• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کب روزہ افطار کریں گے؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کب روزہ افطار کریں گے؟

سوال: اگر کوئی شخص دبئی کے 160منزلہ خلیفہ ٹاور میں رہائش پذیر ہے تو وہ شہر میں ہونے والی مغرب کی اذان کے مطابق ہی روزہ افطار کرے گا یا اس کیلیے کوئی خاص حکم ہے؟۔

Published Date: 2016-06-05

الحمد للہ:

اول:

شریعت مطہرہ نے روزہ مکمل ہونے کی بہت ہی واضح علامت مقرر فرما دی ہیں اور وہ یہ ہے کہ افق میں سورج غروب ہو جائے۔

چنانچہ جس وقت سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کیلیے روزہ کھولنا جائز ہو گا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)

ترجمہ: پھر تم رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187]

اور رات کی ابتدا سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے، جیسے کہ اس بارے میں تفصیلی بیان سوال نمبر: (110407) کے جواب میں پہلے گزر چکا ہے۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(جب رات اس جانب سے [یعنی: مشرق سے] آ جائے اور دن اس جانب سے [یعنی: مغرب سے] چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار کا روزہ کھل گیا)

بخاری: (1954) مسلم: (1100)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ سورج کے غروب ہونے سے روزہ مکمل ہو جاتا ہے" انتہی

" المجموع شرح المهذب " (6/ 304)

یہاں سورج غروب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ: سورج کی ٹکیا بالکل چھپ جائے، تاہم سورج غروب ہونے کے بعد افق میں باقی رہ جانے والی سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہے، چنانچہ جیسے ہی سورج کی ٹکیا مکمل طور پر غائب ہو جائے تو اس کیلیے روزہ افطار کرنا جائز ہو جائے گا۔

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ محض سورج کی ٹکیا غائب ہونے سے ہی مغرب کی نماز کا وقت شروع ہو جائے گا اسی طرح روزے دار افطاری بھی کر سکے گا، اس بارے میں اہل علم کا اجماع ہے، ابن منذر وغیرہ نے اس اجماع کو نقل کیا ہے۔

ہمارے شافعی اور دیگر فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ: نظروں سے سورج اوجھل اور غروب ہونے کے بعد آسمان پر موجود سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہے" انتہی

" فتح الباری " (4/352) معمولی تبدیلی کے ساتھ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جس وقت سورج کی ٹکیا غائب ہو جائے تو اس وقت روزے دار روزہ کھول سکتا ہے، نماز سے ممانعت کا وقت ختم ہو جاتا ہے، نیز افق میں پائی جانے والی شدید سرخی کی وجہ سے احکام میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی" انتہی
" شرح عمدة الفقہ " ( ص: 169 )

دوم:

یہ بات مسلمہ ہے کہ سورج غروب ہونے کا وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ پر مختلف ہوتا ہے، اسی طرح ایک ہی جگہ پر بھی سورج غروب ہونے کا وقت الگ ہو سکتا ہے بایں طور کہ ایک شخص بلندی پر ہو اور دوسرا نیچے ہو۔

اور چونکہ شریعت میں روزہ افطار کرنے کا وقت سورج کی ٹکیا کے غائب ہونے سے تعلق رکھتا ہے اس لیے ہر شخص کیلیے اسی جگہ کی مناسبت سے حکم ہو گا جہاں وہ سورج غروب ہونے کے وقت موجود تھا، چنانچہ جب تک اس کی جگہ سے سورج غروب نہ ہو جائے تو افطاری مت کرے، چاہے کسی اور جگہ سورج غروب ہو یا نہ ہو۔

لہذا اگر کوئی شخص فلک بوس عمارتوں میں رہتا ہے وہ اس وقت تک روزہ افطار نہ کرے جب تک اس کی نظر کے اعتبار سے سورج غروب نہ ہو جائے، نیز وہ روزہ افطار کرنے میں سطح زمین پر رہائش پذیر لوگوں کے ساتھ نہیں ہوگا۔

فخر الدین زیلعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بیان کیا جاتا ہے کہ فقیہ ابو موسی ضریر جو کہ صاحب "مختصر "بھی ہیں، جب وہ اسکندریہ آئے تو ان سے اسکندریہ کے مینار پر چڑھنے والے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اسے سطح زمین پر موجود لوگوں کی بہ نسبت کافی دیر تک سورج نظر آتا ہے تو کیا اس کیلیے لوگوں کے ساتھ روزہ کھولنا جائز ہے؟

تو انہوں نے کہا: جائز نہیں ہے، البتہ نیچے رہنے والے لوگ روزہ افطار کر لیں گے؛ کیونکہ ہر شخص کو اس کی اپنی حالت کے مطابق حکم دیا گیا ہے" انتہی

" تبيين الحقائق " (1/321)

