات و الدیّانات و التقرُبات متلقاۃ ٌ عن اللہِ و رَسُولِہِ صَلی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسلمَ فلیس لِأحدٍ أن یَجعلَ شَیأاً عِبادۃً أو قُربۃً إِلّا بِدلیلٍ شرعيٍّ

یعنی عبادات، عقائد، اور(اللہ کا) قُرب حاصل کرنے کے ذریعے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ملتے ہیں لہذا کِسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کِسی ایسی چیز کو عبادت یا اللہ کا قُرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے جِس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو

یہ قانون اُن لوگوں کی اُن تمام باتوں کا جواب ہے کہ جِن میں اُنہوں نے سابقہ اُمتوں یا رسولوں علیھِم السلام کے أعمال کو اپنی "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "کی دلیل بنایا ہے۔ اور اگر یہ لوگ اِس بنیادی أصول کو جانتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے آپ اور اپنے پیرو کاروں کو دھوکہ دیتے ہیں تو یہ نہ جاننے سے بڑی مُصبیت ہے، تیسری کوئی صورت اِن کے لیے نہیں ہے کوئی اِن کو بتائے کہ عیسائی تو کسی مائدہ کے نزول کو خوشی کا سبب نہیں بناتے اور اگر بناتے بھی ہوتے تو ہمارے لیے اُن کی نقالی حرام ہے، جیسا کہ ہمارے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرا سب کچھ اُن پر فدا ہو، نے فرمایا ہے :

مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ۔۔ جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی (یعنی اُسی قوم) میں سے ہے، سُنن أبو داؤد /حدیث ٤٠٢٥ /کتاب اللباس /باب ٤ لبس الشھرۃ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے لہذا جو لوگ جِن کی نقالی کرتے ہیں اُن میں سے ہی ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں غیر مسلموں کی ہر قِسم کی نقالی سے محفوظ رکھے۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی پانچویں دلیل


عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "منانے اور منوانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کا کہنا ہے کہ سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ملنے پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے کیونکہ آیت میں اَمر یعنی حُکم کا صیغہ اِستعمال ہوا ہے اور حضور اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں لہذا اُن کی پیدائش پر خوشی کرنا اللہ کا حُکم ہے، اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اِس حُکم پر عمل کرتے ہیں تو کیا غلط ہے ؟۔

جواب:

سورت یونس کی آیت نمبر ٥٨ کا مضمون سابقہ آیت یعنی آیت نمبر ٥٧ کے ساتھ مِل کر مکمل ہوتا ہے اور وہ دونوں آیات مندرجہ ذیل ہیں:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ O قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ۔۔اے لوگو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نصیحت آ چکی ہے اور اور جو کچھ سینوں میں ہے اس کی شفاء اور ہدایت اور اِیمان والوں کے لیے رحمت۔ (اے رسول) کہیئے (یہ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (سے ہے) لہذا مسلمان اِس پر خوش ہوں اور یہ (خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں (اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے

اِس میں کوئی شک نہیں کہ آیت نمبر ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حُکم دِیا ہے، لکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یا صحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین یا تبع تابعین رحمہم اللہ جمعیاً اور ان کے بعد صدیوں تک اُمت کے اِماموں میں سے کِسی نے بھی اِس آیت میں دیے گئے حُکم پر "عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم "منائی ؟ یا منانے کی ترغیب ہی دی ؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ اِس آیت کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ملتی ہے ؟ اگر میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے کلمہ گو بھائیوں نے اِس آیت کی تفسیر، کِسی معتبر تفسیر میں دیکھی ہوتی تو پھر یہ لوگ اِس فلسفہ زدہ من گھڑت تفسیر کا شکار نہ ہوتے، جِس کو اپنی کاروائی کی دلیل بناتے ہیں۔

اِمام البیہقی نے"شعب الایمان"میں مختلف اَسناد کے ساتھ عبداللہ ابن عباس اور اَبو سعید الخُدری رضی اللہ عنہم سے روایت کیا کہ:

"قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا قال : فضل الله القرآن، ورحمته الإسلام: قل بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحوا کے بارے میں کہا اللہ کا فضل قُرآن ہے اوراللہ کی رحمت اِسلام ہے" (شعب الایمان باب فصل في التكثير بالقرآن والفرح به)

