• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ السیرۃ النبویہ Fiqh Us Seerat Un Nabavia(( دعوتی کامیابیاں اور نبوی حکمت عملی ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ: سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تربیتی ، تنظیمی اور سیاسی رہنمائی

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور 0306:4436662))

دعوتی کامیابیاں اور نبوی حکمت عملی :


اسلام کی ہمہ گیر دعوت اور مصائب و شدائد لازم ملزوم ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی مستقل سنت ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو اس عظیم مشن کی خاطر مختلف تکالیف و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ،حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیھم السلام نے جن مصائب کا سامنا کیا،قرآن میں ان کا تذکرہ ہے۔ پیغمبر رحمت ﷺ کو اور آپ کے رفقاء کو عہد مکی میں مشرکین کے ظلم و تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ بعثت نبوی کا مکی دور دعوتی تکلیف و الم سے تعبیر ہے۔ اس عہد ضعف میں آپ نے نہ تو دعوت کے ابلاغ میں کسی طرح کی مداہنت اختیار کی اور نہ ہی اپنے ماننے والوں کی ممکنہ نصرت و حمایت میں کسی طرح تساہل برتا۔ مختلف حالات و ظروف کے پیش نظر آپ نے کفار کے مظالم سے بچاؤ کے لےے مختلف حکمت عملی اور مادی و روحانی اسباب اختیار کیے۔

عہد مکی کے ابتدا ئی تین برس دعوت دین خفیہ اور انفرادی طور پر دی گئی۔ یہ حکمت عملی دعوت کے پھیلاؤ کے ساتھ مخالفین کی دست درازی سے بچاؤ کا بھی ایک سبب تھی۔ اس عرصہ میں اہل ایمان کو ان مصائب ومشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا ، جو مشکلات علانیہ دعوت کے بعد جھیلنا پڑیں ۔تب تک نہ تو مشرکین اس دعوت کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے اور نہ ہی اسے اپنے مستقبل کے لیے کوئی بڑا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی پریشانی علانیہ دعوت کے اظہار و اقرار پر عیاں ہوئی اور تب اسے روکنے کے مختلف حربے اختیار کیے گئے۔

عہد ابتلا میں اختیار کردہ تدابیر میں سے ایک ، قبائلی اقدار و روایات کا سہارا لینا بھی تھا۔ نمایاں خاندان کے حامل مسلمان اپنے قبائل کی وجہ سے اس قدر مصائب میں مبتلا نہ ہوئے، جس قدر غلاموں اور کمزور مسلمانوں کو شدائد کا سامنا کرناپڑا۔ سردار ابوطالب کی حمایت کی وجہ سے آپ مخالفین کی دست درازی سے کافی حد تک محفوط رہے۔ طائف سے واپسی پر آپ نے جبیر بن معطم کی پناہ لی۔ پہلی ہجرت حبشہ سے واپسی پر کئی ایک مسلمان اہل مکہ کے مختلف افراد کی پناہ میں مکہ آئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی ولید بن مغیرہ کی کچھ عرصہ پناہ لی۔ جائزہ قبائلی و علاقائی روایات کو بطور دفاع استعمال کرنا فقۃ الابتلا کی مستقل نبوی حکمت عملی ہے۔

مشرکین کے حملوں سے بچاؤ کے لیے باحیثیت افراد کو خاص اہتمام سے دعوت دی گئی ، تاکہ ان کے قبول اسلام سے دعوت و تحریک کو تقویت ملے اور اعدائے دین کے ظلم و تشدد سے محفوظ رہا جا سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے لیے آپ نے جو دعا فرمائی، اس میں یہ مقاصد بالکل عیاں ہیں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کو تقویت ملی اور مظالم میں تخفیف ہوئی۔ اس کے ساتھ دعوت بھی خوب پھلی پھولی۔

گردونواح سے آنے والے قبائل کو دعوت میں آپ کا نمایاں ترین مقصد نصرت و دفاع ہی تھا۔ اہل طائف سے بھی آپ نے نصرت و حفاظت کا مطالبہ فرمایاتھا۔ انصار سے قبول اسلام میں بھی سمع و طاعت کے ساتھ حفاظت و دفاع بنیادی شرط تھی۔ معاشرے کے سربر آوردہ افراد کو دعوت دین دینا اور ان کے ذریعے دفاع دین کرنا شرعی سیاست کا اہم ترین حصہ ہے۔

کفار کے مقابلے میں صبر و برداشت اور عدم مزاحمت بھی عہد ابتلا کی ایک اہم ترین پالیسی تھی۔ بصورتدیگر اعدائے دین مشتعل ہو کر پہلے سے کہیں بڑھ کر مظالم ڈھاتے۔ ممکن تھا اس صورت میں دعوت کو ویسے ہی کچل دیا جاتا۔ اس عدم مزاحمت کو شرعی سیاست کی اصطلاح میں کفِ ید سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

دین وجان اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے ہجرت جیسا مشکل ترین اقدام بھی کیا گیا۔ اس کے لیے دو بار ہجرت حبشہ اور ایک دفعہ ہجرت مدینہ کی گئی۔ حبشہ میںمسلمانوں کو دعوت و عبادت کی آزادی کے ساتھ ہر طرح کا تحفظ بھی ملا۔ اسی ہجرت کی بدولت اسلام کی دعوت حبشہ سمیت اطراد و اکناف میں پھیل گئی۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی بھی مسلمان ہو گیا اور رسول اﷲ ﷺ نے اس کی وفات پر غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی۔ ہجرت مدینہ تو اسلامی شان و شوکت کے آغاز اور مظالم سے بچاو،کا عظیم الشان مرحلہ تھا۔ اسی کی بدولت اسلامی ریاست کا قیام ہوا اور اسلام کا ایک مکمل نظام حیات کے طور پر نفاذ ہوا۔

عہد ابتلا میں شرعی سیاست کا مثالی پہلو مسلمانوں کو روحانی غذا کی فراہمی بھی ہے۔ اس کے لیے رسول اﷲ ﷺ دعوتی مظالم پر انھیں صبر و استقامت کی تلقین فرماتے۔ دین کی خاطر مشکلات برداشت کرنے پر اجر و ثواب سے نوازے جانے اور جنت خلد کا حقدار قرار پانے کی بشارات سناتے۔ اپنے اصحاب کی خبر گیری فرماتے اور سابقہ انبیاء و ملل کے واقعات بیان فرما کر ان کی ڈھارس بندھاتے۔ اس حوالے سے بڑی بڑی مکی سورتیں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔

جہاد و قتال کا آغاز اگرچہ عہد مدنی میں ہوا، لیکن اسی کی بدولت اسلام کی مثالی نشر و اشاعت ہوئی۔ دشمنان دین کی قوت و طاقت پاش پاش ہوئی۔ اس مقدس عمل کی نظیر نہیں ملتی ،اسی اہم فریضہ کی بدولت کفرکے سرغنے خاک و خون میں ملے، ان کے غرور و تکبر کا قلع قمع ہوا۔ آنحضرت ﷺ وفات پر حسرات کے کچھ ہی برسوں بعد وقت کی عالمی طاقتیں تاخت وتاراج ہوئیں اور اسلام عالمی قوت کے طور پر ابھرا۔ عہد ضعف وابتلا میں دعوت کاپھیلاؤاور مسلمانوں کی حفاظت شرعی سیاست کا بڑا اہم مرحلہ ہے۔اس میں کامیابی کی حکمت و تدابیر کے حوالے سے آنحضرت ﷺ کا عہد مکی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ فقہ الابتلا نبوی منہج دعوت و انقلاب کا بنیادی موضوع ہے۔

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top