• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل تجارت-4:اسلام کا مزاج اپنی روزی خود کماؤ، دین کا تقاضا وسائل کا بھرپور استعمال

deewan

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2014
پیغامات
70
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
57
پچھلا مضمون: فضائل تجارت-3: اسلام میں مال کی حیثیت
========================
اسلام کا مزاج، اپنی روزی خود کماؤ
فرد ہو یا قوم، مال ہی ہے جو زندگی میں آسانیاں بہم پہنچاتا ہے۔ مال والا دینے والا بنتا ہے نہ کہ سوال کرنے والا۔ وہ خرچ کرنے والا بنتا ہے نہ کہ مانگنے والا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
الید العلیا خیر من ید السفلی (صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ)
ترجمہ: اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے
آپ ﷺ نے ہمیشہ اس بات کی ترغیب دی کہ انسان کسی سے مانگنے کی بجائے خود انحصاری کی کوشش کرے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن ابي هريرة ان رسول الله قال و الذي نفسي بيده لان ياخذ احدكم حبله في حتطب على ظهره خير له من ان ياتي رجلا اعطاه الله من فضله فيساله اعطاه او منعه (صحیح البخاری، کتاب الزکوۃ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔
یہ مزاج شریعت کے خلاف ہے کہ ہٹے کٹے انسانوں کو روزانہ مفت کھانا کھلایا جائے۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اپنی غریبی کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے گھر میں کچھ سامان ہے، اس پر وہ بولا:
بلى حلس نلبس بعضه ونبسط بعضه وقدح نشرب فيه الماء قال ائتني بهما قال فاتاه بهما فاخذهما رسول الله ﷺ بيده ثم قال من يشتري هذين فقال رجل انا آخذهما بدرهم قال من يزيد على درهم مرتين او ثلاثا قال رجل انا آخذهما بدرهمين فاعطاهما اياه واخذ الدرهمين فاعطاهما الانصاري وقال اشتر باحدهما طعاما فانبذه الى اهلك واشتر بالآخر قدوما فاتني به ففعل فاخذه رسول الله ﷺ فشد فيه عودا بيده وقال اذهب فاحتطب ولا اراك خمسة عشر يوما فجعل يحتطب ويبيع فجاء وقد اصاب عشرة دراهم فقال اشتر ببعضها طعاما وببعضها ثوبا ثم قال هذا خير لك من ان تجيء والمسالة نكتة في وجهك يوم القيامة ان المسالة لا تصلح الا لذي فقر مدقع او لذي غرم مفظع او دم موجع (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات)
ترجمہ: ’’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ دونوں میرے پاس لے آؤ۔“، چنانچہ وہ انہیں آپ ﷺ کے پاس لے آیا، رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ”یہ دونوں کون خریدے گا؟“، ایک آدمی بولا: ’’انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے پوچھا: ”ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟“، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ ﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا: ”ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ“، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: ”جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں“، چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر وہ آیا اور (اس وقت تک وہ) دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے۔‘‘
دین کا تقاضا، وسائل کا بھرپور استعمال
مال کمانے کے لیے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ وسائل چاہے مال کی صورت میں ہوں، زمین کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں شریعت نے ان کو فائدہ مند بنانے اور معاشی سرگرمی میں لگانے کی ترغیب دی ہے اور ان کو بے کار اور منجمد رکھنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک مری ہوئی بکری پر ہوا تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:
هلا انتفعتم بجلدها ‏‏ قالوا انها ميتة‏ قال ‏ انما حرم اكلها (صحیح البخاری)
ترجمہ: تم لوگ اس کی کھال کو کیوں کام میں نہیں لائے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے
زمین وسائل میں سے ایک قیمتی وسیلہ ہے جس کے متعدد استعمال ہیں۔ اس حوالے سے سنن ابی داؤود میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی موجود ہے:
من احيا ارضا ميتة فهي له (الحدیث)
ترجمہ: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (وہی اس کا مالک ہو گا)
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من عمر ارضا ليست لاحد فهو احق بها (صحیح البخاری)
ترجمہ: جس نے کوئی ایسی زمین آباد کی جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حق دار ہے
یہاں اتنی بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب حکومت کی زیرنگرانی اور اجازت سے وابستہ ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ کا گزر زمین کے ایک بےآباد ٹکڑے پر ہوا جو سیدنا بلالؓ کی ملکیت میں تھا۔ سیدنا عمرؓ نے جب دیکھا کہ وہ زمین یونہی بیکار پڑی ہے تو ان سے تقاضا کیا کہ وہ اس زمین کے جتنے حصے کو آباد کرسکتے ہیں اتنا اپنے پاس رکھیں اور باقی لوٹا دیں۔ سیدنا عمرؓ کے موقف کے پیچھے یہی فکر کام کر رہی تھی کہ زمین بے کار نہ رہے۔
اسی طرح کی صورتحال صحابی رسول ﷺ حضرت خزیمۃؓ کو بھی پیش آئی تھی۔ ان کی زمین بھی غیرآباد پڑی تھی۔ سیدنا عمرؓ نے حضرت خزیمۃؓ سے پوچھا کہ اس زمین پر کاشت کیوں نہیں کرتے۔ حضرت خزیمۃؓ نے جواب دیا کہ میری عمر بہت ہوگئی ہے آج یا کل موت ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کو آباد کرنے سے مجھے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ سیدنا عمرؓ نے ان کے اس عذر کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ہم دونوں مل کر اس میں کاشت کریں گے۔ یہاں بھی یہی فکر کارفرما تھی کہ کسی شخص کو جو پیداواری وسائل حاصل ہیں وہ بے فائدہ نہیں پڑے رہنے چاہئیں بلکہ کسی نہ کسی مصرف میں آنے چاہئیں۔ مثلًا زمین ہے کہ اس کو جب کسی کام میں لایا جائے گا تو وہ ایک پیداوری یونٹ بن جائے گی جس سے نہ صرف اس کے مالک کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ کچھ اور لوگوں کی روزی کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔
اس واقعہ میں ایک اور سبق بھی ہے کہ خیر کے کسی کام سے کسی وقت بھی نہیں رکنا چاہیے۔ اس بارے میں رسول ﷺ نے کیا حکم فرمایا مسند احمد کی اس روایت کو پڑھیے:
ان قامت الساعة و في يد احدكم فسيلة فان استطاع الا تقوم حتى يغرسها، فليغرس ها
ترجمہ: اگر قیامت طاری ہوچکی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو (جو وہ زمین میں لگانا چاہتا ہو) تو اگر اس کے لیے ممکن ہو تو اس کو لگا دے
(جاری ہے)​
 
Top