• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے چند مسائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی کے چند مسائل

ذیل میں قرآن وسنت سے ماخوذ چند فقہی مسائل بیان کئے جاتے ہیں جن سے اندازہ ہوگا کہ فقہ کیا ہے۔ مسائل اور ان کے احکام کس طرح بیان کئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
{یأیہاالذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوہکم وأیدیکم إلی المرافق فامسحوا برؤسکم وأرجلکم إلی الکعبین۔}
اے اہل ایمان! جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں کودھو لیا کرو اور اپنے ہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھولیا کرو۔ پھر اپنے سر کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھو لیا کرو۔

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نماز کا آغاز کھڑے ہونے سے ہوتا ہے لیکن اس سے قبل وضوء کا کرنا۔اور وضو سے پہلے نیت کا۔وضو کی ترتیب بھی ملحوظ رکھنا ازروئے آیت فرض ہے۔جسمانی صفائی کے بعد وضوء میں منہ دھونا۔ ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔ سر کا مسح کرنا۔ پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔بھی واضح کیا گیا ہے۔

نمازکے لئے قیام کرنا تو ہم نے جان لیا مگر رخ کس طرف کریں گے؟ یہ بھی ہمیں قرآن کریم آگا ہ کرتا ہے : {حیث ما کنتم فولوا وجوہکم شطرہ} کہ تم جہاں کہیں بھی ہونماز پڑھتے وقت اس قبلہ کی طرف رخ کرلیا کرو۔ پھر نماز کی تفاصیل رسول اکرم ﷺ پر چھوڑ دی گئیں کہ آپ ﷺ ہی نماز پڑھ کر دکھا دیں۔ چنانچہ آپ ﷺنے اسی روشنی میں فرمایا: صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِی أُصَلِّیْ۔ تم نماز ویسے پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھو۔وضو کی بھی مکمل تفاصیل ہمیں حدیث رسولﷺ میں ملیں گی ۔ یہ وضو سے پہلے یا بعد میں یا بیماری وعذر سے متعلق یہ تفاصیل ہیں۔ان تمام مسائل کے مصادر قرآن وسنت ہیں جو نص کہلاتے ہیں۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے شاگردوں کو رسول اکرم ﷺ کے وضو کرنے کا وہ عمل بتایا جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ روایت میں آتا ہے:
أَنَّہُ دَعَا بِوَضُوئٍ فَتَوَضَّأَ، فَغَسَلَ کَفَّیْہِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ یَدَہُ الْیُمْنٰی إِلٰی الْمَرَافِقِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ یَدَہُ الْیُسْرٰی مِثْلَ ذَلِکَ، ثُمَّ مَسَحَ رَأْسَہُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی إِلَی الْکَعْبَیْنِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی مِثٰلَ ذَلِکَ ثُمَّ قَالَ: رَأَیْتُ رَسولَ اللّٰہِ ﷺ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِیْ ہَذَا (مسلم)
سیدنا عثمانؓ نے وضوء کا پانی منگوایا، پہلے اپنی ہتھیلیاں تین مرتبہ دھوئیں پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنا منہ تین مرتبہ دھویا۔ اس کے بعد اپنا دایاں ہاتھ تین مرتبہ کہنیوں سمیت دھویا اسی طرح بایاں ہاتھ کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ مسح کے بعد اپنا دایاں پاؤں تین مرتبہ ٹخنوں تک دھویا اور اسی طرح بایاں پاؤں ٹخنے تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح وضوء کرتے دیکھا تھا جس طرح تم نے مجھے وضوء کرتے دیکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ اور اس قسم کی دیگرصحیح احادیث کو سنن کی کتب سے جمع کرکے ان کے الفاظ پر غور کرنے کے بعد وضوء سے متعلق تمام فرض، سنت، نفل اور مباح مسائل واحکام کو بآسانی جانا جا سکتا ہے اور اضافی مسائل کو بھی۔ اسی کا نام فقہ ہے یعنی جس میں آپ کے پاس علم بھی آجائے اورصحیح دلائل بھی جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہوں۔ اگر ضعیف وموضوع روایات کا سہارالے کر مسائل اور ان کے احکام بیان کئے جائیں تو اولاًاس کی اجازت نہیں۔پھر اگر روایات کو بیان کرنا بھی ہے تو شرط یہ ہے کہ صحیح روایات سے یہ مسائل اخذ کئے جائیں۔ورنہ وہ ضعیف فقہ ہوگی۔مثلاً:

