• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فجر یا عصر کے بعد سونے کا حکم ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فجر یا عصر کے بعد سونے کا حکم

سوال: کیا فجر کے بعد سونے کے بارے میں کوئی حکم ہے؟

الحمد للہ:

فجر کے بعد سونے کی ممانعت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، اس لئے یہ عمل اصل پر قائم رہے گا، اور وہ ہے:اباحت، [یعنی فجر کے بعد سونے میں کوئی حرج نہیں]

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے، جیسے کہ صحیح مسلم : (1/463) حدیث نمبر: (670) میں سماک بن حرب سے مروی ہے کہ: "میں نے جابر بن سمرہ سے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے؟" انہوں نے کہا: "ہاں! بہت زیادہ، آپ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے اسی جگہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے، چنانچہ جب سورج طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہوجاتے؛ آپکے ساتھی باتیں کرتے کرتے جاہلیت کے زمانے کی باتیں بھی کرتے، تو صحابہ کرام سن کر ہنستے، اور آپ [صرف]مسکر ا دیتے"

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے، جیسے کہ صخر الغامدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یا اللہ! میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے)، راوی کہتے ہیں کہ:جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا بڑا لشکر ارسال کرنا ہوتا تو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے، اور صخر تاجر صحابی تھے، آپ اپنے تجارتی قافلے کو صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے، تو آپ کو خوب مال و دولت نصیب ہوا۔

اس روایت کو ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ نے ایسی سند کیساتھ روایت کیا ہے جس میں ایک مجہول راوی ہے، لیکن اسکی تقویت کیلئے علی، ابن عمر، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایات بھی موجود ہیں۔

اسی بنا پر کچھ سلف صالحین نے فجر کی نماز کے بعد سونے کو مکروہ سمجھا ہے، چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "مصنف": (5/222) حدیث نمبر: (25442) میں عروہ بن زبیر سے صحیح سند کیساتھ روایت کرتے ہیں کہ : "زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے منع کیا کرتے تھے"

اور عروہ کہتے ہیں کہ:"میں جس وقت کسی کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے"

خلاصہ یہ ہے کہ:

انسان کیلئے بہتر یہی ہے کہ اس وقت کو دنیاوی یا اخروی فائدے کیلئے استعمال کرے، اور اگر اپنے کام کاج میں بھر پور توجہ حاصل کرنے کیلئے کوئی آرام کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اسے دن میں سونے کا وقت ہی اسی وقت ملتا ہو، چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "مصنف": (5/223) حدیث نمبر: (25454) میں ابو یزید مدینی سے روایت کیا ہے کہ : "عمر رضی اللہ عنہ صہیب کے پاس صبح کےوقت آئے، تو صہیب سوئے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انکے بیدار ہونے تک بیٹھ کر انتطار کیا، تو صہیب کہنے لگے: امیر المؤمنین ! بیٹھے ہوئے ہیں، اور صہیب سویا ہوا ہے!!" تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھے اچھا نہیں لگا کہ آپکو میٹھی نیند سے جگا دوں"

جبکہ عصر کے بعد سونا بھی جائز اور مباح ہے، اس وقت میں سونے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی چیز ثابت نہیں ہے۔

اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث کہ آپ نے فرمایا: (جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اسکی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) یہ حدیث باطل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، دیکھیں: " سلسۃ ضعیفۃ، حدیث نمبر:( 39)

واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/2063
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فجر کے بعد سونا

سوال: فجر کے بعد سونے کے متعلق کیا حکم ھے اور اس کے بارے میں حضرت فاطمہ کی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کا حکم بھی بتادیں.
▪ الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں تین امور ضروری ہیں:
1. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنهم کا عمل.
2. اس وقت سونے کا شرعی حکم.
3. اس کے بارے میں وارد شدہ روایات کی حیثیت.

