• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہاء اربعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا باب:
فقہاء اربعہ

دور تابعین میں فقہاء کر ام کا فقہی واجتہادی منہج صحابہ کرام کے فقہی واجتہادی منہج کی طرز پر رہا۔عصری مسائل کے حل کے لئے یہ نسل بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتی ۔بصورت دیگر وہ اجتہاد میں منہج صحابہ پر انحصار کرتی۔ اس زمانہ میں روایت حدیث بھی عام تھی۔ نئے فرقوں :خوارج وروافض نے بھی سر اٹھایا۔اسلامی مملکت کا دائرہ بھی وسعت پذیر ہورہا تھا۔ بکثرت واقعات بھی رونما ہورہے تھے۔اور نت نئے مسائل بھی ابھر رہے تھے۔ جس سے بے شمار سوالات کھڑے ہوگئے جن کے جواب میں اختلاف طبعاً ہوا۔

اس دور میں فقہاء کرام اپنے فقہی رجحان میں یک جان نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ منہج صحابہ پر قائم تھے اور نصوص سے واقف تھے۔یہ فقہاء فتنوں کی وجہ سے رائے دینے میں حددرجہ محتاط تھے۔ مدنی اور حجازی مکتب فکرکی یہی سوچ تھی۔ بعض ایسے بھی تھے جو رائے وقیاس سے اپنے امور نمٹاتے تھے۔اور نصوص میں غور خوض کرکے ان کے معانی کا استخراج کرتے۔ان کی علل سے واقف ہوتے۔ نئے مسائل کے حل کے لئے وہ ان کے معانی اور علل پر غور کرکے وضاحت کرتے۔ وضع حدیث کو بھی انہوں نے رائے کے لئے استعمال کیا۔کوفہ وعراق ایسے فقہاء کی آماجگاہ تھی۔ نتیجتاً دو فقہی مدارس ابھر آئے۔ مدرسہ اہل الحدیث اور مدرسہ اہل الرأی۔

ان دونوں مدارس فقہیہ میں اختلاف سنت سے احتجاج کے بارے میں نہیں تھا بلکہ صرف ان دو چیزوں میں تھا: کیا رائے کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔یا کیا رائے کی بنیاد پر تفریع مسائل کی جاسکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلامی تاریخ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کی علمی سرگرمیوں نے بے شمار مجتہدین وائمہ پیدا کئے جن کے علم سے آج بھی دنیا مستفید ہورہی ہے۔ امامت کا یہ بلند وبالا مقام جس سے ہمارے یہ ممتاز ائمہ سرفراز ہوئے انہیں ان کے علم و تقوی اور دین پر عمل ومحنت کی وجہ سے ملا ۔ امت محمدیہ بحمد اللہ ایسے فقہاء ومجتہدین کی فہرست سے مالا مال ہے جنہوں نے مشکل حالات میں افراد امت کی صحیح راہنمائی فرمائی۔

مگر چار ائمہ کرام کو خصوصی طور پر جو مقام ومرتبہ ملا وہ امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم الشان اعزاز ہے۔ ان کی یا ان کے شاگردوں کی کاوشوں نے ان ائمہ کرام کی شہرت کو چار چاند لگائے جن کی معتدل محبت ان کے عقیدت مندوں اور بہی خواہوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے سما گئی۔ ان کے علمی واجتہادی کارنامے ، اصول وضوابط، تفریع وتخریج، حاشیہ پر حاشیہ، فقہاء کے مختلف مدارج کا قیام مثلا: مجتہد مطلق، مجتہد مذہب، مفتی مذہب، مرجح مذہب اور مقلد مذہب وغیرہ کی اصطلاحات، قیود وشرو ط ورموز غرضیکہ فقہی سرگرمی کا کوئی پہلو نہیں جو ہر عقیدت مند نے اجاگر نہ کیا ہو ۔ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً ۔ مگر یہ واضح رہے کہ فقہ واستنباط میں ان ائمہ کرام کے اپنے اپنے مناہج واصول ہیں بعض میں یہ کسی سے متفق ہیں اور کسی سے مختلف۔ اس لئے کہ شریعت کا سارا علم ان میں سے ہر ایک کے پاس نہیں تھا۔ ان ائمہ کرام کے مختصر حالات زندگی درج ذیل ہیں:۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابو حنیفہؒ (۸۰تا ۱۵۰ھ)

