• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کی اہمیت و ضرورت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی کی اہمیت و ضرورت

٭…اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر اسے کرہ ارضی پر بسایا۔ غالباً اس میں حکمت یہ تھی کہ نسل انسانی جب زمیں پر پھلے پھولے تو جہاں ان کے باہمی معاملات وتعلقات آگے بڑھیں وہاں یہ مختلف قوموں، برادریوں اور قبائل سے پہچانے جائیں۔مگران کے باہمی روابط کیسے ہوں؟ ان بن کی صورت ہو تو اس کا حل کیا ہو؟ جرائم اگر ہوں تو ان سے کیسے نمٹا جائے؟ اور اگر کوئی ان سے نمٹتا ہے یا ان کا حل پیش کرتا ہے تو وہ کون ہو؟گویا انسانی معاشرے کو پرامن بنانے اور چلانے کے لئے ایک پورا نظام ہو۔ ورنہ طاقتور کمزور کو کھاجائے گا۔ اور ظالم اپنے ظلم سے باز نہیں آئے گا۔ انسانیت کے نام پر انسان مار دیئے جائیں گے۔

٭… انسان اگر خود قانون گرہو تو اس کے قانون میں سب سے بڑا سقم ہی یہ ہوگا کہ وہ اسے کمزوروں کے لئے بنائے مگر اپنے لئے نہیں۔ اس کے مزاج کی تیزی ، تبدیلی، خواہشات اور زیادتی وغلبے کا جذبہ ہی غیرمتوازن قانون سازی کرائے گا۔جس سے عدل وانصاف یا امن وسکون کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان قوانین کو خود بنایاکیونکہ وہ انسان کا خالق ہے اسے علم ہے کہ اس چھ فٹ کے انسان کا مزاج کیا ہے؟ اور کون سا قانون یا نظام اس کے لئے مناسب ہے۔چنانچہ اس کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے چند قوانین کی پابندی سے آگاہ کردیا۔ اور خیر وشر کی معرفت بھی دے دی۔ اور سمجھا دیا کہ زمینی فساد کی ابتدا ان قوانین کو توڑنے سے ہی ہوگی۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جہاں انسان نے الٰہی ہدایات کو ترک کیا یا اس نظام سے ذرا غفلت برتی۔ تاریکی اور ظلمت نے وہاں بسیرا کرلیا اور باہمی کشمکش میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔اس لئے ایسے نظام کو اس نے خود ہی نظامِ جاہلیت کا نام دیا۔

{أفحکم الجاہلیۃ یبغون ومن أحسن من اللہ حکماً لقوم یوقنون}

۔
کیا لوگ زمانہ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں ۔ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے حکم میں اللہ سے بڑھ کر کون بہتر ہوسکتا ہے۔

٭…صحیح عقیدہ ،صحیح عبادات اورصحیح معاملات ہی صحیح قوانین ہیں۔ جوخالق کے انعام کا شکر کرنا سکھاتے اور بھائی بندوں کے حقوق ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ جس میں کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی گنجائش نہیں۔ یہ سب قوانین اسلامی شریعت میں ہیں جو جدید وقدیم کو اپنے اندر سموتے اور وقت ضرورت آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور یہی فقہ اسلامی ہے۔ معاشی مسائل جن میں کاروبار ، تجارت اور ملازمت جیسے اہم امور ہیں ان میں فقہ اسلامی کیا راہنمائی کرتی ہے؟ اس سے بھی اسے واقف ہونا ہے۔والدین، اولاد کی اور اولاد والدین کی ذمہ داریوں سے کس حد تک عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ ان سے آگاہی بھی ہر شخص کی ضرورت ہے۔ذاتی طور پر بچپن، جوانی اور بڑھاپا کے مراحل کس خوش اسلوبی سے طے کئے جائیں؟ فقہ اسلامی یہاں بھی اپنی مکمل معلومات سے سرفرازکرتی ہے۔ رشتہ دار ، احباب، ہمسائے، ہم جلیس، مسافر، اپنے پرائے اور مسلم و غیر مسلم کے ساتھ کس طرح معاملات نبھانے ہیں؟ ان کی آگاہی سے بھی فقہ اسلامی بخل نہیں کرتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… ان مسائل میں کچھ تو فوری طور پر سیکھنا ضروری ہیں جو فرض عین ہے اور کچھ تاخیر سے اور بعض بوقت ضرورت۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا سیکھنا فرض کفایہ ہے ۔جیسے تجہیز وتکفین اور نماز جنازہ وغیرہ۔ کبھی اس علم کا حصول نفل بھی ہو جاتا ہے جو فرض کفایہ کی حدو مقدار سے ذرا زائد ہے۔نیز عوام الناس کا عمل کی غرض سے نفلی عبادات سیکھنا بھی اس میں شامل ہے۔لہٰذا اس علم کا ادراک وفہم مسلمان کے لئے بہت ضروری ہے ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کایہ ارشاد روایت کرتے ہیں:
مَنْ یُرِدِ اللّٰہ بِہِ خَیرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ۔
جس سے اللہ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔

٭…اس لئے تمام ضروری معاملات جن میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں شامل ہیں وہ اورعبادات کا شرعی طریقہ و کیفیت دونوں معلوم ہونے چاہئیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضۃٌ عَلَی کُلِّ مُسلِمٍ۔
ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ مرد ہو یا عورت کے علمی پہئے ساتھ ساتھ رہیں گے تو گاڑی چلے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے سے قبل ہی اسے سیکھنا ضروری ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
مَالاَ یَتِمُّ الْوَاجِبُ إِلا بِہِ فَہُوَ وَاجِبٌ۔
جو چیز واجب کی تکمیل کے لئے ناگزیر ہو وہ بھی واجب ہے۔
کے تحت ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ اس لئے تمام عبادات کی تیاری پہلے سے ہو تاکہ وقت وجوب اسے ادا کیا جاسکے۔ جیسے اقامت صلاۃ، جمعہ کی حاضری کے لئے کوشش اور تیاری وغیرہ۔ایسے فوری اور واجب اعمال کی ادائیگی کی کیفیت سیکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر وہ عمل تاخیر سے کرنے کا ہو تو اس کا علم بھی تاخیر سے سیکھا جاسکتاہے۔جیسے حج و عمرہ یاقربانی وغیرہ۔

٭…اپنی دینی زندگی کی عمارت یقین پر اٹھانی چاہئے نہ کہ محض ظن وتخمین کی بنیاد پر۔ ہر عمل کرتے وقت یہ ٹھوس یقین ہونا چاہئے کہ وہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہے اور قابل اجر وثواب بھی ہے یا نہیں؟ یاجو کچھ کیا جارہا ہے آیا یہ جائز بھی ہے یا نہیں ؟ کیا حرام تو نہیں؟ مسلمان اسی علم کو اپنی زندگی کا راہنما بناتا ہے۔مگر کیسے؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان شرعی مسائل کو جاننے کے لئے ہر وقت چوکنا رہے اور قرآن وحدیث کے مطالعے کا عادی بھی بنے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی آیات کا علم انہی کو نوازتا ہے جواس کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اور وہ اہل فقہ ہیں جو سب سے بڑی خیر کے حامل ہوجاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی کی روح:

نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
یٰأیُّہَا النَّاسُ: إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ ، وَالْفِقْہُ بِالتَّفَقُّہِ، وَمَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیرًا یَُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ، وَإِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ، وَلَنْ تَزَالَ أمَّۃٌ مِنْ أُمَّتِی عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِینَ عَلی النَّاسِ لاَ یُبَالُونَ مَنْ خَالَفَہُمْ، وَلاَ مَنْ نَاوَأَہُمْ حَتّٰی یَأتِیَ أمْرُاللّٰہِ وَہُمْ ظَاہِرونَ۔(الفقیہ والمتفقہ ۱، ۷۹)
لوگو: علم سیکھنے سکھانے کا نام ہے اور فقہ دین کی گہری سمجھ کا، جس سے اللہ تعالیٰ خیر وبھلائی چاہتے ہوں اسے پھردین کا گہرا فہم عطا کردیتے ہیں، بلاشبہ اللہ کے بندوں میں علماء ہی ہیں جو اس کا ڈر رکھتے ہیں، میری امت میں ایک گروہ دیگرلوگوں پر حق کی بنیاد پر غالب رہے گا جو ان کی مخالفت کرے گا انہیں اس کی پروا نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کی جو ان کے ساتھ دشمنی کرے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے گا اور وہ کامیاب وکامران ہوں گے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لأََنْ أَجْلِسَ فَأَتَفَقَّہَ سَاعَۃ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ إِحْیَائِ اللَّیْلِ بِلاَ فِقْہٍ۔
اگر میں ایک گھڑی بیٹھ کر فقہ حاصل کرلوں یہ مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے میں ساری رات بغیر کسی فقہ کے گزار دوں۔