مسواک کا مخصوص سائز ہونا اور مسواک کرتے وقت اسے خاص انداز سے پکڑنا، وضوء کرتے وقت ہر عضو دھونے سے قبل دعاء پڑھنا۔ وضوء کے دوران گردن کا مسح کرنا۔ چوتھائی سر کا مسح کرناوغیرہ۔نماز شروع کرنے سے پہلے اپنی زبان میں نیت کے الفاظ پڑھنا۔ اسی طرح عورتوں کا نماز میں گٹھڑی کی طرح بیٹھ کرسجدہ کرنا، بعد از سلام ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھنا، یا دیگر فقہی مسائل مثلاً: وقت نکاح ایجاب وقبول تین بار کروانا،بیک وقت دی گئی تین طلاق کی صورت میں دوبارہ آباد ہونے کے لئے نکاح حلالہ کروانا، زکوۃ سے بچنے کے لئے اپنی بیوی کو سال گذرنے سے ذرا قبل اپنا سارا مال ہبہ کردینا ، میدان عرفات میں جمع بین الصلاتین نہ کرنا وغیرہ جوفقہ اسلامی کی رو سے ضعیف وموضوع اور غلط حیلوں پر مبنی فقہی مسائل ہیں جن کا ارشادات رسول سے کوئی تعلق نہیں اس لئے یہ فقہی مسائل ہیں اور نہ ہی انہیں فقہ کہا جاسکتا ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ میں اہم چیز کون سی ہے؟ عموماً دو چیزیں فقہ میں اہم ہوتی ہے۔ استخراج مسئلہ اور اس کی دلیل۔

دلیل:
جب بھی کوئی فقہی مسئلہ بتایا جاتا ہے تو اس میں انتہائی اہم شے اس کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ دلائل دو قسم کے ہیں۔ عقلی اور نقلی۔ شرعی مسائل میں نقل یعنی قرآن وحدیث کی اہمیت زیادہ ہے۔ اسے دلیل کہتے ہیں۔فقہ کی بنیاد انہی دو پر قائم ہے۔کیونکہ مسلمان کو یہی دوچیزیں ہی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ملی ہے۔ اس لئے اولاً تو اس مسئلے کی دلیل غور کرکے قرآن وسنت میں دیکھی جاتی ہے اور عقلاً بھی اس کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ قرآن تو اللہ کا کلام ہے اور سنت، صحیح حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ اسی غور کا نام فقہ ہے۔ یہ غور دراصل دینی بیداری ہے جو فقیہ کو اللہ تعالیٰ نصیب فرماتے ہیں کہ فقہی مسائل قبول کرتے وقت قرآن وسنت کی دلیل کو دیکھے اور جانے۔وہ حق کو دلیل سے پہچانے نہ کہ رجال سے۔ اس بیداری میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قرآن وسنت کی کوئی دلیل بالفرض اگر قبول نہیں تو پھر جسے دلیل بنایا جارہا ہے وہ کیسے اور کیوں قبول کی جارہی ہے؟ استدلال کی صحیح پہچان کا یہ ملکہ اللہ تعالیٰ جس کو عطا کردے وہی خیر کثیر ہے۔

استخراج مسئلہ:
نصوص صحیحہ کو پڑھنے کے بعد اسے کیسے سمجھا اورکیا سمجھا ہے؟ یہی شے فقیہ کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کی بیدار مغزی اور صحیح دینی معرفت ہی وہ خیر کثیر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کر دی ہے۔مثلاً دورِ حاضر کے مسائل کا حل نصوص صحیحہ کو سمجھ کر دینا جیسے: خاتون کے لئے میڈیکل ونرسنگ کی تعلیم حاصل کرنا یا بینکنگ اور انشورنس کے سودی نظام کو اسلامی بنانا وغیرہ۔ایسے مسائل کا استخراج قرآن وسنت کی روشنی میں کرنااور حل پیش کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔ایسے اجتہاد واستخراج کی شاہد کتب حدیث کے تراجم ابواب ہیں جو دراصل عصری سوالات تھے جن کا جواب انہوں نے حدیث سے استدلال کر کے باب کی صورت میں دیا۔ دور حاضر میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی تفسیر اور اس میں مسائل کا استخراج واستنباط ایک بے مثال فقاہت کا ثبوت ہے۔ فقہ وتفقہ کا حاصل یہی کچھ ہے جو علماء نے دین کے اصل مآخذ سے جمع کیا ہے۔اسی طرح بعض فقہاء کرام کے زبردست استدلال پر انسانی عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے جیسے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اور ان کے معاصریا بعد کے فقہاء کے استدلال وغیرہ۔ ذیل میں کچھ متداول کتب کی مثالیں اس فقہی بیداری کو بآسانی سمجھا سکیں اور مراتب فقہاء کو بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آیت یا لفظ سے استخراج:
سورۃ النصر جب آپﷺ پر نازل ہوئی تو بیشتر صحابہ کرام اس کے نزول پر بہت خوش ہوئے کہ الحمدللہ اس دین کو مزید پھلنے پھولنے کی خوش خبری مل گئی مگر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ غمگین ہوگئے۔ کہ اس سورۃ میں تو آپﷺ کی وفات کی خبر ہے۔ مگر بیشتر قریشی صحابہ اپنے اپنے فہم پر قائم رہے۔ جن کی اصلاح جناب فاروق اعظمؓ نے اپنے دور خلافت میں فرمائی۔ اسی طرح آیت:
{أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم، فإن تنازعتم فی شیء فردوہ إلی اللہ والرسول إن کنتم تؤمنون باللہ والیوم الآخر}۔ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول اللہ کی اور حکام وعلماء کی، پھر اگر تم آپس میں کسی چیز میں اختلاف کرنے لگو تو اسے تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہوتو۔