■ حضور علیہ السلام کا فجر کے بعد عمل
آپ علیہ السلام عموما فجر کے بعد مسجد ہی میں بیٹھ کر یا تو صحابہ سے دینی یا دنیاوی امور پر بات چیت فرماتے یا ذکر میں مشغول رہتے.
1. عن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى الفجر تربع في مجلسه حتى تطلع الشمس حسنا.
(رواه مسلم وأبو داود والترمذي والنسائي)
والطبراني ولفظه "كان إذا صلى الصبح جلس يذكر الله حتى تطلع الشمس".
2. وابن خزيمة في صحيحه ولفظه قال: عن سماك أنه سأل جابر بن سمرة كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع إذا صلى الصبح؟ قال: كان يقعد في مصلاه إذا صلى الصبح حتى تطلع الشمس.
قال الشيخ الألباني رحمه الله: صحيح
3. وعن جابر بن سمرة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى الفجر تربع في مجلسه حتى تطلع الشمس حسناء. (رواه أبو داود بسند صحيح)
4. وعن جابر بن سمرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقوم من مصلاه الذي يصلي فيه الصبح حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت الشمس قام وكانوا يتحدثون فيأخذون في أمر الجاهلية فيضحكون ويبتسم صلى الله عليه وسلم. (رواه مسلم).
وفي رواية للترمذي: "يتناشدون الشعر".
■ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل:
□ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل
• قال عمر رضی اللہ عنه:
ایاک و نومة الغداة فإنها مبخرة مجفرة مجعرة.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نیند سے منع فرماتے تھے کہ یہ نیند جسمانی بخار کو بڑھاتی ہے، انسان کو سست کرتی ہے اور طبیعت میں خشکی پیدا کرتی ہے.
□ حضرت علی رضی اللہ عنہ
• قال علی رضی اللہ عنه:
"من الجهل النوم اول النهار"
یعنی صبح کا سونا جہالت ہے.
□ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا عمل
• عن عائشة رضی اللہ عنھا انها كانت تنام بعد طلوع الشمس.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے بارے میں آتا ھے کہ وہ سورج طلوع ہونے کے بعد آرام فرماتی تھیں.
● صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معمول بھی فجر کے بعد نہ سونے کا تھا.
بلکہ عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما تو اس وقت گھر والوں کو بھی سونے نہیں دیتے تھے.
• صح في مسلم عن أبي وائل أنه قال: غدونا على عبدالله بن مسعود يوماً بعد ما صلينا الغداة فسلمنا بالباب فأذن لنا، قال: فمكثنا بالباب هنية، قال: فخرجت الجارية فقالت ألا تدخلون؟ فدخلنا، فإذا هو جالس يسبح، فقال: ما منعكم أن تدخلوا وقد أذن لكم؟ فقلنا لا إلا أنا ظننا أن بعض أهل البيت نائم؛ قال: ظننتم بآل ابن أم عبد غفلة؟ قال: ثم أقبل يسبح حتى ظن أن الشمس قد طلعت، فقال: يا جارية! انظري هل طلعت؟.... الحديث!
■ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما
وفي رابع عشر المجالسة من جهة ابن الأعرابي قال: مر ابن عباس بابنه الفضل وهو نائم نومة الضحى فركضه برجله وقال: قم إنك لنائم الساعة التي يقسم الله فيها الرزق لعباده؛ أو ما سمعت ما قالت العرب فيها؟ قال: وما قالت العرب يا أبت؟ قال: زعمت أنها مكسلة مهرمة منساة للحاجة؛ ثم يابني! نوم النهار على ثلاثة: نوم محق وهي نومة الضحى ونومة الخلق وهي التي روى (قيلوا فان الشياطين لا تقيل) ونومة الخرق وهي نومة بعد العصر لا ينامها إلا سكران أو مجنون...انتهى
وهذا الأخير عنده أيضا بجانبه عن خوات بن جبير قال: نوم أول النهار خرق وأوسطه خلق وآخره حمق.
■ اکابرین امت کا معمول
اکابرین امت بھی فجر کے وقت سونے کو پسند نہیں کرتے اور اسی طرح عصر کے بعد سونے کو بھی ناپسند کرتے تھے کہ فجر کے بعد سونا سستی اور رزق میں تنگی کا باعث بنتا ہے.