… آپ ﷺ نے بھی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو فرمایا: خریدنے کا یہ طریقہ سودی ہے کہ تم دو کلو خشک کھجوریں دے کر ایک کلو تازہ کھجوریں ان کے بدلے میں لو۔میں یہ کھجوریں نہیں کھا سکتا۔

… بینکنگ سسٹم خواہ کوئی بھی ہو یہ بھی اپنے نظام کو سود پرکھڑا کرتا ہے۔بینک کھولنے کے لئے سٹیٹ بینک سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا اور بطور ضمانت بھاری رقم سٹیٹ بینک میں جمع کروانا ضروری ہے۔ پھر اس کی(Fixed Percentage) پرسرٹیفیکیٹ حاصل کرنے والا بینک اپنا کاروبار چلاتا ہے۔بینکنگ ایک جوا خانہ ہے جس میں بینک ایک فرد سے رقم ادھار لیتا ہے اور اسے (Fix amount) کا لالچ دیتا ہے اور مقروض سے ذرا زیادہ لے کر پہلے کو تھوڑا سا پیسہ دے کر باقی اپنی جیب میں رکھتا ہے۔

… یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تنگ دست مقروض کو قرض ادا نہ کرنے کی سکت کی وجہ سے مزید مہلت دینے کا کہا ہے نہ کہ اسے جرمانہ کرنے کا۔ اس لئے کہ یہ جرمانہ (Penalty) سود ہی ہو گا۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
… اس کے برعکس اسلام میں بیع(investment)کو رواج دیا گیا ہے جس میں فرد کی فکرو محنت شامل ہے ۔اس میں نفع کا امکان اور نقصان کا رسک بھی ہے۔ مگر نہ مقررہ نفع ہے اور نہ ہی مقررہ نقصان۔

…سٹاک مارکیٹ ہویا حصص کی خرید وفروخت ان میں غالب صورت سٹہ بازی کی نظر آتی ہے۔ جس سے ذخیرہ اندوزی کو فروغ ملتا اور غیرملکیتی اور ان دیکھی اشیاء کی خرید وفروخت کارجحان و کاروبار بڑھتا ہے۔ اور جس سے گھر بیٹھے چند افراد اپنے جدید ترین وسائل سے یہ کاروبارچلاتے اور پیسہ بڑھاتے ہیں جس میں خون پسینہ کی وہ محنت قطعاً نہیں جو ایک عام آدمی کو کرنا پڑتی ہے۔ جس کے بھیانک نتائج میں ایک یہ بھی ہے کہ آدمی سودخوری اور خود غرضی کا شکار ہو کر لالچ وحرص کا عادی اور دینی فرائض کی ادائیگی سے محروم ہوجاتا ہے۔

…سیدنا فاروق اعظم بازار میں دوکاندار کے بیع وشراء کے علم کا متحان لیتے اگر وہ کامیاب ہوتا تو درست ورنہ اسے فرماتے: بند کرو یہ دھندا ، اور جاؤ پہلے بیع وشراء کے مسائل سیکھو تاکہ تم حلال وحرام میں تمیز کرسکو۔ ورنہ حرام میں پڑے رہوگے۔

