• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائلِ صلہ رحمی

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مترجم: شفقت الرحمٰن
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 14 ذوالقعدہ1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان " فضائلِ صلہ رحمی " ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا تذکرہ کیا ، اور بتلایا کہ انہی حقوق میں صلہ رحمی شامل ہے، انہوں نے اس بارے میں ایک مسلمان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیاکہ اپنے رشتہ داروں سے تعلق جوڑا جائے، ان سے ملے، انکی خوشی ، غمی میں شریک ہو، پھر انہوں نے جنت و جہنم کا بیان کرتے ہوئے واجب اعمال کے ترک اور حرام کاموں کے کرنے سے خبردار کیا۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور اسکا نسب اور رشتے بنائے ، یقینا اللہ تعالی اس پر قادر ہے،اسی نے لوگوں کے آپس میں تعلقات اور ناطے بنائے اور پھر انکے بارے میں نیکی کی وصیت کی،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے، اسکا نہ ہی کوئی مدّمقابل اور نہ ہی شریک ہے، اور اللہ تعالی سننے والا اور بصیرت والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے انہیں بشیر و نذیر اور اُسی کی دعوت دینے والا چراغِ روشنی بنا کر بھیجا، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اور تمام صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو ، جن کے حقوق تم پر عائد ہیں انہیں ادا کرو، اور ان تک پہچانے کی کوشش کرو، اللہ تعالی تمہارے لئے بہت زیادہ ثواب لکھے گا، اور عذاب سے نجات دے گا۔
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی نے فضل و کرم کرتے ہوئے اپنی کتاب میں سب کچھ بیان کردیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں وہ تمام اعمال بتلا دئے ہیں جن سے جنت کے مزید قریب ہوسکتے ہو، اور جہنم سے بچ سکتے ہو، اور اعمال کی وجہ اس دنیا میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے۔
اللہ تعالی نے بندوں پر عائد اپنے حقوق بتلا دئے ہیں، اور حقوق اللہ ہم پر سب بڑا واجب ہیں، لیکن اپنی رحمت کرتے ہوئے اس نے ہمیں انہیں کاموں کا مکلف بنایا جسکی ہم طاقت رکھتے ہیں، وگرنہ اللہ کا حق تو یہ بنتا ہے کہ اسے ہمیشہ یاد کیا جائے کبھی اُسے مت بھولیں، اسی اطاعت کی جائے، کبھی نافرمانی نہ کی جائے، اسی کا شکر ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے۔
پھر اللہ تعالی نے ہمارے ایک دوسرے پر بھی حقوق بیان کئےتاکہ زندگی آسودہ ہوجائے، خوش و خرم اور برکت والی زندگی ہو، جہاں کوئی پریشانی نہ ہو، باہمی تعاون کی فضا قائم رہے، اور آپس میں پیار ومحبت معاشرے کی امتیازی خصوصیت بن جائے۔
چنانچہ والدین کے اپنی اولاد پر حقوق بیان کئے، اولاد کے اپنے والدین پر حقوق بیان کئے، رشتہ داروں کے آپس میں حقوق بیان کئے، ایک دن ہر شخص سے ان حقوق کے بارے میں پوچھا جائے گا؛ اگر تو اچھے انداز سے ان حقوق کو ادا کیا ہوگا تو اللہ کے ہاں بلند درجات پا لے گا، کیونکہ اُس نے ایسے احکامات پر عمل کیا ہے جن کی ادائیگی سے خوف کھا کر زمین و آسمان اور پہاڑ لرز اٹھے تھے۔
اور جس نے نہ حقوق کو ادا نہ کیا، اللہ کے ہاں اسکا بدترین مقام ہوگا، جو ہر نفس کی نگرانی کر رہا ہے، اور کائنات میں ایک ذرہ بھی اس سے اوجھل نہیں ہے۔
اللہ کے بندو!
