• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ حنین اور وفد بنو ہوازن

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیوخ محترم اس روایت کا ترجمہ اور تحقیق درکار ہے
أن النبيﷺ أخذ وبرة من بعيرة وقال أيها الناس إنه لا يحل لي بعد الذى فرض الله لي ولا لأحد من مغانم المسلمين مايزن هذه الوبرة
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

غزوہ حنین سنۃ ۸ھ اور وفد بنو ہوازن

آپ نے جو عبارت ترجمہ کیلئے پیش کی ہے ،یہ عبارت دراصل غزوہ حنین سنۃ ۸ہجری کے بعد قبیلہ بنو ہوازن کے وفد کے موقع پر نبی مکرم ﷺ کی زبان اقدس سے صادر ہونے والے سنہرے الفاظ ہیں ،جو آپ کی سیرت طیبہ کی ایک تاباں جھلک ہے ،اور اسلام کے عدل و انصاف کی ایک مثال ہے ؛
أن النبيﷺ أخذ وبرة من بعيرة وقال أيها الناس إنه لا يحل لي بعد الذى فرض الله لي ولا لأحد من مغانم المسلمين مايزن هذه الوبرة ‘‘
ترجمہ : پیا
رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کے کے کوہان سے ایک بال لیا اور اسےپکڑا (اور اسے بلند کر کے ) فرمایا لوگو ! اللہ تعالی نے اموال غنیمت سے میرے لیئے جو حصہ( خمس ) مقرر فرمایا ہے اس کے علاوہ اس مال غنیمت میں سے میرے لئے اور کسی اور کیلئے اس بال کے برابر بھی حلال نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سنہرے تاریخی الفاظ کا پس منظر مختلف احادیث صحیحہ میں بیان ہوا ہے ،پہلے صحیح بخاری سے دیکھئے :
صحیح بخاری میں ہے کہ :
عن ابن شهاب، قال وزعم عروة أن مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، أخبراه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسألوه أن يرد إليهم أموالهم وسبيهم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أحب الحديث إلى أصدقه‏.‏ فاختاروا إحدى الطائفتين إما السبى، وإما المال، وقد كنت استأنيت بهم‏"‏‏. ‏ وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة، حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين قالوا فإنا نختار سبينا‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏أما بعد فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم، فمن أحب منكم أن يطيب بذلك فليفعل، ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل‏"‏‏. ‏ فقال الناس قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إنا لا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم‏"‏‏. ‏ فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا‏.
ترجمہ :
امام ابن شہاب الزہریؒ فرماتے ہیں کہ :مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔
پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔
اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشریح : غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے:

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (26)
( التوبۃ : 25-26 )
یعنی اللہ تعالیٰ نے بہت سی جگہوں میں تمہاری مدد کی، اورغزوہ حنین کے دن بھی مدد کی ، جبکہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا مگر وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دیکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے ،(۲۵)
پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں کو اپنی طرف سے تسکیں عطا کی، اور ایسے لشکر بھیجے جسے تم لوگوں نے نہیں دیکھا، اور کافروں کو سزا دی، اور کافروں کی یہی سزا ہوتی ہے (۲۶)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنن ابوداود میں اس غزوہ کے بعد کا حال اس طرح بیان ہوا ہے :

