• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرصت کے لمحات کیسے گزاریں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فرصت کے لمحات کیسے گزاریں ؟


ابوبکر قدوسی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے :

اِغْتَنِمْ خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ( اَلْمُسْتَدْرَک ، ج۵ ، ص۴۳۵ ، حدیث ۷۹۱۶ )

ترجمہ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو
  • (۱) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے
  • (2) صحت کو بیماری سے پہلے
  • (3) مالداری کو تنگدستی سے پہلے
  • (4) فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور
  • (5) زندَگی کو موت سے پہلے۔
اس حدیث میں فرصت کو ایک نعمت کے طور پر بیان کیا گیا - اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو بلا شبہ فرصت اللہ کی ایک نعمت ہے - لیکن اس نعمت کے بارے میں جاننے سے پہلے ذرا فرصت کے مفھوم پر غور کیجئے - فرصت اس وقت کو کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنے کام کاج نپٹا کے فارغ ہو جاتا ہے ، اور اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا -

فرصت کے بالمقابل جس کیفیت کا حدیث میں ذکر ہے وہ مشغولیت ہے - مشغولیت جب حد سے گذر جائے تو وبال جان ہو جاتی ہے - اسی وبال جان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ فرصت کو اس کے مقابلے میں غنیمت جانو - سی اسی کو ہم نے لکھا ہے کہ حدیث میں فرصت کو ایک نعمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے

اب اللہ کی اس نعمت "فرصت " کو ہمیں کس طرح گزارنا چاہیے ، یہ ایک اہم سوال ہے - اور خاص طور پر طالب علموں کے لیے کہ جب سال بھر کی پڑھائی کے بعد ان کو چھٹیاں ہوتی ہیں ، تب ان کو کیا کرنا چاہیے - اسی طرح کاروباری حضرات کو ہفتے بھر کی جان توڑ مشقت کے بعد ، خواتین کو دن بھر کے کام کاج کے بعد جب فرصت کی راحت ملتی ہے تو کیا کرنا چاہیے - کیا یہ مناسب ہے کہ اس وقت کو محض "فرصت " جان کے برباد کر دیا جائے ؟
یا یہ کہ اس کو کسی ایسے مصرف میں لایا جائے کہ وہ آپ کے مشغولیت والے وقت سے زیادہ بار آور ہو جائے اور اس کا ثمر اس سے زیادہ خوش کن بن جائے -

سماجی خدمات ، والدین کی خدمت ، عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک ، اہل محلہ کے لیے رفاہی کام کو ہدف بنا کے ہم اپنا فارغ وقت اچھا گزار سکتے ہیں - لیکن طالب علموں کے لیے ایک اور مصروفیت خاصی توجہ طلب ہے - وہ ہے اضافی علم کا حصول -

اضافی علم سے میری مراد نصابی کتب سے ہٹ کے خود کو مطالعے کے لیے وقف کرنا ہے - دینی مدارس کے طلبہ کے لیے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے - وہ یوں کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد عموما وہ معاشرے میں دعوت و اصلاح کے میدان میں نکل جاتے ہیں -

اب میری بات سمجھئے کہ دعوت کا تعلق خالص ابلاغ کے ساتھ ہے - ابلاغ کا مفھوم ہے اپنی بات کو عمدہ پیرائے میں ، وضاحت کے ساتھ بیان کرنا - اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو مخاطب کی زبان و بیان پر عبور حاصل ہو -

اس وقت ہمارے ہاں طبقہ علماء جس سب سے بڑی کمزوری کا شکار ہیں وہ یہی ہے -- ہم جدید تعلیم یافتہ اذہان کو اس لیے متاثر نہیں کر پاتے کہ ہم ان کو ان کے ذہنی معیار کی زبان میں مخاطب نہیں کر پاتے - صرف تیس بس پہلے یہ صورت حال یکسر فرق تھی - ہمارے موجودہ اسلاف بھی زبان و بیان کے ایسے ماہر ہوتے تھے ، اپنی بات کو اتنے عمدہ پیرایے میں بیان کرتے کہ مخلف نقطہ نظر رکھنے والا بھی سننے پر مجبور ہو جاتا - اس کی بہترین مثال مولانا محمد اسمٰعیل سلفی رحمہ اللہ کی کتب ہیں -

