• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غني شاكر خير من عَبْدًا فقير

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
غني شاكر خير من عَبْدًا فقير

اس حدیث کی سند؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
غني شاكر خير من عَبْدًا فقير

اس حدیث کی سند؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــ
حسب استطاعت تلاش کے باوجود خاص ان الفاظ سے کوئی حدیث نہیں مل سکی ،
البتہ یہ بات (یعنی : شکر گزار مالدار بہتر ہے یا صابر فقیر ؟ ) صدیوں سے زیر بحث ہے ، اس پر بہت کچھ لکھا گیا ؛
بطور نمونہ دو تین مضمون پیش ہیں :
ـــــــــــــــــــــــ
امام ابن تیمیہؒ اپنی مشہور کتاب (الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان ) میں لکھتے ہیں :
"ويتنازعون أيضا أيهما أفضل، الغني الشاكر، أو الفقير الصابر؟.
الناس معادن وتفاضلهم بالتقوى
وهذه المسألة فيها نزاع قديم، بين الجنيد وبين أبي العباس بن عطاء، وقد روي عن أحمد بن حنبل فيها روايتان، والصواب في هذا كله ما قاله الله تبارك وتعالى، حيث قال: {يا أيها الناس إنا خلقناكم من ذكر وأنثى وجعلناكم شعوبا وقبائل لتعارفوا إن أكرمكم عند الله أتقاكم}
وفي الصحيح «عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، أنه سئل: أي الناس أفضل؟ قال: (أتقاهم) قيل له: ليس عن هذا نسألك، فقال: يوسف نبي الله، ابن يعقوب نبي الله، ابن اسحاق نبي الله، ابن إبراهيم خليل الله.
فقيل له: ليس عن هذا نسألك.
فقال: عن معادن العرب تسألوني؟ الناس معادن كمعادن الذهب والفضة، خيارهم في الجاهلية خيارهم في الاسلام، إذا فقهوا» .
فدل الكتاب والسنة أن أكرم الناس عند الله أتقاهم.
وفي السنن عن النبي صلى أنه قال: «لا فضل لعربي على عجمي، ولا لعجمي على عربي، ولا لأسود على أبيض، ولا لأبيض على أسود إلا بالتقوى، كلكم لآدم وآدم من تراب» .
وعنه أيضا صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إن الله تعالى أذهب عنكم عبية الجاهلية، وفخرها بالآباء، الناس رجلان: مؤمن تقي، وفاجر شقي» .
فمن كان من هذه الأصناف اتقى لله، فهو أكرم عند الله، وإذا استويا في التقوى، استويا في الدرجة "

اس میں بھی اختلاف ہوا ہے کہ شکر گزار غنی بہتر ہے یا صبر کرنے والا فقیر اور اس مسئلے میں قدیم سے نزاع چلا آتا ہے۔ جنید رحمہ اللہ اور ابوالعباس ابن عطاء کے درمیان بھی یہ اختلاف ہوا۔ احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے اس معاملہ میں دو روایتیں ہیں اور ان سب اُمور میں صحیح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ﴿١٣﴾
الحجرات

’’لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں بڑا پرہیز گار ہے۔‘‘

صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون لوگ افضل ہیں؟ فرمایا، جو تمام لوگوں سے زیادہ پرہیزگار ہوں۔ عرض کی گئی کہ ہم یہ نہیں پوچھتے۔ فرمایا یوسف نبی اللہ ابن یعقوب نبی اللہ ابن اسحاق نبی اللہ، ابن ابراہیم خلیل اللہ افضل ہیں۔‘‘ پھر عرض کی گئی کہ ’’ہم یہ نہیں پوچھتے‘‘ تو فرمایا کہ ’’عرب کے خانوادوں کے متعلق پوچھتے ہو؟‘‘

اَلنَّاسُ مَعَادِنُ کَمَعَادِنِ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ خِیَارُھُمْ فیِ الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِی الْاِسْلَامِ اِذَا فَقُھُوْا۔
(بخاری کتاب الانبیاء ، باب قول اللہ تعالیٰ لقد کان فی یوسف و اخوتہ اٰیات للسائلین۔ مسلم: کتاب الفضائل باب من فضائل یوسف علیہ السلام حدیث ۲۳۷۸)
’’لوگوں کی مثال بھی سونے چاندی کی کانوں جیسی ہے ان میں سے جو لوگ جاہلیت کے زمانے میں سب سے بہتر تھے ان کو جب سمجھ آجائے تو اسلام میں بھی سب سے بہتر ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
تو اس طرح کتاب و سنت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ : جو سب سے بڑھ کر صاحب تقویٰ ہے وہی زیادہ لائق تکریم ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــــ---ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب حنفی صوفی نکتہ نظر بھی دیکھ لیجئے :
علامہ قطب دہلوی کی کتاب ’’ مظاہر حق ‘‘ شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان
بَابُ فَضْلِ الْفُقَرَاءِ وَمَا كَانَ مِنْ عَيْشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فقراء کی فضیلت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی کا بیان


" فقراء" فقیر کی جمع ہے جس کے معنی ہی مفلس، محتاج، غریب اور " فضیلت" سے مراد اجر و ثواب کی کثرت ہے۔ لہٰذا فقراء کی فضیت کے بیان کا مطلب ان احادیث کو نقل کرنا ہے جن سے یہ واضح ہوگا کہ جو لوگ اپنی غربت و افلاس اور محتاجگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے متعلقین کی معاشی زندگی کی سختیوں کو صبر و سکون کے ساتھ جھیلتے ہیں اور تمام مشکلات کا مقابلہ نہایت عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہوئے توکل و قناعت اختیار کرتے ہیں اور تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہتے ہیں ان کو کتنا زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے اور وہ آخرت میں کتنا بڑا درجہ پائیں گے۔
" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی' سے مراد آپ کے کھانے پینے، رہن سہن اور بسر اوقات کا وہ معیار اور طور طریقہ ہے جو غرباء اور فقراء کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جس کو کفات (بقدر ضرورت) کہا جا سکتا ہے، عنوان بالا میں " فقراء کی فضیلت" اور " حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاشی زندگی" کو ایک ساتھ ذکر کرنے اور دونوں سے متعلق احادیث و مضمون کو ایک باب میں نقل کرنے میں جو خاص حکمت ہے وہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اکثر انبیاء اولیاء کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار زندگی اور بسر اوقات بھی غرباء و فقراء کی طرح تھا، یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشحال زندگی اختیار کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی زندگی اس طرح بسر کرتے تھے جس طرح کوئی غریب و مفلس شخص بسر کرتا ہے اور اپنے متعلقین کی کفالت اسی تنگی اور سخت کوشی و جانکاہی کے ساتھ کرتے تھے جو غریب و نادار لوگوں کا معمول ہے، چنانچہ غریب و نادار مومن کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے یہی بات بہت کافی ہے۔
واضح رہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ صبر و رضا اختیار کرنے والا غریب و مفلس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا شکر گزار غنی و خوشحال شخص؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شکر گزار غنی زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ سے اکثر وہ چیزیں عمل میں آتی ہیں جو صدقہ و خیرات اور مالی انفاق و ایثار یعنی زکوۃ قربانی اور نیک کاموں میں خرچ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب و نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں نیز حدیث میں بھی اغنیاء کی تعریف میں یوں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آیت (ذالک فضل اللہ یؤ تیہ من یشاء) یعنی یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اکثر حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والا غریب و مفلس زیادہ فضیلت رکھتا ہے جس کی ایک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معیار زندگی اغنیاء کے مطابق نہیں تھا بلکہ غرباء اور مفلسوں کی طرح تھا نیز اس باب میں جو احادیث منقول ہوں گی وہ سب بھی ان حضرات کے قول کی دلیل ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اختلافی اقوال کا تعلق دراصل مطلق فقر اور غنا کی حقیقت و ماہیت سے ہے اور اس کا اعتبار بھی وجوہ کے مختلف ہونے پر ہے۔
چنانچہ ایک شخص کے حق میں کبھی تو غنا یعنی دولتمندی ، خیر و بھلائی کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی اس کا فقیر و مفلس ہونا ہی اس کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر مہربان ہوتا ہے تو اس کو وہی چیز دیتا ہے جو اس کے حق میں صلاح و فلاح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواہ فقر ہو یا غنا، اور خواہ صحت ہو یا تندرستی! یہی حکم کہ اختلاف وجوہ کی بنا پر ایک ہی چیز کبھی افضل ہو سکتی ہے اور کبھی مفضول ان تمام صفات کا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
حضرت شیخ المشائخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ صبر کرنے والا مفلس بہت رہے یا شکر گزار دولتمند؟ تو انہوں نے فرمایا کہ شکر گزار فقیر دونوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے اس جواب کے ذریعہ گویا فقر و افلاس کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا کہ فقر افلاس درحقیقت ایک نعمت ہے کہ اس پر شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ وہ کوئی مصیبت و بلا ہے جس پر صبر کیا جائے، شیخ عالم عارف ربانی اور ولی اللہ حضرت عبدالوہاب متقی رحمہ اللہ اپنے شیخ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے جب تک ہم سے فقر و افلاس کی فضیلت کا اقرار و اعتراف نہیں کرا لیا اس وقت تک ہمیں بیعت نہیں کیا، چنانچہ فرمایا کہ اس طرح کہو الفقر افضل من الغناء فقر و افلاس، غنا سے بہتر ہے جب ہم نے اس بات کو دہرایا تب انہوں نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہمیں مرید کہا ۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ اصلاح شریعت میں " فقیر " کا وہ مفہوم مراد نہیں ہوتا جو عام طور پر معروف ہے یعنی گدا گر بھکاری اور منگتا، بلکہ اس لفظ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کو عرف عام میں " غریب و مفلس" کہا جاتا ہے اور جو مال و اسباب سے تہی دست ہوتا ہے اسلام کی مذہبی کتابوں اور احکام و مسائل میں ایسے شخص کے لئے عام طور پر دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک تو " فقیر" دوسرے " مسکین" ، چنانچہ بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ " فقیر " کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو نصاب یعنی اس قدر مال و اسباب کا مالک نہ ہو جس کی وجہ سے اس پر زکوۃ و فطرہ واجب ہوتا ہو، یا اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے جو بس ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر مال و اسباب رکھتا ہو اور اس سے زائد اس کے پاس اور کچھ نہ ہو جب کہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ نصاب کا مالک نہ ہو بلکہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو یہاں تک کہ وہ ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر بھی مال و اسباب نہ رکھتا ہو، اور بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے۔ بہرحال عنوان میں جو لفظ " فقراء" استعمال کیا گیا ہے اس سے فقیر اور مسکین دونوں مراد ہیں۔
http://www.hadithurdu.com/09/9-4-1155/
__________________________

