• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب کی عربی شرح ’’المفردات‘‘ کا تنقیدی جائزہ

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تعارف
غامدی صاحب کی عربی شرح ’’المفردات‘‘ کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر سیّد رضوان علی ندوی​

شرح شواہد الفراہی کی پہلی قسط میں جاوید احمد غامدی صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مولانا حمید الدین فراہی کی بعض کتابوں کی شرح لکھیں گے۔ زیر بحث کتاب کا نام ’’انھوں نے اپنی اس تمہید میں ’’مفردات القرآن‘‘ لکھا تھا، لیکن ہمارے سامنے اشراق کا جو مضمون اس کتاب کے بعض حصوں کی شرح میں ہے اس میں اس کا نام صرف کتاب ’’المفردات‘‘ ہے۔ ’’شرح شواھد الفراھی‘‘ کے تنقیدی جائزے کے بعد ہم اس کتاب کے جائزے کی طرف آتے ہیں۔
غامدی صاحب ابتدائے الفاظ میں ہمزہ کے اثبات
و عدم اثبات کے اصول سے ناواقف
غامدی صاحب کی اس کتاب کی شرح کا جو حصّہ ہمارے سامنے ’’الاعلام‘‘ کے دو شماروں سے منقول ہے وہ دو قسطوں میں ہے اور یہ صرف قرآن کے ایک لفظ: الحصن کی شرح میں ہے۔ لیکن اس شرح سے قبل انھوں نے ایک دو سطری نوٹ عربی میں لکھا ہے اور نیچے ان کا نام اس طرح ثبت ہے:ألغامدی (اولین الف پر ہمزہ) ۔
حیرت ہے کہ ایک اہم عربی کتاب کی شرح لکھی جائے، اور جناب شارح کو ہمزہ کے ابتدائے الفاظ میں اثبات اور عدم اثبات کے اصول بھی نہ معلوم ہوں! اور وہ اپنے اسم شہرت کے پہلے الف پر (جو عربی میں الف وصل کہلاتا ہے) ہمزہ لکھیں یعنی ألغامدی۔ عربی زبان کا متوسط درجہ کا طالب علم بھی جانتا ہے کہ ہمزہ وصل جو اداۃ تعریف ’’ال‘‘ پر ہوتا ہے، وہ لکھا نہیں جاتا صرف پڑھا جاتا ہے، جیسے قال الغامدی۔ پہلا لام دوسرے لام سے مل جائے گا اور قرآن کریم اس استعمال سے بھرا ہوا ہے، ہم پڑھتے ہیں ’’قال الذین اَمنوا‘‘۔ ذلک الکتاب وغیرہ۔
اور دوسری حیرت کی بات وہ نوٹ ہے جس کے نیچے موصوف کا نام ثبت تھا جو یہ ہے: ’’شرحنا فیہ الفاظ القرآن بحیث وضعت کل کلمۃ تحت مادتھا ولم نذکر ماعداہا من مشتقات المادۃ الاعندما مست الحاجۃ الیہ‘‘ (ہم نے اس میں الفاظ قرآن کی شرح کی ہے، اس طرح پر کہ ہر لفظ اس کے مادے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ مادے کے دوسرے مشتق الفاظ نہیں ذکر کیے ہیں، سوائے اس کے جب ضرورت محسوس کی گئی۔)
حیرت کی بات یہ ہے کہ موصوف فرما رہے ہیں کہ ہم مشتق الفاظ جب ہی ذکر کریں گے جب ضرورت محسوس کریں گے، اس کا مفہوم بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ صرف وہ مشتقات جو قرآن میں اس مادے کے پائے جاتے ہیں۔ اب ہم مادّہ (ح ص ن) کے تحت دیکھتے ہیں تو: حصون المحصنات المحصَّنۃ، التحصّن تو یقیناًقرآنی الفاظ ہیں، لیکن الحاصن، الحصان اور الحصناء تو قرآنی الفاظ نہیں، اگرچہ یہ مشتق مادہ (ح ص ن) ہی سے ہیں، پھر ان کو کیوں ذکر کیاگیا ہے؟ یا موصوف کے نزدیک یہ حّصن کے مشتقات نہیں؟ ساتھ ہی ہر شخص جو عربی زبان کا ذوق سلیم رکھتا ہے وہ کہے گا کہ یہاں ’’عندما الظرفیہ غلط ہے، صرف ’’ما‘‘ موصولیۃ ہونا چاہیے۔ ’’الامامست الحاجۃ الیہ‘‘ اور یہ ’’ما‘‘ ’’لم تذکر‘‘ کا مفعول بہ ہے، یعنی لم نذکر الا الضروری۔
اب اس شرح کے تفصیلی تنقیدی جائزے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ شارح کی الفاظ و املاء کی اغلاط ذکر کردوں جو یہ ہیں:
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب کی اغلاط املاء​
۱۔ من قبل آراء ہم۔ احوال أعداء نا ۔ ولأعداء نا ۔ یہ کتابت ہمزہ کی وہی اغلاط ہیں جن کی طرف سابقہ صفحات میں اشارہ کیا گیا۔ ان مواضع میں آراۂم، أحوال أعدائنا اور لأعدائنا ہونا چاہیے کہ الفاظ آباء و اعداء یہاں مجرور ہیں، اور لفظ کے مجرور ہونے کی صورت میں ہمزہ ایک شوشے پر لکھا جاتا ہے، علیٰحدہ نہیں۔
۲۔ تستبراء، غلط ہے، ہمزہ الف پر ہونا چاہیے: تستبرأ
۳۔ السمؤال، غلط ہے، ہمزہ الف پر ہونا چاہیے: السموأل
۴۔ الزناء، یہ سب سے افسوسناک غلط املاء ہے، جو اس مضمون کے درمیان میں (ص۴۶، ۴۷عدد) چھ مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں اس کا املا ’’زنیٰ‘‘ (بغیر ہمزہ کے الف مقصورہ کے ساتھ) ہے۔ قرآن میں ہے: ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ (الاسراء:۳۲) کتب لغت میں ایک شاذ املاء ’’زناء‘‘ بھی ہے، لیکن قرآن کا املاء فصیح ہے اور سارے فصحائے عرب اس کو ’’زنیٰ‘‘ لکھتے ہیں۔ مثار الخطاء: اس میں بھی خطاء غلط املا ہے، صحیح الخطأ ہے۔ افصح العرب کی حدیث ہے: رفع عن امتی الخطأ و النسیان ہے، اس کی جمع اخطاء ہے۔ خطاء بھی ایک لفظ ہے جس کی جمع اخطءۃہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
عربی تحریر میں الفاظ کی اغلاط:
۱۔ للامرأۃ۔ یہ غلط ہے، للمرأۃ (بغیرال ہونا چاہیے) عربی لغت میں لفظ ’’مرء‘‘ ہی ہے یعنی آدمی یا مرد، جس کا مؤنث کتب لغت میں ’’مرأۃ‘‘ ہے۔ قرآن میں ہے فیتعلمون منہما ما یفرقون بہ بین المرءِ وزوجہ (البقرہ:۱۰۲) لغت میں امرؤ اور امرأۃ (الف کے ساتھ بھی ہے) لیکن یہ الف اصلی نہیں بلکہ الف وصل ہے۔ اس لیے اپنے سے ماقبل لفظ سے ملانے کی صورت میں ساقط ہوجاتا ہے۔ قرآن میں ہے: ان امرؤا ہلک لیس لہ ولد (النساء: ۱۷۶) اسی طرح سورۃ النمل میں عورت کے لیے ہے: انی وجدت امرأۃ تملکہم (آیت :۲۳) چونکہ امرأۃ کا الف حرف وصل ہے، اسی لیے معاجم اللغۃ اور معاجم الفاظ القرآن الکریم میں یہ لفظ حرف (م) میں مذکور ہے۔

غامدی صاحب کا تقعر خلاف فصاحت اور مذموم
۲۔ الملاوذ: لکھا گیا ہے: ’’لاتحمی أعداء ہم الملاوذ‘‘۔ یہ مَلاوِذ تو ملوز کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: تہبند (قاموس و لسان العرب) یہ جمع اسی طرح ہے جس طرح منبر کی جمع منابر، ملقط کی جمع ملاقط وغیرہ۔ لغت میں مادہ لاذیلوذ (پناہ لینا) سے ایک لفظ ’’ملوذۃ‘‘ بمعنی جائے پناہ آیا ہے اس کی جمع مذکور نہیں ہے۔ البتہ ’’لوذ‘‘ جائے پناہ کے لیے آیا ہے جس کی جمع ’’ألواذ‘‘ ہے۔ لیکن جائے پناہ کے لیے عام مستعمل عربی لفظ ملاذ ہے، لیکن جناب شارح نے اپنے شوق تقعر (مشکل پسندی) اور اظہار علمیت کے لیے لفظ ’’ملاوذ‘‘ یہاں استعمال کیا ہے جو مہمل اور مضحکہ خیز ہے، الّایہ کہ موصوف شعر کا مفہوم یہ لیں کہ ان کے تہبند یا پائجامے ان کو پناہ نہیں دے سکتے!!
جس قدیم شعر کی شرح کے لیے مادّۂ (ح ص ن) کے ضمن میں موصوف نے یہ شرح بیان کی ہے، وہ ہے
حتی تحصن منہم من دونہ
ماشاء من بحر و من درب
جو ایک آسان شعر ہے، اور اس میں کوئی مشکل لفظ نہیں، لیکن جناب شارح نے اپنی شرح میں جو بداھۃً آسان الفاظ میں ہونا چاہیے، عربی کے مشکل الفاظ اپنے اظہار علمیت کے لیے استعمال کیے ہیں، اور بیچارے عام قاری کے لیے اور مشکل کر دی ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ:
تو نے سلجھ کر گیسوئے جاناں
اور بڑھا دی دل کی الجھن
(جگر)
اور اسی کو تقعر کہتے ہیں جو فصاحت کے خلاف اور مذموم ہے۔
اسی تقعّر اور اظہار علمیت کی مثال اسی سطر میں درب کی جمع ’’دراب‘‘ کا لفظ ہے، عام فہم اور مستعمل جمع ’’دروب‘‘ ہے۔
۳۔ سوق الضراب: ایک طرف تو یہ ایک مضحکہ خیز ترکیب ہے، اور دوسری طرف ’’ضراب‘‘ کا غلط استعمال ہے۔ ایک تو ضراب، مضاربۃ کا مصدر ہے، جیسے قتال مقاتلہ سے، جس کے معنی ہیں باہمی ضرب و حرب۔ اور دوسرے ضراب (ض پر زیر) اونٹ کا جفتی کرنا ہے۔ بظاہر پہلا مفہوم ہی مقصود ہے لیکن اس کے لیے صرف ’’الضرب‘‘ کافی تھا، اگرچہ جملہ پھر بھی مہمل ہی رہتا۔