اور دوسری روایت میں ہے کہ:

" فضل الله الإسلام، ورحمته أن جعلكم من أهل القرآن ۔۔فضل اللہ اِسلام ہے اور رحمت یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں قُرآن والوں (یعنی مسلمانوں) میں بنایا (شعب الایمان باب فصل في التكثير بالقرآن والفرح به)

اور ایک روایت ہے کہ :کتاب اللہ اور اِسلام اُس سے کہیں بہتر ہے جِس کو یہ جمع کرتے ہیں۔

یعنی دُنیا کے مال و متاع سے یہ چیزیں کہیں بہتر ہیں لہذا دُنیا کی سختی یا غربت پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اِن دو نعمتوں کے ملنے پر خوش رہنا چاہیئے

اِمام ابن کثیر نے اِس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ اَمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ نقل کیا کہ

جب عمر رضی اللہ عنہ ُ کو عراق سے خراج وصول ہوا تو وہ اپنے ایک غُلام کے ساتھ اُس مال کی طرف نکلے اور اونٹ گننے لگے، اونٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا :"الحمد للہ تعالیٰ"تو اُن کے غلام نے کہا : "یہ اللہ کا فضل اور رحمت ہے"

تو عمر رضی اللہ عنہ ُ نے کہا :

"تُم نے جھوٹ کہا ہے، یہ وہ چیز نہیں جِس کا اللہ نے قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خیرٌ مَِّا یَجمَعُونَ ۔۔ (اے رسول) کہیئے (یہ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت (سے ہے) لہذا اِس پر خوش ہوں اور یہ (خوش ہونا) جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں (اُن چیزوں کے جمع کرنے پر خوش ہونے) سے بہتر ہے میں ذِکر کیا ہے بلکہ یہ مِّمَا یَجمَعُون ۔۔ جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں میں سے ہے۔"

محترم قارئین، غور فرمائیے اگر اِس آیت میں اللہ کے فضل اور رحمت سے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوتے اور خوش ہونے سے مراد اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کی عید منانا ہوتی تو خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کا حکم دیتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کام ہمیں قولاً و فعلاً ملتا، عُمر رضی اللہ عنہُ اپنے غُلام کو مندرجہ بالا تفسیر بتانے کی بجائے یہ بتاتے کہ فَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ سے مراد یہ مالِ غنیمت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور اُن کی پیدائش کی خوشی یا عند منانا ہے

اِس آیت میں "فَلیَفرَحُوا "کو دلیل بنانے کے لیے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی کچھ بات لُغت کی بھی لاتے ہوئے "فَلیَفرَحُوا " میں استعمال کیئے گئے اَمر یعنی حُکم کے صیغے کی جو بات کرتے ہیں، آئیے اُس کا بھی لُغتاً کچھ جائزہ لیں، آیت میں خوش ہونے کا حکم دِیا گیا ہے خوشی منانے کا نہیں، اور دونوں کاموں کی کیفیت میں فرق ہے، اگر بات خوشی منانے کی ہوتی تو"فَلیَفرَحُوا"کی بجائے " فَلیَحتَفِلُوا" ہوتا، پس خوش ہونے کا حُکم ہے نہ کہ خوشی منانے کا۔

کِسی طور بھی کِسی معاملے پر اللہ کی اجازت کے بغیر خوامخواہ خوش ہونے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا، چہ جائیکہ خوشی منانا اور وہ بھی اسطرح کی جِس کی کتاب اللہ اور سنّت میں کوئی صحیح دلیل نہیں ملتی۔

سورت القصص /آیت ٧٦ میں قارون کی قوم کا اُس کو نصیحت کرنے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ بتاتے ہیں لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ۔۔ دُنیا کے مال و متاع پر) خوش مت ہو، اللہ تعالیٰ خوش ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

پس یہ بات یقینی ہو گئی کہ ہم نے کہاں اور کِس بات پر اور کیسے خوش ہونا ہے اُس کا تعین اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اُن کے احکام مطابق کیا جائے گا، نہ کہ اپنی مرضی، منطق logic اور فلسفہ سے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی آیت ١٧٠ میں خوش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا :

فَرِحِینَ بِمَآ ءَ اتٰھُم اللَّہ ُ مِن فَضلِہِ ۔۔اللہ نے اُن لوگوں کو اپنے فضل سے جو کچھ دِیا ہے اُس پر وہ خوش ہوتے ہیں

اور ہماری زیر بحث آیت میں بھی اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے عطاء کردہ چیزوں پر خوش ہونے کا حکم دِیا ہے، خوش ہو کر کوئی نیا عقیدہ یا کوئی نئی عبادت یا کوئی نئی عادت اپنانے کا حکم یا اجازت نہیں دی۔

اِمام القرطبی نے قُل بِفَضلِ اللَّہِ و بِرَحمتِہِ فَلیَفرَحُوا ھُوَ خَیرٌ مِّمَا یَجمَعُونَ کی تفسیر میں لکھا کہ:

"الفرح لذۃُ فی القلبِ بإدارک المَحبُوب ۔۔ خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو کوئی پسندیدہ چیز ملنے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے "

اور لغت کے اِماموں میں سے ایک اِمام محمد بن مکرم نے "لسان العرب "میں لکھا کہ "فرح، ھو نقیض الحُزن: خوشی اُس کیفیت کا نام ہے جو غم کی کمی سے پیدا ہوتی ہے "اور شیخ محمد عبدالرؤف المناوی نے "التوقیف علیٰ مھمات التعریفات"میں لکھا کہ "الفرح لذۃ فی القلب لنیل المشتھی

۔۔خوشی اُس لذت کا نام ہے جو کوئی مرغوب چیز حاصل ہونے پر دِل میں پیدا ہوتی ہے "

صحابہ کی تفسیر اور لغوی شرح سے یہ ہی پتہ چلتا ہے کہ خوشی دِل کی کیفیت کا نام ہے کِسی خاص دِن کِسی خاس طریقے پر کوئی عمل کرنا نہیں، سوائے اُس کے جِس کی اِجازت اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہو، اور جِس کام کی اِجازت نہیں دی گئی وہ ممنوع ہے کیونکہ یہ بات "علم الاَصول الفقہ"میں طے ہے
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی چھٹی دلیل

عید میلاد منانے اور منوانے والے ہمارے یہ کلمہ گو بھائی، سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ کے متعلق کہتے ہیں کہ "اِس میں عیسی علیہ السلام نے حضور کی تشریف آوری کی خوشخبری دی ہے اور ہم بھی اِسی طرح "عید میلاد "کی محفلوں میں حضور کی تشریف آوری کی خوشی کا احساس دِلاتے ہیں۔

جواب:

سورت الصّف کی آیت نمبر ٦ یہ ہے : وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ۔۔اور جب عیسی نے بنی اِسرائیل کو کہا کہ اے بنی اِسرائیل میں تُم لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور اُس چیز کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے توارات میں ہے اور خوشخبری دینے والا ہوں اُس رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے اور اُس کا نام اَحمد ہے، (پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد بنی اِسرائیل کے رویے کے بارے میں فرماتے ہیں) اور پھر جب یہ رسول (اَحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس آیا تو کہنے لگے یہ تو کھلا جادُو ہے ۔

"خوشی منانے" اور "خوشی ہونے" میں کیا فرق ہے اِس کے متعلق پہلے کچھ بات ہو چکی ہے، اور"کِسی بات کی خوشخبری دینا" تو اِن دونوں سے بالکل ہٹ کر مختلف کیفیت والا معاملہ ہے۔

اور پھر اِس آیت میں بیان کردہ یہ واقعہ بھی، بہت سے اور واقعات کی طرح سابقہ اَنبیاء علیھم السلام کے واقعات میں سے ایک ہے، اور سابقہ اُمتوں یا اَنبیاء علیھم السلام کے واقعات کو دلیل بنانے کا حُکم کیا ہے ؟ اُس کا ذِکر بھی ہو چکا ہے، اور اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ سابقہ اُمتوں یا اَنبیاء علیھم السلام کے ہر واقعہ کو دلیل بنایا جا سکتا ہے تو پھر بھی !!! عیسی علیہ السلام کی اِس بات میں کونسی دلیل ہے جِس کی بُنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کی عید منائی جائے ؟ کیا اِس میں اِشارۃً بھی کہیں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کی خوشخبری کو اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے بعد یا اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد عید بنایا جائے ؟؟؟؟؟ اگر ایسا ہی تھا تو پھر وہی سوال دُہراتا ہوں کہ "کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، اُمت کے اِمام اور عامۃ المسلمین کِسی کو بھی صدیوں تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس آیت میں کس بات کی دلیل ہے اور اِس آیت کی روشنی میں کیا کرنا چاہیئے؟؟؟؟؟
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی ساتویں دلیل

