• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ بدر کے قیدیوں کی تعلیم کے عوض رہائی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سلام علیکم جناب عرض یہ ہے کہ ایک معاملہ میں آپکی رہنمائی چاہیے وہ یہ کہ اس بات کی تصدیق کر دیں کہ غزوۃ بدر کے قیدیوں کو بطور تاوان یہ کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کو دنیاوی علم سیکھا دیں؟
Sent from my CPH1701 using Tapatalk
و علیکم السلام ۔
جی ، قیدیوں میں کچھ قتل کیے گئے ، کچھ سے فدیہ لیا گیا ، جن کے پاس فدیہ نہیں تھا ، ان سے کہا گیا کہ انصاری بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ۔ تعلیم کے مقابلے میں آزادی والی روایت مسند احمد ، مستدرک حاکم ، سنن بیہقی وغیرہ میں موجود ہے ، سند میں کچھ ضعف ہے ، لیکن بعض علما نے شواہد وغیرہ کی بنا پر اس کی تحسین کی ہے ۔
دیکھیے ، مسند احمد ( حدیث نمبر 2216)ط مؤسسۃ الرسالۃ ۔
السیرۃ النبویۃ کما جاءت فی الأحادیث الصحیحۃ ( ج 2 ص 149 )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مسند أحمد ط الرسالة (4/ 92) :
2216 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ (1) : حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ نَاسٌ مِنَ الْأَسْرَى يَوْمَ بَدْرٍ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ فِدَاءٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِدَاءَهُمْ أَنْ يُعَلِّمُوا أَوْلَادَ الْأَنْصَارِ الْكِتَابَةَ " قَالَ: فَجَاءَ غُلَامٌ يَوْمًا يَبْكِي إِلَى أَبِيهِ، فَقَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: ضَرَبَنِي مُعَلِّمِي قَالَ: الْخَبِيثُ، يَطْلُبُ بِذَحْلِ بَدْرٍ وَاللهِ لَا تَأْتِيهِ أَبَدًا (2)
2217 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَ أُحُدٍ بِالشُّهَدَاءِ أَنْ يُنْزَعَ عَنْهُمِ الْحَدِيدُ وَالْجُلُودُ، وَقَالَ: " ادْفِنُوهُمْ بِدِمَائِهِمْ وَثِيَابِهِمْ " (3)
(2) حسن، علي بن عاصم -وإن كان فيه ضعف- قد توبع، ومن فوقه ثقات من رجال الصحيح. داود: هو ابن أبي هند.
وأخرجه البيهقي 6/322 من طريق علي بن عاصم وخالد بن عبد الله، كلاهما عن داود بن أبي هند، بهذا الإسناد.
وروى ابن سعد في "الطبقات" 2/22 من طرق عن عامر الشعبي قال: كان فداء أسارى بدر أربعة آلاف إلى ما دون ذلك، فمن لم يكن عنده شيء أمر أن يعلم غلمان الأنصار الكتابة. وهذا مرسل. وانظر "أقضية الرسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لابن الطلاع ص 199-200.
والذحْل: الثأر أو العداوة والحقد، والجمع: أذحال وذُحول.
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
و علیکم السلام ۔
جی ، قیدیوں میں کچھ قتل کیے گئے ، کچھ سے فدیہ لیا گیا ، جن کے پاس فدیہ نہیں تھا ، ان سے کہا گیا کہ انصاری بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ۔ تعلیم کے مقابلے میں آزادی والی روایت مسند احمد ، مستدرک حاکم ، سنن بیہقی وغیرہ میں موجود ہے ، سند میں کچھ ضعف ہے ، لیکن بعض علما نے شواہد وغیرہ کی بنا پر اس کی تحسین کی ہے ۔
دیکھیے ، مسند احمد ( حدیث نمبر 2216)ط مؤسسۃ الرسالۃ ۔
السیرۃ النبویۃ کما جاءت فی الأحادیث الصحیحۃ ( ج 2 ص 149 )
لکھنا پڑھنا سیکھنے والی بات ہی درست اور "سمجھ میں آنے والی" بھی ہے۔
اصل میں اس حدیث کے حوالہ سے لوگ یہ "جواز" پیش کرتے ہیں کہ کفار سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا "درست" ہے۔ اور کافر کوئی دینی تعلیم تو دینے سے رہے۔ جبکہ حقیقت میں ان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھلایا تھا نہ کہ کوئی تعلیم دی تھی
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
@یوسف ثانی
السلام علیکم
پڑھنا لکھنا سکھانا بھی تو تعلیم کے معنی میں ہی آئے گا۔
ان کو وہ علم ملا جو وہ نہیں جانتے تھے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
@یوسف ثانی
السلام علیکم
پڑھنا لکھنا سکھانا بھی تو تعلیم کے معنی میں ہی آئے گا۔
ان کو وہ علم ملا جو وہ نہیں جانتے تھے۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کی بات "اپنی جگہ درست" ہے۔ لیکن آپ میری بات نہیں سمجھے۔ جسے لکھنا پڑھنا نہیں آتا ،اسے "ناخواندہ" کہتے ہیں۔ خواندگی یعنی لٹریسی ایک الگ چیز ہے اور تعلیم یافتہ ہونا، کسی بھی شعبہ میں کسی بھی درجہ تک، یہ الگ چیز ہے۔ کسی بھی شعبہ میں ابتدائی یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پہلے کسی بھی زبان میں لکھنا پڑھنا (خواندہ ہونا) سیکھنا پڑتا ہے۔ پھر اسی خواندگی کی "مدد " سے کسی شعبہ (دینی، غیر دینی، کفریہ، شرکیہ، طب، انجیئنرنگ، سماجی علوم وغیرہ وغیرہ) کی "رسمی تعلیم" حاصل کی جاتی ہے۔ گویا اگر کافر اساتذہ سے اپنے بچوں کو صرف خواندہ ہونا سکھلایا جائے تواس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کہ ایسا کافر استاد مسلمان بچوں کو غیر اسلامی یعنی کفریہ اور شرکیہ علوم سکھلا سکے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لکھنا پڑھنا سیکھنے والی بات ہی درست اور "سمجھ میں آنے والی" بھی ہے۔
اصل میں اس حدیث کے حوالہ سے لوگ یہ "جواز" پیش کرتے ہیں کہ کفار سے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا "درست" ہے۔ اور کافر کوئی دینی تعلیم تو دینے سے رہے۔ جبکہ حقیقت میں ان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھلایا تھا نہ کہ کوئی تعلیم دی تھی
اگر مثالوں پر غور کرلیں ، تو مزید بات کھل کر سامنے آجائے گی ، مثلا حضرت زید بن ثابت کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسی وقت ’ لکھنا پڑھنا ‘ سیکھا تھا ۔ اور پھر بعد میں کاتب وحی مقرر ہوئے ۔
اگر آج کل کی غیر مسلموں والی تعلیم ہوتی ، کاتب وحی کی بجائے ’ معارض وحی ‘ بن کر آتے ، چند سالوں پر مکہ فتح نہ ہوتا ، بلکہ اہل مدینہ ’ روشن خیال ‘ اور ’ دقیانوس ‘ دو دھڑوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہوتے ۔
تعلیم کے دو مقصد ہوتے ہیں : اہلیت پیدا کرنا ، کردار سازی کرنا ۔ کسی بھی فن یا پیشہ کی مہارت کسی سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، چاہے کوئی کافر ہو یا مسلمان ، اس شرط کے ساتھ کہ یہ تعلیم اس کے ’ کردار ‘ پر اثر انداز نہیں ہوگی ۔
 
Top