غایت کے ذریعے تخصیص:
کسی چیز کی انتہا کو غایت کہتے ہیں، اس کےلیے کچھ حروف مقرر ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
۱۔ إِلی ۲۔ حتی
اور یہ غایت وہ ہے کہ جس سے پہلے والا عموم اس کے بعد والی چیز کو شامل ہوتا ہےکیونکہ یہ بعد والی چیز کو ماقبل کے عموم سے خارج کردیتا ہے۔
اس کی مثال: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿ قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيوْمِ الآخِرِ وَلا يحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يعْطُوا الْجِزْيةَ عَن يدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴾ [التوبة:29]
اہل کتاب میں سے جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں مانتے اور نہ ہی دین حق کو دین بناتے ہیں ، ان سے اس وقت تک لڑو جب تک وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھوں سے جزیہ ادا نہ کردیں۔
تو یہاں پر غایت سے پہلے لڑائی کے حکم عام ہے جو ہر حال میں ضروری ہے۔تو اگر یہاں غایت کے ذریعے تخصیص نہ ہوتی تو ہم لوگ ان اہل کتاب سے لڑائی پر مامور ہی رہتے ، چاہے وہ جزیہ دیتے یا نہ دیتے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر