میں نے واقعتا آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کی وضاحت کے بعد جواب لکھوں گا لیکن اب میں معذرت کے ساتھ اپنی لا علمی کا اعتراف کرتا ہوں ۔اگر آپ صرف ناقل ہیں تو آپ کو چاہیے تھا کہ اپنے اشکالات کو مناسب الفاظ میں یہاں رکھتے تاکہ آپ کی مناسب رہنمائی کی جاتی ۔
اور اگر آپ ناقل نہیں ہیں تو پھر بھی ذرا کھل کر بتا دیں تاکہ ۔۔۔۔۔۔۔ اہل فن آپ آکے ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کر سکیں ۔
اگر آپ ناقل ہیں لیکن ایک مناظرے کا سما پیداکرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی جس کے آپ نے یہ الفاظ یہاں نقل کیے ہیں ان کو بھی یہاں آنے کی زحمت دیں ۔ آپ یہ تو جانتے ہوں گے مناظر کی بات بلا واسطہ مناظر سے ہی ہوتی ہے نہ کہ فریقین سے تماشائی درمیان میں واسطہ ہوتے ہیں ۔
باقی جو کچھ مسائل کا حکم پوچھا گیا ہے وہ عبد العلام بھائی کی طرف سے وضاحت کے بعد ہی مناسب انداز میں بیان کیا جائے گا
جناب اگر کسی کے قول اور فعل میں تضاد ہو تو اس کو کیا کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر کسی جگہ حکم قرآن وسنت سے واضح ہو تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔ اوراسی طرح یہ بات بالأولی ناممکن ہے کہ کسی ایسی چیز کا جو مظہر شرع ہے مثبت شرع کے مخالف استعمال کیا جائے ۔
اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ لا اجتہاد مع النص ۔
کیونکہ نص کی موجودگی میں جب اجتہاد (قیاس ) کیا جائے گا تو اس کی دو صورتیں ہیں یا تو نص کے موافق ہو گا یا مخالف ۔ پہلی صورت میں اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں اوردوسری صورت میں وہ قابل قبول نہیں ۔
کس کے قول و فعل میں تضاد ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ:جناب اگر کسی کے قول اور فعل میں تضاد ہو تو اس کو کیا کہتے ہیں؟؟؟؟؟؟
نام نہاد غیر مقلدین (حقیقتا اندھوں کے اندھے مقلد) امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی مجروح حدٰ کو قرآن کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں جس میں ہے کہ ’’جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو‘‘۔ جناب کے بقول جب قرآن کا حکم واضح حکم آگیا تو اس سے روگردانی کس لئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
پھر اس پر طرہ یہ کہ اس فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’جب امام قراءت کرے تو خاموش رہو‘‘ بھی موجود۔ اب اصل دو نصوص کے خلاف عمل ہو اور دعویٰ ہو ’’اہل حدیث کے دو اصول‘‘ کا اور قرآن کی صریح نص کے بعد کسی اور کی حاجت نہ رہ جانے کا!!!!!!!!! فوا اسفا
جناب نے خود لکھا ہے کہ؛
کیونکہ نص کی موجودگی میں جب اجتہاد (قیاس ) کیا جائے گا تو اس کی دو صورتیں ہیں یا تو نص کے موافق ہو گا یا مخالف ۔ پہلی صورت میں اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں اوردوسری صورت میں وہ قابل قبول نہیں
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
السلام علیکم !کس کے قول و فعل میں تضاد ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ:
قرآن مجید کا حکم ہے :
(وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ )
(الاعراف ٢٠٤) اور جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو ، تا کہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘
لیکن پاکستان کے تمام حنفی مقلدین نماز فجر کی جماعت میں جب امام جہری قراءت کر رہا ہوتا ہے ، اس دوران آنے والا حنفی مقلد قرآن کریم کے اس حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ،وہیں علیحدہ اپنی سنت فجر پڑھنے لگتا ہے ،نہ جماعت میں شامل ہوتا ہے اور نہ ہی قراءت سنتا ہے ۔
اور اگر کسی کے مرنے کی خوشی میں دعوت طعام ہو تو اس موقع پر قرآن کو ’’ ختم کرنے کیلئے ‘‘ تمام موجود مقلد بالجہر قرآن خوانی کرتے ہیں ،کوئی کسی کی نہیں سنتا ،
اس وقت انہیں قرآن کریم کا یہ حکم یاد نہیں رہتا ۔۔بس ایک دفعہ ’’قرآن کریم ختم ‘‘ کرکے کھانا کھانے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔
کس کے قول و فعل میں تضاد ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ:
قرآن مجید کا حکم ہے :
(وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ )
(الاعراف ٢٠٤) اور جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو ، تا کہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘
لیکن پاکستان کے تمام حنفی مقلدین نماز فجر کی جماعت میں جب امام جہری قراءت کر رہا ہوتا ہے ، اس دوران آنے والا حنفی مقلد قرآن کریم کے اس حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے ،وہیں علیحدہ اپنی سنت فجر پڑھنے لگتا ہے ،نہ جماعت میں شامل ہوتا ہے اور نہ ہی قراءت سنتا ہے ۔
اور اگر کسی کے مرنے کی خوشی میں دعوت طعام ہو تو اس موقع پر قرآن کو ’’ ختم کرنے کیلئے ‘‘ تمام موجود مقلد بالجہر قرآن خوانی کرتے ہیں ،کوئی کسی کی نہیں سنتا ،
اس وقت انہیں قرآن کریم کا یہ حکم یاد نہیں رہتا ۔۔بس ایک دفعہ ’’قرآن کریم ختم ‘‘ کرکے کھانا کھانے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔
حنفی حضرات کا اس آیت سے فاتحہ نہ پڑھنے کا استدلال غلط ہے۔دیتے ہیں دھوکہ بازی گر کھلا
جناب اس آیت کا محل نماز ہے اور یہ حکم مقتدی کو ہے نہ کہ ہر کسی کو (دیکھئے تتفسی ابن کثیر میں دی گئی احادیث و آثار)۔