غامدی صاحب صاف شستہ صحیح رواں عربی نثر لکھنے سے قاصر
۴۔ یساعین: بغایا یساعین علی موالیھن: یساعین صرفی غلطی ہے، ’’یسعین‘‘ ہونا چاہیے، یساعین تو باب مفاعلۃ سے ہے، یعنی باہم سعی کرنا یا باہم زنا کرنا جو یہاں مقصود نہیں ہے۔ سعیٰ جس سے سعی مصدر ہے اردو میں بھی مستعمل ایک لفظ ہے لیکن عربی زبان میں ’’سعت الامۃ‘‘ کاایک معنی لونڈی کے زنا کرنے کے بھی ہیں جو غیر معروف ہیں، بہرحال اس کے ساتھ ’’علی‘‘ کا صلہ غلط ہے۔ کیونکہ سعیٰ علی کے معنی کسی پرولی ہونا کے معنی میں ہے، سعی علی قوم: ولی علیہم۔ اگر لیسعین استعمال ہی کرنا تھا تو ’’لموالیھن‘‘ ہوسکتا تھا، پھر بھی مفہوم میں گنجلک رہتی۔ مسئلہ وہی تقعر اور اظہار علمیت کا ہے اور اس شوق میں موصوف بری طرح ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک احساس کمتری کی علامت ہے، وہ صاف و صحیح اور شستہ و رواں عربی لکھ نہیں سکتے ہیں تو اپنی اس کمزوری کو غیر معروف اور متروک الفاظ اور غیر مانوس تراکیب کے ذریعہ چھپانا چاہتے ہیں اور اس میں بسا اوقات ناکام رہتے ہیں، جیسا کہ ہماری دی ہوئی مثالوں سے واضح ہوا۔ اب ان کا یہ جملہ ہی دیکھیے جس میں یہ غلط لفظ ’’یساعین‘‘ آیا ہے: ان اماء اہل الجاہلیۃ کانت اکثر مابغایا یساعین علی موالیہن‘‘۔ یہ جملہ ہی نحوی اعتبار سے غلط ہے۔ صحیح یوں ہوگا: ان اماء اہل الجاہلیۃ کثیرا ماکن بغایا یسعین لموالیہن‘‘۔ یہ کہنا واقعاتی طور پر غلط ہے کہ ’’اکثر‘‘ لونڈیاں اپنے آقاؤں کے لیے (ان کو کمائی لاکر دینے کے لیے) زنا کرتی تھیں۔ اس لیے ہم نے ’’کثیراً ما، کر دیا ہے۔ ’’پیشہ ور‘‘ عورتیں علیحدہ ہوتی تھیں اور وہ کسی کی لونڈیاں نہیں ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جو اپنی لونڈیوں سے ’’پیشہ‘‘ کراتے تھے۔
۵۔ ’’وحسب‘‘ یہ جملہ ’’اطلق علی الحرائر و حسب‘‘ میں ہے، صحیح ’’فحسب‘‘ ہے۔
۶۔ الطہاری الثیاب، مہمل ہے، صحیح ’’الطاہرات الثیاب‘‘ ہے۔ (یہ ترکیب حاشیہ نمبر ۴ میں ہے۔ یہاں حواشی میں بھی دو مرتبہ الزناء کا غلط یا غیر فصیح لفظ استعمال ہوا ہے۔)
۷۔ ’’للذۃ‘‘، الفندالزمانی کے شعر کے دوسرے مصرع میں غلط ہے، صحیح للذلۃ، یہ غالباً طباعت کی غلطی ہے۔
۸۔ ’’ہزہم شدائدہ‘‘ حماسی شاعر کے شعر کی شرح میں یہ فاحش نحوی غلطی ہے، صحیح ’’ہزتہم‘‘ ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ثقیل اور غیر مستعمل الفاظ کا شوق​
ایک ایسے مضمون میں جو بعض الفاظ قرآنی کی شرح میں لکھا گیا ہے، ثقیل اور غیر مستعمل الفاظ کا استعمال ایک بھونڈی بات ہے۔ یہ اسی احساس کمتری کی علامت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، اور یہ اظہار علمیت کی ایک ناپسندیدہ علامت ہے۔ تفسیر الذاریات‘‘ کے ذیل میں ایسے بہت سے الفاظ کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ کچھ یہاں ذکر کیے جاتے ہیں جو کتاب المفردات کی شرح میں ہیں اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ بعض اوقات جس جاہلی شعر کی شرح کی جا رہی ہے اس میں سہل الفاظ ہوتے ہیں۔ مثالیں درج ذیل ہیں:
۱۔ ابتدا ہی میں زھیر بن ابی سُلمیٰ کے مصرع: ’’بأودیۃ أسافلہن روض‘‘ کی شرح میں موصوف فرماتے ہیں، المعنی أسافل دیارنا ریضان۔
’’روض‘‘ ایک عام فہم لفظ سرسبز زمین کے لیے ہے، اور یہ روضۃ کی جمع ہے اس کی دوسری مشہور و مستعمل جمع ’’ریاض‘‘ ہے، مشہور حدیث شریف ہے: ’’مابین بیتی و منبری روضۃُ من ریاض الجنۃ‘‘۔ قرآن کریم میں یہ مفرد بھی استعمال ہوا ہے اور اس کی ایک دوسری مشہور جمع ’’روضات‘‘ بھی آئی ہے: فاما الذین آمنوا و عملوا الصالحت فہم فی روضۃ یحبرون (الروم:۱۵) اور سورۃ الشوریٰ کی آیت ۲۲ میں ہے ’’والذین امنوا و عملوا الصالحات فی روضات الجنات‘‘۔ اس طرح قرآن و حدیث میں روضۃ، روضات اور ریاض ہیں۔ ریضان نہیں۔ مذکورۂ بالا حدیث میں ’’بیتی‘‘ کی جگہ ’’قبری‘‘ بھی آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس ’’تقعر‘‘ کی کیا ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حریری نے یہ ریضان کا لفظ استعمال کیا ہو، اور یہی تقعر اور ’’لغت بازی‘‘ تو عرب دنیا میں حریری کے ’’مقامات‘‘ کی موت کا سبب ہے۔ یہ کتاب برصغیر ہی میں زندہ رہ گئی ہے۔