اس لیے میری تجویز ہے کہ مدارس کے طالب علموں کو اپنی فرصت کے لمحات میں کتاب سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے - اور اپنے اوقات مطالعہ کو بڑھانا بھی چاہیے - اور چھٹیوں کے ان اوقات میں اس بار زیادہ حصہ زبان وبیان کو دینا چاہیے - کیونکہ باقی کا تمام برس تو آپ کو نصابی کتب میں ہی گزارنا ہوتا ہے - میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مدارس اساتذہ کو بھی طالب علموں کی اس معاملے میں رہنمائی کرنا چاہیے اور ان کو اردو زبان و ادب کی کتابیں تجویز کرنا چاہئیں اور ممکن ہو تو ان کتابوں سے سوالات مرتب کر کے طلبہ سے ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور پوچھنا چاہیے -

مدارس میں اخبارات کے مطالعے کی پابندی ہونا چاہیے تا کہ طلبہ حالات حاضرہ سے پورے طور پر اگاہ رہ سکیں - اس مسلسل اخبار بینی سے بھی ان کی زبان عمدہ ہو جائے گی -

فرصت کے وقت میں مطالعے کے حوالے جب بات چلی ہے تو مجھے وہ منظر یاد آ گیا کہ جب ہمارے مکتبہ قدوسیہ پر والد محترم جناب عبد الخالق قدوسی بیٹھا کرتے تھے - آپ کا معمول تھا کہ جتنی دیر مکتبے پر رہتے کوئی نہ کوئی کتاب آپ کے ہاتھ میں ہوتی - ان کے دوست احباب بھی علمی دنیا کے شناور تھے ، ایسے میں کوئی دوست آ بھی جاتا تو اس کے ساتھ جو گفتگو ہوتی علمی نکات پر ہی مبنی ہوتی - مہمان اٹھ جاتا تو پھر وہی کتاب ہوتی اور آپ ہوتے - غالب نے کہا ہے :

. جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن.
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے.

کتاب سے محبت ، مطالعے کی رغبت ، علم کی حرص اور ہر دم لکھنا پڑھنا یہ ہمارے اسلاف کی روایت تھی - افسوس ہم نے کتاب سے تعلق توڑا تو ثریا سے زمین پر آ رہے - ہمارے اسلاف کو کتاب سے کیسے محبت تھی آپ اس ایک واقعہ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ تاریخ بغداد کے مصنف حافظ خطیب بغدادی ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں پکرے بیٹھے ہوتے .- ایسے میں اگر کسی ضروری کام سے نکلنا پڑتا تو کبھی خالی ہاتھ نہ نکلتے ، کسی کتاب کا کوئی نہ کوئی جزو ہاتھ میں پکڑ لیتے ، راستے میں اسے یاد کرتے جاتے -

امام ابن تیمیہ کا کسے نہیں معلوم کہ مدت سے جیل میں تھے..اور جیل میں تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری تھا..جو کتابیں آپ لکھتے جیل کی چار دیواری سے باھر پہنچ جاتیں... حاسدین کب برداشت کر سکتے تھے...کہ جتنی محنت سے انہوں نے شاہ کے کان بھر کے امام کو جیل میں بھجوایا ، سب اکارت جا رہی تھی...اور امام کی آواز ان کی کتابوں کی صورت زندہ بھی تھی اور آزاد بھی ....
.. حکم شاہی صادر ہوا کہ امام سے کتابیں، قلم اور سیاہی سب واپس لے لیا جائے.....چودہ گھٹھریاں کتابیں امام سے لے کر قاضی علاوالدین کے ہاں پہنچا دی گئیں...امام کوئلے سے لکھنے لگ گئے..ابن ہادی کہتے ہیں کہ مجھے کوئلے سے لکھے دو ورق ملے...امام لکھتے ہیں...
...."میری کتابیں چھن گئیں، اور قلم لے لیا گیا...الله کا خاص کرم ہوا کہ میں نے یہ کتابیں لوگوں کے لیے لکھی تھیں کہ لوگ پڑھ کےحق کو پا جائیں..سو میری کتابیں ان تک پہنچ گئیں....میں نے ان میں بہت سے ایسے مسائل کو لکھا جن پر پہلے نہ لکھا گیا......."
امام نے یہ تحریر لکھی اور اس کے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد رب ارض و سموات نے اپنے پاس بلا لیا........
جی ہاں آپ بھی امام ابن تیمیہ کو جانتے ہیں نا....
...اور ہاں ذرا بتایئے گا کہ اس بادشاہ کا نام کیا تھا جس نے امام کو قید میں رکھا اور موت تک باھر نہ آنے دیا....آج اس کو کوئی نہیں جانتا ...اور امام کی علم کی دنیا پر حکومت ہے - اس عزت کا سبب یہی تو تھا نا کہ آپ نے کتاب سے محبت کی ، علم سے لو لگائی -