میں{ أطیعوا الرسول} سے کیا مراد ہے؟ اگر رسول زندہ نہ ہو تو پھر کس کی اطاعت کی جائے ؟ کیا اطاعت رسول سے مراد صحیح یا حسن حدیث ہوگی ؟ کیا اس میں خبر واحد بھی شامل ہے؟ کیا خبر واحد بھی وحی ہے؟ یا ظنی؟ اسی طرح {أولو الامر} سے مراد کون لوگ ہیں؟ کیا حکام ہیں یا علماء؟ اور پھر ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر کیا جاسکتا ہے تو کس صورت میں؟ اور اگرنہیں تو کس صورت میں؟ علماء نے اس موضوع پر بہت سا علمی مواد مہیا کیا ہے جسے پڑھ کر ان تمام مسائل کا علمی موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں کتاب العلم اور امام شافعی ؒ کی کتاب الرسالہ بھی ان موضوعات سے بخوبی آگاہی دیتی ہیں۔فقہ العقائد کی مثالیں دیکھئے:

{ولکم فی الأرض مستقر ومتاع إلی حین} میں انسان کا مستقر جینے اور مرنے کی جگہ زمین ہی بتائی ہے۔ اور {فیہا تحیون وفیہا تموتون ومنہا تخرجون} فرما کر یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ کسی اور پلانٹ پر انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اور اس بارے میں یہ کوششیں کہ شاید کہیں پانی مل جائے سب مایوس کن ثابت ہوں گی۔

…یا {وکنتم أمواتاً} انسان میں نفخ روح سے قبل کا زمانہ موت کہا گیا ہے۔ یعنی وہ ایک جامد چیز ، میت تھا۔{فأحیاکم} پھر اللہ تعالیٰ نے روح پھونکی اور اسے زندہ کردیا۔روح سے پہلے وہ میت تھا۔{ثم یمیتکم} پھر وہ تمہیں موت دے دے گا یعنی روح لے کر میت بنادے گا۔{ثم یحیکم} پھر وہ ایک اور زندگی عطا کرے گا جس میں موت نہیں آئے گی۔ اور وہ آخرت کی حیات ہے۔جس شے میں روح نہ ہو اس کے لئے لفظ موت بولا جاسکتا ہے۔ خواہ اس سے پہلے حیات ہو یا نہ ہو۔موت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس سے پہلے حیات ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمادات کے لئے بھی موت کا لفظ فرمایا ہے: {أموات غیر أحیاء}۔ اسی لئے قبر موت کے بعد ہی بنتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث سے استخراج:
حدیث کا فہم اور اس سے استخراج مسئلہ میں بھی فقہاء کرام نے خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ ان میں استخراج مسئلہ جہاں ہے وہاں دلیل بھی موجود ہے۔ جسے دیکھ کر فقاہت کا اعلی وادنی معیار جانچا جاسکتا ہے۔ مثلاً امام ابوداؤدؒ نے المراسیل میں ابو العالیۃ الریاحیؒ سے روایت کی ہے:
جَائَ رَجُلٌ فِیْ بَصَرِہِ ضُرًّ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدِ وَرَسُولُ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّی أَصْحَابَہُ، فَتَرَدّٰی فِی حُفْرَۃٍ کَانَتْ فِی الْمَسْجِدِ، فَضَحِکَتِ طَوَائِفُ مِنْہُم، فَلَمَّا قَضَی رَسولُ اللّٰہ ِﷺ الصَّلاۃَ، أَمَرَ مَنْ کَانَ ضَحِکَ مِنْہُمْ أَنْ یُعِیْدُوا الْوُضوئَ وَیْعِیْدُوا الصَّلاۃَ۔
ایک آدمی جس کی آنکھ میں تکلیف تھی مسجد میں داخل ہوا۔ جناب رسالت مآبﷺ اپنے صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آدمی اچانک مسجد کے گڑھے میں جاگرا۔ صحابہ میں سے چند اس کیفیت کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ جب نبی کریم ﷺ نے نماز مکمل فرمائی تو آپﷺ نے ہنسنے والوں سے فرمایا کہ وہ اپنا وضو اور نماز دونوں لوٹائیں۔