غامدی صاحب عربی نحو سے ناواقف ہیں
۲۔ ’’ذیعوعۃ‘‘: سبحان اللہ کیا مصدر نکالا ہے۔ معلوم ہوتا ہے حریری کی ’’عروس میّتۃ محلاۃ (مروہ زیورات سے لدی ہوئی دلہن) غامدی صاحب کے گلے کا ہار ہوگئی ہے۔ پھر بھی وہ حریری کی طرف حافظ لغات نہیں ہوسکتے۔ حریری کے کچھ الفاظ جو ان کے ذہن میں چپک گئے ہیں کبھی کبھی اُن کا ظہور ہوجاتا ہے۔ وہ اس کی طرح مقامات تو نہیں لکھ سکتے۔ مقامہ کیا لکھیں گے؟ موصوف کی تونحو (گرامر) ہی صحیح نہیں ہے۔ البتہ جاہلی اشعار کافی یاد کر رکھے ہیں۔
اس ’’تعالم‘‘ کی کیا ضرورت ہے! سیدھا سیدھا ذیوع لکھتے جو معروف و فصیح ہے۔
۳۔ ’’الرکبۃ‘‘ ۔ ذیعوعۃ جیسے ثقیل لفظ کے بعد ہی ’’الرکبۃ‘‘ دوسرا ثقیل و غیر مانوس لفظ ہے۔ کم از کم اتنا ہی کرتے کہ (ر) پر اعراب یعنی زیر لگا دیتے۔ تاکہ بے چارے عربی کے طلبہ پریشان نہ ہوتے، کیونکہ جو مستعمل و مانوس لفظ ’’رکبۃ‘‘ ہے وہ پیش سے ہے اور اس کے معنی گھٹنے کے ہیں جو یہاں مراد نہیں، بلکہ ’’رکبۃ‘‘ (زیر کے ساتھ) ہے جس کے معنی مسافروں کے ہیں اور جو ’’رکب‘‘ سے مشتق ہے، لیکن اس کے لیے عام فہم اور فصیح لفظ ’’رُکبان‘‘ ہے جو ’’راکب‘‘ (سوار مسافر) کی جمع ہے۔ اس لفظ ’’راکب‘‘ کی چھ جموع ہیں جن میں سے صرف تین زیادہ مستعمل ہیں: رکبان، رُکاب، رَکْب، آخری لفظ عام طور پر قافلے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں رکبان (بقرۃ: ۲۳۹) اور ’’الرکب‘‘ (انفال:۴۲) آئے ہیں۔
۴۔ ’’التُہمات‘‘ کتب لغت میں تو یہ لفظ ہے، لیکن مستعمل دوسرا لفظ ہے۔ التُہم (ہ پر فتحہ) یعنی تہمۃ کی جمع، یہی لفظ اردو میں عام قاعدۂ زبان کے مطابق ’’تہمت‘‘ ہوگیا ہے۔
۵۔ ’’تعالج فیہا الطعام بالطبخ‘‘ اس کرتب بازی کے بجائے سیدھا سادھا ’’یطبخ فیہا الطعام‘‘ ہونا چاہیے۔ مصنف ’’معالجۃ‘‘ کے معنی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔
د) غلط زبان، غلط مفاہیم:
۱۔ مادّۂ (ح ص ن) کے تحت لفظ حصن کی تشریح فرمائی ہے۔ حصن بمعنی قلعہ ایک بہت عام فہم لفظ ہے، جس کے معنی متوسط درجہ کا طالب علم بھی جانتا ہے اور یقین ہے کہ بہت سے اردو داں بھی جانتے ہوں گے، لیکن اس کی شرح کی گئی ہے اور پھر شرح میں وہی بعض الفاظ استعمال کیے گئے جو خود حصن سے زیادہ، ایک عام عربی داں یا طالب علم کے لیے، مشکل ہیں، جیسے الحریز اور الاحراز پھر جو شرح کی ہے وہ خود ہی مہمل اور اس کی زبان غلط ہے، ارشاد ہے: ’’الحصن: الموضع الحریز الذی لایمکن لاحدأن یصل الی مافی جوفہ غیر مجہد نفسہ‘‘ (محفوظ جگہ جس کے اندرون میں جو چیز ہے اس تک اپنے کو تھکائے بغیر کوئی نہیں پہنچ سکے)۔ عام عربی داں جانتے ہیں کہ عربی ’’ما‘‘ غیر عاقل یعنی اشیاء کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ’’من‘‘ عاقل یعنی انسانوں کے لیے۔ اب قلعوں میں صرف چیزیں تو نہیں چھپائی جاتی ہیں، بلکہ لوگ چھپتے ہیں، اور اس شرح کے فوراً بعد جو دو قدیم عربی شعر اسناد کے لیے پیش کیے ہیں، اس کے ایک شعر سے بھی صاف ظاہر ہے کہ محفوظ جگہ یا زیادہ صحیح قلعہ میں لوگ تھے، اشیاء نہیں! ’’واخر جنا الأیامی من حصون‘‘۔ اس لیے شرح میں مافی جو فہ غلط ہے۔ اگر ایسا ہی لکھنا تھا تو ہونا چاہیے یصل الی من فی جوفہ۔ اگرچہ سلیس عربی لکھنے کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں، صرف اتنا کافی ہے۔ أن تصل انی جوفہ الا بجہد شدید۔ قاموس میں اس لفظ کی شرح اس طرح ہے: ’’کل موضع حصین لایوصل الی جوفہ‘‘۔
پھر ’’غیر مجہد نفسہ‘‘ بھی خواہ مخواہ بات کو لمبا اور پیچیدہ کرنے کی کوشش ہے۔ اتنا کہنا کافی تھا الابجہد شدید۔
دراصل لفظ ’’الحصن‘‘ کی اس شرح کا مقصد وہی تعالم (اظہار علمیت) کی ہوس ہے، کیونکہ موصوف نے اس عام فہم لفظ کی شرح میں تین قدیم جاہلی اور غیر جاہلی شعر پیش کیے ہیں، بھلا ان اشعارکی یہاں کیا ضرورت تھی۔ الحصن کون سا ایسا مشکل اور مختلف المعانی لفظ تھا کہ اس کے لیے خواہ مخواہ قاری کو ان اشعار سے زیر بار کیا جائے۔
پھر موصوف نے ’’حصن‘‘ کی جمعین لکھی ہیں: أحصان وحِصنۃ و حصون‘‘۔ یہاں پہلی بات تو یہ کہ حصن کی جو عام فہم، فصیح اور قرآنی جمع ہے وہ تو موصوف نے آخر میں تحریر فرمائی ہے، لیکن جو دو غیر معروف اور مشکل جمعیں ہیں وہ پہلے لکھی ہیں۔ قرآن میں اس لفظ کی صرف ایک مشہور جمع حصون آئی ہے: وظنوا انہم مانعتہم حصونہم من اللّٰہ (الحشر:۲)

حصن کی جمع غامدی صاحب کی پیش کردہ اسناد میں حصون ہے
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف نے حصن کے معنی کے استشہاد کے لیے دو شعر پیش کیے ہیں، ان میں بھی لفظ کی جمع حصون ہی ہے، کہیں أحصان و حِصَنۃ نہیں۔ اور لسان العرب اور صحاح میں تو حصن کی صرف ایک ہی جمع ’’حصون‘‘ دی گئی ہے، جب کہ قاموس اور المنجد میں یہ تینوں جمعیں دی گئی ہیں۔ لیکن ان دونوں لغات میں بھی پہلے حصون ہے اور بعد میں أحصان و حِصَنۃ دیے ہیں۔ لیکن غامدی صاحب نے اپنے شوق تعالم میں ترتیب الٹی کر دی ہے، پہلے دو مشکل جمعیں لکھی ہیں اور بعد میں قرآنی، معروف جمع۔ ہم جوہری، صاحب الصحاح اور ابن منظور صاحب اللسان کے ساتھ متفق ہیں کہ لفظ کی صرف ایک ہی جمع ’’حصون‘‘ ہے۔ غامدی صاحب کا فرض ہے کہ دو غیر معرف جموع کے استشہاد کے لیے قدیم عربی اشعار پیش کریں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب کا انحصار غیر معتبر لغت المنجد پر؟
پھر یہ کہ موصوف نے جب المنجد جیسی عام اور غیر معتبر لغت سے یہ جموع نقل کی ہیں تو پھر ان کا فرض تھا کہ ان دونوں جموع پر ’’اعراب‘‘ لگائیں یا قوسین میں اعراب باللفظ لکھ دیں تاکہ قاری ان کو صحیح پڑھ سکے۔ ہم نے خود دونوں غیر مانوس الفاظ پر اعراب لگا دیئے ہیں۔ خدا کرے کمپیوٹر کمپوزنگ میں آجائیں (ورنہ یوں ہے کہ أحصان کے الف پر یا صحیح طور پر ہمزہ پر فتحہ ہے اور حصنۃ کی (ح) مکسور اور (ص) مفتوح ہے۔
۲۔ مشہور حماسی شاعر البرج بن مسہر الطائی کے شعر:
وأخر جنا الایامی من حصون
بہا دار الاقامۃ والثبات
کے معنی بیان فرماتے ہیں: ’’اخرجنا النساء اللاتی یترملن فیما یاتی من حصون کانت بہا دار نثبت فہا ونقیم‘‘
اس معنی کے بارے میں عرض ہے کہ ’’فیمایاتی‘‘ کہاں سے آگیا؟ شعر میں تو ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا یہ ترجمہ یا مفہوم پیش کیا جائے اور یوں بھی ’’فیمایاتی من حصون‘‘ بداھتہً مہمل ہے۔ پھر یہ کہ ’’ترمل‘‘ کون سا آسان لفظ ہے کہ اس کو تشریح میں استعمال کیا جائے۔ جو قاری ’’حصن‘‘ کے معنی نہیں جانتا وہ اس لفظ ’’ترمل‘‘ کے معنی کیسے جان سکتا ہے؟ لیکن موصوف کو اظہارِ علمیت کرنا تھا اس لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ مگر یہاں انھوں نے دیگر مذکورہ مقامات کی طرح بری طرح ٹھوکر کھائی ہے۔

غامدی صاحب کی عربی دانی کی حقیقت: الأیامی کے معنی سے ناواقف
شعر میں ’’الأیامی‘‘ ہے۔ اس کے جو معنی موصوف نے دیے ہیں یعنی الللاتی یترملن۔ اس سے غامدی صاحب کی عربی زبان دانی کا پول کھل کر سامنے آگیا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ایسا ’’علامۂ زمن‘‘ جو جگہ بے جگہ قدیم جاہلی وغیر جاہلی اشعار کی بھرمار کرے اس کو الایامٰی جیسے عام لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں!! ’’الأیامیٰ‘‘ جس کا مفرد الأیّم (ی مشدد پر کسرہ) ہے۔ اس کے معنی ہیں وہ عورت جس کا شوہر نہ ہو اور وہ مرد جس کی بیوی نہ ہو، یعنی بے شوہر عورت اور بے زوجہ مرد، خواہ اس کا سبب رنڈاپا ہو، شوہر بیوی کا گم ہوجانا یا شادی نہ ہونا ہو، قرآن کریم میں ’’الأیامی‘‘ کا لفظ ان دونوں معانی میں ہے: وانکحوا الأیامی منکم (سورۃ النور:۳۲) اسی لیے شاہ عبدالقادر صاحب دہلویؒ ، مولانا مودودیؒ ، مولانا عبدالماجدؒ نے اس قرآنی لفظ کا صحیح ترجمہ علی الترتیب: رانڈ، مجرد اور بے نکاحوں دیا ہے۔ فتح محمد جالندھریؒ کا ترجمہ: ’’بیوہ عورتوں‘‘ ناقص ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کی شادی کر دو خواہ عورتیں ہوں خواہ مرد جو کسی بھی سبب سے اپنے ؍ اپنی شریک زندگی سے محروم ہوں، تاکہ بدکاری کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔

أیم اور یترمّلن کے مابین فرق؟​
’’یترمّلن‘‘ جو غامدی صاحب نے اپنی شرح میں استعمال کیا ہے، وہ ’’ترمل‘‘ سے جمع مؤنث غائب ہے، اور ترمل کے معنی شوہر کے مر جانے کے بعد عورت کے بیوہ ہوجانے کے ہیں، اور ارملۃ بیوہ عورت کو کہتے ہیں، جب کہ أیم مفقود الزوج کو کہتے ہیں خواہ باکرہ ہو خواہ ثیب، اس میں عورت و مرد کی تفریق نہیں، لیکن عام طور پر ایم مرد کے لیے یعنی رنڈوا اور أرملۃ عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی بیوہ۔