اور دوسرے مقام پر ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
عن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يحب العبد التقي الغني الخفي . رواه مسلم .
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند کرتا ہے جو متقی و غنی اور گوشہ نشین ہو۔ (مسلم) اور حضرت ابن عمر کی روایت لاحسد الا فی اثنین فضائل قرآن کے باب میں نقل کی جا چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشریح
" متقی" اس شخص کو کہتے ہیں جو ممنوع چیزوں سے اجتناب کرے یا یہاں " متقی" سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال و زر کو بڑے کاموں اور عیش و تفریح میں خرچ نہ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ متقی سے مراد وہ شخص ہے جو حرام اور مشتبہ امور سے کلیۃ اجتناب کرے اور ان چیزوں سے بھی احتیاط و پرہیز کرے جن کا تعلق خواہشات نفس اور مباحات سے ہے۔ اور " غنی" سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو ۔ لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ " غنی" سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو! لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ " غنی" سے مراد وہی شخص ہے جو مال و دولت رکھتا ہو ، اور یہ بات دل کے غنی ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ غناء کے باب میں وہی شخص اصل اور کامل ترین ہے جو ظاہری مال و دولت کے ساتھ دل کا غنا بھی رکھتا ہو اور جس کے ذریعہ ہاتھ کے غنا کا وہ تقاضا بھی پورا ہوتا ہے جو دنیا و آخرت میں مراتب و درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے اس صورت میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہاں غنی سے مراد اصل میں شکر گزار مالدار ہے!