سب سے بڑے امام یعنی امام اعظم گردانے اور فقہ حنفی کے بانی کہے جاتے ہیں۔ آپ کا نام نعمان بن ثابت ہے۔ کوفہ میں ۸۰ھ کو پیدا ہوئے۔ بچپن کے حالات کا علم نہیں ہوسکا۔ شروع شروع میں ریشم کا کاروبار کرتے رہے مگر فقیہ وقاضی امام شعبیؒ کے توجہ دلانے پر علم کے حصول میں خوب منہمک ہوئے اس وقت کوئی صحابی رسول زندہ نہ تھے جن سے یہ استفادہ کرسکتے۔ علم کی خواہش اور اپنی ذہنی قابلیت سے علم کلام کی جانب توجہ فرمائی مگر اسے بے نتیجہ سمجھ کر علم فقہ کے میدان میں قدم رکھا اس وقت آپؒ کی عمر تیس سال تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اساتذہ:
مشہور فقیہ حمادؒ بن ابی سلیمان (م۔۱۲۰ھ)سے فقہ کی تکمیل کی اور جلد ہی فقہی دنیا میں نام پیدا کرلیا۔ امام ابراہیم نخعیؒ(م۔۹۵ھ) جو تابعی ہیں حمادؒکے استاد تھے۔ امام ابوحنیفہؒ…بقول امام شاہ ولی اللہ دہلوی… امام ابراہیم نخعیؒ کے علم وفضل اور فقہی کمالات کے معترف اور مداح تھے اور انہی سے زیادہ متأثر بھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: امام محترمؒ کی طرف منسوب فقہی مذہب کا اصل مأخذ امام ابراہیم نخعیؒ اور ان کے معاصرین کے افکار ہیں۔ امام صاحبؒ تخریج کی تمام صورتوں کی ممکنہ باریکیوں کو بخوبی جانتے تھے، فروع کی طرف بھی آپؒ کا کامل رجحان تھا۔ امام مالک ؒ سے عمر میں گو بڑے تھے لیکن ان کے حلقہ درس میں بیٹھ کر ان سے بھی کچھ احادیث سنیں۔ امام جعفر صادقؒ کے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ محب اہل بیت تھے اور اس سلسلہ میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ فن فقہ کے شناور تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک نکتہ:
امام محترم کی ذات علم کا ایک پہاڑ ، امام وقت اور فقاہت کے منصب جلیلہ کے مقام پر فائز تھی۔ تقریباً تمام ائمہ فقہاء نے امام عالی مقام کو فقہاء کا سرخیل تسلیم کیا ہے۔ مگر ایک سوال کا جواب ہمیں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا جب تک ہم امام محترمؒ کے شاگردوں کی فقہی کاوشوں اور اصولوں کو نہ پڑھ لیں۔ سوال یہ ہے۔ کہ امام محترم ؒکی نہ کوئی کتاب ہے اور نہ ہی ان کے تفسیر وحدیث اور فقہ واصول فقہ میں کوئی علمی اقوال الا ماشاء اللہ، حتی کہ شاہ ولی اللہ محدثؒ کے بقول کہ:
آں یک شخصے است کہ رؤس محدثین مثل احمد، وبخاری، ومسلم، وترمذی ، وابوداؤد، ونسائی، وابن ماجہ، ودارمی یک حدیث ازوے در کتابہائے خود روایت نکردہ اند۔ ورسم روایت حدیث از وے بطریق ثقات جاری نشد۔ المصفی: ۶۔
امام محترم ہی واحد شخصیت ہیں جن سے بڑے بڑے ائمہ حدیث جیسے امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور امام دارمی رحمہم اللہ میں سے کسی نے اپنی کتاب میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی اور نہ ہی روایت حدیث کے میدان میں ان کی کوئی ثقہ سند چل سکی۔