عید میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی، اپنے طور پر اپنے اِس کام کو سُنّت کے مُطابق ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنی ولادت کی خوشی پر روزہ رکھنا اور فرمانا اِس دِن یعنی پیر کو میری ولادت ہوئی، خود ولادت پر خوشی منانا ہے"

جواب:

اِن کی اِس بات کا ایک حصہ تو صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن پیر یعنی سوموار ہے، اور وہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے، اِس سچ سے اِنکار کفر ہے کیونکہ صحیح مُسلم کی حدیث ١١٦٢ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان ملتا ہے:

ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ ۔۔اِس دِن میں پیدا ہوا تھا اور اِس دِن مُجھ پر وحی اُتاری گئی تھی " یا (یہ فرمایا کہ) اِس دِن مجھے مبعوث کیا گیا تھا (صحیح مسلم /کتاب الصوم /باب اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ)

لیکن یہ کہاں ہے کہ اِس دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے یا کِسی ایک صحابی نے، یا تابعین نے یا تبع تابعین نے، یا اُمت کے ائمہ میں سے کِسی نے بھی کوئی "عید "منائی، اور یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس دِن روزہ رکھنے کی وجہ اُن کی پیدائش کی خوشی ہے "عید میلاد" منوانے والوں کی طرف سے خلافِ حقیقت بات کیوں کی جاتی ہے اس کا فیصلہ اِن شاء اللہ آپ لوگ خود بخوبی کر لیں گے، جب آپ صاحبان کو پتہ چلے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ و آلہ وسلم اِس دِن یعنی پیر کا روزہ کیوں رکھا کرتے تھے؟ ذرا توجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ چند اِرشادات ملاحظہ فرمائیے :

ابو یُریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا تُعْرَضُ أَعْمَالُ النَّاسِ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّتَيْنِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلَّا عَبْدًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ اتْرُكُوا أَوْ ارْكُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَفِيئَا ۔۔پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش کئیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اُس اِیمان والے کی مغفرت کر دیتا ہے جِس نے اللہ کے ساتھ کِسی کو شریک نہ کیا ہو، سوائے ان کے جو آپس میں بغض رکھتے ہوں تو کہا جاتا ہے (یعنی ان کے معاملے میں کہا جاتا ہے) ان کو مہلت دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں (صحیح مسلم /کتاب البر والصلۃ /باب النھی عن الشحناء و التھاجر، صحیح ابنِ حبان، مجمع الزوائد)

اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ" آپ پیر اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ "تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا پیر اور جمعرات کے دِن اللہ بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے سوائے ایک دوسرے کو چھوڑ د ینے والوں کے (یعنی ناراضگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو چھوڑ دینے والے تو) اُن چھوڑ دینے والے کےلیے کہا جاتا ہے کہ اِنہیں صلح کرنے تک کی مہلت دی جائے"

سُنن الدارمی /حدیث ١٧٥٠، مصباح الزُجاجہ /حدیث ٦٢٩۔ اِمام احمد الکنانی نے اِس حدیث کو صحیح قرار دِیا ہے۔

اوپر بیان کردہ احادیث کے بعد کِسی بھی صاحبِ عقل کو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیر کے دِن کا روزہ اپنی پیدائش کی خوشی میں نہیں بلکہ اِس دِن اللہ کے سامنے بندوں کے اعمال پیش ہونے کی وجہ سے رکھا ہے۔