صِلہ رحمی رشتوں کو جوڑنا ایک ذمہ داری ہے جسے اللہ تعالی نے ہمارے گلے میں ڈالا ہے، یہ ایک واجب ہے جو ہمارے کندھوں پر عائد ہے، رشتہ داروں سے مرادوہ لوگ ہیں جن سے آپکا تعلق نسب کی وجہ سے ہے یا وہ آپکے سسرال سے تعلق رکھتے ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صِلہ رحمی کی تاکید فرمائی ہے، فرمایا: وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو، اور فضول خرچی نہ کرو۔ [الإسراء: 26]
ایک مقام پر صلہ رحمی کو تقوی کے بعد متصل بیان کیا، فرمایا: وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ [النساء: 1]
صلہ رحمی کی عظمتِ شان اور بنیادی اخلاقی اقدار میں شامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے صلہ رحمی ہر دین میں فرض کی ، چنانچہ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا: وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرو گے، لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے، نماز کو قائم کرو گے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے [البقرة: 83]
اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں تشریف آوری کے وقت فرمایا تھا: (لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو، رات کے وقت جب لوگ سو رہے ہوں تو قیام کرو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے)بخاری
صِلہ رحمی کا ثواب دنیا میں ہی ملنا شروع ہوجاتا ہے، اور جو آخرت میں ملے گا وہ اسکے علاوہ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: (جو اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اور لمبی عمر پانے کا خواہش مند ہو، تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے) بخاری اور ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (اپنے نسب نامے سیکھو تا کہ صلہ رحمی کر سکو؛ اس لئے کہ صلہ رحمی کرنے سےخاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے، مال میں اضافہ ہوتا ہے، اور عمر لمبی ہوتی ہے)
اور علی رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جسے یہ بات پسند ہو کہ اسکی عمر لمبی کردی جائے، اور اسکے رزق میں برکت ڈالی جائے، اور اسے بُری موت سے بچا لیا جائے تو وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے) حاکم ، بزار
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالی ایک قوم کو انکے علاقوں میں آباد کرتا ہے، اور انکے اموال میں بھی اضافہ فرماتا ہے ؛ حالانکہ اللہ تعالی نے ان سے نفرت کی بنا پر انکی طرف کبھی نظرِ رحمت سے نہیں دیکھا ہوتا) کہا گیا: اللہ کے رسول !یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: (انکے صلہ رحمی کرنے کی وجہ سے) حاکم اورطبرانی نے روایت کیا اور منذری نے کہا: "یہ حسن سند کے ساتھ ہے"
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (شرکشی اور رشتہ داروں سے قطع تعلقی سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں جن کی سزا اللہ تعالی دنیا میں جلدی دے ، اور آخرت میں عذاب تو ملنا ہی ہے) ابن ماجہ، ترمذی، اور حاکم نے اسے روایت کیا
ایک اور روایت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس نیکی کا سب سے جلدی ثواب ملتا ہے وہ ہے، صلہ رحمی، حتی کہ ایک گھرانے کے افراد فاجر اور بدکار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی انکے اموال میں اضافہ ہوتا ہے اور انکی افرادی قوت بھی زیادہ ہوتی ہے) طبرانی، اور ابن حبان نے روایت کیا۔
صلہ رحمی کی ایک خاصیت ہے جس کی وجہ سے شرح صدر ہوتی ہے، معاملات آسان ہوجاتے ہیں، اخلاق اچھا ہوجاتا ہے، سب لوگ بھی محبت کرتے ہیں، رشتہ داروں میں پیار پایا جاتا ہے، اور زندگی برکت و سعادت والی بن جاتی ہے۔
مسلمان کیلئے صلہ رحمی فرض اور واجب ہے چاہے کوئی آپ سے تعلقات ختم ہی کیوں نہ کرنا چاہے، ان حالات میں صلہ رحمی کرتے رہنے سے مسلمان کا اجر اور زیادہ ہوجاتا ہے، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ اپنے لئے نیک اعمال ذخیرہ کرےاور صلہ رحمی کرتا رہے تا کہ اچھے کاموں میں تعاون کی فضا قائم ہو، ویسے بھی یک طرفہ قطع تعلقی کیلئے کوششوں کے باوجود صلہ رحمی کیلئے کوشش کرتے رہنے سے دل مل ہی جاتےہیں، دلوں سے کینہ ختم ہونے کی بہت زیادہ توقع ہوتی ہے۔