پھر امام محترمؒ کا یہ فقہی مقام اس قدر عظیم کیوں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ امام محترمؒ کے خاص شاگردوں نے ان کی فقہی فروعات کی مہارت کا بھرپور اندازہ لگایا انہیں ازبر کیا۔ انہی سے اصول وضع کیے اور فروعات نکالیں جسے عمل تخریج کہا جاتا ہے اس لئے ان کی نسبت امام محترم ؒکی طرف کی اور مجموعی نقطہ نظرکو انہوں نے فقہ حنفیہ کا اورخود کو احناف کا نام دیا جو ان کا یہ حسن ظن تھا کہ اگر امام محترمؒ آج زندہ ہوتے تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں قابل ترین شاگرد امام ابویوسف ؒ تھے جو بعد میں ہارون الرشید کے زمانہ میں چیف جسٹس بھی رہے انہوں نے اپنے استاد محترم کے نہ صرف افکار وخیالات وعلمی کمالات کو ہر اہم فیصلہ ومقام پر ترجیح دی بلکہ انہیں قلمبند کرکے بام عروج تک پہنچایا۔ اور یوں ایک قول زبان زد عام ہوا : لَولاَ أَبُویُوسُفَ لَمَا ذُکِرَ أَبُوحَنِیفَۃَ۔ اگر امام ابویوسفؒ نہ ہوتے تو امام ابوحنیفہؒ کا کوئی ذکر ہی نہ کرتا۔(وفیات الأعیان) ایک اورقابل قدر شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی تھے۔ جنہوں نے گو امام محترم کے ساتھ بہت تھوڑا وقت گذارا کیونکہ جب امام محترمؒ فوت ہوئے تو ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ بہت کم عمری میں انہیں صاحب ابی حنیفہؒ کے لقب سے ملقب کرنا متاخر فقہاء احناف کا اعزاز ہے۔مگر اپنے شیخ محترم کے فقہی واجتہادی فروعات سے متفق اور ان کی وضاحت ودفاع کے لئے ضخیم کتب کے مصنف تھے۔امام ابوحنیفہؒ کے حالات زندگی پر ایک جامع وبے لاگ تبصرہ امام خطیب بغدادیؒ (م:۴۶۲ھ) نے اپنی مشہور کتاب تاریخ بغداد میں غالبا ًسب سے پہلے لکھا ہے جو ایک قدیم ترین مصدر ہے ۔ باقی سب انہیں کے خوشہ چیں ہیں یا ناقد و مداح۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں:
ان دونوں تلامذہ نے امام مرحوم کے مسائل کو اس توضیح وتفصیل سے لکھا اور ہر مسئلہ پر استدلال وبرہان کے ایسے حاشیے اضافہ کئے کہ انہی کا رواج عام ہو گیا اور اصل مأخذسے لوگ بے پروا ہو گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ حنفی کے اصول:
یہ وہ اصول ہیں جن کی نسبت امام محترمؒ کی طرف کی جاتی ہے۔ گو ان کی سند میں کلام ہے :
أَخُذُ بِکِتَابِ اللّٰہِ إِذَا وَجَدْتُّہُ، فَمَا لَمْ أَجِدْہُ فِیہِ أَخَذْتُ بِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ وَالآثَارِ الصِّحَاحِ عَنْہُ الَّتِی فَشَتْ فِی أَیْدِی الثِّقَاتِ، فَإِذَا لَمْ أَجِدْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ وَلَا سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ أَخَذْتُ بِقَولِ أَصْحَابِہِ مَنْ شِئْتُ، وَأَدَعُ قَولَ مَنْ شِئْتُ، ثُمَّ لاَ أَخْرُجُ عَنْ قَولِہِمْ إِلَی قَولِ غَیرِہِمْ، فَإِذَا انْتَہَی الأَمْرُ إِلٰی ِإبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ وَابْنِ الْمُسَیَّبِ وَالْحَسَنِ وَعَطَائٍ فَلِیْ أَنْ أَجْتَہِدَ کَمَا اجْتَہَدُوا۔
میں سب سے پہلے کتاب اللہ کولیتا ہوں اگر اس میں مسئلہ نہ ملے تو پھر سنت رسول ﷺ سے لیتا ہوں۔ اور ان آثار صحیحہ پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں کی روایت سے شائع وذائع ہیں۔ اگر سنت نبوی سے بھی نہ ملے تو صحابہ کرام کے اقوال میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیتا ہوں۔ لیکن جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن المسیب ،حسن، عطاء تک پہنچتا ہے تو میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں بھی اجتہاد کروں جس طرح انہوں نے کیا ۔ الانتقاء لابن عبد البر: ۱۴۲