اگر پیر کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوتا تو کم از کم وہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اِس کی ترغیب ہی دیتے، مندرجہ بالا دو احادیث کے بعد یہ حدیث بھی بغور ملاحظہ فرمائیے۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الصیام / باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام مِن کلِّ شہر میں ابی قتادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت کیا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اُن کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غصے میں آ گئے (تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو غصے میں دیکھ کر) عُمر (رضی اللہ عنہ ُ) نے کہا "ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اِسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر، اور ہماری بیعت، بیعت ہے (یعنی جو ہم نے محمدصیز اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیعت کی ہے وہ سچی پکی بیعت ہے)"۔

ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے صیام الدہر (ہمیشہ مستقل روزے میں رہنا) کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا لا صام و لا اَفطر ۔۔ ایسا کرنے والے نے نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا"

، پھر ابی قتادہ رضی اللہ عنہ ُ کہتے ہیں کہ "پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دو دِن روزہ رکھنے اور ایک دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

و مِن یُطیقُ ذَلِکَ ۔۔ ایسا کرنے کی طاقت کون رکھتا ہے؟

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو دِن افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :

لیتَ ان اللہ قَوَّانا لَذَلِکَ ۔۔۔کاش اللہ ہمیں ایسا کرنے کی طاقت دے دے

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک دِن روزہ رکھنے اور دو ایک افطار کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

ذَلِکَ صَومُ اَخِی داؤد (علیہ السلام): یہ میرے بھائی داؤد (علیہ السلام) کا روزہ ہے

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پیر (سوموار) کے دِن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :

ذَلِکَ یَومٌ ولدت ُ فِیہِ و یُومٌ بُعِثت ُ فِیہ ۔۔اِس دِن میری پیدائش ہوئی اور اِس دِن میری بعثت ہوئی (یعنی مجھے رسالت دی گئی۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: صومُ ثلاثۃِ مِن کُلِّ شھر، و رمضانَ اِلیٰ رمضانِ صومُ الدہر۔۔۔رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے ۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یوم عرفات کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ و الباقِیۃَ ۔۔ ایک پچھلے سال اور رواں سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دس محرم کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:

یُکَفِّر ُ السَّنۃَ الماضِیۃَ ۔۔پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے

اِس حدیث کے اِلفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مختلف نفلی روزں کے بارے میں پوچھا گیا اور اُنہوں نے اس کی وجہ بتائی اور آخر میں یہ فرمایا کہ (رمضان سے رمضان تک ہر ماہ میں سے تین دِن روزے رکھنا ہمیشہ مسلسل روزہ رکھنے کے جیسا ہے یعنی سوموار کا روزہ رکھنے کی کوئی ترغیب بھی نہیں دِی، کوئی اضافی ثواب نہیں بتایا، جیسا کہ عرفات اور عاشوراء کے روزوں کا فائدہ بیان کرنے کے ذریعے اُن کی ترغیب دی ہے، تو، اِس حدیث میں زیادہ سے زیادہ سوموار کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش منانے کا۔

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائیوں کے بیان کردہ فلسفے کے مُطابق ہونا تو یہ چاہیئے کہ یہ سب یعنی اِن کے پیر اور مرید سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنّت کے مُطابق ہر سوموار کا روزہ رکھیں اور خاص طور پر جِس دِن کو اِنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کا دِن سمجھ رکھا ہے اُس دِن حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ڈھول ڈھمکا، رقص وقوالی اور گانوں کے راگ لگا لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذِکر کرنے کی بجائے اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کرنے کی بجائے، اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام پر چندوں کے ذریعے ہر کس و ناکس کا مال کھانے کی بجائے روزہ رکھیں اور پھرلوگوں کے مال پر نہیں بلکہ ا پنے ہاتھ کی حلال کمائی سے اُسے افطار کریں، لیکن !!! ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نفس پر بھاری ہے اور پہلے کام نفس کو محبوب ہیں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام لے کر وہ کام پورے کیے جاتے ہیں جِن کے ذریعے ذاتی خواہشات پوری ہوں،

جی، میلاد منوانے اور منانے والوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ان خرافات کو جائز نہیں کہتے، لیکن اپنی ہی سجائی ہوئی محفلوں میں کچھ نام، اور کچھ انداز تبدیل کر کے کچھ اور طرح سے تسکین نفس کا سامان کر لیتے ہیں۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منانے والوں کی آٹھویں دلیل