چنانچہ ابو ذر رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مجھے نیکی کے کاموں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: میں کبھی بھی اپنے سے اوپر والے شخص کی طرف مت دیکھوں، بلکہ ہمیشہ اپنے سے نچلے درجہ والے کی طرف دیکھوں، آپ نے مجھے نصیحت کی کہ میں مساکین سے محبت کروں اور انکے قریب رہوں، یہ بھی کہا کہ میں صلہ رحمی کروں چاہے قطع تعقلی کیلئے کوشش کی جائے، اور آخر میں یہ کہا کہ ، احکاماتِ الٰہیہ کی پابندی میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لاؤں۔ احمد، ابن حبان
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:"یا رسول اللہ! میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھنا چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں، میں انکی خیر خواہی کرتا ہوں ، لیکن وہ مجھ سے بُرا سلوک کرتےہیں، میں بردباری سے انکے ساتھ پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جاہلوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں"تو آپ نے فرمایا:(اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم نے بیان کیا تو تُم انکے پیٹ میں گرم ریت ڈال رہے ہو، جب تک تم انکے ساتھ ایسے ہی اچھا سلوک کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار مقرر رہے گا) مسلم
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو صرف صلہ رحمی کرنے والوں ہی سے بنا کر رکھے، صلہ رحمی تو وہ شخص کرتا ہےجب قطع رحمی کی جاتے تو وہ صلہ رحمی کرے) بخاری
قطع رحمی دنیا میں بد بختی، بد مزگی، شر، کڑہن، بغض، نفرت کا باعث ہے، اور اللہ تعالی کے غضب کا سبب ہے، جس سے انسان اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صلہ رحمی اور امانت پل صراط کے دونوں اطراف موجود ہونگےجس نے بھی انہیں ضائع کیا ہوگا یہ اسے پکڑ کر جہنم میں گِرا دیں گی ۔
قطع رحمی کی آخرت میں سزا بہت سخت ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوچکا تو رشتہ داری نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے ملوں جو تجھے ملائے اور اس سے قطع تعلقی کروں جو تجھ سے قطع تعلقی کرے، رشتہ داری نے عرض کیا ہاں اے میرے پروردگار! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جاؤ میں نے تمہیں دے دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُ قَطِّعُوْ ا اَرْحَامَكُمْ﴾ محمد : 22) ترجمہ: پھر تم لوگوں سے کیا بعید ہے کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو زمین پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بنی آدم کے اعمال ہر جمعہ کی رات پیش کئے جاتے ہیں ، اور قطع رحمی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے)احمد
اعمش کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ صبح فجر کے بعد ایک حلقہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، کہنے لگے: "میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ ہماری مجلس سے اٹھ جائے، ہم اپنے رب سے دعا کرنا چاہتے ہیں، جبکہ قطع رحمی کرنے والے کیلئے آسمان کے دروازے بند ہوتےہیں" طبرانی
ابو موسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (تین لوگ جنت میں داخل نہیں ہونگے: ہمیشہ شراب نوشی کرنے والا، قطع رحمی کرنے والا، اور جادو گر کی تصدیق کرنے والا) احمد ، طبرانی، اور حاکم نے روایت کیا
مسلمانو!
"صِلہ رحمی "رشتہ داروں کیلئے بھلائی کرنا، مصیبت میں کام آنا، مریضوں کی عیادت، غریبوں کی مدد، بھٹکے ہوئے کی راہنمائی، انہیں زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا، صاحبِ حیثیت کو تحائف پیش کرنا، انکی خبر رکھنا، خوشی غمی میں شرکت، عدم موجودگی میں انکی اشیاء کی حفاظت ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، انکی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر ، انہیں اچھی صحبت دینا، اور ہمیشہ انکی خیر خواہی کرنے کا نام ہے۔
مراسیل حسن میں ہے: "جب لوگ زبان کے بہت میٹھے ہوں، اور دلوں میں کینہ بھرا ہوا ہو، اور رشتہ داری توڑیں تو اس وقت اللہ تعالی ان پر اپنی لعنت کرتے ہوئے انہیں بہرہ، اوراندھا کر دیتا ہے"
دورِ حاضر میں قطع رحمی بہت ہی بڑھ چکی ہے، دلوں میں ایک دوسرے کی برائیاں بھر چکی ہیں، ملنے کے اسباب کمزور پڑ چکے ہیں، اور اس قطع رحمی کا سب سے بڑا سبب دنیا داری ہے۔