…امام عبد اللہ بن المبارکؒ علم فقہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آدمی کے پاس اگر مال نہ ہو تو اس کے لئے زکاۃ کا علم سیکھنا واجب نہیں۔ لیکن اس کے پاس اگر دوسو درہم آجائیں تو زکاۃ کے مسائل کا جاننا ا س کے لئے فرض ہوگا تاکہ اسے علم ہو کہ زکوۃ کتنی مقدار میں نکالے ، کب نکالے؟ اور کسے دے وغیرہ۔ وہ تاجر حضرات سے اکثر فرمایا کرتے: بھلے لوگو! تجارت سے قبل خرید وفروخت کے شرعی مسائل۔۔ اسلامی فقہ ۔۔ کو ضرور سیکھ لو۔ لاعلمی کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم سود میں ہی پھنستے چلے جاؤ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
…امام ضحاکؒ اس آیت {بما کنتم تعلمون الکتب وبما کنتم تدرسون} (آل عمران:۷۹)کی تفسیر میں فرمایا کرتے: یہی تو وہ مجالس ہیں جن میں دین کا گہرا علم یعنی فقہ لوگ حاصل کرتے ہیں۔

… امام عطاء ؒبن رباح الخراسانی فرمایا کرتے تھے:
مَجْالِسُ الذِّکْرِ: ہِیَ مَجَالِسُ الْحَلالِ وَالْحَرامِ … کَیْفَ تَشْتَرِی وَتَبِیْعُ، وَتُصَلِّیْ وَتَصُومُ، وَتَنْکِحُ وَتُطَلِّقُ، وَتَحُجُّ وَأَشْبَاہُ ہَذَا۔
ذکر کی مجالس دراصل حلال وحرام کی مجلسیں ہوا کرتی ہیں یعنی تم کیسے خریدو اور کیسے بیچو، کیسے نماز پڑھواور کیسے روزے رکھو، کیسے شادی کرو اور کیسے طلاق دو اور کیسے تم حج کرو ۔

یہی وہ حلقے ومجالس ہیں جنہیں جنت کے باغات کہا گیا ہے۔کیونکہ ان میں صرف قرآن وسنت کی بات ہوتی ہے۔

…نیز معاشرے کی ایک اہم ضرورت صحیح علماء وفقہاء کی بھی ہے۔ ارشاد باری ہے۔
{ وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ فلولا نفر من کل فرقۃ طائفۃ لیتفقہوا فی الدین و لینذروا قومہم إذا رجعوا إلیہم لعلہم یحذرون} التوبہ: ۱۲۲۔
اہل ایمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ سب کے سب جہاد کیلئے نکل کھڑے ہوں بلکہ مسلمانوں کی ہر بستی وطبقہ میں سے کیوں نہیں ایک جماعت نکلتی جو دین میں تفقہ حاصل کرے۔ اور جب وہ واپس پلٹے تو اپنی قوم کو ڈرائے شاید کہ وہ برائی سے بچے۔

یہ آیت درج ذیل ہدایات دے رہی ہے:

۱۔ علم دین کا سیکھنا اور اس میں تفقہ حاصل کرنا امت مسلمہ کے بعض افراد پر اس طرح ضروری ہے جس طرح جہاد، دفاع وطن اور سرزمین کی ضروری ہے۔

۲۔ جس طرح قوم ووطن کے دفاع کے لئے طاقت اسلحہ اور مجاہدین کی ضرورت ہے اسی طرح دین اسلام بھی ایسے افراد کا محتاج ہے جو اس کا دفاع دلائل اور براہین سے کریں۔مسلمان قوم کی بقاء اور عروج کے لئے یہ علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

۳۔ آیات جہاد اور قتال کے بالکل درمیان اس آیت کو بیان کرنا معجزہ ہے جس کا انکشاف زمانہ حال میں ہوچکاہے کیونکہ آج بہ نسبت اسلحہ کے فراوانی کے علم اور وار سٹرٹیجی جانے اور کئے بغیر جنگیں لڑنا بیکار ہے ۔

۴۔ اس آیت میں اہل ایمان کے دو ذمہ دارگروپ بتائے گئے ہیں ۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والا اور دوسرا تفقہ فی الدین والا۔ تاکہ کچھ مومن جہاد فی سبیل اللہ کی تیاریوں میں لگے رہیں اور کچھ دین میں صحیح فقہ وفہم حاصل کرنے میں لگ جائیں۔ اس طرح اسلام کی عظمت وشان کی نگرانی مجاہدین کریں گے اور شریعت کی پاسبانی طلبہ دین۔جس طرح مجاہد کا خیال حکومت کرتی ہے تاکہ وہ قوی و صحتمند اورذہین رہے اسی طرح پاسداران شریعت کا خیال بھی حکومت کرے گی تاکہ وہ بھی دین کے ابلاغ میں قوی و صحتمند اور ہوشیار رہیں۔