ابن عبد البرؒ کی اس روایت کی سند میں گو کلام ہے مگر اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ امام محترمؒ کے اصول ،معاصر اصولوں سے مختلف نہ تھے ہاں فہم اپنا اپنا تھا۔ اسی طرح دیگر بہت سے اصول بھی ہیں جنہیں امام بزدویؒ نے اور محب اللہؒ بن عبد الشکور (م۱۱۱۹ھ) نے مسلم الثبوت میں بیان کئے ہیں۔ جو بالاختصارذیل میں دئیے جاتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتاب اللہ :
سب سے اولین حیثیت قرآن مجید کی ہے۔فقہی استنباط اگر قرآن پاک سے ہو سکتا ہے تو سرآنکھوں پہ ورنہ سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

سنت رسول اللہ :
سنت رسولؐ دوسرے نمبر پر ہے جس میں خصوصاً خبر واحد کی قبولیت کے لئے چند ذیلی شرائط ہیں:

… خبر واحد کو قبول کرنے سے قبل عمومات قرآن اور ظواہر پر پیش کیا جائے گا اگر یہ خبر قرآن کے کسی عام یا ظاہر کی مخالفت کر تی ہو تو قرآن کو لیا جائے گا اور خبر(حدیث) کو رد کردیا جائے گا کیونکہ قرآن قطعی الثبوت ہے اور اس کے ظواہر وعمومات بھی قطعی الدلالہ ہیں مگر یہ آحاد قرآن پر اضافہ ہیں اور ناسخ بھی بنتی ہیں اس لئے قرآن کا نسخ، اخبار آحاد سے نہیں ہو سکتا۔

… خبر واحد اس صورت میں بھی قبول کی جاسکتی ہے جب وہ اپنی اصل کے اعتبار سے خبر واحد ہی ہو لیکن بتدریج اس قدر پھیل جائے کہ اسے اتنے لوگوں نے نقل کیا ہو جن کے جھوٹ بولنے پر اتفاق کا گمان نہ کیا جاسکتا ہو ۔ یہ لوگ صحابہ وتابعین کے بعد دوسری صدی کے لوگ ہیں۔اگر ائمہ کرام ان کی روایت کو ذکر کرتے ہیں تو ان کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور سنت مشہورہ قرار پاتی ہے۔اس طرح کبھی کبھی مشہور کا اطلاق ان روایات پر بھی ہوتا ہے جو مطلق طور پر لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہو گئی ہو۔ اس صورت میں وہ تواتر کی دو اقسام میں سے ایک قسم ہوگی جس سے علم طمانینت بھی حاصل ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک علم یقین بھی۔

… حدیث آحادکو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب اس کا راوی غیر فقیہ ہو اور وہ قیاس کے خلاف ہو۔

… وہ خبر واحد ایسی نہ ہو جس کا تعلق بلوائے عامہ سے ہو یعنی وہ کسی ایسے مشہور واقعہ کے بارے میں ہو جوسب کے سامنے ہوا ہو پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے روایت نہ کیا ہو۔