فقہاء کرام اس حدیث کے فہم میں مختلف ہیں کہ آیا اس شخص کا وضو ٹوٹے گا یا نماز بھی جاتی رہے گی؟ بعض فقہاء نے یہ فتویٰ دیا کہ حدیث میں وضو ٹوٹنے کی بھی وضاحت ہے اس لئے کہ نماز کے ساتھ اس کا وضو بھی ٹوٹ جائے گا اور یوں اسے دونوں چیزیں لوٹانا ہوں گی۔ جب کہ کچھ فقہا ء اس مسئلے کے قائل ہوئے کہ وضو توڑنے والی چیزیں تو احادیث میں مذکور ہیں اس لئے اس حدیث میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ان احادیث سے متعارض ہے جو صحیح ہیں جبکہ یہ حدیث مرسل ہے۔ لہٰذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے شخص کی نماز ٹوٹ گئی نہ کہ وضوء۔ محدثین اسے مرسل یعنی غیر متصل حدیث قرار دیتے ہیں جو ایک ضعیف حدیث ہے۔ امام دار قطنیؒ نے اس حدیث مرسل کے چوالیس طرق(سندیں) بیان فرمائے اور کہا کہ سبھی ابو العالیۃ الریاحی پر جاکر ہی ختم ہوتے ہیں جو تابعی ہیں اور صحابی کا ذکر کئے بغیر رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرتے ہیں اس لئے سند میں کسی صحابی کا سقوط ہے۔ کوئی بھی ایسی حدیث نہیں ملتی جو مرفوع متصل ہو۔لہٰذا یہ حدیث ہی صحیح نہیں۔ انہوں نے زور دیا ہے کہ اس مرسل حدیث کے مقابل میں سیدنا جابر ؓ کی ایک موقوف روایت کیوں نہ لے لی جائے جو صحیح بھی ہے۔ سیدنا جابرؓ ( فتح الباری۱؍۲۸۰) فرماتے ہیں:
الضِّحْکُ فِی الصَّلاۃِ یَنْقُضُ الصَّلاۃَ وَلاَ یَنْقُضُ الْوُضوئَ۔
نماز میں ہنسنے سے نماز تو ٹوٹ جاتی ہے مگر اس سے وضوء نہیں ٹوٹتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
استخراج واجتہاد فقہاء:
فقہاء کرام کے استدلال مختلف ہوجانے کی وجہ سے استنباط واستخراج بھی مختلف ہیں۔ امام قدوریؒ ، امام نوویؒ اور امام ابن قدامہ ؒنے اپنی معروف کتب میں ان مسائل کی نشاندہی اپنے اپنے استدلال سے فرمائی ہے ۔ یہ اختلافی آراء ایک ہی مسلک کے مجتہد اور ان کے شاگردوں کے مابین بھی ہے اور خود شاگردوں کے درمیان بھی۔یادومجتہدین کے درمیان بھی۔مثلا: المختصرمیں باب صفۃ الصلوۃ میں امام قدوریؒ لکھتے ہیں:
فَإِنْ قال بَدْلُا مِنَ التَّکبِیْرِ: اَللّٰہُ أَجَلُّ، أَو أَعْظَمُ، أَوِ الرَّحْمٰنُ أَکْبَرُ، أَجْزَأَہُ عِندَ أَبِی حَنِیفَۃَ وَمُحَمدٍ رَحمَہُما اللّٰہُ تَعَالٰی۔ وَقَالَ أَبًویوسُفَ رَحِمَہُ اللہُ تَعَالٰی، لاَ یَجُوزُ إٍِلَّاأنْ یَقولَ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ أَو َاللّٰہ ُالأَکبْرَ ُأو اَللّٰہُ الْکَبِیْرُ۔ ص: ۲۴ )
اگر نمازی تکبیر تحریمہ اللہ أکبرکی بجائے أللہ أجل کہہ دے یا اللہ أعظم کہہ دے، یا الرحمن أکبر کہہ دے تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک ایسا کرنے سے اس کی نماز ہو جائے گی۔ مگر امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ ایسا کہنا جائز ہی نہیں۔ ہاں اگر نمازی اللہ أکبرکہے یا أللہ الأکبر کہے یا اللہ الکبیر کہے تو جائز ہوگا۔

٭…مکلف کی تعریف کو پیش نظر رکھتے ہوئے محدثین کا کہنا یہ ہے کہ غیر عرب نومسلم جب نماز سیکھ لے گا اس وقت وہ وہی کلمات ادا کرنے کا مکلف ہوجائے گا جو رسول اللہ ﷺ نے امت کو سکھائے ہیں۔ورنہ وہ ان الفاظ کے سیکھنے یا ادا کرنے کا پابند نہیں۔ان الفاظ سے بہتر ہے کہ وہ مسنون الفاظ کی ادائیگی سیکھے۔

٭…اسی طرح منیۃ المصلی ص۶میں ہے:
ویَمْسَحُ الرَّقَبَۃَ بِظُہُورِ الأَصَابِعِ الثّلٰثِ بِمَائٍ جَدیدٍ۔ وَقَالَ بعْضُہُم، ہُوَ أَدَبٌ۔
اور گردن کا مسح تین انگلیوں کے ظاہری حصے سے جدید پانی لے کر کرے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں ایسا کرنا ادب ہے۔

اسی پر ایک دوسرے فقیہ فتاوی قاضی خان سے نقل کرتے ہو ئے یوں حاشیہ آرائی فرماتے ہیں:

أمَّا مَسْحُ الرَّقَبَۃِ فَلَیْسَ بِأَدَبٍ وَلاَ سُنَّۃٍ۔
وضو میں گردن کا مسح نہ تو ادب میں شامل ہے اور نہ ہی سنت ہے۔

٭…ایک اور اختلاف رائے یہ بھی سامنے آیا جسے امام قدوریؒ بیان فرماتے ہیں:

