• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائے بدر پیدا کر

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
فضائے بدر پیدا کر

مسلمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہمیشہ سے آج تک اور آج سے قیامت تک حضورﷺ کی معیت ہے اسلام دراصل نام ہی معیت رسالت کا ہے نبی کریم ﷺ سے تعلق ہی تمام اعمال کی بنیاد ہے حتیٰ کہ معرفت الہٰی ،اﷲ رب العزت کی پہچان اور تمام کمالات کی بنیاد وہ نسبت ،وہ تعلق،وہ ایمان ہے جو ہمیں آقائے کریم ﷺ سے نصیب ہوا ہے ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ دنیا کا کوئی کام ہو یا آخر ت کا،ذاتی سطح سے لیکر میدان حشر کے بڑے بڑے معرکوں تک۔ ہر مسلمان کا بھروسہ حضورﷺ ہی کی معیت رسالت پر ہے اسکی توجیہ سب لوگ اپنے انداز میں مختلف کرتے ہیں لیکن اصل بات ایک ہی ہے کہ سب کا اعتماد، سب کی امید،سب کی توقع اس معیت رسالت پر ہے۔
اب اس میں کچھ چھوٹے چھوٹے دھوکے لگنے لگے ہیں کہ اس تعلق کو لوگوں نے دنیوی خواہشات کی تکمیل کا سبب سمجھ لیا اور یوں برکات نبوت کے ثمرات پر امیدیں دنیا کی طرف لگ گئی ہیں۔ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ میری نسبت چونکہ آپ ﷺ سے ہے لہٰذا مجھے دولت زیادہ ملنی چاہیے۔مجھے دنیاوی نقصانات نہیں ہونے چاہیں اگریہ توقعات ہماری منشا کے مطابق پوری نہ ہوئیں تو ہم عظمت رسالت ﷺمیں شک کرنے لگے کچھ ایسی ہی توقعات ہماری اولیاء اﷲ سے بھی ہو چکی ہیں اور ہمارا رشتہ ء ایمان و عمل دنیوی خواہشات اور ضروریات کے دائرہ کار میں چلا گیا ہے۔ لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہمارے دنیا کے جتنے کام ہو رہے ہیں یہ شاید ہمارا پیر ہی کر رہا ہے اگر انہیں یہ یقین آ جائے کہ یہ کام تو از خود ہو رہے ہیں اور اﷲ کریم کر رہا ہے۔اس کا نظام کائنات اپنی روش پہ چل رہا ہے تو پھر مزاروں پہ یہ چلے، یہ بھیڑبھاڑ،یہ نذرانے، یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ایسی فضول توقعات نے ہمیں کہاں پہنچا دیاکہ اطاعت الہٰی بھی ہم سے جاتی رہی۔سال بعد عرس کی تقریب میں شرکت سے سارے سال کی نمازیں روزے اور عبادات بھی معاف ہو گئیں ایک دفعہ پاکپتن شریف بہشتی دروازے سے گزر گئے تو ساری زندگی عمل کی ضرورت ہی نہ رہی۔جنت و دوزخ کا فیصلہ تو اﷲ کریم نے خود ہی کرنا ہے۔ دروازوں سے گزرنے پر تو موقوف نہیں ۔آج ہدایت کے نام پر یہ ساری گمراہی پھیل گئی۔
انبیائے کرامؑ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ مخلوق کو خالق سے آشنا کریں۔اﷲ کے ساتھ تعلق کیسے بنے گا؟وہ کس بات پر راضی ہوتا ہے؟اس کی رضامندی کیلئے کیا چھوڑنا ہے اور کیا کرنا ہے؟اس تعلق کی ضرورت کیا ہے؟ اسکی طلب ہمارے دل میں کیسے پیدا ہو؟ یہ کام سوائے انبیائے کرام ؑ ،محض عقل سے سمجھ ہی نہیں آسکتا۔کوئی دانشمند کوئی فلسفی نہیں سمجھ سکتا ۔
؂ یہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاوں میں
برکات نبوت ﷺ کے ساتھ دنیا کی نعمتیں بھی مل جائیں تو اﷲ کا احسان ہے لیکن اگر نہ ملیں تو یہ شرط نہیں برکات نبوت کے ساتھ جو چیزیں مشروط ہیں وہ کچھ اور ہیں وہ دنیا کی ان چیزوں سے بہت زیاد ہ قیمتی ہیں ساری دنیا دے کر بھی وہ چیزیں نہیں ملتیں ۔معیت رسولﷺ کی برکات سے وہ لوگ ایسی گھٹا بن جاتے ہیں جن کے بدن میں وہ بجلیاں تڑپتی ہیں اور جنکے دامن ابر رحمت سے بھی لبریز ہوتے ہیں وہ ایسی داناوبینا بجلیاں اور گھٹائیں بن جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کونسا خرمن جلانا ہے اور کون سا گلشن بسانا ہے؟معیت نبوت لوگوں کو انکی جبلی عادتوں میں گرفتاراور مدہوش کرنیکی بجائے انکو جبلی خصوصیات پر قبضہ و اختیار دے دیتی ہیں۔انکی قوت غضبیہ اور