میلاد منوانے اور منانے والے میرے کلمہ گو بھائی کہتے ہیں کہ "ابو لہب نے حضور کی پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کِیا اور اُس کے اِس عمل کی وجہ سے اُسے جہنم میں پانی ملتا ہے، پس اِس سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیدائش کی خوشی منانا باعثِ ثواب ہے "

جواب:

یہ بات صحیح البُخاری، کتاب النکاح کے باب نمبر ٢٠ کی تیسری حدیث کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اور یہ حدیث نہیں بلکہ عروہ بن الزبیر کا قول ہے کہ

و ثُویبَۃٌ لِابی لھبٍ و کان ابو لھبٍ اعتقھا فارضعت النبيّ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، فلما مات ابو لھب اُرِیَہُ بعضُ اھلہِ بِشرِّ حِیبۃٍ، قال لہ ُ : ما ذا لّقَیت َ قال ابو لھب : لم القَ بعدَکُم، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ بعتاقتی ثُویبَۃَ

اور اِس بات کو اِمام البیہقی نے سُنن الکبریٰ میں، کتاب النکاح کے باب "ما جاء فی قول اللّہ تعالیٰ و إن تجمعوا بین الاختین "میں اِلفاظ کے معمولی سے فرق سے نقل کِیا ہے اُن کے نقل کردہ اِلفاظ یہ ہیں"لم القَ بعدَکُم رخاءَ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ مِنی بعتاقتی ثُویبَۃَ و اشارَ اِلیِ النقیرۃ التی بین الإبھام و التی تلیھا مِن الاصابع"

اور اِمام ابو عوانہ نے اپنی مسند میں '' مبتداء کتاب النکاح و ما یشاکلہُ "کے باب "تحریم الجمع بین الاختین و تحریم نکاح الربیبۃ التی ہی تربیۃ الرجل و تحریم الجمع بین المراۃ و إبنتھا "میں اِن اِلفاظ کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا " لم القَ بعدَکُم راحۃ، غیرَ انی سُقِیتُ فی ھذہ النقیرۃ التی بین الإبھام والتی تلیھا بعتقی ثُویبَۃَ"

سب سے پہلی اور بُنیادی بات یہ ہے کہ یہ بات حدیث نہیں، بلکہ ایک تابعی کی بات ہے جو اِمام بُخاری رحمہ اللہ نے بلا سند بیان کی ہے، جسے تعلیق کہا جاتا ہے، اور یہ بات مجھ جیسا معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح البخاری میں جو کچھ تعلیقاً روایت کیا ہے وہ ان کی شرائط کے مطابق صحیح نہیں، چلیے قطع نظر اس کے کہ یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں صحیح تھی یا نہیں، ذرا غور فرمائیے کہ اِس بات میں سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ اخذ کِیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے عذاب میں اپنی باندی آزاد کرنے کی نیکی کی وجہ سے کچھ نرمی کر دی، جیسا کہ ابو طالب کے عذاب میں کمی کر دی گئی، اِس بات سے کوئی بھی اِنکار نہیں کر سکتا کہ ابو لہب کافر تھا، اور کفر کی حالت میں ہی مرا، اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دینے والی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کِیا تھا تو اِس لیے نہیں کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوئے ہیں، بلکہ اِس خوشی میں کِیا تھا اُس کے فوت شُدہ بھائی عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا پیدا ہوا ہے، اگر اُسے اپنے بھتیجے کے رسول اللہ ہونے کی خوشی ہوتی تو اُن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد یہ ابو لہب پہلے اِیمان لانے والوں میں ہوتا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بڑے مخالفین میں۔

اِمام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اِس بات کی شرح کرتے ہوئے "فتح الباری شرح صحیح البُخاری "میں لکھا "السہیلی نے لکھا کہ یہ خواب عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہُ) نے دیکھا تھا "پھر چند سطر کے بعد لکھا "یہ خبر مرُسل ہے یعنی عروہ بن الزبیر نے یہ بیان نہیں کِیا کہ اُنہوں نے یہ بات کِس سے سُنی، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ خبر مُرسل نہیں، پھر بھی اِس میں بیان کیا گیا واقعہ ایک خواب ہے اور جِس نے یہ خواب دیکھا، خواب دیکھنے کے وقت وہ کافر تھا مُسلمان نہیں"