اسی طرح ابن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فیض میں ہے کہ: اگر کوئی شخص بلند جگہ پر ہو جیسے کہ اسکندریہ کا مینار ہے تو وہ اس وقت تک روزہ افطار نہیں کریگا جب تک اس کی نظر کے مطابق سورج غروب نہ ہو جائے، البتہ شہر کے رہائشی اس سے پہلے روزہ افطار کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی نظروں سے بھی سورج کی ٹکیا غائب ہو جائے، سورج یا صبح صادق کے طلوع ہونے سے متعلق نماز فجر یا سحری کا بھی اسی طرح حکم ہوگا "انتہی

"حاشیہ ابن عابدین" (2/420)

اسی طرح محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فقہی کتب میں یہ بات موجود ہے کہ: دو افراد میں سے ایک مینار پر ہو اور اسے سورج نظر آ رہا ہو، جبکہ دوسرا شخص سطح زمین پر اور اس کی نظروں سے سورج غائب ہو چکا ہو تو دوسرا شخص روزہ افطار کر سکتا ہے، پہلا شخص نہیں کر سکتا" انتہی

" فیض الباری " (3/355)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (10/297) میں ہے کہ:

"ہر روزہ دار کیلیے اسی جگہ کے اعتبار سے حکم ہو گا جہاں پر وہ موجود ہے، چاہے وہ سطح زمین پر ہو یا فضا میں کسی جہاز پر ہو" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"پہاڑوں، میدانی علاقوں اور فلک بوس عمارتوں میں رہنے والے لوگوں میں سے ہر ایک کا الگ الگ حکم ہے، چنانچہ جس شخص کی نظروں سے سورج کی ٹکیا افق میں غائب ہو گئی تو وہ روزہ کھول سکتا ہے، وگرنہ نہیں" انتہی


" الشرح الممتع " (6/ 398)


انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:

"اگر مؤذن اذان دے رہا ہو اور آپ کسی بلند جگہ پر سورج دیکھ رہے ہوں تو روزہ افطار مت کریں" انتہی

" اللقاء الشهری " (41/ 22 ) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

نیز بالکل یہی معاملہ جہازوں میں سوار مسافروں کا ہے، وہ اس وقت تک روزہ افطار نہیں کرینگے جب تک ان کے مطابق سورج غروب نہ ہو جائے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:

"اگر کوئی روزہ دار جہاز میں سوار ہو اور اپنی گھڑی یا ٹیلیفون کے ذریعے قریب ترین شہر کے بارے میں اسے علم ہو جائے کہ وہاں روزہ افطار ہو گیا ہے ، لیکن چونکہ وہ بلندی پر ہے اس لیے اسے سورج ابھی نظر آ رہا ہے تو وہ شخص روزہ نہیں کھول سکتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

( ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ)

ترجمہ: پھر تم رات تک روزہ مکمل کرو۔[البقرة:187]

جبکہ اس مسافر کے لیے ابھی تک رات شروع ہی نہیں ہوئی کیونکہ وہ سورج کو ابھی تک دیکھ رہا ہے" انتہی

" فتاوى اللجنة الدائمة " (10/ 137)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:

"ماہ رمضان میں ہم سفر کرتے ہیں اور ہم دورانِ سفر روزہ بھی رکھ لیتے ہیں ، اس حالت میں بسا اوقات فضا میں ہی رات ہو جاتی ہے، تو کیا ہم فضا میں جس وقت اپنے سامنے سورج کی ٹکیا غائب ہوتی دیکھیں تو کیا ہم روزہ کھول لیں؟ یا پھر ہمیں اسی علاقے کے وقت کا خیال کرنا ہوگا جس کے اوپر سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں؟"

تو انہوں نے جواب دیا کہ:

"جس وقت آپ یہ دیکھ لو کہ سورج غروب ہو گیا ہے تو روزہ افطار کر لیں؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جب رات اس جانب سے آ جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار اپنا روزہ کھول لیں)" انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل العثیمین " (15/437)

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (106475) کا مطالعہ کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ:

بلند و بالا عمارتوں میں رہنے والے افراد سطح زمین اور جس بلندی پر وہ رہائش پذیر ہیں ان دونوں جگہوں کے بارے میں سورج غروب ہونے کے وقت میں فرق کا خیال کریں۔

چنانچہ اس بارے میں دبئی کی محکمہ مذہبی امور اور افتاء کی جانب سے یہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ:

"160منزلہ برج خلیفہ میں رہائش پذیر لوگ رمضان میں قدرے تاخیر سے روزہ افطار کریں، چنانچہ 80 سے لیکر 150 منزلوں تک کے رہائشی لوگ مغرب کی اذان سے دو منٹ کی تاخیر کے ساتھ روزہ افطار کرینگے۔

جبکہ 150 ویں منزل سے بھی اوپر رہنے والے لوگوں کیلیے اذان مغرب و عشا کے مقررہ وقت سے تین منٹ تاخیر کے ساتھ ان نمازوں کا وقت ہو گا۔

جبکہ 80 ویں منزل سے نیچے رہنے والے لوگوں کیلیے مساجد کی اذان کے مطابق مغرب کا وقت ہوگا"