ابھی کل کی بات ہے ہمارے علامہ احسان الہی ظہیر شہید بیمار ہو گئے - لاہور کے ایک مشھور ڈاکٹر تھے ڈاکٹر ناصر ..علامہ کے ساتھ ان کا اچھا تعلق تھا - آپ ان کے پاس چلے گئے - ڈاکٹر نے بیماری کی علامات پوچھیں - آپ کو اعصابی درد تھا - ادھر ادھر کے سوالات کے بیچ میں ڈاکٹر نے پوچھ لیا کہ علامہ صاحب آپ کی نیند کتنی ہے ؟
"میں تین سے چار گھنٹے سو لیتا ہوں " علامہ نے جواب دیا -
ڈاکٹر قلم چھوڑ کر بیٹھ گیا - اور کہنے لگا کہ علامہ صاحب دوا کام نہیں کرے گی آپ کو اپنی نیند بڑھانی ہو گی - علامہ نے کوٹ اٹھایا اور چل دئیے ، یہ کہہ کے :
"ڈاکٹر صاحب میں اپنے وقت کو اپنی نیند پر ترجیح نہیں دے سکتا "
کبھی کبھی ہم کو خود پر غور تو کرنا چاہیے کہ ہمارے اسلاف کیا تھے اور ہم کیا ہیں - کیا ایسا ہوتا نہیں کہ ہم کو فرصت ہی فرصت ہوتی ہے اور ہم یہ جملہ بولتے ہیں اور کسی دوست کی طرف جا دھمکتے ہیں کہ :
"یار میں فارغ تھا ، سوچا کہ آپ کیا پاس چلا آوں ، گپ شپ رہے گی "
پھر ہم گھنٹوں اس " گپ شپ " کی نذر کر دیتے ہیں - ہمارے اسلاف اگر کسی سے ملنے بھی جاتے اتو ان کے پیش نگاہ علم کا حصول ہوتا یا ثواب کی نیت - گپ شپ کا ان کی زندگی میں کوئی تصور بھی نہ تھا - یہ نہیں کہ وہ زاہد خشک تھے اور کبھی مسکراتے نہ تھے ، بس یہ تھا کہ وہ وقت ضائع نہ کرتے تھے -

سو احباب ! آج سے ہم بھی اپنی فرصت کو علم کے حصول کے لیے خاص کر لیں - کہ ہمارے رسول کی نصیحت ہے کہ فرصت کو غنیمت جانو مشغولیت سے پہلے -

یہاں میں یہ بات بھی کرنا چاہوں گا کہ یہ مت سوچا کیجئے کہ جی وہ بڑے لوگ تھے ، اپنے وقت کے امام تھے ..ہم عام سے لوگ - یہ کوئی نبوت کا سلسلہ نہ تھا کہ جس کا دروازہ بند ہو لیا - ابھی تو شیخ ناصر الدین البانی کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی - کیا اللہ نے ان کو ویسا ہی مقام نہ دے دیا کہ جو ہم علمائے قدیم کا دیکھتے ہیں؟ -

کتنے برس گزرے مبارک پور کے امام ہمارے بزرگ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کو - ان کی کتاب "تحفہ الاحوذی " نے ان کو بڑے بڑے ائمہ کی صف نہیں لا کھڑا کیا ؟-

مذاہب باطلہ کے حوالے سے آپ کے علامہ احسان الہی ظہیر نے جو کتب لکھ دیں ، کیا آنے والے کل کو وہ اپنے وقت کے امام نہ گردانے جائیں گے ؟

نواب صدیق حسن خان کہ جن کی مثال ملنا مشکل ہے ابھی کل کی ہی تو بات ہے - جس رات فوت ہوے وہ رات بھی نہایت تکلیف والی تھی - ان کے دست راست نواب ذوالفقار علی لکھتے ہیں کہ اس رات بھی ان کے زیادہ تر سوالات اپنی کتابوں کے بارے میں ہی تھے -

ہمارے یہ تمام بزرگ حالیہ دور کے ہیں - اس لیے یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کتنے ایسے امام اور علم کے پہاڑ آنے باقی ہیں - کیا ممکن کہ وہ آپ ہی ہوں .......بس ذرا خود کو کتاب کے لیے وقف کر لیجئے
 
Top