۵۔اس آیت میں لفظ فقہ سے مراد قرآن وحدیث کا علم ہی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی تھی جو دین فہمی کا ایک منبع ومصدر تھی۔ رہا انذار ، تو اسے آپﷺ یا تو قرآن کریم سے کرتے یاحدیث مبارک سے۔ اس لئے فقیہ کے لئے قرآن کے ساتھ صحیح وحسن حدیث کا علم ہونا بھی شرط ہے۔

۶۔فقہاء دین بھی حقیقت حال کو جان کراپنی دینی بصیرت سے بہرہ مند ہوں اور انذار کا ہنر اپنے درس وتدریس کے دوران آزمائیں۔ یہ بھی ایک ذمہ داری ہے جو اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے فقہاء دین کو دی ہے۔

۷۔افضل یہی ہے کہ فقہ اسلامی کو حاصل کرنے والے ذہین افراد ہوں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے۔
رُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیرُ فَقِیْہٍ، وَرُبَّ حَامِلُ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ۔
بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی ناسمجھ ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی جو فقہ کو ایسے شخص کو منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اورسمجھ دار ہوتے ہیں۔

۸۔جو فتاوی یا استنباطات ہیں ان میں اختلاف کا حق بھی بعد کے فقہاء کو دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ کوئی معصوم نہیں اور نہ ہی ان کی فقاہت وحی ہے۔ لہٰذا اختلاف کی گنجائش جس طرح ان فقہاء نے اپنے شاگردوں کو دی اور جنہیں فقہی کتب میں بھی نمایاں کیا گیا ہے اسی طرح یہی حق علماء و فقہاء کے لئے ابھی تک قائم ہے۔

یہی آیت مقصد فقہ کو بھی اجاگر کرہی ہے کہ خلق خدا کو صحیح وغلط اور حرام وحلال کی تمیز دینی ہے ورنہ وہاں انذار کی ضرورت ہے۔اس لئے امام شافعی ؒ فرمایا کرتے:

کُلُّ الْعُلومِ سِوَی الْقُرآنِ مَشْغَلَۃٌ إِلاَّ الْحَدِیثُ وَعِلْمُ الْفِقْہِ فِی الدِّیْنِ
الْعِــلْمُ مَا کَانَ فِیـہِ قَـالَ حَدَّثَنَا وَمَا سِوَی ذَاکَ وَسْوَاسُ الشَّیَاطِینِ


قرآن وحدیث اور علم فقہ کے علاوہ باقی سب علوم ایک شغل ہیں ۔ علم وہی ہے جس میں قال حدثنا ہو
اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ شیطانی وساوس ہیں۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ کا موضوع :

فقہ کا موضوع مکلف یعنی بالغ، عاقل مسلمان کے افعال ہیں۔جن کے کرنے یا نہ کرنے کا مطالبہ اس سے کیا گیا ہے۔ان افعال کی حقیقت کیا ہے؟ فقہ اسلامی ہی اسے متعین کرتی ہے۔مثلاً: ایک بالغ، عاقل مسلمان کے لئے نماز قائم کرنا، زکوۃ دینا اوروالدین کے ساتھ احسان کرنا فرض ہے اسی طرح غصب کرنا، چوری وملاوٹ کرنا یا والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا حرام کام ہیں۔ یا یہ ناپسند کیا گیا ہے جسے مکروہ کہتے ہیں کہ وہ بکثرت سوال یا مال ضائع کرے یا یاوہ گوئی کرے۔یا وہ کام کرے جومستحب وپسندیدہ ہے جیسے: فرض نماز کے بعد سنت یا نفل پڑھنا۔ یایہ کام مباح ہے جس میں کرنے نہ کرنے کااختیار دیاجاتا ہے جیسے سیب کھانا،چائے پینا۔ یہی فقہ کا موضوع ہے۔

٭٭٭٭٭

فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Last edited:
Top