• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضیلت ِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فضیلت ِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ

صحیحین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَدْکَانَ فِی الْاُمَمِقَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَاِنْ یَّکُنْ فِیْ اُمَتِّیْ اَحَدٌ فَعُمَرُمِنْھُمْ۔
(بخاری کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار برقم: ۳۴۶۵، وکتاب فضائلالصحابۃ باب مناقب عمر رضی اللہ عنہ )
’’تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہو گزرے ہیں اور اگر میری امت میں بھی محدث ہیں تو عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہے۔‘‘
ترمذی وغیرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوٍْ لَمْ اُبْعَثْفِیْکُمْ لَبُعِثَ فِیْکُمْ عُمَرُ۔
(یہ روایت ترمذی میں نہیں دیلمی اور ابن عدی (۳/۱۵۵) نے یہ حدیث نقل کی ہے لیکن حدیث صحیح نہیںہے۔)
’’اگر میں تم میں مبعوث نہ ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ مبعوث ہوتے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
اِنَّ اللہَ ضَرَبَالْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلبِہ وَفِیْہِ لَوْکَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْلَکَانَ عُمَرُ۔
(ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عمر بن الخطاب، رقم: ۳۶۸۲،۳۶۸۶۔حدیث حسن)
اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل کو حق سے معمور کر دیا ہے اور اسی میں یہ بھی ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ ہوتا۔‘‘
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ہم اس امر کو بعید نہیں سمجھتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے سکینت برس رہی ہے۔‘‘
(مسند احمد۱۰۶/۱) شرح السنہ البغوی برقم: ۳۸۷۷۔)
یہ قول ان سے امام شعبی کی روایت سے ثابت ہے۔
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے جب کبھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ فرماتے تھے کہ میری رائے یہ ہے تو ایسا ہی ہوتا تھا جیسا کہ وہ کہتے تھے۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمررضی اللہ عنہ حدیث (۳۶۸۲))
قیس رضی اللہ عنہ بن طارق سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں ہم کہا کرتے تھے کہ

عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے فرشتہ باتیں کرتا ہے

اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ

فرمانبردار لوگوں کے منہ سے قریب ہو کر باتیں سنا کرو کیونکہ ان پر سچی باتیں کھلتی ہیں