شعر جاہلیہ سے مضحکہ خیز مؤقف اخذ کیا گیا​
زیرِ بحث شعر میں ’’أیامی‘‘ کا لفظ ان عورتوں کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے شوہر نہیں۔ خواہ وہ کنواری عورتیں ہوں، خواہ وہ جن کے شوہر قتل کر دیے گئے یا لاپتہ ہوں، یعنی بے سہارا عورتوں کو جو قلعہ میں مردوں کے قتل کے بعد رہ گئی تھیں ہم نکال لائے‘‘۔ علامہ موصوف نے ’’بہادار الاقامۃ و الثبات‘‘ کا جو مفہوم عربی میں بیان کیا ہے: من حصون کانت بہادار نثبت فیہا و نقیم بھی غلط بلکہ مضحکہ خیز ہے۔ شعر کا مفہوم سادہ ہے کہ ہم ایسی بے شوہر عورتوں کو ان قلعوں سے نکال لائے (جن کے محافظ مرد قتل ہوگئے تھے) جہاں وہ مقیم اور موجود تھیں۔ ’’ہم وہاں جمے ہوئے (نثبت) اور مقیم تھے‘‘ کا مفہوم کہاں سے آگیا؟ کسی جگہ موجود ہونے اور رہنے کے لیے یوں بھی ’’نثبت‘‘ (ہم ثابت تھے) مہمل ہے، اور پھر یہ ’’ہم‘‘ کہاں سے آگیا؟ برج بن مسہر الطانی کا لفظ ’’الأیامی‘‘ کا استعمال ناقص و محدود ہے، جب کہ قرآن میں یہ اپنے صحیح معنی میں ہے۔
۳۔ سورۃ الحشر کی مذکورہ بالا آیت میں واقع لفظ ’’حصونہم‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’معاقلہم الحصینۃ‘‘ اب بھلا کوئی بتائے کہ حصون (جمع حصن) زیادہ مشکل لفظ ہے یا معاقل (جمع معقل)؟ ہر ذی ہوش یہی کہے گا کہ معقِل زیادہ مشکل لفظ ہے، پھر آگے چل کر انھوں نے کتب سیرت سے منقول سرداران قریش کے ایک جملے اہل الحلقۃ و الحصون‘‘ میں واقع لفظ الحصون کی شرح ’’الاحراز‘‘ سے فرمائی ہے۔ اب پھر وہی بات کہ حصون مشکل لفظ ہے یا احراز؟ قلعوں کے معنی میں احراز ہی زیادہ غیر معروف لفظ ہے۔
۴۔ ’’الحصن‘‘ (اسم مصدر) کی شرح میں فرماتے ہیں، ’’ویکون الفعل منہ مرۃ لازماً ومرۃ متعدیا، فیقال حصنہ یحصن و یحصن حصناً اذاحماہ فی موضع حریز‘‘ اس پر سب سے پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ فعل حصن، ماضی مضارع اور پھر مصدر پر نہ تو غامدی صاحب نے اعراب کے رموز (ضمہ، فتحہ، کسرہ) لگائے اور نہ اعراب بالالفاظ ظاہر کیے۔ اور اس شرح سے ظاہر ہے کہ لکھی انھوں نے یہ اپنے طلبہ کے لیے ہے۔ اس لیے یہ طلبہ تو بے چارے اس کو پڑھ کر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
بہرحال ہمیں تو یہ کہنا ہے کہ مستند کتب لغت: صحاح، لسان العرب اور قاموس میں ’’حصن‘‘ صرف لازم آیا ہے اور پھر یہ کہ یہ لفظ ان لغات میں صرف باب کرُم سے ہے: حصُن، یحصُن، حِصنا و حَصنا و حُصناً و حصانۃً یعنی چار مصادر دیے ہیں، جب کہ موصوف نے حصنا کی صرف دو شکلیں دی ہیں، تیسری نہیں دی۔

غامدی صاحب کا ’’المنجد‘‘ پر انحصار جو غیر مستند لغت ہے​
صرف لبنانی پادری لولیس معروف نے اپنی المنجد میں اس کو باب ضرب یضرب سے بھی لکھا اور اس کو متعدی بھی بتایا ہے، اور اس لغت کا جوار دو ترجمہ ہے اس میں بھی ایسا ہی ہے، لیکن عرب ممالک کی جامعات اور علماء کے نزدیک المنجد کوئی قابل استناد لغت نہیں اور اس میں اغلاط ہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے یہ سب کچھ غالباً المنجد یا اس کے ترجمے سے نقل کیا ہے۔ اور یوں تو وہ الفاظ کے استشہاد کے لیے بہت سے قدیم عربی اشعار نقل کرتے ہیں، لیکن انھوں نے حصن کے متعدی ہونے کے لیے کوئی شعر پیش نہیں کیا۔ موصوف نے اس مزعوم متعدی حصن کے معنی کے لیے جو جملہ لکھا ہے وہ المنجد ہی سے ماخوذ ہے۔ صرف ہے کہ جناب نے اس کی صحیح عربی ’’حرزہ فی موضع حصین‘‘ کو بگاڑ کر بھونڈا کر دیا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب: المنجد سے صحیح جملہ نقل نہیں کرسکے​
یہی نہیں تین سطروں کے بعد انھوں نے حصنتالمرأۃ اذاتز وجت‘‘ کا جو جملہ حصن کے معنی بیان کرنے کے لیے لکھا ہے کہ عورت جب شادی کرلیتی ہے تو کہا جاتا ہے ’’حصنت المرأۃ‘‘ وہ صراحۃً غلط ہے، اور المنجد سے غلط منقول شدہ جملہ ہے۔ کاش کہ وہ مستند لغات تو درکنار اس چھوٹی لغت سے صحیح نقل کرتے۔ المنجد میں ہے: أحصنت المرأۃ: عفت، فہی محصنۃ ای عفیفۃ‘‘ اور دوسرے معنی لکھے ہیں (یعنی أحصنت کے) تزوجت لان زواجہا قدأحصنہا‘‘ اس طرح صاحب المنجد نے تمام لغت نویسوں کی طرح ’’حصنت المرأۃ‘‘ کے معنی تزوجت (اس نے شادی کرلی) نہیں لکھے ہیں۔ البتہ اس سے قبل اس نے مادہ حصن کے تحت حصنت المرأۃ لکھ کر اس کے معنی دیے ہیں: ’’کانت عفیفۃ فہی حَصان‘‘۔ المنجد کے مصنف نے اس موقعہ پر ایسی عورت کے لیے ’’حاصنۃ‘‘ کا لفظ دیا ہے وہ غلط ہے، صحاح، لسان العرب اور القاموس میں ایسی عورت کو صرف حصان اور حاصن کہا گیا ہے، کیونکہ حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو ’’حامل‘‘ اور ’’مرضع‘‘ کہا جاتا ہے، اس لیے عفیف عورت کو بھی ’’حاصن‘‘ ہی کہا جاتا ہے، ’’حاصنۃ‘‘ نہیں۔
حصن متعدی نہیں آتا
مستند کتب لغت کے علاوہ استعمال قرآنی بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حصن متعدی نہیں آتا ہے۔ سورۂ یوسف: آیت ۷۴،۴۹، حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اس سابق قیدی ساتھی کو جو عزیز مصر کے ایک خواب کی تعبیر پوچھنے آیا تھا۔ جب یہ بتا رہے تھے کہ سات سال اچھی فصل کے بعد سات قحط کے سال آئیں گے تو اس زمانے میں تم نے پہلے سے بالوں میں جو گیہوں محفوظ کر رکھے تھے وہی تمہارے لیے بچیں گے، یہاں پر ’’ما تخصنون‘‘ (ت پر ضمہ ص پر کسرہ) آیا ہے جو ’’أحصن‘‘ سے ہے ’’حصن‘‘ سے نہیں۔ اگر حصن متعدی ہوتا تو قرآن اس موقع پر تُحصِنون نہیں بلکہ تحصنون (ت پر فتحہ سے) کہتا۔
حصن فعل متعدی نہیں
علاوہ ازیں قرآن کریم میں دو مقامات پر حضرت مریم علیہ السلام کے لیے ’’أحُصنت فرجَہا‘‘ کے جملے میں ’’أحصنت‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ حصنت کا نہیں، اگر حصنت متعدی ہوتا تو ہرگز قرآن ’’أحصنت‘‘ استعمال نہیں کرتا اور قرآن سے زیادہ فصیح عربی کوئی نہیں، اس لیے ’’حصن‘‘ کو فعل متعدی بھی کہنا صاحب المنجد کی غلطی ہے اور اس کے ناقل ’’علامہ غامدی‘‘ کی بھی۔

غامدی صاحب کی حضرت حسانؓ کے شعر سے ناواقفیت
دلچسپ بات یہ ہے کہ آگے چل کر موصوف نے عمیرۃ بن جعل کا شعر لکھا ہے، اس میں بھی عفیفہ عورت کے لیے ’’الحاصن الغرا‘‘ ہے، الحاصنۃ نہیں۔ المنجد پر بھروسے کے سبب وہ اس قدیم شاعر کے شعر کو بھی بھول گئے اور افسوس کی بات ہے کہ لفظ حصان کی شرح میں غامدی صاحب نے کتنے ہی جاہلی اور غیر جاہلی شعراء کے فحش شعر پیش کیے ہیں، لیکن موصوف کو اس لفظ کے لیے حضرت حسانؓ بن ثابت کا شعر یاد نہیں آیا جو انھوں نے حضرت عائشہؓ کے لیے کہا تھا:
حصان رزان لاتُزُّن بریبۃ
و تصبح غرثیٰ من لحوم الغوافل
۵۔ المعلقات میں عمرو بن کلثوم کے قصیدے کے ایک شعر میں فرماتے ہیں ’’یذکر محاسن امرأۃ شبّب معلقۃ‘‘ سے پہلے ’’فی‘‘ ضروری ہے۔
اس شعر میں جاہلی شاعر نے ایک عورت کی چھاتی (ثدی) کی تعریف کی ہے۔ جس میں اس کو ہاتھی دانت (عاج) کے گول ڈبے سے (ایک اضافی لفظ ’’رخصاً‘‘ کے ساتھ) تشبیہہ دی گئی ہے جس کی شرح میں صرف اتنا کہنا کافی ہے ’’فی بیاضہ ونتوہ مثل حق العاج‘‘، مصر کے مشہور ماہر لغت اور محقق عبدالسلام ہارون نے انھیں الفاظ میں شعر کی تشریح کی ہے۔

ثدیّٰ کی لذت پرستانہ تعریف
لیکن غامدی صاحب نے ایک تو مثل ’’حق العاج‘‘ کے بجائے حق من العاج لکھا جس میں ’’من‘‘ حشو ہے اور پھر ثدیّٰ کی تعریف بڑے لذت پرستانہ انداز میں کی ہے: وتریک ہذا المرأۃ ثدیاً مشرق اللون مدوراً صلباً مثل حق من العاج، ناعماً محفوظاً من اکف من یلمسہا‘‘ اس کی شرح ’’مشرق اللون، مدوراً، صلباً، لذت پرستی کی دلیل ہے۔ پھر یہاں تنہا مشرق اللون غلط ہے، عربی میں ’’ابیض مشرق اللون‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد ’’حصان‘‘ کے دوسرے مشہور معنی کے لیے ہجو گو شاعر الحطیءۃ کا جو شعر پیش کیا ہے وہ بھی بے حیائی کا مظہر ہے:
وکم من حصان ذات بعل ترکتہا
اذا اللیل ادجی لم تجد من تباعلہ
’’تباعل‘‘ کی شرح میں لکھا ہے: ’’لم تجدمن یتودد الیہا ویلاعبہا‘‘ ۔ لغت میں ’’باعل‘‘ کے یہ معنی نہیں بلکہ مباشرت ہے۔ حضرت حسانؓ کے مذکورہ بالا شعر میں بے حیائی کی ایسی کوئی بات نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب کی بے معنی بھونڈی و مُہمل عربی
دوسری سطر میں ’’الحرائر من النساء‘‘ میں کہا گیا ہے: لأنہا کانت عفائف یہاں ’’لأنہا‘‘ یعنی ضمیر مفرد بداہۃً غلط ہے۔ لأ نہن ہونا چاہیے۔ حرائر (آزاد و شریف خواتین) کے لیے یہ کہنا غلط ہے کہ وہ ’’فی کثیر من الأحوال‘‘ عفیف (پاک دامن) ہوتی ہیں، غلط ہے۔ کہنا چاہیے ’’فی اکثر الأحوال‘‘ یا ’’فی غالب الأحوال‘‘۔
’’الحاصن‘‘ کے استشہاد کے لیے جو شعر پیش کیا گیا ہے:
تری الحاصن الغراء منہم لشارفٍ
اخی سلّۃ قد کان منہ سلیلہا
اس کی شرح میں تتزوج شیخا سے متصل ’’لیس لأبیہ‘‘ مہمل اضافہ ہے۔
’’شارف‘‘ اور ’’سلۃ‘‘ جو درحقیقت بوڑھی اونٹنی کے اوصاف ہیں، محتاج تشریح تھے۔
۶۔ حطیءۃ کے دو شعروں کی تشریح میں (جو سعید بن العاص کی مدح میں کہے گئے تھے) آخری مصرع: ’’وتمشی کما تمشی القطاۃ کثیف‘‘ میں بطور اضافہ جو کہا گیا ہے: کمشی الامۃ التی تحمل الحطب و تعتا دالسیر‘‘ اس میں تعتاد السیر بے معنی و مہمل ہے۔ وتبطئ فی السیر ہونا چاہیے، اور ’’لیست لہامشی‘‘ بھی بھونڈی عربی ہے۔ ’’ولیس کمشی الأمۃ‘‘ کافی تھا۔
۷۔ ’’ولا یبعد ان یستعملا للمتزوجات‘‘۔ ’’یستعملا‘‘ کا صیغۂ تثنیہ ’’الحاصن و الحصان‘‘ کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کا ذکر ایک صفحہ قبل کیا گیا تھا۔ اتنے فاصلے کے بعد ضروری تھا کہ ضمیر تثنیہ کے بجائے ان دونوں لفظوں کو صریحاً ذکر کیا جائے۔
۷۔ اب مادہ حصن سے مشتق لفظ ’’محَّصنۃ‘‘ کا ذکر آتا ہے، جس کی تعریف میں کہا گیا ہے: ’’التی جعلت حصینۃ، والفعل منہ حصن یحصن تحصیناً، وھوبناءٌ ربما یدل علی التعدیۃ‘‘۔ اپنی شرح شواہد الفراھی اور شرح کتاب المفردات (للفراہی) میں ’’نیوب، جعجاع، سہوک، ریضان، رکبۃ‘‘ (رمکسور) وغیرہ جیسے ثقیل وغیرہ مانوس الفاظ استعمال کرنے والے عظیم شارح ’’محصّنَۃ‘‘ جیسے عام لفظ کی تشریح فرما رہے ہیں اور پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کا فعل ’’حصن یحصن تحصینا‘‘ ہے، یہ کیا تضاد فکری ہے! کیا آپ کا قاری جو ایسے مشکل الفاظ سمجھ سکتا ہے ’’محصّنۃ‘‘ کے معنی سمجھنے سے قاصر ہے، یا وہ اتنا بھی نہیں سمجھتا کہ ’’محصنۃ‘‘ فعل تحصین‘‘ سے ہے؟
غامدی صاحب عربی زبان سے ناواقف
یہاں آخر میں موصوف کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ: بناء ربما بدل علی التعدیۃ۔ یہ عربی زبان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ کیونکہ ’’ربما‘‘ کی تعریف کتب نحو میں ہے: ’’موضوعۃ للتقلیل‘‘ یعنی ربّما یا ربما (بدون تشدید) کا لفظ تقلیل کے لیے وضع کیا گیا ہے، قرآن کریم میں بھی اسی معنی میں آیا ہے: ربما یودالذین کفروا لوکانوا مسلمین (الحجر:۲) اس لیے موصوف کا یہاں ’’ربما‘‘ کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے، کیونکہ باب تفعیل (جس کے وزن پر تحصین ہے) کم نہیں بلکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں بہت زیادہ ترتعدیہ کے لیے آتا ہے۔
پھر یہ کہ محصَّنۃ کے لیے جس قرآنی استعمال کی موصوف نے مثال دی ہے فی قُریً محصَّنۃ (الحشر:۱۴) اس سے خود ثابت ہے کہ پہلے انھوں نے جو کہا تھا کہ حصن یحصن (بغیر تشدید) صیغۂ مجرد میں وہ متعدی بھی آتا ہے وہ قرآن کی رو سے غلط ہے، ورنہ یہاں ’’محصونۃ‘‘ ہوتا۔
۸۔ مادہ (ح ص ن) کے ان مشتقات کے بعد موصوف قرآنی لفظ ’’المحصَنات‘‘ کی تعریف فرماتے ہیں: ’’العفائف من النساء‘‘ ہمارے خیال میں مادۂ (ح ص ن) سے متعلق جو لمبی چوڑی باتیں لکھی ہیں اُن کا مقصدِ اسی لفظ قرآنی پر اپنے ’’نادر‘‘ خیالات کا اظہار کرنا ہے، اسی لیے اس لفظ ’’المحصنات‘‘ کی شرح چھ صفحات میں ہے۔
موصوف کی یہ شرح: ’’المحصنات: العفائف من النساء‘‘ جزئی (جزوی غلط ہے) طور پر ہی صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ’’المحصنات‘‘ کا لفظ سب سے پہلے المتزوجات (شادی شدہ عورتیں) کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جن عورتوں سے شادی کرنا حرام ہے، ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے آخر میں کہا ہے ’’ولمحصنات من النساء‘‘ (اور عورتوں میں سے شادی شدہ سے شادی کرنا حرام ہے) سورۃ النساء: ۲۳،۲۴۔ حیرت کا مقام ہے کہ اس طویل شرح میں اس آیت کا کہیں ذکر نہیں؟
اس شرح کا اصل مقصد وہ حملہ ہے جو انھوں نے سورۃ النور کی آیت ۲۳ ’’ان الذین یرمون المحصنات الغافلات المؤمنات لعنوا فی الدنیا والآخرۃ ولہم عذاب عظیم‘‘ کے ذکر کے فوراً بعد اس طرح کیا ہے:
’’ومن ذھب الی أن المراد بالمحصنات ہذہ الحرائر العفائف، فقدوہم ولم یسلک مسلک السداد۔۔۔ الخ‘‘ (اور جنھوں نے اس محصنات کے لفظ سے آزاد پاک دامن عورتیں مراد لی ہیں، وہ گرفتار وہم ہیں اور صحیح راستے پرنہیں)۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب کی غلط عربی تحریر​
یہاں موصوف کا وہی حال ہے جو انگریزی کے مشہور ناول ڈون کیخوت (صحیح اسپانی تلفظ یہی ہے) Don Quicchotte کے شہسوار ہیرو کا تھا جو ہوا میں خیالی دشمنوں پر تلوار چلاتا ہے۔ جناب ذرا یہ بھی تو بتا دیتے کہ وہ گرفتار وہم لوگ کون ہیں؟ جنھوں نے اس آیت میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ سے ’’الحرائر‘‘ (آزاد عورتیں) مراد لیا ہے؟ عربی کے مفسرین میں سے امام طبریؒ ، امام فخرؒ الدین رازی، زمخشری، قرطبی، ابن کثیر اور اردو کے مترجمین و مفسرین شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا محمود الحسن، مولانا مودودی، مولانا فتح محمد جالندھریؒ ، مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ سب ہی نے پاک دامن عورتیں مراد لی ہیں۔ اختلاف، عربی تفاسیر میں، صرف اس بارے میں ہے کہ یہ آیت صرف حضرتِ عائشہؓ کی پاک دامنی کے بارے میں ہے، یا اس میں تمام پاک دامن عورتیں شامل ہیں، اور زیادہ تر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ تمام پاک دامن مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ افسوس ہے کہ موصوف نے ’’المحصنات ہذہ‘‘ غلط عربی لکھی ہے، ہذہ کی جگہ ’’ہنا‘‘ چاہیے۔
اس آیت کے ساتھ موصوف نے پاک دامن باندیوں پر اتہام لگانے والوں کے لیے برابر کی لعنت اور عذاب کا ذکر چھیڑ دیا ہے کہ ایسے لوگوں پر بھی ویسی ہی لعنت و عذاب ہوگا، یہ لعنت و عذاب تو آخرت کی بات ہے، لیکن وہ سزا جو باندیوں پر اتہام زنا لگانے والوں کی ہے، یعنی ۴۰ کوڑے، اگر سورہ النور کی آیت ۴ میں پاک دامن عورتوں پراتہام لگانے والوں کی سزا یعنی ۸۰ کوڑوں کی تصریح نہ ہوتی تو ’’باندیوں پرزنا کا اتہام لگانے والوں کی بھی یہی سزا ہوتی۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں:
’’وأما فی الآیۃ التی سبقت لبیان عقوبۃ القذف، فیحتمل ان یختص بالحرائر منہن، لان العقوبۃ انما تزید و تنقص بحسب تغیرالازمنۃ والاحوال‘‘
یہ ہے وہ صریح مفہوم قرآنی کی تحریف جس کے لیے غامدی صاحب نے حصن اور محصنات کی ساری بحث چھیڑی ہے۔ عقوبۃ القذف (اتہام زنا) کی جس آیت کی طرف موصوف نے صرف اشارہ کیا ہے وہ ہے: والذین یرمون المحصنت تم لم یاتوا باربعۃ شہداء فاجلدوہم ثما نین جلدۃ ولاتقبلوالہم شہادۃ أبداً (النور:۴)
موصوف کا اس آیت قذف کے بارے میں یہ کہنا غلط ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں واقع ’’المحصنات‘‘ کے معنی (یحتمل) آزاد عورتیں (حرائر) ہو، کیونکہ سب علماء کا، جیسا کہ امام الجصاص حنفی (م۳۴۰ھ) نے کہا ہے، اتفاق ہے کہ اس سے مراد آزاد، مسلمان بالغ، عاقل، پاک دامن ہیں، خواہ عورتیں خواہ مرد، اور یہی بات امام رازی نے اس کی آیت کی تفسیر میں کہی ہے جو احادیثِ نبویہؐ اور اقوالِ صحابہؓ پر مبنی ہے۔

