آئیے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام دیکھئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی حوالے سے کارہائے نمایاں ملاحظہ فرمائیے اور اسی بارے میں ائمہ سلف کے فرامین و فتاویٰ بھی پڑھئے پھر فیصلہ فرمائیے کہ ان حالات میں عالم اسلام کی کیا ذمہ داری ہے ۔
1- یہودیہ عورت کا قتل :
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ان یھودیۃ کانت تشتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیہ ، فخنقھا رجل حتی ماتت ، فاطل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دمھا ))
ایک یہودیہ عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا ۔
( رواہ ابوداود ، کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
2 - گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ولد کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔
( ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
3 - عصماءبنت مروان کا قتل :
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
(( ھجت امراۃ من خطمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : ( من لی بھا ؟ ) فقال رجل من قومھا : انا یا رسول اللّٰہ ، فنھض فقتلھا فاخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : ( لا ینتطح فیھا عنزان ))
” خَطمَہ “ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس عورت سے کون نمٹے گا ۔ “ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کام میں سرانجام دوں گا ، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں ۔
( الصارم المسلول 129 )
بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے ۔
عصماءبنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاءو تکلیف دیا کرتی ۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی ۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا ۔ تو کہنے لگا ۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے ۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے ۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی ۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے ۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا ۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی ۔ پھر نماز فجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو عمیر کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے ؟ کہنے لگے ۔ جی ہاں ۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
عمیر کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا ۔ کہنے لگے ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے ؟ فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔ پس یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی مرتبہ سنا گیا عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد دیکھا پھر فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو ۔
( الصارم المسلول 130 )
4 - ابو عفک یہودی کا قتل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مورخین کے حوالے سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعفک یہودی کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ :
(( ان شیخا من بنی عمرو بن عوف یقال لہ ابوعفک وکان شیخا کبیرا قد بلغ عشرین ومائۃ سنۃ حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ ، کان یحرض علیٰ عداوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ولم یدخل فی الاسلام ، فلما خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی بدر ظفرہ اللہ بما ظفرہ ، فحسدہ وبغی فقال ، وذکر قصیدۃ تتضمن ھجو النبی صلی اللہ علیہ وسلم وذم من اتبعہ )) ( الصارم المسلول 138 )
بنی عمرو بن عوف کا ایک شیخ جسے ابوعفک کہتے تھے وہ نہایت بوڑھا آدمی تھا اس کی عمر 120 سال تھی جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ۔ تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت پر بھڑکاتا تھا اور مسلمان نہیں ہوا تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطاءفرمائی تو اس شخص نے حسد کرنا شروع کر دیا اور بغاوت و سرکشی پر اتر آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مذمت میں ہجو کرتے ہوئے ایک قصیدہ کہا ۔ اس قصیدے کو سن کر سالم بن عمیر نے نذر مان لی کہ میں ابوعفک کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود مرجاؤں گا ۔ سالم موقع کی تلاش میں تھا ۔ موسم گرما کی ایک رات ابوعفک قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے صحن میں سویا ہوا تھا سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ اس کی طرف آئے اور اس کے جگر پر تلوار رکھ دی جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا ۔ لوگ اس کی طرف آئے جو اس کے اس قول میں ہم خیال تھے وہ اسے اس کے گھر لے گئے ۔ جس کے بعد اسے قبر میں دفن کر دیا اور کہنے لگے اس کو کس نے قتل کیا ہے ؟ اللہ کی قسم اگر ہم کو معلوم ہو جائے کہ اسے کس نے قتل کیا ہے تو ہم اس کو ضرور قتل کر دیں گے ۔
( الصارم المسلول 138 )
5 - انس بن زنیم الدیلمی کی گستاخی :
انس بن زنیم الدیلمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اس کو قبیلہ خزاعہ کے ایک بچے نے سن لیا اس نے انس پر حملہ کر دیا انس نے اپنا زخم اپنی قوم کو آ کر دکھایا ۔
واقدی نے لکھا ہے کہ عمرو بن سالم خزاعی قبیلہ خزاعہ کے چالیس سواروں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدد طلب کرنے کیلئے گیا انہوں نے آ کر اس واقع کا تذکرہ کیا جو انہیں پیش آیا تھا جب قافلہ والے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انس بن زنیم الدیلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا ۔
( الصارم المسلول139 )
6 - گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت :
ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من یکفینی عدوی ” میری دشمن کی خبر کون لےگا ؟ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ “
( الصارم المسلول163 )
7 - مشرک گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قتل :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( ان رجلا من المشرکین شتم رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من یکفینی عدوی ؟ ) فقام الزبیر بن العوام فقال : انا فبارزہ ، فاعطاہ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلمسلبہ ))
” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ “
( الصارم المسلول : 177 )
8 - کعب بن اشرف یہودی کا قتل :
کعب بن اشرف ایک سرمایا دار متعصب یہودی تھا اسے اسلام سے سخت عداوت اور نفرت تھی جب مدینہ منورہ میں بدر کی فتح کی خوش خبری پہنچی ۔ تو کعب کو یہ سن کر بہت صدمہ اور دکھ ہوا ۔ اور کہنے لگا ۔ اگر یہ خبر درست ہے کہ مکہ کے سارے سردار اور اشراف مارے جا چکے ہیں تو پھر زندہ رہنے سے مر جانا بہتر ہے ۔ جب اس خبر کی تصدیق ہو گی تو کعب بن اشرف مقتولین کی تعزیت کے لئے مکہ روانہ ہوا مقتولین پر مرثےے لکھے ۔ جن کو پڑھ کر وہ خود بھی روتا اور دوسروں کو بھی رلاتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال کے لئے لوگوں کو جوش دلاتا رہا ۔ مدینہ واپس آکر اس نے مسلمان عورتوں کے خلاف عشقیہ اشعار کہنے شروع کر دئیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں بھی اشعار کہے ۔ کعب مسلمانوں کو مختلف طرح کی ایذائیں دیتا ۔ اہل مکہ نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا دین بہتر ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ۔ تو اس نے جواب دیا کہ تمہارا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے بہتر ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرکات کی وجہ سے اسکے قتل کا پروگرام بنایا اور قتل کے لئے روانہ ہونے والے افراد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی قبرستان تک چھوڑنے آئے ۔ چاندنی رات تھی پھر فرمایا جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :
(( قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ( من لکعب بن الاشرف ، فانہ قد اذی اللّٰہ ورسولہ ؟ ) فقام محمد بن مسلمۃ فقال : انا یا رسول اللّٰہ اتحب ان اقتلہ ؟ قال نعم قال : فاذن لی ان اقول شیا ، قال : قل ))
( رواہ البخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ، رواہ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب قتل کعب بن الاشرف طاغوف الیھود )
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا ۔ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کو تکلیف دی ہے اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ۔ اور عرض کی ۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں کہ میں اسے قتل کر آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہاں ۔ مجھ کو یہ پسند ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کہنے کی اجازت دے دیں یعنی ایسے مبہم کلمات اور ذومعنیٰ الفاظ جنہیں میں کہوں اور وہ سن کر خوش و خرم ہو جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اجازت ہے ۔ “
محمد بن مسلمہ کعب بن اشرف کے پاس آئے آ کر اس سے کہا کہ یہ شخص ( اشارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) ہم سے صدقہ مانگتا ہے اس نے ہمیں تھکا مارا ہے اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں ۔ جواباً کعب نے کہا ۔ ابھی آگے دیکھنا اللہ کی قسم بالکل اکتا جاؤ گے ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ چونکہ ہم نے اب ان کی اتباع کر لی ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں اسے چھوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ میں تم سے ایک دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں کعب نے کہا ۔ میرے پاس کوئی چیز گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ تم کیا چیز چاہتے ہو ۔ کہ میں گروی رکھ دوں ۔ کعب نے کہا ۔
اپنی عورتوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا تم عرب کے خوبصورت جوان ہو تمہارے پاس ہم اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں ۔ کعب نے کہا ۔ پھر اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ ہم اپنے بیٹوں کو گروی کس طرح رکھ سکتے ہیں ۔ کل انہیں اس پر ہر کوئی گالیاں دے گا کہ آپ کو ایک دو وسق غلے کے عوض گروی رکھا گیا تھا ۔ یہ ہمارے لئے بڑی عار ہو گی البتہ ہم آپ کے پاس اپنے اسلحہ کو گروی رکھ سکتے ہیں جس پر کعب راضی ہو گیا محمد بن مسلمہ نے کعب سے کہا کہ میں دوبارہ آؤں گا ۔
دوسری دفعہ محمد بن مسلمہ کعب کے پاس رات کے وقت آئے ۔ ان کے ہمراہ ابو نائلہ بھی تھے یہ کعب کے رضاعی بھائی تھے ۔ پھر انہوں نے اس کے قلعے کے پاس جا کر آواز دی ۔ وہ باہر آنے لگا ۔ تو اس کی بیوی نے کہا مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہے کعب نے جواب دیا کہ یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں اگر شریف آدمی کو رات کے وقت بھی نیزہ بازی کیلئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے محمد بن مسلمہ اور ابونائلہ کے ہمراہ ابوعبس بن جبر ، حارث بن اوس اور عباد بن بشر بھی تھے ۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے سر کے بال ہاتھ میں لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا ۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر مضبوطی سے پکڑ لیا ہے تو پھر تم اس کو قتل کر ڈالنا ۔ کعب چادر لپٹے ہوئے باہر آیا ۔ اس کا جسم خوشبو سے معطر تھا ۔ محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ میں نے آج سے زیادہ عمدہ خوشبو کبھی نہیں سونگھی ۔ کعب نے کہا ۔ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو عطر میں ہر وقت بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں محمد بن مسلمہ نے کہا ۔ کیا مجھے تمہارے سر کو سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا اجازت ہے ۔ محمد بن مسلمہ نے کعب کا سر سونگھا اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے سونگھا پھر انہوں نے کہا ۔ دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے ؟ کعب نے کہا ۔ اجازت ہے ۔ پھر جب محمد بن مسلمہ نے پوری طرح سے اسے قابو کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔
پھر رات کے آخری حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا : افلحت الوجوہ ان چہروں نے فلاح پائی اور کامیاب ہوئے ۔ انہوں نے جواباً عرض کیا ووجھک یا رسول اللہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بعد کعب بن اشرف کا قلم کیا ہوا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمد للہ کہا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔
( فتح الباری 272/7 )