اور سچی باتیں جن کے متعلق سیدناعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یہ خبر دی ہے وہی باتیں ہیں جو اللہ عزوجل ان پر منکشف فرماتا ہے اور یہ امر ثابت شدہ ہے کہ اولیاء اللہ کو (الہام کے ذریعہ) خطاب بھی ہوتے ہیں اور ان کو کشف بھی ہوتا ہےاور ان لوگوں میں سب سے افضل امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بڑا درجہ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے پھر سیدناعمر رضی اللہ عنہ کا۔
صحیحین میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس امت کے محدَّث ہونے کی تعیین ثابت ہے چنانچہ جو محدث اور مخاطب بھی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوگا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس سے افضل ہوں گے۔ اس کے باوجود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہی کرتے تھے جو کہ ان پر واجب ہوتا تھا اور جو کچھ ان پر القا ہوتا تھا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے سامنے پیش کرتے تھے کبھی وہ موافق نکلتا تھا اور یہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے فضائل میں داخل ہے جیسا کہ ایک سے زیادہ مرتبہ فرمان باری یعنی قرآن کریم کی آیت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے موافق نازل ہوئی اور کبھی ان کا الہام شریعت کے مخالف بھی ہوجاتا تھا۔ اس صورت میں وہ اس سے رجوع کرتے تھے جیسا کہ انہوں نے یومِ حدیبیہ میں رجوع کیا تھا، جب کہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی یہ رائے تھی کہ مشرکین کے ساتھ جنگ کی جائے۔
بخاری وغیرہ میں مشہور حدیث ہے کہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ ہجری میں عمرہ کے لیے سفر کیا اور ان کے ساتھ قریباً چودہ سو مسلمان تھے جنہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ مذاکرات کے بعد ان شرائط پر مصالحت کر لی تھی کہ جناب محمد رسول اللہ اس سال واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان کے لیے ایسی شرطیں رکھیں جن میں مسلمانوں پر بظاہر کمزوری کا شائبہ نظر آتا تھا۔ بہت سے مسلمانوں کو یہ بات ناگوار گذری حالانکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے تھے اور اس کی مصلحتوں سے زیادہ آگاہ تھے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں تھے جن کو یہ معاہدہ ناپسند تھا حتیٰ کہ انہوں نے جناب محمد رسول اللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ جناب محمد رسول اللہ نے فرمایا بیشک۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، ’’کیا ہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں‘‘ جناب محمد رسول اللہ نے فرمایا ’’کیوں نہیں ایسا ہی ہے‘‘ کہا تو ’’پھر ہم کیوں دین کے معاملے میں پستی قبول کر رہے ہیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں اللہ کا رسول ہوں، وہ میرا مددگار ہے اورمیں اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا‘‘ انہوں نے پھر عرض کی ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے یہ نہ کہتے تھے کہ ہم بیت اللہ میں داخل ہوں گے اور اس کا طواف کریں گے۔‘‘ فرمایا بے شک۔ ’’لیکن کیا میں نے یہ کہا تھا، اسی سال داخل ہوں گے؟ عرض کی کہ نہیں۔ جناب محمد رسول اللہ نے فرمایا ’’تو پھر تم بیت اللہ میں داخل ہو کر رہو گے اور اس کا طواف کرو گے۔‘‘ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف گئے اور وہی باتیں کیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاتھا۔حالاں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہیں سنا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بہ نسبت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بلحاظ موافقت کے کامل تر تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے رجوع کیا اور وہ خود کہا کرتے تھے کہ اپنی خطا کے کفارہ میں میں نے کئی اعمال کئے۔
(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط رقم: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲۔)
اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا پہلے تو انکار کر دیا پھر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جناب محمد رسول اللہ بے شک فوت ہوگئے ہیں تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے رجوع کیا۔
(بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی ا لمیت بعد الموت رقم: ۱۲۴۱۔)
اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کے ساتھ جہاد کے مسئلے میں سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کیسے لوگوں کے ساتھ جہاد کریں گے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے ’’میں اس پر مامور ہوں کہ لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں، جب تک کہ وہ اللہ کے ایک ہونے کی شہادت نہ دے دیں اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تسلیم کر لیں اور جب وہ ایسا کر دیں تو ان کے مال و جان مجھ سے محفوظ ہیں۔ اِلاَّ یہ کہ وہ اس شہادت کے حق کے بدلے میں لئے جائیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ جب یہ لوگ اس شہادت کا حق دبائیں تو ان کے مال و جان کا لینا جائز ہے۔ سوزکوٰۃ اس شہادت کا حق ہے۔ مجھے اللہ کی قسم ہے کہ اگر وہ بکری کا وہ بچہ بھی جو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، مجھے نہ دیں گے تو میں اس کے لئے ان سے جہاد کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا قسم ہے اللہ کی مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ جہاد کے لیے کھول دیا ہے، مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ وہ حق پر ہیں۔‘‘
(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب وجوب الزکوٰۃ۔ رقم : ۱۳۹۹ ، مسلم کتاب الایمان باب الامر بقتال الناس حتی یقولوالاالہ الا اللہ رقم: ۱۲۴، موطا کتاب الزکوٰۃ۔)
حدیث کے پورے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ عُمَرُ لِاَبِیْ بَکْرٍ کَیْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰییَشْھَدُوْآ اَنْ لَّا اِلَہَ اِلَّا اللہُ وَانِّی رَسُوْلُ اللہِفَاِذَافَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَ ھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّابِحَقِّھَا فَقَالَ لَہ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ اَلَمْ یَقُلْ اِلَّا بِحَقِّھَافَاِنَّ الزَّکٰوۃَ مِنْ حَقِّھَا وَاللہِ لَوْ مَنَعُوْنِیْ عَنَاقًا کَانُوْایُوَدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لَقَاتَلْتُھُمْ عَلٰیمَنْعِھَا قَالَ عُمَرُ فَوَاللہِ مَاھُوَ اِلَّا اِنْ رَّاَیْتُ اللہَ قَدْ شَرَحَصَدْرَاَبِیْ بَکْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَلِمْتُ اَنَّہُالْحَقُّ۔


الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top