□ كان السلف يكرهون النوم بعد صلاة الصبح، وبعد صلاة العصر، حتى إن الإمام أحمد رحمة الله عليه كان يكره النوم بعد العصر، وقال: كانوا يخافون على عقل الإنسان، وذكروا عن رجل أنه حذر أخاه من النوم بعد صلاة العصر، فقال له: إني أخشى على عقلك، فقال له رجل مجنون: لا تصدقه، فإني ما تركتها -يعني هذه النومة- فالنوم بعد صلاة العصر لا يمدحونه، وما بعد الفجر قيل: إنها ساعة البركة، لما ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (بورك لأمتي في بكورها) فإذا كان عندك بحث، أو رسالة أو طلب علم، وبكرت وابتكرت وجدت خيرا كثيرا، وهكذا لو كانت عندك أعمال من الدنيا.
☆ وما محقت البركة في كثير من أعمال الناس وأوقاتهم إلا بسبب إضاعة البكورة.
■ علامہ ابن القیم رحمه اللہ کا قول
علامہ ابن القیم رحمه اللہ اپنی کتاب "زاد المعاد" میں تحریر فرماتے ہیں کہ صبح کے وقت سونا بہت گھٹیا عمل ہے اور یہ بہت ساری بیماریوں کا سبب ہے، مثلا سستی، رنگ کا پھیکا ہوجانا، جگر کی بیماریوں کا سبب وغیرہ...
■ فجر کے بعد سونے کاحکم
ان روایات اور آثار کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سونا اگرچہ محبوب اور پسندیدہ عمل نہیں لیکن اس وقت سونے کے بارے میں حرام یا ناجائز ہونے کا فتوی بھی کسی نے نہیں دیا، بلکہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے سوجائے تو گناہگار بھی نہیں، اگرچہ نہ سونا ہی اصل اور مطلوب ہے.
■ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا والی روایت کا درجہ
(يا بنية! قومي، فاشهدي رزق ربك عزوجل، ولا تكوني من الغافلين؛ فإن الله عز وجل يقسم أرزاق الناس ما بين طلوع الفجر إلى طلوع الشمس).
- أخرجه ابن بشران في "الأمالي" (ق 39/ 1)
- والبيهقي في "الشعب" (2/ 35/ 1-2) كلاهما من طريق المشمعل بن ملحان القيسي: حدثنا عبد الملك بن هارون بن عنترة عن أبيه عن جده عن فاطمة بنت محمد رضي الله عنها قالت: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا مضطجعة متصبحة، فحركني برجله، ثم قال: ....فذكره. وقال البيهقي: إسناده ضعيف.
○ اس روایت کو علامہ بیھقی نے اور علامہ منذری نے نقل کیا اور اس کی سند پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے لیکن اس روایت کی سند میں عبدالملک بن ہارون نامی شخص ہے جس کے بارے میں ائمہ حدیث نے کچھ ایسا کلام کیا ہے:
◇ عبد الملك بن هارون متهم بالكذب.
• فقال يحيی: كذاب.
• وقال البخاري: منكر الحديث.
• وقال ابن حبان (2/ 133): كان ممن يضع الحديث، لا يحل كتابة حديثه إلا على جهة الاعتبار.
والمشمعل بن ملحان؛ صدوق يخطىء؛ كما في "التقريب".
• قلت: وقد خالفه في إسناده إسماعيل بن مبشر بن عبدالله الجوهري عن عبدالملك بن هارون بن عنترة عن أبيه عن جده عن علي قال:
دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على فاطمة بعد أن صلى الصبح وهي نائمة ... فذكر معناه. (رواه البيهقي).
قلت: وإسماعيل هذا؛ لم أجد له ترجمة الآن.
والحديث؛ أشار المنذري في "الترغيب" (3/ 5) لضعفه؛ وعزاه للبيهقي وحده.
6991 - (لا تناموا عن طلب أرزاقكم فيما بين صلاة الفجر إلى طلوع الشمس).= منكر جداً
أخرجه الديلمي في "مسند الفردوس" (3/ 161) من طريق الأصبغ بن نباتة عن أنس رفعه، قال:
فسئل أنس عن معنى هذا الحديث؛ فقال: تسبح وتكبر، وتستغفر سبعين مرة؛ فعند ذلك ينزل الرزق.
قلت: وهذا إسناد ضعيف جداً
◇ "الأصبغ بن نباتة"
- قال الذهبي في "المغني": واهٍ غالٍ في تشيعه، تركه النسائي.
- وقال ابن معين: ليس بثقة.
- وقال الحافظ: "متروك رمي بالرفض".
وقد روي من طريق أخرى عن أنس مختصراً بلفظ: "الصُّبحة تمنعُ الرزق". وهو ضعيف جداً...كما سبق تحقيقه.
■ روایت کے شواہد
اس معنی کو تقویت دینے والی وہ روایات ہیں جن میں صبح کی نیند کو رزق کی تنگی کا سبب قرار دیا گیا ھے.
• نوْمُ الصُّبحةِ يمنعُ الرِّزقَ.
- الراوي: عثمان بن عفان.
- المحدث: المنذري.
- المصدر: الترغيب والترهيب.
- الصفحة أو الرقم: 3/6
- خلاصة حكم المحدث: ظاهر النكارة.