ویَکْرَہُ لِلنِّسَائِ أَنْ یُصَلِّیْنَ وَحْدَہُنَّ بِجَمَاعَۃٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ وَقَفَتِ الإِمَامَۃُ وَسْطَہُنَّ کَالْعُرَاۃِ۔۔۔۔ وَیَصُفُّ الرِّجَالُ ثُمَّ الصِّبْیانُ ثُمَّ الْخُنْثٰی ثُمَّ النِّسائُ۔۔۔۔۔ وَیَکْرَہُ لِلنِّسَائِ حُضُورُ الْجَمَاعَۃِ، وَلاَ بَأْسَ بِأَـنْ تَخْرُجَ الْعَجُوزُ فِی الْفَجْرِ وِالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ عِندَ أَبِی حَنِیْفَۃَ رِحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، َوقَالَ أبُویوسُفَ ومُحمدٌ: یَجُوزُ خُرُوجُ الْعُجُوزِ فِی سَائِرِ الصَلَوَاتِ۔ ( المختصر للقدوری: ۲۹ )
عورتوں کے لئے مکروہ ہے کہ وہ خود باجماعت نماز پڑھیں۔ پھر اگر وہ ایسا کر بھی لیں تو عورتوں کی امام عورت، ان کے درمیان چھپ کر کھڑی ہوگی ۔۔۔ صف پہلے مرد بنائیں گے، پھر بچے، پھر مخنث پھر عورتیں۔۔۔ عورتوں کا مسجدمیں باجماعت نماز پڑھنے کے لئے آنا مکروہ ہے۔ بوڑھی عورت اگر فجر، مغرب اور عشاء کے لئے باجماعت نماز پڑھنے کے لئے آنا چاہے تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جب کہ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کا کہنا ہے : تمام نمازوں میں بوڑھی عورت مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کے لئے آسکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آیات و ا حادیث کے فہم واختلاف کو آپ نے ملاحظہ کیا۔ اور فقہاء کرام کے اجتہادی اختلاف رائے کو بھی آپ نے ملاحظہ کیا۔ ان مسائل کی وضاحت میں علماء وفقہاء، متن قرآن ومتن حدیث میں الفاظ کی وضاحت، ان کے معانی سے اخذ شدہ نتائج اور مزید مسائل کا انکشاف یا ان کا حل،جب پیش فرماتے ہیں تو یہ سب متن کے علاوہ فروعات کہلاتے ہیں۔جو حنفی ، شافعی، حنبلی اور مالکی فقہ سبھی میں ملتی ہیں۔

فرع، شاخ کو کہتے ہیں جو تنے سے برآمد ہوتی ہے۔گویا قرآن وحدیث اصل اور ان سے نکلے ہوئے مسائل فروعات ہیں۔ فقہ اسلامی میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ ان کی ابتدا دور رسالت سے ہوگئی تھی جو بدستور جاری وساری ہے۔ صحابہ کرام نے فروعات کا فہم آپ ﷺ سے ہی سیکھا تھا مگران کا دور واجب، مسنون، مستحب اور مکروہ وغیرہ کی اصطلاحات سے مبرا تھا۔بعد کے ادوار میں تفریع واستنباط کا طریقہ وہ نہ رہا جو دور صحابہ میں تھا ۔ صحابہ ایسی تفریعات کو اپنے وجدانی ذوق سے معلوم کرلیا کرتے تھے۔ہاں متاخرین کی کاوشیں چند شرائط کے ساتھ فقہ اسلامی کا نام پا سکتی ہیں۔جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔ قدیم کتب تفسیر میں الجامع لأحکام القرآن جو امام ابن العربی اور ان کے شاگرد امام القرطبی کی بھی الگ تصنیف ہے۔ نیز دور حاضر کی تفاسیر میں أضواء البیان از مفسر ومحقق شنقیطیؒ، تفسیر القرآن الکریم از شیخ ابن العثیمینؒ ، أیسر التفاسیر از الشیخ ابوبکر الجزائری اور اردو تفاسیر میں تفسیرمظہری از قاضی ثناء اللہ پانی پتی، أحسن البیان از شیخ صلاح الدین یوسف اور تیسیر الرحمان لبیان القرآن از ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی نیز کتب حدیث میں صحیح بخاری اور بالخصوص کتب سنن کی شروح، موطأامام مالک کی متعدد شروح نیز فقہ السنہ، اور فقہ الحدیث کی نئی مطبوعہ کتب اس اسلامی فقہ کی جان ہیں اور فروعات کو پیش نظر لکھی گئی ہیں تاکہ فقہ اسلامی کا صحیح ذوق قرآن وحدیث کی عبارات کے پہلو بہ پہلومتعارف کرایا جاسکے۔

فقیہ کہتے کسے ہیں؟ فقیہ وہ ہوتا ہے جو شریعت کے غالب احکام کا علم رکھتا ہو یا اس نے اپنے آپ کو ادلہ تفصیلیہ کی معرفت سے اور استنباط واستدلال میں شرعی دلائل سے ما لا مال کر رکھا ہو ۔ قرآن وسنت کے ٹھوس علم کے علاوہ اس میں ذیلی خوبیاں ہونا بھی ضروری ہے:

…فقہی مسائل کے استنباط یا افتاء کے لئے وہ آیات وصحیح احادیث و روایات یا فتاوی کا چناؤ کرے۔

…خود ثقہ اور ضابط ہو اور ضعیف وموضوع روایات واستنباط میں تمیز کا ملکہ رکھتا ہو ۔

…وہ اپنی فکر اور قوت استدلال کے ذریعے احکام اور دلائل میں منطقی ارتباط کو سمجھے جو دونوں میں موجود ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہاء کے درجات:

آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
رُبَّ حَامِل فِقْہٍ لَیْسَ بِفَقِیْہٍ۔وَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔ (مسند احمد )
بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی ناسمجھ ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فقہ کو ایسے شخص تک منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اورسمجھ دار ہو تے ہیں۔

اس حدیث مبارک میں آپ ﷺ نے خود اپنی حدیث کو فقہ قرار دیا۔نیز فقہاء کے درمیان ایک واضح درجہ بندی بھی فرمادی ہے کہ جو صحیح احادیث کو لفظی ومعنوی اعتبار سے بخوبی سمجھتے وازبر رکھتے ہیں اور اپنی فقہ واجتہاد کا انہیں ہی سہارا بناتے ہیں وہی فقہ اسلامی کے اعلی درجے کے فقیہ ہیں مگر جو فہم حدیث میں کوتاہ ہیں وہ دعوے کے باوجود بھی فقیہ کہلانے کے مستحق نہیں۔کیونکہ یہ لوگ احادیث پر اپنی عقل مسلط کرتے ہیں اور ضعیف وموضوع احادیث کا سہارا لے کر فقہی مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور صحیح احادیث کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ انتہائی کم درجے کے فقیہ ہیں۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ کی یہ روایت ہماری اس گفتگو کا حاصل ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ مَاآٰتَانِیَ اللّٰہُ مِنَ الْہُدٰی وَالْعِلْمِ، کَمَثَلِ غَیْثٍ أَصَابَ أَ رْضًا، کَانَتْ مِنْہَا طَائِفَۃً طََیِّبَۃً، قَبِلَتِ الْمَائِ وَأنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثیرَ، وَکَانَتْ مِنْہَا أَجَادِبَ أَمْسَکَتِ الْمَائَ، فَنَفَعَ اللّٰہُ بِہِ النَّاسَ، فَشَرِبُوا مِنْہُ وَسَقَوا وَزَرَعُوا، وَطَائِفَۃً أُخْرٰی إِنَّمَا ہِیَ قِیْعَانُ لاَ تُمْسِکُ مَائً، َولاَ تَنْبُتُ کَلَأً، فَذَلِکَ مِثْلَ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِینِ اللّٰہِ وَنَفَعَہُ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہِ فَعَلِمَ وَعَمِلَ۔ وََمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذَلِکَ رَأْسًا، وَلَمْ یَقْبَلْ ہُدَی اللّٰہِ الَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہِ۔ وِقَالَ الْحَسَنُ وَالْقَاسِمُ: فَعَلِمَ وَعَلَّمَ۔ (متفق علیہ)
اللہ تعالیٰ نے مجھے جس ہدایت اور علم سے مالا مال کیا ہے اس کی مثال اس برکھا کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ اس میں زمین کا جو حصہ اچھا اور پاکیزہ ہے وہ بارش کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور زمین سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔ زمین کا کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو بجائے جذب کرنے کے پانی کو روک لیتا ہے جس سے بہت لوگ مستفید ہوتے ہیں لوگ نہ صرف پانی پیتے ہیں بلکہ اپنے جانوروں اور کھیتی کو بھی سیراب کرتے ہیں۔ زمین کا ایک حصہ ٹیلے دار ہے جوبرسات کے پانی کو نہ تو روک سکا اور نہ ہی وہاں کچھ اگ سکا چنانچہ یہ مثال ایسے لوگوں(فقہاء) کے لئے ہے جن میں کچھ تو ایسے ہیں جو اللہ کے دین کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں اور میرے علم سے اللہ بزرگ وبرتر انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں وہ اسے جانتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں(فقہاء) کے لئے بھی ہے جومیرے علم کو سیکھنے اور پانے کے لئے اپنا سر تک نہیں اٹھاتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس ہدایت کو قبول کرتے ہیں جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں۔

امام خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث میں جناب رسالت مآبﷺ نے فقہاء کرام اور فقاہت کے مدعی سب حضرات کے مراتب بڑی باریکی سے ارشاد فرمادیئے ہیں ۔
پہلا درجہ:
اچھی اور پاکیزہ زمین کا ہے جس سے مراد۔۔ وہ خدا ترس فقہاء کرام ہیں جو علم شرعی میں اور بالخصوص روایت ( حدیث) میں ضابط (Accurate) ہوں۔ ان کی دینی بصیرت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہرمسئلے کو قرآن وصحیح حدیث کے دلائل سے آراستہ کرتے ہیں۔