غامدی صاحب کے خیال میں ’’حد‘‘ کم اور زیادہ ہوسکتی ہے
آخر میں موصوف نے جو یہ کہا ہے کہ سزا (یعنی حد کہ اسی کا یہاں ذکر ہے) ’’زیادہ اور کم بھی ہوسکتی ہے، زمانوں اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘‘۔ یہ بات قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حدود (قرآنی سزائیں) جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، ان میں کوئی کمی بیشی کسی زمانے اور صورتِ حال میں نہیں ہوسکتی، البتہ بیماری یا حمل کی صورت میں مؤخر ہوسکتی ہیں۔ غامدی صاحب کے بیان کردہ قاعدہ کو بہانہ بنا کر کہا جاسکتا ہے کہ عصر حاضر میں شادی شدہ زانی کی سزا رجم، اور غیر شادی شدہ کی ۱۰۰ کوڑے اور تہمت زنا پر اسی کوڑے مناسب نہیں، ان میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے یا اس کو جیل کی سزا سے بدلا جاسکتا ہے۔ تعزیر میں تو یہ ہوسکتا ہے لیکن یہاں ذکر حد قذف کا ہے تو اس مقام پر سزائے حد میں کمی بیشی کی رائے دینا بہت بڑی جسارت ہے، بلکہ یہ حدود اللہ میں تحریف کے مصداق ہے۔
اس کے فوراً بعد انھوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب بھرتی ہے۔ اس موقع پر ان کا یہ کہنا کہ عہد جاہلی میں اکثر باندیاں (الاماء) پیشہ ور بدکار (بغایا) عورتیں تھیں بالکل غلط ہے۔ بہت کم اور صرف وہ باندیاں بدکار پیشہ ور تھیں جن سے ان کے کچھ مالکین پیشہ کراتے تھے، اور قرآن میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصّنا لتبتغوا عرض الحیٰوۃ الدنیا (النور:۳۳) مکہ و طائف کی سوسائٹی میں پیشہ ور عورتیں معروف تھیں، جو اپنے گھروں پر ایک علامتی جھنڈا لگائے رکھتی تھیں۔
’’سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں وارد: ’’والمحصنات من المؤمنات‘‘ کی تفسیر میں جن عورتوں سے نکاح حلال قرار دیا گیا ہے، وہ ہیں: ای العفائف من المؤمنات والعفائف من الذین اوتو الکتاب (یعنی پاک دامن مسلمان اور پاک دامن کتابی (یہودی و نصرانی) عورت سے شادی تمھارے لیے حلال کر دی گئی ہے) یہی وہ معنی ہیں جو مفسر امام طبریؒ ، قرطبیؒ ، ابن کثیرؒ وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں مختلف صحابہؓ و تابعینؒ سے نقل کیے ہیں اور یہی مفہوم اردو کے مترجمین و مفسرین شاہ عبدالقادر دہلویؒ ، مولانا محمود الحسن، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا مودودیؒ ، مولانا فتح محمد جالندھریؒ اور مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ نے مختلف الفاظ (پاک دامنوں، پارسا عورتوں، محفوظ عورتوں) میں ادا کیا ہے۔ امام طبریؒ نے دونوں اقوال نقل کیے ہیں، وہ ’’المحصنات من المؤمنات من الذین اوتوا الکتاب‘‘ کی شرح ساتھ ساتھ کرتے ہیں، اور اسی لیے مسلمان اور اہل کتاب کی آزاد و شریف عورتوں کی اجازت نکاح کا بیان کیا ہے، کیونکہ مسلمان باندیوں سے نکاح اور اس کی شرائط کا ذکر سورہ النساء کی آیت ۲۵ میں ہے اور کتابی باندیوں سے نکاح کرنے کی اجازت بہت سے فقہاء کے نزدیک نہیں ہے کیونکہ وہ عفت کے مفہوم سے ناآشنا ہوتی ہیں۔
یہاں ایک اہم امر کی طرف اشارہ ضروری ہے جو یہ ہے کہ ’’حرۃ‘‘ (آزاد شریف زادی) کے معنی میں عفیفہ ہونے کا مفہوم پنہاں ہے، اس کی دلیل کتب حدیث و سیرت میں ہند زوجۂ ابوسفیان کے اس قول میں ہے جو اس نے اس وقت کہا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بیعۃ النساء لی تھی جس کا ذکر سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر ۱۲ میں ہے اور چھ ممنوعات کے ضمن میں یہ بھی ہے کہ ’’وہ زنا نہیں کریں گی‘‘ (ولا یزنین)، ہند نے اس موقع پر حیرانگی کے ساتھ برجستہ کہا تھا ’’اوتزنی، الحرۃ‘‘ کیا آزاد شریف زادی بھی زنا کرسکتی ہے!
فہم قرآن کا انحصار ارشادات نبوی، فقہائے صحابہ و تابعین پر یا لغت جاہلی پر
اس آیت کی تفسیر میں غامدی صاحب کا یہ اصرار بے جا ہے کہ ’’والمحصنات‘‘ سے یہاں مراد صرف عفائف (پاک دامن عورتیں) ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کی فہم کے لیے وہ صرف لغت اور جاہلی اشعار پر اعتماد کرتے ہیں، جب کہ صحیح اور منطقی بات یہ ہے کہ فہم قرآن کے لیے ارشادات نبویؐ اور فقہائے صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمۃ سلفؒ کے اقوال کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج، انفاق وغیرہ کتنے ہی الفاظ ہیں جو اسلام سے پہلے عربی زبان میں موجود تھے۔
الفاظ کے نئے معنیٰ: شرعی معانی
لیکن اسلام نے ان کے نئے معانی مقرر کیے جو شرعی معانی کہلاتے ہیں اور وہی مستند ٹہرے۔
امام ابوبکر الجصاص نے اپنی کتاب احکام القرآن (ج۳، ص۹۳، ۹۴) میں لفظ احصان (جس سے المحصنات ہے) پر بہت عمدہ بحث کی ہے کہ لغت میں تو بے شک اس کے معنی عفت کے ہیں، جو ’’المحصنات الغافلات‘‘ میں ہے، لیکن شریعت میں اس کا اطلاق ان مختلف معانی پر ہوتا ہے جو لغت میں نہیں۔ انھیں معانی میں سے ایک اسلام ہے، دوسرا تزویج ہے (شادی) اور یہ کہ پھر شرعی احصان سے متعلق دو حکم ہیں:
۱۔ زنا کا الزام لگانے والے پر حد جاری کرنے کے لیے پانچ یہ شرائط ہیں: پاک دامنی، آزادی، اسلام، عقل، بلوغ، تو جس مقذوف میں یہ صفات نہ ہوں اس کے قاذف پر حد جاری نہ ہوگی، یعنی زانی، غلام، کافر، پاگل اور بچے پر تہمت زنا لگانے والے پر حد جاری نہ ہوگی۔
۲۔ دوسرا حکم حد رجم سے متعلق ہے۔ اس سزا کا مستحق وہ ہوگا جس میں یہ شروط پائی جاتی ہوں: اسلام، عقل، بلوغ، آزادی اور نکاح صحیح، کہ ان چار شروط کے ساتھ وہ دونوں مباشرت کرچکے ہوں۔ اگر ان صفات میں سے کوئی صفت نہ ہو تو وہ رجم کا مستحق نہ ہوگا / نہ ہوگی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ’’پاک دامنی‘‘ کی شرط نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لفظ ’’المحصنات‘‘ پر جو سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵ میں اور پھر سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں ہے۔ فقہاء تابعین اور أئمہ تفسیر و ائمہ فقہ کے درمیان اختلاف ہے جیسے دیگر فقہی مسائل میں ہے لیکن سلف میں سے کسی نے دوسرے کو اس طرح مطعون نہیں کیا ہے جس طرح غامدی صاحب نے کیا ہے۔
امام فخر الدین رازی کو دیکھیے کہ انھوں نے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں واقع ’’المحصنات‘‘ کی تفسیر میں دو قول بیان کیے ہیں: ۱۔ الحرائر (آزاد شریف زادیاں) ۲۔ العفائف (پاک دامن عورتیں) اور پہلے مفہوم الحرائر کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاک دامن معنی لینے کی صورت میں باندیوں سے نکاح جائز ہوگا، جب کہ یہ ان کے نزدیک سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵: ومن لم یستطع منکم طولا۔۔۔ الخ کے بموجب صحیح نہیں کیونکہ اس کی دو شروط ہیں کہ (۱) آدمی کے پاس مالی استطاعت نہ ہو (عدم الطول) (۲) اور حرام میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو، دوسری بات یہ کہ آیت مذکورہ میں مہر انہی کو دینے کا حکم ہے جب کہ باندی چونکہ اپنے آقا کی ملکیت ہوتی ہے اس لیے آقا کو دیا جانا چاہیے اور ایسا کیا گیا تو حکم قرآنی کی مخالفت ہوگی، تیسرے یہ کہ اس صورت میں زانیہ عورت سے نکاح جائز نہ ہوگا اور ثابت یہ ہے کہ وہ حرام نہیں ہے اگر توبہ کرلے، چوتھے یہ کہ احصان کا اشتقاق تحصُّن سے ہے اور تحصن کا ثبوت باندی کے مقابلے میں آزاد عورت کے لیے زیادہ ہے، خواہ باندی پاک دامن ہی ہو، کیونکہ وہ آزاد (شریف زادیوں) کے برخلاف اکثر باہر جاتی اور لوگوں سے ملتی ہے، ان تمام وجوہ کے پیش نظر ان (امام رازی) کے نزدیک یہاں المحصنات کے معنی ’’حرائر‘‘: آزاد شریف زادیوں کے ہیں۔

