• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضول گو، باتونی انسان

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فضول گو، باتونی انسان

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے:
(( إِنَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یَبْغِضُ الْبَلِیْغَ مِنَ الرِّجَالِ، الَّذِيْ یَتَخَلَّلُ بِلِسَانِہِ تَخَلَّلَ الْبَاقِرَۃُ بِلِسَانِھَا۔ ))1
’’ اللہ تعالیٰ فضول باتیں کرنے والے سے دشمنی رکھتا ہے جو اپنی زبان کو اس طرح پھیرتا ہے جیسے گائے (گھاس کھاتے وقت) اپنی زبان پھیرتی ہے۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے:
(( إِنَّ مِنْ أَحَبَّکُمْ إِلَيَّ وَأَقَرَبِکُمْ مِنِّيْ مَجْلِسًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَحَاسِنُکُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ مِنْ أَبْغَضَکُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدِکُمْ مِنِّيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الثَّرْثَارُوْنَ وَالْمُتَشَدِّقُوْنَ وَالْمُتَفَیْھِقُوْنَ۔ ))2
’’ بلاشبہ تم میں سے میری سب سے زیادہ قربت و محبت کے اہل قیامت کے دن تم سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور تم میں سے قیامت کے روز میرے نزدیک ناپسندیدہ اور مجھ سے دور تر وہ لوگ ہوں گے، جو باتونی، زبان دراز اور متکبر ہیں۔ ‘‘
شرح البلیغ: کلام کی فصاحت و بلاغت میں مبالغہ آرائی سے کام لینے والا اور اپنی زبان کو گھمانے والا مراد ہے یعنی اپنی زبان کے ساتھ کھاتا ہے یا اپنے دانتوں کے گردا گرد بلاغت و بیان کے اظہار میں مبالغہ کرتے ہوئے زبان پھیرتا ہے جیسے گائے اپنی زبان پھیرتی ہے یعنی کلام میں زبان درازی کرتا ہے اور کلام کو ایسے لپیٹتا ہے جیسے گائے اپنی زبان کے ساتھ گھاس لپیٹتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح سنن أبي داؤد، رقم: ۴۱۸۵۔
2- صحیح سنن الترمذي، رقم: ۱۶۴۲۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گائے کا تذکرہ خصوصاً اس لیے کیا گیا ہے کہ تمام چوپائے گھاس وغیرہ کو دانتوں کے ذریعہ پکڑتے ہیں لیکن یہ زبان کے ذریعہ چارہ جمع کرتی ہے۔
مگر جس انسان کی فطرت میں بلاغت پائی جاتی ہے وہ برا نہیں۔
فضول باتیں کرنے والے سے مراد وہ انسان ہے جو غیر پر عیب لگاتے ہیں اور بلندی ظاہر کرتے ہوئے کسی عظیم چیز کی حقارت پر غلبہ حاصل کرنے اور کسی حقیر چیز کی عظمت ظاہر کرنے کی طرف وسیلہ پکڑنے کے لیے فصاحت کا اظہار کرکے یا غیر کو عاجز کرنے کے ارادہ سے یا باطل کو حق کا لبادہ پہنانے کے لیے یا اس کے برعکس کام کرنے کے لیے فصاحت کا اظہار کرے یا اپنے حکام کا احترام کرنے اور اپنی وجاہت کو بلند کرنے اور اپنی سفارش قبول کروانے کے لیے بلاغت کا اظہار کرے۔
المتشدق: مراد وہ انسان ہے جو بغیر احتیاط اور احتراز کے باتوں پر باتیں کیے جائے اور ان کی وجہ سے اپنا منہ بھی کھولتا ہو۔
’’شدق‘‘ منہ کے کناروں، (ہونٹوں سے رخساروں سمیت ڈاڑھوں تک) کو (باچھیں) کہتے ہیں۔ چنانچہ ایسا انسان منہ کے کنارے بھر کر باتیں کرے تاکہ اپنی کلام کی فصاحت و عظمت اور غیر پر بلندی ظاہر کرسکے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تکبر اور اوچھے پن کی علامت ہے۔
تشدق، سجع کلامی کے تکلف اور فصاحت کے ذریعہ کلام میں گہرائی کو جانا، نیز تشبیہات و مقدمات اور ان اشیاء کے ذریعہ جو فصاحت و بلاغت کا اظہار کرنے والوں کی عادت ہے، کلام میں تصنع اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کے ہاں مذموم، بناوٹ، برا تکلف اور مبغوض عمل ہے۔
خوبی یہ ہے کہ ہر چیز میں اس کے مقصود پر اکتفا کیا جائے۔ چنانچہ کلام کا مقصد غرض کو سمجھانا ہے، اس کے علاوہ باقی ہر مقصد مذموم، تصنع و بناوٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ بغیر افراط اور انوکھا پن پیدا کرنے کے وعظ و نصیحت اور خطاب کے الفاظ کا حسن مذکورہ حکم میں شامل نہیں کیونکہ اس کا مقصد دلوں کو تحریک اور شوق دلانا ان کو قبض کرنا اور پھیلانا ہے۔ چنانچہ الفاظ کی خوش نمائی اس کام میں اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا یہ اس کے لائق ہے۔ حاجات پوری کرنے کے لیے جو محاورات ہیں، ان کے ساتھ سجع کلامی اور تشدق کرنا اور ان کے ساتھ مشغول ہونا، مذموم تکلف ہے کیونکہ اس پر ابھارنے والی چیز صرف اور صرف ریاکاری، فصاحت و فوقیت کا اظہار ہے اور یہ تمام اشیاء مذموم ہیں۔ شریعت انہیں ناپسند کرتی ہے اور ان سے ڈانٹتی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
(( مُتَنَطِّعُوْنَ۔)) ہلاک ہوگئے۔1
متنطعون سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے افعال و اقوال میں گہرائی میں جانے والے اور غلو کرنے اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔
مذکورہ ناپسندیدگی کا تعلق بیان میں مروّت اور حسن کلام کے ساتھ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق {خَلَقَ الْاِِنسَانَ o عَلَّمَہُ الْبَیَانَ o} [الرحمن : ۳۔۴] کے ساتھ ہے کیونکہ اسے تو رب تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے ایک نشانی قرار دے رہے ہیں تو معلوم ہوا بغض کا مقام اس وقت ہے جب لوگوں کو تعجب میں ڈالنا اور اپنی عظمت ظاہر کرنا مقصود ہو، وگرنہ نہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- مسلم، کتاب العلم، باب: ھلک المننطعون رقم ۶۷۸۴۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top