اورمیں یہ کہتا ہوں کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ُ نے یہ خواب اِسلام قبول کرنے کے بعد دیکھا تھا تو بھی خوابوں کے بارے میں اہلِ سُنّت و الجماعت کا فیصلہ یہ ہی ہے کہ خوابوں میں کِسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی، یہ ایک دِینی مسئلہ ہے اور ایسا مسئلہ ہے جِس کا تعلق عقیدے اور عِبادت دونوں سے ہے، دِین کے کِسی بھی مسئلے کا حکم جاننے کے لیے مندرجہ ذیل میں سے کِسی ایک چیز کی دلیل کا ہونا ضروری ہے :

( ١) قرآن (٢) صحیح حدیث (٣) آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ا جمعی "اَثرٌ"کا مطلب ہے نشانی، یا نقشِ قدم، اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے اقوال و افعال کو "مصطلح الحدیث "یعنی علمِ حدیث کی اصطلاحات میں"آثار"کہا جاتا ہے، اور کچھ محدثین "آثار "کا اطلاق "حدیث "پر بھی کرتے ہیں، اور اس کا عکس بھی استعمال ہوتا ہے، (٤) اِجماع (٥) اِجتہاد یا قیاس

عِبادت اور عقیدے کے مسائل میں اِجتہاد یا قیاس کی کوئی گنجائش نہیں، اِس کے لیے قرآن اور صحیح حدیث دونوں یا دونوں میں سے کِسی ایک میں سے نصِ صریح یعنی واضح دلیل کا ہونا ضروری ہے اگر قرآن اور حدیث میں سے کوئی صریح نص یعنی بالکل واضح جواب نہ مِل سکے تو پھر اِجماع اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف توجہ کی جاتی ہے، اور اِن تمام مصادر میں "عید میلاد النبی "منانے یا کرنے کی کوئی علامت تک بھی نہیں ملتی، کِسی بات کو اپنی مرضی کے معنی یا مفہوم میں ڈھالنے کی کوشش سے حقیقت نہیں بدلتی، بات ہو رہی تھی دینی احکام کے مصادر کی، اہلِ تصوف کی طرف "اِلہام یا خواب "کو بھی دینی حکم لینے کی دلیل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور دلیل کے طور پر وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس فرمان کو پیش کرتے ہیں کہ الرؤیا الصالحۃ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ: اچھا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے یہ حدیث یقیناً صحیح ہے، لیکن !!! یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کِس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟ اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟؟؟ آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامینِ مُبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

الرؤیا الصالحۃ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ: اچھا خواب نبوت کے چھیالس حصوں مںڈ سے ایک حصہ ہے یہ حدیث یقیناً صحیح ہے، لیکن !!!

یہاں کچھ سوالات سامنے آتے ہیں کہ اچھا خواب کِس کا ہو گا ؟ کیا ہر شخص کا خواب ؟ اور کیا ہر خواب نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ سمجھا جائے گا ؟

آئیے اِن سوالات کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامینِ مُبارک میں سے ڈھونڈتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا الرؤیا الحَسنۃ مِن الرجُلٌ الصالحٌ جُز ءٌ مِن ستۃ و اربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ : کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے صحیح البُخاری /حدیث٦٩٨٣/کتاب التعبیر/باب رقم ٢ کی پہلی حدیث

اور فرمایا رؤیا المؤمن جُز ءٌ مِن ستۃ و اَربعین جُزءً ا مِن النَّبُوۃِ : کِسی اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالس حصوں میں سے ایک حصہ ہے صحیح مُسلم، /حدیث ٢٢٦٣

اِن دونوں احادیث میں ہمارے مذکورہ بالا سوالات کے جوابات ہیں، اور وہ یہ کہ نہ تو ہر کِسی کا خواب مانے جانے کے قابل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر خواب، بلکہ صرف پرہیز گار، اِیمان والے کا اچھا خواب، کِسی کافر، مُشرک، بدعتی، یا بدکار مُسلمان وغیرہ کا نہیں