غامدی صاحب: اسالیب عربی سے لاعلم عجمی جو ایک پیراگراف صحیح نہیں لکھ سکتا حضرت عمرؓ پر طنز کرتا ہے​
لیکن انھوں نے اپنے مخالفین احناف پر جو ’’المحصنات‘‘ کے معنی اس آیت مائدہ میں ’’پاک دامن عورتیں‘‘ لیتے ہیں وہ طنز نہیں کیا جو غامدی صاحب نے ان مفسرین و فقہاء پر کیا ہے جو اس لفظ کے معنی ’’آزاد‘‘ عورتیں مراد لیتے ہیں، اور اس کے لیے استدلال سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ (ومن لم یستطع منکم طولا۔۔۔ الخ) سے کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے موصوف کے طنزیہ الفاظ ہیں:
’’فقد استدل بمالم تکن علیہ فی فحوی الآیۃ من الدلالۃ، فان الآیۃ لیس فیہا شئ بدل علی حظر نکاح الاماء فمن مارس لغۃ القرآن و نظر فی اسالیبہ علم انہ لوکان کذلک لوجب التصریح‘‘۔
آپ کو معلوم ہے کہ غامدی صاحب کی اس تغلیط اور طنز کی ضرب کس پر پڑتی ہے؟ حضرت عمرؓ پر اور حضرت ابنؓ عباسؓ کے مشہور شاگرد اور مفسر قرآن مجاہد پر اور ان کے بعد امام طبری پر جن کی ۳۰ جلدوں کی تفسیر سے ۱۲ سو سال سے مسلمان فیض یاب ہو رہے ہیں۔ کیا ان مقدس اور معتبر عرب ہستیوں کو لغت (زبان) قرآن کی فہم نہ تھی؟ اور وہ اس کے اسالیب بیان سے لاعلم تھے؟ کہ آج ایک عجمی کو جو عربی زبان کا ایک پیراگراف بھی صحیح نہیں لکھ سکتا اور اپنی عربی تحریر میں املاء اور نحوی اغلاط کا مرتکب ہوتا ہے اس کو یہ جرأت ہو کہ ان عظیم اسلاف پر طنز کرے جن کی عمریں قرآن کی شرح و بسط میں گزریں۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ امام طبری نے سورۂ مائدہ کی اس آیت میں واقع جملوں ’’والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من اہل الکتاب‘‘ کی تفسیر میں مشہور تابعی مفسر قرآن کا مجاہد قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد ’’الحرائر‘‘ (آزاد شریف زادیاں) ہیں۔ اور ساتھ ہی مختلف اسناد سے اس یمنی عورت کا قصہ دہرایا ہے، جو زنا کی غلطی کی مرتکب ہوئی تھی، پھر اس نے توبہ کرلی تھی، اور بہت نیک ہوگئی تھی لیکن اس کے اہل خانہ اس کی شادی کرانے سے خائف تھے کہ پتہ چل گیا تو کیا ہوگا، وہ اپنی مشکل حضرت عمرؓ کے پاس لے کر آئے، حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ کوئی نیک آدمی اس سے شادی کا پیغام دے تو اس سے شادی کردو، ساتھ ہی انھوں نے اس کے والد یا چچا کو جو یہ مشکل ان کے سامنے لے کر آیا تھا دھمکی دی، کہ ’’جس بری بات کی اللہ نے ستر پوشی کی تھی اس کو میرے سامنے ظاہر کرنے آئے ہو۔ خدا کی قسم تم نے اگر کسی کو اس لڑکی کے اس گناہ کی بات بتائی جس سے وہ توبہ کرچکی ہے، تو میں تمہیں ایسی سخت سزا دوں گا کہ تم یاد کرو گے، بس ایک مسلمان پاک دامن عورت کی طرح اس کی شادی کردو‘‘۔
اس کے بعد انھوں نے بعض دوسرے ان تابعی مفسرین کی رائے نقل کی ہے جو اس آیت میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ کے معنی پاک دامنوں (عفائف) کے لیتے ہیں اور اس سب کے بعد وہ پہلے قول کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس سے مراد مسلمانوں اور اہل کتاب کی آزاد (آزاد منش نہیں) عورتیں ہیں اور انھوں نے اس کے لیے دلیل یہ دی ہے کہ اللہ تعایٰ نے باندیوں سے اسی صورت میں شادی کی اجازت دی ہے جب وہ مسلمان ہوں (ومن لم یستطع منکم طولاً ان ینکح المحصنات المؤمنات فمّما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات) اور اگر یہاں دونوں جگہ المحصنات سے مراد پاک دامن عورتیں ہوں تو ان کی پاک دامن باندیاں بھی اس میں شامل ہو جائیں گی اور غیر پاک دامن آزاد اہل کتاب کی عورتیں اور آزاد مسلمان عورتیں اس سے (شادی کی اجازت سے) خارج ہوجائیں گی جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وانکوا الأیامیٰ منکم و الصالحین من عباد کم و اِمائکم‘‘۔ اپنے مجرد اشخاص (خواہ عورت خواہ مرد) کی شادی کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور نیک باندیوں کی بھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر عفیف مرد و عورت کی شادی بھی کرائی جانی چاہیے لیکن غلاموں اور باندیوں میں سے صرف ان کی جو پاک دامن ہوں۔
غامدی صاحب کا اس موقع پر ’’ومن لم یسطع منکم طولا ان ینکح المحصنات‘‘ (اور تم میں سے جس کے پاس مالی استطاعت نہ ہو کہ وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرسکے) کی تفسیر میں یہ کہنا کہ اس سے پاک دامن عورتیں ہی مراد ہیں۔ بالکل غلط ہے، کیونکہ یہاں ’’المحصنات‘‘ کے مقابلے میں فممّا ملکت ایمانکم من فتیانکم المؤمنات‘‘ (تو ایسی صورت میں مسلمان باندیوں سے جو تمہاری مملوکہ ہوں شادی کرلو) آیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ باندیوں کے مقابل (opposit) آزاد عورتیں ہی ہوسکتی ہیں، پاکدامن نہیں۔