مزید تفصیلات کیلیے درج ذیل ربط پر جائیں:

http://www.emaratalyoum.com/local-section/other/2011-08-06-1.414355

یا پھر اس لنک پر جائیں:

http://www.aleqt.com/2011/08/06/article_566738.html


واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

https://islamqa.info/ur/220838
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عليهم تأخير المغرب وتبكير الفجر مثل ركاب الطائرات


3 مواقيت لإفطار وسحور سكّان برج خليفة

التاريخ:: 06 أغسطس 2011
المصدر: أحمد عاشور - دبي


دعت دائرة الشؤون الإسلامية والعمل الخيري في دبي، سكان الأبراج شاهقة الارتفاع إلى تأخير إفطار الصيام لمدة دقيقتين أو ثلاث دقائق بعد الأذان، حسب ارتفاعهم، موضحة أن سكان برج خليفة، الأعلى في العالم، عليهم الإفطار والسحور وفق ثلاثة مواقيت تحددها الطوابق التي يقيمون فيها.

وقال كبير المفتين ومدير إدارة الإفتاء في الدائرة، الدكتور أحمد عبدالعزيز الحداد، لـ«الإمارات اليوم» إن هناك فروقاً في التوقيت بين سكان الطوابق بالغة الارتفاع، والطوابق القريبة من الأرض، خصوصاً في صلوات المغرب والعشاء والفجر.

ودعت الدائرة المسافرين في الطائرات إلى «عدم الإفطار إلا بعد غياب الشمس، ورؤيتهم غروبها»، مؤكدة أن «الإفطار حسب موعد البلد الذي تحلّق فوقه الطائرة، أمر غير جائز».

وتفصيلاً، قال الحداد إن شعبة التقويم في الدائرة أفادت بأن سكان برج خليفة، المكون من 160 طابقاً، مطالبون بتأخير الإفطار في شهر رمضان، موضحة أن سكان الطوابق من 80 إلى 150 مطالبون بالإفطار بعد دقيقتين من موعد أذان صلاة المغرب، وتحل عليهم صلاة العشاء بعد دقيقتين أيضاً من أذان المساجد، في حين يحل عليهم موعد أذان الفجر مبكراً بدقيقتين.

وأشارت الشعبة إلى أن سكان الطوابق من 150 وما فوقها، يحل عليهم موعد أذان صلاتي المغرب والعشاء متأخراً بثلاث دقائق، فيما يحل أذان صلاة الفجر عليهم مبكراً بثلاث دقائق، أما سكان الطوابق الأقل من الطابق الـ80 فيفطرون وفق موعد أذان المغرب في المساجد.

وأوضح الحداد أن هذا الاختلاف سببه أن سكان الطوابق شاهقة الارتفاع، تغرب عليهم الشمس متأخرة عن غروبها لدى سكان الطوابق المنخفضة، في حين أنهم أول من يستقبل الفجر وشروق الشمس.

وأشار إلى أن إدارة الإفتاء في الدائرة، أفتت بأنه «لا يجوز إفطار الصائم إلا عند تحققه من غروب الشمس».

وقالت الفتوى التي حصلت «الإمارات اليوم» على صورة منها، إن بعض قادة الطائرات، يطلبون من المسافرين الإفطار حسب مواعيد الموقع الأرضي، الذي يحلقون فوقه، والشمس لاتزال مشرقة أمام ركاب الطائرة، وهو أمر غير جائز».

وأوضح الحداد أنه «لا يجوز الإفطار للصائم إلا عند تحقق غروب الشمس، من غير النظر إلى بلد المسافر، أو الذي أنشأ السفر منه، أو بلد الوصول، أو أجواء البلد التي تمر عليها الطائرة، استناداً إلى قول الرسول صلى الله عليه وسلم: (إذا أقبل الليل من ها هنا، وأدبر النهار من ها هنا، وغربت الشمس فقد أفطر الصائم)».

وأضاف «يقول الله سبحانه وتعالى (ثم أتموا الصيام إلى الليل)، ولا يتحقق الليل إلا بغروب الشمس وغياب قرصها، وبه يدخل وقت المغرب، فمن أكل وهو يرى الشمس حية فإنه لم يتم الصيام إلى الليل، بل أكل في وضح النهار، ولذلك هو لا يصلي المغرب، لأن وقته لم يدخل، فكذلك الصيام».

وتابع «نص الفقهاء على هذه المسألة قديماً، فقد قدم أبوموسى إلى الإسكندرية، فسئل عمّن صعد منارة الإسكندرية فيرى الشمس بزمان طويل بعدما غربت عندهم، أيحل له أن يفطر؟ فقال: لا، لأن كلاً مخاطب بما عنده».

ودعت الدائرة «شركات الطيران إلى أن تتحرى غروب الشمس عند الإفطار، وطلوع الفجر، لتنبيه المسافرين قبله للإمساك».


تابع آخر الأخبار المحلية والعربية والدولية على موقع الإمارات اليوم على:
 
Top