دوسرا درجہ:
بنجر اور سخت ز مین کا ہے جو پانی کوجذب کرنے کی بجائے روک لیتا ہے اورخلق خدا اس سے محظوظ ہوتی ہے۔ مراد وہ فقہاء کرام ہیں جو شرعی مسائل پر مبنی احادیث کو سننے کے بعد محفوظ کریں، انہیں یاد بھی رکھیں اور وقت ضرورت انہیں دوسروں تک من وعن پہنچادیں۔ اس طرح اس کے پہنچانے میں بہتوں کا فائدہ ہے کہ حدیث رسول جسے یہ فقیہ آگے پہنچائے ہوسکتا ہے کہ وہ نہ صرف یاد رکھے بلکہ اس سے زیادہ بہتر طریقے سے بہت سے لوگوں تک پہنچاکرانہیں دین کی راہ پرلے آئے۔ آپ ﷺ کے ارشاد کا یہی معنی تو ہے:

رُبَّ حَاِمِلِ فِقْہٍ لیَسْ َبِفَقِیہٍ۔وَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ۔ (مسند احمد )بہت سے فقہ کے حامل غیر فقیہ یعنی ناسمجھ ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فقہ کو ایسے شخص تک منتقل کردیتے ہیں جو اس حامل سے بھی زیادہ فقیہ اورسمجھ دار ہو تے ہیں۔

آپﷺ نے اپنی حدیث مبارک کے حاملین کو فقیہ قرار دیا۔

تیسرا درجہ:
اس نام نہاد فقیہ کا ہے جو حدیث تو سنے مگر سن کر نہ اسے یاد رکھ سکے اور نہ ہی اسے ضبط کر سکے اور نہ ہی اس کے مطابق مسئلہ بتاسکے۔ وہ نہ پاکیزہ زمین کی طرح ہے اور نہ ہی بنجر زمین کی مانند، بلکہ وہ تو ہر خیر سے محروم ہے۔ ایسے شخص کی مثال ٹیلے جیسی ہے جہاں گھاس اگتا ہے اور نہ ہی وہاں پانی رکتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: {ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون}( الزمر:۹) کیا علم والے اور لا علم لوگ برابر ہو سکتے ہیں؟ اسی طرح یہ ارشاد: {أفمن یعلم أنما أنزل إلیک من ربک الحق کمن ہو أعمی}( الرعد:۱۹ )کیا بھلا جو یہ علم رکھتا ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے وہ حق اور سچ ہے وہ اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جو اندھا ہو؟ اللہ تعالیٰ نے علم صحیح ترک کرنے والے کو ، اس سے اجتناب برتنے والے کو، اسے احترام نہ دینے والے اور ایسے علم کو جھوٹ کہنے والے کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ {واتل علیہم نبأ الذی آتیناہ آیاتنا فانسلخ منہا۔۔۔ فمثلہ کمثل الکلب}۔( الأعراف: ۵۔۱۷۶ )ان پر اس شخص کی خبر کو پڑھئے جسے ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا تو وہ ان سے کھسک گیا۔۔۔ تو اس کی مثال کتے کی مثال کی مانند ہے۔۔ ( الفقیہ والمتفقہ ۱؍۱۷۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمیاں:
فقہ کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں اور غلط رحجانات بھی ہمارے معاشرے میں بکثرت ہیں۔ بعض لوگ فقہ کومحض فقہاء کرام کا جھگڑا اور اختلاف سمجھتے ہیں اس لئے کہ مختلف فقہی مسالک کے حلقوں اور دروس وکتب میں یہ سب کچھ پڑھنے اور دیکھنے میں آتا ہے۔ اس طرح وہ اس سے یکسر کنارہ کش ہو گئے۔ بعض نے فقہاء کرام کے اقوال و فتاوٰی کو ہی صرف فقہ گردانا اور قرآن وسنت کے اصل چشموں سے سیرابی نہ چاہی۔ حالانکہ کسی فقیہ کی تمام فقہیات کو من وعن قبول نہ کرنا اور بات ہے اور فقہ سے نفرت دوسری بات۔ جبکہ ایک معتدل مسلمان میں پہلی بات تو ہونی چاہئے اور دوسری سے اعلان براء ت۔ اس لئے کہ مسلمان جب قیاس کو حجت مانتا ہے تو پھر فقہ سے نفرت کا کیا مطلب؟ ہاں فقہی استنباطات و مسائل میں تنقید ہوتی آئی ہے جس کی گواہی اور نقد کی شہادتیں ہمیں فقہاء اربعہ ومسالک اربعہ کے متون وشروح میں بکثرت ملتی ہیں۔ مذکورہ دونوں گروہوں نے جس افراط و تفریط سے کام لیا ہے اس نے عوام کوبھی قرآن وسنت کے صحیح فہم سے دور کر دیا ہے۔

