• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

( فقہ السیرۃ النبویہ)) (( آغاز دعوت وبعثت اور داعیان اسلام کے اوصاف وخصائل ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

آغاز دعوت وبعثت اور داعیان اسلام کے اوصاف وخصائل

ﷲ تعالیٰ نے بھولی بھٹکی انسانیت کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے داعی اعظم ﷺ کا انتخاب فرمایا۔

سرتاج رسول ﷺ کو انسانیت کی تربیت و اصلاح کی ذمہ داری سونپتے ہوئے سورت مدثر کی ابتدائی آیات کا نزول ہوا۔

اس حوالے سے عموماً پہلی پانچ آیات کا تذکرہ ملتا ہے، البتہ بعض اہل سیرت نے سات آیات کا بھی تذکرہ کیا ہے، الزرقانی، شرح المواہب:276/4 و الماوردی، أعلام النبوۃ،ص:٢٣٩

وہ سات آیات یہ ہیں:

( یَـاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنذِرْo وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْo وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْo وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُo وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ )، المدثر:1/74_7

''اے چادر لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھیں اور خبردار کریں۔ اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کریں، اپنے کپڑے پاک رکھیں اور گندگی سے دور رہیں۔ زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کریں اور اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔''

ان آیات مبارکہ میں رب تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو دعوت و تبلیغ کے بنیادی امور کی رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ آیات بیش بہا ہدایات ربانیہ پر مبنی ہیں ، جس کی وضاحت اس طرح سے ہے:

( یَاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُ ) اس میں ﷲ تعالیٰ کے لطف و کرم کا اظہار ہے۔ آپ کو نام کے بجائے صفت سے خطاب کیا گیا ہے۔ داعی کو بھی مخاطبین تربیت واصلاح کے لیے ان سے شفقت و رحم دلی والا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ دعوت وتبلیغ کے وقت خاص طور پر لوگوں کی عزت نفس ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔ منکرین حق کی خیر خواہی اور ان سے لطف و کرم کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

( قُمْ فَاَنذِرْ) اس میں دعوت وتربیت کی غرض سے سستی و کاہلی ترک کرنے کی تلقین کی گئی۔ پیغام رسانی کے لیے کمربستہ ہونے کی نصیحت فرمائی گئی۔ یہاں تبشیر کے بجائے صرف انذار کا تذکرہ کیا۔ اس میں رہنمائی ہے کہ دعوت وترتیب میں انذار و تبشیر میں سے انداز کو اولیت حاصل ہونی چاہیے اور اس کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے۔ قرآن کریم اور آپ کی سیرت مبارک میں بھی انذار کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔

( وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ) اس میں اشارہ ہے کہ دعوت وتبلیغ میں اﷲ تعالیٰ کی توحید و عبودیت اور اس کی بڑائی و کبریائی کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ زیادہ اسی پر زور دینا چاہیے۔ اسی میں دین اور اہل اسلام کی کامیابی پنہاں ہے۔ عہد مکی میں سب سے زیادہ ﷲ کی توحید و الوہیت ہی کی تلقین کی گئی ۔ ہر روز اذان پنجگانہ میں بار بار اور نماز کی ہر رکعت میں کئی دفعہ ''اﷲ اکبر'' کا آوازہ بلند کیا جاتا ہے۔ دیگر کئی ایک مواقع پر بھی اس کی کبریائی اور بڑائی ہی کی تلقین کی گئی ہے۔

( وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ) اﷲ تعالیٰ کی کبریائی کے ساتھ ہی ظاہری و باطنی طہارت کا درس دیا گیا۔ اس سے اسلام میں طہارت و نفاست کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ عقائد و اعمال اور افکار و نظریات کی طہارت اسلام میں انتہائی اہم ہے۔ لباس، پوشاک، خوراک، مسکن اور بول چال میں طہارت و پاکیزگی بھی مطلوب شرع ہے۔ داعی کو ان امور کا خاص خیال ہی نہیں رکھنا چاہیے ، بلکہ اس حوالے سے انھیں دوسروں کے لیے اسوہ ہونا چاہیے۔ آنحضرت ﷺ نے طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ یہ حدیث تمام طرح کی حسی و ظاہری طہارت و نفاست کو شامل ہے۔

( وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ) طہارت کے حکم سے اگرچہ گندگی سے بچنا بھی لازمی امر ہے، لیکن حکم طہارت کے بعد گندگی سے بچاؤ کا الگ سے حکم دیا گیا۔ اس سے مقصود گندگی کی شناعت و قباحت بیان کرنا اور نجاست وغلاظت کے نقصان سے آگاہ کرنا تھا۔ افکار و نظریات، برے اخلاق و کردار اور دیگر تمام امور و معاملات کی نجاست سے بچنا بھی اس میں شامل ہے۔ شرک و بدعات، غلط رسوم و رواج بھی اسی حکم کے تحت ہیں۔ حسی و حکمی اور ظاہری و باطنی تمام طرح کی نجاست و گندگی شریعت کی نظر میں ناقابل برداشت ہے۔ اس سے احتراز ضروری ہے، خاص طور پر داعی اسلام اور مصلحین قوم وملت کے لیے۔

( وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ) اس میں تلقین کی گئی ہے کہ کسی طرح کی بھی خیر و بھلائی کے بدلے میں دنیا والوں سے کسی فائدے کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ مسلمان جو کچھ بھی کرے صرف ﷲ کی رضا کی خاطر کرے۔ کسی پر کوئی احسان کر کے احسان نہیں جتانا چاہیے۔ خود پر ربانی نوازشات کی بنا پر اترانا بھی نہیں چاہیے اور نہ ہی کسی کو حقیر و کمتر خیال کرنا چاہیے۔ امور خیر و نیکی کی نمود و نمائش سے بچنا بھی اس آیت میں شامل ہے۔ احسان کے بدلے میں زیادہ کی امید طلب بھی اس آیت کے تحت ممنوع ہے۔ اس میں درس ہے کہ داعیانِ دین کو جود و سخا کا پیکر ہونا چاہیے اور دوسروں کی محتاجی کے بجائے اوروں کو نوازنے کا خوگر ہونا چاہیے۔

( وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ )اس میں رضائے الٰہی کی خاطر صبر و برداشت کا حکم فرمایا گیا ہے۔ فریضہ دعوت و جہاد کی ادائیگی، اوامر و نواہی کی پابندی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی انجام دہی میں جو بھی تکلیف و الم آئے ، اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنا مومن کا امتیازی وصف ہے۔ دعوت و تبلیغ، تربیت و اصلاح اور اسلامی شعائر و احکام کی پابندی یقینا مشکل ترین امر ہے۔ ان کی وجہ سے ہر قسم کی ذہنی ،جسمانی اور مالی تکلیف و پریشانی برداشت کرنا شیوئہ پیغمبری ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اسی کی تعلیم دی گئی ہے۔ سورت عصر میں چار امورِ کامیابی کا تذکرہ ہے۔ ان میں سے ایک اسی صبر کے متعلق ہے۔

سورت مدثر کی ان آیات مبارکہ میں دعوت و تربیت کے حوالے سے انتہائی اہم امور کی تعلیم دی گئی ہے۔ اہل اسلام کو بالعموم اور داعیانِ اسلام کو بالخصوص ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کی پاسداری کے بغیر حصولِ مقصود میں شدید مشکلات کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ، بلکہ ان پر عدم محافظت کی صورت میں نیل مراد میں ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔

مذکورہ بالا امور داعیان اسلام ، مصلحین ملت اور مربیان امت کے اوصاف و خصائل کا حصہ ہونے چاہیے۔

داعی اعظم جناب محمد کریم ﷺ ان آیات کے اولین مخاطب تھے۔ ان امور کی پاسداری میں آپ کی زندگی مثالی ہے۔ ان تمام شرعی ہدایات کی روشنی ہی میں آپ نے دعوت کا آغاز فرمایا۔ تاحیات ان کا خیال رکھا اور اپنے عظیم مشن میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔_________
احباب گرامی! تحریر پڑھ کر ثواب کی نیت سے آگے بھی شیئر کریں
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top