• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل ومسائلِ ذی الحجہ(1) ۔

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
فضائل ومسائلِ ذی الحجہ(1) ۔

اعمالِ صالحہ کہیں بھی اور کبھی بھی انجام دئے جائیں، وہ ایک مسلمان کیلئے باعثِ اجروثواب اور ربِ دو جہاں کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن شریعتِ اسلامیہ نے کچھ ایسے مخصوص ایام متعین کئے ہیں جن میں نیک اعمال کی فضیلت بڑھ جاتی ہے، اس لئے شریعتِ مطہرہ نے اپنے ماننے والوں کو ان ایام میں کثرت سے اعمالِ صالحہ بجالانے کی ترغیب دلائی ہے۔
انہی فضیلت والے ایام میں سے ماہِ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن بھی ہیں، چنانچہ حدیث نبوی ہے : "إن أفضل أيام الدنيا أيام العشر"، قالوا: يا رسول الله ولا مثلهن في سبيل الله؟ قال: "ولا مثلهن في سبيل الله، إلا من عفر وجهه في سبيل الله"(1).
مفہومِ حدیث: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دس دنوں میں کئے جانے والے نیک اعمال کو جتنی فضیلت حاصل ہے اتنی فضیلت دیگر دنوں میں کئے گئے اعمالِ صالحہ کو حاصل نہیں، اس پر بعض صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کیلئے جو ایام گذارے جاتے ہیں ان کو بھی ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں جیسی فضیلت حاصل نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی برابری جہاد میں گذارے گئے دن اور رات بھی نہیں کر سکتے، البتہ جو شخص میدانِ جہاد میں اللہ کی خاطر جان ومال قربان کردیتا ہے صرف اس شخص کے عمل کو ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں کئے گئے اعمالِ صالحہ پر فضیلت حاصل ہوگی۔
محترم قارئین: غور فرمائیں کہ اللہ رب العالمین ان ایام کو کس قدر فضیلت بخشا ہے، اللہ نے ان ایام کی قسم کھائی ہے، دنیا کے تمام دنوں پر اسے فضیلت بخشی، ان ایام میں کئے گئے نیک اعمال کو تمام دنوں میں کئے گئے نیک عمل سے افضل قرار دیا، ان دنوں میں کثرت سے ذکرِ الہی کا حکم دیا، انہی دس دنوں میں سے ایک دن عرفہ ہے جس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، عرفہ کے دن اللہ رب العالمین جتنی تعداد میں لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے، اتنا کبھی نہیں کرتا، انہیں دس دنوں میں سے ایک دن قربانی کا ہے جسے "یوم النحر" کہتے ہیں، یہ اللہ کے نزدیک سب سے عظیم الشان دن ہے۔

کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کو رمضان کے آخری عشرہ پر بھی فضیلت حاصل ہے؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ذی الحجہ کے دس دن رمضان کے آخری دس دن سے افضل ہیں کیوں کہ ان دس دنوں میں عرفہ اور قربانی کا دن ہے جبکہ رمضان میں یہ ایام موجود نہیں، اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کو ذی الحجہ کی دس راتوں پر فضیلت حاصل ہے کیوں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر ہے جو کہ ذی الحجہ میں نہیں پائی جاتی۔

قارئین کرام: ان ایام کی فضیلت کا بھر پور فائدہ اٹھائیں، اور جس قدر ممکن ہو سکے خیر وبھلائی جمع کریں، خود بھی عمل کریں اور اہل و عیال کو بھی ترغیب دلائیں، ان ایام میں بالخصوص اور دیگر ایام میں بالعموم ہر قسم کی برائیوں سے دور رہیں، تلاوتِ قرآن، دعاء، اور نوافل کا اہتمام کریں، بکثرت روزے رکھیں، بعض حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ذی الحجہ سے نو ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے(2)۔

کثرت سے ذکر واذکار کریں، ان ایام میں ابو ہریرہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بازار کی طرف نکلتے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھتے(3)۔
احادیث میں تکبیر و تہلیل کی کافی فضیلت وارد ہوئی ہے،
چنانچہ قَالَ رَسُولُ اللَّه ﷺ :- «ما أَهَلَّ مُهِلٌّ قطُّ إلَّا بُشِّرَ، ولا كَبَّرَ مُكَبِّرٌ قطُّ إلَّا بُشِّرَ ، قيل يَا رسُولََ اللهِ : بالجنةِ ، قال : نَعَمْ»(4)۔
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جب کوئی لا الہ الا اللہ یا اللہ اکبر کہتا ہے تو اسے خوشخبری سنائی جاتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا جنت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں".

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تکبیر کے کوئی خاص الفاظ وارد نہیں ہیں، البتہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے"اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کبر لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد" کہنا ثابت ہے(5)۔

اللہ ہم سبھوں کو اعمالِ صالحہ بجالانے کی توفیق عطا کرے۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابو احمد کلیم
جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) کشف الاستار فی زوائد البزار (1128)، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے( صحیح الجامع 1133).
(2) صحیح ابی داود (2129).
(3) صحیح البخاری۔
(4) حسنہ الألباني [السلسلة الصحيحة (1621)].
(5) ابن ابی شیبہ (5633)، شیخ البانی نے اسے موقوفا صحیح کہا ہے۔
 
Top