غامدی صاحب کی ناقص زبان دانی صرفی و نحوی اغلا​
جاوید احمد غامدی صاحب کی مشکل یہ ہے کہ وہ اپنی ناقص زبان دانی اور جاہلی اشعار کے حفظ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہیں اور متقدمین مفسرین امام طبری، امام رازی اور حافظ ابن کثیر وغیرہ کی تفاسیر سے رجوع نہیں کرتے اور اس کے نتیجہ میں ایسے دعوے کرتے ہیں جو سراسر غلط ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی وہ تنقید اسلاف کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان کی تفاسیر پڑھتے ہیں تو یہ ان کا جبن ہے کہ وہ ان صحابہ، تابعین اور قدمائے مفسرین کا نام نہیں لیتے جن پر وہ طنز کرتے ہیں۔ ہم حسن ظن رکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس موقع کے لیے انھوں نے تفسیر طبری سے رجوع ہی نہیں کیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ غامدی صاحب کے بر خلاف جن ائمہ تفسیر نے سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں واقع لفظ ’’المحصنات‘‘ سے وہی معنی مراد لیے ہیں جو سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۵ میں واقع اس لفظ کے ہیںیعنی آزاد مسلمان اور آزاد اہل کتاب خواتین انہی کی رائے صحیح ہے۔اور ان میں امام شافعی بھی شامل ہیں ابو بکر الجصاص الحنفی نے اپنی کتاب ’احکام القرآن نکاح الاماء (ج ۳، ص ۱۰۹) میں سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں محصنات سے آزاد عورتیں مراد لی ہیں۔
باندیوں سے متعلق غیر ضروری اور بے فائدہ بحث کے بعد غامدی صاحب واپس سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ کی طرف آتے فرماتے ہیں: ’’فالمعنی: انہّ لماَبین ماحرم نکاحہ من النساء وکرہ وما لم بجزا کُلہ من الطعامُ احل الطیبات من الطعام والعفائف من النساء المؤمنات ومن اہل الکتاب‘‘۔
موصوف نے اپنی اس رائے کے لیے اس سے مراد پاک دامن عورتیں ہی ہیں، سورۂ مائدہ کی اس آیت کے پہلے لفظ الیوم کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ صراحۃً غلط ہے کیونکہ امام رازی کے بقول وہ لفظ الیوم سابقہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم واتمت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘ میں لفظ نعمت کی تفسیر ہے کہ جس طرح میں نے روحانی نعمت کی تکمیل اسلام کو تمہارے لیے پسند یدہ قرار دے کر کردی ہے تمہاری بدنی نعمت کی تکمیل کے لیے آج سے تم کو آزاد مسلمان اور کتابی عورتوں سے شادی کی اجازت دے کر کردی ہے۔
اس عبارت پر دو اعتراضات ہیں : ایک تو یہ کہ آیت اُحل لکم الطیبات ۔۔۔الخ‘‘ سے پہلے حرام کھانوں اور حرام جانوروں کا تو سورۂ مائدہ میں ذکر ہے۔ لیکن یہاں جن عورتوں سے نکا ح حرام ہے ان کا کوئی ذکر نہیں ان کا ذکر بہت پہلے سورۂ نساء کی آیت ۲۳ و ۲۴ میں ہے۔ دوسرے یہ کہ ’’ماحرم نکاحہ من النساء‘‘ رکیک اور غیر واضح عربی ہے صاف الفاظ میں ہونا چاہیے: لمّا تقدم ذکر ا لنساء اللاتی حرم نکاحھّن ۔۔۔ الخ یا ایسا ہی کچھ اور۔
غامدی صاحب نے یہاں باندیوں سے نکاح کا ذکر کیا ہے جو بے سود ہے، کیونکہ اب باندیوں کا دنیا میں وجود نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ سلف میں سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت سے مراد: آزاد شریف عورتیں اور پاکدامن عورتیں دونوں ہیں۔ ہر فریق کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ یہی بات ہمارے مفسرین متقدمین طبری،جصاص، زمخشری، قرطبی وغیرہ نے کہیں اختصار اور کہیں تفصیل کے ساتھ کہی ہے۔ جصاص کی احکام القرآن کی تیسری جلد میں باب المتعہ، باب نکاح الاماء اور نکاح الاماء الکتابیات میں بڑی تفصیل ہے۔
باندیوں کے نکاح سے متعلق آیت پر بحث سے ہم یہاں صرف نظر کرتے ہیں، جو بے سود اور ضیاع وقت ہے کہ اب باندیوں کا وجود ہی نہیں۔
البتہ ہم یہ وضاحت کرنا چاہیں گے کہ قرآن میں لفظ المحصنات (ص پر فتحہ) صرف آٹھ مرتبہ آیا ہے۔ ایک مرتبہ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں اور تین مرتبہ اسی سورہ کی آیت نمبر ۲۵ میں اور دو مرتبہ سورہ مائدہ آیت نمبر ۵ میں اور دو مرتبہ سورۂ نور آیت اور آیت ۲۳ میں۔
یہ لفظ ان آیات میں تین مختلف معانی میں آیا ہے۔(۱)شادی شدہ عورتیں۔ (۲)آزاد عورتیں (باندی کے مقابلے میں) ۔ (۳)پاکدامن عورتیں۔
سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں یہ بالاتفاق شادی شدہ عورتوں کے لیے آیا ہے کہ ایسی عورتوں سے شادی کرنا حرام ہے۔ اور آیت نمبر ۲۵ میں یہ دوبار آزاد شریف عورتوں کے لیے آیا ہے۔ومن لم یستطع منکم طولاً ان ینکح المحصنات فمما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنات اور اسی آیت میں آگے: فاذا اتین بفاحشۃ فعلھن نصف ما علی المحصنات من العذاب۔
سورۂ نور کی آیت نمبر ۴ : والذین یرمون المحصنات ثم لم یا توا باربعۃ شہداء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ اور آیت نمبر ۲۳: والذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات لُعنوا فی الدنیا والآخرۃ میں المحصنات بالاتفاق پاکدامن عورتوں کے لیے آیا ہے۔
لیکن سورۂ نساء کی آیت کے اس جملہ: وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات میں بعض کے نزدیک محصنات یہاں پاکدامن عورتوں کے لیے ہے اور بعض کے نزدیک اس کے معنی ہیں کہ ان سے نکاح کیا جائے جو زنا اور آشنائی نہیں چاہتیں۔ علی الاعلان زنا کرنے والیوں اور آشنائی کرنے والیوں کے مقابل میں منکوحات ہی ہوتی ہے۔ ایسا ہی اختلاف سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵ میں والمحصنات من المؤمنات والمحصنات من الذین اوتو الکتاب کے بارے میں ہے سلف میں سے ایک فریق اس کے معنی آزاد شریف عورتوں کے لیتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
غامدی صاحب صحیح و سلیس عربی لکھنے سے بھی قاصر ہیں​
اور دوسرا فریق پاک دامن مسلمان عورتیں اور پاک دامن کتابی عورتیں مراد لیتا ہے۔ دونوں کے اپنے عقلی اور نقلی دلائل ہیں۔ فریقین نے اپنے اپنے دلائل ضرور بیان کئے ہیں اور فریق مخالف کی کمزوری دکھائی ہے جیسے تفسیر و فقہ کے دوسرے مسائل میں، لیکن ان میں سے کسی نے غامدی صاحب کی طرح دوسرے پر یہ طنز نہیں کیا کہ یہ لغت قرآن اور اس کے اسلوب بیان سے بے خبر ہیں۔ یہ جسارت ان عجمی ’’علامہ‘‘ ہی کی ہے جن کا محصنات سے متعلق دو تین صفحات کا بیان بڑی رکیک اور الجھی ہوئی عربی میں ہے۔ یہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ شگفتہ و دلاویز عربی تو کیا صحیح وسلیس عربی لکھنے پر بھی قادر نہیں ہیں۔
آخر میں دلچسپ اور لایق عبرت بات یہ ہے کہ موصوف کے ’’الاستاذ الامام‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت کے جملے ’’والمحصنت من المومنت والمحصنت من الذین اوتو الکتاب‘‘ کا ترجمہ اپنے تدبر قرآن میں وہی کیا ہے جس کو جناب غلط قرار دے رہے ہیں۔ اصلاحی صاحب کا ترجمہ ہے:
’’اور شریف عورتیں مسلمان عورتوں میں سے اور شریف عورتیں ان (اہل کتاب) میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی‘‘۔
دیکھیے غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے جن کو موصوف نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا مفسر قرار دیا ہے، لفظ المحصنٰت کا یہاں وہ ترجمہ نہیں کیا ہے جس پر غامدی صاحب کو اصرار ہے یعنی پاک دامن (عفیفات)مسلمان عورتیں اور پاک دامن (عفیفات) کتابی عورتیں۔ کم از کم الاستاذ الامام‘‘ کے ترجمے کے پیش نظر ان کی اس آیت میں واقع لفظ المحصنات کی بحث تو ھباء منشور (اڑتا ہوا غبار) قرار پائے گی۔
ہم نے یہ مضمون غامدی صاحب کی چند عربی تحریروں کے زبان کے نقطۂ نظر سے تنقیدی جائزہ لینے کے لیے شروع کیا تھا۔ لیکن اس میں ان کے اور ان کے استاد الاستاد مولانا فراہی کے بعض تفسیری مباحث پر بھی گفتگو ہوگئی۔قارئین کو یہ اندازہ تو پہلے ہی ہوگیا ہوگا کہ جو شخص عربی الفاظ کا صحیح املاء نہیں لکھ سکتا، جو غلط نحوی تراکیب اور عربی کے متروک اور غیر مانوس الفاظ استعمال کرتا ہے، جن سب کی نشان دہی گزشتہ صفحات میں کردی گئی ہے۔ اس کا عربی سے متعلق دعوائے زبان دانی کیا قیمت رکھتاہے۔اور ساتھ ہی ان کی قلت نظر ان کے محدود مطالعے، ان کے غرور علم اور اسلاف کے خلاف ڈھکے چھپے انداز میں ان کی زبان درازی کی حقیقت بھی واضح ہو گئی ہوگی۔ وما تو فیقی الا باللہ ا للھم انا نعوذ بک من فتنۃ اللسان ومن فتنۃ القلم۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ شاہد نذیر بھائی ۔
اللہ آپ کی محنت قبول فرمائے ۔
یہ جو مضامین آپ دے رہےہیں یہ جس رسالے میں شائع ہوئے ہیں اس کا پی ڈی ایف مل سکتا ہے ۔ ؟
اسی طرح غامدی کے اصل مضامین جو اس نے عربی میں لکھے ہیں ان کا کوئی دہاگہ مل سکتا ہے ؟
اسی طرح رضوان علی ندوی صاحب کا کوئی تعارف وغیرہ مل سکتا ہے ؟
 
Top