• الصُّبحةُ تمنعُ الرِّزقَ.
- الراوي: عثمان بن عفان.
- المحدث: الذهبي.
- المصدر: ترتيب الموضوعات.
• الصبحة تمنع الرزق.
- الراوي: عثمان بن عفان.
- المحدث: الذهبي.
- المصدر: تلخيص العلل المتناهية.
- الصفحة أو الرقم: 243
- خلاصة حكم المحدث: [فيه] ابن أبي فروة يعني إسحاق المتروك و[فيه] إسماعيل عن الحجازيين واه.
● یہ تمام روایات بھی سند کے اعتبار سے بہت ہی کمزور اور ناقابل بیان ہیں.
خلاصہ کلام
صبح کی نیند کے ممنوع ہونے کے بارے میں صراحتا جو روایات وارد ہیں وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے بہت ضعیف ہیں لیکن عمومی روایات اور عمل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صبح کی نیند ناپسندیدہ عمل ہے لہذا اس سے اجتناب کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے، البتہ عذر کی حالت اس سے مستثنی ہے، اور اس کے متعلق صحیح روایات اور صحابہ کرام کا عمل موجود ہے۔

《واللہ اعلم》
( یہ تحریر مولانا خالد مرجالوی صاحب کے صاحبزادے زبیر مرجالوی صاحب نے علماء اہل حدیث ، مجلس التحقیق الاسلامی وغیرہ مجموعہ جات میں بھیجی۔)
 
شمولیت
جنوری 02، 2017
پیغامات
175
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
جن آثار کو فجر کے بعد سونے کے ناپسندیدہ ہونے پر پیش کیا گیا ھے انکے حوالہ جات نھیں دئے گئے ھیں

مکمل حوالہ پیش کرکے مھربانی فرمائیے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جن آثار کو فجر کے بعد سونے کے ناپسندیدہ ہونے پر پیش کیا گیا ھے انکے حوالہ جات نھیں دئے گئے ھیں

مکمل حوالہ پیش کرکے مھربانی فرمائیے
جس کا حوالہ نہیں ، اس کا اقتباس لے کر بتائیں ۔
 
شمولیت
جنوری 02، 2017
پیغامات
175
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
بھائی مجھے اقتباس دینا نھیں آتا