یاد رکھنے کی بات :
ہماری شریعت کا مصدر(Source) وحی الٰہی ہے۔اس کا نازل کرنے والا رب العالمین ہو۔ جو دنیا میں محض اس لئے آئی ہو کہ حیات انسانی سے متعلق جملہ امور ومسائل کا حل پیش کردے ۔کیا ایسی شریعت میں اختلافات کی بھرمار ہوگی؟ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے رسول رحمت پر اپنی شریعت نازل کی اور اہل ایمان کو عطا کی۔ اس شریعت میں سراسررحمت ہی رحمت ہے۔ مکمل یگانگت وہم آہنگی ہے۔ اختلاف نہیں۔ جب اہل علم نئے مسائل پر غور وفکر کرکے اپنی آراء جب دیتے ہیں تو لامحالہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جو دینی وسعت ہے ۔ اہل درد صرف اس رائے کو ترجیح دے دیتے ہیں جو صحیح مدلل ہو، وزنی ہو۔ اس باب میں تعصب شامل نہیں ہونا چاہئے جوبہر صورت مذموم ہے۔

٭…دنیا میں انسان کو نت نئے حوادث کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ناگزیر ہیں۔ہر لمحہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ شریعت نے ان کی تفاصیل کچھ اس انداز سے دی ہیں کہ ان میں بعض ناقابل تغیر ہیں اور بعض میں اجتہاد واستنباط کی گنجائش ہے۔ مثلاً احوال شخصیہ یعنی عقائدوعبادات، نکاح ومواریث اوروفات جیسے امور ناگزیر ہیں۔ ان کے لئے ایک صحیح رخا حکم دے کر انسانی معاشرے کو سنبھالا ہے۔ان میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ہے تو وہ فرد کی طرف سے ہے شریعت اس میں قصوروار نہیں۔ اس اختلاف کی اصلاح قرآن وسنت کی روشنی میں ہونی چاہئے۔ مگر جو امور نئے حوادث کی وجہ سے تغیر پذیر ہیں ان کے بارے میں شریعت نے کچھ عام قواعد متعارف کرائے جن سے وقتی حالات وحوادث کے احکام، استنباط کیے جاسکتے ہیں۔ ان استنباطات میں احوال یا ماحول کی مناسبت سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ فقہاء کرام کے اختلاف کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہئے۔

٭… علاوہ ازیں دین کی مبادیات اور اصولوں میں علماء دین کے مابین کبھی اختلاف پیدا نہیں ہوا اختلاف جب بھی رونما ہوا تو فروعات دین میں ہوا ہے۔ اور فکرو نظر کا اختلاف ہونا باعث حیرت نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ انسانوں کا کون سا بنا یا ہوا ایسا قانون ہے جس میں اتفاق ہو۔ اختلاف کی گنجائش ان میں بھی رہتی ہے۔ اس لئے فروعی مسائل میں جو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے وہ ہمارے مجتہدین کے نصوص شرعیہ( Text of Qur'an &Hadith) کو واقعات پر منطبق (Apply) کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی میں مصالح عامہ کا خیال

اسلامی شریعت ایک بڑی اہم اساس پر قائم ہوئی۔ لوگوں کی مصالح کا خاص خیال رکھنا۔ یعنی ان سے مفاسد اور مضر کو دور کرنا اور مفید ومناسب مہیا کرنا۔ یہ ایک ایسا جامع اصول ہے جو شریعت کے تمام احکام پر محیط ہے۔ اس لئے شریعت کے ہر حکم میں یہ چیز ضرور پائی جاتی ہے کہ مفاسد ومضر کو دور کرکرنا یا مفید ومناسب کومہیا کرنا۔ شرعی احکام دیتے وقت انسان کی ان ضرورتوں کا جو خاص خیال رکھا گیا ہے اسی سے اسلامی فقہ کے مزاج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔یہ بالاختصار عرض خدمت ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت اپنے پہلے دور میں متعدد بنیادوں پر قائم تھی۔ جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:

رفع حرج:
حرج عربی زبان میں تنگی کو کہتے ہیں۔ جس کا شرعی معنی یہ ہے کہ احکام دیتے وقت یہ لحاظ رکھا گیا کہ لوگ شرعی حکم پر عمل کے وقت تنگی محسوس نہ کریں۔یہ مطلب نہیں ہر مشقت جو شرعی احکام بجالاتے وقت مکلف کو جھیلنا پڑتی ہے وہ اٹھا لی گئی کیونکہ کوئی عبادت ہو یا تکلیف، اس میں مشقت تو ہے خواہ وہ معمولی ہو یا بہت ہی تھوڑی۔

رفع حرج کے دلائل: قرآن پاک میں:
{ماجعل علیکم فی الدین من حرج} الحج: اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔
{ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج} المائدہ: ۶۔اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ وہ تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی ڈال دے۔
{یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر} البقرۃ: ۱۸۵) اللہ تعالیٰ تم سے آسانی کرنا چاہتا ہے تنگی نہیں کرنتا چاہتا۔

احادیث رسول میں:
آپ ﷺ کا ارشاد اور معاد بن جبل وابوموسیٰ اشعری کو یہ نصیحت: یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، بَشِّرَا وَلاَتُنَفِّرَا۔( صحیح بخاری)
اسی طرح : إنَّ الدِّینَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا۔( صحیح بخاری)

اُم المؤمنین کی آب ﷺ کے مآاج کے باری میں یہ اہم خبر: أَنَّہُ مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلاَّ اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا، مَا لَمْ یَکُنْ إِثْماً۔(صحیح بخاری)
 
Top