چنانچہ بعض حضرات نے اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ شکر گزار مالدار، صبر اختیار کرنے والے فقیر و مفلس سے افضل ہے۔ اگرچہ یہ قول (کہ شاکر غنی، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) اس قول کے خلاف ہے جس کو زیادہ صحیح اور قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے (اور وہ یہ کہ صابر فقیر، شاکر غنی ، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) چنانچہ اس بارے میں تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔
" خفی" سے مراد یا تو گوشہ نشین ہے، یعنی وہ شخص جو سب سے ترک تعلق کے ذریعہ یکسوئی اور تنہائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہے، یا یہ کہ پوشیدہ طور پر خیر و بھلائی کرنے والا مراد ہے، یعنی وہ شخص کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کے لئے نیک کاموں اور اپنے مال کو خرچ کرنے میں اس طرح راز داری اختیار کرے کہ کسی کو اس کا علم نہ ہو، اس صورت میں" خفی" کا اطلاق مفلس و نادار شخص پر بھی ہو سکتا ہے اور یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے ویسے یہ لفظ حائے مہملہ کے ساتھ یعنی " حفی" بھی روایت کیا گیا ہے جس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو حق کے معاملہ میں نرمی و مہربانی اور احسان کرے، لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ لفظ " خفی" ہے جس کی وضاھت پہلے کی گئی! واضح رہے کہ یہ حدیث ان لوگوں کی بھی دلیل ہے جو یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرنا، ان کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن رکھنے سے افضل ہے ، لیکن جو حضرات ، لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن کو ترک تعلق اور کنارہ کشی سے افضل قرار دیتے ہیں۔ انہوں یہ تاویل کی ہے کہ گوشہ نشینی کا افضل اور پسندیدہ ہونا اس صورت کے ساتھ خاص ہے جب کہ فتنوں کا زور ہو اور لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن اختیار کرنے سے دین و آخرت کے معاملات پر برا اثر پڑتا ہو اور ایمان و عمل میں رخنہ اندازی ہوتی ہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس موضوع پر امام ابن قیمؒ کی ایک تحریر بھی توجہ لائق ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال الإمام المحقق ابن القيم رحمه الله في عدة الصابرين:
"وهذه هى مسألة الغنى الشاكر والفقير الصابر أيهما أفضل وللناس فيها ثلاثة أقوال وهى التى حكاها أبو الفرج ابن الجوزى وغيره فى عموم الصبر والشكر أيهما أفضل وقد احتجت كل فرقة بحجج وأدلة على قولها

والتحقيق أن يقال أفضلهما أتقاهما لله تعالى فان فرض استوائهما فى التقوى استويا فى الفضل فان الله سبحانه لم يفضل بالفقر والغنى كما لم يفضل بالعافيه والبلاء وانما فضل بالتقوى كما قال تعالى ان أكرمكم عند الله أتقاكم وقد قال لا فضل لعربى على عجمى ولا فضل لعجمى على عربى الا بالتقوى الناس من آدم وآدم من تراب والتقوى مبنيه على أصلين الصبر والشكر وكل من الغنى والفقير لا بد له منهما فمن كان صبره وشكره أتم كان أفضل فان قيل فاذا كان صبر الفقير أتم وشكر الغنى أتم فأيهما أفضل
قيل أتقاهما لله فى وظيفته ومقتضى حاله ولا يصح التفضيل بغير هذا البته فان الغنى قد يكون أتقى لله فى شكره من الفقير فى صبره وقد يكون الفقير أتقى لله فى صبره من الغنى فى شكره فلا يصح أن يقال هذا بغناه أفضل ولا هذا بفقره أفضل ولا يصح أن يقال هذا بالشكر أفضل من هذا بالصبر ولا بالعكس لأنهما مطيتان للايمان لا بد منهما بل الواجب أن يقال أقومهما بالواجب والمندوب هو الافضل فان التفضيل تابع لهذين الأمرين كما قال تعالى فى الاثر الالهى ما تقرب الى عبدى بمثل مداومة ما افترضت عليه ولا يزال عبدى يتقرب الى بالنوافل حتى أحبه فأى الرجلين كان أقوم بالواجبات وأكثر نوافل كان أفضل"
(مصدر :
مُلْتَقَى أَهْلِ الْحَدِيْثِ
 
Top