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے عمل کے تحت جو آثار نقل کئے گئے ھیں انکے حوالہ جات مطلوب ھیں
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2019
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
36
فجر یا عصر کے بعد سونے کا حکم

سوال: کیا فجر کے بعد سونے کے بارے میں کوئی حکم ہے؟

الحمد للہ:

فجر کے بعد سونے کی ممانعت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، اس لئے یہ عمل اصل پر قائم رہے گا، اور وہ ہے:اباحت، [یعنی فجر کے بعد سونے میں کوئی حرج نہیں]

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے، جیسے کہ صحیح مسلم : (1/463) حدیث نمبر: (670) میں سماک بن حرب سے مروی ہے کہ: "میں نے جابر بن سمرہ سے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے؟" انہوں نے کہا: "ہاں! بہت زیادہ، آپ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے اسی جگہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے، چنانچہ جب سورج طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہوجاتے؛ آپکے ساتھی باتیں کرتے کرتے جاہلیت کے زمانے کی باتیں بھی کرتے، تو صحابہ کرام سن کر ہنستے، اور آپ [صرف]مسکر ا دیتے"

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے، جیسے کہ صخر الغامدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یا اللہ! میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے)، راوی کہتے ہیں کہ:جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا بڑا لشکر ارسال کرنا ہوتا تو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے، اور صخر تاجر صحابی تھے، آپ اپنے تجارتی قافلے کو صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے، تو آپ کو خوب مال و دولت نصیب ہوا۔

اس روایت کو ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ نے ایسی سند کیساتھ روایت کیا ہے جس میں ایک مجہول راوی ہے، لیکن اسکی تقویت کیلئے علی، ابن عمر، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایات بھی موجود ہیں۔

اسی بنا پر کچھ سلف صالحین نے فجر کی نماز کے بعد سونے کو مکروہ سمجھا ہے، چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "مصنف": (5/222) حدیث نمبر: (25442) میں عروہ بن زبیر سے صحیح سند کیساتھ روایت کرتے ہیں کہ : "زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے منع کیا کرتے تھے"

اور عروہ کہتے ہیں کہ:"میں جس وقت کسی کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے"


خلاصہ یہ ہے کہ:

انسان کیلئے بہتر یہی ہے کہ اس وقت کو دنیاوی یا اخروی فائدے کیلئے استعمال کرے، اور اگر اپنے کام کاج میں بھر پور توجہ حاصل کرنے کیلئے کوئی آرام کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اسے دن میں سونے کا وقت ہی اسی وقت ملتا ہو، چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "مصنف": (5/223) حدیث نمبر: (25454) میں ابو یزید مدینی سے روایت کیا ہے کہ : "عمر رضی اللہ عنہ صہیب کے پاس صبح کےوقت آئے، تو صہیب سوئے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انکے بیدار ہونے تک بیٹھ کر انتطار کیا، تو صہیب کہنے لگے: امیر المؤمنین ! بیٹھے ہوئے ہیں، اور صہیب سویا ہوا ہے!!" تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھے اچھا نہیں لگا کہ آپکو میٹھی نیند سے جگا دوں"

جبکہ عصر کے بعد سونا بھی جائز اور مباح ہے، اس وقت میں سونے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی چیز ثابت نہیں ہے۔

اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث کہ آپ نے فرمایا: (جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اسکی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) یہ حدیث باطل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، دیکھیں: " سلسۃ ضعیفۃ، حدیث نمبر:( 39)


واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
http://islamqa.info/ur/2063
السلام علیکم
محترم ممانعت تو نہیں لیکن ایک روایت یہ بھی تو ہے
عن خوَّاتِ بنِ جُبيرٍ قال نومُ أوَّلِ النَّهارِ خَرقٌ ، وأوسطُهُ خلقٌ ، وآخرُهُ حُمقٌ
الراوي : - | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الأدب المفرد
الصفحة أو الرقم : 942 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
 
Top