ایسا شخص مبارکباد کا مستحق ہے جو نتائج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تمام لوگوں کے حقوق ادا کرتا ہے، اور اپنی ذمہ داری کو نبھاتا ہے، جبکہ اپنے حقوق کیلئے اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے، اور لوگوں سے ایسے پیش آتا ہے جیسے وہ لوگوں سے ملنے کی امید رکھتا ہے کہ اُس سے ملیں گے۔
کبھی شیطانی مکاریوں کی وجہ سے قطع رحمی کی جڑیں اتنی مضبوط ہوجاتی ہےکہ آنیوالی نسل تک اس میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی، جسکی وجہ سے محبت اپنی موت مر جاتی ہے، بگاڑ کا دائرہ اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ سرکشی اور مختلف قسم کی زیادتیاں کی جاتی ہیں، اور قطع رحمی رشتہ داروں میں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی یہاں تک کے موت ہی انکو ایک دوسرے کی آنکھوں سے ہمیشہ کیلئے اوجھل کردیتی ہے۔
اب ندامت اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دل میں دکھ ٹھاٹھے مارتا ہے، حسرت بھری نگاہوں سے انہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں لیکن آنکھوں کو اشکوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، اب آنسوں بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ، افسردہ کلمات دل کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے، جس دنیا کے پیچھے لگ کر قطع تعلقی کی تھی اسے مرے ہوئے جانور کی طرح چھوڑ کر چلتے بنے، اب ملاقات روزِ محشر ہی کو ممکن ہے، جب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جمع ہونگے اور اللہ تعالی عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔
صبر، تحمل مزاجی ، بھلائی کرنا، اورمعاف کرنا بہترین صفات ہیں، اور دل کی بیماریوں کیلئے زبردست اکسیر ہیں، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو تھام لیا، اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے افضل ترین اعمال بتلائیے، آپ نے فرمایا: (عقبہ! جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، تم اُسے دو جو تمہیں محروم رکھنا چاہے، اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کر جاؤ)ایک روایت میں الفاظ ہیں: (جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو) احمد، حاکم
مسلمانو!
کبھی عورت غلط خبریں پھیلانے کی وجہ سے قطع رحمی کا سبب بن سکتی ہے، یہ کبھی عیوب کو بیان کرتی ہے اور خوبیوں کو زمین میں دفن کردیتی ہے، اور مَردوں کو بھڑکاتی ہے، اور کبھی اپنی حماقت کی وجہ سے اپنے اس عمل کو مصلحت بھی کہہ جاتی ہے، معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے بچوں کو رشتہ داروں سے بدسلوکی کی ترغیب دیتی ہے، اور سارے کا سارا گناہ اُسی کے سر جاتا ہے، جبکہ اللہ تعالی اسکے ہر عمل کو غور سے دیکھ رہا ہے۔
اس کے برعکس کبھی عورت صِلہ رحمی کا بھی سبب بنتی ہے، کہ خود صبر کرے اور اپنے خاوند کو نصیحت کرے، اور اسے اچھے کاموں کی ترغیب دلائے، اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے، اللہ تعالی اسے اس کام پر ثواب دے گا ، اسکے حالات درست کردیگا، اور آخرت بھی سنوار دےگا۔
مسلم خواتین! اللہ تعالی سے ڈرو، رشتہ داروں میں اصلاح پیدا کرو، خیال کرنا کہیں قطع رحمی کا سبب نہ بن جانا، اللہ تعالی سے چھوٹی بڑی کوئی چیز مخفی نہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے: فَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ذَلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اپنے قرابت والے کو مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو ۔ یہ بات ان لوگوں کےلئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔ [الروم: 38]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چلائے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگووہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جو بہت ہی مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور اسکی تمام نعمتوں پر میں اسکا شکر کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا معبود ہے اسکا کوئی شریک نہیں وہی جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں ، وہی صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں اپنی رحمت نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ کا ڈر مفید ترین زادِ راہ ہے، اور دنیا و آخرت کی مشکل گھڑیوں میں کام آئے گا۔
مسلمانو!
اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے انکی تعظیم کرو، اور جن کاموں سے اللہ نے روکا ہے، ان سے بچو، فرمانِ باری تعالی ہے: وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اور اس دن سے ڈر جاؤ۔ جب تم اللہ کے حضور لوٹائے جاؤ گے۔ پھر وہاں ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا [البقرة: 281]
حقوق اللہ اور حقوق العباد سب ادا کرو، یہی حقیقت میں کامیابی ہے،
اللہ کے بندو! اللہ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے، وہ تمہاری ایک ایک حرکات وسکنات کو شمار کر رہا ہے، اس لئے آخرت کیلئے نیک اعمال کرلو؛ آخرت کا گھر ہمیشہ کا گھر ہے، جسکی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہونگی، اور وہاں ہمیشہ جوان رہو گے، وہاں کے محلات بوسیدہ نہیں ہونگے، اور نہ کسی کو موت آئے گی۔
اس آگ سے بچ جاؤ جسکا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، جس کا عذاب بہت شدید ہے، وہ بڑی ہی گہری جہنم ہے، جہاں کھانے کیلئے تھوہر کا درخت ہوگا، اور پینے کیلئے کچ لہو، اور تل چھٹ دیا جائے گا، پہننے کیلئے گندھک اور لوہے کا لباس ہوگا۔
سنو! اللہ تعالی نے رات کو ہم پر کچھ اعمال فرض کئے ہیں جو دن میں قبول نہیں فرماتا ، اور کچھ دن میں فرض کئے ہیں جنہیں وہ رات کو قبول نہیں کرتا، لوگوں کے اعمال ہی ثواب یا عقاب بنتے ہیں، فرمانِ الہی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ جس نے کوئی اچھا عمل کیا وہ اسی کے لئے ہے اور اگر برا کرے گا تو وہی اس کا خمیازہ بھگتے گا پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے [الجاثية: 15]
اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتاہے: (میرے بندو! تمہارے اعمال کو میں شمار کرتا ہوں، پھر تمہیں اسکا پورا اجر ملے گا، جو اچھا اجر پائے تو اللہ کی تعریف کرے اور جسے کچھ اور ملے تو وہ اپنے آپ کوہی ملامت کرے)مسلم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔
اس وقت کو یاد رکھو جب نامہ اعمال دئیے جائیں گے، کچھ اپنے دائیں ہاتھ میں تھامیں گےاور کچھ بائیں ہاتھ میں ، اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
چنانچہ سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام بھیجو۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول ، آپکی آل، ازاوج مطہرات پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ !اپنے اور دین کے دشمنوں کوتباہ و برباد کردے، تو ں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے ممالک کو امن و امان نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! ہمیں اپنے نفس کے شر سے محفوظ فرما، اور ہمیں برے اعمال سے بچا، اور ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تما م مسلمانوں کو ابلیس اور اسکے چیلوں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! دودھ پیتے معصوم بچوں کی مدد فرما، یا اللہ! دودھ پیتے معصوم بچوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکا انتقام لے، یا اللہ! کمزور بوڑھوں کا بدلہ لے، یا اللہ! بیوہ خواتین کا انتقام لے، یا اللہ! شام میں ان پر ظلم ہو رہا ہے ، یا اللہ! انکی مدد فرما ، اور انکا بدلہ لے۔
یا اللہ! ظالموں پر اپنا عذاب نازل فرما، یا اللہ توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کو ہر جگہ محفوظ فرما، یا اللہ! اسلام کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلم املاک ، عزت آبرو، اور خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہر جگہ انکی مدد فرما، یا اللہ ! انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کو نفسانی شر سے بچا، برے اعمال کے شر سے بچا، اور نہیں شریروں کے شر سے محفوظ فرما، بدکار لوگوں کی مکاریوں سے بچا، یا اللہ! انہیں کلمہ حق پر متحد ہونے کی توفیق عنائت فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! انکے دلوں کو ملا دے۔
یا اللہ خادم الحرمین الشریفین کو اپنی رضا کے مطابق کام کی توفیق دے، یا اللہ! اپنی زیر نگرانی اسکی راہنمائی فرما، یا اللہ!اسے ہر نیک کام کی توفیق دے، اور ہر اچھے کام پر اسکی مدد فرما، یا اللہ!ولی عہد کو بھی اپنی رضا کے مطابق توفیق دے، یا اللہ ! انکی راہنمائی فرما، اسکی قوم ملک اور تمام مسلمانوں کی خدمت پر مدد فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! حجاج ، اور معتمرین کو سلامتی کے ساتھ رکھ، یا اللہ! حجاج ، اور معتمرین کو سلامتی کے ساتھ رکھ،یا اللہ! حجاج کرام کو اپنے وطن صحیح سلامت پہنچا، یا اللہ! انکے معاملات کو آسان فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتےہیں کہ تمام مسلمانوں کی ہر جگہ ، برّ و بحر اور فضا میں حفاظت فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادرہے۔
یا اللہ ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچا، اور ہمارے اعمال کے شر سے بچا، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
لنک
 
Top