شہوانیہ انکے تابع ہو جاتی ہیں ۔نبی کریم ﷺ کی برکات اور معیت رسالت کچھ ایسی کیفیات قلبی عطا کرتی ہیں کہ کبھی دنیا کا کفر اسے گناہ سے سمجھوتہ نہیں کروا سکتا۔ وہ دنیا کے سارے دکھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اﷲ کی نافرمانی نہیں کر سکتے دنیا کی ساری لذتیں چھوڑ سکتے ہیں ۔لیکن اﷲ کی اطاعت نہیں چھوڑ سکتے ۔معیت رسالت ﷺکی برکات امت مسلمہ کو ولی اﷲ بنا دیتی ہیں اور پھر ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے والے ذکر اذکار سیکھ کر وہ کیفیات حاصل کر لیتے ہیں پھر جنکی سوچیں انہیں دنیاداری سے بالاتر کر کے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا غلام بنا دیتی ہیں۔
معیت رسالت کا حاصل یہ ہے کہ انسان ان عظمتوں پر پہنچے جہاں پہنچنا عام آدمی کے بس کا روگ ہی نہیں انسانی توقعات کو ان بلندیوں پر لے جائے جہاں دنیا تو دنیا آخرت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے برکات نبوت تووہ شعلہ جوالہ ہے جس نے چرواہوں کو جرنیل، جاہلوں کو عالم فاضل اور دنیا کا امام بنا دیا ،نادان دنیا کے سیاست دان بن گئے خانہ بدوش دنیا کے حکمران بن گئے صحبت پیعمبر ﷺ نے انسانوں کو وہ عظمتیں عطا کیں کہ فرشتے ترسنے لگے۔جن کو بدر میں کھڑا کر کے اﷲ نے فرشتوں کو دکھایا کہ تم کہتے تھے انسان کیا بلا ہو گا لو دیکھو بدر میں کھڑے میرے ان بندوں کو ،یہ بھاگیں گے نہیں کٹ مریں گے کفر کے مقابل پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہیں بچوں کی محبت اور بیویوں کے سہاگ یاد نہیں آیءں گے یہ میری محبت کے اسیر ہیں۔اب جاؤ اور ان کی طرف سے میدان جنگ میں جاکر لڑو۔یہ لوگ انسانیت کی عظمت کومعیت رسولﷺکو پا گئے۔لیکن آج ہم نے مذہب کو پھٹیچر سمجھ رکھا ہے کہ آدمی اسکی وجہ سے بے کار سی چیز بن جائے۔قارئین ہم نے اسلام کو اپنایا ہی نہیں ورنہ اسلام نے تو انسانی عظمتوں کے انبار لگا دیے ان بلندیوں پر پہنچایا کہ اس سے آگے بڑھنا انسان کیلئے شاید ممکن ہی نہ تھا۔رب کریم خود فرماتا ہے واتممت علیکم نعمتی اے بنی آدم میرے نبی کی بعثت نے تجھے ان آخری منزلوں تک پہنچا دیا کہ جہاں تک انسانیت کی رسائی ممکن تھی۔
میرے بھائیو ! اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو حضور ﷺ کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ۔یہی بہت بڑی دولت ہے اس دربار میں پہنچنے کا زینہ تلاش کرو ۔دال روٹی سے اپنی سوچوں کوآگے لے جاؤ۔حضورﷺ سے وابستہ لوگ تو جمال باری سے نیچے کسی بات پر راضی ہی نہیں ہوتے معیت رسالت کا ثمر یہ کیفیات ہیںیہ جذبہ ہے، یہ عشق ہے،یہ جنون ہے لیکن یہ جرأت رندانہ کہاں سے ملی؟ جو اس کے لبوں سے اپنا اظہار کر رہی ہے ۔یہ جمال مصطفوی ہے۔ جو کسی زبان سے ٹپک رہا ہے یہ حسن پیامبرﷺ ہے جو کسی کی آرزوئے گل سے ہویدار ہے ۔یہ جمال نبوت ہے جسکی روشنی اسکی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ وہ کیا ہے؟ اسے تو ایک ٹکے پہ خریدا جا سکتا ہے۔کسی ایک بندوق کی نالی اسے سب کچھ ماننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لیکن آج وہ ان سب چیزوں سے بیگانہ دوزخ سے اور آخرت کے عذابوں سے اور آخرت کی نعمتوں سے بھی آگے نکل گیا نہ اسے کوئی لالچ روکتا ہے نہ کوئی دھمکی جب اسے دوزخ کا ڈر نہیں تو دنیا کا ڈر کیا ہو گا؟اسے جنت کا لالچ نہیں تو پھر کسی اور چیز کا کیا لالچ ؟یہ تو دو عالم سے ہاتھ اٹھا کر کہاں جا پہنچا؟ عشق رسولﷺ اسے کیا دے گیا؟ یہ تو مالک کی عطا ہے۔لیکن اس کے مانگنے کے انداز نرالے ہو گئے اس نے بندہ بن کر ثابت کر دیا کہ بندگی اسے کہتے ہیں۔آؤ آج پھر در رسول سے وابستہ ہو کر اپنے کردار سے ثابت کرو کہ مسلمانی اسے کہتے ہیں آؤاس در سے پھر وہ جنون حاصل کرواور در یار سے وفا کرو۔س
؂ آؤ اس در پر کبھی خود سے ملاقات کریں
ازافادات :۔ امیر محمد اکرم اعوان
 
Top