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده في هذه القصة، قال: ف قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ردوا عليهم نساءهم وأبناءهم، فمن مسك بشيء من هذا الفيء، فإن له به علينا ست فرائض من أول شيء يفيئه الله علينا»، ثم دنا - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - من بعير، فأخذ وبرة من سنامه، ثم قال: «يا أيها الناس، إنه ليس لي من هذا الفيء شيء، ولا هذا - ورفع أصبعيه - إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فأدوا الخياط والمخيط». فقام رجل في يده كبة من شعر فقال: أخذت هذه لأصلح بها برذعة لي. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما ما كان لي ولبني عبد المطلب فهو لك». فقال: أما إذ بلغت ما أرى فلا أرب لي فيها ونبذها
(سنن ابی داود 2694 )
ترجمہ : سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے سلسلے میں بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجاہدین صحابہ سے ) فرمایا ” ان لوگوں کی عورتیں اور بچے انہیں لوٹا دو اور جو کوئی بلا عوض واپس نہ کرنا چاہے تو ہمارا اس سے وعدہ ہے کہ پہلی پہلی غنیمت جو اﷲ تعالیٰ ہمیں عنایت فرمائے گا اس میں سے چھ اونٹ اسے دیے جائیں گے ۔ “ پھر آپ اپنے اونٹ کے قریب ہوئے اور اس کے کوہان سے کچھ بال لیے اور فرمایا ” لوگو ! اس غنیمت میں سے میرے لیے خمس ( پانچویں حصے ) کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس قدر ( بال ) بھی نہیں ۔ “ اور آپ نے اشارہ کرتے ہوئے اپنی انگلی بلند فرمائی ۔
اور فرمایا ” یہ خمس بھی تم لوگوں ہی میں تقسیم ہو گا لہٰذا سوئی اور دھاگے تک واپس کر دو ۔ “
چنانچہ ایک آدمی کھڑا ہوا ‘ اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک گچھا سا تھا وہ بولا : میں نے یہ بال لیے ہیں تاکہ پالان کے نیچے کی گدی درست کر لوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو میرا ذاتی حصہ ہے یا بنی عبدالمطلب کا ‘ وہ تم لے سکتے ہو ( دوسروں کا نہیں ) ۔ “ اس نے کہا : اگر اس کا اتنا گناہ ہے جو میں دیکھ رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں اور اس نے گچھا پھینک دیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سنن ابوداود میں اس واقعہ کی دوسری روایت یوں منقول ہے ؛
عمرو بن عبسة، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى بعير من المغنم، فلما سلم أخذ وبرة من جنب البعير، ثم قال: «ولا يحل لي من غنائمكم مثل هذا إلا الخمس، والخمس مردود فيكم»
سنن ابی داود ۲۷۵۵
ترجمہ : سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی ‘ غنیمت کا ایک اونٹ ( بطور سترہ ) آگے تھا ‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ کے پہلو سے کچھ بال لیے پھر فرمایا ” اور تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اس قدر بھی حلال نہیں سوائے پانچویں حصے کے ‘ اور وہ پانچواں حصہ بھی پھر تم ہی میں واپس ہو جاتا ہے ۔ “


وفي مسند أحمد من حديث عبد الله بن عمرو [رواه أحمد: 6729، وحسنه الألباني السلسلة الصحيحة: 1973].



عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين وجاءته وفود هوازن، فقالوا: يا محمد إنا أصل وعشيرة، فمن علينا، من الله عليك، فإنه قد نزل بنا من البلاء ما لا يخفى عليك، فقال: " اختاروا بين نسائكم وأموالكم وأبنائكم "، قالوا: خيرتنا بين أحسابنا وأموالنا، نختار أبناءنا، فقال: " أما ما كان لي ولبني عبد المطلب،
فهو لكم، فإذا صليت الظهر، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله صلى الله عليه وسلم (1) على المؤمنين، وبالمؤمنين على رسول الله صلى الله عليه وسلم (2) في نسائنا وأبنائنا " قال: ففعلوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أما ما كان لي ولبني عبد المطلب، فهو لكم "، وقال المهاجرون: وما كان لنا، فهو لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقالت الأنصار مثل ذلك، وقال عيينة بن بدر: أما ما كان لي ولبني فزارة، فلا، وقال الأقرع بن حابس: أما أنا وبنو تميم، فلا، وقال عباس بن مرداس: أما أنا وبنو سليم، فلا، فقالت الحيان: كذبت، بل هو لرسول الله صلى الله عليه وسلم (2) ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم (2) : " يا أيها الناس، ردوا عليهم نساءهم وأبناءهم (3) ، فمن تمسك بشيء من الفيء، فله علينا ستة فرائض من أول شيء يفيئه الله علينا " ثم ركب راحلته، وتعلق به الناس، يقولون: اقسم علينا فيئنا بيننا، حتى ألجئوه إلى سمرة فخطفت رداءه، فقال: " يا أيها الناس، ردوا علي ردائي، فوالله لو كان لكم بعدد شجر تهامة نعم لقسمته بينكم، ثم لا تلفوني (4) بخيلا ولا جبانا ولا كذوبا " ثم دنا من بعيره فأخذ وبرة من سنامه فجعلها (5) بين أصابعه السبابة والوسطى، ثم رفعها، فقال: " يا أيها الناس، ليس لي من هذا الفيء هؤلاء هذه (1) ، إلا الخمس، والخمس مردود عليكم، فردوا الخياط والمخيط، فإن الغلول يكون على أهله يوم القيامة، عارا ونارا وشنارا " فقام رجل معه كبة من شعر، فقال: إني أخذت هذه أصلح بها بردعة (2) بعير لي (3) دبر، قال: " أما ما كان لي ولبني عبد المطلب، فهو لك " فقال الرجل: يا رسول الله، أما إذ (4) بلغت ما أرى فلا أرب لي بها (5) ، ونبذها

ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر جب بنو ہوازن کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں بھی وہاں موجود تھا وفد کے لوگ کہنے لگے اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم اصل میں نسل اور خاندانی لوگ ہیں آپ ہم پر مہربانی کیجئے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا اور ہم پر جو مصیبت آئی ہے وہ آپ پر مخفی نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی عورتوں اور بچوں اور مال میں سے کسی ایک کو اختیار کرلو وہ کہنے لگے کہ آپ نے ہمیں ہمارے حسب اور مال کے بارے میں اختیار دیا ہے ہم اپنی اولاد کو مال پر ترجیح دیتے ہیں،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہوگا وہی تمہارے لئے ہوگا جب میں ظہر کی نماز پڑھ چکوں تو اس وقت اٹھ کر تم لوگ یوں کہنا کہ ہم اپنی عورتوں اور بچوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے سامنے اور مسلمانوں سے نبی کریم ﷺ کے سامنے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے ہے، مہاجرین کہنے لگے کہ جو ہمارے لئے ہے وہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے انصار نے بھی یہی کہا عیینہ بن بدر کہنے لگا کہ جو میرے لئے اور بنو فزارہ کے لئے ہے وہ نہیں، اقرع بن حابس نے کہا کہ میں اور بنو تمیم بھی اس میں شامل نہیں عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی اس میں شامل نہیں ان دونوں قبیلوں کے لوگ بولے تم غلط کہتے ہو یہ نبی کریم ﷺ کے لئے ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو ! انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس کردو جو شخص مال غنیمت کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے پاس سے پہلا جو مال غنیمت آئے گا اس میں سے اس کے چھ حصے ہمارے ذمے ہیں۔ یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوگئے اور کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے درمیان مال غنیمت تقسیم کر دیجئے یہاں تک کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ببول کے ایک درخت کے نیچے پناہ لینے پر مجبور کردیا اسی اثنا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رداء مبارک بھی کسی نے چھین لی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری چادر مجھے واپس دے دو ، واللہ اگر تہامہ کے درختوں کی تعداد کے برابر جانور ہوتے تب بھی میں انہیں تمہارے درمیان تقسیم کردیتا پھر بھی تم مجھے بخیل بزدل یا جھوٹا نہ پاتے اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اونٹ کے قریب گئے اور اس کے کوہان سے ایک بال لیا اور اسے اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے پکڑا اور اسے بلند کر کے فرمایا لوگو ! خمس کے علاوہ اس مال غنیمت میں میرا کوئی حصہ نہیں یہ بال بھی نہیں اور خمس بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے اس لئے اگر کسی نے سوئی دھاگہ بھی لیاہو تو وہ واپس کردے کیونکہ مال غنیمت میں خیانت قیامت کے دن اس خائن کے لئے باعث شرمندگی اور جہنم میں جانے کا ذریعہ اور بدترین عیب ہوگی۔ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا جس کے پاس بالوں کا ایک گچھا تھا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ اس لئے لئے ہیں تاکہ اپنے اونٹ کا پالان صحیح کرلوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے لئے اور بنو عبدالمطلب کے لئے ہے وہی تمہارے لئے بھی ہے وہ کہنے لگا یا رسول اللہ ! جب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں اور اس نے اسے پھینک دیا۔‘‘
(مسند امام احمد وسندہ حسن)
 
Top