اجماع :
احناف نے اسے تیسرے درجے میں بیان کیا ہے۔ لیکن خبر واحد کے صحیح ہونے کے باوجود کبھی اجماع کی حیثیت کے بڑھنے کے وہ قائل ہیں۔

قیاس :
ان چار مآخذ کے علاوہ کچھ ذیلی مآخذ بھی فقہ حنفی میں شامل ہیں جن میں استحسان اور حیل بھی ہیں۔ ان حیلوں کو المَخَارِجُ مِنَ الْمَضَایِقِ کہا جاتا ہے۔ یعنی تنگی کی صورت میں اس مسئلے سے نکلنے کی کون کون سی راہیں اور حیلے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ حنفی کی مشہور کتب :

اقسام و تعارف: فقہ حنفی کی وہ کتب جو اساسی حیثیت رکھتی ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔

۱۔ متون ۲۔ شروح

متون:
متأخر فقہاء کرام کی یہ اصطلاح ہے۔ یہ متون بہت مختصر ہیں جن میں صرف امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے اقوال درج ہیں۔ انہی اقوال یا کتب کو ظاہر الروایہ کہتے ہیں۔ ان میں امام ابویوسفؒ کی گراں قدرکتاب الخراج ہے جس میں محصولات اور حکومت کے امور مالیات پر بحث کی گئی ہے۔ اور امام محمدؒ کی کتب المبسوط، الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، السیر الکبیر، السیر الصغیر اور الزیادات ہیں۔ ان دونوں ائمہ کی یہ سب کتب متون کہلاتی ہیں۔ کتب ظاہر الروایہ کو بہت عرصہ بعد ایک حنفی عالم اورفقیہ حاکم الشہیدؒ نے اپنی معروف کتاب الکافی میں یکجا کیا جو اہل فن کے لئے ایک قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیگر متقدمین کے متون جومعتبر خیال کئے جاتے ہیں ان میں علامہ طحاویؒ، امام کرخی ؒوحاکم شہید محمد بن محمد المروزیؒ(م:۳۳۴ھ) کی مختصرات ہیں۔ اسی طرح متاخرین سے امام قدوریؒ کی المختصر فقہ حنفی کا مقبول ترین متن ہے۔ پھرالبدایۃ، النقایۃ، المختار ہے۔ ہدایۃ، المختصر اور بدایۃ المنتہی کی شرح ہے۔ تاج الشریعہ محمود بن احمدؒ(م:۷۰۰ھ) کی الوقایۃکا متن ہدایۃسے منتخب شدہ ہے۔ جس کی شرح ان کے پوتے نے لکھی جو مشہور درسی کتاب ہے۔ اسی طرح کنز الدقائق کا متن بھی بہت زیادہ مقبول ومشہور ہے۔ ان متون نے چونکہ ظاہر الروایہ کتب اور معتمد اقوال کو نقل کیا ہے اس لئے یہ معتبر متون شمار کئے جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شروح:
دوسری کتب، کتبِ شروح کہلاتی ہیں جن میں کتب متون کی شرح لکھی گئی ہے۔ شرح کی کتب متون سے بعد کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ ان میں متاخر مشایخ کے اپنے اقوال واختیارات ہیں جن کے موافق انہوں نے فتوے دیے۔

مسائل النوادر:
امام محمدؒ کی دوسری کتب کا نام ہے جنہیں غیر ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے۔ ان میں أمالی محمد،کیسانیات، جرجانیات، کتاب المخارج فی الحیل اور زیادۃ الزیادۃ شامل ہیں۔

حاشیہ:
اسی طرح علامۃ الشام ابن عابدینؒ(۱۲۵۲ھ) کا حاشیہ ہے۔ جس کا نام رد المختار علی الدر المختارہے جو حنفی مذہب کی تمام تر تحقیقات اور ترجیحات کا خلاصہ ہے۔فتاوی میں فتاوی عالم گیری کو ہند وپاک میں جو مقام مل سکا دنیا کے دوسرے خطوں میں اسے وہ مقبولیت اور علمی حیثیت نہ مل سکی۔
 
Top