اِمام ابن حجر نے صحیح البُخاری کی شرح "فتح الباری "میں اِس حدیث کی شرح میں اِمام القُرطبی کا یہ قول نقل کیا "سچا، مُتقی، پرہیز گار مُسلمان ہی وہ شخص ہے جِس کا حال نبیوں کے حال سے مُناسبت رکھتا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے جِن چیزوں کے ذریعے نبیوں کو بُزرگی دی اُن میں سے ایک چیز غیب کی باتوں کے بارے میں کوئی خبر دینا ہے پس کِسی سچے، مُتقی، پرہیز گار مُسلمان کو اللہ اِس ذریعے بُزرگی دیتا ہے (یعنی اُس کو سچا خواب دِکھاتا ہے) ، لیکن، کافر یا بدکار مُسلمان یا جِس کا حال دونوں طرف مِلا جُلا ہو، ایسا شخص ہر گِز اِس بُزرگی کو نہیں پا سکتا، اگر کِسی وقت کِسی ایسے شخص کو سچا خواب نظر بھی آئے، تو اُس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی انتہائی جھوٹا آدمی بھی کبھی سچ بول ہی دیتا ہے، اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ ہر وہ شخص جو غیب کی کوئی بات بتاتا ہے اُس کی بات نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے، جیسا کہ جادوگر اور نجومی وغیرہ باتیں کرتے ہیں"

پس یہ بات واضح ہو گئی کہ کِسی کافر، مُشرک، بدعتی، یا بدکار مُسلمان کا سچا خواب اُس کی بُزرگی کی دلیل بھی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اُسے دِین میں کِسی عقیدے یا عِبادت کی دلیل بنایا جائے، سچے خواب تو یوسف علیہ السلام کے قیدی ساتھیوں اور اُس مُلک کے بادشاہ نے بھی دیکھے تھے اور وہ تینوں ہی کافر تھے، اب اللہ ہی جانے عباس رضی اللہ عنہ ُ کا حالتِ کُفر میں دیکھا ہوا ایک خواب "عید مِیلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" منانے والوں کے لیے دلیل کیسے بنتا ہے ؟؟؟

اِس خواب سے زیادہ سے زیادہ اِس بات کی دلیل لی جا سکتی ہے کہ کِسی کافر کو بھی اُس کے اچھے عمل کا آخرت میں فائدہ ہو گا، اور یہ دُرست ہے یا نہیں یہ ہمارا اِس وقت کا موضوع نہیں، ہمارے لیے یہ بات صحیح احادیث کے ذریعے واضح ہو چکی ہے کہ کِسی سچے، متقی، پرہیز گار اِیمان والے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر سچا خواب دِکھایا جائے تو نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے، اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ شریعت کے حُکم لینے کے جِن ذرائع پر ہمیشہ سے اہلِ سُنّت و الجماعت کا اِتفاق رہا ہے اُن میں خوابوں یا اِلہامات کا کوئی ذِکر نہیں۔

پچھلے چند صفحات میں، میں نے کئی بار "اہلِ سُنّت و الجماعت "کے اِلفاظ اِستعمال کیئے ہیں، مُختصراً ان کی وضاحت کرتا چلوں تا کہ پڑھنے والوں کو کوئی غلط فہمی نہ ہو، اِنشاء اللہ، "اہلِ سُنّت و الجماعت "اُن کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علہی و آلہ وسلم کی سُنّت کے پابند ہوتے ہیں اور اُس طرح پابند ہوتے ہیں جِس طرح کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت تھی، اپنی مَن گھڑت عبادات یا اپنے مَن گھڑت عقائدیا اپنے مَن گھڑت افکار و تشریحات اختیار کرنے والے "اہلِ سُنّت و الجماعت "نہیں ہوتے، اور نہ وہ ہوتے ہیں جو قُرآن اور حدیث کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اُن کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کےلیے صحابہ رضی اللہ عنہم کا راستہ نہیں اپناتے بلکہ اُن کے اپنے ہی اِمام اور پیرانِ طریقت ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد اور تعصب کا شکار نہ ہوں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے احکامات و فرامین کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول و فعل کے مطابق سمجھیں، اور جو کچھ اُس کے مطابق نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اُسے ترک کر دیں۔
 
Top